حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش) قسط نمبر 17....Hijaz Ki Aandhi Part 17

 حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 17

’’ان سب کو ایک ایک کرکے قتل کر دو۔‘‘ شیرویہ نے حکم دیا۔’’ ان کے باپ کے سامنے لے جا کر قتل کرو۔‘‘

وہ کیا ہولناک منظر ہو گا۔ خسرو پرویز کے ایک بیٹے کو اس کے سامنے لے جاتے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا۔ ان میں کمسن بچے بھی تھے۔ نو عمر لڑکے اور نوجوان بھی تھے اور ان میں وہ نوجوان مروازویہ بھی تھا جسے خسرو پرویز اپنی جگہ تخت نشین کرنا چاہتا تھا ۔اسے وہ اپنا سب سے پیارا بیٹا سمجھتا تھا ۔بھائیوں میں سب سے بڑا شیرویہ تھا۔ ان کی مائیں دور کھڑی چیخ چلّا رہی تھیں۔ ان میں سے جس کے بیٹے کو آگے لے کر جاتے تھے، اس کی ماں فریادیں کرتی آگے کو دوڑ پڑتی۔ فوجی اسے دھکے دیتے اور گھسیٹتے دور جا پھینکتے ۔ شیریں محل کے دریچے میں کھڑی یہ ساری کارروائی دیکھ رہی تھی ۔وہ واحد ماں تھی جس کے چہرے پر سکون اور اطمینان تھا۔

شیرویہ نے اپنے سترہ بھائیو ں کو قتل کروادیا اور اپنے باپ کے متعلق حکم دیا کہ اسے قید خانے میں سب سے زیادہ تنگ و تاریک اور گندی کوٹھڑی میں بند کر دیا جائے۔

خسرو پرویز نے اپنے بیٹے سے استدعا کی کہ اُسے آزاد کر دیا جائے تو وہ سلطنتِ فارس سے نکل جائے گا۔لیکن بیٹے کے دل میں رحم پیدا نہ ہو سکا۔ وہ اپنے تخت پر منڈلانے والے تمام خطرے ختم کر رہا تھا۔

’’میں تمہیں قید خانے میں زیادہ دن نہیں رہنے دوں گا۔‘‘ شیرویہ نے باپ سے کہا ۔’’جلدی رہا کروادوں گا۔‘‘

خسرو پرویز کو قید خانے میں ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی شیرویہ نے ایک آدمی کو بلایا )تاریخ میں اس آدمی کا نام نہیں لکھا(شیرویہ نے اسے کہاکہ قید کے پانچویں دن وہ قید خانے میں جاکر خسرو پرویز کو قتل کر دے……اب شیرویہ سلطنتِ فارس کا شہنشاہ تھا۔

قید میں کسریٰ پرویز کی پانچویں شام تھی۔ وہ تاریک کوٹھڑی میں تیم فاقہ کشی کی حالت میں پڑا تھا۔ کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ خسرو پرویز نے پوچھا ۔’’کون ہو؟‘‘

’’میں کسریٰ فارس کو رہا کرنے آیا ہوں۔‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ اٹھو اور اس اذیت ناک زندگی سے آزاد ہو جاؤ۔‘‘

خسرو پرویز خوشی خوشی اٹھا۔ وہ دروازے کی طرف مڑا ہی تھا کہ اس آدمی کا خنجر خسرو پرویز کے دل میں اترگیا۔ خنجر باہر نکلا اور ایک بار پھر دل میں اتر گیا۔ خسرو پرویز اذیت ناک زندگی سے آزاد ہو گیا۔ اس کے بیٹے نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا۔

شیرویہ خسرو پرویز کا ہی بیٹا تھا اور وہ شیریں جیسی عیار حسینہ کے بطن سے پیدا ہو اتھا۔ ناگن کا بیٹا سانپ ہی ہوتا ہے۔ اسے خسرو پرویز کے قاتل نے اس امید پر بڑی خوشی سے آکر بتایا کہ وہ اس کے حکم کی تعمیل کر آیا ہے کہ اسے انعام ملے گا۔

’’تم نے میرے باپ کو قتل کیا ہے۔‘‘ شیرویہ نے کہا۔

’’ہاں تاجدارِ فارس!‘‘اس آدمی نے کہا۔’’ آپ کے حکم کی تعمیل میں ذرا سی بھی تاخیرنہیں ہوئی۔‘‘

’’اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینا میرا فرض ہے۔‘‘ شیرویہ نے کہا۔’’ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘

اور شیر ویہ نے تلوار نکال کر اس آدمی کو قتل کر دیا۔

متعدد مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خسرو پرویز کے دادا نوشیرواں عادل نے خواب میں دیکھا کہ اس کے محل کے چودہ کنگرے گر پڑے ہیں ۔یہ خواب یوں سچ ثابت ہوا کہ شیرویہ کے بعد صرف نو سال کے عرسے میں مدائن کے تخت پر بارہ تاجدار بیٹھے اور قتل ہوئے۔ یزدگرد چودھواں بادشاہ تھا جسے اب ساران جاکر لے آیا تھا اور پوران دخت اور رستم نے اس کی رسم تاجپوشی بھی ادا کر دی تھی۔

یہ خواب یوں سچ ثابت ہوا کہ شیرویہ کے بعد صرف نو سال کے عرسے میں مدائن کے تخت پر بارہ تاجدار بیٹھے اور قتل ہوئے۔ یزدگرد چودھواں بادشاہ تھا جسے اب ساران جاکر لے آیا تھا اور پوران دخت اور رستم نے اس کی رسم تاجپوشی بھی ادا کر دی تھی۔ امیر المومنین نے بھی حکم بھیج دیا ہے کہ دائیں بائیں حملے شروع کر دو تاکہ لوگوں پر ہمارا خوف بیٹھ جائے۔ پھر وہ غداری اور دھوکا دہی کی جرأت نہیں کریں گے……میرے رفیقو ! ان لوگوں پر خوف اور اپنی دھاک بٹھانے کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر ظلم و تشدد کیا جائے اور ان کی جوان عورتوں کو اٹھا لیا جائے۔ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بوڑھے، بچے،عورت،معذور اور مریض پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔ اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے تو اسے قتل کر دو۔ ان کے گھروں سے کام کی اور قیمتی چیزیں اٹھانی ہیں۔ اندھا دھند لوٹ مار نہیں کرنی۔ سونا چاندی اٹھا لانا ہے…… تفصیل سے پڑھئے

