Madeene Ke Khitte Khuda Tujh Ko Rakhe

مدینے کے خطّے خدا تجھ کو رکھے

صاحبزادہ حسنات احمد مرتضیٰ


روے زمین پر بہت سے شہر، بستیاں اور ریاستیں آباد ہیں، لیکن ان شہروں میں ایک ایسا شہر بھی ہے جو شہروں کا سردار ہے۔ جس کا ذکر ہوتے ہی جذبے مچل جاتے ہیں۔ شہرِ نبی کے ذکر کے ساتھ ہی اذہان وقلوب میں تازہ وارفتگی پیدا ہوجاتی ہے۔ عقیدت ومحبت کا اظہار ہی اس کی پہچان ہے۔ وہ تقدّس و رحمت والا شہر مدینۃ الرسول کہلاتا ہے۔
کتابِ رحمت قرآن حکیم نے چار مقامات پر اس رحمتوں والے شہر کے نام کا تذکرہ فرمایاہے۔ دوبار سورۂ توبہ کی آیت ۱۰۱؍  اور ۱۲۰میں ، تیسری بار سورہ احزاب کی آیت ۶۰ میں اور چوتھی بار سورۂ منافقون کی آیت۸ میں ذکر کیا ہے۔ خالقِ کائنات نے اس شہر کا نام طابہ فرمایاہے۔ ان اللہ سمی المدینہ طابہ (مسلم) بے شک اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو طابہ سے موسوم فرمایا ہے۔
جانِ کائناتﷺ کو اس شہر کو مدینہ طیبہ رکھنے کا حکم ہوا ہے۔ ان اللہ امرنی ان اسمی المدینہ طیبہ (نسائی) رسو لِ کریم ﷺ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے امر فرمایا کہ مَیں اس شہر کو مدینہ طیبہ کہوں۔
مدینہ طیبہ کا سابقہ نام یثرب تھا اور یثرب میں بیماری کا معنی پایاجاتا ہے۔ اس شہر میں وبائی امراض کا ڈیرا ہوتا، اس لیے اس کو یثرب کہا جاتاتھا۔ مشکوٰۃ نے بخاری کے حوالے سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی جس میں آپ نے مدینہ کے حوالے سے رویاے نبیﷺ کا ذکر کیا کہ ایک بکھرے ہوئے بالوں والی کالی عورت کو مدینہ سے نکلتے ہوئے دیکھا جو مہیعہ (وسیع زمین، حجفہ) میں اُتر گئی۔ اس کی تعبیر یہ کہ وبا مدینہ طیبہ سے نکل کر مہیعہ منتقل ہوگئی۔ مدینہ میں حضرت ابوبکر وبلال کو بخار ہوا تو آپﷺ نے مدینہ کے صحت بخش ماحول کے لیے دعا فرمائی: اللھم حبب الینا المدینہ کحبنا مکۃ ار اشد وصححا لنا وبارک لنا فی 
صاعھا ومدھا وانقل حماھا فاجعلھا بالجحفۃ۔

 سمہودی نے لکھا کہ ابن زبالہ فرماتے ہیںکہ ایک دن صبح کے وقت نبی پاک ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا، یوں محسوس ہوا کہ وہ ابھی ابھی مکّہ سے آیا ہے۔ آپ نے اس سے  پوچھا تجھے راستے میں کوئی ملا؟اس نے کہا کہ حضور کسی کو نہیں دیکھا، البتہ بکھرے بالوں والی ایک سیاہ فام عورت کو ضرور دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تلک الحمی، ولن تعود الیوم ابدا۔ وہ وبائی بخار تھا جو آج کے بعد کبھی واپس نہیں آئے گا۔ نبی پاک ﷺ نے جب مکّہ سے اس شہرِ منور میں ہجرت فرمائی تو آپ نے اس کا نام تبدیل فرماکر مدینہ طیبہ رکھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 من قال یثرب مرۃ فلیقل المدینہ عشرۃ۔
’’جس نے ایک بار یثرب کہا وہ (کفارہ کے طور پر) دس مرتبہ مدینہ کہے‘‘۔
سارض اللہ، دارالھجرہ، سید البلدان، دارالانصار، دار الایمان، دارالمصطفیٰ، دارا المھاجرین، طابہ، طیبہ اور کئی اسما کاذکر ہوا۔
امام سمہودی نے وفاء الوفا میں 94 ناموں کا اور دکتور خاطر نے سو سے بھی زائد اسماے مدینہ کا ذکر کیا ہے۔ دیگر کتب میں اس سے بھی زیادہ اسما کا ذکر ہوا۔ کثرتِ اسما کاہونا بھی اس کی برکتوں، رحمتوں اور خیر کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
حضور ﷺ نے اس شہر کے لیے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ مسلم شریف میں باب فضل المدینہ کی پہلی حدیث ملاحظہ ہو:
ان رسول اللہ اقال ان ابراھیم حرم مکۃ ودعا لاھلھا وانی حرمت المدینۃ کما حرم ابراھیم مکۃ وانی دعوت فی صاعھا ومدھا بمثلی مادعا بہ ابراھیم لاھل مکۃ۔

