حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش) قسط نمبر 16 ...Hijaz Ki Aandhi Part 16

 حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش)

قسط نمبر 16

بڑی مشکل سے ساران نے نورین کو منایا۔ نورین ساران کو شاید ٹال ہی دیتی لیکن ہوا یوں کہ یزدگرد کی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ بھی اپنی ماں کے پاس آبیٹھا۔ ماں نے اسے بتا رکھا تھا کہ وہ شہزادہ ہے۔اس نے مدائن کے حالات سنے تو وہ تڑپ اٹھا۔ 

’’میں اپنے باپ کی سلطنت کو تباہ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ یزدگرد نے کہا۔’’ اگر میں قتل ہو جاؤں تو کیا!‘‘ 

’’تم قتل نہیں ہو گے۔‘‘ سارا ن نے کہا۔’’ رستم دھوکا دے گا تو فیروزان موجود ہے۔ فوجی بھی اور شہری بھی رستم اور پوران کے خلاف ہو گئے ہیں ۔مذہبی پیشوا بھی یہی کہتے ہیں کہ فارس کی تباہی کا باعث یہی ہے کہ تخت پر ایک عورت آبیٹھی ہے۔‘‘ 

دوسری صبح ساران ،نورین اوریزدگرد کو ساتھ لے کر مدائن چلا گیا۔ 

مدائن پہنچتے ہی یزدگرد کی تاجپوشی کی رسم سادگی سے ادا ہوئی اور اعلان کر دیا گیا کہ اب سلطنتِ فارس کا بادشاہ یزدگرد ہے۔ نورین کے دل پر اپنے بیٹے کے قتل کا جو خوف طاری تھا وہ پوران اور رستم نے اپنے رویے سے اتار دیا۔ پوران نے یزدگرد کو گلے لگا کر پیار کیا۔ رستم نے بھی عملی طور پر ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا۔ فیروزان نے تو سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کیا۔ فوج کے تمام افسروں نے یزدگرد کے سامنے آکر خود جھک کر اور اپنی تلواروں کو جھکا کر اطاعت اور وفاداری کا اظہار کیا۔ پھر شہر اور گردونواح کے رؤساء اور اُمراء آئے اور یزدگرد کے حضور رکوع و سجود کے ذریعے یقین دلایا کہ وہ کسریٰ کی آنے والی نسلوں کے بھی غلام رہیں گے۔ لوگوں نے بھی خوشی کا اظہار کیا کہ کسریٰ کا دور لوٹ آیاہے۔ 

رسم ِتاجپوشی کے بعد پہلا کام یہ کیا گیا کہ تمام جرنیلوں ،رؤساء اور امراء وغیرہ کی کانفرنس منعقد ہوئی ۔جس میں رستم کو کمانڈر انچیف مقرر کرکے فیصلہ کیا گیا کہ فوری طور پر اس سے زیادہ فوج تیار کی جائے جتنی مسلمانوں کے حملے سے پہلے فارس کی ہوا کرتی تھی اور مسلمانوں کو ایسا ختم کیا جائے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ واپس نہ جا سکے۔ پھر مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کہ تہ تیغ کیا جائے اور اسلام کو نیست و نابود کر دیا جائے۔ 

اس کانفرنس میں پوران بھی شامل تھی۔ جرنیلوں کے درمیان جو اختلافات تھے وہ ختم ہو گئے۔ اس کے علاوہ ایک پلان بھی تیار کیا گیا کہ جو شہر اور قصبے مسلمانوں کے قبضے میں آگئے ہیں ۔ان کے لوگوں کو مسلمانوں کی اطاعت سے بغاوت پر اکسایا جائے۔ 