ہم یہاں وعظ کرنے نہیں آئے ۔نہ یہ لوگ تبلیغ کو قبول کریں گے۔ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی ہمارے پاس وقت نہیں ۔بستیوں پر حملوں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہمیں رسد کی ضرورت ہے۔ بیل اور بھیڑ بکریاں اور اناج اکٹھا کر لینا ۔ پھر ہر بستی کے اردگرد تین تین چار چار آدمی چھوڑ دینا جو کسی کو بستی سے نہ نکلنے دیں۔ اب اس کارروائی کیلئے ٹولیاں بنا لو اور آج رات سے ہی یہ کارروائی شروع کر دو۔‘‘

٭

وہاں اردگرد جو بستیاں تھیں ،ان پر حملے شروع ہو گئے۔ ان حملوں کا انداز چھاپوں جیسا تھا ۔مجاہدین کی ایک جماعت کسی بستی میں ایسے جوش و خروش سے جا دھمکتی جیسے بستی کے بچے بچے کو قتل کر دیا جائے گا۔ تمام آبادی کو باہر اکٹھا کرکے کہا جاتا کہ اناج ،اشیائے خوردونوش، سونا ،چاندی وغیرہ باہر لے آئیں۔ پھر انہیں کہاجاتا کہ بستی کا کوئی فرد بستی سے باہر قدم نہ رکھے۔ اگر کسی نے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ لوگ اپنی نوجوان لڑکیوں کو چھپاتے پھرتے تھے۔ لیکن مجاہدین نے کسی لڑکی کی طرف دیکھا تک نہیں۔

ہر بستی پر چھاپے کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں۔ یورپ کے متعصب تاریخ دانوں نے مجاہدین کو دہشت گرد لکھا ہے اور ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد بستیوں پر حملے کر کے لوٹ مار کرتے رہے اور وہ جوان عورتوں کو اپنے کیمپ میں لے جاتے تھے۔ لیکن وہ مؤرخ بھی یورپی ہی تھے جنہوں نے بستیوں پر حملے کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گرد ہی لکھا ہے لیکن ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا کہ مسلمانوں نے لوٹ مار کی اور انہوں نے عورتوں کو اغواء کیا۔ انہوں نے اتنا ہی لکھا ہے کہ فارس کے لوگوں پر دہشت طاری کرنے کیلئے اور رسد کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مسلمانوں کی دہشت گرد جماعتوں نے بستیوں میں شب خون مارے اور رسد کے علاوہ مالِ غنیمت بھی اکٹھا کیا۔

بستیوں پر حملوں کے سلسلے میں دو واقعات خاصے دلچسپ ہیں ۔ حیرہ اس زمانے میں سلطنتِ فارس کا ایک اہم شہر تھا۔ اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ اب مثنیٰ بن حارثہ کو پیچھے ہٹنا پڑا تو فارس والوں نے پھر اس پر قبضہ کر لیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ مسلمانوں کے وفادار ہی رہے اور انہوں نے بغاوت نہ کی۔ مثنیٰ خاصہ عرصہ وہاں رہے تھے ۔یہ مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے اثرات تھے کہ ان کی اپنی حکومت واپس آئی تو انہوں نے اس حکومت کو قبول نہ کیا۔ بہرحال فارس کی شاہی حکومت نے وہاں اپنا حاکم مقرر کر دیاجس کا نا م مرزبان تھا۔

مرزبان کی ایک نوجوان بیٹی تھی جس کا نام افشاں تھا۔ تاریخ نویسوں نے اسے بہت ہی خوبصورت اور متناسب قد کاٹھ والی لڑکی لکھا ہے۔ وہ ایک درباری موسیقار کو دل دے بیٹھی۔ وہ کوئی جواں سال اور خوبرو آدمی تھا۔ وہ خوبرو نہ بھی ہوتا تو بھی افشاں اس کی شیدائی ہوتی کیونکہ اس لڑکی کو موسیقی سے عشق تھا۔ یہ موسیقار سازوں کا جادو جگانے کے ساتھ گاتا بھی تھا اور اس کی آواز کا سوز دلوں کے تاروں میں ارتعاش پیدا کر دیتا تھا ۔

افشاں حاکموں کے خاندان کی بیٹی تھی۔ یہ خاندان شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ اس وقت افشاں مدائن میں تھی جب اس نے محسوس کیا تھا کہ اس موسیقار کے ساتھ اس کا کوئی روحانی تعلق ہے۔ یہ تعلق ایک کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ بن گیا اور چھپ چھپ کر ملنے کا سلسلہ چل نکلا۔

اتنے بڑے حاکم کی بیٹی کی شادی درباری موسیقار کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی۔ انہوں نے بھاگ جانے کا عہد کر لیا۔ وہ شاید ملک شام چلے جانا چاہتے تھے۔ جہاں مسلمانوں اور رومیوں کی خونریز جنگیں ہو رہی تھیں۔ پھر شام کا بیشتر علاقہ مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ حیرہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ افشاں موسیقار کے ساتھ شام کو بھاگ جانے کا عزم کر چکی تھی کہ اس کے باپ مرزبان کو حیرہ کا حاکم امیر )امیر یا گورنر(مقررکر کے وہاں بھیج دیا گیا۔

مدائن کے دربار میں موسیقار کی ضرورت نہیں رہی تھی کیونکہ اب وہاں جنگی تیاریں ہو رہی تھیں اور حالات ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ شاہی ضیافتیں ،ناچ گانے کی محفلیں اور عیش و عشرت کے مظاہرے بند ہو گئے تھے۔ موسیقار بھی حیرہ چلا گیا اور افشاں سے ملتا رہا ۔

اس دوران فارس کے شہر صنین کا حاکم جس کا تاریخ میں نام نہیں ملتا حیرہ گیا ۔اس کی نظر افشاں پر پڑ گئی۔ ا س نے افشاں کے باپ سے کہا کہ وہ افشاں سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ باپ نے فوراً یہ رشتہ قبول کر لیا اور شادی کا دن بھی مقرر کر دیا۔ اس حاکم کی عمر افشاں سے دوگنی تھی۔

