امیر دعوت اسلامی حضرت علامہ مولاناابوالبلال محمد الیاس عطار قادری Biography Ameer Dawat e Islami Maulana Muhammad Ilyas Attar Qadri || Maulana ilyas Qadri Biography

 تعارف امیر اہلسنت اور امیر دعوت اسلامی حضرت علامہ مولاناابوالبلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی



الحمدللہ رب العٰلمین والصلوٰۃ والسلام علٰی سید المرسلین اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم ط بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ط


دورد پاک کی فضیلت

سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیع روز شمار، دو عالم کے مالک و مختار، حبیب پروردگار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ رحمت نشان ہے، “اے لوگوں ! بے شک بروز قیامت اس کی دہشتوں اور حساب کتاب سے جلد نجات پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دورد شریف پڑھے ہوں گے۔“ (فردوس الاخبار، الحدیث 8210، ج2، ص471 مطبوعہ دارالفکر بیروت)


تعارفِ امیر اہلسنت مدظلہ العالی

شیخ طریقت، امیر اہلسنت، بانیء دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی ولادتِ مبارکہ 26 رمضان المبارک 1369ھ بمطابق 1950ء میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ کراچی میں ہوئی۔


آپ کے آباء و اجداد

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے آباء و اجداد ہند کے گاؤں “کتیانہ (جوناگڑھ)“ میں مقیم تھے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کے دادا جان عبدالرحیم علیہ رحمۃ اللہ الکریم کی نیک نامی اور پارسائی پورے “کتیانہ“ میں مشہور تھی۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے والدین ماجدین ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے۔ ابتدا میں باب الاسلام (سندھ) کے مشہور شہر حیدر آباد میں قیام فرمایا۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد باب المدینہ (کراچی) میں تشریف لائے اور یہیں سکونت پذیر ہوئے۔


والد محترم

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے والد بزرگوار حاجی عبدالرحمٰن قادری علیہ رحمۃ اللہ الھادی باشرع اور پرہیز گار آدمی تھے۔ اکثر نگاہیں نیچی رکھ کر چلا کرتے تھے، انہیں بہت سی احادیث زبانی یاد تھیں۔ دنیاوی مال و دولت جمع کرنے کا لالچ نہیں تھا۔ آپ علیہ رحمۃ اللہ الھادی سلسلہء عالیہ قادریہ میں بیعت تھے۔


قصیدہ غوثیہ کی برکت

1979ء میں جب شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ “کولمبو“ تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں کو والد صاحب سے بہت متاثر پایا کیونکہ انہوں نے وہاں کی عالیشان حنفی میمن مسجد کے انتظامات سنبھالے تھے اور اس مسجد کی کافی خدمات بھی کی تھی۔ کولمبو میں قیام کے دوران امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے خالو نے دورانِ گفتگو آپ کو بتایا کہ “میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جب کبھی چارپائی پر بیٹھ کر آپ کے والد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “قصیدہ غوثیہ“ پڑھتے تو ان کی چارپائی زمین سے بلند ہو جاتی تھی۔ (سبحان اللہ عزوجل)


سفر حج کے دوران انتقال

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ شیر خوارگی ہی میں تھے کہ آپ کے والد محترم 1370ھ میں سفر حج پر روانہ ہوئے۔ ایام حج میں منٰی میں سخت لو چلی جس کی وجہ سے کئی حجاج کرام فوت ہو گئے، ان میں حاجی عبدالرحمٰن علیہ رحمۃ المنان بھی شامل تھے جو مختصر علالت کے بعد 4 ذوالحجۃ الحرام 1370ھ کو اس دنیا سے رُخصت ہو گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون


الحمدللہ عزوجل ! حاجی عبدالرحمٰن علیہ رحمۃ المنان کس قدر خوش نصیب تھے کہ وہ سفرِ حج کے دوران اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ سفر حج کے دوران انتقال کر جانے والے کے بارے میں رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو حج کیلئے نکلا اور مر گیا قیامت تک اس کیلئے حج کا ثواب لکھا جائے گا اور جو عُمرہ کیلئے نکلا اور مر گیا اس کیلئے قیامت تک عُمرے کا ثواب لکھا جائیگا اور جو جہاد میں مر گیا اس کیلئے قیامت تک غازی کا ثواب لکھا جائیگا۔“ (المعجم الاوسط، الحدیث 5321، ج4 ص93، دارالفکر بیروت)


ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، “جو اس راہ میں حج یا عُمرہ کیلئے نکلا اور مر گیا اس کی پیشی نہیں ہوگی، نہ حساب ہوگا اس سے کہا جائے گا تو جنّت میں داخل ہو۔“ (مسند ابی یعلٰی الموصلی، مسند عائشہ، الحدیث 4589، ج4، ص152، دارالکتب العلمیۃ بیروت)


طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند

سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے


ایمان افروز خواب

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی بڑی ہمشیرہ کا بیان ہے کہ ابا جان علیہ رحمۃ المنان کے وصال کے بعد میں نے ایک مرتبہ یہ ایمان افروز خواب دیکھا کہ “اباجان علیہ رحمۃ المنان ایک انتہائی نورانی چہرے والے بزرگ کے ساتھ تشریف لائے، میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے، بیٹی ! تم ان کو پہچانتی ہو ؟ یہ ہمارے مدنی آقا میٹھے میٹھے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہیں، پھر شہنشاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ پر بہت شفقت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم بہت نصیب دار ہو۔


سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر میں تشرہف لاتے ہیں

میرے گھر میں بھی ہو جائے چراغاں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم


ننھا سا دل بھر آیا

امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ایک مرتبہ کچھ اس طرح سے بتایا کہ “میرے بچپن کے دنوں میں ایک بار گھر کے برآمدے کی طرف جاتے ہوئے اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ “سبھی بچے کسی نہ کسی کی طرف پاپا، پاپا کہہ کر بڑھتے ہیں اور اس سے لپٹ جاتے ہیں پھر ان کے پاپا انہیں گود میں اٹھا کر پیار کرتے ہیں، انہیں شیرنی دلاتے ہیں اور کبھی کبھی کھلونے بھی دلاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش ! ہمارے گھر میں بھی باپا ہوتے، میں بھی ان سے لپٹتا اور وہ مجھے پیار کرتے۔“ اس بے تاب آرزو کی وجہ سے میرا دل بھر آیا اور جگر صدمے سے چُور چُور ہو گیا اور میں نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ میرے رونے کی آواز سن کر میری بڑی ہمشیرہ جلدی سے وہاں آئیں اور اپنے ننھے یتیم بھائی کو گود میں لیکر بہلانے لگیں۔


بڑے بھائی کا انتقال پُر ملال

والدِ محترم کے انتقال کے بعد محترم عبدالغنی صاحب جو امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے ایک ہی بھائی تھے اور عمر میں آپ سے بڑے تھے، وہ بھی ٹرین کے حادثہ میں انتقال فرما گئے۔


ایصالِ ثواب کی بہار

ایک مُبلغ کا بیان ہے کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ایک بار دورانِ گفتگو ارشاد فرمایا کہ “بڑے بھائی صاحب کا 15 محرم الحرام 13961ھ ٹرین کے حادثہ میں انتقال ہوا اور اسی سال جب ماہِ رمضان المبارک کی پہلی پیر شریف آئی تو دوپہر کے وقت میری بڑی ہمشیرہ صاحبہ نے مجھ سے چند غیر متوقع سوالات کئے۔ مثلاً ایک سوال یہ تھا کہ “کیا تم کل قبرستان گئے تھے ؟“ میں نے ذرا چونک کر کہا “جی ہاں“ (میرے چونکنے کی وجہ یہ تھی کہ میری ہمشیرہ کو تو صرف اتوار شام میرے قبرستان جانے کا علم تھا اور ماہِ رمضان المبارک میں اتوار کو نمازِ مغرب کے بعد میری گھر پر موجودگی کی وجہ سے شاید وہ یہ سمجھی ہوں گی کہ میں قبرستان نہیں گیا۔) ہمشیرہ کہنے لگیں کہ تم مجھ سے چاہے کتنا ہی چھپاؤ مگر مرحوم بھائی جان نے مجھے خواب میں سب کچھ بتا دیا ہے کہ تم کب کب قبرستان جاتے ہو، اور یہ بھی بتایا ہے کہ وہاں تم اسلامی بھائیوں کے ساتھ مل کر نعت خوانی بھی کرتے ہو۔ مزید کہا کہ بھائی جان نے مجھے خواب میں اپنی قبر کے حالات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ “جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو ایک چھوٹ سا جانور میری طرف لپکا میں نے پاؤں کو زور سے جھٹکا دے کر اسے ہٹا دیا، اس جانور کا ہٹنا تھا کہ خوفناک عذاب میری طرف بڑھنے لگا، قریب تھا کہ وہ عذاب مجھ پر مسلط ہو جاتا کہ اتنے میں بھائی الیاس کا کیا ہوا ایصالِ ثواب آ پہنچا اور وہ میرے اور عذاب کے درمیان حائل ہو گیا۔ جب دوسری جانب سے عذاب بڑھنے لگا تو وہاں بھی الیاس بھائی کا ایصالِ ثواب آڑ بن گیا۔ اسی طرح ہر طرف سے عذاب بڑھا مگر الحمدللہ عزوجل ہر مرتبہ ایصالِ ثواب آڑ بن گیا۔ بالآخر تمام راہیں مسدود پاکر عذاب مجھ سے دور ہو گیا۔ اللہ عزوجل کا شکر ہے کہ مرنے کے بعد مجھے میرا بھائی الیاس کام آ گیا۔


میرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ

انہیں خُلد میں بسانا مدنی مدینے والے

صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم


والدہ ماجدہ

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی والدہ ماجدہ ایک نیک، صالحہ اور پرہیزگار خاتون تھیں۔ جنہوں نے سخت ترین آزمائشوں میں بھی اپنے بچّوں کی اسلامی خطوط پر تربیت کی جس کا منہ بولتا ثبوت خود امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔


مادرِ مشفقہ کا انتقال

بھائی کی وفات کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد 17 صفر المظفر 1398ھ میں مادرِ مشفقہ بھی انتقال فرما گئیں۔ ایسے اعصاب شکن حالات میں عموماً لوگوں کے ہاتھ سے دامنِ صبر چھوٹ جاتا ہے اور ان کی زبان سے شکوہ و شکایت کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے دل برداشتہ ہونے کے بجائے اپنے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بصورتِ اشعار استغاثہ پیش کیا، ان میں سے چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔


گھٹائیں غم کی چھائیں، دل پریشاں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

تمہیں ہو میرے درد و دکھ کا درماں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

میں ننھا تھا، چلا والد، جوانی میں گیا بھائی

بہاریں بھی نہ دیکھیں تھیں چلی ماں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

نسیمِ طیبہ سے کہہ دو دلِ مضطر کو جھونکا دے

بنے شامِ الم، صبح بہاراں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

سفینے کے پرخچے اڑ چکے ہیں زورِ طوفاں سے

سنبھالو ! میں بھی ڈوبا اے مری جاں یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم


کئی روز تک خوشبو آتی رہی

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں کہ والدہ مشفقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہا کا شبِ جمعہ کو انتقال ہوا۔ الحمدللہ عزوجل کلمہ طیبہ اور استغفار پڑھنے کے بعد زبان بند ہوئی۔ غسل دینے کے بعد چہرہ نہایت ہی روشن ہو گیا تھا۔ جس حصہ زمین پر روح قبض ہوئی اس میں کئی روز تک خوشبو آتی رہی اور خصوصاً رات کے اس حصہ میں جس میں انتقال ہوا تھا، طرح طرح کی خوشبوؤں کی لپیٹیں آتیں۔ تیجا والے دن صُبح کے وقت چند گلاب کے پھول لاکر رکھے تھے جو شام تک تقریباً تروتازہ رہے جو میں نے اپنے ہاتھ سے والدہ کی قبر پر چڑھائے۔ یقین جانیں ان میں ایسی عجیب بھینی بھینی ٌخوشبو تھی کہ میں حیران رہ گیا، کبھی میں نے گلاب کے پھولوں میں ایسی خوشبو نہیں سونگھی تھی نہ ابھی تک سونگھی ہے بلکہ گھنٹوں تک وہ خوشبو میرے ہاتھوں سے بھی آتی رہی۔


آپ دامت برکاتہم العالیہ مذید ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سب پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا صدقہ ہے، جس پر بھی سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی میٹھی میٹھی اور مہکی مہکی نظر کرم ہو جاتی ہے، وہ ظاہری و باطنی خوشبوؤں سے مہکنے لگتا ہے۔ اور پھر اس کی خوشبو سے ایک عالم مہک اٹھتا ہے۔


ذرے جھڑ کر تری پیزاروں کے

تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے

کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضا

بول بالے مری سرکاروں کے


الحمدللہ عزوجل ! امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیھا پر رب عزوجل کا کتنا کرم ہے کہ ان کا انتقال کلمہ طیبہ اور استغفار پڑھنے کے بعد ہوا۔ مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے، “جس کا آخر کلام لاالہ الااللہ (یعنی کلمہء طیبہ) ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (سنن ابی داؤد، کتاب الجنائز، باب فی التلقین، الحدیث 3116، ج3 ص255، داراحیاء التراث العربی بیروت


امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی کا شوقِ علم

سرکارِ مدینہ، فیض گنجینہ، صاحب معطّر پسینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “اللہ تعالٰی جس کی بھلائی چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔“ (صحیح بخاری، کتاب العلم، الحدیث71، ج1، ص42 دارالکتب العلمیۃ بیروت)


امیر المؤمنین مولا مشکل کشا سیدنا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ رسول اکرم، نور مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جس نے دنیا سے بے رغبتی اختیار کی، اللہ تعالٰی اس کو بغیر تعلیم حاصل کئے علم عطا فرما دیتا ہے اور بغیر ظاہری اسباب کے صحیح راستہ چلاتا ہے اور اس کو صاحبِ بصیرت بنا دیتا ہے اور اس سے جہالت کو دور فرماتا ہے۔“ (الجامع الصغیر، الحدیث 8725، ص528، دارالکتب العلمیۃ بیروت)


امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ دورِ شباب ہی میں علوم دینیہ کے زیور سے آراستہ ہو چکے تھے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے حصولِ علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اور صحبت علماء کو اختیار کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقار الدین قادری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے کیا اور مسلسل 22سال آپ علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے حتٰی کہ انہوں نے قبلہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو اپنی خلافت و اجازت سے بھی نوازا۔


مطالعہ کی لگن

الحمدللہ عزوجل ! کثرتِ مطالعہ، بحث و تمحیص اور اکابر علماء کرام سے تحقیق و تدقیق کی وجہ سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مسائل شرعیہ اور تصوف و اخلاق پر دسترس ہے۔ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی شہرہء آفاق تالیف “بہارِ شریعت“ کے تکرارِ مطالعہ کے لئے آپ دامت برکاتہم العالیہ کے شوق کا علم دیدنی ہے، امام اہلسنّت، مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے فتاوٰی کے عظیم الشان مجموعے “فتاوٰی رضویہ“ کا مطالعہ آپ کا خاص شغفِ علمی ہے۔ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی کتب بالخصوص “احیاء العلوم“ کو آپ زیرِ مطالعہ رکھتے ہیں اور اپنے متوسلین کو بھی پڑھنے کی تلقین فرماتے رہتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر اکابرین دامت فیوضہم کی کتب بھی شامل مطالعہ رہتی ہیں۔ منجیات، مثلاً صبر، شکر، توکل، قناعت اور خوف و رجا وغیرہ کی تعریفات و تفصیلات اور مہلکات مثلاً جھوٹ، غیبت، بغض، کینہ اور غفلت وغیرہ کے اسباب و علاج آسان و سہل طریقے سے بیان کرنا آپ دامت برکاتہم العالیہ کا خاصہ ہے۔


تحریر و تالیف

شہنشاہ مدینہ، قرار قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نزول سکینہ، فیض گنجینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے:۔ (1) صدقہ جاریہ (2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے (3) نیک اولاد جو اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب مایلحق الانسان، الحدیث 1631، ص886، دار ابن حزم بیروت)


علمائے کرام دامت فیوضہم نے اس حدیث میں بیان کردہ فضیلت کو پانے کے لئے دیگر علمی کاموں کے ساتھ ساتھ کتب بھی تصنیف فرمائیں۔ الحمدللہ عزوجل ! امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ بھی صاحبِ قلم عالم دین ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کوصفِ مصنفین میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کا حق ادا کر دیا یہی وجہ ہے کہ عوام و خاص دونوں آپ دامت برکاتہم العالیہ کی تحریروں کے شیدائی ہیں اور آپ دامت برکاتہم العالیہ کی کتب و رسائل کو نہ صرف خود پڑھتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو مطالعے کی تریب دلانے کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں خرید کر مفت تقسیم بھی کرتے ہیں۔


