Biography Qutb e Raichur Makhdoom Syed Ahmed Shams e Alam Hussaini قطب رائچور سید شمس عالم حسینی

 سوانح حیات قطب رائچور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی چشتی اشرفی رضی اللہ تعالی عنہ 



*ترا در ہے دربارِ رشد و ہدایتــــــــ*

*ترے در پہ قــــــرباں دِلم شمسِ عالم*

*پاتے شفاء ہیں ظاہری اور باطن مریض*

*دارشفاء ہے درگہِ والا سلام لو*

*لاکھوں کو اپنے درسےنوازا ہے اپنے*

*کیجے عطاہمیں بھی خداراسلام لو*

*ترے دید کی منتظــــــــر ہو کے در پہ*

*ہے حاضـر مری چشمِ نم شمسِ عالم*

*ترتیب: مولانا سید شاہ اشرف رضا حسینی اشرفی*

*متولی وسجادہ نشین بارگاہ حضرت قطب رائچور ۔*

*✍تحریر : کریم پاشاہ سہروردی قادری*

*ہاسپیٹ کرناٹک*

*By: Kareem Pasha Suharwardi Qadri*

*HOSPET KARNATAKA*

*رابطہ نمبر : 91+ - 8660103908*

*8904479679 - +91*

*سلسلہ نسب*

*مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ*

*حضرت امام حسین شہید کربلا رضی اللہ تعالی عنہ*

*حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ*

*حضرت سید زید شہید رضی اللہ تعالی عنہ*

*حضرت سید علی اصغر رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید حسین اصغر رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید حسن رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید حسین رضی اللہ عنہ*

*حضرت سیدیحییٰ رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید عمر رضی اللہ عنہٗ*

*حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید عبداللہ رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید حسین رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید زین الدین رضی اللہ عنہٗ*

*حضرت سید شرف الدین رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید سراج الدین رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید زید رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید یحییٰ رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید احمد رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید خضر رضی اللہ عنہ*

*حضرت سید جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ*

*قطب الاقطاب حضرت سید شاہ چندا حسینی قدس سرہ گوگی شریف*

*قطب رائچور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ رائچور*

🔹♦🔹♦🔹♦🔹♦🔹♦🔹♦


*سلسلہ خلافت*

*خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری غریب نواز رضی اللہ عنہ*

*حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رضی اللہ عنہ دہلی*

*حضرت خواجہ فریدالدین گنج شکر رضی اللہ عنہ پاک پٹین شریف*

*حضرت سراج الدین عشمان گجراتی رضی اللہ عنہ*

*حضرت علاؤ الدین پنڈوی بنگالی رضی اللہ عنہ پنڈوہ بنگال*

*حضرت سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کچھو چھا شریف*

*حضرت شیخ سعدالدین زنجانی قدس سرہ گلبرگہ شریف*

*حضرت شیخ عارف ضیاءالدین قدس سرہ گلبرگہ شریف*

*قطب الاقطب حضرت سید شاہ چندا حسینی قدس سرہ گوگی شریف*

*قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ رائچورشریف*

*اجداد کرام کی مختلف ممالک سے ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف آوری*


*قطب رائچور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ رائچور کے اجداد کرام میں حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ بن حضرت سید یحیی رضی اللہ عنہ نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں مدینہ منورہ سے عراق کا قصد فرمایا یہ وہ زمانہ تھا جس میں زیادہ سے زیادہ اولیائے اکرام نے عجم کارخ فرمایاتھا اور اشاعت اسلام کے لیے سب سے پہلے عراق کی سرزمین کو منتخب کیا تھا ۔*

حضرت سید محمد رضی اللہ عنہ نے عراق پہنج کر اس علاقہ میں اپنے اجداد کرام کا فیض پھیلایا

آپکی اولاد بصرہ وغیرہ میں پھیل گئی اور عراق میں ہر طرف اس خانوادہ کےاولیاء اکرام سے دین اسلا م کی کرنین چمک گائیں اسطرح آپکے سلسلہ کے اولیائے اکرام پانچویں صدی ہجری میں ایران پہنچے اور یہاں پرچم اسلام کو بلند فرمایا آج بھی عراق اور ایران کے مختلف علاقوں میں ان اولیاء اکرام کی بارگاہ ہے مرجع جن وہ بشر ہے

قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ کے اجداد اکرام میں حضرت سید یحییٰ رضی اللہ عنہ بن حضرت سید زید رضی اللہ عنہ نے 668ہجری میں ملتان کا قصد فرمایا اور یہاں تشریف لائے اور آپ کی اولاد ملتان سے گجرات تک پھیل گئی چنانچہ آپ کے سلسلے کے اولیاء اکرام کی بارگاہ ہیں آج بھی کچھ میں موجود ہیں

حضرت قطب رائچور کہ جد امجد

حضرت سید شاہ جہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے بھائی حضرت سید شاہ عجب شیر حسینی رضی اللہ عنہ کے ہم راہ جنوبی ہندوستان کی سمت چلے اور گلبرگہ شریف کی سرزمین پر رونق افروز ہوئے ۔


*جد امجد کی کرامات کا ظہور*

*======ٓ=============*

حضرت سید شاہ ٓجہانشیر حسینی رضی اللہ عنہ جب گلبرگہ شریف تشریف لائے تو فیروز شاہ بہمنی نے آپ کی قدر شناسی کرتے ہوئے آپ کو اور آپ کے بھائی کو اپنی فوج میں اعلی عہدوں پر مقرر کیا آپ دونوں حضرات فوج میں بر سر خدمات تھے کے اس عجیب وغریب کرامات سے بہمنی حکومت ‏دہل اٹھی کہ ایک دن فیروز شاہ بہمنی اپنے فوجی دستہ سمیت شکار کیلئے نکلا ہوا تھا

جس میں یہ دونوں بزرگ بھی شامل تھے جب بادشاہ شکار سے سیر ہوا تو واپس کا حکم دیا بادشاہ کی سواری جاہ و حشم کے ساتھ جب محل پہنچی تو اسکی شہزادی بالا خانہ پر کھڑی شاہی جلوس کی آمد کامنظر دیکھ رہی تھی کیا دیکھتی ہے کے بادشاہ کہ سر پر دو گھوڑے سوار ہوا میں اڑے چلے آ رہے ہیں یہ دیکھ کر اسکے ہوش اڑگئے جب بادشاہ قصر شاہی میں داخل ہوا تو شہزادی نے حیرت سے چشم دید حالات بتادئے ۔

شہنشاہ پر یہ سنکر سناٹا چھا گیا اور کہنے لگا کہ اس سے بے خبر ہوں کہ میری فوج میں ایسے باکمال اور خدار سید بزرگ موجود ہیں ۔

چنانچہ اس نے ان دونوں کی خفیہ تلاش کا حکم دیا جاسوس اس کام پر معمور ہوگئے کئی دن یہ جستجو جاری رہی لیکن ان بزرگوں کا پتہ نہ چل سکا اس دوران ایک دن ایسا شدید طوفان آیا کے بڑے بڑے تن آور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جاسوس اس کام میں لگے ہوئے تھے گشت کرتے کرتے وہ ایسے خیمے پر پہنچے کہ طوفان بادو باران کے باوجود اس خیمے میں چراغ جل رہا ہے اور دونوں بزرگ تلاوت قرآن مجید میں مصروف ہیں ۔ان دونوں جاسوسوں نے لوٹ کر بادشاہ کو اس کی خبر کی اور غیب سے ان دونوں حضرات نے یہ معلوم کر لیا کے سلطان نے ہماری ولایت کو جان لیا ہے اور خدا سے ہمکو یہ حکم ہے کے ولایت راز میں رکھی جائے لہازا اب ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے کوچ کر جائے ۔


*قطب رائچور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی چشتی اشرفی رضی اللہ عنہ*