شادی کے دن سے تین دن پہلے افشاں گھر سے غائب ہو گئی۔ اس کے باپ کو شاید موسیقار پر شک تھا ۔اس کا پتا کرایا گیا تو اسے بھی غائب پایا۔ مرزبان نے ہر طرف گھوڑسوار دوڑا دیئے اور دونوں ایک جگہ چھپے ہوئے پکڑے گئے ۔اُنہیں لایا گیا ۔مرزبان حاکم تھا۔ اس نے حکم دیا کہ موسیقار کے پاؤں رسی سے باندھ کر ایک گھوڑے کے پیچھے باندھ دیا جائے اور گھوڑا دوڑا دیا جائے اور گھوڑا اس وقت تک دوڑتا رہے جب تک کہ موسیقار کی کھال نہیں اتر جاتی۔

حکم کی تعمیل ہوئی ۔موسیقار کو زمین پر لٹا کر رسی کے ایک سرے سے اس کے پاؤں باندھے گئے اور رسی کا دوسرا سرا گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا گیا ۔ایک فوجی گھوڑے پر سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔ گھوڑا موسیقار کو گھسیٹتا دوڑ پڑا اور سوار اسے میدان میں چکر میں دوڑاتا رہا۔ تماشائیوں کا ہجوم تھا۔ افشاں بھی دیکھ رہی تھی۔

موسیقار سخت اور پتھریلی زمین پر گھسیٹا جا رہا تھا۔ پہلے اس کے کپڑے پھٹے ۔پھر اس کا جسم خون سے لال ہونے لگا اور پھر صاف پتا چلتا تھا کہ زمین اور کنکریوں نے اس کے جسم کی کھال اتار دی ہے۔

’’میری شادی حاکم صنین کے ساتھ نہیں ہو گی۔‘‘ افشاں نے چلّا کر کہا۔

٭

اِدھر سعد بن ابی وقاص کے لشکر کی چھاپہ مار جماعتیں بستیوں پر چھاپے مار رہی تھیں۔ ایک روز ایک زیادہ نفری کی پارٹی حیرہ کی طرف چلی گئی۔ اس وقت تک مدائن میں یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مسلمان بستیوں پر شب خون مار کر رسد اور مالِ غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں ۔چھاپہ مار مجاہدین کی یہ جماعت حیرہ اور صنین کے درمیان پہنچی تو اسے شوروغل سنائی دینے لگا ۔دف اور شہنائیاں بھی بج رہی تھیں ۔یہ علاقہ جنگلاتی تھا۔اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں ۔گہرے نشیب بھی تھے ۔ایک مجاہد نے ایک بلند ٹیکری پر چڑھ کر دیکھا۔ ایک جلو س سا آرہا تھا جس میں اڑھائی تین سو آدمی گھوڑوں پر سوار تھے۔ چار چار پہیوں ولی بگھیاں بھی تھیں اور دف اور مختلف ساز بجانے والے پیدل آرہے تھے۔

مجاہد ٹیکری سے اتر آیا اور اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس نے کیا دیکھا ہے۔ جماعت کا کماندار ٹیکری پر چلا گیا اور واپس آکر بتایا کہ اس قافلے پر حملہ کیا جائے گا۔ کماندار نے دیکھ لیا تھا کہ قافلے پر حملے کیلئے گھات کہاں موزوں ہو گی۔ اس نے اپنی جماعت کو ایک ایسی جگہ لے جا کر چھپا دیا جہاں کسی کو ان کی موجودگی کا شک بھی نہیں ہو سکتا تھا۔

قافلہ گھات کے مقام پر پہنچا تو مجاہدین اس پر جھپٹ پڑے ۔گھوڑ سوار تلواروں او ر برچھیوں سے مسلح تھے ۔انہوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان پر حملہ اچانک اور غیر متوقع طور پر ہوا تھا۔ اس لیے وہ سنبھل نہ سکے ۔ مجاہدین کی نفری قافلے والوں سے کم تھی۔ لیکن گھبراہٹ میں قافلے والوں نے بھاگ نکلنے میں ہی عافیت جانی ۔ان میں سے چند ایک زخمی ہو کر گھوڑوں سے گرے تھے اور باقی سب بھاگ گئے ۔

بگھیاں چلانے والے بھی بھاگ گئے تھے۔ بگھیاں شاہانہ تھیں ۔ان کے پردے ہٹا کر دیکھا ۔پہلی بگھی میں ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ شہزادی لگتی تھی۔ بگھی میں دو عورتیں اور تھیں۔ وہ اس شہزادی کی خادمائیں تھیں اور مارے خوف سے کانپ رہی تھیں۔

’’یہ دلہن ہے۔‘‘ ایک خادمہ نے لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔’’ یہ حیرہ کے حاکم مرزبان کی بیٹی ہے ۔ آج ہی اس کی شادی ہو ئی ہے۔ اس کا دولہا حاکم صنین ہے ۔یہ اس کی بارات ہے ۔وہ گھوڑے پر سوار ہے۔‘‘

یہ لڑکی افشاں تھی جو دلہن بن کر حاکم صنین کے ساتھ سسرال جا رہی تھی۔ مگر اسے روک لیا گیا۔ دوسری بگھیوں میں سے جو عورتیں نکلیں وہ افشاں کی خادمائیں تھیں اور بارات کے ساتھ آئی ہوئی حاکم صنین کی قریبی رشتے دار تھیں۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘ افشاں نے پوچھا۔’’ میرا دولہا۔‘‘

اس کے دولہا نے جم کر مقابلہ کرنے کی کوشش کی تھی اور مارا گیا تھا۔ دلہن کو پتا چلا تو اس کے چہرے پر خوشی کا تاثر آگیا ۔

’’میں نے کہا تھا کہ اس کے ساتھ میری شادی نہیں ہو گی۔‘‘ افشاں نے عجیب سے لہجے میں کہا اور پوچھا۔’’ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟‘‘

’’یہ اس سے پوچھنا جس کے ساتھ تمہاری شادی ہو گی۔‘‘ مجاہدین کے کماندار نے کہا۔’’شادی کے بغیر کوئی شخص تمہارے اور ان عورتوں میں سے کسی کے جسم کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا۔ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو تمہارے فوجی اپنے ملک کی عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔‘‘

باراتی بھاگ گئے تھے اور تین چار مارے گئے تھے ۔جہیز بہت ہی قیمتی تھا اور بہت ہی زیادہ تھا۔ خالص سونے کے زیورات اور قیمتی ہیروں اور پتھروں کاتوکوئی شمار نہ تھا۔ چار پانچ بگھیاں گھوڑوں سمیت الگ ملیں۔