’’مسلمانوں کے پاس اتنی فوج نہیں کہ وہ ہر جگہ اتنی فوج رکھ سکیں کہ لوگوں کو سر نہ اٹھانے دیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ ہر جگہ انتہائی تھوڑے مسلمان ہیں جو نظم و نسق اور انتظامی امور چلا رہے ہیں۔ اُنہیں آسانی سے قتل کیا جا سکتا ہے ۔لوگ مسلمانوں کو جزیہ دینے سے انکار کر دیں۔ ہمارے مذہب کا کوئی شخص مسلمان ہو جائے تو اسے خفیہ طریقے سے قتل کر دیا جائے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں۔‘‘ 

’’یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو مقبوضہ علاقوں سے بھاگ کر مدائن آگئے ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ انہیں اس مہم کیلئے تیار کرکے واپس ان کی بستیوں میں بھیج دیا جائے ۔ان میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبہ پیدا کیاجائے۔ میں نے ان لوگوں میں گھوم پھر کر دیکھا ہے۔ ان کی عورتیں ان کے ساتھ ہیں ۔جن میں بعض جوان اور خوبصورت ہیں ۔ان میں مجھے بعض خاصی عقلمند اور جذبے والی نظر آئی ہیں۔ میں انہیں تیار کرکے بھیجوں گی کہ مسلمانوں کے سالاروں تک پہنچیں اور انہیں زہر دے کر ختم کر دیں یا انہیں ورغلا کر کہیں تنہائی میں لے جائیں اور وہاں سے ہمارے آدمی انہیں پکڑ کر مدائن لے آئیں۔‘‘ 

Adcode

 

اس طرح مدائن میں مثنیٰ کے لشکر کے خلاف بڑا ہی خوفناک پلان تیار ہو گیا۔ جس میں مجاہدین پر ہر پہلو سے حملہ اور ہر حربہ شامل کیا گیا تھا۔ 

فارس کی بادشاہی ایک بار پھر کسریٰ پرویز کے خاندان میں آگئی تھی اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب سلطنتِ فارس کی پہلے والی شان و شوکت لوٹ آئے گی اور پھر دشمنوں پر دھاک بیٹھ جائے گی۔ مذہبی پیشوا کہتے تھے کہ یزدگرد کی واپسی نہایت نیک شگون ہے اور یہ مسلمانوں کی موت کی نشانی ہے۔ 

حالات ایسی صورت اختیار کر ہے تھے جو مجاہدین کے لشکر کیلئے بے حد خطرناک تھے ۔مدائن میں ایک بہت بڑی فوج تیار ہوناشروع ہو گئی تھی۔ لوگ جوق در جوق جذبے اور ولولے سے فوج میں شامل ہونے لگے۔ ان کی اور نئے گھوڑوں کی تربیت شروع ہو گئی۔ فوج کی نفری اور گھوڑوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔ اُدھر مثنیٰ بمشکل تین ہزار مجاہدین کے ساتھ بغداد کے قریب ساباط کے مقام پر پریشان بیٹھے تھے کہ وہ نفری کی کمی کہاں سے پوری کریں۔ اس کے علاوہ مثنیٰ کا زخم زیادہ خراب ہو گیا تھا اور وہ ذرا سا چلتے تھے تو بھی ان کا سانس پھول جاتا تھا اور زخم سے درد کی ٹیسیں اٹھتی تھیں ۔طبیبوں کی نگاہ میں وہ اب لڑائی کے قابل نہیں رہے تھے ۔اب تو یوں لگتا تھا کہ شکست ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔

Adcode 

چونکہ کسریٰ پرویز کا ذکر ایک بار پھر آیا ہے اس لیے ضروری 

معلوم ہوتا ہے کہ پھر ہم اس خط کی بات کریں جو رسول اﷲ ﷺ نے اسے قبولِ اسلام کیلئے بھیجا تھا اور پرویز نے رعونت کا یہ مظاہرہ کیا کہ یہ خط پھاڑکر پھینک دیا تھا۔ اس داستان میں اس خط کا اور اس سے متعلق واوقعہ کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے ۔لیکن خط کا متن پہلے پیش نہیں کیا گیا۔ 