کتب و رسائل اور تحریری بیانات

تادمِ تحریر درجنوں موضوعات پر آپ دامت برکاتہم العالیہ کی منفرد اسلوب کی حامل متعدد کتب و رسائل اور تحریری بیانات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ مثلاًں آپ کی مایہ ناز تالیف “فیضان سنّت“ (جلد اوّل) جو چار ابواب اور 1548 صفحات پر مشتمل ہے،

(1) بسم اللہ شریف کے فضائل پر مشتمل “فیضان بسم اللہ“

(2) کھانے پینے کی سنتوں اور آداب پر مشتمل “آدابِ طعام“

(3) صحت مند رہنے کے اصولوں پر مبنی “پیٹ کا قفلِ مدینہ“

(4) ماہِ رمضان کے فضائل و مسائل کے لئے “فیضانِ رمضان“


اس کے علاوہ نماز، وضو، غسل، جنازہ وغیرہ کے شرعی احکام پر مشتمل “نماز کے احکام“، کفریہ کلمات کی نشاندہی کرنے والا رسالہ “28 کلمات کفر“ وقت کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے “انمول ہیرے“ غصے پر قابو پانے کے لئے “غصے کا علاج“ اپنا ظاہر و باطن سنوارنے کے لئے “میں سدھرنا چاہتا ہوں“، “نیک بننے کا نسخہ“ اور “گناہوں کا علاج“ قبر میں پیش آنے والے حالات سے آگاہی کے لئے “قبر کا امتحان“، “مُردے کے صدمے“ ، “مُردے کی بے بسی“ خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے “غفلت“ شیطان کے جال سے بچنے کے لئے “شیطان کے چار گدھے“ توبہ کی طرف مائل کرنے کے لئے “نہر کی صدائیں“، گانے باجے کی ہلاکتیں آ شکار کرنے کیلئے “گانے باجے کی ہولناکیاں“ اور “ٹی وی کی تباہ کاریاں“ اَمرد پسندی کی تباہ کاریاں“ حب دنیا کے علاج کے لئے “ویران محل“، “بادشاہوں کی ہڈیاں“، حسن اخلاق کی برکتیں لٹانے کیلئے “میٹھے بول“، مسلمانوں میں عزت و احترام کی فضا ہموار کرنے کیلئے “احترامِ مسلم“، مصائب و آلام پر صبر کرنے کا ذہن بنانے کیلئے “خودکشی کا علاج“ راہِ خدا عزوجل میں قربانیاں دینے کا جذبہ پانے کیلئے “جوشِ ایمانی“ ، “نابینا علمدار“ اور “ابو جہل کی موت“ ظلم و ستم کی آندھیوں کو روکنے کیلئے “ظلم کا انجام“، پردے کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے “پردے سے متعلق سوال و جواب“ اور “زخمی سانپ“، مسجدوں کو بدبو سے بچانے کیلئے “مسجدیں خوشبودار رکھئے“ فتاوٰی رضویہ سے اخذ کردہ مدنی پھولوں کی خوشبو سے معطر معطر “ذکر والی نعت خوانی“ نعت خوانی کی اجرت کے حکمِ شرعی کے بیان کے لئے “نعت خوان اور نذرانہ“ آپس میں جھگڑے کے پائیدار حل کے لئے “ناچاقیوں کا علاج“ شہیدِ کربلا رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظمت کے بیان پر مشتمل رسالہ، “امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرامات“، اجارے کے احکامِ شرعی کی معلومات کے لئے “ملازمین کے 21 مدنی پھول“ آسان ترین اسلوب میں حج و عُمرہ کے تفصیلی مسائل کے لئے “رفیق الحرمین“ اور “رفیق المعتمرین“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے علاوہ بھی آپ کی کثیر تالیفات اپنی بہاریں لٹا رہی ہیں۔


آپ کی تحریر کی ایک نمایاں خصوصیّت یہ ہے کہ آپ دورانِ تحریر مشکل الفاظ پر اعراب لگانے کا بھی التزام فرماتے ہیں جس کی وجہ سے کم پڑھے لکھے لوگوں کے لئے بے حد آسانی ہو جاتی ہے۔ ایک اسلامی بھائی نے “فیضانِ رمضان“ میں کتاب پڑھنے کی نیّتوں والے صفحہ پر لگائے گئے اعراب گنے تو ششدر رہ گئے کہ 378 سے زائد اعراب لگائے گئے تھے۔


مدنی بہاریں

الحمدللہ عزوجل! امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ان کتب و رسائل کی برکت سے لاتعداد مسلمانوں کو توبہ نصیب ہوئی اور ان کی زندگیوں میں مدنی انقلاب برپا ہوگیا، اس کی چند جھلکیاں “خوش نصیب میاں بیوی“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) نامی رسالے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ رسائلِ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی دو مدنی بہاریں آپ کے گوش گزار کی جاتی ہیں:۔


میں سدھرنا چاہتا ہوں

باب المدینہ (کراچی) کے ایک دکاندار اسلامی بھائی (جو اپنے پاس امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے رسائل تحفے میں دینے کے لئے رکھا کرتے تھے) نے بتایا کہ میرے پاس ایک نوجوان موبائل فون یہ کہہ کر بیچنے کے لئے آیا کہ میں مجبوری کے تحت بیچ رہا ہوں۔ مگر مجھے شبہ ہوا ہے کہ شاید یہ موبائل چرا کر یا کسی سے چھین کر لایا ہے، ورنہ اتنا سستا نہ بیچتا۔ بہرحال میں نے موبائل خریدنے سے انکار کرتے ہوئے اسے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے تحریری بیان کا رسالہ “میں سدھرنا چاہتا ہوں“ تحفے میں پیش کردیا۔ کچھ دیر بعد جب میں نماز ادا کر کے قریب ہی واقع مزار شریف پر حاضری کے لئے پہنچا تو اسی نوجوان کو مزار کے احاطے میں بیٹھے دیکھا،اس کے ہاتھ میں وہی رسالہ تھا۔ میں نے بعدِ سلام خیریت دریافت کی تو وہ دھیمے لہجے میں کہنے لگا: “میں نے آپ کے پیش کردہ رسالہ کا مطالعہ کیا، اس نے مجھے لرزہ دیا ہے، میری اس وقت عجیب حالت ہے، کبھی میں بھی سیدھا سادھا نوجوان تھا مگر اب بُری صحبت کی وجہ سے معاشرے کا انتہائی بُرا فرد بن چکا ہوں، لوگوں کو لوٹنا، چوریاں کرنا، ڈاکے ڈالنا میری عادت ہے، یہ موبائل فون بھی کسی سے چھینا ہے اس بے چارے کا بار بار فون آ رہا ہے کہ کچھ رقم لے لو اور میرا موبائل واپس کردو، آپ کے دئیے ہوئے رسالے کو پڑھ کر اس بُری زندگی کو چھوڑنے کا ذہن بنا ہے۔“ ابھی ہماری گفتگو جاری تھی کہ دوبارہ موبائل پر بیل بجی، اس نے اس مرتبہ فون بند کرنے کے بجائے مجھ سے میرا نام اور دکان کا پتا معلوم کیا اور فون پر جواب دیا کہ میں تمہارا موبائل اس دکاندار کو دے کر جا رہا ہوں، آ کر حاصل کر لو اور مجھے معاف کر دینا، مجھ میں یہ تبدیلی رسالہ “میں سدھرنا چاہتا ہوں“ پڑھ کر آئی ہے اور اسی وجہ سے میں موبائل واپس کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ پھر مجھے وہ موبائل دے کر لوٹ گیا اور میں امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی کی پُر تاثیر تحریر کی برکات سے مستفیض ہونے والے خوش نصیب نوجوان کو دیکھ رہا تھا۔


احترامِ مسلم

تحصیل ٹانڈا ضلع آمبیڈ کرنگر (یوپی ہند) کے ایک اسلامی بھائی کا کچھ اس طرح بیان ہے کہ میں کفر کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہا تھا، ایک دن کسی نے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے تحریری بیان کا رسالہ احترامِ مسلم تحفے میں دیا میں نے پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ جن مسلمانوں کو میں نے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے ان کا مذہب “اسلام“ آپس میں اس قدر امن و آشتی کا پیام دیتا ہے ! رسالے کی تحریر تاثیر کا تیر بن کر میرے جگر میں پیوست ہو گئی اور میرے دل میں اسلام کی محبت اور میرے دل میں اسلام کی محبت کا دریا موجیں مارنے لگا۔ ایک دن میں بس میں سفر کر رہا تھا کہ چند داڑھی اور عمامے والے اسلامی بھائیوں کا قافلہ بھی بس میں سوار ہوا، میں دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ یہ مسلمان ہیں، میرے دل میں اسلام کی محبت تو پیدا ہوہی چکی تھی لٰہذا میں احترام کی نظر سے انہیں دیکھنے لگا، اتنے میں ایک اسلامی بھائی نے نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعت شریف پڑھنی شروع کر دی، مجھے اس کا انداز بے حد بھلا لگا، میری دلچسپی دیکھ کر ان میں سے ایک نے مجھ سے گفتگو شروع کردی۔ وہ تاڑ گیا کہ میں مسلمان نہیں ہوں، اس نے مسکراتے ہوئے بڑے دلنشین انداز میں مجھ سے کہا، میں آپ سے اسلام قبول کرنے کی درخواست کرتا ہوں، میں رسالہ “احترامِ مسلم“ پڑھ کر چونکہ پہلے ہی دلی طور پر اسلام کا گرویدہ ہو چکا تھا، اس کے عاجزانہ انداز نے دل پر مزید اثر ڈالا، مجھ سے انکار نہ بن پڑا۔ الحمدللہ عزوجل یہ بیان دیتے وقت مسلمان ہوئے مجھے چار ماہ ہو چکے ہیں میں پابندی سے نماز پڑھ رہا ہوں، داڑھی سجانے کی نیّت کر لی ہے، دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہوکر مدنی قافلوں میں سفر کی سعادت بھی پا رہا ہوں۔


کافروں کو چلیں، مشرکوں کو چلیں

دعوت دین دیں قافلے میں چلو

دین پھیلائے، سب چلے آئیے

مل کے سارے چلیں قافلے میں چلو


سنتّوں بھرے بیانات

نیکی کی دعوت دینے کا ایک مؤثر ذریعہ بیان بھی ہے۔ الحمدللہ عزوجل ! امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ بھی ان علماء میں سے ہیں جن کے بیانات سننے والوں پر جادو کی طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ آپ کے سنتّوں بھرے اصلاحی بیانات کو سننے والوں کی محوّیت کا عالم قابلِ دید ہوتا ہے۔ تبلیغ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے سنتّوں بھرے بین الاقوامی اور صوبائی سطح کے اجتماعات میں بیک وقت لاکھوں مسلمان آپ کے بیان سے مستفیض ہوتے ہیں، بذریعہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ، بیان سننے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ آپ کے بیانات بذریعہ کیسیٹ گھروں، دکانوں، مساجد، جامعات وغیرہ میں بھی نہایت شوق سے سنے جاتے ہیں۔ بیانات کی ان کیسیٹوں اور سی ڈیز کو مکتبۃ المدینہ شائع کرتا ہے۔ آپ کا انداز بیان بے حد سادہ اور عام فہم اور طریقہ تفہیم ایسا ہمدردانہ ہوتا ہے کہ سننے والے کے دلم میں تاثیر کا تین بن کر پیوست ہو جاتا ہے۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پر آ چکے ہیں۔ آپ کے بیان کی ایک مدنی بہار ملاحظہ ہو :۔


نمازی ڈاکو

باب المدینہ (کراچی) کے ایک ذمہ دار اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میرا ایک جگری دوست بہت زیادہ ماڈرن جُوا اور شراب کا عادی اور معاذاللہ عزوجل گناہوں میں بڑا دلیر تھا۔ کسی طرح باز نہ آتا تھا، یوں تو وہ باب المدینہ (کراچی) سے تعلق رکھتا تھا مگر کاروبار کے لئے اس نے کولمبو میں مقامی خاتون سے شادی کر رکھی تھی۔ ایک بار باب المدینہ سے کولمبو روانگی کے وقت میں نے اس کے سامان میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے سنّتوں بھرے بیان کی کیسٹ “نمازی ڈاکو“ ڈال دی۔


کولمبو پہنچ کر اس نے کیسٹ ٹیپ ریکارڈ میں لگائی۔ امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے الفاظ تاثیر بن کر اس کے جگر میں پیوست ہونے لگے۔ اس بیان کی برکت سے اس میں حیرت انگیز طور پر مدنی انقلاب آ گیا۔ یہاں تک کہ کولمبو جیسے فحاشی و عریانی سے بھرپور علاقے میں اس نے داڑھی اور سبز عمامہ شریف کا مدنی تاج مستقل طور پر سجا لیا۔ دعوت اسلامی کے مدنی کاموں میں مشغولیت اختیار کرلی اور امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے بیعت ہو کر عطاری ہونے کی سعادت بھی پالی۔ 10 جولائی2003ء کو وہ بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے۔“


خوفِ خدا عزوجل

سورہء رحمٰن میں ارشاد رب العزت ہے:۔

ولمن خاف مقام ربہ جنتن (پ27، الرحمٰن: 46)

ترجمہء کنزالایمان: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔


حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ عالم، نور مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے، “مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم ! میں اپنے بندے پر دو خوف جمع نہیں کروں گا اور نہ اس کے لئے دو امن جمع کروں گا، اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہے تو میں قیامت کے دن اسے خوف میں مبتلاء کروں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے ڈرتا رہے تو میں بروزِ قیامت اسے امن میں رکھوں گا۔“ (شعب الایمان، باب فی الخوف من اللہ تعالٰی الحدیث 777، ج1، ص483 )


بچپن کی کیفیت

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے بچپن ہی سے خوفِ خدا عزوجل کی صفت سے متصف ہیں چنانچہ ابھی آپ دامت برکاتہم العالیہ بہت چھوٹی عمر میں تھے کہ کسی بات پر ہمشیرہ نے ناراض ہو کر یہ کہہ دیا کہ تم کو اللہ عزوجل مارے گا (یعنی سزا دے گا) کم سن ہونے کے باوجود یہ سن کر آپ دامت برکاتہم العالیہ خوفِ خدا عزوجل سے سہم گئے اور ہمشیرہ سے اصرار کرنے لگے: “بولو، اللہ عزوجل مجھے نہیں مارے گا، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بولو، اللہ عزوجل مجھے نہیں مارے گا، ۔۔۔۔۔۔ بولو، اللہ عزوجل مجھے نہیں مارے گا۔“ آخرِ کار ہمشیرہ سے یہ کہلوا کر ہی دم لیا۔


رقّت آمیز فکرِ مدینہ

عَرب اَمارت میں تحریری کام کے دوران جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی نگاہ سے سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی کی یہ تحقیق گزری کہ موت کی وجہ سے عقل میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، صرف بدن اور اعضاء میں تبدیلی آتی ہے۔ لٰہذا مُردہ زندوں ہی کی طرح عقلمند، سمجھدار اور تکالیف و لذّات کو جاننے والا ہوتا ہے، عقل باطنی شے ہے اور نظر نہیں آتی۔ انسان کا جسم اگرچہ گل سڑ کر بکھر جائے پھر بھی عقل سلامت رہتی ہے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت و مابعدہ، ج4، ص420، دارالفکر بیروت)

تو آپ فکرِ مدینہ میں ڈوب گئے کہ “بعدِ موت غسلِ میّت، تدفین اور منکر نکیر کے سوالات کے جوابات کے وقت کی سختیاں اور ان عظیم آزمائشوں کے وقت عقل اور محسوس کرنے کی صلاحیت جوں کی توں باقی رہے گی تو کیا حال ہوگا ؟“ یہ سوچ کر آپ پر بڑی رقّت طاری ہوئی اور آپ پر خوفِ خدا عزوجل کا اس قدر غلبہ ہوا کہ آپ نے بالکل خاموشی اختیار فرمالی اور بے قرار رہنے لگے۔


