حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش) قسط نمبر 15 ۔۔۔۔۔ Hijaz Ki Aandhi Part 15

 حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 15

جس وقت مدائن میں فارسی جرنیل آپس کے اختالافات ختم کرنے میں مصروف تھے اور پوران ان کو فارس کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھالنے کی تلقین کر رہی تھی اور بہمن جادویہ نے کہا تھا کہ جابان مسلمانوں کے تعاقب میں گیا ہے اور وہ انہیں بھی ان کے خون میں نہلا کر آئے گا۔ اس وقت مثنیٰ کے تین ہزار مجاہدین جابان کی تمام فوج کو اس کے خون میں ڈبو چکے تھے۔ نہ جابان رہا نہ جابان کا کوئی سپاہی رہا۔ 
اس معرکے کے بعد مثنیٰ الیس کے قلعے میں چلے گئے ۔ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت بہت بری تھی۔ وہ تو اب قدم گھسیٹ رہے تھے۔ یہ ان کی روحانی قوت تھی کہ وہ چل پھر رہے تھے۔ مثنیٰ نے انہیں قلعے میں اکٹھا کیا۔ 
’’میرے عزیز رفیقو! ‘‘مثنیٰ نے مجاہدین سے خطاب کیا۔’’ میں جانتا ہوں تم کس حال میں ہو۔ میں جانتا ہوں تم کیا محسوس کر رہے ہو۔ تم غمگین ہو اپنے ان ساتھیوں کیلئے جو جسر کی لڑائی میں شہید ہو گئے ہیں۔ نکال دو غم اپنے دلوں سے ۔ انہیں مردہ نہ سمجھو جنہوں نے اﷲ کی راہ میں جانیں دی ہیں۔ وہ زندہ ہیں اور تمہارے ساتھ ہیں۔ تم نے جابان فارسی کی پوری فوج کو کاٹ کر اپنے ساتھیوں کے خون کا انتقام لے لیا ہے۔ تمہارے شہید ساتھی تمہارے ساتھ تھے۔ ان کی روحیں تمہارے ساتھ تھیں ورنہ تم اپنے ٹوٹے پھوٹے جسموں سے اتنی بڑی فوج کو لاشوں کا ڈھیر نہ بنا سکتے……‘‘ 

تاریخوں میں لکھا ہے کہ مثنیٰ جب بول رہے تھے تو صاف پتہ چلتا تھا کہ ان کا سانس پھولا ہوا ہے اور وہ بولنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔ معرکہ جسر میں جب مثنیٰ مجاہدین کو پل سے گزار رہے تھے تو کسی فارسی نے ان پر برچھی پھینکی تھی۔ مثنیٰ نے زنجیروں والی زرہ پہن رکھی تھی۔ برچھی سے زرہ کی کڑی ٹوٹ کر ان کے جسم میں داخل ہوگئی تھی۔ برچھی پہلو میں لگی تھی۔ شاید وہاں سے ایک دو پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس وقت پرچم مثنیٰ کے پاس تھا۔ جو انہوں نے گرنے نہیں دیا تھا۔ 
انہیں زخم کی باقاعدہ مرہم پٹی کی مہلت ہی نہیں ملی تھی۔ انہوں نے اتنی سی مرہم پٹی کی تھی۔ زخم میں کپڑا ٹھونس کر اوپر کپڑا باندھ دیا تھا ۔انہیں الیس تک کی مسافت طے کرنی پڑی تھی اور الیس میں خونریز اور گھمسان کی لڑائی بھی لڑنی پڑی۔ زخم سے خون نکلتا رہا اور جسم کے اندر بھی خون بھرتا رہا تھا ۔ وہ اپنے مجاہدین کی حوصلہ افزائی کیلئے خطاب کر رہے تھے کہ زخم میں درد کی شدید ٹیس اٹھی اور دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ آگے نہ بول سکے اور گھوڑا ایک طرف موڑ کر اس طرف چلے گئے جہاں انہوں نے قیام کرنا تھا۔ 
الیس ایک قلعہ تھا اور ایک بڑا قصبہ بھی تھا۔ وہاں جراح اور طبیب موجود تھے۔ وہ دوڑتے پہنچے اور زخم کی باقاعدہ مرہم پٹی کر دی۔ طبیب اور جراح نے انہیں سختی سے کہا کہ وہ مکمل آرام کریں۔ کسی لڑائی میں شریک نہ ہوں اور گھوڑ سواری زخم ٹھیک ہونے تک نہ کریں۔ 
’’مکمل آرام کا وقت نہیں۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ تم لوگ اپنا کام کرو، اور مجھے میرے کام سے نہ روکو۔ تمہارا کام ہے میرے زخم کو ٹھیک کرنااور میراکام ہے زخم کی پرواہ نہ کرنا۔ میں اﷲ کے حکم کا پابند ہوں۔‘‘ 
انہیں بہت کہا گیا کہ زخم خراب ہو گیا تو پیپ پھیپھڑے میں چلی جائے گی لیکن مثنیٰ نے ایک نہ سنی۔ 
سورج غروب ہونے کو تھا جب زمرد گھوڑے پر سوار الیس کے دروازے پر پہنچی۔ اس نے صہیب ثقفی کو گھوڑے پر سوار آگے بٹھا رکھا تھا ۔ وہ بیہوش تھا۔ قلعے کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ مثنیٰ نے حکم دیا تھا کہ دروازہ کسی کیلئے نہ کھولا جائے۔ دروازے کے اوپر ایک دریچہ کھلا تھا جس میں ایک سنتری کھڑا تھا۔ اس نے زمرد سے پوچھا کہ وہ کو ن ہے اور کیوں آئی ہے ؟سنتری نے یہ بھی کہا کہ دروازہ نہیں کھلے گا۔ 
’’دروازہ نہیں کھلے گا تو تمہارے اس مسلمان ساتھی کی زندگی کا دروازہ بند ہو جائے گا۔‘‘ زمرد نے کہا ۔’’میں اسے جسر کے میدان سے اٹھا لائی ہوں۔‘‘ 
’’تم مسلمان نہیں ہو۔‘‘ سنتری نے کہا۔’’ تمہارے لیے دروازہ نہیں کھلے گا۔‘‘ 
’’میرے لیے نہیں۔ ‘‘زمرد نے کہا۔’’ اپنے اس ساتھی، اس بھائی کیلئے دروازہ کھول دو ورنہ یہ مر جائے گا۔‘‘ 
’’تم عجمی ہو۔ ‘‘دریچے سے آواز آئی۔ 
’’یہ عربی ہے عجمی نہیں۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ یہ صہیب ابن القدر ثقفی ہے۔ میں عورت ہو کر اسے جسر کے میدان سے اٹھا لائی ہوں اور تم مرد ہوتے ہوئے مجھ سے ڈرتے ہو اوردروازہ نہیں کھولتے۔ میں اس کی خاطر اپنا گھر، ماں باپ، بہن بھائی اور اپنا مذہب سب چھوڑ کر آئی ہوں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہارے ساتھی کو یہاں پھینک کر اپنے مذہب میں واپس چلی جاؤں؟کیا یہ ہے تمہارا مذہب؟‘‘ 
’’خد اکی قسم! ‘‘دریچے سے نہیں بلکہ اوپر دیوار سے ایک آواز آئی۔’’ ایک عورت یہ شکوہ لے کر نہیں جائے گی کہ مسلمانوں کے ہاں اسے پناہ نہیں ملی تھی۔ تیری قربانی کا تجھے پورا صلہ ملے گا۔‘‘ یہ آواز بڑی زور سے گرجی۔’’ دروازہ کھول دو۔‘‘ 
دروازہ کھل گیا۔ زمرد نے گھوڑے کو ڈیڑھ دن کی مسافت میں اتنا کم آرام دیا تھا کہ قلعہ کا دروازہ کھلا تو گھوڑا قدم نہیں اٹھاتا تھا۔ صہیب تو بیہوش تھا ہی ،زمرد پر بھی غشی طاری ہوئے جا رہی تھی۔ راستے میں اس نے صہیب کے منہ میں پانی ٹپکایا اور خود بھی پانی پیا تھا، کھایا کچھ بھی نہیں تھا۔ 
ایک آدمی نے باگ پکڑ کر کھینچی تو گھوڑا آگے چلا ۔کچھ مجاہدین اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان سب نے صہیب کو پہچان لیا۔ انہوں نے اسے گھوڑے سے اتارا اور طبیب کے ہاں لے گئے ۔مثنیٰ کو اطلاع دی گئی کہ بار سماء کی ایک آتش پرست لڑکی اپنے ایک مجاہد کو جسر کے میدان سے اٹھا کر لے آئی ہے۔ مثنیٰ نے کہا کہ اسے فوراً لے آؤ۔ 
زمرد کو مثنیٰ کے کمرے میں لے گئے۔ اس نے مثنیٰ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ اپنی آنکھوں سے لگایا پھر چوما اور ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہٹ آئی۔ مثنیٰ نے اس کے چہرے کو بہت غور سے دیکھا اور ان کے ماتھے پرشکنیں آگئیں۔ وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ 

