Huzoor Shoaibul Auliya Mohammed Yaar Baraon Shareef تعارف حضرت شعیب الاولیا یار محمد براؤں شریف

  نبیرۂ شعیب الاولیاء و مظہر شعیب الاولیاء محمد افسر علوی قادری چشتی   حضور شعیب الاولیا علیہ الرحمۃ والرضوان کا اجمالی تعارف

حضور شعیب الاولیا علیہ الرحمۃ والرضوان کا اجمالی تعارف



اللہ تبارک و تعالی کی تخلیق شدہ اس خا ک دان گیتی پر روزانہ بے شمار لوگ پیدا ہوتے ہیں اور اپنی زندگی کے ایام گذار کر دار آخرت کی طرف کوچ کر جاتے ہیں۔

یہ سلسلہ ابتدائے افرینش سے جاری ہے اور یوں ہی تا قیام قیامت چلتا رہےگا۔ انسان کے انتقال کے کچھ ہی دنوں بعد اس کے خاندان والے بھی اسے بھول جاتے ہیں، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جنہیں دنیا ان کی دینی، علمی اور معاشرتی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔

انہیں نفوس قدسیہ میں شیخ المشائخ حضور شعیب الاولیا حضرت صوفی شاہ الحاج محمد یارعلی صاحب قبلہ نوراللہ مرقدہ کی ذات والا صفات بھی ہے یوں تو حضور شعیب الاولیا کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر میں آج اس مختصر مضمون میں آپ کی زندگی کو ” ماہ و سال ” کے اعتبار سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں

اسم شریف: “محمد یارعلی

 : شیخ المشائخ، شعیب الاولیاء وغیرہ

سن ولادت : آپ کی پیدائش کا سال 1307ھ ہے۔

شجرۂ نسب: شعیب الاولیاء حضرت صوفی شاہ محمد یارعلی صاحب علیہ الرحمہ بن فجر علی بن خورشید علی بن خان محمد بن عبد المنان بن عبد الرحمن بن خدا بخش بن سالار بخش بن محمد علی بن ہدایت علی بن جان محمد بن تاج محمد غازی بن محمد داؤد بن محمد قاسم بن سالار محمد تاج بن سالار محمد بن سالار سیف الدین سرخرو بن عطاءاللہ غازی بن طاہر غازی بن طیب غازی بن اشرف غازی بن عمر غازی بن ملک آصف غازی بن شاہ بطل غازی بن عبد المنان غازی عرف فرید الدین بن محمد حنیفہ بن سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم و علیھم الرحمةوالرضوان۔

بیعت و خلافت : حضور شعیب الاولیاء علیہ الرحمہ نے غوث زماں حضرت شاہ محبوب علی صاحب قبلہ علیہ الرحمہ ڈھلمئو شریف ضلع امبیڈکر نگر کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور حضرت نے سرکار شعیب الاولیا کو خلافت و اجازت بھی عطا فرمایا اور ایک عرصہ تک آپ کی خدمت میں رہ کر روحانی فیوض و برکات سے بھی مستفیض ہوئے۔

پھر حضور شعیب الاولیا کو سلسلہ عالیہ چشتیہ کے عظیم ترین بزرگ قطب الاقطاب حضرت شاہ عبد اللطیف ستھنوی علیہ الرحمہ سے خلافت و اجازت حاصل تھی آپ باکرامت بزرگ اور خدا رسیدہ ولی تھے آپ سے سینکڑوں کرامتوں کا ظہور ہوا انھیں کرامتوں میں سے ایک روشن کرامت یہ بھی ہے کہ حضرت شعیب الاولیا شاہ محمد یارعلی علیہ الرحمہ جب ایک بار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رخصت ہوتے وقت آپ نے سرکار شعیب الاولیا کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس طرح ارشاد فرمایا ” میاں نماز تو نماز جماعت تو جماعت جب تکبیر اولی نہ چھوٹے اور یہی نماز اللہ تعالی سے ملا دے گی “۔

حضرت شاہ عبد اللطیف ستھنوی علیہ الرحمہ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے یہ چند جملے سرکار شعیب الاولیا علیہ الرحمہ کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی اس واقعہ کو کم و بیش اڑتالیس (48) سال گذر گئے تھے لیکن سفر و حضر اور سخت سی سخت بیماری کی حالت میں بھی شیخ طریقت کے ناصحانہ کلمات کو اپنی زندگی کا اہم معمول بنائے رہے یعنی نماز تو نماز جماعت تو جماعت کبھی تکبیر اولی بھی آپ سے فوت نہ ہوئی۔


جو بات دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

حضور شعیب الاولیا علیہ الرحمہ کو ویکی پیڈیا میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

سلسلہ نقشبندیہ سہروردیہ میں آپ کو حضرت سیدنا شاہ عبد الشکور صاحب قبلہ جھونسوی علیہ الرحمةوالرضوان سے بھی خلافت و اجازت حاصل تھی حضرت شاہ عبد الشکور صاحب قبلہ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے صاحب کشف و کرامت و صاحب تصرف بزرگ تھے۔ جھونسی شریف اترپردیش کے مشہور شہر الہ آباد کے قریب ایک مشہور قصبہ میں واقع ہے۔

