Biography Meer Sayyed Ahmad Kalpavi |Dargah Hazrat meer sayyed Muhammad tirmizi Alaihi| حضرت سیداحمد کالپوی



حضرت سیداحمد کالپوی﷫

نام ونسب: اسم گرامی: حضرت میرسیداحمد۔لقب:کالپی شریف کی نسبت سے’’کالپوی‘‘ کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:میر سید احمد کالپوی  بن  میر سید محمد کالپوی بن  حضرت ابو سعید بن بہاء الدین  بن عماد الدین بن اللہ بخش بن سیف الدین بن مجید الدین بن شمس الدین بن شہاب الدین بن عمر بن حامد بن احمد الزاہد الحسینی الترمذی ثم الکالپوی ۔﷭۔میرسید احمد کالپوی ﷫ کےوالد گرامی حضرت سید محمد کالپوی﷫سلسلہ عالیہ قادریہ کےعظیم شیخ ِ طریقت اور تیسویں امام تھے۔آپ کےجدامجد حضرت ابو سعید﷫آپ کے والدگرامی کی  ولادت سے قبل ہی محبت فی اللہ میں شہر دکن کی جانب تشریف لے گئے اور مفقود الخبر ہوگئے۔ آپ کا آبائی وطن ترمذ تھا، آپ کے آباؤ اجداد ترمذ سے ہجرت کر کے جالندھر تشریف لائے۔آپ کے جد امجد  سید ابو سعید﷫نے وہاں سے کالپی  کو اپنا وطن بنایا ۔آپ ترمذی سادات کرام سے ہیں۔آپ کاخاندان علماء وصلحاء اتقیاء کا خاندان ہے۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ:315)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت کالپی شریف (ہند) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: آپ﷫ نے ابتدائی کتب اپنے والد ِ ماجد سے پڑھیں، اس کےبعد آپ کے والد محترم نے آپ کی تعلیم  وتربیت کےلئے اپنے مرید و خلیفہ حضرت شاہ افضل بن عبدالرحمن الہ آبادی﷫کو منتخب فرمایا۔جن کی خدمت میں آپ نےحسامی سے بیضاوی تک جملہ علوم متداولہ کی تکمیل فرمائی۔استاذِ گرامی آپ کی علمی صلاحیت و قابلیت کی بنیاد پر آپ سےبے انتہاء محبت فرماتے تھے۔آپ﷫عربی و فارسی ادب کےماہر کامل اور علوم ِ منقولات و معقولات  کےبےبدل عالم ِ دین؛ اور اپنے وقت کےبےمثال مدرس و مصنف تھے۔

بیعت و خلافت: آپ ﷫نے علوم ِدینیہ کی تکمیل کےبعد اپنے والد معظم سےبیعت کاشرف حاصل کیا،اور صرف 24سال کی عمرمیں مسند ِ والد ماجد پر رونق افروز ہوئے،اور تلقین و ارشاد کی محفل کو رونق عطاء کی۔

سیرت وخصائص: شیخ المشائخ، واقفِ اسرار حقائق، وارث علوم ِ نبوت، آفتابِ ہدایت، ماہتابِ ولایت، حضرت شیخ سید میر احمد کالپوی ﷫۔آپ ﷫سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کےاکتیسویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔آپ جامع علوم ِ ظاہر و باطن اور شناور ِ بحارِ حقیقت و معرفت تھے۔زہد و تقویٰ،عبادت ریاضت میں میں ماہر ِکامل تھے۔اخلاقِ و عادات میں نبیِ مکرمﷺ کی تعلیم کی تصویر ِ مجسم تھے۔علوم و معارف آپ کی نوکِ  زبان پر جاری رہتے۔کشف و کرامات  اخفاء کے باوجود کثرت سےظاہر ہوجاتیں۔نورِ ہدایت و معرفت آپ کی روشن پیشانی سے عیاں تھا۔اللہ جل شانہ نے آپ کو کمالِ معنوی کےساتھ جمال صوری سے بھی خوب نوازا تھا۔چنانچہ حضرت شاہ خوب اللہ الہ آبادی﷫فرماتے ہیں: ’’میرے شیخ نے مجھےفرمایاکہ پہلی بار جب میں حضرت شیخ کی ملاقات سے مشرف ہوا۔تو ان کےاندر سرخیِ جمال  و عشقِ حقیقی کو مجتمع پایا،اور اس کی وجہ سے جو شعاع نورانی ہویدا ہوتی، اس کو دیکھنے سےمیری نگاہ خیرہ ہوجاتی‘‘۔(ایضا: 325)