’’خدا کی قسم! یہ چہرہ میرے لیے غیر مانوس نہیں۔‘‘ مثنیٰ نے کہا اور زمرد سے پوچھا۔’’ میں نے تمہیں کہاں دیکھا تھا؟تھکن کے اتنے گہرے سائے تمہارے چہرے کی معصومیت کو چھپا نہیں سکے۔‘‘ 
’’آپ بھول سکتے ہیں۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میں آپ کو نہیں بھول سکتی۔وہ دن یاد کریں جب آپ بار سماء آئے تھے اور میرے وطن کے ان فوجیوں کے سر تن سے جدا کر دیئے تھے۔ جنہوں نے عورتوں کو بے آبرو کردیا تھا۔ آپ نے اپنی تلوار مجھے دے کر کہا تھا کہ اس فوجی کی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ دوں اور اپنی آبرو کی بربادی کا انتقام لوں۔ میں نے تلوار اوپر اٹھائی تھی لیکن……‘‘ 
’’لیکن تم نے تلوار نیچے کر لی تھی۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔ ’’اور تم نے رونا شروع کر دیا تھا۔ پھر میرے ایک مجاہد نے جوشِ غیرت میں آگے بڑھ کر اس فارسی کی گردن صاف کاٹ دی تھی۔‘‘ 
’’میں آپ کے مجاہد کو نہ بھول سکی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’دن کو تصوروں میں اور رات کو خوابوں میں اسے دیکھتی رہی ۔میں سوچتی تھی کہ اسے کیاانعام دوں ۔ اس کے اس احسان کا کیا صلہ دوں۔ لیکن میں مجبور اور بے بس تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ مسلمان جس اﷲ کو مانتے ہیں وہ اس مجاہدکو صلہ دے گا، اور اﷲ نے اسے صلہ دینے کا ذریعہ مجھے بنایا ۔میں اسے لاشوں میں سے اٹھا لائی ہوں۔ میں لوگوں کے ساتھ رات میں میدانِ جنگ میں چلی گئی۔ میں اپنے بھائی کی تلاش میں گئی تھی لیکن یہ مجاہد مجھے نظر آگیا۔ اسے کچھ دیر بعد مر جانا تھا۔ میرا چچاتواسے اسی وقت مارنے لگا تھا۔ میں آگے آگئی اور اسے بچا لیا۔ 
زمرد نے تفصیل سے سنایا کہ وہ اپنے چچا کا گھوڑا چوری کر کے صہیب کو اس پر ڈال کر لے آئی۔ اس نے الیس تک کے سفر کی روئیداد سنائی۔ 
’’میں اتنی دلیر تو نہیں تھی۔‘‘ اس نے کہا۔’’ لیکن میرے دل میں اس شخص کی محبت پیدا ہو گئی تھی یا اس اﷲ نے جسے آپ مانتے ہیں میرے روح کو روشن کر دیا تھا۔ یا آپ سب کی عقیدت تھی جو میرے دل میں پیدا ہو گئی تھی ۔جس نے مجھے دلیر اور نڈر مرد بنا دیا……میں آپ کے اﷲ کو دل و جان سے مانتی ہوں۔ اگر آپ مجھے قبول کریں تو اپنے مذہب میں داخل کر لیں اور پھر صہیب ثقفی قبول کر لے تو میں باقی عمر اس کی خدمت میں گزاردوں گی۔میں نے واپس تو جانا نہیں۔‘‘ 
’’تمہاری دونوں خواہشیں پوری ہوں گی۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ سب سے پہلے ہم تمہیں اپنے مذہب میں داخل کریں گے۔ یہاں ہمارے بعض مجاہدین کی بیویاں موجود ہیں ۔تم ان کے ساتھ رہو گی۔ جب صہیب پوری طرح ٹھیک ہو جائے گاتو اس کے ساتھ تمہارا نکاح پڑھا دیا جائے گا۔‘‘ 
مثنیٰ نے اسی وقت اسے حلقہ بگوش اسلام کر لیااور حکم دیا کہ اسے عورتوں کے حوالے کر دیا جائے اور اسے کھانا کھلایا جائے۔زمرد کے جانے کے بعد مثنیٰ اٹھے اور صہیب کو دیکھنے چلے گئے۔ جراح نے صہیب کے زخموں کی پٹی کر دی تھی اور اس کے منہ میں شہد ملا دودھ ڈال رہا تھا۔
وہ عبداﷲ بن زید تھا جو جسر کی لڑائی سے نکل کر مدینہ پہنچا، اوروہ پہلا شخص تھا جس نے مسلمان لشکر کی تباہی اور پسپائی کی تفصیل امیر المومنین حضرت عمرؓ کو سنائی تھی۔ حضرت عمرؓ نے یہ روح فرسا تفصیل مسجد کے دروازے میں کھڑے کھڑے سنی تھی۔ ’’خدا کی قسم!‘‘حضرت عمر ؓنے کہا تھا۔’’ میں نے ابو عبید کو صحابیوں پر سپہ سالار مقرر کر کے غلطی تو نہیں کی تھی۔‘‘ تفصیل سے پڑھئے 
محمد حسنین ہیکل مختلف مؤرخوں کے حوالے سے لکھتا ہے کہ عبداﷲ بن زید خلیفہ کے عتاب سے کانپ کر اور بے قابو ہو کر رو رہا تھا ۔خلیفہ عمرؓ نے اس نے طرف دیکھا تو ا ن کے چہرے پر غصے ،پریشانی اور اضطراب کا جو ملا جلا تاثر تھا وہ یکسر غائب ہو گیا۔ اور اس مبارک چہرے پر جلالی تاثر آگیا۔ 
’’ابنِ زید!‘‘ حضرت عمرؓ نے عبداﷲ سے یہ الفاظ کہے جو تاریخ میں محفوظ ہیں۔’’ مت رو۔ تو میرے پاس آگیا ہے۔ تیرا ذمہ دار میں ہوں۔اﷲ ابو عبید پر رحم فرمائے‘ اگر وہ بھی میرے پاس آجاتا تو میں اس کا بھی ذمہ دار ہوتا۔‘‘ 
امیرالمومنین حضرت عمر ؓکا مطلب یہ تھا کہ معرکہ جہاد میں کسی سالار یا سپاہی سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں اور اﷲ کے حضور ا س کی لغزش کا جواب میں ہی دوں گا۔
’’امیر المومنین! ‘‘عبداﷲ بن زید نے حوصلے میں آکر کہا۔’’ میں اکیلا بھاگ کر نہیں آیا۔ سینکڑوں آدمی بھاگے چلے آرہے ہیں لیکن وہ شرم و ندامت سے مدینہ میں داخل نہیں ہوں گے۔‘‘ 
’’اﷲ ان کی شرم و ندامت قبول فرمائے۔‘‘ امیر المومنین ؓنے مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا۔’’ سب سن لو اور باہر جاکر ہر کسی سے کہہ دو کہ جو مجاہدین محاذسے بھاگ کر آئے ہیں ،ان کا استقبال کرو، اور ان سے طنز و ملامت کی گفتگو نہ کرو۔ اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ تم تو اﷲ کے بندے ہو۔‘‘ 
ابو حنیفہ دینوری اور طبری نے مدینہ کے رہنے والے ایک مجاہد معاذ قاری کا واقعہ لکھا ہے۔ یہ مجاہد بنی نجار سے تعلق رکھتا تھا ۔وہ بھی عبداﷲ بن زید کی طرح سیدھا حضرت عمر ؓکے پاس پہنچ گیا اور وہ بھی بہت رویا۔ حضرت عمرؓ نے اسے بھی انہیں الفاظ میں حوصلہ دیا۔ جن الفاظ میں عبداﷲ بن زید کو دیا تھا۔ 
ان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسی روز یا اگلے روز مغرب یا عشاء کی نمازمیں حضرت عمرؓ نے سورہ انفال پڑھی۔ جب یہ آیت پڑھی جا رہی تھی ’’اور آج کے دن جو)میدانِ جنگ میں(پیٹھ پھیرے گا سوائے اس کے کہ وہ جنگی مصلحت کیلئے پیچھے ہٹے تو اس پر اﷲ کا غضب نازل ہو گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہو گا جو بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘تو نماز میں ہی معاذ قاری ایسا روئے کہ ان کی ہچکیاں نکلنے لگیں ۔یہ آیت غزوۂ بدر کے وقت نازل ہوئی تھی۔ 