خط کی تحریر پیش کرنے سے پہلے پرویز کی فرعونیت کا مختصر سا ذکر ہو جائے تو بے محل نہ ہو گا۔ کسریٰ پرویز جو خسرو پرویز کے نام سے مشہور ہوا ۔وہ ہرمز کا بیٹا اور نوشیروان کا پوتا تھا۔ دا دا نے عدل و انصاف میں شہرت حاصل کی اور تاریخ میں اونچا نام اور مقام پایا اور پوتا دادا کے اُلٹ چلا اور فرعونیت میں نام پیدا کیا۔ یہاں تک کہ اﷲ کے رسولﷺ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ 

خسرو پرویز کے عروج و زوال کی تفصیلات طویل ہیں۔ان تفصیلات کا چونکہ ہماری اصل کہانی کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ،اس لیے ہم اسے مختصراً بیان کریں گے کہ خسرو پرویز پر ایسا بھی وقت آیا تھا کہ بہرام کے مقابلے میں نہ ٹھہر سکا اورمدائن سے اس حالت میں بھاگا کہ اس کے ساتھ صرف تیس سپاہی تھے۔ اس کا ذہن سازشی تھا۔ غیرت نام کی کوئی چیز اس کی فطرت میں نہیں تھی۔ اس نے اپنے دشمن قیصرِ روم سے جا مدد مانگی۔ یہ خسرو پرویز کی عیاری کا کمال تھا کہ رومیوں نے اسے بہت سی اور بڑی طاقت ور فوج دی۔

Adcode 

خسرو پرویز اس فوج کے ساتھ اپنی سلطنت میں داخل ہوا ۔بہرام نے مقابلہ کیا لیکن بہرام شاہی خاندان سے نہیں تھا۔ اس بناء پر رؤسا اور دیگر زعماء اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور فوج بھی بے دلی سے لڑی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہرام کوجان بچا کر بھاگنا پڑا اور خسرو پرویز ایک وسیع و عریض سلطنت کا شہنشاہ بن گیا۔ یہاں سے اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ 

اس شخص کی فطرت میں جو ابلیسیت تھی اسے اس نے یوں استعمال کیا کہ جس قیصرِ روم کی فوجی مدد سے وہ مدائن میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا اور کسریٰ فارس بنا تھا ،اسی قیصرِ روم کو اس نے للکارا اور اس کے ساتھ لڑائیاں لڑیں اور اس کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس سے پہلے اس نے بہت بڑی فوج تیار کر لی تھی۔ جس میں عربوں کیلئے اس نے مالِ غنیمت اور دیگر انعامات اور مراعات کی ایسی کشش پیدا کی تھی کہ عرب کے سرحدی قبائل کے لوگ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ 

اس کا دادا نوشیرواں فلسطین کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ لیکن موت نے آ لیا۔ پوتے خسرو پرویز نے دادا کے اس ارادے کی تکمیل کا اعلان کر دیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ بیت المقدس کو فتح کر کے وہ وہاں عیسیٰ کی تمام مقدس یادگاریں اصل صلیب جس پر حضرت عیسیٰ مصلوب ہوئے تھے اور ان کا )مفروضہ(مدفن تباہ و برباد کرکے غائب کر دے گا۔ 

Adcode 

اس وقت فلسطین پر رومیوں کا قبضہ تھا ۔یہودیوں کو پتا چلا کہ خسرو پرویز عیسائیت کے مرکز کو تباہ کرنے چلا ہے تو باسٹھ ہزار یہودی اس کی فوج میں شامل ہو گئے۔ کیونکہ وہ عیسائیت کے اتنے ہی دشمن تھے جتنے اسلام کے تھے ۔خسرو پرویز کی فوج بیت المقدس میں داخل ہو گئی اور ایسی قتل و غارت کی کہ نوے ہزار عیسائیوں کو جن میں بچے بھی تھے قتل کردیا گیا۔ کوئی گرجا سلامت نہ رہنے دیا گیا ۔زیادہ تر گرجوں کو آگ لگا دی گئی۔ تمام دولت لوٹ لی گئی۔ عیسائیوں کی کوئی مقدس جگہ سلامت نہ رہنے دی گئی ۔وہاں سے سونے ،چاندی، ہیروں اور جواہرات کے انبار ملے جو خسرو پرویز مدائن لے آیا۔ عیسائیوں کی تاریخ میں ان پر اس سے زیادہ ظلم کی مثال نہیں ملتی ۔پرویزکے ظلم اور درندگی کا نشانہ رومن کیتھولک عیسائی بنے تھے۔ 