عادات وخصائل: آپ﷫ عبادت و ریاضت میں کامل اور بڑے متبعِ سنت تھے۔اس کےعلاوہ آپ کا بہترین مشگلہ رسائلِ توحید اور مقالات ِ شیخ محی الدین ابن عربی﷜ کی تشریح بیان کرنا،اور ہر نماز کےبعد سلام سےمتصل نومرتبہ کلمہ طیبہ کا ورد بآواز بلند کرتےتھے۔ مسئلہ توحید ِ باری کی تشریح پر اگر کوئی معترض ہوتا تو اس سےمناظرے بھی کرتےتھے۔آپ﷫ حضرت شیخ ِ اکبر﷜کےمحبین میں سےتھے،اورآپ ان کے نظریات  کادفاع کرتے تھے۔

حضرت خواجہ غریب نواز﷫سے عقیدت: آپ﷫کوسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری﷫کی بارگاہ سےخاص عقیدت و محبت تھی۔چنانچہ ایک مرتبہ اپنے والد ماجد حضرت سید میر محمد ﷫ کےہمراہ روضہ مبارکہ پر حاضر ہوئے،اور آپ کو بارگاہِ خواجہ سے روحانی فیض حاصل ہوا۔

توجہ کی تاثیر: آپ﷫ کےکشف و توجہ میں غضب کی تاثیر تھی۔جس شخص پر توجہ کی نظر کرتے،وہ بے خود ہوکر گر پڑتا۔چنانچہ حضرت شاہ خوب اللہ الہ آبادی ﷫بیان فرماتے ہیں: ایک شخص آپ ﷫ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’ حضور ! میرے دل کی سختی اور تنگی اپنے شباب پر ہے ،میرا کوئی قریبی  رشتے دار یا لڑکا بھی وصال کر جائے تو حالتِ گریہ نہیں آسکتی ۔اس لئے حضور سے التماس ہے کہ میری اس حالت زارپر توجہ فرمائیں‘‘۔آپ﷫نے اس کےدونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر ہلایا مگر اس کی کیفیت بدستور باقی رہی ،یہاں تک کہ تیسری بار میں اس پر رقّت کی کیفیت طاری ہوئی اوروہ آہ وبُکا کرنے لگا۔اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ جب اسے افاقہ ہوا تو اِس عظیم کرامت کو دیکھ کر آپ﷫ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوا اور عقیدت مندوں میں داخل ہو گیا۔(ایضا: 326)

ذوقِ شاعری: آپ ﷫ ہندی و فارسی کے قادرالکلام شاعر تھے۔آپ﷫نےبہت اشعار تحریرفرمائے،جو آپ کے علمی و ادبی ذوق پر شاہد ہیں۔آپ کے اشعار کےمجموعے کانام ’’دیوانِ شعر‘‘ ہے۔

علمی و تصنیفی خدمات: آپ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے۔مختلف موضوعات پر  آپ کی عمدہ تصانیف موجود ہیں۔1جامع الکلم فارسی۔2 شرح اسماء الحسنیٰ۔3 شرح بسیط علیٰ عقائد النسفیہ۔4 رسالہ معارف۔5 مشاہدات الصوفیہ۔6دیوان شعر۔

اولاد ِ امجاد: اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین فرزند عطاء فرمائے۔جونہایت ہی عابد و زاہد اور متقی و پرہیزگار تھے۔حضرت سید شاہ فضل اللہ  کالپوی ﷫۔حضرت سید شاہ سلطان مقصود﷫۔حضرت سید شاہ سلطان محمود﷫۔

تاریخِ وصال: آپ کاوصال 10؍صفر المظفر،بروز پنجشبہ (جمعرات)،بوقتِ شام،1084ھ،مطابق25؍مئی 673ء کو ہوا۔آپ ﷫  کا مزار مبارک کالپی شریف (ہند)میں مرجع خلائق ہے۔

شجرہ شریف میں اس طرح ذکر ہے:

دے محمد کےلئے روزی کر احمد کےلئے۔۔۔۔خوان ِ فضل اللہ سے حصہ گدا کےواسطے

اعلیٰ حضرت ﷫فرماتے ہیں:

اے بنامت شیرۂ جاں شد نباتِ کالپی۔۔۔۔۔ احمد انوشیں لبا، شیریں ادا امداد کن

 

Post a Comment

Previous Post Next Post