’’معاذ مت رو۔‘‘ نماز کے بعد حضرت عمرؓ نے اسے کہا۔’’ مت رو معاذ! تو میری پناہ میں آگیا ہے۔ میں تیرا ذمہ دار ہوں۔‘‘ 
یہ تینوں مؤرخ لکھتے ہیں کہ امیر المومنینؓ کے اس مشفقانہ سلوک کے باوجود معاذ قاری کی جذباتی حالت یہ رہی کہ جب کبھی یہ آیت سنتا تو زار و قطار رونے لگتا۔ دوبارہ محاذ پر جا کر اس کی یہ کیفیت ختم ہوئی تھی۔ 
فاروق اعظمؓ میں محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ جسر کی لڑائی میں سے جو مسلمان بھاگ کر مدینہ اور اپنے گھروں میں آگئے تھے ۔ان کی تعداد دو ہزار تھی۔ کچھ مؤرخوں نے تعداد لکھی ہی نہیں، اور جنہوں نے لکھی ہے انہوں نے سینکڑوں لکھی ہے۔ اس طرح بھاگ آنے والوں کی تعداد کا صحیح تعین نہیں کیاجا سکتا۔ بہرحال یہ تعداد کچھ کم بھی نہیں تھی۔ 
مبصر لکھتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کیا تھا تو کئی ایک سرداروں نے حضرت عمرؓ کی مخالفت میں یہ رائے دی تھی کہ عمرؓ سخت مزاج اور غصیلا ہے اور کسی کو معاف نہیں کرتا۔ حضرت عمرؓ نے خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی اپنے خلاف سب کے شکوے رفع کر دیئے تھے اور مخالفین مطمئن ہو گئے تھے ۔لیکن معرکہ جسر سے بھاگ آنے والوں کے ساتھ حضرت عمرؓ نے جو مشفقانہ سلوک اختیار کیا، اس نے ان کے دشمنوں کے دل بھی موہ لیے۔ سب کو یہ توقع تھی کہ امیر المومنین ؓان بھگوڑوں کو اگر دُرّے نہیں مروائیں گے تو ان پر اپنا عتاب نازل کریں گے اور انہیں لعنت و ملامت کا نشانہ بنائیں گے۔ لیکن حضرت عمرؓ کی زبان سے یہی الفاظ نکلتے تھے ۔’’ان کا ذمہ دار میں ہوں۔ یہ دوبارہ محاذ پر جائیں گے۔‘‘ 
اور وہ جو محاذ سے بھاگ آئے اور اپنے ان تین ہزار ساتھیوں کا ساتھ چھوڑ آئے تھے جو مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ تھے ۔وہ کس حال میں تھے؟ان کی جذباتی کیفیت کیا تھی؟ 

