حضرت علامہ سید غلام جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ Biography Hazrat Syed Ghulam Jilani Merthi |Sayed Gulam Jilani Meerathi|غلام جیلانی میرٹھی صدرالعلما

حضرت علامہ سید غلام جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ (عرس۲۹ جمادی الاولی)۔



٭…… مخدومِ ملت،فخرالمتکلمین،عمدۃ المحققین،استاذالاساتذہ ، صدر ا لعلماء، امام النحو،حضرت علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْہ کی ولادت با سعادت۱۱رمضان المبارک ۱۳۱۷ ؁ھ بمطابق ۰ ۱۹۰ ؁ء کودادوں (ریاست علی گڑھ ) ہند میں ہوئی ۔


٭……آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْہ کی ابتدائی تعلیم تربیت گھر پر ہوئی ،بعد ازاں اجمیر ومرادآباد میں وقت کی نامور درس گاہوں مایہ ناز علماء سے اکتسابِ فیض کیا،دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی سے سندِ فراغت حاصل کی،حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان نے دستارِ فضیلت سے نوازا،قدوۃ السالکین اشرف المشائخ سید علی حسین کچھوچھوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْہِما سے بیعت وخلافت سے مشرف ہوئے،آپ کے اساتذہ میں صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی اور صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْہِمَا کانام محتاجِ تعارف نہیں، آپ علم وفضل میں یگانۂ روزگار اور اپنے دور کے امام النحو ہیں،جاہ وحشم ،علم وفضل آپ کی ذات سے نمایاں اور تاباں تھا،بلند وبالا منصب پر پہنچ کر اطراف واکنافِ عالم میں مشہور ہوئے،آپ کی شخصیت خواص وعوام میں صدرالعلماء سے متعارف ہے۔


٭……آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْہ تا حیات درس وتدریس سے منسلک رہے،اپنے علمی خزانہ کے گوہرہائے آبدار کی چمک سے رشد وہدایات کے مینار تعمیر کئے ،علوم وفنون کے دریا بہائے، مسندِ تدریس کو عروج وکمال تک پہنچایا،ترقی کی بلند ترین منازل سے مزین کیا،آپ کی ذات ملجائے خواص وعوام اور مرجعِ اصاغر واکابرتھی،وقت کے ممتاز علماء وفقہاء نے آپ کے سامنے زانوئے علم وادب تہہ کئے،آپ کی کوششوں سے علوم وفنون کی ترویج ہوئی، آپ کی علمی بصیرت اور دینی خدمات کا زمانہ معترف ہے،آپ کی مثالی اور عبقری شخصیت نے تحقیقی اور تجدیدی خدمات سے علم میں ایک نئی جان ڈال دی،آپ کی تصنیفات میں سے ’’البشیرالقاری شرح صحیح البخاری،البشیر الناجیہ ،البشیرالکامل‘‘ کی جہاں میں دھوم مچی ہے ۔


٭……آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْہ نے ۲۹ جمادی الاولی ۱۳۸۹ ؁ھ بمطابق ۸مئی۱۹۷۳ ؁ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک مدرسہ اسلامیہ عربیہ اندر کوٹ میرٹھ (ہند) میں زیارت گاہِ خواص وعوام ہے۔


صدر العلماء امام النحو علامہ سید غلام جیلانی میرٹھی کی خدا داد صلاحیتوں پر جھوم جھوم جائیں

کسی طالب علم نے سوال کیا حضور! امام اہل سنت کے تعلق سے میرا بھی ایک سوال ہے اور وہ یہ کہ سیدی اعلی حضرت کا یہ شعر کہ

ممکن میں یہ قدرت کہاں، واجب میں عبدیت کہاں

حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

اس میں،، یہ بھی ہے خطا،، یہ،، جو اسمِ اشارہ ہے اور،، یہ بھی نہیں،، میں لفظِ،، یہ،، جو دوسرا اسمِ اشارہ ہے اِن کا مشارٌ الیہ کون ہے؟ اور وہ بھی نہیں،، میں لفظِ،، وہ،، جو ضمیر ہے اس کا مرجع کیا ہے اور اس شعر کا مطلب کیا ہے؟