*ولادت مبارک*

*====================*

آپ کی ولادت مبارک 15رجب 838ہجری کو گوگی شریف میں ہوئی۔

آپ کا اسم مبارک حضرت سیدشاہ احمد حسین ہے

مگر والد ماجد کے دیئے ہوئے لقب سید شاہ شمس عالم حسینی سے مشہور ہوئے

والد ماجد نے سلسلہ چشتیہ اشرفیہ کی بیعت خلافت سے سرفراز فرمایا ۔

*کرامات کا ظہور اور*

*=================*

والد ماجد مرشد برحق کے زیر تربیت کم عمری میں آپ نےعلم ظاہری و باطنی میں اعلی مقام حاصل کیا ۔

اپنی عمر شریف کے اٹھارویں سال میں پہنچے تو آپ سے اس کرامت کا ظہور ہوا کہ ایک دن والد ماجد ومرشد برحق نے آپ سے وضو کے لئے پانی طلب فرمایا اور آپ نے پانی حاضر کیا مگر درخت پر بیٹھے ایک کوے نے اس پانی میں بیٹ کردی جس پر حضرت قطب رائچور نے نظر جلال سے اس کوے کو دیکھا جس کے ساتھ ہی کوا زمین پر گرا اور مرگیا ۔

والد ماجد نے ارشاد فرمایا کے اس قدر جلال فوراہی حضرت قطب رائچور نے نظر جمال سے اس کوے کو دیکھا تو کوا زندہ ہوکر اڑ گیا ۔


*گوگی شریف سے روانگی*

*=======================*

اس کرامت کو ملاحظہ فرمانے کے بعد والد ماجدو مرشد برحق نے ارشاد فرمایا کہ اس کرامات کے ظہور سے یہ ثابت ہے کہ تم نے اپنی ولایت کہ کامل مقام کو پا لیا ہے جو قطبیت کا درجہ ہے ۔

اور آپ کو شمس عالم کے لقب سے نواز تے ہوئے فرمایا کے تم اپنے مقام ولایت و قطبیت کے لیے رخصت ہو جاؤں ۔

اور آپ کے مقام ولایت و قطبیت کو راز میں رکھتے ہوئے دو تاڑ پھل عنایت فرمائے اور کہا کے اشنائے سفر جہاں کہیں سب میں قیام کرو ان تاڑ پھلوں کو زمین میں بوؤ اگر صبح میں ان میں کو نپلین نکلیں تو وہی تمہارا مقام ہوگا ۔

ان تاڑ پھلوں کو لئے جن میں راز ولایت و قطبیت پوشیدہ تھا ۔

856ہجری میں آپ گوگی شریف سے روانہ ہوئے اور دورانی سفر ہزاروں افراد کو داخل اسلام کرتے رہے اور جہاں کہیں شب میں قیام فرماتے وہاں ان کو زمین میں بوتے صبح میں ان میں کونپلین نہیں نکلتیں تو وہاں سے نکل جاتے ۔

*معجزہ موسوی کی کرامت*

*===================*

اس طرح اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے جب آپ دریائے کشنا پر پہنچے تو ملا حظہ فرمایا کہ دریا اپنی پوری قوت کے ساتھ لبالب بہہ رہا ہیں

آپ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور بسم اللہ کہہ کر جوں ہی اپنا قدم مبارک پانی میں رکھا دریا کا پانی نہ صرف پھٹ گیا بلکہ اس میں خشک راستہ بن گیا جس سے آپ نے دریا کو عبور فرمایا ۔

جس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے دریا ئے نیل کو پھاڑ دیا تھا اس معجزے کی تجلی خدا نے آپ کی اس کرامت میں عطا فرمائی جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے مخصوص اولیاء اکرام کو انبیائے اکرم کے معجزات سے منور کرامات عطا فرمائے ۔

*استدر جی طاقت کا خاتمہ*

*=================*

دریائے کرشنا کو عبور فرما کر جب آپ رائچور والے کنارے پر پہنچے تو ملا حظہ فرمایا کہ استرارجی و شیطانی طاقت کا حامل ایک جوگی بیٹھا ہوا ہے جو پورے دو آ بے پر قابض آپ نے اپنی کرامت سے اسے وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کردیا اس طرح رائچور کرشنا سے تنگبھدرا تک جو باطل ظلمت کے قبضے میں تھا اس پورے علاقے کو نور ایمانی سے منور کردیا۔