مستند مؤرخوں نے اس سوال کا بڑا واضح جواب دیا ہے۔ ایک مثال ابوشداد کی ہے جس کا تعلق بنی تمیم سے ہے۔ وہ مدینہ سے کچھ دور چھوٹے سے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس قبیلے کے چند ایک ہی آدمی عراق کے محاذ پر گئے تھے۔ جن میں ادھیڑ عمر ابو شداد بھی تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا جس کی عمر سولہ سترہ سال تھی ۔ اس سے چھوٹی تین یا چار بیٹیاں تھیں۔ 
’’میں تیرے بیٹے کو تیرے لیے زندہ رکھوں گا۔‘‘ ابو شداد نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔’’ میں نہ رہا تو تیرے اور تیری بیٹیوں کے سر پر ا س بیٹے کا ہاتھ ہو گا۔ اس پر جہاد کا جو فرض عائد ہوتا ہے وہ میں ادا کروں گا۔ اکلوتے بیٹے کا میرے بعد زندہ رہنا ضروری ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اس لشکر کے ساتھ عراق کے محاذ پر چلا گیا تھا جو ابو عبید کے ساتھ گیا تھا۔ 
معرکہ جسرکے بہت دنوں بعد ایک رات ابو شداد کے دروازے پر دستک ہوئی اور اس کے ساتھ گھوڑا ہنہنایا۔ ابوشداد کی بیوی جاگ اٹھی اور بیٹے کو جھنجھوڑ کر جگاتے ہوئے کہا۔’’ دیکھ ‘تیرا باپ آیا ہے۔ میں نے گھوڑے کی آواز بھی سنی ہے۔‘‘ 
ماں بیٹا دوڑے گئے اور دروازہ کھولا۔ باہر ابو شداد گھوڑے سے اترا کھڑا تھا۔ بیٹا باپ سے لپٹ گیا لیکن فوراً پیچھے ہٹ گیا۔ 
’’خون! ‘‘بیٹے نے کہا۔ ’’کیا یہ خون آپ کا ہے یا دشمن کا خون آپ کے کپڑوں پر پڑ اہو اہے ؟‘‘بیٹے نے باپ کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔’’ اندر آجائیں۔ میں گھوڑا باندھتاہوں۔‘‘ 
’’آپ خاموش کیوں ہیں؟‘‘ابو شداد کی بیوی نے اس سے پوچھا۔’’ کیا آپ بہت زیادہ زخمی ہیں؟‘‘ 
’’نہیں!‘‘ابو شداد نے جواب دیا۔’’ جسم کا زخم معمولی ہے۔ روح کا زخم گہرا ہے ۔میں اندر نہیں آؤں گا۔میری بات سن بیٹے! میں عراق کے محاذ سے شکست کھا کر آیا ہوں۔ وہ لڑائی بہت ہی ظالم تھی۔ شاید ہی کوئی مسلمان زندہ رہا ہوگا۔ زندہ مجھ جیسے رہے جو بھاگ آئے ہیں ۔لیکن راستے میں اس احساس نے میرا گلا دبا لیا ہے کہ باقی مارے گئے ہیں تو مجھے بھی ان کے ساتھ ہی مر جانا چاہیے تھا ۔پھر راستے میں مجھے اپنے کچھ ساتھی مل گئے جو میری طرح بھاگ کر آ رہے تھے۔ میری ہی طرح محاذ سے دور آکر انہیں شرمندگی کا احساس ہونے لگا۔ ان سب نے بتایا کہ اپنے گھروں میں داخل نہیں ہوں گے ورنہ گھر کا ہر فرد انہیں شکست خوردہ بھگوڑا کہے گا۔‘‘ 
’’اندر آؤ!‘‘بیوی نے ابو شداد کا بازو پکڑ کر کہا۔’’ تمہیں کوئی طعنہ نہیں دے گا۔‘‘ 

’’میں د ن کے وقت یہاں آسکتا تھا۔‘‘ ابو شداد نے کہا۔’’ لیکن رات کے اندھیرے میں آیا ہوں تاکہ تم میرا چہرہ نہ دیکھ سکو۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ ایک بات کرنے آیا ہوں ……اچھی طرح سن لے بیٹا!میں کہیں منہ چھپا کر زندہ رہنے کی کوشش کروں گا۔ اگر زندہ رہا تو اپنی شکست کا انتقام لے کر آؤں گا۔ میں چاہتا تھا کہ تو اپنی ماں اور بہنوں کے سروں پر موجود رہے لیکن اب سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کو ایسی ہی بری شکست ایک اور ہو گئی تو اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ میں شدید بوڑھا ہو گیا ہوں۔ اب میری جگہ تو لے لے بیٹا! میں گھوڑا چھوڑ چلا ہوں۔ جب بھی مدینہ سے کسی محاذ پر جانے کا بلاوا آئے‘ فوراً پہنچنا اورجس محاذ پر بھیجیں وہاں چلے جانا۔ دل میں یہ جذبہ رکھ کر لڑنا کہ اپنے بزدل باپ کی شکست کا انتقام لینا ہے اور دشمن کو شکست دے کر اﷲ سے اپنے باپ کا یہ گناہ بخشوانا ہے کہ وہ محاذ سے بھاگ آیا تھا۔ اپنی ماں اور بہنوں کو اﷲ کے حوالے کر جانا۔‘‘ 
وہ گھوڑا اپنے بیٹے کے حوالے کرکے چلا گیا۔ اس کی بیوی اس کے پیچھے دوڑی۔ ابو شداد نے اسے دھمکی دے کر روک دیا اور رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔ 
علامہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ تاریخِ اسلام میں میدان ِجنگ سے فرار نہایت شاذونادر ہی ہوا ہے ۔معرکہ جسر ہی ایک ایسی مثال ہے جس نے تاریخ میں جگہ پا لی کیونکہ مفرورین کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ لیکن ان بھگوڑوں کا یہ عالم تھا کہ مہینوں خانہ بدوش پھرتے رہے۔ شرم کے مارے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر روتے اور کفِ افسوس ملتے تھے۔ 