جواب: حضرت صدر العلماء نے فرمایا دیکھو! مرجع میں تعمیم ہوتی ہے خواہ مذکور ہو یا محذوف اور یہاں محذوف ہے اسی طرح مشار الیہ میں خواہ صراحتاً مذکور ہو یا عبارت سے مفہوم ہوتا ہو اور یہاں عبارت سے مستفاد ہوتا ہے

باقی رہی یہ بات کہ اس شعر کا مطلب کیا ہے؟ تو یہ کلام،، امام الکلام،، کا ہے اسی لئے یہ قرآن و حدیث کا ترجمان ہے امام اہل سنت منطقیانہ اور فلسفیانہ انداز میں بارگاہ رسالت میں عرض کرتے ہیں

اے جانِ عالمین! اے گلشنِ ہستی کی اولیں فصلِ بہار آپ ممکن، آپ کی ذاتِ گرامی ممکن، اے میرے رسول! شانِ عبدیت کے باوجود قدرتِ کاملہ پر یہ عبور کہ مُردوں کو زندہ کر دیا، چاند کے دو ٹکڑے کر دئیے، سورج کو پلٹادیا، درختوں سے سجدہ کروا لیا، کنکریوں سے کلمہ پڑھوا لیا، آگ کو حکم دے دیا :یا نارُ کُونی بردا و سلاما علی عمّار، اے آگ! سلامتی کے ساتھ عمّار پر ٹھنڈی ہو جا اور وہ ٹھنڈی ہو گئ

 تو فی نفسہ ممکن میں یہ قدرت کہاں کیونکہ ایسی قدرت اور ایسا فاعل مختار ہونا مقتضی ہے اس ذات کا جو واجب الوجود ہو اور آپ ممکن الوجود ہیں تو اقتضائے قدرت اور تقاضائے فاعل کا لحاظ کرتے ہوئے اگر احمد رضا آپ کی ذاتِ گرامی کو واجب الوجود کہے,, تو واجب میں عبدیت کہاں،، اس لئے کہ عبدیت امکان چاہتی ہے اور معبودیت وجوب ، عبدیت اور معبودیت میں تنافی ہے، امکان اور وجوب میں تناقض ہے

ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ ممکن الوجود واجب الوجود ہو جائے اور واجب الوجود ممکن الوجود ہو جائے تو جب واجب میں عبدیت ہے ہی نہیں اور ممکن میں فی نفسہ یہ قدرت نہیں تو اِس حیرت انگیز شانِ عبدیت نے رضا کو متحیر کر دیا کہ جس محیر العقول قدرت کا ظہور ممکن بالذات سے ممکن ہی نہ تھا، اُس کا صدور آپ کی ذاتِ گرامی سے ہوا، تو اے میرے رسول! اب اگر احمد رضا آپ کو قادر بالذات کہے تو،، یہ بھی ہے خطا،، اور قادر بالعطا ہونے کی نفی کرے تو،، یہ بھی نہیں،، اور ہر ممکن بالذات کو آپ جیسا قادر کہے تو،، وہ بھی نہیں،، تو اول اسمِ اشارہ کا مشارٌ الیہ قادر بالذات ہونے کی نفی ہے اور دوم کا مشارٌ الیہ قادر بالعطا ہونے کا اثبات ہے، کیونکہ جب نفی پر نفی وارد ہوتی ہے تو اثبات ہوتا ہے اور ہر ممکن الوجود آپ جیسا قادر نہیں، یہ اس ضمیر کا مرجع ہے

ممکن میں یہ قدرت کہاں، واجب میں عبدیت کہاں

حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

قیام گاہ سبحان اللہ کی صداؤں سے گونج رہی تھی، طلبہ پکار اٹھے حضور! یہ سوال بہت سے دانشوروں سے کیا تھا، تشنگی باقی تھی،مگر جو تشریح آپ نے فرمائی، اس سے ایمان تازہ ہو گیا اور حق تو یہ ہے کہ آپ نے حق تشریح ادا کر دیا

(حضور صدر العلماء ایک تاریخ ساز شخصیت ص 307)

Post a Comment

Previous Post Next Post