اس کے بعد خسرو پرویز اسلام کے خلاف کمر بستہ ہونے لگا۔ رسولﷺ نے حبش کے نجاشی کو دعوتِ اسلام کا پیغام بھیج کر خسرو پرویز کے نام ایک پیغام بھیجا ۔پیغام لے جانے والے ایک صحابی عبداﷲ ؓبن قذافہ تھے۔ اس وقت خسرو پرویز کردستان کی سرحد پر دریائے قرامو کے کنارے خیمہ زن تھا۔ 

Adcode 

رسول اﷲ ﷺ کے نامۂ مبارک کی تحریر یہ تھی: 

’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم 

محمد ﷺ کی طرف سے کسریٰ رئیس فارس کے نام۔ اس شخص پرسلام ہے جو ہدایات کی پیروی کرے اور اﷲ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اﷲ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اور یہ گواہی بھی دے کہ میں تمام دنیا کے انسانوں کی طرف اﷲ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر زندہ انسان کو اﷲ کا خوف دلاؤں ۔ لہٰذا تم اگر اسلام قبول کر لو گے تو سلامت رہو گے اور اگر تم نے انکار کیا تو مجوسیوں کا وبالِ جان تمہاری گردن پر ہو گا۔

خسرو پرویز فرعونوں سے کم نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو سورج کا بیٹا ہی نہیں دنیا کا دوسراخدا سمجھتا تھا ۔اسے رسول اﷲ ﷺ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا تو اس کے چہرے پر فرعونیت کے قہر و غضب کے تاثر کے ساتھ حیرت و استعجاب کا تاثر بھی شامل تھا کہ یہ کون ہے جس نے اتنی بے باکی اور صاف گوئی سے اسے خط لکھاہے۔ وہ حیران تھا کہ کوئی انسان ایسا جرأتمند اور سرکش بھی ہو سکتا ہے ۔جس نے اس کے نام سے پہلے اپنا نام لکھا ہے۔ خسرو پرویز تو طرابلس سے لے کر پنجاب تک کا شہنشاہ اور خداوند عالم کہلاتا تھا۔ غصے سے اس کے ہونٹ کانپنے لگے کہ عرب کے ایک بوریا نشین نے اسے محض رئیسِ فارس لکھا ہے۔ وہ تو کہا کرتا تھا کہ قیصرِ روم اور خاقانِ چین مل کر بھی اس کی آنکھ سے آنکھ ملانے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ ایشیا اور یورپ کی بادشاہیاں متحد ہو جائیں تو بھی اس کے سامنے زبان نہیں کھول سکتیں۔ 

اس نے رسولﷺ کے پیامبر عبداﷲ ؓبن قذافہ کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا ۔درباری یہی توقع رکھتے ہوں گے کہ اس پیامبر کے قتل کا حکم ملا کہ ملا۔ یہ توقع بھی ہوگی کہ اس عرب کو ذلیل و خوار کرکے اور اذیتیں دے دے کر مارا جائے گا۔ لیکن خسرو پرویز نے رسول کریم ﷺ کے خط کے پہلے دو ٹکڑے کیے ،پھر چار، پھر آٹھ، پھر وہ اس خط کو پھاڑتا ہی چلا گیا۔ آخر ا س نے یہ تمام ٹکڑے اپنی ہتھیلی پر رکھے اور زور سے پھونک مار کر انہیں اڑا دیا۔ ٹکڑے دربار میں بکھر گئے۔ 