تاریخوں میں یہ شہادت بھی ملی ہے کہ حضرت عمر ؓکو پتا چلا کہ مدینہ اور قرب و جوار کے کچھ مفرو ر اپنے گھروں میں چھپ گئے ہیں اور احساسِ ندامت سے باہر نہیں نکلتے اور جذباتی طور پر وہ بحالتِ ماتم رہتے ہیں تو حضرت عمرؓ ذاتی طور پر ہر ایک کے گھر گئے اور انہیں تسلیاں دے کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔ 
الیس میں مثنیٰ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں کبھی کمرے میں جا کر لیٹ جاتے، کبھی اٹھ کر ٹہلنے لگتے، باہر نکل آتے اور بار بار اپنے ماتھے کو ہتھیلی سے رگڑتے اور جب ان کے پہلو کا زخم درد کرنے لگتا تو پھر کمرے میں جا کر لیٹ جاتے۔ آخر انہوں نے دربان کو بلا کر کہا کہ پہلے طبیب کو لے آئے ۔پھر اشعر بن اوصامہ کوبلائے۔ 
طبیب قریب ہی تھا۔ دوڑا آیا۔ اپنے زخم کی بات کرنے سے پہلے انہوں نے طبیب سے صہیب کے متعلق پوچھا۔ 
’’معجزہ ہو گیا ہے ابنِ حارثہ!‘‘ طبیب نے کہا۔ ’’اس کے جسم میں خون تو رہا نہیں تھا۔ الحمد اﷲ خون کی کمی پوری ہو رہی ہے اور زخم بھی مل رہے ہیں ۔ پاؤں کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی تھی وہ جوڑ تو دی ہے۔ لیکن ٹھیک ہوتے وقت لگے گا ۔وہ لڑکی جو اسے لائی تھی ہر وقت اس کے پاس بیٹھی رہتی ہے۔‘‘ 
’’اﷲ نے اس مجاہد کو زندہ رکھنے کا معجزہ دکھایا ہے ۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ مجھے امید ہے کہ اﷲ اس کے ہاتھوں معجزہ کرائے گا۔ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ آئندہ آپ مجھے یہ نہیں کہیں گے کہ میں آرام کروں۔ اگر میں اپنے زخم کو چاٹنے بیٹھ گیا تو سلطنت ِاسلامیہ کو ایسا زخم آئے گا کہ سنبھلنا ناممکن ہو جائے گا ۔آپ بزرگ ہیں۔ آپ سمجھتے ہوں گے کہ آتش پرست مدائن میں آرام سے نہیں بیٹھ گئے ہوں گے۔ انہوں نے ہمیں جسر میں جو نقصان پہنچایا ہے اس سے وہ فوراً فائدہ اٹھائیں گے ۔ وہ کسی بھی دن حملہ کر دیں گے۔ ان کے ساتھ ہاتھی بھی ہوں گے اور ان کے پاس تازہ دم فوج کی بھی کمی نہیں ۔ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ 



’’اﷲ مدد کرے گا ابنِ حارثہ! ‘‘طبیب نے کہا ۔’’دل چھوٹا نہ کر۔ امیر المومنین کو اطلاع دے اور کمک منگوا لے۔‘‘ 
’’کمک آتے آتے دو چاند طلوع اور غروب ہو جائیں گے۔‘‘ مثنیٰ نے کہا۔ ’’کمک اکٹھی کرتے بھی دن لگیں گے ۔اگر فارسیوں نے پہلے ہی حملہ کر دیا تو ہمیں یہاں سے نکلنا پڑے گا۔ محترم بزرگ‘ میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ میرے ساتھی سالار اور نائب شہید ہو گئے ہیں ۔صحابہ کرام بھی شہید ہو گئے ہیں ۔کوئی نہیں رہا جس سے مشورہ لوں ۔میں فارس کی زمین سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا ۔‘‘ 
’’ایک تو امیر المومنین کو لکھ کہ کمک فوراً بھیجیں ۔‘‘طبیب نے کہا ۔’’اور اپنی طرف سے اپنے تمام قبیلوں کو سرداروں کو پیغام بھیج کہ محاذ بہت کمزور ہو گیا ہے ۔آدمی بھیجو ۔مایوس نہ ہو مثنیٰ!‘‘ 
مثنیٰ بن حارثہ کو تنہائی پریشان کررہی تھی۔ ان کے ساتھ کوئی تجربہ کار سالار نہیں رہ گیا تھا۔ مجاہدین کے پاس جوش و جذبہ تھا۔ وہ بے جگری سے لڑ سکتے تھے لیکن قیادت کے لیے جنگی فہم و فراست کی ضرورت تھی اور وہ اس لحاظ سے کمزور تھی کہ مثنیٰ کا کوئی ساتھی نہ تھا۔ 
طبیب چلا گیا تو اشعر بن اوصامہ آگیا۔ یہ مجاہد تجربہ کار جاسوس تھا جو پہلے ایک بار پاگل کے بہروپ میں اور دودسری بار یہودی ربی )مذہبی پیشوا( بن کر مدائن گیا اور دونوں بار کچھ عرصہ وہاں رہ کر بڑی کارآمد معلومات لے آیا تھا ۔جس سے مسلمانوں کے لشکر کو بہت فائدہ پہنچا تھا۔ 
’’ابنِ اوصامہ!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے اسے کہا ۔’’تو دیکھ رہا ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔ اگرمدائن سے فوج اچانک آگئی تو ہم یہاں سے نکل بھاگنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اپنا کمال ایک بار پھر دکھا دے۔ تو بہتر جانتا ہے کس بہروپ میں وہاں جائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ مدائن سے فوج نکلے تو مجھے ایک دن پہلے خبر ہو جائے۔میں تین چار جگہوں پر گھات لگا کر اس فوج کو راستے میں ختم کر سکتا ہوں۔‘‘ 
’’ایسا ہی ہوگا سپہ سالار!‘‘ اشعر بن اوصامہ نے کہا ۔’’انشاء اﷲ ایساہی ہو گا۔ میں اگر واپس نہ آؤں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مدائن میں فوج کی کوئی نقل و حرکت نہیں۔ آپ اطمینان سے تیاری کر تے رہیں۔ 
مثنیٰ بن حارثہ نے امیر المومنین ؓکے نام پیغام لکھوایا جس میں زیادہ سے زیادہ کمک کی درخواست کی اور لکھا کہ کمک نہ پہنچنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہ ہو گا کہ ہمیں فارس سے جانیں بچا کر نکلنا پڑے گا۔ اور اگر مقابلہ کیا تو ہم میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں رہے گا۔ امیر المومنین ؓکو جسر کی لڑائی ،اپنی تباہی اور پسپائی کی ہر ایک بات بتانا۔ مثنیٰ نے قاصد سے کہا۔ یہ بھی بتانا کہ ہم نے الیس میں اپنی شکست کا انتقام تو لے لیا ہے۔ لیکن تین ہزار کی نفری سے ہم کب تک اتنی بڑی فوج کا مقابلہ کر سکیں گے اور راستے میں بہت کم رکنا۔ جتنی جلدی پہنچ سکو اتنا ہی بہتر ہے ۔حالات تمہارے سامنے ہیں ۔ 