علم دین کا شوق اور علماء کا ادب و احترام: سرکار شعیب الاولیاء کو علم دین کا بے پناہ شوق تھا اور اسی تعلق سے علماء دین کا بے انتہا ادب و احترام فرمایا کرتے۔ ان کو دیکھتے ہی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور ان کو اپنے پاس ہی ممتاز و نمایاں جگہ عطا فرماتے۔حضور شعیب الاولیاء کو کسی دارالعوام یا مدرسہ میں باقاعدہ علم دین حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔

اس احساس کے تحت آپ اکثر حسرت و یاس میں ڈوبے ہوئے انداز میں فرماتے۔
” بچپن کے زمانے ہی سے مجھے علم دین پڑھنے کا شوق تھا لیکن افسوس میری یہ تمنا پوری نہ ہوسکی، علاقہ میں دور دور تک علم دین اور علماے اہل سنت کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا اور لوگ ان کی زیارت کو ترستے تھے جب کبھی اتفاق سے مولانا عالم تشریف لاتے تو میں ان کے پاس پہونچنے کے لئے کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکال لیتا تھا

اللہ تعالی نے حضور شعیب الاولیا کی یہ دلی حسرت و آرزو دارالعوام فیض الرسول کی شکل میں پوری فرما دی ہے یہ ادارہ اپنی جگہ پر ایک دینی قلعہ کی حیثیت رکھتا ہے جہاں سے ہر سال زبان و قلم کے مجاہد اور دین کے سپاہی علما تربیت و تعلیم سے مسلح ہو کر نکلتے ہیں۔

آپ کو اپنے اس ادارے سے اس قدر محبت تھی کہ براؤں شریف اور مختلف مقامات کے دوروں میں اپنے مریدین و معتقدین سے ارشاد فرمایا کرتے کہ
۔” تم لوگ اگر میری خوشی و رضا مندی کے طلبگار ہو اور میری دعائیں چاہتے ہو تو ” دارالعوام فیض الرسول ” کو محبت کی نگاہ سے دیکھا کرو اور اس کی ہر ممکن خدمت کرتے رہو “۔

آپ کے اس ناصحانہ کلام پر کار بند ہوتے ہوئے دارالعلوم کی خدمت و اعانت کا سلسلہ شروع کیا وہ تھوڑے ہی عرصہ میں دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوگیا۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ سے والہانہ عقیدت : حضور شعیب الاولیاء کو امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ سے بے پناہ عقیدت تھی اور مسلکِ اعلی حضرت پر سختی سے پابند تھے اور یہ عقیدت اس وقت سے اور بھی زیادہ ہوگئی جب مظہر اعلی حضرت حضرت شیر بیشئہ اہل سنت مولانا مفتی الحاج محمد حشمت علی خان صاحب علیہ الرحمہ سے ملاقات ہوئی اور مناظروں وغیرہ میں اپنے ہمراہ لے کر دورہ کرایا حضرت شعیب الاولیا ۔

حضرت شیر بیشئہ اہل سنت کی حق گوئی حاضر جوابی اور تبحر علمی کے بہت زیادہ مداح تھے۔ ہندوستان کے مزارات اولیاء کی حاضری کے تاریخی اور نورانی سفر میں جب آپ بریلی شریف اعلی حضرت کے مزار پر حاضر ہوئے تو فاتحہ خوانی کے وقت آپ کے دل و دماغ پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہوئی، آنکھیں بند ہوتیں اور چہرہ آنسوؤں سے ڈوبا ہوا ہوتا۔

اس واقعہ کو خود حضور شعیب الاولیاء نےاس طرح بیان فرمایا کہ ” اعلیٰ حضرت امام اہل سنت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے مزار پاک پر حاضری و فاتحہ خوانی کے وقت مجھ پر ایک گہری کیفیت طاری ہوگئی تھی جس کا نقشہ میں الفاظ میں نہیں کھینچ سکتا۔ عارف بااللہ، عالم باعمل عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مجدد دین و ملت کو اس وقت گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں


حضور مفتی اعظم ہند دامت برکاتہم القدسیہ کی خصوصی دعوت پر آپ بریلی شریف عرس رضوی میں شریک ہوچکے ہیں اس کے بعد آپ کے جانشین ومظہر شیخ طریقت حضرت خلیفہ محمد صدیق احمد صاحب قبلہ علیہ الرحمہ برابر عرس رضوی میں بریلی شریف تشریف لے جاتے تھے۔

وصال : شیخ المشائخ حضور شعیب الاولیاء نے اپنا روحانی مشن پورا کرکے اور انتہائی ضعف و نقاہت اور شدید مرض کی حالت میں بھی زندگی کی آخری نماز عشاء باجماعت تکبیر اولی کے ساتھ ادا کرکے 23/ محرم الحرام 1387ھ مطابق 4/ مئی 1967 عیسوی شب جمعرات ایک بجکر 25/ منٹ پر دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی انا للہ وانا الیہ راجعون براؤں شریف میں آپ کا مزار پاک مرجع خلائق اور منبع فیوض و برکات ہے۔

از قلم   : نبیرۂ شعیب الاولیاء و مظہر شعیب الاولیا محمد افسر علوی قادری چشتی

براؤں شریف

ضلع سدھارتھ نگر یوپی انڈیا

Post a Comment

Previous Post Next Post