حضور صدر العلماء میرٹھی علیہ الرحم

***علم وحسن کا مجمع البحرین*** 

———————————
قسط (۲)

 ***حضور صدر العلماء میرٹھی علیہ الرحمۃ والرضوان اور ان کا خاندان***

آفتاب ہند،شیخ العلماءالراسخین،رئیس الاساتذہ والمدرسین،امام النحو حضرت صدرالعلماء محدث میرٹھی علیہ الرحمۃ والرضوان کا سلسلہ نسب: علامہ سید غلام جیلانی بن مولانا سید فخرالدین بن حضرت استاذالمشائخ،امام النحو،حکیم سید سخاوت حسین حافظی،سلیمانی،فخری سہسوانی

***جد امجد*** 

اسم گرامی! سید شاہ سخاوت حسین
تاریخ ولادت! ۱۲۴۰ھ
تاریخی نام! فضل الرحمن /۱۲۴۰
جائے ولادت!قصبہ سہسوان ضلع بدایوں۔یوپی

حضرت صدرالعلماءکے جد امجد(دادا)، زبدۃالکاملین،قدوۃالعارفین استاذ العلماء والمشائخ امام النحو والصرف حضرت علامہ سید شاہ سخاوت حسین صاحب فخری،سلیمانی،حافظی،سہسوانی قدس سرہ النورانی کا خاندانی تعارف صاحبزاده حضرت امین شریعت،حضرت مفتی محمود صاحب قادری رفاقتی نے اپنی کتاب”حیات مخدوم الاولیاء صفحہ ۳۸۶ پر اس طرح کرایا ہے۔

“سلطان چشت اہل بہشت سیدنا مودود حق چشتی رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاد کا خاندان ضلع بدایوں کے معروف قصبہ “سہسوان شریف” میں صدیوں سے آباد ہے۔اسی خانوادہ شرافت ونجابت کےایک خاص فرد فرید حضرت مولانا شاہ سخاوت حسین قدس سرہ تھے۔”

***تعلیم***

آپ نے حصول تعلیم کے لئے ابتداً مرادآباد اور رامپور کا سفر فرمایا اور اس وقت کے مشہور اساتذہ فن سے علوم درسیہ کی تحصیل فرمائ۔پھر بعد میں لکھنؤ اور بریلی بھی گئے اور وہاں عربیت وفقہ و اصول فقہ میں درجہ کمال حاصل کیا بالخصوص علم نحو و صرف میں آپ اپنے وقت کے امام ہوئے۔آپ کے اساتذہ کرام میں سب سے زیادہ مشہور نام وحید عصر،استاذالعلماء حضرت علامہ مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمۃ
 (مصنف علم الصیغہ متوفی ۱۲۷۹ھ) کا ہے۔کہ بزمانہ قیام بریلی آپ سے علم حاصل کیا۔

***بیعت وخلافت***

آپ کو قدوۃالاولیاء،زبدۃالاصفیاء،حضرت حافظ سید محمد علی شاہ صاحب خیرآبادی قدس سرہ القوی کے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل تھا۔ اور انہیں سے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی۔

***فخری،سلیمانی،حافظی،کہلانے کی وجہ ***

اس طرح کی نسبتیں،کئی تاریخ نگاروں نے حضرت استاذ المشائخ سید شاہ سخاوت حسین علیہ الرحمہ کے نام کے ساتھ تحریر کی ہیں۔
اس سلسلہ میں اگر حضرت استاذ المشائخ سہسوانی قدس سرہ النورانی کا شجرہ طریقت اور سلسلہ بیعت و خلافت صرف جد رابع تک پیش نظر رکھا جائے تو ان نسبتوں کی وجہ خود بخود سمجھ میں آ سکتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) استاذ المشائخ حضرت سید شاہ سخاوت حسین قدس سرہ النورانی
(ولادت۱۲۴۰ھ وفات۱۲۹۹ھ)
*مرید وخلیفہ*
(۲) زبدۃ الاصفیاء،قدوۃالاولیاء،شیخ المشائخ حضرت سید شاہ حافظ محمد علی خیرآبادی قدس سرہ النورانی
(ولادت۱۷۷۸ء ۱۱۹۲ھ وفات۱۸۴۹ء۱۲۶۶ھ)

(شیخ المشائخ حضرت سید حافظ محمد علی صاحب خیرآبادی  
 کہ جن کی بارگاہ میں حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی جیسا صاحب فضل و کمال اور نابغہ عصر بھی فصوص الحکم کا درس لینے کے لئے حاضر ہوا ہو۔
*مرید وخلیفہ*
(۳) سراج السالکین قدوۃ العارفین حضرت شاہ محمد سلیمان تونسوی۔قدس سرہ النورانی
(ولادت۱۷۷۰ء۱۱۸۴ھ وفات۱۸۵۰ء۱۲۶۷ھ)

(حضرت شاہ سلیمان تونسوی کہ جن کے لئے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جس قوم سےخواجہ سلیمان تونسوی، شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادی،اور خواجہ فرید چاچڑان شریف والے اب اس زمانہ میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں اسکی روحانیت کا خزانہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
*مرید و خلیفہ*
(۴) رہنمائے کامل، مقتدائے واصل حضرت شاہ خواجہ نور محمد مہاروی قدس سرہ النورانی
(ولادت۱۷۳۰ء۱۱۴۲ھ وفات۱۷۹۰ء۱۲۰۵ھ)
*مرید وخلیفہ*
(۵)شمس العارفین،سراج السالکین حضرت خواجہ شاہ فخر الدین اورنگ آبادی ثم دہلوی قدس سرہ النورانی
(ولادت ۱۷۱۷ء ۱۱۲۶ھ وفات۱۷۸۴ء ۱۱۹۹ھ)

(حضرت شاہ فخر الدین دہلوی کہ جن کے ارادت مندوں کی صف میں شہنشاہ ہند،بہادر شاہ ظفر کا نام بھی بڑا نمایاں نظر آتا ہے، بلکہ خود عالی جاہ بہادر شاہ ظفر اپنے دیوان میں جگہ جگہ ان کی ارادت و کشف برداری پر فخر کرتے ملتے ہیں۔مثلاً 

مرید قطب دیں ہوں،خاکپائے 
فخر دیں ہوں میں
اگرچہ شاہ ہوں،ان کا
غلام کمترین ہوں میں
بہادر شاہ میرا نام ہے
مشہور عالم میں
ولیکن اے ظفر ان کا
گدائے رہ نشین ہوں میں

اس تفصیل کی روشنی میں حضرت سید سخاوت حسین سہسوانی اپنے پیر و مرشد کی طرف منسوب ہو کر “حافظی” اور اپنے دادا پیر کی طرف منسوب ہوکر”سلیمانی”اور شجرہ طریقت میں اپنے جد رابع کی طرف منسوب ہوکر “فخری”کہلاتے ہیں-

*مآخذ و مراجع:

(بشیرالقاری از صدر العلماءمیرٹھی،
حیات مخدوم اولیاء از مفتی محمدمحمود رفاقتی صاحب،صدرالعلماء محدث میرٹھی حیات و خدمات مرتب مفتی ایوب اشرفی شمسی صاحب،
تاریخ مشائخ چشت از پروفیسر خلیق احمد نظامی)

Post a Comment

Previous Post Next Post