حضرت عبداللہ بن عاصم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے مکّہ کو حرم قرار دیا اور مکہ کے رہنے والوں کے لیے دعا فرمائی تھی اور مَیں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں جیسا کہ حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور مَیں مدینہ کے صاع اور اس کے مد (پیمانوں کے نام) میں اس سے دوگنی برکت کی دعا کرتا ہوں جو حضرت ابراہیم نے مکہ والوں کے لیے کی تھی۔
مدینہ کو آپ نے حرم قرار دیا اور اس کے پیمانے جو اس زمانے میں جاری تھے، ان کے لیے صاعھا ومدھا وانقل حماھا فاجعلھا بالجحفۃ۔ سمہودی نے لکھا کہ ابن زبالہ فرماتے ہیںکہ ایک دن صبح کے وقت نبی پاک ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا، یوں محسوس ہوا کہ وہ ابھی ابھی مکّہ سے آیا ہے۔ آپ نے اس سے  پوچھا تجھے راستے میں کوئی ملا؟اس نے کہا کہ حضور کسی کو نہیں دیکھا، البتہ بکھرے بالوں والی ایک سیاہ فام عورت کو ضرور دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تلک الحمی، ولن تعود الیوم ابدا۔ وہ وبائی بخار تھا جو آج کے بعد کبھی واپس نہیں آئے گا۔ نبی پاک ﷺ نے جب مکّہ سے اس شہرِ منور میں ہجرت فرمائی تو آپ نے اس کا نام تبدیل فرماکر مدینہ طیبہ رکھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  من قال یثرب مرۃ فلیقل المدینہ عشرۃ۔
’’جس نے ایک بار یثرب کہا وہ (کفارہ کے طور پر) دس مرتبہ مدینہ کہے‘‘۔
سارض اللہ، دارالھجرہ، سید البلدان، دارالانصار، دار الایمان، دارالمصطفیٰ، دارا المھاجرین، طابہ، طیبہ اور کئی اسما کاذکر ہوا۔
امام سمہودی نے وفاء الوفا میں 94 ناموں کا اور دکتور خاطر نے سو سے بھی زائد اسماے مدینہ کا ذکر کیا ہے۔ دیگر کتب میں اس سے بھی زیادہ اسما کا ذکر ہوا۔ کثرتِ اسما کاہونا بھی اس کی برکتوں، رحمتوں اور خیر کے زیادہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

