مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ
خدادرانتظار حمد مانیست محمد ﷺچشم برراہ ثنانیست
محمدﷺحامد حمد خدا بس خدا مداح شان مصطفی بس
نام ونسب: اسمِ گرامی:عبدالرحمن۔لقب:جامی۔والد کااسمِ گرامی:مولانا نظام الدین احمددشتی بن شمس الدین محمد۔
تاریخِ ولادت: مولانا جامی موضع خرجرد علاقہ جام ،" ہرات"میں 23 شعبان 817ھ مطابق 2/ نومبر 1414ء کو پیدا ہوئے۔
بیعت: حضرت خواجہ عبیداللہ احرار علیہ الرحمہ کےدستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔
سیرتِ مبارکہ: مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ذوق لطیف کے مالک تھے ۔ فرماتے تھے کہ خامکار لوگ ہوا و ہوس کا نام عشق رکھ لیتے ہیں۔ ایسوں کا عشقِ حقیقی کے کوچے میں گزر نہیں۔سچا عاشق وہ ہے جس کے دل میں سوز و گداز ہو اور نفسانی خواہشات اور راحت و آرام سے کنارہ کش ہو اور آپ کے دل میں عشق حقیقی صحیح طور پر موجود تھا۔آپ صحیح معنوں میں درویش تھے اور تواضع ’فروتنی’ ترک ریا’نفس کشی اور خلوص عقیدت آپ کے حرکات و سکنات اور قول و فعل سے نمایاں تھا۔آپ شریعت کے احکام کی بجا آوری میں اکمل تے اور ان فضائل و اصاف سے آراستہ تھے’ جو مشائخ صوفیہ کے لیے اپنے پیروؤں کو تعلیم دینے کےلیے ضروری ہے’ مگر آپ میں ظاہرداری اورنمود و ریا کی آلائش بالکل نہیں تھی۔ آپ کے پاس جو آکر بیٹھتا’ آپ اس کے ساتھ برابر بیٹھے رہتے اور نہ اٹھتے جب تک وہ خود نہ اٹھ جاتا۔طویل نشست سے آپ بیمار بھی ہوگئے مگر اپنی اس شریفانہ عادت کو ترک نہ فرمایا ۔آپ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ سب سے نیچے بیٹھیں’ اور ممکن ہوتا تو دہلیز پر بیٹھتے اور کم درجے کے آدمیوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوجاتے۔ زیادہ رغبت آپ کو بے تکلف کھانوں کی تھی۔ آپ کی عادت کو ترک نہ فرمایا۔ آپ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ سب سے نیچے بیٹھیں’ اور ممکن ہوتا تو دہلیز پر بیٹھتے اور کم درجے کے آدمیوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوجاتے ۔ زیادہ رغبت آپ کو بے تکلف کھانوں کی تھی۔ آپ کی عادت زیادہ بولنےکی نہ تھی۔حاضرین سے کہتے کہ دوستو! کوئی بات کرو۔میرے پاس تو کرنے کو کوئی بات نہیں۔
مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ ضعیفوں کے دستگیر اور مظلموں کے مددگار تھے اگر واقعی کسی کو محتاج کو پاتے تو خفیہ طور سے اس کی مدد کرتے ۔ آپ نے شہر ہرات میں ایک مدرسہ، خیابان میں مدرسہ اور خانقاہ ،اور "جام" میں مسجد تعمیر کی اور کئی املاک مدرسہ خیابان پر وقف کیے۔آپ یہ کہنا اخلاص سے بعید جانتے تھے کہ میں نے یہ کام فی سبیل اللہ کیا ہے۔آپ بڑے لوگوں اوربالخصوص بادشاہوں کی خوشامد اور چاپلوسی سے متنفر تھے، بلکہ انہیں ہمیشہ نیکو کار رہنے کی تلقین بذریعہ مکتوبات کرتے رہتے تھے چنانچہ ایک خط میں بادشاہ وقت کی مخاطت کر کے لکھتے ہیں کہ:اے بادشاہ ! تو جس تاج و تخت کا دلدادہ ہے وہ ناپائدار ہے۔ یہ زندگی فنا ہونے والی ہے ۔ نہ یہ زمانہ رہے گانہ یہ زمین جہاں تک ہوسکے دنیا میں نیکی کرلے ’کیونکہ یہی کام آنے والی شے ہے۔
وصال: مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ اس دنیائے فانی میں 81برس گزار کر 18/ محرم 898 ھ ،بمطابق 14/نومبر 1492ءکو بروز جمعہ وقت اذان راہی عالم بقا ہوئے۔آپ کامزار"ہرات"افغانستان میں ہے۔
ماخذومراجع: مقدمہ"نفحات الانس"
Post a Comment