یہ جماعت وہیں سے واپس آگئی۔ عورتوں کو عورتوں کے حوالے کر دیا گیا۔ افشاں نے اپنی کہانی مسلمان عورتوں کو سنائی۔ اسے عورتوں نے بھی یقین دلایا کہ وہ کسی مسلمان کی بیوی بنے گی اور اسے داشتہ نہیں بنایا جائے گا۔ ایک تو یہ بات سن کر افشاں خوش ہوئی اور دوسری خوشی اسے یہ تھی کہ اس کا ادھیڑ عمر دولہا مارا گیا تھا۔ افشاں نے مثنیٰ کی بیوی سلمیٰ کے ہاتھ پر جو اب سعدؓ بن ابی وقاص کی بیوی تھیں ،اسلام قبول کر لیا۔ اس کے بعد تاریخ خاموش ہے کہ افشاں کس کی بیوی بنی تھی۔

٭

شب خون اور چھاپے اور رسد وغیرہ اکٹھی کرنے کے سلسلے میں ایک اور واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔تاریخوں میں آیا ہے ایک مجاہد عاصم بن عمر ایک گاؤں پر چھاپہ مارنے گئے تو گاؤں کے لوگ پہلے ہی وہاں سے بھاگ گئے۔ صرف ایک آدمی اتفاق سے سامنے آگیا۔ اس سے پوچھا تم کون ہو۔ اور کہاں رہتے ہو؟ اس نے بتایا کہ وہ چرواہا ہے اور سارے گاؤں کے مویشیوں کو وہ چرنے چگنے کیلئے لے جایا کرتا ہے ۔

عاصم نے پوچھا ۔’’مویشی کہاں ہیں؟ ‘‘

’’یہاں ایک بھی مویشی نہیں۔ ‘‘چرواہے نے جواب دیا۔’’ لوگ اپنے مویشی ساتھ لے کر بھاگ گئے ہیں۔‘‘

’’جھوٹ نہ بولو۔‘‘ عاصم بن عمرو نے کہا۔’’ ہم صرف مویشی اور بھیڑ بکریاں لے کر چلے جائیں گے۔‘‘

روایت جو مشہور ہوئی وہ یہ تھی کہ چرواہے نے جب تیسری بار جھوٹ بولا تو قریب کے ایک مکان سے ایک بیل کی آواز آئی۔ ’’خدا کی قسم‘ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ہم سب مویشی یہاں ہیں۔ آؤ اور ہمیں ہانک کر لے چلو۔ ‘‘

عاصم بن عمرو اس مکان میں گئے ۔بڑا ہی وسیع صحن تھا اور وہاں بے شمار مویشی تھے۔ بھیڑیں ،بکریاں اور گائیں بھی تھیں۔ گاؤں کے لوگ اپنے مویشی اس گھر میں بند کرکے چرواہے کو یہاں رکھوالی کیلئے چھوڑ گئے تھے۔ عاصم بن عمرو کی چھاپہ مار جماعت نے تمام مویشی اور بھیڑ بکریاں باہر نکالیں اور اپنے کیمپ میں واپس لے آئے۔

اس وقت کے لوگوں نے اس واقعے کو سچ مان لیا کہ ایک بیل نے انسانوں کی طرح بول کر اپنی اور اپنے مویشیوں کی نشاندہی کی تھی۔ یہ روایت مشہورو معروف مؤرخین طبری اور بلاذری نے اور ان کے دو تین ہم عصروں نے لکھی ہے ۔طبری اور بلاذری نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ روایت سینہ بہ سینہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں پہنچی تو حجاج کے کانوں میں پڑی ۔حجاج نے اسے سچ ماننے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا کہ وہ اس واقعہ کی تصدیق یا تردید کرے گا۔

حجاج بن یوسف نے بڑی کاوش اور تگ و دو سے ان چند ایک آدمیوں کو ڈحونڈ نکالا جو جنگِ قادسیہ کے وقت نوجوان تھے اور اب ضعیف العمر ہو چکے تھے۔ حجاج نے ان سب کو بلا کر حلف لیا اور پوچھا کہ یہ واقعہ کیا تھا ۔ان سب نے حلفیہ بیان دیا کہ یہ واقعہ ایسے ہی ہوا تھا جیسے سنا سنایا گیا ہے اور بیل انسانوں کی زبان بولا تھا۔ گویا ان سب نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی۔

حجاج بڑا کھرا اور حقیقت پسند آدمی تھا ۔وہ حجاج ہی تھا جس نے ایک عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کو ہندوستان بھیجا تھا )تفصیلات کیلئے ہماری کتاب ’’ستارہ جو ٹوٹ گیا‘‘دیکھئے( حجاج نے تحقیقات کی تو پتا چلا کہ یہ افراد جو اس واقعہ کی تصدیق کر رہے تھے، عاصم بن عمرو کے ساتھ نہیں تھے۔ یعنی وہ عینی شاہد نہیں تھے۔

بہرحال حجاج نے اس خیال سے اس واقعہ کی تحقیقات جاری رکھی کہ تاریخ میں کوئی غلط بات نہ آجائے ۔ آخر راز یہ کھلا کہ جب چرواہا باہر کھڑا جھوٹ بول رہا تھا کہ یہاں کوئی مویشی نہیں۔ اس وقت قریب ہی مکان سے ایک بیل ڈکرایا ۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک اور بیل ڈکرایا۔ عاصم بن عمرو کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر اندر گئے تو وہاں تمام مویشیوں کو موجود پایا۔

طبری اور بلاذری لکھتے ہیں کہ عربی زبان میں اظہاریت اور تشبیہوں کے انداز کچھ شاعرانہ سے ہوتے ہیں ۔ہوا یوں تھا کہ عاصم بن عمرو اتنے زیادہ مویشی اور بھیڑ بکریاں اور دودھ دینے والی گائیں لائے تو انہوں نے خوشی اور ہیجانی کیفیت میں اپنے ساتھیوں کو یوں سنایا کہ چرواہا جھوٹ بول رہا تھا کہ مویشی یہاں نہیں ہیں۔ تو ایک بیل بول پڑا کہ ہم یہاں ہیں ۔آؤاور ہمیں ہانک کر لے جاؤ۔ بیل کے بولنے کا مطلب یہ تھا کہ بیل ڈکرایا اور مویشیوں کی نشاندہی ہو گئی۔

