ماں باپ کی اولاد کوچند مفید نصیحتیں: Maan Baap Ki Apni Aulad Ko Chand Mufeed Naseehateen

 ماں باپ کی اولاد کوچند مفید نصیحتیں:

امامہ بنت حارث کی اپنی بیٹی کو نصیحت:

امامہ بنت حارث تغلبیہ کا شمار عرب میں فضل و کمال رکھنے والی عورتوں میں ہوتا ہے اور اخلاق اور وعظ و نصیحت کے حکیمانہ اقوال بہت مشہور و معروف ہیں جب کندہ کے بادشاہ حارث بن عمرو نے امامہ بنت حارث کی بیٹی ام ایاس بنت عو ف سے شادی کی تو اس دانا ماں نے اپنی پیاری بیٹی کو سہاگ رات کے موقع پر قیمتی وصیتیں کیں۔

میری پیاری بیٹی ! اگر باادب اور شائستہ ہونے کی وجہ سے کسی کووصیت سے بالا تر سمجھا جاتا تو وہ تیری ہی ذات ہوتی ۔ لیکن یہ وصیت ایک عقل والے کے لئے یاد دہانی ہوتی ہے اور غفلت کرنے والے کے لئے تنبیہ ہوتی ہے۔

اے میری پیاری بیٹی ! اگر ماں باپ کی دولت کے باعث کوئی عورت اپنے خاوند سے مستغنی ہوسکتی تو وہ تم ہی ہوسکتی تھی۔ لیکن میری بیٹی !ہم مردوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں جس طرح وہ ہمارے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔

پیاری بیٹی ! جس ماحول میں تم نے جنم لیاتھا آج تم اس سے جدا ہورہی ہو اپنے جانے پہچانے گھر اور مانوس ساتھیوں کو تم چھوڑ کر ایک اجنبی گھر اور نا آشنا ساتھی کے پاس جارہی ہو ‘جو کہ تیرا بادشاہ بن گیا ہے اگرتو اس کی مملوکہ لونڈی بن کر رہے گی تو وہ جلد ہی تیرا خادم بن جائے گا، میری چند نصیحتیں یاد کر کے اپنے ساتھ لیتی جاؤ وہ تیرے لئے بہت کار آمد ثابت ہوں گی۔

ad

v پہلی اور دوسری یہ کہ اپنے خاوند کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہنا ‘ خندہ پیشانی سے اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگی رہنا، کیونکہ صبر و شکر میں دل کو راحت ملتی ہے اور خندہ پیشانی سے ملنے سے رب کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

v اس کی نگاہوں کو سمجھنا اور اس کے ناک کی جگہ کو اپنے جسم سے معلوم کرلینا ایسا نہ ہو کہ اس کی آنکھیں تمہارے کسی عیب پر پڑجائیں اور اس کی ناک تجھ سے اچھی خوشبو ہی نہ سونگھے۔

اے میری بیٹی! یہ جان رکھ کہ حسنوں میں سب سے اچھا حسن سرمہ ہے اور سب سے اچھی مطلوب چیز پانی ہے۔

v اس کے کھانے کے اوقات معلوم کرلینا ،اور جب وہ سو رہا ہو تو خاموش رہنا ، اس لئے کہ بھوک کی گرمی غصہ کو برانگیختہ کرتی ہے اور آرام میں خلل اندازی نفرت اور عداوت کا سبب بن جاتی ہے۔

v اس کے گھر‘مال‘ نوکر چاکر ‘ اور اہل و عیال کی حفاظت کرنی ہے اس لئے کہ مال کی حفاظت میں تیری عزت کا راز ہے اور خادموں اور اہل و عیال کی حفاظت میں گھریلو زندگی اچھی طرح گزر سکتی ہے۔