Adcode 

درباری یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس فرعون نے جو انسانوں کی شہہ رگیں کٹوا کر اور ان سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھ کر لطف اندوز ہوتا تھا۔ عبداﷲؓ بن قذافہ کو جانے کی اجازت دے دی۔ 

عبداﷲؓ سینکڑوں میل کی مسافت طے کر کے مدینہ منورہ پہنچے اور رسول کریمﷺ کو بتایا کہ زرتشت کی عبادت کرنے والے خسرو پرویز نے رسول اﷲ ﷺ کے پیغامِ حق کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ یہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ فارس کی سلطنت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ 

عبداﷲ ؓبن قذافہ کو خسرو پرویز نے زندہ واپس جانے کی اجازت دے کر سب کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن اس نے عبداﷲؓ بن قذافہ کے رخصت ہونے کے بعد ایک حکم دے کر سب کی حیرت رفع کر دی۔ اس نے حکم یہ دیا کہ یمن کے گورنر تک میرایہ حکم تیز رفتار قاصد کو بھیج کر پہنچا دیا جائے کہ مدینہ کے محمد )ﷺ(کو گرفتار کرکے میرے دربار میں پیش کرے کہ میرے اس غلام نے اتنی بڑی جسارت کی ہے۔ میں اسے عبرتناک سزا دوں گا۔ 

یمن کا گورنر ایک فارسی بازان تھا۔ اس تک قاصد حکم لے کر پہنچا تو بازان نے اپنا قاصد مدینہ رسول اﷲﷺ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ حضورﷺ گرفتاری پیش کریں تاکہ خسرو پرویز کے حکم کے مطابق آپ کو مدائن بھیجا جائے۔ 

Adcode 

رسول اﷲﷺ یہ حکم سن کر مسکرائے اور قاصد سے فرمایا ۔’’امیرِ یمن بازان اور کسریٰ سے کہنا کہ اسلام مجھ سے پہلے مدائن پہنچ جائے گا۔‘‘ 

خسرو پرویز کی فرعونیت کی صرف ایک مثال کافی ہو گی۔ اس کے ایک بڑے ہی قابل اور تجربہ کار جرنیل کی بیوی عیسائی تھی ۔خود خسرو پرویز کی ایک بیوی جس کا نام شیریں تھا، عیسائی تھی۔ شیریں کا حسن بے مثال تھا اور وہ اس قدر چالاک عور ت تھی کہ خسرو پرویز جیسے فرعون اور درندے کو انگلیوں پر نچا لیتی تھی۔ 

خسرو پرویز نے بھرے دربار میں اپنے اس جرنیل کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے کیونکہ وہ عیسائی ہے۔ 

’’ایک بیوی تو آپ کی بھی عیسائی ہے ۔‘‘جرنیل نے خسرو پرویز سے کہا۔’’ کیا شیریں عیسائی نہیں؟آپ اسے کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟‘‘ 

’’یہیں اور اسی وقت اس کی کھال اتار لی جائے۔ ‘‘خسرو پرویز نے حکم دیا۔ 

جرنیل کو جکڑ کر دربار میں ہی اس کے کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور دربار میں زندہ کھال اتار کر ہلاک کر دیا گیا۔ 

یہاں خسرو پرویز کی شہنشاہیت، طاقت اور سطوت کی ایک جھلک دکھانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا دوسرا خدا نہ کہتا تو کیوں نہ کہتا۔فارس کا پایہ تخت تو مدائن ہی تھا لیکن مدائن سے ساٹھ میل دور شمال کی طرف خسرو پرویز نے اپنی رہائش کیلئے ایک محل تعمیر کروایا تھا ۔اگر یہ محل زمانے کی دستبرد سے بچا رہتا تو اس کا شمار عجائباتِ عالم میں ہوتا۔ 