٭

مسلمانوں کے اتنے زیادہ شب خون اور چھاپے ڈھکے چھپے تو نہیں رہ سکتے تھے۔ یہ ایک دو بستیوں کی بات نہیں تھی۔ مجاہدین نے کوئی بستی نہیں چھوڑی تھی۔ فارسیوں کو احساس ہو گیا تھا کہ انہیں بغاوت کی سزا دی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہوتی جا رہی تھی کہ ان کی اپنی فوج کہاں ہے کہ مسلمان دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس کا اثر ان لوگوں پر نفسیاتی نوعیت کا ہوا۔ انہوں نے اپنی فوج کے بجائے مسلمانوں کو اچھا سمجھنا شروع کر دیا جونہ شراب پیتے تھے نہ ان کی عورتوں پر ہاتھ ڈالتے تھے۔

علامہ شبلی نعمانی نے ایک بستی کا ذکر کیا ہے۔ مسلمانوں کی ایک چھاپہ مار جماعت ایک بستی پر چھاپہ مارنے جا رہی تھی۔ بستی سے کچھ دور یہ جماعت رُک گئی۔ شاید چل چل کر مجاہدین تھک گئے تھے۔ بستی سے دو تین عورتیں دوڑی آرہی تھیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں مسلمان موجود ہیں۔ مسلمان چھپ کر بیٹھے سستا رہے تھے۔ عورتیں ا ن کے درمیان آگئیں ۔مجاہدین اُٹھ کھڑے ہوئے ۔عورتیں اور زیادہ خوف ذدہ ہو گئیں۔

’’ہم ظلم سے بھاگ کر آئی ہیں۔‘‘ ایک عورت نے کہا۔’’ ہماری اپنی فوج کے پچیس آدمی ہمارے گاؤں میں آگئے ہیں۔ لوگوں کے گھروں سے شراب منگوا کر پی رہے ہیں اور انہیں جو لڑکی اچھی لگتی ہے اسے الگ لے جا کر خراب کرتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے اس گاؤں پر انہیں کی حکومت ہو۔‘‘

مجاہدین کی نفری ان فوجیوں کی نسبت خاصی تھوڑی تھی ،پھر بھی ان عورتوں کو ساتھ لے کر وہ بستی میں چلے گئے۔ فارس کے فوجی شراب کے نشے میں بد مست تھے اور بستی میں انہوں نے ادھم مچا رکھا تھا۔ لوگوں نے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے۔ کچھ جوان عورتیں اِدھر اُدھر بھاگ گئی تھیں۔ مجاہدین نے کسی ایک بھی فوجی کو زندہ نہ چھوڑا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے مجاہدین کے آگے اناج کی بوریوں کے ڈھیر لگا دیئے۔

٭ 

فارس کا بادشاہ یزد گرد مدائن میں تھا ۔اسے اطلاع ملی کہ کچھ لوگ فریادی بن کر آئے ہیں۔ یزد گرد باہر آگیا ۔بیس پچیس معزز قسم کے آدمی باہر کھڑے تھے۔ سب تعظیماً رکوع میں چلے گئے۔ 

’’سیدھے ہو جاؤ اور بات کرو۔‘‘ نوجوان یزدگرد نے کہا۔’’ کیا فریاد لے کر آئے ہو۔‘‘ 

’’شہنشاہِ فارس! ‘‘ان لوگوں میں سے ایک نے شاہی آداب کی پابندی کرتے ہوئے کہا ۔’’کسریٰ کی نسل کا اقبال بلند ہو ۔سورج کے بیٹے……‘‘ 

’’جو بات کرنے آئے ہو وہ کرو۔‘‘ یزد گرد نے غصے سے کہا۔’’ یہاں کوئی شہنشاہ نہیں۔ وقت ضائع نہ کرو۔‘‘ 

’’پھر سن لے شہزادہ یزدگرد!‘‘ ایک معمر آدمی نے کہا۔’’ مسلمانوں نے ہمارے گھر خالی کر دیئے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے فارس ہمارا نہیں مسلمانوں کا ملک ہے ۔اپنی فوج کا کہیں نام و نشان نہیں ملتا۔ اپنے فوجی کہیں نظر آتے ہیں تو و ہ اپنے ہی لوگوں کو پریشان کرتے نظر آتے ہیں۔‘‘ 

ان لوگوں نے بتایا کہ مسلمان کس طرح آتے ہیں اور وہ بستیوں سے کیا کچھ اٹھا لے جاتے ہیں۔ 

یزدگرد ان لوگوں سے فارغ ہو کر اندر گیا ہی تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ حاکمِ حیرہ مرزبان آیا ہے۔ یزدگرد نے اُسے اندر بلا لیا۔ 

’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے۔‘‘یزدگرد نے کہا۔ 

’’میں اپنا چہرہ کسی کو دکھانے کے قابل نہیں رہا شہنشاہِ فارس!‘‘ مرزبان نے کہا۔’’ عرب کے یہ ڈاکو میری بیٹی کو اٹھا لے گئے ہیں۔ اس کا جہیز بھی لے گئے ہیں۔ بارات کے ساتھ معزز گھرانوں کی تیس عورتیں تھیں۔ اُنہیں بھی لے گئے ہیں ۔میں نے جسے داماد بنایا تھا اُسے قتل کر گئے ہیں۔‘‘ 

مؤرخ لکھتے ہیں کہ یزدگرد نے اس سے آگے کچھ نہ سنا۔ غصے سے اٹھا ، لمبے لمبے ڈگ بھرتا کچھ دیر کمرے میں ٹہلا، رُکا اور مرزبان کی طرف دیکھا۔ 

’’تم واپس حیرہ چلے جاؤ ۔‘‘یزدگرد نے کہا۔’’ میں عرب کی ساری بیٹیاں اُٹھوا دوں گا……رستم کو بلاؤ۔‘‘ 