(کچھ عرصہ گزرنے کے بعد) آپ نے کچھ اس طرح سے فرمایا کہ “اس کیفیت کے باعث میں نے محسوس کیا کہ ہمارے بزرگانِ دین رحمہم اللہ خوف خدا عزوجل سے کس قدر لرزاں و ترساں رہا کرتے تھے، اب میں کھانا بھی کھا رہا ہوں، سو بھی رہا ہوں، مگر ایسا لگتا ہے کہ کھانے کی لذّتیں اور سونے کا لطف جاتا رہا ہے، اب کسی چیز میں مزہ نہیں آ رہا، ایسا لگتا ہے جیسے کوئی غم لگ گیا ہے۔“ (یہی وجہ ہے کہ) اکثر آپ کو کمرے میں تنہا مُناجات کرتے اور روتے ہوئے دیکھا گیا۔ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے خوفِ خدا عزوجل سے معمور بیانات “اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر“اور “مُردے کے صدمے“ وغیرہم سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔


حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “تم میں کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب حب الرسول من الایمان، الحدیث14، ج1، ص17)


سرکارِ ابد قرار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے بھرپور محبت کا نتیجہ ہے کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زندگی سنّتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کا عاشقِ رسول ہونا ہر خاص و عام پر اتنا ظاہر و باہر ہے کہ آپ کو عاشقِ مدینہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو بارہا یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور فراقِ طیبہ میں آنسو بہاتے دیکھا گیا ہے۔ اجتماعِ ذکر و نعت میں تو آپ کی رقّت کا بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ کبھی کبھی آپ یادِ مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر دیوانہ وار تڑپتے اور روتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو رحم آنے لگتا ہے اور وہ بھی رونے لگتے ہیں۔


سرکار کے قدموں کے نشاں ڈھونڈ رہا ہے

جو اشک مری آنکھ کی پُتلی دے گِرا ہے


شادی کا سب سے پہلا دعوت نامہ

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی شادی کا سب سے پہلا دعوت نامہ ایک ساکنِ مدینہ اسلامی بھائی کے ذریعے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں بھجوایا۔ جنہوں نے اسے سُنہری جالیوں کے رُوبرو پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ (آپ کچھ یوں فرماتے ہیں کہ) وقتِ نکاح یہ سوچ مجھ پر عجیب کیف طاری کئے دے رہی تھی کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں دعوت عرض کی ہے، دیکھئے اب آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کب کرم فرماتے ہیں اور تشریف لاتے ہیں۔ اس مُنفرد اندازِ فکر کی برکت سے شادی کی تقریب (جو انسان کو عموماً غفلت میں مبتلا کر دیتی ہے) پُرسوز انداز میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔


پہلا سفرِ حج

مدّتِ دراز تک فراقِ مدینہ میں تڑپتے رہنے کے بعد بالآخر 1400ھ میں پہلی بار امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی میٹھے مدینے کی پُرکیف حاضری کا پروانہ ملا۔


صبا ! اس خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں

دیارِ مدینہ سے بُلاوا ملا ہے


بس اب کیا تھا دل میں پہلے ہی سے سلگنے والی عشقِ مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آگ اب مزید بھڑک اٹھی۔ اشک ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے، عشق کے انداز بھی نرالے ہوتے ہیں۔ ہجر و فراق میں بھی اشکباری، حاضری کی اجازت پرت بھی گریہ وزاری ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی منفرد اور پُرسوز کیفیات کی عکاسی ان اشعار سے ہوتی ہے:۔


مجھ کو درپیش ہے پھر مبارک سفر

قافلہ پھر مدینے کا تیار ہے

نیکیوں کا نہیں کوئہ توشہ فقط

میری جھولی میں اشکوں کا اک ہار ہے

کوئی سجدوں کی سوغات ہے نہ کوئی

زہُد و تقوٰی میرے پاس سرکار ہے

چل پڑا ہوں مدینے کی جانب مگر

ہائے سر پر گناہوں کا انبار ہے

جُرم عصیاں پہ اپنے لجاتا ہوا

اور اشکِ ندامت بہاتا ہوا

تیری رحمت پہ نظریں جماتا ہوا

در پہ حاضر یہ تیرا گنہگار ہے

تیرا ثانی کہاں ! شاہِ کون و مکاں

مجھ سا عاصی بھی اُمّت میں ہوگا کہاں !

تیرے عَفو و کرم کا شہِ دوجہاں !

کیا کوئی مجھ سے بڑھ کر بھی حقدار ہے


(مغیلانِ مدینہ از امیر اہلسنّت مدظلہ العالی)


نرالی روانگی

جب مدینہ پاک کی طرف روانگی کی مبارک گھڑی آئی تو اس وقت جو آپ دامت برکاتہم العالیہ کی کیفیت تھی اس کو کما حصہ صفحہ قرطاس پر لانا ممکن نہیں۔ ائیر پورٹ پر عاشقانِ رسول کا ایک جمِ غفیر آپ کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھا۔ مدینے کے دیوانوں نے آپ کو جھرمٹ میں لے کر نعتیں پڑھنا شروع کر دیں۔

سوز وگداز میں ڈوبی ہوئی نعتوں نے عشاق کی آتشِ عشق کو مزید بھڑکا دیا۔ غمِ مدینہ میں اٹھنے والی آہوں اور سسکیوں سے فضا سوگوار ہوئی جا رہی تھی۔ شاید ہی کوئی آنکھ ایسی ہوگی جو فراقِ طیبہ میں نم نہ ہو، خود عاشقِ مدینہ امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی کیفیت بڑی عجیب تھی۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ اور آپ دامت برکاتہم العالیہ اپنے ان اشعار کے مصداق نظر آ رہے تھے،۔۔۔۔۔۔


آنسوؤں کی لڑی بن رہی ہو

اور آہوں سے پھٹتا ہو سینہ

وردِ لب ہو مدینہ مدینہ

جب چلے سوئے طیبہ سفینہ


عشق و اُلفت کا یہ نرالا انداز ہر ایک کی سمجھ میں تو آ نہیں سکتا۔ کیونکہ حاضری طیبہ کے لئے جانے والے تو عموماً ہنستے ہوئے، مبارکبادیاں وُصول کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ ایسے زائرینِ مدینہ کا آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے کلام میں اس طرح سے مدنی ذہن بنانے کی کوشش کی ہے:۔


اے زائرِ مدینہ ! تو خوشی سے ہنس رہا ہے

دلِ غمزدہ جو پاتا تو کچھ اور بات ہوتی


بالآخر اسی محویت کے عالم میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو بمشکل ائیر پورٹ کے گیٹ میں داخل کیا گیا۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی حالت دیکھ کو ائیر پورٹ کے عملے کے بھی کچھ لوگ آپ سے متاثر ہو چکے تھے، لٰہذا انہوں نے وہاں کی ضروری کاروائی کرا کے آپ کو نہایت ہی احترام کے ساتھ ہوائی جہاز میں سُوار کرا دیا۔


جوتے اُتار لئے

جُوں جُوں منزل قریب قریب آتی رہی، آپ دامت برکاتہم العالیہ کے عشق کی شدّت بھی بڑھتی رہی۔ اس پاک سر زمین پر پہنچتے ہی آپ نے جوتے اتار لئے۔ اللہ اللہ !! مزاجِ عشقِ رسول سے اس قدر آشنا کہ خود ہی کلام میں فرماتے ہیں۔


پاؤں میں جوتا ارے محبوب کا کوچہ ہے یہ

ہوش کر تو ہوش کر غافل مدینہ آ گیا


تعظیمِ مکہ مکرمہ

حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ سرکار مدینہ، سرور قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مکہ معظّمہ سے فرمایا:۔ “تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی اور بستی میں نہ رہتا۔“ (جامع الترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل مکۃ، الحدیث 39، ج5، ص487، دارالفکر بیروت)


کعبۃ اللہ شریف کو پیٹھ نہ ہونے دی

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سفرِ حج کے دوران جب تک مکہ مکرمہ میں رہے حتی الامکان کعبۃ اللہ شریف کو پیٹھ نہ ہونے دی اور برہنہ پا رہے۔ طوافِ کعبہ کے دوران بھی آپ کا عجیب والہانہ انداز ہوتا ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھا گیا ہے کہ جسم سمیٹے، سر جھکائے اس طرح طوافِ کعبہ میں مصروف ہوتے ہیں کہ آپ کہ آنکھوں سے اشکوں کی برسات جاری رہتی ہے۔ الغرض ایسا کیف آور منظر ہوتا ہے کہ دیکھنے والے بھی عاشقِ رسول کے اس وقت انگیز انداز کو دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔


محبتِ مدینہء منورہ

حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم، رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے، اگر کسی اور جانور پر ہوتے تو مدینے (جلد پہنچتے) کی چاہت کے سبب سے ایڑ لگاتے۔ (صحیح البخاری، کتاب فضائل المدینہ، الحدیث 1886، ج1، ص629 دارالکتب العلمیۃ بیروت)


ناک نہ سُنکی

1406ھ کے سفرِ حج میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی طبیعت ناساز تھی۔ سخت نزلہ ہو گیا، ناک سے شدّت کے ساتھ پانی بہہ رہا تھا۔ اس کے باوجود آپ نے کبھی بھی مدینہ پاک کی سر زمین پر ناک نہیں سنکی بلکہ آپ کی ہر ادا سے ادب کا ظہور ہوتا۔ جب تک مدینہ منّورہ میں رہے حتی الامکان گنبدِ خضراء کو پیٹھ نہ ہونے دی۔


مدینہ اس لئے عطّار جان و دل سے پیارا ہے

کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں

صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم


دربارِ رسالت میں حاضری

جب مزارات اولیاء و بزرگان دین پر حاضری کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ قدموں کی جانب سے حاضر ہو اور سرِ مبارک کی جانب سے حاضری مناسب نہیں تو پھر تمام اولیاء کے آقا بلکہ سیدالانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار میں اس طریقے سے ہٹ کر حاضری دینا کسی عاشق کو کیسے گوارا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ باب جبرئیل جو کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین میں واقع ہے، وہاں سے داخل ہوتے حالانکہ آپ کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ مروجہ نظام کے تحت خصوصاً ایّام حج میں باب الاسلام سے داخلہ کا انتظام ہوتا ہے اور باب جبرئیل سے خروج کا۔


جاروب کشی

1406ھ کی حاضری کے دوران مسجدِ نبوی شریف میں جاروب کشی کی آرزو نے بے تاب کیا چنانچہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے خادمینِ حرم شریف سے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کی اجازت پر آپ نے چند لمحوں کیلئے جاروب کشی کی سعادت حاصل کرکے مسجد نبوی کے جاروب کشوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔


جارو کشوں میں چہرے لکھے ہیں ملوک کے

وہ بھی کہاں نصیب فقط نام بھر کی ہے (حدائق بخشش)


کبھی کبھی میٹھے مدینے کی گلیوں سے گزرتے ہوئے وہاں کے جاروب کشوں کے ہاتھ سے جھاڑو لے کر آپ نے مدینے کی گلیوں میں جاروب کشی کی سعادت بھی حاصل کی ہے۔ اس کی تمنّا کرتے ہوئے ولی کامل، عاشقِ صادق حضور مفتی اعظم ہند مصطفٰی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں۔


خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوری

مدینے کی گلیاں بہارا کروں میں (سامانِ بخشش)


جدائی کی گھڑیاں

جب مدینہ منّورہ سے جدائی کی گھڑیاں قریب آتی ہیں تو امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی اضطراب بہت بڑھ جاتا ہے۔ آپ جدائی کے غم میں بے چین ہو جاتے ہیں۔ مدینے شریف سے جدائی کا منظر کما حقہ لفظوں میں بیان کرنا بے حد مشکل ہے۔ آپ نے 1400ھ کی حاضری میں رخصت کے وقت اشکبار آنکھوں سے سُنہری جالیوں کے رُوبرو عین مواجہہ شریف میں اپنی الوداعی کیفیت کا جو نقشہ اپنے اشعار میں کھینچا ہے اس کے چند اشعار ہدیہ قارئین ہیں۔


آہ ! اب وقت رخصت ہے آیا الوداع تاجدارِ مدینہ

کوئے جاناں کی رنگیں فضاؤ ! اے معطر معنبر ہواؤ

صدمہء ہجر کیسے سہوں گا الوداع تاجدارِ مدینہ

لو سلام آخری اب ہمارا الوداع تاجدارِ مدینہ

کچھ نہ حُسن عمل کر سکا ہوں، نذر چند اشک میں کر رہا ہوں

بس یہی ہے مرا کل اثاثہ الوداع تاجدارِ مدینہ

آنکھ سے اب ہوا خون جاری، روح پر بھی ہوا رنج طاری

جلد عطار کو پھر بلانا الوداع تاجدارِ مدینہ


اس الوداعی کلام میں اس قدر سوز ہے کہ آج بھی کوئی عاشقِ رسول اسے پڑھتا ہے تو اس کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ یہ تو وہ کلام ہے جسے بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے مقبولیت کی سند حاصل ہے۔ چُنانچہ حیدرآباد (باب الاسلام سندھ) کے مبلغ دعوتِ اسلامی عبدالقادر عطاری علیہ رحمۃ اللہ الباری نے ایک بار خواب میں سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لب ہائے مبارکہ جو جنبش ہوئی اور رحمت کے پھول جھڑنے لگے اور الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے:۔ الیاس قادری کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ جو تم نے الوداع تاجدارِ مدینہ والا قصیدہ لکھا ہے وہ ہمیں بہت پسند آیا ہے اور کہنا کہ اب کی بار جب مدینے آؤ تو کوئی نئی الوداع لکھنا اور ممکن نہ ہو تو وہی الوداع سنا دینا۔ (آپ کے سوز وگداز سے لبریز کلام کا مجموعہ ارمغانِ مدینہ اور مغیانِ مدینہ مکتبۃ المدینہ کی کسی بھی شاخ سے ھدیۃ طلب کیا جا سکتا ہے۔)


اتباع سنّت

رحمت عالم، نور مجسم، شاہ بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “جس نے میری سنّت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔“ (جامع الترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی الاخذ۔۔۔۔ الخ، الحدیث 2687، ج4، ص309، دارالفکر بیروت)


امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا دل اتباع سنّت کے جذبہ سے معمور و سرشار ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ نہ صرف خود سنّتوں پر عمل کرتے ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو بھی زیور سنّت سے آراستہ کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ بسا اوقات ایسی ایسی سنّتوں پر عمل کر لیتے ہیں کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں اور کیوں نہ ہو جس کو واقعی سنّتوں کا درد ہوتا ہے اس کو اللہ تبارک و تعالٰی مدنی سوچ عطا فرما دیتا ہے۔


چٹائی کا بچھونا

آپ دامت برکاتہم العالیہ اتباع سنّت کی نیّت سے کبھی فرش پر لیٹتے ہیں تو کبھی چٹائی پر۔ آپ نے اپنے سونے کے لئے نہ تو اپنے گھر میں کوئی گدیلا رکھا ہے نہ ہی پلنگ، البتہ جب کسی کے گھر تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں اگر سونے کی نوبت آتی ہے تو میزبان جس قسم کا بچھونا پیش کرتا ہے اسی پر آرام فرما لیتے ہیں۔ اس میں بھی اتباع سنّت ہی کی جلوہ نمائی ہے کیونکہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بچھونے میں عیب نہیں نکالا۔ (وسائل الوصول الی شمائل الرسول صلی اللہ علیہ وسلم، ص123، دارالمنہاج بیروت)


مسواک کے لئے الگ جیب

امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے کُرتے میں سینے کی طرف دو جیبیں ہوتی ہیں۔ مسواک شریف رکھنے کیلئے آپ سینے کی الٹی جانب والی جیب کے برابر ایک چھوٹی سی جیب بنواتے ہیں۔ اس کی وجہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے یہ ارشاد فرمائی:۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ آلہء ادائے سنّت میرے دل سے قریب رہے۔


حُسن اخلاق

حضرت سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور، سلطان بحر و بر صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “میزانِ عمل میں حُسن اخلاق سے وزنی کوئی اور عمل نہیں۔“ (الادب المفرد، باب حسن الخلق، الحدیث 273، ص91، مدینۃ الاولیاء ملتان)


اللہ تعالٰی نے امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو اخلاقِ حسنہ کی نعمت سے مالا مال کیا ہے، آپ دامت برکاتہم العالیہ چھوٹے بڑے سبھی سے نہایت خندہ پیشانی اور پُر تپاک طریقے پر ملتے ہیں اور ایسے مواقع جہاں اکثر لوگ غصے سے بے قابو ہو جاتے ہیں وہاں آپ دامت برکاتہم العالیہ مسکراتے رہتے ہیں۔