قاصد کو رخصت کر کے مثنیٰ نے اپنے لشکر میں مختلف قبائل کے ایک ایک ایسے آدمیوں کو بلایا جو قبیلے کا سردار تھا یا قبیلے میں پر اثر حیثیت رکھتا تھا۔ ان سب کو مثنیٰ نے کہا کہ صورتِ حال ان کے سامنے ہے۔ ہر میدان میں فتح حاصل کرتے کرتے مدائن کے قریب پہنچ گئے تو ایسی شکست ہوئی کہ اس زمین پر ٹھہرنا محال ہو گیا ہے۔ 
’’اور یہ تمہاری بزدلی نہیں تھی۔‘‘ مثنیٰ نے کہا ۔’’میں نے تمہیں پسپا کرایا تھا اور یہ سپہ سالار ابو عبید کی غلطی تھی جس کی سزا تم سب کو ملی ۔ تم نے ہاتھیوں کا مقابلہ کیا اور تمام ہاتھیوں کو اگلی لڑائیوں کیلئے بے کار کر دیا۔ میں نے امیر المومنین کو پیغام بھیج دیا ہے۔ میں نے لکھا ہے کہ جو مجاہدین پیچھے ہٹ آئے تھے وہ بھاگ کر نہیں آئے ۔‘‘ 
’’میرے رفیقو!‘‘ اگر ہمیں ایسی ایک اور شکست ہو ئی تو تم میں سے بہت سے مارے جائیں گے اور جو زندہ رہیں گے وہ باقی عمر آتش پرستوں کی غلامی میں ان کی جوتیاں چاٹتے گزاریں گے اور اپنے ان بھائیوں کی طرف بھی دیکھو جو رومیوں پر غالب آکر شام کو سلطنتِ اسلامیہ میں شامل کر چکے ہیں۔ کیا وہ ہمیں بزدل نہیں کہیں گے ۔اپنے قبیلوں میں جاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ تم ہماری مدد کو نہ آئے تو عرب کی مقدس سر زمین پر آتش پرستوں کی بادشاہی ہو گی اور پھر تم جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ہم اﷲ اور رسول اﷲﷺ کے مجرم ہوں گے۔‘‘ 
مثنیٰ نے قبیلوں کے ان سرکردہ افرادکو مشتعل کر کے ان کے قبیلوں کو بھیج دیا۔ مثنیٰ نے محسوس کیا کہ الیس محفوظ مقام نہیں ۔انہوں نے اپنے لشکر کو ایک روز سباخ کی طرف کوچ کا حکم دیا۔ سباخ خفان اور قادسیہ کے درمیان ایک مقام تھا جو عراق اور عرب کی سرحد کے قریب تھا۔ 

’’میں فارس کی سلامتی کی خاطر تخت سے دستبردارہوجاؤں گی۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ لیکن کسریٰ کے خاندان کا وہ کون سا مرد رہ گیا ہے جسے تم لوگ تخت پر بٹھاؤ گے؟‘‘
’’ایک مرد ہے۔‘‘ وفد کے لیڈر نے کہا۔’’ وہ کسریٰ پرویز کی ایک بیوی کا بیٹا ہے جسے ماں نے روپوش رکھا ہوا ہے۔ ہم تین آدمی ہیں جنہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے۔ ہم اسے لے آئیں گے۔‘‘ 
’’اسے لے آئیں۔‘‘ پوران نے کہا۔ 
’’فارس کے تخت پر آپ جانتی ہیں، کتنے جانشین قتل ہو چکے ہیں۔‘‘ وفدکے لیڈر نے کہا۔’’کسریٰ پرویز کے بعد اس کے خاندان کا جو آدمی تخت نشین ہوا ،وہ قتل ہو گیا۔ کسریٰ پرویز کی ایک بیوی اپنے اکلوتے بچے کو لے کر بھاگ گئی تھی کہ اس بچے کو تخت کا وارث ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا جائے گا……میں اسے لے آؤں گا۔ لیکن یہ سن لیں کہ اسے قتل کر دیا گیا تو ہم شاہی محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘ 
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ کسریٰ پرویز مر گیا تو اس کا جو بھی جانشین تخت پر بیٹھا وہ قتل ہو گیا۔ مرد ختم ہو گئے تو عورتیں بھی تخت نشین ہوئیں مگر سازش کا شکار ہو گئیں۔ آخر پوران وطن کی سلامتی کا جذبہ اور رستم کا سہارا لے کر تخت نشین ہوئی۔عام خیال یہی تھا کہ کسریٰ پرویز کی نسل ختم ہو چکی ہے۔ لیکن اس کی ایک بیوی نے اس کا بچہ بچا لیا اور مدائن سے غائب ہو گئی تھی۔ 