حاکمِ حیرہ مرزبان حیرہ چلا گیا۔ 

رستم افواجِ فارس کا کمانڈر انچیف تھا اور اسے کُلی اختیارات حاصل تھے۔ ان حالات میں جب مسلمان عراق میں دندناتے پھر رہے تھے اور ان کے خوف سے بستیاں خالی ہوئی جا رہی تھیں ، سب کی نظریں رستم پر لگی ہوئی تھیں۔ یزدگرد سے لے کر ایک عام اور غریب فارسی تک یہی کہتے تھے کہ رستم ہی مسلمانوں کو فارس سے نکال سکتا ہے اور رستم ہی عرب پر یلغار کرکے اسلام کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ 

لوگوں کی نظریں تو رستم پر لگی ہوئی تھیں لیکن رستم کی نظریں اس زائچے پر لگی ہوئی تھیں جو اس نے علمِ نجوم و جوتش کی مدد سے بنایا تھا۔ پہلے ایک باب میں بتایا جا چکا ہے کہ رستم علمِ نجوم اور جوتش میں دسترس رکھتا تھا۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ علمِ نجوم کا ماہر تھا اور اس کا تیار کیا ہوا زائچہ اور اس کی پیشگوئی کبھی غلط نہیں نکلی تھی۔ فارس کے انجام کے متعلق اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اچھا نہیں بلکہ بہت برا ہو گا۔ 

جس وقت حاکمِ حیرہ مرزبان یزدگرد کے آگے اپنی بیٹی کا رونا رو رہا تھا، اس وقت رستم کے پاس پوران دخت اور اس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ زائچہ سامنے رکھے انہیں بتا رہا تھا کہ فارس کا انجام اچھا نہیں ہو گا۔ 

’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تم نے زائچہ صحیح بنایا ہے۔‘‘ پوران دخت نے پوچھا۔ 

’’اور اگر یہ زائچہ صحیح ہے۔‘‘ رستم کی بیوی نے کہا۔’’ تو اس کا انجام بدل دینے کا کوئی طریقہ نہیں؟……عامل ہیں، جادوگر ہیں۔‘‘ 

’’نہیں!‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ یہ انجام ستاروں کے زیرِ اثر ہے۔ میں ستاروں کے سفر کے راستے نہیں بدل سکتا ۔میں کسی ستارے کو ایک برج سے نکال کر اپنی مرضی کے برج میں نہیں ڈال سکتا……ہاں پوران! میرا زائچہ بالکل صحیح ہے۔ یہ میں نے آج پہلی بار نہیں بنایا۔ جب تم تخت نشین ہوئی تھیں تو بھی میں نے یہ زائچہ تیار کیاتھا۔ ستاروں کے راستے اچھی طرح دیکھے تھے ۔اس وقت بھی مجھے یہی جواب ملا تھا۔‘‘ 

اتنے میں یزدگرد کے قاصد نے آکر اسے کہا کہ شاہِ فارس بلاتے ہیں۔ 

’’ابھی آتا ہوں۔‘‘ رستم نے قاصد کو رخصت کر کے پوران اور بیوی سے کہا۔’’ میں جانتا ہوں یزدگرد مجھے کیوں بلا رہا ہے۔ مجھ تک خبریں پہنچ چکی ہیں کہ عربی ہماری بستیوں میں لوٹ مار کر رہے ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عربوں سے ہماری جنگ قادسیہ کے میدان میں ہوگی اور یہ بڑی ہولناک جنگ ہو گی ۔عربوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہزار ہو گی اور ہماری فوج کی نفری سوالاکھ ہوگی۔‘‘ ’’لیکن……لیکن……آگے اندھیرا ہے۔‘‘ 

’’کیا یزدگرد کو بتا دو گے کہ……‘‘ 

’’نہیں!‘‘ رستم نے پوران کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اسے بتایا تو وہ سمجھے گا کہ میں لڑنے سے گریز کر رہا ہوں۔ میں صرف یہ کر سکتا ہوں کہ فارس کے اس انجام کو کچھ دنوں کیلئے ٹال دوں۔ یزدگرد سے کہوں گا کہ مجھے مدائن میں رہنے دے اور میں یہیں سے اپنی فوج کو لڑاتا اور مدد دیتا رہوں گا……میرا غم ایک اور بھی ہے ۔میں نہیں چاہتا کہ فارس کی شکست میرے نام لکھی جائے۔ میں نے آج تک کسی میدان میں شکست نہیں کھائی ۔ میں نے شکستیں دی ہیں ۔میرا نام ہی فتح کا ضامن ہا ہے۔ میں کیسے برداشت کر لوں کہ ہونے والی عبرتناک شکست میرے کھاتے میں ڈال دی جائے۔‘‘ 

ایک تو یہ حقیقت ہے جو ہر مؤرخ نے لکھی ہے کہ رستم جنگ کو ٹالنا چاہتا تھا۔ جنگ کو ٹالنے کی دوسری وجہ اس کا وہ وعدہ بھی تھا جو اس نے شیریں کے ساتھ کیا تھا۔ اس نے شیریں سے کہا تھا کہ وہ جنگ کو ٹالے گا۔ شیریں کے عزائم یہ تھے کہ وہ اپنے بیٹے شیرویہ کے قتل کا انتقام لینا چاہتی ہے اور اس کا ارادہ ملکہ بننے کا بھی تھا۔ اس نے رستم کو ایک خزانے کا اور وزیراعظم کے رتبے کا لالچ بھی دیا تھا۔

رستم یزدگرد کے محل کو روانہ ہو گیا۔ 

خلیفہ اول ابو بکر صدیق ؓکے حکم سے مرتدین کے خلاف لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان میں ایک لڑائی جنگِ بزاخہ کے نام سے مشہور ہوئی جو خالدؓ بن ولید نے طلیحہ کے خلاف لڑی تھی۔ طلیحہ نے بہت بری شکست کھائی تھی اور گرفتار بھی ہو گیا تھا۔ آگے چل کر طلیحہ نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ا س لڑائی سے کچھ دن پہلے طلیحہ نے ارتداد کے سلسلے میں عکاشہ بن محصن کو قتل کر دیا تھا۔ یہ قتل بہت مشہور ہو اتھا۔ 

اب نجف کے قریب طلیحہ واپس آنے سے انکار کر رہا تھا تو ایک مجاہد نے اسے اس قتل کا طعنہ دیا تھا ۔کوئی مجاہد یہ نہیں مان سکتا تھا کہ طلیحہ کسی نیک مقصد کیلئے پیچھے رُک رہا ہے۔ اس نے پہلے اسلام قبول کیا پھر مرتد ہو گیا بلکہ مرتدین کا لیڈر بن کر مسلمانوں کے خلاف لڑا اور شکست ہوئی تو پھر مسلمان ہو گیا اور اب اس کے ساتھی اس کی نیت پر بجا طور پر شک کر رہے تھے۔ 