v اس کا کبھی بھی کوئی راز فاش نہیں کرنا اور اس کے کسی حکم کی نافرمانی نہ کرنا کیونکہ اگر تو نے اس کا کوئی راز فاش کیا تو تو بھی اس کی بیوفائی سے امن میں نہیں رہے گی۔ اور اگر تو اس کے حکم کی نافرمانی کرے گی تو اس کے دل کو غصہ دلائے گی اور اگر وہ کبیدئہ خاطر ہو تو اس کے سامنے خوشی کا اظہار نہ کرنا اور جب وہ خوش ہو تو اس کے سامنے رونے نہ بیٹھ جانا، اس لئے کہ پہلی عادت بد تمیزی کی ہے اور دوسری سے اس کو کوفت ہوگی ، سب سے زیادہ اس کے ادب و احترام  کا خیال رکھنا تو وہ بھی تیری انتہائی عزت کرے گا۔ جتنی زیادہ تو اس کی موافقت کرے گی اس سے زیادہ وہ تیرا ساتھ چاہے گا۔ 

اور یقین کرلے کہ تجھے حقیقی خوشی اس وقت نصیب ہوگی جب تو اپنی مرضی کو اس کی مرضی پر قربان کردے گی اور اپنی خواہش کو اس کی خواہش پر مقدم کرے گی خواہ اس میں تمہارا بھلا ہو یا برا۔

اللہ تمہار بھلا کرے گا میں تمہیں الوداع کرتی ہوں ۔

دوسری نصیحت:

ایک ماں نے اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے وقت نصیحت کرتے ہوئے کہا:

اے میری بیٹی! تو اپنے بدن کو صاف ستھرا رکھنے سے کبھی بھی بے خبر نہ ہونا ، کیونکہ بدن کی صفائی تیرے چہرے کو روشن کردے گی اور تیرے خاوند کے دل میں تیری محبت بسا دے گی اور تیرے جسم سے امراض اور بیماریوں کو دور کردے گی اور گھر کے کام کاج کرنے پر تیرے جسم کو طاقت دے گی اس لئے کہ گندی رہنے والی عورت سے طبعیتیں نفرت کرتی ہیں اور آنکھیں اس کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتیں اور کان سننا نہیں چاہتے۔ جب بھی تو اپنے خاوند کے سامنے ہو تو خوش خوش چہرے کے ساتھ اس کے سامنے ہو اس لئے کہ محبت ایک جسم ہے اور چہرے کا ہشاش بشاش ہونا اس کی روح ہے۔

تیسری وصیت:

دور حاضر کی ایک ماں نے اپنی بیٹی کو درج ذیل وصیت کی :

اے میری بیٹی! تو ایک ایسی نئی زندگی کی طرف جانیوالی ہے جس میں تجھ پر تیری ماں یا تیرے باپ یا تیرے بھائیوں میں سے کسی کا کنٹرول نہیں ہوگا ، تو ایک ایسے شخص کی رفیقہ حیات بننے والی ہے جو تجھ میں کسی کو شریک نہیںکرنا چاہتا ، چاہے وہ تیرے گوشت اور خون کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اے میری بیٹی! تو اس کی بیوی بن کر رہ اور اس پر ماں جیسی شفقت اور مہربانی کرتی رہ اسے یہی محسوس کراتی رہ کہ اس کی زندگی اورا س کا سب کچھ تو ہی ہے اور اس کی دنیا میں سب کچھ تو ہی ہے۔