کسریٰ پرویز کی متعدد بیویاں تھیں۔ کسی بھی مؤرخ نے تعداد نہیں لکھی۔ یہ سب بیویاں اِدھر اُدھر بھاگ گئی تھیں ۔انہیں ڈر تھا کہ قتل کر دی جائیں گی۔ اولاد نرینہ صرف ایک بیوی کی زندہ تھی۔ صرف ایک لڑکا ماں کو تخت کی بجائے بیٹا زیادہ عزیز تھا۔ اسے بچائے رکھنے کیلئے وہ مدائن سے کہیں دور جا کر روپوش ہو گئی۔ 
یہ شخص جو وفد کا قائد بن کر پوران اور رستم کے پاس گیاتھاکوئی معمولی آدمی نہیں تھا اور وہ عام قسم کا درباری بھی نہیں تھا ۔کسریٰ پرویز کے زمانے میں شاہی خاندان کے ساتھ اس کے خصوصی مراسم تھے ۔تاریخ میں اس شخص کا نام ساران لکھا ہے۔ دو مؤرخوں نے اسارس لکھا ہے ۔وہ کسی پر اثر حیثیت کا آدمی معلوم ہوتا ہے۔ جس کے آگے رستم جیسا جرنیل نہ بول سکا اور پوران دخت نے بھی اس کی بات مان لی ۔ حالانکہ پوران ملکہ تھی۔ 
یہ شخص مدائن سے دور ایک بستی میں چلا گیا۔ اس کے ساتھ پانچ محافظ تھے۔ یہ کوئی گمنام بستی تھی، جہاں وہ رات کو پہنچا۔ دو تین بار دستک دینے کے بعد ایک بڑھیا نے دروازہ کھولا۔اس آدمی نے کہا کہ وہ نورین سے ملنے آیا ہے ۔بڑھیا نے کہا کہ یہاں کوئی نورین نہیں رہتی۔ 
’’مت ڈرو بڑھیا!‘‘اس شخص نے اپنا نام بتا کر کہا۔’’ نورین کو میرا نام بتاؤ اور اسے کہو کہ میں کوئی دھوکہ دینے نہیں آیا ،میں رات کو اسی لیے آیا ہوں کہ کوئی دیکھ نہ لے۔‘‘ 
’’آنے دو اسے!‘‘اندر سے ایک عورت کی آواز آئی۔ 

وہ اندر چلا گیا۔ ایک بڑی خوبصورت ادھیڑ عمر عورت نے اس کا استقبال کیا۔ عورت کے چہرے پر اداسی تھی۔ 
’’کیوں آئے ہو؟‘‘عورت نے سنجیدگی سے پوچھا ۔جیسے وہ اس آدمی کو دیکھ کر خوش نہ ہوئی ہو۔’’ تمہارے ساتھ اور کون ہے؟‘‘ 
’’مت ڈرو نورین!‘‘ ساران نے کہا۔’’ میرے ساتھ میرے اپنے محافظ ہیں۔ انہیں بستی سے کچھ دور چھوڑ آیا ہوں۔ اپنا گھوڑا بھی بستی میں نہیں لایا۔ میں نے پوری احتیاط کی ہے……میں تمہیں اور یزدگرد کو لینے آیا ہوں۔‘‘ 
’’کہاں لے جاؤ گے؟‘‘ 
’’مدائن ۔‘‘ساران نے جواب دیا۔’’ فارس کا تخت تمہارے بیٹے یزدگرد کا منتظر ہے نورین! میں اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘ 
کسریٰ پرویز کے اس بیٹے کی عمر اکیس سال تھی۔ ابو حنیفہ دینوری نے اس کی عمر سولہ سال لکھی ہے ۔طبری زیادہ مستند ہے۔ اس نے عمر اکیس سال لکھی ہے اور زیادہ مؤرخ اکیس سال پر ہی متفق ہیں ۔آگے چل کر ہم اس نوجوان کا کردار اور گفتار دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر بالغ ہی نہیں بلکہ اس کا ذہن خاصا پختہ تھا۔ اس کا نام ’’یزدگرد‘‘ تھا۔ 
’’میں اپنے بیٹے کو مدائن نہیں جانے دوں گی۔‘‘ نورین نے ڈرے ڈرے سے لہجے میں کہا۔’’میرا یزدی مدائن نہیں جائے گا۔ مجھے فارس کا تخت نہیں اپنا بیٹا چاہیے ۔میں اپنے یزدی کو زندہ رکھنا چاہتی ہوں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ فارس کا تخت کتنے جانشینوں کا خون پی چکا ہے؟ کتنی جانیں لے چکا ہے ؟میں نے اپنے یزدی کو چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ وہ اسی مکان کے ایک کمرے میں سویا ہوا ہے۔ ذرا آہستہ بولو، اس کی آنکھ نہ کھل جائے۔‘‘ 

’’نورین!‘‘ ساران نے اپنی آواز دھیمی کرکے کہا۔’’ آج میں یہاں چوتھی مرتبہ آیا ہوں۔ اگر میں نے تمہیں دھوکا دینا ہوتا تو کبھی کا دے چکا ہوتا……اور تم یہ کیوں بھول رہی ہو کہ یزدی کو صرف تم ہی زندہ رکھنا چاہتی ہو؟میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ یہ خوبصورت جوان زندہ رہے۔ یہ ہماری محبت کی یادگار ہے۔ یہ صرف تم جانتی ہو اور میں جانتا ہوں کہ کہ کسریٰ پرویز اس لڑکے کا باپ کس طرح بنا۔‘‘ 
دو مؤرخوں ولیم سکاٹ اور ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ کسریٰ پرویز کی ہر بیوی اولادِ نرینہ چاہتی تھی۔ یہ تخت کی وراثت کا لالچ تھا ۔ان بیویوں نے پرویز کو انیس بیٹے دیئے ۔سب سے بڑے بیٹے کا نام شیرویہ تھا۔ نورین کی ساران کے ساتھ درپردہ دوستی تھی اور ساران کسریٰ کا منظورِ نظر بھی تھا۔ ان دونوں مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یزدگرد ساران اور نورین کی دوستی کی پیداوار تھا۔ تین مؤرخوں نے ایک اور روایت بیان کی ہے۔ 
ان کی روایت یہ ہے کہ نورین ایک بھی بیٹا پیدا نہ کر سکی۔ اس کی دوستی ساران کے ساتھ تھی ،جو بظاہر کسریٰ پرویز کا دوست تھا۔ نورین نے ساران سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ اسے ایک بیٹا چاہیے ۔اس کا ذریعہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ۔ ساران کو پتا چلا کہ مدائن سے کچھ دور پہاڑی جنگلوں میں ایک یہودی جادوگر رہتا ہے جو معجزہ نما کام کر دکھاتا ہے۔ 