اس نے واپس جانے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے ساتھی واپس چلے گئے اور اپنے سپہ سالار سعد ؓبن ابی وقاص کو بتایا کہ طلیحہ واپس نہیں آیا۔ 

’’اﷲ اسے سیدھا راستہ دکھائے۔‘‘ سعد ؓنے کہا اور آہ بھر کر خاموش ہو گئے۔ 

رات کا وقت تھا۔رستم کے کیمپ میں موت کا سکوت تھا۔ چونکہ مسلمانوں کی چھاپہ مار ٹولیاں سرگرم تھیں، اس لیے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ مسلمان خیمہ گاہ کے کسی نہ کسی گوشے پر شب خون ماریں گے۔ اس خطرے کے پیشِ نظر رستم نے حکم دیا تھا کہ سنتری بیدار اور ہوشیار کھڑے رہیں اور گھوڑے ایک جگہ نہ باندھیں۔ ہر سوار اپنا گھوڑا اپنے ساتھ رکھے اور گھوڑے کے قریب سوئے۔ 

رات کے سناٹے میں فارسیوں کے کیمپ کے اردگرد ٹہلتے ہوئے سنتریوں کے قدموں کی دھیمی دھیمی چاپ سنائی دیتی تھی اور کہیں د و سنتری آپس میں باتیں کرتے سنائی دیتے تھے۔ رات تاریک تھی۔ 

ایک سایہ کیمپ سے کچھ دور ایک درخت کی اوٹ سے نکلا اور آہستہ آہستہ کیمپ کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ کوئی آدمی تھا۔ رات کی تاریکی کے علاوہ وہاں سبزہ ،اونچی گھاس ،خودرو پودے اوردرخت اتنے زیادہ تھے کہ یہ سایہ کسی کو نظر نہیں آسکتا تھا ۔وہ دبے پاؤں بڑھتا چلا گیا۔ 

دو سنتری آرہے تھے ۔ان کے قدموں کی چاپ اور باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ آدمی پودوں کی اوٹ میں بیٹھ گیا ۔سنتری آگے نکل گئے تو وہ اٹھا اور جھک کر آگے بڑھا ۔تاریکی میں اسے گھوڑوں کے ہیولے نظر آنے لگے ۔شاید یہ جگہ یا گھوڑے اسے اچھے نہیں لگے تھے یا وہ کسی مخصوص شکار پر آیا تھا۔ وہ وہاں سے ایک طرف چل پڑا۔ 

آگے سے دو اور سنتری آرہے تھے ۔وہ گھاس میں لیٹ گیا ۔سنتری اس سے صرف ایک قدم دور سے آہستہ آہستہ گزر گئے ۔وہ پھر رکوع کی حالت میں چلنے لگا اور بہت سا چل کر رک گیا۔ اسے ایک چھوٹا سا خیمہ دکھائی دیا جو اس سے دور نہیں تھا۔ ایسے چھوٹے خیمے رومی اور فارسی فوج کے افسروں کے ہوتے تھے۔ 

اس خیمے کے ساتھ دو گھوڑے بندھے ہو ئے تھے اور ایک آدمی ان دو گھوڑوں کے قریب زمین پر بستر ڈال کر سویا ہو اتھا۔ 

وہ وہیں چھپ گیا۔ دو اور سنتری آرہے تھے ۔وہ اس وقت اٹھا جب سنتری دور چلے گئے ۔یہ خیمہ فوج سے ذرا ہٹ کر تھا۔ اس شخص نے نیام سے تلوار نکالی اور گھوڑوں کے پاس جا کر ایک گھوڑا کھولا ۔پھر دوسرا بھی کھول لیا۔ خیمے کے قریب سوئے ہوئے آدمی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ کسی نے گھوڑے کھول لیے ہیں تو وہ تلوار نکال کر اٹھا۔ وہ شخص دونوں گھوڑوں کے گلوں میں پڑی ہوئی رسیاں پکڑ کر چل پڑا تھا۔ فارسی فوجی نے اسے للکارا اور اس کے پیچھے بھاگا۔ 

اس کے ساتھ ہی خیمے سے آواز آئی۔’’ کون ہے؟ خاموش رہو۔ سونے دو ۔ ‘‘وہ کوئی افسر ہی ہو سکتا تھا۔ 

’’کوئی آدمی گھوڑے کھول کر لے جا رہا ہے۔‘‘ باہر والے فارسی نے کہا اور دوڑ کر گھوڑے لے جانے والے تک گیا۔

گھوڑے لے جانے والا دوڑ پڑا۔ لیکن فارسی نے اسے دور نہ جانے دیا ۔گھوڑے لے جانیو الے نے گھوڑے کی رسیاں نہ چھوڑیں اور تلوار سے فارسی کا مقابلہ کیا ۔دو تین پینترے بدل کر ہی اس فارسی کو اس طرح گھائل کیا کہ اس کی تلوار برچھی کی طرح فارسی کے پیٹ میں اتنی شور سے اتری کہ تلوار کی نوک پیٹھ سے باہر نکل گئی۔ 

علامہ شبلی نعمانی نے اس معرکے کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک فارسی کو تو اس شخص نے گرادیا لیکن خیمے سے نکل کر جو فارسی آیا وہ کوئی سپاہی یا معمولی سا عہدیدار نہیں تھا ۔وہ فارس کا ایک مشہور فوجی افسر تھا جسے ’’ہزار سوار‘‘ کا خطاب ملا ہو اتھا۔ یہ غیر معمولی بہادری کے صلے میں دیا جاتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص ایک ہزار سواروں کے برابر ہے ۔یعنی یہ اکیلا ایک ہزار سواروں کا مقابلہ کرنے کی جرأت کا مالک ہے۔