کمالِ ضبط کا مظاہرہ

یہ ان دنوں کی بات ہے جب دعوتِ اسلامی کا ہفتہ وار سنّتوں بھرا اجتماع دعوتِ اسلامی کے اوّلین مدنی مرکز “گلزارِ حبیب مسجد“ گلستانِ شفیع اوکاڑوی (سولجر بازار) باب المدینہ کراچی میں ہوتا تھا۔ قبلہ امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اجتماع میں شرکت کے لئے اسلامی بھائیوں کے ساتھ جب سینما گھر کے قریب سے گزرے تو ایک نوجوان جو فلم کا ٹکٹ لینے کی غرض سے قطار میں کھڑا تھا اس نے (معاذاللہ عزوجل) بلند آواز سے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو مخاطب کر کے کہا: “مولانا بڑی اچھی فلم لگی ہے آکر دیکھ لو۔“ اس سے پہلے کہ آپ کے ہمراہ اسلامی بھائی جذبات میں آکر کچھ کرتے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے بلند آواز سے سلام کیا اور قریب پہنچ کر بڑی ہی نرمی کے ساتھ انفرادی کوشش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا، کہ بیٹا میں فلمیں نہیں دیکھتا البتہ آپ نے مجھے دعوت پیش کی تو میں نے سوچا کہ آپ کو بھی دعوت پیش کروں، ابھی انشاءاللہ عزوجل گلزارِ حبیب مسجد میں سنّتوں بھرا اجتماع ہوگا، آپ سے شرکت کی درخواست ہے، اگر آپ ابھی نہیں آ سکتے تو پھر کبھی ضرور تشریف لائیے گا۔ پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اسے ایک عطر کی شیشی تحفہ میں پیش کی۔


چند سالوں بعد امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی بارگاہ میں سنّتوں کے عامل ایک اسلامی بھائی سبز عمامہ سجائے حاضر ہوئے اور کچھ اس طرح سے عرض کی، حضور چند سال قبل ایک نوجوان نے آپ کو (معاذاللہ عزوجل) فلم دیکھنے کی دعوت دی تھی اور آپ نے کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناراض ہونے کے بجائے اجتماع میں شرکت کی دعوت پیش کی تھی وہ نوجوان میں ہی ہوں۔ میں آپ کے عظیم حسنِ اخلاق سے بے حد متاثر ہوا اور ایک دن اجتماع میں آ گیا، پھر آپ کی نظرِکرم ہو گئی اور الحمدللہ عزوجل ! میں گناہوں سے توبہ کرکے مدنی ماحول سے وابستہ ہوگیا۔


عفوو درگزر

حضرت سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ میں رحمتِ عالم، نورِ مجسم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضور سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا، “جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تمہیں محروم کرے اُس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے تم اُسے معاف کرو۔“ (المسند للامام احمد بن حنبل، حدیث عقبہ بن عامر، الحدیث 17457، ج6 ص148، دارالفکر بیروت)


ناراض پڑوسی

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام لینے کی بجائے اسے معاف کر دیتے ہیں۔ جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ موسٰی لین باب المدینہ (کراچی) میں ایک فلیٹ میں رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ پڑوس میں رہنے والی خاتون کی آپ کے گھر والوں سے کچھ بدمزگی ہو گئی۔ اس خاتون نے اسی وقت گھر میں موجود اپنے بچوں کے ابو (یعنی شوہر) کو سارا قصہ اپنے انداز میں جا سنایا۔ وہ اس کی بات سن کر بھڑک اٹھا اور خطرناک تیور لئے آپ کے دروازے پر پہنچا اور آپ سے ملنے کا تقاضا کیا لیکن آپ اس وقت راہِ خدا عزوجل میں سفر کرنے والے مدنی قافلے میں سفر اختیار کئے ہوئے تھے۔ یہاں سے ناکام ہونے کے بعد وہ اس مسجد میں جا پہنچا جہاں آپ امامت فرماتے تھے اور آپ کی غیر موجودگی میں آپ کے خلاف واویلا مچانا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی دھمکیاں دے ڈالیں۔

جب آپ مدنی قافلے سے واپسی پر مسجد میں پہنچے تو آپ کو اس کے بارے میں بتایا گیا۔ آپ نے تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی انتقامی کاروائی نہ کی بلکہ اس کو منانے کی فکر میں لگ گئے۔ چند دن بعد مسجد سے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہی شخص اپنے گھر کے باہر کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا مل گیا۔ آپ اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھ گئے اور سلام کیا۔ آپ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر شدید غصے کے آثار نمودار ہوئے لیکن آپ نے اس کے غصے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نہایت نرمی اور شفقت سے کہا، “بھائی ! آپ تو ناراض دکھائی دیتے ہیں۔“ آپ کا پیار بھرا انداز دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا اور اس کی ناراضگی دور ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ باصرار آپ کو اپنے گھر لے گیا اور ٹھنڈے مشروب سے آپ کی خاطرداری کی۔


ناراض ہونے والے کو سینے سے لگا لیا

دعوتِ اسلامی کے اوائل میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو ایک اسلامی بھائی کے بارے میں پتا چلا کہ وہ آپ کو بُرا بھلا کہتا ہے اور اس نے آپ کی امامت میں نماز پڑھنا بھی چھوڑ دی ہے۔ ایک دن وہ آپ کو اپنے دوست کے ساتھ سرِ راہ مل گیا۔ آپ نے اسے سلام کیا تو اس نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لیکن آپ نے اس کی بے رخی کا کوئی اثر نہ لیا اور اس کے سامنے ہوکر مسکراتے ہوئے کہا “بہت ناراض ہو بھائی۔۔۔۔۔۔ ؟“ اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ اس کے دوست کا کہنا ہے کہ وہ آپ کے جانے کے بعد کہنے لگا، “عجیب آدمی ہے، میرے منہ پھیر لینے کے باوجود اس نے مجھے گلے لگا لیا، جب اس نے مجھے گلے لگایا تو یوں محسوس ہوا کہ دل کی ساری نفرت محبت میں بدل گئی، لٰہذا میں مُرید بنوں گا تو انہی کا بنوں گا۔“ پھر وہ اسلامی بھائی اپنے کہنے کے مطابق آپ کے مُرید بھی بنے اور داڑھی شریف بھی چہرے پر سجا لی۔


حقوق کی معافی

امیر اہلسنّّت دامت برکاتہم العالیہ کے جذبہء عفوو درگزر کے قربان کہ خود آگے بڑھ کر اپنے حقوق سب کو معاف کر رہے ہیں۔ چنانچہ مدنی وصیت نامہ ص10 اور نماز کے احکام ص463 پر وصیّت نمبر 38 تا 40 ملاحظہ ہوں:۔


وصیت (نمبر 38) :۔ مجھے جو کوئی گالی دے، بُرا بھلا کہے، زخمی کر دے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اسے اللہ عزوجل کے لئے پیشگی معاف کر چکا ہوں۔

وصیت (نمبر39) :۔ مجھے ستانے والوں سے کوئی انتقام نہ لے۔

وصیت (نمبر 40) :۔ قتلِ مسلم میں تین طرح کے حقوق ہیں۔ (1) حق اللہ (2) حق مقتول اور (3) حق ورثاء۔ بالفرض کوئی مجھے شہید کر دے تو حق اللہ معاف کرنے کا مجھے اختیار نہیں البتہ میری طرف سے اُسے حق مقتول یعنی میرے حقوق معاف ہیں۔ ورثاء سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنا حق معاف کر دیں۔ اگر سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے صدقے محشر میں مجھ پر خصوصی کرم ہوگیا تو انشاءاللہ عزوجل اپنے قاتل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کو بھی جنت میں لیتا جاؤں گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔

( اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے مدنی وصیّت نامہ مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کا مطالعہ فرمائیں۔)


جانوروں پر بھی شفقت

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم، رؤف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ “ایک فاحشہ عورت کی صرف اس لئے مغفرت فرما دی گئی کہ اس کا گزر اک ایسے کتے کے پاس سے ہوا جو ایک کنوئیں کی منڈیر کے پاس پڑا مارے پیاس کے ہانپ رہا تھا، قریب تھا کہ وہ پیاس سے مر جاتا۔ اس عورت نے اپنا موزہ اتار کر دوپٹے سے باندھا اور پانی نکال کر اسے پلایا تو یہی اس کی بخشش کا سبب ہو گیا۔“ (صحیح البخاری، کتاب بدءالخلق، باب اذواقع الذباب فی شراب، الخ الحدیث 3321، ج2، ص409)


بے تاب چیونٹی

امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ انسان تو انسان بلاوجہ جانوروں بلکہ چیونٹی تک کو بھی تکلیف دینا گوارا نہیں کرتے حالانکہ عوام الناس کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ ایک مرتبہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں پیش کئے گئے کیلوں کے ساتھ اتفاقاً ایک چھلکا بھی آگیا جس پر ایک چیونٹی بڑی بے تابی سے پھر رہی تھی۔ آپ فوراً معاملہ سمجھ گئے لٰہذا فرمایا کہ دیکھو یہ چیونٹی اپنے قبیلے سے بچھڑ گئی ہے۔ کیونکہ چیونٹی ہمیشہ اپنے قبیلے کے ساتھ رہتی ہے اس لئے بے تاب ہے۔ برائے مہربانی کوئی اسلامی بھائی اس چھلکے کو چیونٹی سمیت لے جائیں اور واپس وہیں جاکر رکھ آئیں جہاں سے اٹھایا گیا ہے، یوں وہ چھلکا چیونٹی سمیت اپنی جگہ پہنچا دیا گیا۔


چیونٹیوں کے ہٹنے کا انتظار

اسی طرح ایک بار آپ دامت برکاتہم العالیہ واش بیسن پرہاتھ دھونے کیلئے پہنچے مگر رک گئے، پھر ارشاد فرمایا کہ واش بیسن میں موجود چند چیونٹیاں رینگ رہی ہیں، اگر میں نے ہاتھ دھوئے تو یہ بہہ کر مر جائیں گی، لٰہذا کچھ دیر انتظار فرمانے کے بعد جب چیونٹیاں آگے پیچھے ہو گئیں تو پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ نے ہاتھ دھوئے۔


شہد کی مکھی کا ڈنک

عرب امارت کے قیام کے دوران غالباً 4 ربیع الغوث 1418ھ کو قیام گاہ پر علی الصبح اندھیرے میں شیخ طریقت، امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا پاؤں ایک شہد کی مکھی پر پڑ گیا۔ اس نے آپ کے پاؤں کے تلوے پر ڈنک مار دیا، جس پر آپ نے بے تاب ہوکر قدم اٹھا لیا اور وہ شہد کی مکھی رینگنے لگی۔ ایک اسلامی بھائی اس مکھی کو مارنے کیلئے دوا کا اسپرے (Flying insect Kille) اٹھا لائے لیکن آپ نے فوراً اس کا ہاتھ روک دیا اور فرمایا، “اس بے چاری کا قصور نہیں، قصور میرا ہی ہے کہ میں نے بغیر دیکھے غریب پر پاؤں رکھ دیا، اب وہ اپنی جان بچانے کے لئے ڈنک نہ مارتی تو اور کیا کرتی ؟“ پھر فرمایا، “شہد کی مکھی کے ڈنک میں عذابِ قبر و جہنم کی تذکیر یعنی یاد ہے، یہ تو مقامِ شکر ہے کہ مجھے شہد کی مکھی نے کاٹا، اگر اس کی جگہ کوئی بچھو ہوتا تو کیا کرتا ؟“


ڈنک مچھر کا بھی مجھ سے تو سہا جاتا نہیں

قبر میں بچھو کے ڈنک کیسے سہوں گی یارب (ارمغان مدینہ)


زخمی گدھا

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے ایک بار اپنے سنّتوں بھرے بیان “جانوروں کو ستانا حرام ہے“ میں ضمناً فرمایا کہ میں ایک دن اپنے گھر سے نماز ظہر کیلئے نکلا تو دیکھا کہ اپنی گلی کے تھوڑے فاصلے پر ایک بیمار گدھا پڑا ہے۔ اس میں اٹھنے کی سکّت نہ تھی، بے چارے کی گردن پر خارش کے باعث زخم ہو گیا تھا۔ جس کے سبب اس نے گردن کو زمین سے اوپر اٹھا رکھا تھا، گردن میں تکلیف بڑھنے پر جیسے ہی گردن زمین پر رکھنا چاہتا تو تکلیف کے باعث دوبارہ گردن اٹھا لیتا، وہ انتہائی تکلیف اور بے بسی کے عالم میں مبتلا تھا۔ میں نے جب اُس کی یہ حالت دیکھی تو مجھے اُس پر بہت رحم آیا کہ یہ (بے زبان) جانور ہے کس سے فریاد کرے۔ بہرحال میں نے اپنے گھر سے ایک پُرانی گدڑی منگوالی اور اس کی گردن کے نیچے رکھ دی (تاکہ زمین کی سختی کی تکلیف سے اس کو نجات ملے) ایسا کرنے سے اسے فی الواقع تسکین ہوئی، اور اس نے اپنی گردن سے گدڑی پر ٹیک لگالی، آپ مانیں نہ مانیں، وہ مجھے سر اٹھا کر شکریہ بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔


صبر

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے محلے میں رہنے والے ایک اسلامی بھائی نے جو آپ کو بچپن سے جانتے ہیں، حلفیہ بتایا کہ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ بچپن میں بھی نہایت ہی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ اگر آپ کو کوئی ڈانٹ دیتا یا مارتا تو انتقامی کاروائی کرنے کی بجائے خاموشی اختیار فرماتے اور صبر کرے، ہم نے انہیں بچپن میں بھی کبھی کسی کو بُرا بھلا کہتے یا کسی کے ساتھ جھگڑا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔


عاجزی و انکساری

سرور کونین، نانائے حسنین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔ “جو کوئی اللہ تعالٰی کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالٰی اس کا درجہ بلند فرماتا ہے۔“ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب استحباب

العفو والتواضع، الحدیث 2588، ص 1397)


عظیم مذہبی رہنما ہونے کے باوجود امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی تواضع و انکساری کا یہ عالم ہے کہ اپنے محبین و متعلقین کے درمیان بھی اپنے لئے کسی امتیاز کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ احیائے سنّت کے لئے سفر پر روانہ ہونے والے مدنی قافلے میں شریک ہوتے تو متعدد بار دیکھا گیا کہ پہلے نشستوں پر اپنے اسلامی بھائیوں کو بٹھاتے اور جگہ نہ ملنے کی صورت میں کبھی کبھی آپ نشست سے نیچے ہی بیٹھ جاتے۔ آپ کی اس قدر عاجزی دیکھ کر بعض اوقات لوگوں کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جاتے۔


مطبوعہ مکتوب، غیبت کی تباہ کاریاں کے صفحہ نمبر 44 پر امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے حقوق معاف کرنے کے ساتھ ساتھ پرسوز انداز میں عاجزی فرماتے ہوئے معافی طلب کی ہے۔ اس سے آپ دامت برکاتہم العالیہ کی انکساری کا اندازہ ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔


“کاش ! مجھے بھی ہر مسلمان اپنے تمام حقوق معاف کرکے مجھ پر احسانِ عظیم کرے اور اجرِ عظیم کا حقدار بنے، جو بھی یہ مکتوب پڑھے یا سنے، اے کاش ! وہ دل کی گہرائی کے ساتھ کہہ دے میں نے اللہ عزوجل کیلئے اپنے اگلے پچھلے تمام حقوق محمد الیاس عطار قادری کو معاف کئے۔“


تقوٰی و پرہیزگاری

الحمدللہ عزوجل ! امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ تقوٰی و پرہیزگاری کے انوار سے بھی منّور ہیں۔ 1423ھ میں صفرِ “چل مدینہ“ کے دوران امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھا گیا کہ گرم پانی کے کپ میں***** Tea bag ڈال کر چائے کی پتی حل فرمائی پھر دودھ اور چینی ڈالنے سے پہلے Tea bag کو اچھی طرح نچوڑ کر نکالا (جب کہ عموماً لوگ بغیر نچوڑے پھینک دیتے ہیں) اس کے بعد دودھ اور چینی ڈالی اور چائے نوش فرمائی۔ آپ کی خدمت میں عرض کی گئی “حضور ! اس میں کیا حکمت ہے ؟“ ارشاد فرمایا:۔ “میں نے محسوس کیا کہ دودھ اور چینی کے کچھ اجزاء Tea bag میں رہ جائیں گے، اس لئے میں نے اسے احتیاطاً گرم پانی ہی میں نچوڑ لیا، تاکہ کوئی کارآمد چیز ضائع نہ ہونے پائے۔“