کرشنا کے رائچور والے کنارے پر آپ کے رونق افروز ہونے سے قبل پورے علاقے پر استدراجی جوگی کا موجود اورقابض رہنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ آپ کی رائچور تشریف اوری سے پہلے اللہ کے کسی ولی کا یہاں آنا نہیں ہوا تھا بلکہ پہلے داعی اسلام کی حیثیت سے رائچور میں جلوہ افروز ہوئے۔


*رونق افروز رائچور*

*================*

دریائے کرشنا کو عبور فرما نے اور جوگی کو بھگا دینے کے بعد آپ نے وہاں قیام فرمایا جہاں اس مقام پر ایک زیارت گاہ ہے ۔

جو موضع گرڈور میں واقع ہے وہاں بھی آپ نے کچھ دیر قیام فرمایا پھر وہاں سے چل کر اس مقام پر رونق افروز ہو ئے جہاں اب آپ کی بارگاہ ہے اس جگہ قیام فرمایا یہاں خانقاہ شمسیہ واقع ہے اور والد و مرشد کے دئے ہوئے تاڑ پھل زمین میں بوئے اور ان پر مغرب عشاء کا وضو فرمایا فجر سے پہلے ان میں کو نپلیں نکل آئیں اور دیکھتے وہ دونوں تن آور درخت بن گئے اس طرح رائچور آپ کا مقام ولایت و قطبیت بن گیا جسکی طرف والد و مرشد نے تاڑ پھلوں کی شکل میں نشاندی ہی فرمائی تھی اور آپ نے اس طرح 856ہجری سے رائچور میں قیام فرمایا ۔

تاڑ کے وہ دونوں درخت 1300ہجری کے اوئل تک موجود تھے جو حضرت سید شاہ مصطفی حسینی سجادہ نشین 12 کے عہد سجادگی میں گر گئے جن کا بقیہ حضرت سجادہ نشین کہ پاس تبرکات میں موجود ہے ۔

*دانتوں کی کرامت*

*===============*

آپ کو رائچور تشریف لائے ہوئے چند روز ہی گزرے تھے کہ بہمنی حکومت کے طرف سے مقررہ رائچور کہ حاکم کی بیوی کا گزر اس مقام سے ہوا جہاں آپ قیام فرماتے تھے ۔

اس کی نظر آپ کے چہرہ انور پر پڑی تو وہ آپ کے حسن و جمال پر حیرت زدہ رہ گئی کہ آپ کو اللہ تعالی نے حسن یوسفی عطافرمایا تھا۔

مگر آپ کے دو دندان مبارک لب ہائے مبارک سے کچھ باہر تھے جس کو اس عورت نے متسیوب سمجھا جس کی اسکویہ سزا ملی کے اس کی بتسیی جڑ سے نکل گئی اس سزا پر وہ پریشان ہو کر اپنے محل کو واپس ہوئی اور شوہر سے سارا واقعہ بیان کیا جس پر شوہر نے کہاں کے تو نے ایک ولی کامل اور قطب کی بارگاہ میں گستاخی کی ہے وہی تیری خطا معاف کریں تو تیری مشکل آسان ہوسکتی ہے ۔

شوہر کی اس ہدایت پر وہ عورت اپنے شوہر کو ساتھ لئے ہوئے بارگاہ قطب رائچور میں حاضر ہوئی اور حضور کی بارگاہ میں معافی طلب کرنے لگی آپ نے اس کی اس ندامت پر فرمایا کہ ہم نے تیری خطا معاف کردی تو اپنے تمام دانت اپنے منہ میں ڈال لے اس نے جیسے ہی منہ میں ڈال لئے تمام دانت اپنی اپنی جگہ پر جم گئے ۔

اس کرامت کو دیکھ کر ان دونوں نی حضرت قطب رائچور کی بیعت حاصل کیا اور وہ دونوں حاکم رائچور عبدالرحمان اور اس کی اہلیہ فاطمہ روضہ مبارک میں حضور کہ پائین میں مدفون ہے ۔

*مردہ زندہ ہوا*

*=============*

ایک دن ایک لاولد عورت حضرت قطب رائچور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کے بے اولاد ہوں مجھے اللہ تعالی سے ایک بچہ دلائیے آپ نے اسے بچہ ہونے کی بشارت دی ۔