علامہ شبلی نعمانی نے اس کا نام نہیں لکھا۔ ا س کے ہاتھ میں برچھی تھی۔ گھوڑے لے جانے والا کیمپ سے کچھ دور چلا گیا تھا۔ ہزار سوار نے اسے دور نہ جانے دیا۔ وہ شخص بھی رک گیا اور تلوار اور برچھی کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ ہزار سوار نے برچھی کے جتنے بھی وار کیے وہ تلور والے نے اِدھر اُدھر ہو کر بیکار کر دیئے۔ یہاں تک کہ تلوار والا شاید زمین نا ہموار ہونے کی وجہ سے گر پڑا اور وہ پیٹھ کے بَل ہو گیا۔ ہزار سوار نے اوپر سے برچھی ماری جو گرے ہوئے شخص کے سینے یا پیٹ میں اتر جانی تھی لیکن وہ حیران کن پھرتی سے ایک طرف لڑھک گیا۔ 

برچھی کا وار بہت زور دار تھا۔ وہ شخص ایک طرف ہو گیا تو برچھی زمین میں اتر گئی۔ ہزار سوار اپنے جسم کو قابو اور توازن میں نہ رکھ سکا اور آگے کو ہو کر گرنے لگا ۔گرے ہوئے شخص نے لیٹے لیٹے تلوار کا وار برچھی کی طرح کیا اور تلوار ہزار سوار کے پہلو میں اتر گئی۔ اس کے ہاتھ برچھی سے ہٹ گئے۔ تلوار والا گیند کی طرح اچھل کر اٹھا ۔زمین میں اتری ہوئی برچھی نکالی۔ ہزار سوار گر پڑا تھا۔ تلوار والے نے برچھی ہزار سوار کے سینے میں اتار دی اور برچھی اس کے سینے میں ہی رہنے دی۔ 

محمد حسنین ہیکل نے بھی یہ واقعہ تین مسلمان اور ایک یورپی مؤرخ کے حوالوں سے تفصیل سے لکھا ہے۔ ہزار سوار مارا گیا تو ایک اور سوار فارسی تلوار لیے دوڑآیا ۔ اس نے جب دو لاشیں پڑی دیکھیں تو اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اس نے اپنے آپ کو بچانے کیلئے تلوار چلائی لیکن پھر تلوار پھینک دی۔ 

’’کون ہے تو جس نے ہزار سوار کو مار ڈالا ہے؟‘‘ اس نے پوچھااور خوفزدہ آواز میں کہا۔’’ تو جو کوئی بھی ہے۔ مجھے اپنا قیدی سمجھ ۔میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘ 

’’ایک گھوڑے پر سوار ہو جا۔‘‘ دوسرے شخص نے اس فارسی سے کہا۔’’ زینیں نہیں ہیں ۔مضبوطی سے بیٹھنا اور ا س گھوڑے کی رسی میرے ہاتھ رہے گی۔‘‘ 

’’جلدی کر۔‘‘ فارسی نے ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر کہا۔’’ میرے بھائی بند جاگ اٹھے ہیں۔‘‘ 

وہ شخص بھی گھوڑے پر سوار ہو گیا اور اتنے میں سنتری بھی آگئے اور ایسا شور اٹھا جیسے پورا کیمپ جاگ اٹھا ہو۔ 

’’گھوڑے کھُل گئے۔‘‘ 

’’ہزار سوار مارا گیا ہے۔‘‘ 

’’وہ گیا……آگے سے روکو‘‘ 

’’یہ کوئی عربی ہو گا۔‘‘ 

ایک شور تھا، ہنگامہ تھا ۔بیشمارفارسی فوجی گھوڑوں پر سوار برچھیاں اور تلواریں لیے دوڑ پڑے۔ دو گھوڑے اور ایک قیدی لے جانے والا شخص سر پٹ جا رہا تھا۔ دو گھوڑوں کے ٹاپ اس کی نشاندہی کررہے تھے۔ فارسی سواروں نے دائیں بائیں سے اسے گھیرے میں لیا تو وہ ان سواروں کے درمیان سے نکل گیا۔وہ کوئی شہسوار تھا جو ننگی پیٹھ پر سوار ہونے کے باوجود گھوڑے کو قابو میں رکھے ہوئے گھیرے سے نکل جاتا تھا۔ 

آخر وہ نکل گیا اور فارسی سوار واپس آگئے۔ 

٭

٭ 

رستم بھی جاگ اٹھا۔ اپنی ایک میل سے زیادہ لمبائی اور اتنی ہی چوڑائی میں پھیلی ہوئی خیمہ گاہ میں مچی ہوئی ہڑبونگ نے اسے پریشان کر دیا۔ 

’’کیا ان بدبخت عربوں نے شب خون مارا ہے؟‘‘ اس نے گھبراہٹ آمیز آواز میں پوچھا اور کہا۔’’ ان سنتریوں کو زندہ جلا دو۔‘‘ 

’’کچھ معلوم نہیں کیا ہوا ہے عالی مقام! ‘‘اس کے ایک محافظ نے کہا۔’’پہاڑی کی طرف سے شور اٹھا تھا۔ جدھر ندی ہے۔‘‘ 

رستم شب خوابی کے لباس میں تھا ۔اسی لباس میں ایک محافظ کے گھوڑے پر سور ہوا اور گھوڑا دوڑاتا وہاں پہنچا جہاں ہزار سوار کی لاش اور ایک فارسی کی لاش پڑی تھی۔ 

فوری طور پر جو باتیں معلوم ہو سکیں وہ رستم کو بتائی گئیں ۔وہ مان نہیں رہا تھا کہ شب خون مارنے والا ایک آدمی تھا ۔تعاقب کرنے والوں نے بتایا کہ دو آدمی تھے ۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ دوسرا سوار ان کا اپنا ہی ساتھی تھا۔ 

’’ہزار سوار کو ایک یا دو آدمی قتل کر کے نہیں جا سکتے۔ ‘‘رستم نے کہا۔’’ یہ برچھی اس کی اپنی ہے جس سے اسے مارا گیا ہے……اگر قاتل اکیلا تھا یا دو تھے تو وہ انسان نہیں ہوسکتے ، جن یا بھوت ہوں گے۔‘‘ 

ہزار سوار کے ساتھ جو آدمی مارا گیاتھا ،وہ اس کا محافظ تھا۔ اس کے دو محافظ تھے جو اس کے خیمے کے باہر سوتے تھے ۔رستم نے پوچھا کہ دوسرا محافظ کہاں ہے؟ پتہ چلا کہ وہ لا پتہ ہے۔ 


رستم حیرت زدگی کے عالم میں وہاں سے چلا گیا ۔اس پرخاموشی طاری ہو گئی تھی۔ 

جاری ھے

Post a Comment

Previous Post Next Post