تجھے واسطہ سارے نبیوں کا مولا عزوجل

مجھے متقی تو بنا یاالٰہی عزوجل


سنگِ بنیاد

جب شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی خدمت میں صحرائے مدینہ (باب المدینہ کراچی) میں فیضانِ مدینہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے عرض کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ “سنگِ بنیاد“ میں عموماً کھودے ہوئے گڑھے میں کسی شخصیت کے ہاتھوں سے سیمنٹ کا گارا ڈلوادیا جاتا ہے، بعض جگہ ساتھ میں اینٹ بھی رکھوالی جاتی ہے لیکن یہ سب رسمی ہوتا ہے، بعد میں وہ سیمنٹ وغیرہ کام نہیں آتی۔ مجھے تو یہ اسراف نظر آتا ہے اور اگر مسجد کے نام پر کئے ہوئے چندے کی رقم سے اس طرح کا اسراف کی جائے تو توبہ کے ساتھ ساتھ تاوان یعنی جو کچھ مالی نقصان ہوا وہ بھی ادا کرنا پڑیگا۔“ عرض کی گئی، “ایک یادگاری تختی بنوا لیتے ہیں، آپ اس کی پردہ کشائی فرما دیجئے گا۔“ تو فرمایا ! “پردہ کشائی کرنے اور سنگ بنیاد رکھنے میں فرق ہے۔ پھر چونکہ ابھی میدان ہی ہے اس لئے شاید وہ تختی بھی ضائع ہو جائے گی۔“

بالآخر امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی نے فرمایا کہ “جہاں واقعی ستون بنانا ہے اس جگہ پر ہتھوڑے مار کر کھودنے کی رسم ادا کر لی جائے اور اس کو “سنگِ بنیاد رکھنا“ کہنے کے بجائے “تعمیر کا آغاز“ کہا جائے۔“ چنانچہ 22 ربیع النور شریف 1426ھ یکم مئی 2005ء بروزِ اتوار، آپ کی ساداتِ کرام سے محبت میں ڈوبی ہوئی خواہش کے مطابق 25 سیّد مدنی منّوں نے اپنے ہاتھوں سے مخصوص جگہ پر ہتھوڑے چلائے، آپ خود بھی اس میں شریک ہوئے اور اس نرالی شان سے فیضان مدینہ (صحرائے مدینہ، ٹول پلازہ، سپر ہائی وے باب المدینہ کراچی) کے تعمیری کام کا آغاز ہوا۔


سنّت کی بہار آئی صحرائے مدینہ میں

رحمت کی گھٹا چھائی صحرائے مدینہ میں


ایثار و سخاوت

ایک مرتبہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے ان کے ایک عزیز نے (بطور برکت) ان کے استعمال کا عصا مانگا تو آپ نے فرمایا:۔ “ایک کی بجائے دو لے لیجئے۔“ جواباً انہوں سے واقعی دونوں عصا لے لئے۔ ان صاحب کے بیٹے نے آپ سے پوچھا کہ آپ کے استعمال کا عصا کون سا ہے ؟ (تاکہ ایک عصا واپس کیا جا سکے) لیکن آپ نے فرمایا کہ میں دونوں عصا لے لینے کی اجازت دے چکا ہوں نیز میں اپنی پسندیدہ شے راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرنے کا ثواب کمانا چاہتا ہوں، قرآن پاک میں ہے، لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون۔ ترجمہء کنزالایمان:۔ “تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا عزوجل میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔“ (پ4، ال عمران: 92)


عبادت و ریاضت

الحمدللہ عزوجل ! شیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو آنکھ کھولتے ہی گھر میں پنجگانہ نمازوں کی ادائیگی اور ماہِ رمضان کے روزے پابندی سے رکھنے کا مدنی ماحول ملا۔ جیسے ہی داڑھی نکلی، رکھ لی حالانکہ اس دور میں شاذ و نادر ہی کوئی نوجوان داڑھی والا نظر آتا تھا۔ اس کے علاوہ آپ نے زلفیں رکھنے کی سنّت پر بھی عمل کیا۔


نمازِ باجماعت کی پابندی

رب عزوجل کے کرم سے شروع سے ہی امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا باجماعت نماز پڑھنے کا ذہن تھا، جماعت ترک کر دینا آپ کی لغت میں تھا ہی نہیں۔ یہاں تک کہ جب آپ دامت برکاتہم العالیہ کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو اس وقت گھر میں دوسرا کوئی مرد نہ تھا، آپ اکیلے تھے مگر الحمدللہ عزوجل ماں کی میّت چھوڑ کر مسجد میں نماز پڑھانے کی سعادت پائی۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:۔ “ماں کے غم میں میرے آنسو ضرور بہہ رہے تھے، مگر اس صورت میں بھی الحمدللہ عزوجل جماعت نہ چھوڑی۔“


نمازوں میں مجھے سستی نہ ہو کبھی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

پڑھوں پانچوں نمازیں باجماعت یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم


امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ ڈاکٹروں کے مشورے پر آپریشن کیلئے حیدرآباد تشریف لائے تو آپ ہی کے مطالبے پر نمازِ عشاء کے بعد کا وقت طے کیا گیا تاکہ آپ کی کوئی نماز قضاء نہ ہونے پائے Operation سے قبل دونوں ہاتھ آپریشن ٹیبل کی Sides میں باندھ دئیے گئے تھے جوں ہی کھولے گئے آپ نے فوراً قیامِ نماز کی طرح باندھ لئے۔ ابھی نیم بے ہوشی طاری تھی، درد سے کراہنے، چلانے کے بجائے زبان پر ذکر و درود اور مناجات کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ یکایک آپ نے پوچھا، “کیا نمازِ فجر کا وقت ہو گیا ؟ اگر ہو گیا ہے تو انشاءاللہ عزوجل میں فجر کی نماز پڑھوں گا۔“ تو آپ کو بتایا گیا کہ “فجر میں ابھی کافی دیر ہے۔“


مال کی محبت سے پرہیز

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو دیکھا گیا کہ جب کبھی ضرورتاً جیب میں رقم رکھنی پڑے تو سینے کی سیدھی جانب والی جیب میں رکھتے ہیں۔ اس کی حکمت دریافت کرنے پر فرمایا، “میں الٹے ہاتھ والی جیب میں رقم اس لئے نہیں رکھتا کہ دنیوی دولت دل سے لگی رہے گی اور یہ مجھے گوارا نہیں، لٰہذا میں ضرورت پڑنے پر رقم سیدھی جانب والی جیب میں ہی رکھتا ہوں۔“


ایک مرتبہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے اسلامی بھائیوں کو ترغیب دلانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ الحمدللہ عزوجل ! سنہری جالیوں کے رُوبرو حاضر ہوکر مجھے یاد نہیں رہتا کہ کبھی میں نے سرکارِ نامدار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے دربار سے دنیا کی ذلیل دولت کا مطالبہ کیا ہو، بلکہ میں نے تو یہی عرض کیا ہے:۔ “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! مجھے اپنی یاد میں تڑپنے والا دل عطا کر دیجئے۔۔۔۔۔۔ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنے غم میں رونے والی آنکھ دے دیجئے۔۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ آتشِ عشق سرد پڑ جائے، آپ کی محبت میں آنسو ختم ہو جائیں مجھے ایمان و عافیت پر مدینہ شریف میں موت نصیب ہو جائے۔“


رات دن عشق میں تیرے تڑپا کروں

یانبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! ایسا سوزِ جگر چاہئیے

ذوق بڑھتا رہے اشک بہتے رہیں

مضطرب قلب اور چشم تر چاہئیے

گر وہ فرمائیں عطار کیا چاہئیے

میں کہوں گا مدینے کا غم چاہئیے


سادگی

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عموماً سادہ اور سفید لباس بغیر استری کے استعمال کرنا پسند فرماتے ہیں جبکہ سر پر چھوٹے سائز کا سادہ سبز عمامہ باندھتے ہیں۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔ “میں عُمدہ لباس پہننا پسند نہیں کرتا حالانکہ میں اللہ عزوجل کے کرم سے بہترین لباس پہن سکتا ہوں۔ مجھے تحفے میں بھی لوگ نہایت قیمتی اور چمکدار قسم کے کپڑے دے جاتے ہیں لیکن میں خود پہننے کی بجائے کسی اور کو دے دیتا ہوں کیونکہ ایک تو میرے مزاج میں اللہ تعالٰی نے سادگی عطا فرمائی ہے، دوسرا میرے پیچھے لاکھوں لوگ ہیں اگر میں مہنگے ترین لباس پہنوں گا تو یہ بھی میری پیروی کرنے کی کوشش کریں گے۔ مالدار اسلامی بھائی تو شاید پیروی کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں لیکن میرے غریب اسلامی بھائی کہاں جائیں گے اس لئے میں اپنے غریب اسلامی بھائیوں کی محبت میں عمدہ لباس پہننے سے کتراتا ہوں۔


محبتِ رمضان

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “یہ مہینہ تمہارے قریب آ گیا، خدا عزوجل کی قسم ! مسلمانوں پر کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرا جو ان کے لئے اس مہینہ سے بہتر ہو اور منافقین پر کوئی ایسا مہینہ نہیں گزرا جو ان کے لئے اس مہینے سے بدتر ہو۔ (صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصیام، باب فی فضل شہر رمضان، الحدیث 1884، ج3، ص188، المکتب الاسلامی بیروت)


استقبالِ رمضان

جب رمضان شریف کا پُر بہار مہینہ تشریف لاتا ہے تو امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی خوشی کا عالم دیدنی ہوتا ہے۔ آپ کے جذبات کی عکاسی ان اشعار سے ہوتی ہے۔


مرحبا صد مرحبا پھر آمدِ رمضان ہے

کھل اٹھے مرجھائے دل تازہ ہوا ایمان ہے

ہم گنہگاروں پہ یہ کتنا بڑا احسان ہے

یا خدا عزوجل تونے عطا پھر کردیا رمضان ہے

ہر گھڑی رحمت بھری ہے ہر طرف ہیں برکتیں

ماہِ رمضاں رحمتوں اور برکتوں کی کان ہے

یا الٰہی عزوجل! تو مدینے میں کبھی رمضاں دکھا

مدتوں سے دل میں یہ عطار کے ارمان ہے


الوداع رمضان

1403ھ کا واقعہ ہے کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کثیر اسلامی بھائیوں کے ساتھ معتکف تھے۔ انتیسواں روزہ افطار کرنے کے بعد نمازِ مغرب سے فارغ ہوکر سر جھکائے بیٹھے تھے اتنے میں کسی نے آکر آپ دامت برکاتہم العالیہ سے عرض کیا:۔ “مبارک ہو عیدالفطر کا چاند نظر آگیا“ یہ سنتے ہی آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور بے اخیار آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے، پھر روتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ افسوس رحمتوں اور برکتوں کا مبارک مہینہ ہم سے جدا ہوگیا لیکن ہم رمضان المبارک کی قدر نہ کر سکے، پھر روتے ہوئے اپنی پُرسوز آواز میں ماہِ رمضان المبارک کے متعلق الوداعیہ اشعار پڑھے، سینکڑوں لوگ جو امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی زیارت و ملاقات کے لئے حاضر تھے وہ بھی اشکبار ہو گئے کافی دیر تک آپ دامت برکاتہم العالیہ گریہ و زاری فرماتے رہے۔


آخری روزے ہیں دل غمناک مضطر جان ہے

حسرتا او حسرتا اب چل دیا رمضان ہے

عاشقانِ ماہِ رمضاں رو رہے ہیں پھوٹ کر

دل بڑا بے چین ہے افسردہ روح و جان ہے

الفراق و الفراق اے رب عزوجل کے مہماں الفراق

الوداع الوداع تجھ کو مہِ رمضان ہے

داستانِ غم سنائیں کس کو جاکر آہ ! ہم

یارسول اللہ ! دیکھو چل دیا رمضان ہے

سب مسلماں الوداع کہتے ہیں رو رو کر تجھے

آہ ! چند گھڑیوں کا اب تو رہ گیا مہمان ہے

کاش ! آتے سال ہو عطار کو رمضان نصیب

یانبی ! میٹھے مدینے میں بڑا ارمان ہے


حفاظتِ ایمان

حضورِ پاک، صاحبِ لولاک، سیّاحِ افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔

“انما الاعمال بالخواتیم“ یعنی اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے۔“ (صحیح الخاری، کتاب القدر، الحدیث 6607، ج4، ص274، دارالکتب العلمیۃ بیروت)


امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ حفاظتِ ایمان کے بارے میں بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔ صفر المظفر 1424ھ میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی طرف سے مرکزی مجلسِ شورٰی اور دیر مجالس کے اراکین وغیرہ کے نام لکھے گئے ایک کھلے خط کی ابتدا میں ایمان کی حفاظت سے متعلق کی جانے والی “فکرمدینہ“ کا پُر تاثیر انداز ملاحظہ ہو،۔۔۔۔۔۔۔۔

“(بعدِ سلام تحریر فرمایا) یہ الفاظ لکھتے وقت آہ ! میں مدینہ منورہ سے بہت دور پڑا ہوں۔ مدینہ منورہ میں رات کے تقریباً تین بج کر 21 منٹ اور پاکستان میں پانچ بج کر 21 منٹ ہوئے ہیں، میں اپنی قیام گاہ کے مکتب میں مغموم و ملول قلم سنبھالے آپ حضرات کی بارگاہوں میں تحریراً دستک دے رہا ہوں۔ آج کل یہاں طوفانی ہوائیں چل رہی ہیں کہ جوکہ دلوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ ہائے ہائے ! بڑھاپا آنکھیں پھاڑے پیچھا کئے چلا آ رہا اور موت کا پیغام سنا رہا ہے۔ مگر نفس امارہ ہے کہ سرکشی میں بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ کہیں ہوا کا کوئی تیزو تند جھونکا میری زندگی کے چراغ کو گل نہ کر دے ! اے مولٰی عزوجل زندگی کا چراغ تو یقیناً بجھ کر رہے گا، میرے ایمان کی شمع سدا روشن رہے۔ یااللہ ! مجھے گناہوں کے دلدل سے نکال دے۔ کرم ۔۔۔ کرم۔۔۔۔ کرم ! (غیبت کی تباہ کاریاں، ص2، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)


مسلماں ہیں عطار تیری عطا سے

ہو ایمان پر خاتمہ یا الٰہی عزوجل


آپ دامت برکاتہم العالیہ نے کفریہ کلمات کی نشاندہی کے لئے ایک مختصر اور جامع رسالہ “28 کلماتِ کفر“ بھی تالیف فرمایا ہے، جو اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ جس کا ہر مسلمان کو مطالعہ کرنا چاہئیے۔


امیرِ اہلسنّت اور علماء کرام

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ علمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے بے حد عقیدت و محبّت رکھتے ہیں اور نہ صرف خود ان کی تعظیم کرتے ہیں بلکہ اگر کوئی آپ دامت برکاتہم العالیہ کے سامنے عُلمائے اہلسنّت دامت فیوضہم کے بارے میں کوئی نازیبا کلمہ کہہ دے تو اس پر سخت ناراض ہوتے ہیں۔


امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ “اسلام میں علماء حق کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور وہ علم دین کے باعث عوام سے افضل ہوتے ہیں۔ غیر عالم کے مقابلے میں ان کو عبادت کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے۔“ چنانچہ حضرت محمد بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے:۔ “عالم کی دو رکعت غیرِ عالم کی ستّر رکعت سے افضل ہے۔“ (کنزالعمال، کتاب العلم، الباب لاول، ج10م ص67، دارالکتب العلمیۃ بیروت)


لٰہذا دعوتِ اسلامی کے تمام وابستگان بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ علمائے اہلسنّت سے ہرگز نہ ٹکرائیں، ان کے ادب و احترام میں کوتاہی نہ کریں، عُلمائے اہلسنّت کی تحقیر سے قطعاً ریز کریں، بلا اجازت شرعی ان کے کردار اور عمل پر تنقید کرکے غیبت کا گناہِ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام نہ کریں، حضرت سیدنا ابو الحفص الکبیر علیہ رحمۃ القدیر فرماتے ہیں:۔ “جس نے کسی عالم کی غیبت کی تو قیامت کے روز اُس کے چہرے پر لکھا ہوگا، یہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہے۔“ (مکاشفۃ القلوب، ص71، دارالکتب العلمیۃ بیروت)


ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:۔ “علماء کو ہماری نہیں، ہمیں علماء اُمت دامت فیوضہم کی ضرورت ہے، یہ مدنی پھول ہر دعوتِ اسلامی والے کی نس نس میں رچ بس جائے۔“ ایک مرتبہ فرمایا:۔ “علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔“


