Biography of khawaja mohammed yaar Fareedi alvi Garhi Shareef #fidanaama شیخ طریقت حضرت مولانا محمد یار ملقب بہ عبد الغنی المختار




          شیخ طریقت حضرت مولانا محمد یار ملقب بہ عبد الغنی المختار ابن مولانا عبد الکریم (رحمہما اللہ تعالیٰ)۱۳۰۰ھ؍۱۸۸۳ء میں گڑھی اختیار خاں ضلع رحیم یار خاں میں پیدا ہوئے،مولانا رحمت اللہ،مولانا محمد حیات اور مولانا تاج محمود سے علوم دینیہ کی تحصیل کی اور ۱۹سال کیعمر میں سند فراغت حاصل کرلی۔حضرت خواجہ غلام فرید قدس سرہ (چاچڑاں شریف،ضلع ڈیرہ غازیخاں) کے دست اقدس پر بیعت ہوئے۔ حضرت خواجہ صاحب کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد بخش المعروف بہ نازک کریم کی خدمت میں رہ کر دس سال تک کسب فیض کیا اور ان کے مدسہ میں درس کدیا،ان کے وصال کے بعد ایک زمانہ تک ان کے صاحبزادے حضرت خواجہ محمد معین الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں رہے اور اجازت و خالفت سے مشرف ہوئے ۔پھر اپنے وطن گڑھی اختیار خاں چلے گئے اور علوم و معارف کے دریا بہادئے، ۱۳۲۳ھ میں آپ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے[1]

          مولانا کی تقریر حد درجہ دلکش اور پر سوز ہوا کرتی تھی،مسائل تصوف کو کمال خوبی سے بیان کرنا آپ پر ختم تھا۔چونکہ صاحب حال تھے اس لئے ان کی گفتگو بے حد مؤثر ہوتی تھی اور سننے والوں پر محویت کا عالم چطاری ہو جاتا تھا۔ایک دفعہ خانپور  میں تقریری کے لئے تشریف فرما ہوئے اور آغاز تقریر میں فرمایا کہ مخالفین ہمارے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ صرف اچھی آواز کے ساتھ وعظیم کہاں جانتے ہیں اور کسی چیز سے انہیں سر وکار نہیں،آج میں خاموش تقریر کروں گا،مخالفین میں سے کسی میں سکت ہے تو ایسی تقریر دکھائے پھر ھاضرین سے فمریا کہ آنکھیںبند کرلو چند مرتبہ ذکر کرنے کے بعد آپ خاموش ہوگئے،پوری محفل پر سناٹا چھا گیا،تمام حاضرین تین گھنٹے تک چپ چاپ سر جھکائے بیٹھے رہے،وقت گزرنے کا کسی کو احساس تک نہ ہو سکا[2]

          مثنوی مولانا روم کے تو گویا ھافظ تھے،خود بھی شعر کہتے تھے،آپ کا کلام نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور اپنے شیخ کی عقیدت و محبت میں ڈوبا ہوا ہے،اور دیوان محمدی کے نام سے طبع ہو چکا ہے۔آپ کا بلبل اور محمد تخلص کرتے تھے۔

          ۱۴؍رجب،مئی(۱۳۶۷ھ؍۱۹۴۷ئ) پیر کی رات کو لاہور میں آپ کا وصال ہوا اور حضرت میاں میر رحمہ اللہ تعالیٰ کے احاط میں دیوار کے ساتھ بیرونی جانب دفن ہوئے چھ ماہ بعد آپ کا تابوت گڑھی اختیار کاں منتقل کیا گیا جہاں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے[3] ہر سال بڑی دھوم دھام سے آپ کا عرس منایا جاتا ہے جس میں آپ کے ہزاروں مریدین شرکت کرتے ہیں آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا حافظ غلام نازک بلند پایہ فاضل اور سجادہ نشین ہیں۔

 

 

 

 

[1] غلام مہر علی ،مولانا: الیواقیت المہر یہ،ص۱۴۷

[2] بروایت مولانا مختار احمد زید مجدہ،صد رمدرس سراج العلوم خانپور

[3] غلام مہر علی،مولانا: الیواقیت المہریہ،ص۱۴۷

(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

Post a Comment

Previous Post Next Post