حضور ﷺ نے اس شہر کے لیے بہت سی دعائیں فرمائیں۔ مسلم شریف میں باب فضل المدینہ کی پہلی حدیث ملاحظہ ہو:
ان رسول اللہ اقال ان ابراھیم حرم مکۃ ودعا لاھلھا وانی حرمت المدینۃ کما حرم ابراھیم مکۃ وانی دعوت فی صاعھا ومدھا بمثلی مادعا بہ ابراھیم لاھل مکۃ۔
حضرت عبداللہ بن عاصم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے مکّہ کو حرم قرار دیا اور مکہ کے رہنے والوں کے لیے دعا فرمائی تھی اور مَیں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں جیسا کہ حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور مَیں مدینہ کے صاع اور اس کے مد (پیمانوں کے نام) میں اس سے دوگنی برکت کی دعا کرتا ہوں جو حضرت ابراہیم نے مکہ والوں کے لیے کی تھی۔
مدینہ کو آپ نے حرم قرار دیا اور اس کے پیمانے جو اس زمانے میں جاری تھے، ان کے لیے 
برکت کی دعا فرمائی۔ حرم ہونے کی حیثیت سے اس کی حدود میں حرم کے آداب بجالا ناہی اہلِ محبت کا شیوہ ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ آقاے کریم نے خود اس شہر کی حدود کا تعین فرمایا ہے۔ مشرق سے مغرب تک کی حدود احادیث میں اللابتین کے الفاظ سے بیان فرمایا۔ اس سے مراد سیاہ بکھرے ہوئے پتھروں کے ڈھیر ہیں اور یہ آج بھی مدینہ کے لوگوںمیں مشہور ہیں اگرچہ اب مدینہ طیبہ کے رہنے والے اس کے دونوں کناروں کی طرف پھیل رہے ہیں۔ شمالاًو جنوباً حدودِ مدینہ کے حوالے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خطبہ اور روایت مسلم، مشکوٰۃ اور دیگر کتب میں بیان کیے گئے یہ کلمات ملاحظہ ہوں: قال النبی المدینۃحرم مابین عیر الی ثور۔

عیر اور ثور کے درمیانی حصے کو آپ نے حرمِ مدینہ قرار دیا ہے۔ عیر اور ثور کے حوالے سے محدثین اور محققین نے مختلف آراقائم کی ہیں۔
بعض نے ان کو مکّہ کے پہاڑ قرار دیا ہے اور حدیث کو یوں سمجھا کہ عیر اور ثور کے درمیان جس طرح مکّہ حرم ہے، اسی طرح مدینہ کو بھی حرم قرار دیا ہے۔ بعض نے عیر کو مدینہ کا پہاڑ اور ثور کومکہ کا پہاڑ کہا ہے۔ بعض کے خیال میں عیر و ثور پہاڑ نہیں بلکہ اطرافِ مدینہ کے دو میدانوں کا نام ہے، جنہیں حرتین کہتے ہیں۔ عیر اور ثور پر ڈاکٹر ابو ابراہیم ملاخاطر نے فضائلِِ مدینہ کے حوالے سے اپنی کتاب میں خوب صورت تحقیق کی ہے۔ جستجو رکھنے والوں کو ڈاکٹر ابراہیم کی کتاب کا یہ محل ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے۔
عیر اور ثور مدینہ کے اطراف میں ہی دو پہاڑوں کا نام ہے۔ علامہ فیروز آبادی نے القاموس میں عالم، حافظ ابو محمد عبدالسلام البصری کی سندسے لکھا ہے کہ اُحد کے سامنے ایک جھکا ہوا پہاڑ ہے جسے ثور کہا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مَیں نے مدینہ طیبہ کی آبادی کو جاننے والوں سے کئی بار سوال کیا تو تمام نے مجھے یہی کہا کہ اُحد کے قرب میں ایک پہاڑ ہے، جسے ثور کہاجاتاہے ۔ المحب الطبری لکھتے ہیں کہ ثور کا ذکر تو صحیح احادیث سے معلوم ہوا ہے اور اکابر علما کا نہ جاننا، عدم شہرت اور عدم توجہ سے ہے۔ الحافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ القطب الحلبی کی شرح میں پڑھا کہ امام ابو محمد عبدالسلام بن مزروع البصری نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ عراق کی طرف بطور سفیر گئے، جب وہ مدینہ طیبہ لوٹے تو ان کے ساتھ ایک رہنما تھا جو انہیں مختلف مقامات اور پہاڑوں کا تعارف کرار ہاتھا۔ فرماتے ہیں جب ہم اُحد پرپہنچے تو اس قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی، مَیں نے اس کے 
متعلق پوچھا تو اس نے کہا اسے ثور کہاجاتاہے۔ امام بہیقی نے ابو عبیدہ کا قول نقل کرکے لکھا کہ ابوعبیدہ سے یہ خبر پہنچی کہ کتاب الخلیل میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جسے ثور کہاجاتاہے۔