مجھ کو اے عطار سنی عالموں سے پیار ہے

ان شاءاللہ عزجل دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے


علماء کرام دامت فیوضہم کی آپ مدظلہ العالی سے محبّت

الحمدللہ عزوجل ! علمائے اہلسنّت دامت فیوضہم بھی آپ کی مدنی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کا اظہار بھی فرماتے رہتے ہیں مثلاً شارح بخاری، فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ الھادی لکھتے ہیں:۔ “مولانا محمد الیاس صاحب اس زمانے میں فی سبیل اللہ بغیر مشاہدے اور نذرانے کی طرف طمع کے خالص اللہ عزوجل کے لئے اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا جوئی کے لئے اتنا عظیم الشان کام عالمگیر پیمانے پر کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں بد عقیدہ صحیح العقیدہ سنّی ہو گئے اور لاکھوں شریعت سے بیزار افراد شریعت کے پابند ہوگئے۔ بڑے بڑے لکھ پتّی، کروڑ پتّی گریجویٹ نے داڑھیاں رکھیں، عمامہ باندھنے لگے، پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کرنے لگے اور دینی باتوں میں دلچسپی لینے لگے۔ کیا یہ کارنامہ اس لائق نہیں کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں قبول ہو۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔ “من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شھید۔“ (مشکوٰۃ ص30) (یعنی) میری اُمت کے بگڑنے کے وقت جو میری سنّت کا پابند ہوگا اس کو 100 شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ جب اُمت کے بگڑنے کے وقت سنّت کی پابندی کرنے والے کیلئے 100 شہیدوں کا ثواب ہے تو جو بندہء خدا سنّت کا پابند ہوتے ہوئے کروڑوں انسانوں کو ایک نہیں اکثر سنّتوں کا پابند بنا دے اس کا اجر کتنا ہوگا۔“


اسی طرح استاذ العلماء و الفقہاء حضرت مولانا مفتی عبدالقیوم ہزاروی علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:۔ “فقیر نے خود ان سے ملاقات کی ہے انہیں بے حد متواضع، باعمل، عوام کا درد رکھنے والا، عُلمائے کرام کی عظیم کرنے والا اور مذہبِ اسلام کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں بے حد مخلص پایا۔ آپ کی تحریک سے وابستہ نوجوانوں کا سنّتِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ڈھلا ہوا سانچہ خود پکار پکار کر مولانا (الیاس قادری) کے اخلاص و استقامت و محنت جدوجہد مسلسل کی خبر دے رہا ہے۔ بلا مبالغہ آپ اہلسنّت و جماعت کیلئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔“


رئیس القلم، ادیبِ شہیر حضرت علامہ ارشد القادری علیہ رحمۃ اللہ الہادی فرماتے ہیں:۔ “یہ حقیقت ہے ایک مولانا محمد الیاس قادری (دامت برکاتہم العالیہ ) نے پوری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔“


باب المدینہ (کراچی) میں اہلسنت کے قدیم اور معروف ترین جامعہ دارالعلوم امجدیہ عالمگیر روڈ کراچی کے مدرس، معمر ترین بزرگ، عالم باعمل حضرت علامہ مولانا حلیم احمد اشرفی قدس سرہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:۔ “سنجیدگی سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی اصلاحِ احوال کے لئے بہت سی صورتیں اختیار کی گئیں اور اب بھی اپنے مذاق کے اعتبار سے کدوکاوش کی جا رہی ہے اور محمد الیاس قادری صاحب نے ایک نیا طریقہ اور نیا پروگرام شروع کیا اور اپنے مقصد میں بڑی عظیم کامیابی حاصل کی۔“


مزید فرماتے ہیں، “جس ماحول میں نوجوان لڑکے اپنے آپ کو فیشن زدہ دکھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں یہ دعوتِ اسلامی کا جوان، زمانہ و حال کے خیالات سے بے نیاز ہو کر بڑے جذبے کے ساتھ اپنی صورت، اپنی شکل، اپنا لباس سچے مسلمان جیسا بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ یہ دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ اس تحریک کا سربراہ یقیناً کوئی ایسا شخص ہے جو اپنے ارادے اور نیّت میں مخلص ہے۔ تصنع (یعنی بناوٹ) سے پاک ہے۔ اور اس کا خلوص عنداللہ بھی مقبول ہے۔ اس کی حُسنِ نیّت کا یہ ثمر ہے کہ یہ تحریک بڑی تیزی کے ساتھ ہر حلقہ اور طبقہ اور ملک کے ہر حصّہ میں پھیلتی جا رہی ہے۔ خاص کر نوجوان طبقہ اس کی طرف بھاگا چلا آ رہا ہے۔“


حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اعظم رضوی مدظلہ العالی (دارالعلوم مظہر الاسلام بریلی شریف) اپنے ایک طویل مکتوب میں لکھتے ہیں:۔ “جب کوئی شخص یا جماعت کسی اچھے کام کے لئے پوری کوشش کرتا ہے پروردگارِ عالم عزوجل کا وعدہ ہے کہ وہ اس کو کامیابی کی منزل اور مطلوب تک ضرور پہنچاتا ہے، قال اللہ تعالٰی “والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا ط وان اللہ لمع المحسنین“ (پ21، العنکبوت) (ترجمہء کنزالایمان:۔ “اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔)


امیرِ دعوت اسلامی مولانا محمد الیاس صاحب اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلیفہء خاص حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مدنی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مُرید اور ان کے شہزادے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے خلیفہ ہیں۔ اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے شیدائی و فدائی مسلکِ اعلٰیحضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے متصلب مبلغ اہلسنت ہیں۔ دعوت اسلامی کے تبلیغی اجتماعات میں اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ترجمہء قرآن کنزالایمان اور ان کے سلام یا کلام کا ذکر لازماً ہوتا رہتا ہے اور امیرِ دعوتِ اسلامی کی مصنفات یا مؤلفات تو اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فتاوٰی رضویہ وغیرھا سے ماخوذ بھی ہیں۔


تعظیمِ ساداتِ عظام

قبلہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ عشقِ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں فنا ہیں اور یہ ایک فطری امر ہے کہ جس سے عشق ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے بھی عشق ہو جاتا ہے۔ محبوب کے گھر سے، اس کے در و دیوار سے، محبوب کے گلی کوچوں تک سے تعلقِ عقیدت قائم ہو جاتا ہے۔ پھر بھلا جو عشق نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں گم ہو وہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی آل اور اہل بیت سے محبت کیوں نہ رکھے گا۔ لٰہذا جہاں آپ دامت برکاتہم العالیہ کو مدینہ پاک کے ذرہ ذرہ سے بے پناہ محبت ہے وہیں آپ دامت برکاتہم العالیہ حضراتِ ساداتِ کرام کی تعظیم و توقیر بجا لانے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ ملاقات کے وقت اگر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو بتا دیا جائے کہ یہ سیّد صاحب ہیں تو بارہا دیکھا گیا ہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نہایت ہی عاجزی سے سیّدزادے کا ہاتھ چوم لیا کرتے ہیں۔ ساداتِ کرام کے بچّوں سے انتہائی محبّت اور شفقت کرنا یہ آپ دامت برکاتہم العالیہ ہی کا طرہ امتیاز ہے۔ کبھی کبھی کسی سیّد زادہ کو دیکھ کر امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا یہ شعر جھوم جھوم کر پڑھنے لگتے ہیں۔


تیری نسلِ پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا


عقیدتِ اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے سیّدی قطبِ مدینہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں تحریر فرماتے ہیں:۔ “الحمدللہ عزوجل ! میں بچپن ہی سے امام اہلسنت، عظیم البرکت، پروانہء شمع رسالت، مجدد دین و ملّت مولیٰنا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے متعارف ہو چکا تھا۔ پھر جوں جوں شعور آتا گیا اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کی محبت دل میں گھر کرتی چلی گئی۔ میں بلا خوفِ تردید، کہتا ہوں کہ رب العلٰی کی پہچان، میٹھے میٹھے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہوئی۔ تو مجھے میٹھے میٹھے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پہچان امام احمد رضا علیہ رحمۃ الرحمٰن کے سبب نصیب ہوئی۔“


اعلٰی حضرت رضی اللہ عنہ سے ہمیں تو پیار ہے

انشاءاللہ عزوجل اپنا بیڑہ پار ہے


پہلا رسالہ

اسی عقیدت کا صدقہ ہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی زندگی کا پہلا مدنی رسالہ بھی اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن سے متعلق لکھا جس کا نام “تذکرہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ“ ہے۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ ہی کا شعر ہے:۔


تو نے باطل کو مٹایا اے امام احمد رضا رضی اللہ عنہ

دین کا ڈنکا بجایا اے امام احمد رضا رضی اللہ عنہ


بریلی شریف کی پہلی بار حاضری

جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ پہلی بار مدینۃ المُرشد بریلی شریف پہنچے تو جب تک قیام رہا آپ ادباً برہنہ پا رہے اور جب امام اہلسنّت اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کے مزارِ مبارک پر حاضری کا وقت آیا تو دیکھنے والوں کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں کہ آپ زمین پو لوٹتے ہوئے مزارِ مبارک پر حاضر ہوئے۔ دورانِ حاضری ایک ضعیف العمر بزرگ نے اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کی زیارت کرنے والے کی نہ صرف آنکھوں کو بوسہ دیا بلکہ قدموں کو بھی چوم لیا۔ ایک بار آپ دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا کہ اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کے اقول (یعنی فرمان) پر ہماری عقول (یعنی عقلیں) قربان۔ اعلٰی حضرت کا اقول ہمیں قبول۔


اسی تعلقِ عقیدت کی بنا پر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے بیانات اور تالیفات میں قرآن پاک کا ترجمہ اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن کے ترجمہء کنزالایمان سے لیتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب ارشاد فرماتے ہیں۔


مسلمانوں کی خیر خواہی

سرکارِ مدینۃ المنورہ، سلطانِ مکۃ المکرمہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے:۔ “دین خیر خواہی (کا نام) ہے۔“ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی، “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! کس کے لئے ؟“ ارشاد فرمایا، “اللہ کیلئے اس کی کتاب کیلئے، اس کے رسول کیلئے، مسلمانوں کے اماموں کے لئے اور ان کی عوام کیلئے۔“ (مسلم کتاب الایمان، باب بیان الدین النصیحۃ، الحدیث55، ص47)

ہمارا حسنِ ظن ہے کہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہمہ وقت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے پیشِ نظر رہتی ہے۔ اس ضمن میں کئی واقعات ہیں، جس میں سے ایک پیشِ خدمت ہے۔


سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے

الحمدللہ عزوجل ! جشن ولادت سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں ربیع النور شریف کی 12ویں شب، دعوت اسلامی کی طرف سے باب المدینہ (کراچی) میں بہت بڑے اجتماعِ ذکر و نعت ہوتا ہے۔ ربیع النور شریف 1418ھ کی 12ویں رات 12 بجے جب بانیء دعوتِ اسلامی امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی اجتماع میں بیان کرنے کیلئے پہنچے تو تلاوت شروع ہو چکی تھی۔ لٰہذا آپ منچ (اسٹیج) پر جلوہ ہوکر حاضرین کے سامنے آنے کی بجائے منچ کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ کر تلاوت سننے میں مشغول ہو گئے۔ تلاوت ختم ہونے کے بعد جب کسی نے عرض کی کہ “آپ براہِ راست منچ پر تشریف لانے کے بجائے اس کی سیڑھی پر بیٹھ گئے، اس میں کیا حکمت تھی ؟“ تو ارشاد فرمایا:۔ “قرآن پاک میں ہے کہ “واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔“ ترجمہء کنزالایمان:۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔“ (پ9، الاعراف:۔ 204) اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “فتاوٰی رضویہ“ (ج23، ص353) میں ہے، “جب بلند آواز سے قرآن پاک پڑھا جائے تو حاضرین پر سننا فرض ہے جبکہ وہ مجمع سننے کی غرض سے حاضر ہو، ورنہ ایک کا سننا کافی ہے اگرچہ دوسرے لوگ کام میں ہوں۔“


پھر فرمایا:۔ ““جب میں حاضر ہوا تو تلاوت جاری تھی، اب اگر میں سیدھا منچ پر چلا جاتا تو خدشہ تھا کہ کوئی اسلامی بھائی استقبالی نعرہ لگا دیتا اور دورانِ تلاوت ایسا ہرگز نہیں ہونا چائیے، لٰہذا میں نے لوگوں کی نظر سے اوجھل رہ کر منچ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جانے ہی میں عافیت جانی۔“


فکرِ آخرت

ایک مرتبہ رات بھر مدنی مشورے کے باعث امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سو نہ سکے۔ بعد فجر ایک اسلامی بھائی نے عرض کی:۔ “ابھی آپ آرام فرما لیں، 10:00 بجے دوبارہ اٹھنا ہے، لٰہذا اٹھ کر اشراق و چاشت ادا فرما لیجئے گا۔“ آپ نے جواب دیا کہ “زندگی کا کیا بھروسا، سو کر اٹھنا نصیب ہو یا نہیں۔۔ یا۔۔۔ کیا معلوم آج زندگی کے آخری نفل ادا ہو رہے ہوں ؟“ یہ فرمانے کے بعد اشراق و چاشت کے نفل ادا فرمائے پھر آرام فرمایا۔


مدنی کام کی لگن

1991ء میں راہِ خداعزوجل میں سفر کرتے ہوئے جب امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ ہند کے شہر دہلی میں پہنچے تو وہاں جامع مسجد نور النبی میں قیام کیا۔ طویل سفر کی تھکن کی وجہ سے اکثر شرکائے قافلہ عشاء کے بعد بہت جلد نیند کی آغوش میں پہنچ گئے لیکن آپ شدید تھکاوٹ کے باوجود آدھی رات تک وہاں پر ملاقات کی غرض سے آنے والے اسلامی بھائیوں پر انفرادی کوشش فرماتے رہے۔


نفس کی قربانی

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ 1424ھ میں عیدالاضحٰی کے موقع پر ملک سے باہر تھے۔ بعض ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی کے بیحد اصرار پر آپ نے عیدالاضحٰی پاکستان میں منانے کی حامی بھرلی لیکن عید سے صرف چند روز پہلے ای میل کے ذریعے یہ پیغام بھجوایا:۔ “شبِ جمعہ (8 ذوالحجۃ الحرام 1424ھ) کو پرواز تھی، بدھ کو دل میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ میں نے بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں عید باب المدینہ میں آکر دھوم دھام سے خوب رونق بھرے ماحول میں بچوں، گھر والوں اور کثیر اسلامی بھائیوں کے ساتھ مناؤں۔ باب المدینہ آنے میں نفس کی پیروی ہے اور امارت میں رہ کر تحریری کام کرنے میں آخرت کی بہتری، باب المدینہ میں عوام کی بھیڑ میں گناہوں کی کثرت اور امارت میں تنہائی کے باعث معاصی سے کافی بچت، عوام کی گہماگہمی میں زبان و آنکھ کی حفاظت نہایت ہی مشکل جبکہ امارت میں اپنے گھر پر زبان اور آنکھوں کا قفلِ مدینہ الحمدللہ عزجل ! کافی حد تک حاصل۔ سوچا فی الحال باب المدینہ میں جاکر سوائے نفس کو خوش کرنے کے کسی دین کے اہم کام کو سر انجام دینے کی بظاہر کوئی صورت سامنے نہیں ہے، قربانی کے دن ہیں، اور ظاہر ہے قربانی وہی ہے جو نفس کو گراں گزرے، لٰہذا ! نفس کی قربانی دینا ہی مناسب ہے، لٰہذا ! آخرت کی بہتری پر نظر رکھتے ہوئے میں نے باب المدینہ آنے کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔


وقت کم کام بہت زیادہ

دسمبر 2002ء میں راجپوتانہ اسپتال (حیدر آباد، باب الاسلام سندھ) میں امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا آپریشن تھا۔ آپ نے آپریشن تھیڑ میں جانے کیلئے لباس پہن لیا، مگر پھر اطلاع ملی کہ ابھی ایک گھنٹہ مذید تاخیر ہوگی۔ آپ سے عرض کی گئی کہ کچھ دیر آرام فرما لیجئے، مگر آپ نے ارشاد فرمایا:۔ “وقت کم ہے اور کام بہت زیادہ ہے۔“ یہ فرما کر آپ تحریری کام میں مصروف ہوگئے۔