ساران اس کی تلاش میں نکلا اور کم و بیش دو مہینے بعد اسے وہ یہودی جادوگر اور عامل مل گیا۔ ساران نے اسے بتایا کہ فارس کے بادشاہ کسریٰ پرویز کی ایک بیوی اولادِ نرینہ کی طلب گار ہے ۔ صرف ایک بیٹاچاہتی ہے۔ 
’’اگر تم اس کی یہ مراد پوری کر دو تو وہ تمہیں انعام و اکرام سے مالامال کردے گی۔‘‘ ساران نے اسے کہا۔ 
یہودی نے پانسہ پھینکا ۔پھر بیس پچیس دانوں کی ایک تسبیح ہاتھ میں لے کر اس کا ایک ایک دانہ دیکھا۔ اسے مٹی میں لے کر پھونک ماری اور آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلا گیا۔ 
’’اوہ!‘‘ اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ ’’خون کا مینہ برس رہا ہے۔ فارس کا تخت اس میں تیر رہا ہے۔ یہ تخت ڈوب جائے گا۔‘‘ 
’’میں ایک لڑکے کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ ساران نے یہودی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’تم یہ کام کر سکتے ہو؟‘‘ 
’’کیا تم کسی نوزائیدہ بچے کا چُلّو بھر خون حاصل کرسکتے ہو؟‘‘یہودی نے پوچھا۔ 
’’کوشش کروں گا۔‘‘ ساران نے کہا۔’’ کام بہت مشکل ہے۔‘‘ 
’’اس کے بغیر میرا کام آسان نہیں ہو سکتا۔‘‘ یہودی نے کہا۔’’ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کا خون نکال لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا۔ اگر نہیں ‘تو بچے کی عمر ایک دن اور ایک رات سے زیادہ نہ ۔ہو ایک سورج نکلنے کے بعد دوسرا سورج نکل آیا تو خون بیکار ہو گا۔ یہ خون صرف ایک رات میرے پاس رہے گا۔ پھر یہ خون پانی میں ملا کر یہ عورت غسل کرے گی ۔مراد پوری ہو جائے گی۔ 


ساران واپس آگیا اور نورین کو بتایا۔ نورین نے کہا کہ وہ نوزائیدہ بچے کے چلو بھر خون کی قیمت اس سے زیادہ دے گی جو بچے کی ماں مانگے گی۔ ساران نے گھوم پھر کر ایک غریب عورت ڈھونڈ نکالی جس کا بچہ پیدا ہونے میں کچھ ہی دن رہ گئے تھے ۔ساران اس عورت اور اس کے خاوند کو بڑی اچھی اجرت اور ملازمت کا لالچ دے کر اپنے گھر لے آیا۔ 
اس عورت نے بچے کو جنم دیا۔ ساران امیر کبیر جاگیردار تھا۔ اس نے اس عورت کو اپنے گھر کے ایک شاہانہ کمرے میں رکھا اور دو تین خادمائیں اس عورت کی خدمت کیلئے دے دیں۔ جونہی بچہ پیدا ہوا، خادمائیں بچے کو یہ کہہ کر لے گئیں کہ اسے گرم پانی سے غسل دینا ہے ۔دوسرے کمرے میں لے جا کر بچے کی ایک رگ ذرا سی کاٹ کر اس میں سے آدھا پیالہ خون نکال لیا گیا۔ ساران کو ذرا سا بھی ڈر نہ تھا کہ بچہ مر جائے گا۔ لیکن بچہ بچ گیا اور جب اس نے ماں کا دودھ پینا شروع کیا تو خون کی کمی پوری ہو گئی۔ 
روایت کے مطابق یہ خون یہودی کے پاس ساران لے کر گیا۔ جو یہودی نے اگلی صبح واپس کیا۔ ساران یہ خون مدائن لایا اور خفیہ طور پر نورین کو دیا ۔نورین نے اسے پانی میں ملا کر غسل کیا اور اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ جس کا نام یزدگرد رکھا گیا۔ 
ان روایات میں یہ بھی ہے کہ اس یہودی جادوگر نے ساران سے کہا تھا کہ۔’’ اس خاندان کو انسانی خون ہی راس آتا ہے اور اس خاندان کو ہر کامیابی خون سے ہی حاصل ہوتی ہے اور یہ خاندان اپنے ہی خون میں ڈوب جائے گا۔‘‘ 
’’……اور اس خون سے جو تم ایک نوزائیدہ بچے کے جسم سے نکال کر لائے ہو، لڑکا ہی پیدا ہو گا۔‘‘ یہودی جادوگر نے کہا۔ ’’لیکن انجام اس کا کچھ اچھا نہیں ہو گا۔‘‘ 
یہ بتانا مشکل ہے کہ یزدگرد ساران اور نورین کے خفیہ مراسم کی پیداوار تھا یا یہ یہودی عامل کی کرامت تھی ۔البتہ مؤرخوں کی تحریروں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ یزدگرد کی پیدائش ساران اور نورین کے درمیان ایک راز تھا اور نورین ساران کے آگے سر نہیں اُٹھا سکتی تھی۔ 
نورین اپنے اکلوتے بیٹے کو مدائن بھیجنے پر آمادہ نہیں ہو رہی تھی۔ وہ اب شہنشاہِ فارس کسریٰ کی بیوی نہیں تھی ۔وہ بیوہ تھی اور اپنے بیٹے کو دشمنوں سے بچائے رکھنے کی خاطر گمنام سے ایک گاؤں میں گمنامی کی زندگی گزار رہی تھی۔ مرغی کی طرح اس نے بیٹے کو اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھا ہو اتھا۔ 

ساران نے اسے بتایا کہ سلطنت ِفارس کی بنیادیں ہل گئی ہیں اور یہ عمارت جو کبھی عالیشان تھی، کھنڈر بنتی جا رہی ہے۔ ساران نے بتایا کہ مسلمان آدھے فارس پر قابض ہو گئے ہیں ۔ انہوں نے فارس کی آدھی سے زیادہ فوج مار ڈالی اور بہت سی ہمیشہ کیلئے بیکار کر دی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ پوران اور رستم فارس کی گرتی ہوئی عمارت کو سنبھالا دینے کیلئے خود چاہتے ہیں کہ کسریٰ کا کوئی بیٹا آجائے اور تخت نشین ہو۔ 
بڑی مشکل سے ساران نے نورین کو منایا۔ نورین ساران کو شاید ٹال ہی دیتی لیکن ہوا یوں کہ یزدگرد کی آنکھ کھل گئی تھی اور وہ بھی اپنی ماں کے پاس آبیٹھا۔ ماں نے اسے بتا رکھا تھا کہ وہ شہزادہ ہے۔اس نے مدائن کے حالات سنے تو وہ تڑپ اٹھا۔
جاری ہے...
x

Post a Comment

Previous Post Next Post