ہمیشہ کے لئے یہ یاد رکھنا! کہ جو ان عمر لڑکا جو کہ تیرا خاوند ہے اس کو تھوڑی سی بھی میٹھی بات سعادت مندو خوش کردیتی ہے اور اس کو یہ تصور نہ دلانا کہ اس نے تجھ سے شادی کر کے تجھے اپنے  والدین اور خاندان سے محروم کردیا ہے اس لئے کہ اس کے دل میں بھی یہ شعور آسکتا ہے کہ اس نے بھی تیری خاطر اپنے والدین اور خاندان کے ساتھ رہنا چھوڑا ہے۔ لیکن اس میںاور تجھ میں اتنا فرق ہے جتنا مرد اور عورت کے درمیان ہوتا ہے‘ عورت ہمیشہ اپنے خاندان میں اپنے اس گھر کی طرف راغب ہوتی ہے جس میں وہ پیدا ہوئی اور اس نے نشو نما پائی اور بڑی ہوئی اور تعلیم پائی ہو۔ لیکن اس کے باوجود اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو ایسے مرد کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی کیفیت سکھائے جو کہ اس کاخاوند اور بادشاہ بن گیا ہے، اور اس کے بچوں کا باپ بن گیا ہے۔اے میری بیٹی!یہی تیری نئی زندگی ہے ۔اے میری بیٹی! یہی تیرا زمانہ حال و استقبال ہے ‘یہی تیرا کنبہ ہے‘ جو تیرے اور تیرے خاوند کے سبب پیدا ہوا۔ اب سمجھ کہ تیرے ماں باپ گزر گئے میں تجھے یہ نہیںکہتی کہ تو اپنے ماں باپ اور بھائیوںکو بالکل بھلا دے اس لئے کہ وہ تجھے کبھی نہیں بھلائیں گے۔

اے میری بیٹی! ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو کیسے بھلا سکتی ہے لیکن میں تجھے یہ کہتی ہوں کہ تو اپنے خاوند سے محبت کر اور اسی کی خاطر زندہ رہ اور اس کے ساتھ زندگی بسر کر کے خوش بختی حاصل کر۔

چوتھی نصیحت:

محمد بن مثنیٰ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اے میرے بیٹے! اپنے آپ کو اجنبی عورت سے بچا کر رکھنا کیونکہ اس سے کلام کرنا وعید ہے اور اس کی آواز سخت ہے‘ نیکیوں کو دفن کردیتی ہے‘ برائیوں کو پھیلاتی ہے اور تیرے مخالف زمانے کی مدد کرتی ہے اور زمانے کے مخالف تیری مدد گار نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں خاوند کے لئے کوئی نرمی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے دل میں خاوند کا ڈر ہوتاہے۔ اگر خاوند گھر آئے تو وہ باہر نکل جاتی ہے اور اگر وہ گھر سے باہر چلا جائے تو وہ گھر آجاتی ہے اور اگر خاوند ہنسے تو وہ رو پڑتی ہے ‘ اور اگر خاوند کو رونا آجائے تو وہ ہنس پڑتی ہے ۔ اگر خاوند اس کو اپنے پاس رکھے تو وہ اس کے لئے مصیبت بن جاتی ہے اور اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو وہ اللہ تعالی سے کثرت کے ساتھ دعا کر کے خاوند کو اپنی طرف مشغول کرنے میں لگ جاتی ہے۔ لیکن پھر بھی خاوند کے بارے میں اس کا ( رقت آمیز) خیال کم ہوتا ہے ‘سب کچھ کھانے اور  پینے کی چیز ملنے کے باوجود بھی خاوند کی خوب مذمت کرتی ہے ‘ شور بہت کرتی ہے ‘غیر کا مال غصب کر لیتی ہے‘ اس کے فتنے کی آگ بجھتی نہیں ‘ اس کی سخت اندھیری ٹھہرتی نہیں ہے‘ دل کی بہت تنگ ہوتی ہے۔(چہرے اور سر کا)پر وہ کھلا رکھتی ہے‘ بچے کی پرواہ نہیں کرتی‘اور گھر گندہ رکھ چھوڑتی ہے‘ اور وہ ظالم ہوکر بھی روتی ہے اور موقع پر موجود بھی نہیں ہوتی لیکن گواہ بن جاتی ہے ‘ اس کی زبان جھوٹ بولتی ہے اور اس کا خون فسق و فجور بہاتا ہے۔

اللہ ہماری خواتین کو ایسا عادات بد سے بچائے!


Post a Comment

Previous Post Next Post