شاعری

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرح امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کا سرمایہ شاعری بھی صرف نعت و منقبت اور مناجات وغیرہ پر مشتمل ہے۔ جو اسلامی بھائی امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی شب و روز کی مصروفیات سے واقف ہیں وہ حیرت زدہ ہیں کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کو شعر کہنے کا موقع کیسے مل جاتا ہے ؟ پھر آپ دامت برکاتہم العالیہ دیگر ارباب سخن کی طرح ہر وقت شاعری کیلئے مصروف بھی نہیں رہتے ہیں۔ بلکہ جب پیارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یاد تڑپاتی اور سوزِ عشق آپ کو بیتاب کرتا ہے تو آپ نعتیہ اشعار و مناجات لکھتے ہیں۔ شیخِ طریقت دامت برکاتہم العالیہ نے حمد و نعت کے علاوہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیھم اجمعین اور بزرگان دین رحمھم اللہ کی شان میں متعدد منقبتیں اور مدحیہ قصائد بھی قلم بند فرمائے ہیں، تادم تحریر آپ دامت برکاتہم العالیہ کے 226 کلام شمار میں آئے ہیں۔ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی شاعری میں ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کی شاعری میں نیکی کی دعوت کی تڑپ اور مسلمانوں کی خیرخواہی کا جذبہ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ چنانہ آپ دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:۔


شہا ! ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں

تیری سنّتیں سکھانا مدنی مدنیے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

ملے سنّتوں کا جذبہ مرے بھائی چھوڑیں مولٰی

سبھی داڑھیاں منڈانا مدنی مدینے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم

مری جس قدر ہیں بہنیں سبھی کاش برقع پہنیں

ہو کرم شہِ زمانہ مدنی مدینے والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم



نیکی کی دعوت کا جذبہ

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اصلاح کرنے کے معاملے میں بے حد متحرک ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کسی بھی خلافِ شرع یا خلافِ سنّت کام کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے بلکہ فوراً احسن طریقے سے سامنے والے کی اصلاح فرما دیتے ہیں۔


کلمہء کفر سے توبہ کروائی

بہت عرصہ قبل سولجر بازار کے رہائشی اسلامی بھائی امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ سے ملاقات کی غرض سے حاضر ہوئے تو کسی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ انتہائی مایوسی کے عالم میں ان کے منہ سے کچھ نازیبا کلمات ادا ہو گئے۔ جب آپ دامت برکاتہم العالیہ کو ان کلمات کے بارے میں بتایا گیا تو آپ نے (کچھ اس طرح) ارشاد فرمایا “یہ تو کلمہء کفر ہے۔“ اس کے بعد اس اسلامی بھائی کی شدومد سے تلاش شروع کردی گئی۔ تقریباً دو گھنٹے کی تلاش کے بعد بالآخر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اس اسلامی بھائی کے گھر جا پہنچے اور انفرادی کوشش کرتے ہوئے اسے کلمہء کفر کے بارے میں بتایا اور توبہ کی ترغیب دلائی۔ الحمدللہ عزجل ! اس اسلامی بھائی نے آپ کی انفرادی کوشش کی برکت سے توبہ کرکے تجدید ایمان کرلی۔


نمازی کی اصلاح

ایک مرتبہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے درِ دولت میں ایک اسلامی بھائی نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ سجدے کی حالت میں تھے کہ اچانک آپ دامت برکاتہم العالیہ نے دیکھا کہ ان کے پاؤں کی انگلیاں ٹھیک سے زمین پر نہیں لگی ہوئیں۔ نماز کے بعد آپ نے ان پرانفرادی کوشش کرتے ہوئے عملی طور پراشارہ کرکے بتایا کہ سجدے میں پاؤں کی انگلیوں کا پیٹ زمین پر اس طرح لگنا چاہئیے۔


کسی کا نام بگاڑنے والے کی اصلاح

ایک مرتبہ کسی نے امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے سامنے کسی شخص کا نام بُرے لقب کے ساتھ لے ڈالا تو آپ نے فوری طور پر انفرادی کوشش کرتے ہوئے فرمایا:۔ “ایسا نہ بولیں کہ کسی مسلمان کا نام بگاڑنے والے کو قرآنِ عظیم میں “فاسق“ کہا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے، “ولا تنابزوا بالالقاب ط بئس الاسم الفسوق بعد الایمان ج ومن لم یتب فاولئک ھم الظلمون 0 ترجمہء کنزالایمان:۔ “اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو، کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔“ (پ26، سورۃ الحجرات: 11)


حقوق العباد کا خوف

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ جہاں حقوق اللہ عزوجل کے معاملے میں حددرجہ محتاط ہیں وہاں حقوق العباد کے معاملے میں بھی بے حد احتیاط ملحوظ رکھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:۔ “حقوق اللہ عزوجل تو اللہ تعالٰی چاہے تو اپنی رحمت سے معاف فرما دے گا۔ مگر حقوق العباد کا معاملہ سخت تر ہے کہ جب تک وہ بندہ جس کا حق تلف کیا گیا ہے، معاف نہیں کریگا اللہ عزوجل بھی معاف نہیں فرمائے گا اگرچہ یہ بات اللہ عزوجل پر واجب نہیں مگر اس کی مرضی یہی ہے کہ جس کا حق تلف کیا گیا ہے اس مظلوم سے معافی مانگ کر راضی کیا جائے۔“


بچپن ہی میں حقوق العباد کا خیال

ایک مرتبہ دورانِ گفتگو امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے متعلقین کی ترغیب کیلئے ارشاد فرمایا:۔ “اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضل و کرم سے حقوق العباد کی ادائیگی کا خوف بچپن ہی سے میرے دل میں بیٹھا ہوا ہے۔ جب میں چھوٹا اور تقریباً ناسمجھ تھا، یتیمی اور غربت کا دور تھا۔ حُصولِ معاش کیلئے بھنے ہوئے چنے اور مونگ پھلیاں چھیلنے کیلئے گھر میں لائی جاتی تھیں۔ ایک سیر چنے چھیلنے پر چار آنے، ایک سیر مونگ پھلیاں چھیلنے پر ایک آنہ مزدوری ملتی۔ ہم سب گھر والے مل کر اسے چھیلتے۔ میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے کبھی کبھار چند دانے منہ میں ڈال لیتا لیکن پھر پریشان ہوکر والدہ محترمہ سے عرض کرتا:۔ “ماں ! مونگ پھلی والے سے معاف کرالینا۔“ چنانچہ والدہ محترمہ سیٹھ سے کہتیں کہ “بچے دو دانے منہ میں ڈال لیتے ہیں۔“ جواباً وہ کہہ دیتا:۔ “کوئی بات نہیں۔“ یہ سن کر میں سوچتا کہ میں نے تو دو دانے سے زیادہ کھائے ہیں مگر ماں نے تو صرف دو دانے معاف کروائے ہیں ؟ بعد میں جب شُعور آیا تو پتا چلا کہ “دو دانے“ مُحاورہ ہے اور اس سے مُراد تھوڑے دانے ہی ہیں اور میں کبھی تھوڑے دانے کھا لیتا تھا۔“


ذرا سا کاغذ پھٹنے پر معذرت

دورہء حدیث (جامعۃ المدینہ باب المدینہ کراچی) کے ایک طالب علم کی فتاوٰی رضویہ شریف کی ایک جلد چند دن امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے زیرِ مطالعہ رہی۔ آپ نے فتاوٰی رضویہ شریف کی جلد مع رُقعہ جب واپس فرمائی تو طالب علم رقعہ پڑھ کر ششدر رہ گئے اور جذبات تاثر سے ان کی پلکیں بھیگ گئیں۔ (مضمون کچھ یوں تھا)


میرے میٹھے میٹھے مدنی بیٹے زید مجدہ کی خدمت میں شکریہ بھرا سلام، آپ کی فتاوٰی رضویہ شریف سے مطلوبہ عبارات کے علاوہ بھی استفادہ کیا، خاص خاص کلمات و فقرات کو خط کشیدہ کرنے کی عادت ہے مگر مجاز (یعنی با اخیار) نہ ہونے کے باعث مجتنب (یعنی رکا) رہا مگر بے احتیاطی کے سبب ایک صفحہ کے اوپر کی جانب معمولی سا کاغذ پھٹ گیا، بصد ندامت معذرت خواہ ہوں، امید ہے معافی کی خیرات سے محروم نہیں فرمائیں گے۔ کاغذ اتنا کم شق ہوا ہے کہ غالباً ڈھونڈنے پر بھی نہ مل سکے۔ علاوہ ازیں بھی جو حقوق تلف ہوئے ہیں معاف فرما دیجئے۔ دین ہو تو وصول کر لیجئے (یعنی میری طرف آپ کی کوئی رقم وغیرہ بنتی ہو تو لے لیجئے۔) دعائے مغفرت سے نوازتے رہئیے۔ والسلام مع الاکرام


دورانِ بیان معافی طلب کرنا

کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ خوفِ خدا عزوجل کے سرمایہ سرمدی کی بنا پر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے حقوق العباد میں حد درجہ محتاط ہونے کے باوجود دورانِ بیان بھی لوگوں سے ان کے حقوق کے بارے میں معذرت طلب کی۔ چنانچہ باب الاسلام سندھ سطح پر 2،3،4، محرم الحرام 1425ھ کو ہونے والے سنّتوں بھرے اجتماع میں ہونے والے بیان کے دوران آپ دامت برکاتہم العالیہ نے توبہ کی شرائط کی وضاحت کرتے ہوئے وہاں موجود لاکھوں اسلامی بھائیوں اور ٹیلی فون وغیرہ کے ذریعے سننے والی اسلامی بہنوں سے ارشاد فرمایا:۔ “توبہ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کی حق تلفی کی ہو یا اذیت پہنچائی ہو اس سے معافی مانگی جائے، جس کے تعلقات جتنے زیادہ ہوتے ہیں اتنا ہی دوسروں کی دل آزاری ہو جانے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے، اور میرے تعلقات یقیناً آپ سب سے زیادہ ہیں، لٰہذا میری درخواست ہے کہ میری طرف سے اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو، کوئی حق تلف ہو گیا ہو، کبھی ڈانٹ دیا ہو، ملاقات نہ کرنے پر آپ ناراض ہو گئے ہوں، تو ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے مجھے معاف کر دیجئے، مجھے آپ سے نہیں اپنے رب تعالٰی سے ڈر لگتا ہے، کہہ دیجئے:۔ “جا معاف کیا۔


بیعت و ارادت

امام اہلسنّت مجدد دین و ملّت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے بے حد عقیدت کی بنا پر امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو آپ علیہ رحمۃ الرحمٰن کے سلسلے میں داخل ہونے کا شوق پیدا ہوا۔ جیسا کہ امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ خود لکھتے ہیں:۔ “(مُرید ہونے کیلئے) ایک ہی “ہستی“ مرکز توجہ بنی، گو مشائخِ اہل سنّت کی کمی تھی نہ ہے مگر


پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا

اس مقدس ہستی کا دامن تھام کر ایک ہی واسطے سے اعلٰی حضرت علیہ رحمۃ الرحمٰن سے نسبت ہو جاتی تھی اور اس “ہستی“ میں ایک کشش یہ بھی تھی کہ براہِ راست گنبد خضراء کا سایہ اُس پر پڑ رہا تھا۔ اس “مقدس ہستی“ سے میری مُراد الفضیلت آفتابِ رضویت ضیاء ملّت، مُقتدائے اہلسنّت۔ مُرید و خلیفہء اعلٰی حضرت، پیرِ طریقت، رَہبرِ شریعت، شیخ العرب و العجم، میزبانِ مہمانانِ مدینہ، قطبِ مدینہ، حضرت علامہ مولیٰنا ضیاء الدین احمد مدنی قادری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی ذاتِ گرامی (ہے)۔


ضیاء پیر و مُرشد میرے رہنما ہیں

سرور دل و جاں میرے دل رُبا ہیں

منور کریں قلب عطار کو بھی

شہا ! آپ دین مبیں کی ضیاء ہیں


خلافت و اجازت

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ، مفتی اعظم پاکستان حضرت وقارالدین قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے خلیفہ ہیں۔ آپ کو شارح بخاری، فقیہ اعظم ہند مفتی شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ الغنی نے سلاسلِ اربعہ قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردیہ کی خلافت و کتب و احادیث وغیرہ کی اجازت بھی عطا فرمائی، جانشین سیدی قطب مدینہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب اشرفی علیہ رحمۃ القوی نے بھی اپنی خلافت اور حاصل شدہ اسانید و اجازت سے نوازا ہے۔ دنیائے اسلام کے اور بھی کئی اکابر علماء و مشائخ سے آپ کو خلافت حاصل ہے۔


بیعت و ارشاد

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ خلافت و وکالت ملنے کے باوجود ایک عرصے تک برائے تواضع و انکساری کسی کو اپنا مُرید نہیں بناتے تھے بلکہ اپنے ذریعے سے پیرومُرشد کا ہی مُرید بناتے تھے۔ پیرو مرشد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے وصال کے بعد آپ نے بیعت کرنا شروع فرمایا، تو لوگ آپ کے ذریعے سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ میں داخل ہوکر عطاری بننے لگے۔ پھر بعد میں اکابرین کے طریقے کو اپناتے ہوئے بڑے بڑے سنتّوں بھرے اجتماعات میں بھی آپ نے اجتماعی بیعت کا سلسلہ شروع فرمایا جیسا کہ شہزادہء اعلٰی حضرت مصطفٰی رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن بھی اجتماعی بیعت فرماتے تھے۔


مُریدوں پر شفقت

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کو سالہا سال سے کثرتِ پیشاب کا عارضہ لاحق تھا۔ بالآخر دسمبر 2002ء میں ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا جس کیلئے آپ ہی کے مطالبے پر نمازِ عشاء کے بعد کا وقت طے کیا گیا تاکہ آپ کی کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے۔ آپریشن ہو جانے کے بعد نیم بے ہوشی کے عالم میں درد سے کراہنے یا چلانے کی بجائے آپ نے وقتاً فوقتاً جن کلمات کی بار بار تکرار کی وہ یہ تھے۔


“سب لوگ گواہ ہو جاؤ میں مسلمان ہوں، ۔۔۔۔۔۔۔۔ یااللہ عزوجل ! میں مسلمان ہوں، میں تیرا حقیر بندہ ہوں، ۔۔۔۔۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کا ادنٰی غلام ہوں،۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمدللہ عزوجل ! میں غوث الاعظم (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کا غلام ہوں،۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! میرے گناہوں کو بخش دے، ۔۔۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! میری مغفرت فرما، ۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! میرے ماں باپ کی مغفرت فرما، ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! میرے بھائی بہنوں کی مغفرت فرما، ۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! میرے تمام مُریدوں کی مغفرت فرما، ۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! (مجلس شورٰی کے مرحوم نگران) حاجی مشتاق کی مغفرت فرما، ۔۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! تمام دعوتِ اسلامی والوں اور والیوں کی مغفرت فرما، ۔۔۔۔۔ اے اللہ عزوجل ! محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ساری اُمت کی مغفرت فرما۔


دیکھا آپ نے کہ امیرِِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ اپنے مُریدوں سے کس قدر محبت فرماتے ہیں کہ نیم بے ہوشی میں بھی وہ اپنے مُریدوں کیلئے مغفرت کی دعائیں مانگتے رہے یہاں تک کہ بقر عید (1423ھ) میں انہوں نے ایصالِ ثواب کیلئے ایک قربانی اپنے غریب مُریدوں کی طرف سے اور ایک قربانی اپنے فوت شدہ مُریدوں کی طرف سے کی۔ اس کے علاوہ آپ دامت برکاتہم العالیہ اپنے تمام مُریدوں کا ایمان بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حفاظت کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔


امیرِ اہلسنّت مدظلہ العالی کا تاریخی کارنامہ


(تبلیغ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا قیام)