Adcode 

خسرو پرویز نے اس محل کانام قصرِ دستاگرد رکھا تھا۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم نے دو مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس محل کو دیکھ کر جنت الفردوس کا گمان ہو تا تھا۔ اس کے چاروں طرف دور دور تک لہلہاتے سبزہ زار اور مرغزار تھے جن میں چکور، مور، شتر مرغ اور ہرن چگتے تھے ۔یہ وسیع و عریض محل چالیس ہزار ستونوں پر کھڑا تھا۔ جن پر سونے کا پانی چڑھا ہوا تھا۔ محل کے اوپر ایک ہزار برج تھے جو خالص سونے کے بنے ہوئے تھے۔ 

قصرِ دستاگرد میں نوسو ساٹھ ہاتھی، بیس ہزار اونٹ اور چھ ہزار اعلیٰ نسل کے گھوڑے زرق برق کپڑوں سے سجے ہوئے موجود رہتے تھے۔ محل کے دروازے پر رات دن چھ ہزار زریں کمر سر بازوں کا پہرہ رہتا تھا۔ محل کے اندر کی فضا مشک و عنبر سے مہکتی رہتی تھی۔ اس تاجدارِ عجم نے قصرِ دستاگرد میں تین ہزار نوخیز اور انتہائی حسین لڑکیاں رکھی ہوئی تھیں۔ 

کوئی انسان رتبے کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو تا جب خسرو پرویز کے دربار میں جاتا تو پہلے سجدہ کرتا پھر آداب بجا لاتاتھا۔ 

Adcode 

خسرو پرویز خدائی کا دعویٰ نہ کرتا تو کیوں نہ کرتا۔ لیکن وہ اس خدا کے وجود کو تو نہیں مٹاسکتا تھا جس کے ہاتھ میں ہر انسان کی عزت و ذلت ہے اور جو ہر فرعون کیلئے ایک موسیٰ پیدا کر دیا کرتا ہے۔ اس آتش پرست فرعون کے زوال کی داستان بڑی طویل اور عبرتناک ہے۔ ہم چونکہ داستان کوئی اور سنا رہے ہیں اس لیے اس فرعونِ عجم کا ذکر مختصر کرتے ہیں۔اس زمانے کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خسرو پرویز کا جاہ و جلال اور اس کی جنگی قوت دیکھ کر سب کہتے تھے کہ ساری دنیا سلطنت ِفارس میں آجائے گی لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ خسرو پرویز جنت نظیر قصرِ دستاگرد سے چور دروازے سے بھاگا ۔اس کے ساتھ چھ ہزار پہرے د ار نہیں تھے۔ نو سو ساٹھ ہاتھی نہیں تھے ۔بیس ہزار اونٹ اور چھ ہزار گھوڑے نہیں تھے۔ نہ ا س کے ساتھ تین ہزار حسین لڑکیاں تھیں۔ اس کے ساتھ اپنی چہیتی ملکہ شیریں تھی، اور صرف دو کنیزیں تھیں۔ 

اس بے سروسامانی کے عالم میں وہ قصرِ دستاگرد سے نکلا اور ساٹھ میل چل کر مدائن پہنچا تو مخلوقِ خدا ا س کے راستے میں سجدہ ریز ہو گئی۔ خسرو پرویز کی جان میں جان آئی۔ اس کے قصرِ دستاگرد میں قیصرِروم ہرقل پہنچ گیا تھا۔ خسرو پرویز ایسا دل برداشتہ ہوا کہ فیصلہ کر لیا کہ تختِ فارس سے دستبردار ہو کر اپنے محبوب بیٹے مروازویہ کو تخت پر بٹھائے گا مگر اسے احساس تک نہ تھا کہ اس کی حسین ترین اور چہیتی ملکہ شیریں کا بھی ایک جوان بیٹا ہے۔ وہ یہ بھی بھول گیا تھا کہ شیریں اس کی زوجیت سے دستبردار ہو جائے گی۔ تخت و تاج سے دستبردار نہیں ہوگی۔ 