آپ کی خوش خبری کہ مطابق کس عورت کو بچہ ہی پیدا ہوا مگر یہ بچہ چند ماہ زندہ رہنے کے بعد مر گیا ماں پریشان ہوئی اور مردہ بچے کو لیئے ہوئے آپ کی خانقاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کے حضور میرے اس بچے کو میرے لیئے زندہ کر دیجئے ۔

اس کی آہ وزاری پر رحم فرماتے ہوئے حضرت قطب رائچور نے اس مردہ بچے سے فرمایا خم باذن اللہ آپ کی زبان مبارک سے ان کلمات کا نکلنا ہی تھا وہ بچہ زندہ ہوگیا (سبحان اللہ ) ۔۔

*جانشین کا تقرر*

*===============*

قطب رائچور حضرت سرکار شمسیہ قدس سرہ نے اپنے وصال مبارک سے کچھ عرصہ قبل اپنے حقیقی بھتیجے حضرت سید شاہ علی حسینی صاحبزادہ حضرت سیدشاہ نور عالم حسینی قدس سرہ کو (جن کا مزار گوگی شریف میں جالی مبارک میں جنوبی دروازہ سے متصل ہے)

خلافت سے سرفراز فرما کر اپنا ولی عہد و جانشین مقرر کیا ۔

اور آج تک سجادہ نشینی آپ کے برادرز ادوں میں تسلسل اور وراثت کے ساتھ قائم یے ۔۔

*اسلام کی اشاعت*

*============*

حضرت قطب رائچور قدس سرہ رائچور میں رونق افروز ہوتے ہی اسلام کی اشاعت کا مرکز بنتا گیا ۔

اور کفل و شرک و بد مذہبی کا اندھیرا دور ہوکر رائچور اسلام کے جلوؤں سے منور ہوا ۔۔

آپ کی کرامات کو دیکھ کر لوگ دور دراز سے آتے اور فیوض و برکات حاصل کرتے گئے یہی نہیں بلکہ اطراف و اکناف کے غیر مسلم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور ایمان و اسلام کی دولت لا زوال سے مالامال ہوتے گئے ۔

آپ اس علاقے میں ایک داعی اسلام کی حیثیت سے تشریف لائے ۔

رائچور میں آپ نے پوری 36سال اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں اسلام کی منور کرنین دور دور تک پھیلائیں اور اسلام کی اشاعت کا فریضہ انجام دیا ۔

جس کو آپ کے ہر سجادہ نشین نے جاری رکھا ۔

*وصال مبارک*

*========*

قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ بے شمار بندگان خدا کو فیوض و برکات سے نواز کر 15صفر 892ہجری میں محمود شاہ ثانی بہمنی کے دور حکومت میں وصال فرمایا ۔

ولی عہد و جانشین اور آپ کے حقیقی بھتیجے حضرت سید شاہ علی حسینی قدس سرہ آپ کے پہلے سجادہ نشین ہوئے جو بلا شرکت غیر ے درگاہ شریف کہ نگران مقرر ہوئے ۔۔

*عرس شریف*

ہر سال 14صفر سے 16تک انتہائی دھوم دھام سے آپ کا عرس منایا جاتا ہے دکن کے مشہور و معروف اور بڑے عرسوں میں سے ایک عرس یہ بھی ہے جو تقریبا تین ہفتے جاری رہتا ہے ۔

پندرہویں سفر کی شب میں حضرت سجادہ نشین قبلہ صندل مالی کی خدمت انجام دیتے ہیں ۔

سقوط حیدرآباد سے قبل عرس شریف کا بے مثال اہتمام ہوتا تھا ۔

نظام الملک آصفجاہ سادس نے اپنے ایک فرمان کے ذریعہ تعلقدار تحصیلدار اور دیگر اعلیٰ حکام کو بہ نفس نفیس صندل مالی میں شرکت لازمی کر دی تھی ۔

صندل مالی کے عین وقت 21توپوں کی سلامی دی جاتی تھی جس کےپورے شہرکو معلوم ہو جاتا تھا کےاب صندل مالی انجام پارہی ہے ۔۔