اس پُرفتن دور میں کہ جب دنیا بھر میں گناہوں کی یلغار، ذرائع ابلاغ میں فحاشی کی بھر مار اور فیشن پرستی کی پھٹکار مسلمانوں کی اکثریت کو بے عمل بنا چکی تھی، نیز علمِ دین سے بے رغبتی اور ہر خاص و عام کا رجحان صرف دنیاوی تعلیم کی طرف ہونے کی وجہ سے اور دینی مسائل سے عدم واقفیت کی بنا پر ہر طرف جہالت کے بادل منڈلا رہے تھے، اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کو مٹانے کیلئے اور اسلام کا پاکیزہ نقشہ بدلنے کیلئے ناپاک سازشیں کر رہی تھیں، مساجد کا تقدس پامال کیا جا رہا تھا، لادینیت و بدمذہبیت کا سیلاب تباہیاں مچا رہا تھا، ہر گھر سینما گھر بنتا چلا جا رہا تھا، مسلمان موسیقی، شراب اور جوئے کا عادی ہوکر تیزی کے ساتھ تباہی کے عمیق گڑھے میں گرتا چلا جا رہا تھا، گلشنِ اسلام پر خزاں کے بادل منڈلا رہے تھے۔ ان نازک حالات میں قبلہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیء دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہم العالیہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ایک ایک اسلامی بھائی پر انفرادی کوشش کرکے مسلمانوں کو یہ ذہن دینا شروع کیا کہ “مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔“ یہاں تک کہ آپ نے 1401ھ میں “دعوتِ اسلامی“ جیسی عظیم اور عالمگیر تحریک کے مدنی کام کا آغاز فرما دیا۔ الحمدللہ عزوجل ! یہ آپ کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مختصر سے عرصے میں دعوتِ اسلامی کا پیغام (تادم تحریر) دنیا کے 66 ممالک میں پہنچ چکا ہے اور لاکھوں عاشقانِ رسول نیکی کی دعوت عام کرنے میں مصروف ہیں، مختلف ممالک میں کفار بھی مبلغینِ دعوتِ اسلامی کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوتے رہتے ہیں۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی جہدِ مسلسل نے لاکھوں مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کی زندگیوں میں مدنی انقلاب برپا کر دیا جس کی بدولت وہ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سر پر سبز سبز عمامے کا تاج اور چہرے پر سنّت کے مطابق داڑھی بھی سجا لیتے ہیں۔


امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے منفرد اور تاریخی کام کا بین ثبوت یہ ہے کہ اُمتِ محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جن شعبوں کی حاجت تھی، آپ ان شعبوں کو قائم کرنے میں مصروف ہوگئے اور آج الحمدللہ عزوجل ! ان میں سے کئی شعبہ جات میں کام شروع ہو چکا ہے، مثلاً


مدرسۃ المدینہ برائے بالغان

آپ دامت برکاتہم العالیہ نے دعوتِ اسلامی کے ذریعے بالغان کی تعلیم قرآن کیلئے “مدرسۃ المدینہ برائے بالغان“ کی ترکیب فرمائی، مختلف مساجد وغیرہ میں عموماً بعد نمازِ عشاء ہزارہا مدرسۃ المدینہ کی ترکیب ہوتی ہے جن میں اسلامی بھائی صحیح مخارج سے حُروف کی درست ادائیگی کے ساتھ قرآن کریم سیکھتے اور دعائیں یاد کرتے، نمازیں وغیرہ دُرست کرتے اور سنّتوں کی مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔


مدرسۃ المدینہ

الحمدللہ عزوجل تبلیغ قرآن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام اندرونِ ملک حفظ و ناظرہ کے سینکڑوں مدارس بنام “مدرسۃ المدینہ“ قائم ہیں۔ جہاں بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ صرف پاکستان میں تادمِ تحریر کم و بیش 42،000 ہزار مدنی منّے اور مدنی منّیوں کو حفظ و ناظرہ کی مُفت تعلیم دی جا رہی ہے۔


جامعۃ المدینہ

آپ دامت برکاتہم العالیہ نے دعوتِ اسلامی کے ذریعے علماء کی تیاری کیلئے کثیر جامعات بنام “جامعۃ المدینہ“ قائم کئے، ان کے ذریعے لاتعداد اسلامی بھائیوں کو (حسبِ ضرورت قیام و طعام کی سہولتوں کے ساتھ) درسِ نظامی (یعنی عالم کورس) اور اسلامی بہنوں کو “جامعۃ المدینہ للبنات“ میں عالمہ کورس اور شریعت کورس کی مُفت تعلیم دی جاتی ہے۔ تادمِ تحریر پاکستان بھر میں اسلامی بھائیوں اور بہنوں کے الگ الگ تقریباً 100 جامعات المدینہ قائم کئے جا چکے ہیں۔ بعض جامعات میں شفاء خانے بھی قائم ہیں جہاں بیمار طلبہ اور مدنی عملہ کا مُفت علاج کیا جاتا ہے۔ ضرورتاً داخل بھی کرتے ہیں نیز حسبِ ضرورت بڑے اسپتالوں کے ذریعے بھی علاج کی ترکیب بنائی جاتی ہے۔ درسِ نظامی سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو تخصص فی الفقہ (دو سالہ مفتی کورس) اور تخصص فی الفنون (دورانیہ 12ماہ) بھی کروایا جاتا ہے جس میں فلسفہ منطق اور عقائد کی منتہی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ اہلسنّت کے مدارس کے ملک گیر ادارہ تنظیم المدارس (پاکستان) کی جانب سے لئے جانے والے امتحانات میں برسوں سے تقریباً ہر سال “دعوتِ اسلامی“ کے جامعات کے طلبہ اور طالبات پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات اوّل، دوم اور سوم پوزیشن حاصل کرتے ہیں۔


دار الافتاء

آپ دامت برکاتہم العالیہ نے دعوتِ اسلامی کے ذریعے متعدد “دار الافتاء“ قائم کئے جہاں مفتیانِ کرام دامت فیوضہم تحریری و زبانی فتاوٰی اور ٹیلی فون و انٹرنیٹ کے ذریعے مسلمانانِ عالم کی شرعی رہنمائی فرماتے ہیں۔ تقریباً چھ سال کے عرصے میں 50،000 سے زائد فتاوٰی کا اجراء ہو چکا ہے۔ دار الافتاء کے انتظام و انصرام کے چلانے کیلئے “مجلسِ افتاء“ قائم کی گئی ہے۔ دیگر علمائے اہلسنّت دامت فیوضہم سے مربوط رہنے کیلئے “مجلسِ رابطہ بالعلماء و المشائخ“ بنائی گئی ہے۔


مجلس خدام المساجد

امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ نے دعوتِ اسلامی کے ذریعے مساجد کی تعمیر کیلئے “مجلس خدام المساجد“ قائم فرمائی، متعدد مساجد کی تعمیرات کا ہر وقت سلسلہ رہتا ہے، کئی شہروں میں “مدنی مرکز فیضانِ مدینہ“ کی تعمیرات کا کام بھی جاری ہے، متعدد مساجد کے امام و مؤذنین اور خادمین کے مشاہرے (تنخواہوں) کی ادائیگی کا سلسلہ ہے۔


مجلس برائے شعبہ تعلیم

آپ دامت برکاتہم العالیہ کی نگاہِ فیض سے تعلیمی اداروں مثلاً دینی مدارس، اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے اساتذہ و طلبہ کو میٹھے میٹھے آقا مدینے والے مصطفٰے صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنّتوں سے روشناس کراوانے کیلئے “مجلس برائے شعبہ تعلیم“ کے تحت مدنی کام ہو رہا ہے۔ بیشمار طلباء سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرتے ہیں نیز مدنی قافلوں کے مسافر بھی بنتے رہتے ہیں۔ الحمدللہ عزوجل ! متعدد دنیوی علوم کے دلدادہ بے عمل طلبہ، نمازی اور سنّتوں کے عادی ہوگئے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور اسٹاف کو ضروریاتِ دین سے روشناس کروانے کیلئے اپنی نوعیت کا منفرد “فیضانِ قرآن و سنّت کورس“ بھی شروع کیا گیا ہے، اسلامی بہوں میں بھی یہ کورس جاری ہے۔


مجلس مکتوبات و تعویذات

جیسا کہ گزرا کہ سلف صالحین قدس سرھم کی طرح امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کے قلبِ مبارک میں بھی اُمت کی خیر خواہی کا درہائے بیکراں موجزن ہے۔ اوائل میں آپ دامت برکاتہم العالیہ گھروں اور اسپتالوں میں جاکر مریضوں کو دم کرتے اور تعویذات عنایت فرماتے تھے۔ تقریباً 1972 میں باب المدینہ (کراچی) میں آنکھوں کی ایک پُراسرار بیماری پھیلی، اس سے شاید ہی کوئی محفوظ رہا ہو۔ آپ دامت برکاتہم العالیہ نے مریضوں کی آنکھوں پر فی سبیل اللہ دم کرنا شروع کردیا، اللہ عزوجل کر کرم سے لوگ صحتیاب ہونے لگے، یہاں تک کہ اخبار میں نمایاں طور پر یہ خبر شائع ہوئی کہ آنکھوں کی پُراسرار بیماری جس کے علاج میں ڈاکٹرز ناکام ہو چکے ہیں وہ محمد الیاس قادری (دامت برکاتہم العالیہ) نامی ایک شخص کے دم سے ٹھیک ہونے لگی ہے۔ پھر کیا تھا لوگ دور دور سے آنے لگے اور مریضوں کی قطاریں لگ جاتیں اور آپ دامت برکاتہم العالیہ باری باری دم فرماتے۔


بالآخر آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اُمتِ سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی غمخواری کے مقدس جذبے کے تحت مجلسِ مکتوبات و تعویذاتِ عطاریہ بنائی۔ جس کے تحت دکھیارے مسلمانوں کا تعویذات کے ذریعے فی سبیل اللہ علاج کیا جاتا ہے نیز استخارہ کرنے کا سلسلہ بھی ہے۔ روزانہ ہزاروں مسلمان اس سے مستفیض ہوتے ہیں۔ الحمدللہ عزوجل! اس وقت مجلس کے تحت امیرِ اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ کی جانب سے بلامبالغہ لاکھوں لاکھ تعویذات اور تعزیت، عیادت اور تسلی نامے بھیجے جا چکے ہیں اور تادمِ تحریر (22 صفر المظفر 1428ھ) ایک اندازے کے مطابق مجلس کی طرف سے ماہانہ سوا دو لاکھ اور سالانہ کم و بیش 26 لاکھ سے زائد “تعویذات“ و “اوراد“ دئیے اور کم و بیش 20 سے 25 ہزار مکتوبات بھیجے جا رہے ہیں جن میں E-mail کے جوابات بھی شامل ہیں۔ الحمدللہ عزوجل! ماہانہ 2500 سے زاید آن لائن استخارہ کی ترکیب بھی ہوتی ہے۔ تعویذاتِ عطاریہ کی متعدد بہاریں ہیں جو مکتبۃ المدینہ کے شائع شدہ “خوفناک بلا“، “پُراسرار کتا“ اور “سینگوں والی دلہن“ نامی رسائل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔


مدنی انعامات

آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اسلامی بھائیوں، اسلامی بہنوں اور طلبہ کو فرائض و واجبات، سنن و مستحبات اور اخلاقیات کا پابند بنانے اور مہلکات (یعنی گناہوں) سے بچانے کیلئے “مدنی انعامات“ کی صورت میں احتسابی کا ایک نظام عمل عطا فرمایا ہے، بیشمار اسلامی بھائی، اسلامی بہنیں اور طلبہ مدنی انعامات کے مطابق عمل کرکے روزانہ سونے سے قبل “فکرِ مدینہ“ یعنی اپنے اعمال کا جائزہ لیکر کارڈ یا پاکٹ سائز رسالے میں دئیے گئے خانے پُر کرتے ہیں۔ اسلامی بھائیوں کے لئے 72 مدنی انعامات، اسلامی بہنوں کیلئے 63، اسکولز، کالجز اور جامعات کے طلبہ کیلئے 92، طالبات کیلئے 83 اور مدرسۃ المدینہ کے مدنی منّوں کیلئے 40 مدنی انعامات ہیں۔


مدنی قافلے اور ہفتہ وار اجتماعات

آپ دامت برکاتہم العالیہ کی عطا کردہ تربیت کی برکت سے تیار ہونے والے مبلغینِ دعوتِ اسلامی کے ذریعے دنیا کے کئی ممالک میں “مدنی قافلوں اور ہفتہ وار اجتماعات“ کا مدنی جال بچھایا جا چکا ہے، عاشقانِ رسول کے سنّتوں کی تربیت کے بیشمار مدنی قافلے ملک بہ ملک، شہر بہ شہر اور قریہ بہ قریہ سفر کرکے علم دین اور سنّتوں کی بہاریں لٹا رہے اور نیکی کی دعوت کی دھومیں مچا رہے ہیں، مختلف ممالک میں مدنی کام کیلئے “مجلس برائے بین الاقوالی امور“ قائم کی گئی ہے۔


شراب خانے کا مالک مسلمان ہو گیا

ایک مدنی قافلہ دین اسلام کی بہار سمیٹنے کے شوق میں 30 دن کیلئے نمپولا گیا وہاں ایک شراب خانہ کے مالک مدہن لال نامی کافر پر انفرادی کوشش کی۔ الحمدللہ عزوجل! وہ مسلمان ہو گیا۔ اس کا اسلامی نام عبدالکریم رکھا گیا۔ عبدالکریم نے مسلمان ہونے کے بعد اپنے شراب خانے کو مسجد بنا دیا۔ اور وہاں باقاعدگی کے ساتھ پانچ وقت کی نماز ہوتی ہے۔ اسی مدنی قافلے میں انفرادی کوشش کی برکت سے ایک سابقہ وزیر خزانہ، اس کا سیکرٹری اور اسسٹنٹ مسلمان ہوگئے۔ ان کا پُرانا نام مارشل تھا اور نیا نام محمد اویس رکھا گیا، اسی ماہ ایک مبلغ کی انفرادی کوشش کی برکت سے موجودہ وزیر خزانہ کا مشیر بھی مسلمان ہوگیا، متعدد مقامات پر مدنی تربیت گاہیں قائم ہیں جن میں دور و نزدیک سے اسلامی بھائی آکر قیام کرتے عاشقانِ رسول کی صُحبت میں سنّتوں کی تربیت پاتے اور پھر قرب و جوار میں جاکر “نیکی کی دعوت“ کے مدنی پھول مہکاتے ہیں۔ نئے مبلغین کی تربیت کیلئے مختلف کورسز کا اہتمام ہے مثلاً 41 دن کا مدنی قافلہ کورس، 63 دن کا تربیتی کورس، گونگے بہروں کیلئے 30 دن کا تربیتی کورس، امامت کورس اور مدرس کورس وغیرہم۔


اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار اجتماعات

آپ دامت برکاتہم العالیہ کے دریائے فیض سے جہاں اسلامی بھائی مستفیض ہوتے ہیں وہیں اسلامی بہنیں بھی کسی سے یچھے نہیں ہیں۔ الحمدللہ عزوجل ! اسلامی بہنوں کے بھی شرعی پردہ کے ساتھ متعدد مقامات پر ہفتہ وار اجتماعات ہوتے ہیں۔ لا تعداد بے عمل اسلامی بہنیں باعمل، نمازی اور مدنی برقعوں کی پابند بن چکی ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اکثر گھروں کے اندر ان کے تقریباً روزانہ ہزاروں مدارس بنام مدرسۃ المدینہ (برائے بالغات) بھی لگائے جاتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق فقط (باب المدینہ کراچی) میں اسلامی بہنوں کے تقریباً 2000 مدرسے روزانہ لگتے ہیں جن میں اسلامی بہنیں قرآن پاک، نماز اور سنّتوں کی مُفت تعلیم پاتیں اور دعائیں یاد کرتی ہیں۔


اجتماعی اعتکاف

الحمدللہ عزوجل ! دنیا کے بیشمار مساجد میں دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں “اجتماعی اعتکاف“ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان میں اسلامی بھائی علمِ دین حاصل کرتے، سنّتوں کی تربیت پاتے ہیں نیز کئی معتکفین چاند رات ہی سے عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں کے مدنی قافلوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ یوں اجتماعی اعتکاف کی برکت سے ہزاروں بے نمازی، نمازی بن رہے ہیں اور سنّتوں سے دور رہنے والے سنّتوں کے پیکر بن رہے ہیں۔


بین الاقوامی و صوبائی اجتماعات

دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں مقامات پر دعوتِ اسلامی کے ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماعات کے علاوہ عالمی اور صوبائی سطح پر بھی “سنّتوں بھرے اجتماعات“ ہوتے ہیں۔ جن میں ہزاروں، لاکھوں عاشقانِ رسول شرکت کرتے ہیں اور اجتماع کے بعد خوش نصیب اسلامی بھائی سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلوں کے مسافر بھی بنتے ہیں۔ مدینۃ الاولیاء ملتان شریف (پاکستان) میں واقع صحرائے مدینہ کے کثیر رقبے پر ہر سال تین دن کا بین الاقوامی سنّتوں بھرا اجتماع ہوتا ہے۔ جس میں دنیا کے کئی ممالک سے مدنی قافلے شرکت کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ حج کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post