Adcode 

خسرو پرویز کا فرعونی دماغ بہت کچھ بھول گیا تھا اور یہ سوچ تو اس کے ذہن میں آئی ہی نہیں تھی کہ اس نے اﷲ کے رسولﷺ کے پیغام ِحق کی توہین کی تھی۔ 

شیریں نے اپنے طلسماتی حسن اور عیاری اور زبان کے جادو سے جس طرح خسرو پرویز کو رام کر رکھا تھا ۔اسی طرح اس نے امرائے سلطنت کو اپنی مٹھی میں لینا شروع کر دیا۔زروجواہرات کی اور کمسن حسیناؤں کی اس کے پاس کمی نہیں تھی۔ اس کا اپنا حسن سحر انگیز تھا۔ امراء اور جرنیل مسحور ہو ہو کر اس کے جال میں آتے گئے اور وہ ان سب کو اپنے بیٹے کے حق میں اور اپنے خاوند خسرو پرویز کے خلاف کرتی گئی۔ 

شیریں کے بیٹے کا نام شیرویہ تھا۔ اس کا یہی اعزاز کافی تھا کہ وہ ملکہ شیریں کا بیٹا تھا۔ اس نے فوج کو اس طرح اپنے ساتھ ملا لیا کہ وہ در پردہ فوج میں یہ خوشخبری پھیلا دی کہ شیرویہ تخت پر بیٹھے گا تو افسروں اور سپاہیوں کی تنخواہیں بڑھ جائیں گی اور مالِ غنیمت میں سے حصہ ملا کرے گا اور کئی اور مراعات بھی دی جائیں گی۔ عیسائیوں تک یہ خوشخبری پہنچائی گئی کہ انہیں مذہبی آزادی ملے گی اور انہیں درجۂ اول کی شہر یت دی جائے گی۔ 

Adcode 

خسرو پرویز اس سازش سے بے خبر تھا۔ اسے شک تک نہ ہوا کہ شیریں اس کی آستین کا سانپ بن گئی ہے۔ خسرو پرویز نے ابھی تخت سے دستبردار ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا ۔ایک روز شیرویہ نے باپ کو حکم دیا کہ وہ تخت سے دستبردار ہو جائے۔ خسرو پرویز نے حکم دیا کہ اس کے بیٹے شیرویہ کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن اس کا حکم ایسا ہی تھا جیسے کسی نے ہوا میں تیر چلایا ہو۔ اس نے شیریں کو بلایا اور اسے بتایا کہ اس کا بیٹا پاگل ہو گیا ہے ۔اُسے سنبھالے۔ 

’’یہ میرے بس میں نہیں تاجدار!‘‘ شیریں نے عجیب سے تبسم سے کہا۔ ’’اسے فوج بھی نہیں سنبھال سکتی۔‘‘ اس نے خسرو پرویز کے کان میں کہا۔ ’’اس تخت پر میرا بیٹا بیٹھے گا ۔جرنیلوں کو حکم دے کر دیکھ لو‘ سب میرے بیٹے کے وفادار ہیں۔‘‘ 

خسرو پرویز غصے سے اٹھا اور جرنیلوں اور اُمراء کو طلب کرکے انہیں شیریں اور شیرویہ کے خلاف بڑے ظالمانہ حکم دیئے۔ لیکن امراء اور جرنیلوں کا رویہ بالکل سرد رہا۔ خسرو پرویز پر یہ ہیبت ناک انکشاف ہوا کہ معدودے چند آدمی اس کے ساتھ ہیں، جو ایک مؤرخ کے الفاظ میں آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ مدائن سے نکل جائے۔ 

Adcode 

’’میں رومیوں سے صلح کرکے اپنے اس بیٹے کو سرکشی کی سزا دوں گا۔‘‘ خسرو پرویز نے کہا ۔’’شیریں کو فریب کاری کی سزا دوں گا۔‘‘ 