صندل کے جلوس میں اونٹوں گھوڑوں کا دستہ اور پولیس کی جمعیت شامل ہوتی تھی اور چراگاہ کے دن ایک دن سرکاری تعطیل عام ہوا کرتی تھی ۔

اس دور میں بھی شایان شان عرس کی تقاریب منعقد ہوتی ہیں ۔

جو تقریبا تین ہفتے جاری رہتی ہیں ۔۔


*امراض سے شفا یابی اور مشکلات سے نجات*

*=================*

مختلف امراض کے شکار لوگ جب مختلف ڈاکٹروں اور اطباء کے علاج سے بھی لاعلاج رہ جاتے ہیں ۔

اور مختلف مسائل اور مشکلات کے شکار افراد انہیں آپ کی بارگاہ میں مسلسل 11جمعرات حاضری کی ہدایت دی جاتی ہے ۔

11گیارہ جمعرات مکمل بھی نہیں ہوتے کہ وہ شفا اور مشکلات سے نجات حاصل کرتے ہیں اور زندگی بھر جمعرات کے عادی ہوجاتے ہیں ۔۔


*نومولود بچوں کے دانتوں کا آسانی سے نکلنا*

*=======================*

نومولود بچوں کہ دانت آسانی سے نکلنے کیلۓ عورتیں اپنا معروضہ اور منت حضرت قطب رائچور کی بارگاہ میں پیش کرتی ہیں ۔

اور حضور کی کرامت سے بچوں کے دانت بلاکسی تکلیف کے آسانی سے نکل آتے ہیں ۔

جس پر حضور والا کے آستانے پر انارکی فاتحہ پیش کی جاتی ہے ۔

دانتوں کی یہ کرامت حاکم رائچور کی بیوی کے دانت دوبارہ جما دینے کی کرامت کے بعد سے آج تک جاری ہے ہے ۔

*تازہ کرامات*

*==!!!!!======*


اخبار اقدام حیدرآباد 27جمادی الثانی 1372ہجری کی اشاعت میں قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ کی ایک تازہ سنسنی خیز مظاہرے نے رائچور کے عوام کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان نے تقریبا 3بجے درگاہ حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی میں گھس کر نزرانے کے ڈبے کی چوری کرنی چاہی اور صندوقچہ لینے جوں ہی آگے بڑھا ایک زوردار ٹھوکر کگی اور وہ زمین پر گر پڑا ۔

اور غریبی مار سے وہ چیخنے چلانے لگا ۔

اس کی آواز سن کر قریب ہی پولیس ہیڈ کوارٹر میں ہاکی کھیلنے والے سپاہی دوڑ تے ہوئے درگاہ میں پہنچے کیا دیکھتے ہیں کہ ڈبہ اس نوجوان کے ہاتھوں سمیت اس کے ہونٹوں سے چمٹ گیا ہے اور باوجود کوشش کے چھوٹنے کا نام نہیں لیتا ۔

اس کرامت نے لوگوں کو دنگ کردیا اور حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی رحمتہ اللہ علیہ کے اس جلال سے لوگ گھبرائے ہوئے ہیں۔

اس سزا کے بعدکے کہیں وہ ڈبہ منہ سے الگ ہوا لیکن وہ نوجوان بتایاجاتا ہے کہ پاگل ہوگیا ہے ۔


*تعمیرات درگاہ شریف*

*================*

قطب رائچور حضرت سیدشاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ رائچور کے وصال فرمانے پر رائچور کہ اس وقت کہ حاکم اور اسکی زوجہ (جس کے دانت حضور کی کرامت سے گرے اور پھر جڑ گئے تھے)

نے مزار شریف کے اطراف کھلی چار دیواری تعمیر کروایا اسکے علاوہ انہوں نے خوبصورت مسجد

مسجد کے شمال میں باولی اور مسجد کہ جنوب میں سرا تعمیر کرایا۔۔

حضرت قطب رائچور کا مزار شریف رائچور کی آبادی سے دور واقع ہونے کی وجہ سے ایک عاصے تک وہاں مزید تعمیرات کی ضرورت نہیں پڑی مگر 1300ہجری کہ اوائل میں ہرزمانہ سجادگی