شیرویہ اور شیریں کے کانوں تک یہ الفاظ پہنچے تو شیرویہ محافظ دستے کے گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر اپنے باپ کے پاس گیا۔ باپ کو کچھ دیر پہلے اطلاع مل گئی کہ اس کابیٹا کسی خطرناک ارادے سے اس کے پاس آرہا ہے۔ خسرو پرویز بھاگ نکلا لیکن شہر سے نہ نکل سکا ۔ایک غریب سے آدمی کی جھونپڑی میں جا چھپا ۔رسول اﷲﷺ کو حکم دینے والا اور جنت الفردوس جیسے قصرِ دستاگرد میں رہنے والا اور اپنے آپ کر خدا کہنے والا ایک تنگ و تاریک اور غلیظ جھونپڑی میں اس طرح چھپا کہ ا س کے اوپر بدبودار چیتھڑے اور گھاس ڈال دی گئی ۔ 

گھوڑ سوار فوجیوں نے سارے شہر میں گھوم کر اعلان کر دیا کہ خسرو پرویز جس گھر سے برآمد ہو گا اس گھر کو آگ لگا دی جائے گی اور گھر کے بچے سے بوڑھے تک کو زندہ جلا دیا جائے گا۔ 

اس حکم کے بعد کس میں اتنی ہمت تھی کہ خسرو پرویز کو اپنے گھر میں چھپائے رکھتا ۔ایک غریب سا آدمی ایک گھوڑ سوار کے پاس آیا اور منہ سے کچھ کہنے کے بجائے اپنی جھونپڑی کی طرف اشارہ کیا۔ 

فوجی جھونپڑی میں گئے اور فارس کے فرعون کو چیتھڑوں اور گھاس کے نیچے سے نکال کر باہر لے آئے اور اسے محل میں لے جاکر شیرویہ کے سامنے جا کھڑا کیا۔ 

Adcode 

’’اسے زنجیروں میں باندھ کر میدان میں لے چلو۔‘‘ شیرویہ نے حکم دیا۔’’ اس کے تمام بیٹوں کو پکڑ لاؤ۔‘‘ 

حکم کی تعمیل ہوئی۔ خسرو پرویز کو زنجیروں میں باندھ کر محل کے قریب ایک میدان میں لے گئے اور اس کے بیٹوں کو ایک ایک کرکے میدان میں لایا جانے لگا ۔یہ سب شیرویہ کے بھائی تھے جو مختلف بیویوں میں سے تھے۔ ان کی تعداد شیرویہ کو ملا کر انیس تھی۔ 

جب تمام بیٹوں کو لا چکے تو شیرویہ نے انہیں گنا ، تعداد اٹھارہ ہونی چاہیے تھی لیکن سترہ تھی۔ 

’’ایک کم ہے۔‘‘ شیرویہ نے کہا۔’’ ان میں یزدگرد نہیں ہے۔ اسے بھی لاؤ۔‘‘ 

Adcode 

بہت سے لوگوں نے محل کا کونہ کونہ دیکھ لیا۔ شہر میں اعلان کیا گیا کہ یزدگرد اور اس کی ماں کو پناہ دینے والے کے گھر کو آگ لگا کر گھر کے ہر فرد کو زندہ جلا دیا جائے گا لیکن اس ماں بیٹے کا کہیں سراغ نہ ملا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ خسرو پرویز کا ایک دوست ساران بھی غائب ہے۔ اس وقت یزد گرد اپنی ماں کے ساتھ مدائن سے بہت دور پہنچ چکا تھا۔ ساران ان کے ساتھ تھا۔ ساران نے قبل از وقت بھانپ لیا تھا کہ شیرویہ اپنے کسی بھائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ وہ خسرو پرویز کے غائب ہوتے ہی یزد گرد اور اس کی ماں کو غریب سے کسانوں کے بھیس میں شہر سے نکال کر لے گیا تھا۔

جاری ہے..

Post a Comment

Previous Post Next Post