سجادہ نشین 13حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی رحمتہ اللہ علیہ لب سڑک باب الداخلہ اور درگاہ شریف کے سامنے مزہبی مجالس منعقد کرنے کیلئےدرگاہ شریف کی اراضی میں سامنے عالم سرا کے نام سے ایک عمارت بنوائی ۔

چونکہ حضرت قطب رائچور کے پہلے سجادہ نشین آپ کے برادرزادہ حضرت سید شاہ علی حسینی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر چودھویں سجادہ نشین حضرت سیدشاہ احمد حسینی صاحب تک تمام سجادگان گوگی شریف میں ہی مخیم رہا کرتے تھے اور سجادہ نشیں 15حضرت مولانا ابومحمد سید شاہ چندا حسینی صوفی اشرفی رحمتہ اللہ علیہ نے 21سال کی عمر میں سجادگی پر فائز ہونے کے بعد رائچور میں مستقل خیام کو ترجیح دی آپ کا دور سجادگی درگاہ شریف کی خدمت اور ترقی اور سلسلے اشرفیہ کے فروغ کیلئے ایک زرین دور تھا آپ نے سجادگی پر فائز ہوتے ہی سب سے پہلے درگاہ شریف کی تعمیرات کی طرف اولین توجہ فرمائی اور سب سے پہلے مزار حضرت قطب رائچور پر گنبد کی تعمیر کا کام شروع کیا اور اس چوکنڈی پر پانسو سال سے تھی پتھر کی خوبصورت مضبوط وسیع وعریض گنبد تعمیر فرمائی جس کا تعمیری سلسلہ 1363ہجری سے 1381ہجری تک جاری رہا اس تعمیر میں حضرت سجادہ نشین کے جان نثار معتقدین مُریدین وابستگان سلسلہ نے بڑھ چڑھ کرتعاون عمل کیا جسکی ممالیت آج کہ دور میں تقریبا ایک کروڑ ہوا سکتی ہے ۔

حضرت سجادہ نشین 15کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک خانوادے کے تمام افراد کے لئے فخر یہ کارنامہ ہے جو حضرت قطب رائچور کئی بارگاہ میں خراج عقیدت ہے ۔

گنبد اور چوکھنڈی مبارک کے مشرقی میں اشوک سندھے نے 1388میں خوبصورت ورانڈہ تعمیر کرایا اور لتاپر شاد کے تعمیر کر وہ باب الداخلہ کی کمان پرفا رونق انور کمپنی رائچور نے میناروں سے تزئین کی۔

حاکم وقت کے تعمیر کر وہ سرا کو حضرت سجادہ نشین 15نے لنگر کھانے میں تبدیل کیا اور 1402ہجری میں اپنے وصال تک درگاہ شریف کہ احاطہ کی دیواروں صحن میں فرشی و غیرہ کام جاری رکھا ۔

مگر آپ نے مسجد کی تعمیر کے لئےجو نقشہ موزوں فرمایا تھا اس نقشے پر سید اشرف رضا حسینی متولی جانشین 14ربیع الاول 1427ہجری کو تعمیر کا آغاز کیا اور21محرم 1429ہجری کو قدیم مسجد باقی رکھتے ہوئے خوبصورت وصی و کشادہ مسجد کی تعمیر مکمل کی اور ساتھ میں مسجد کے سامنے وہ دروہ حوض کا بھی دعوت نظارہ دیا ۔۔

*اخیر میں بارگاہ قاضی الحاجات میں دعا گو ہوں کہ موالے پاک اپنے محبوب پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل حضرت سید شاہ شمس عالم حسینی قدس سرہ کے مرقد منور پہ رحمت و انوار کی بارشیں برسائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کی یاد منانے اور ان کے نام نذر و نیاز کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی بھی توفیق خیر مرحمت فرمائے۔*

*آمین۔ یا رب العالمین۔ بجاہ النبی الامین۔*

*صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ ومن تبعھم اجمعین۔*


*انشاءاللہ نقشہ ڈاکومنٹری*

*حضرت شاہ کلیم اللہ دہلوی چشتی رحمتہ اللہ علیہ*


Post a Comment

Previous Post Next Post