ابن حجر مکّی لکھتے ہیں کہ ثور کومکّہ کے ساتھ مخصوص کرنا منع ہے۔ زمخشری نے بھی مدینہ طیبہ جاننے والوں سے نقل کیا کہ ثور اُحد کے پیچھے ایک چھوٹے سے پہاڑ کا نام ہے۔ شیخ احمد بن عبدالحمید العباسی اپنی کتاب عمدۃ الاخبار میں لکھتے ہیں۔ وعیر اُحد کے پیچھے مشرقی جانب ہے اور ثور اُحد کے پیچھے وعیرہ سے مغربی جانب شام کی جانب جھکا ہوا ہے۔ مزید فنی بحث کے لیے ڈاکٹر ابراہیم خاطر کی کتاب ملاحظہ ہو۔
حضور ﷺ نے جس طرح حرم کی حدود اور نشانیاں بیان فرمائیں اسی طرح کے اردگرد کا علاقہ طولاً، عرضاً اور اس کی حدودکی کل مسافت بارہ میل فرمائی۔ کبھی پوری بیان فرمائی اور کبھی بریدا فی بریدا (برید چار فرسخ کا ہے اور ہر فرسخ تین میل کا ہوتا ہے) فرمایا اس کا مطلب بھی بارہ میل ہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق مدینہ طیبہ کی ہر جانب تین میل کا فاصلہ قرار دیا۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ نے نشان لگانے کے لیے بھیجا تو آپ فرماتے ہیں مَیں نے ذات الجیش کے اوپر، شریب پر مخیض کے ٹیلے پر اور ثیب کی پہاڑی پر نشان لگائے۔
مصائب اور اور تکالیف انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔ دکھ اور آلام پر صبر کا شیوہ اپنانا عظمت کی علامت ہے۔ مشکلات پر صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد شامل ہوتی ہے۔ عام حالات میں اتنا کرم ہوتا ہے تو اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو شخص مدینہ طیبہ کے مصائب پر صبر کرتا ہے اس کو کتنی فضیلت حاصل ہوتی ہے، بلکہ رسول کریم ﷺ کی جانب سے مدینہ کے مصائب پر صبر کرنے والے کے لیے آخرت میں بھی بشارت ہے۔ اسی حوالے سے مسلم شریف کی روایت کردہ حدیث ملاحظہ ہو:

عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ ﷺ قال لا یصبر علی لاواء المدینْۃ وشدتھا احد من امتی الاکنت لہ شفیعا یوم القیامۃ او شھیدا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت 
میں سے جو کوئی بھی مدینہ کی تکلیفوں اور سختیوں پر صبر کرے گا تو مَیں اس کے لیے قیامت کے دن سفارش کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔
کسی پر ظلم کرنا، کسی کو تکلیف دینا بہت ہی ناپسندیدہ عمل ہے۔ مظلوم کی دعا فوراً قبول ہوجاتی ہے۔ مظلوم کی آہوں سے بچنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ظلم کرنے سے بچائے۔ اچھا مسلمان وہی ہے جو اپنے پاتھ، زبان اور عمل سے دوسروں کو نقصان نہ دے۔ کسی کو تنگ کرنا ویسے بھی برا ہے اور مدینہ کے رہنے والے کو تنگ کرنا، اس پر ظلم کرنا، اس کو خوف زدہ کرنا، اس کے ساتھ زیادتی کرنا، بہت ہی برا ہے، بلکہ ایسا کرنے والاملعون بھی ہے اور مدینہ کے رہنے والے کے ساتھ برائی کرنے والارسول کریم ﷺ کو اذیت دیتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اہلِ مدینہ کو اذیت دے گا، اُس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ اس کا فرض قبول کرے گا نہ نفل۔
آپ نے دوسرے موقع پر یہ بھی فرمایا جو اہلِ مدینہ کو اذیت دے گا اور خوف زدہ کرے گا گویا کہ وہ مجھے اذیت اور خوف زدہ کرےگا۔ اہلِ مدینہ آپ کے پڑوسی ہیں۔ ہمساے کو اذیت دینا ویسے ہی بہت ہی برا ہے اور پھر آپ کے پڑوسی یعنی مدینہ کے رہنے والے کو تکلیف دینا عذاب کو دعوت دینا ہے۔ احادیث سے یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو آپ ﷺ کو اذیت دے گا، مدینہ طیبہ کے رہنے والوں کے ساتھ زیادتی کی صورت میں اس کا بدلہ اور انتقام ربّ کریم لے گا اور اللہ تعالیٰ کے انتقام سے ڈرنا چاہیے۔ بخاری و مسلم کی حدیث کا مفہوم یہ بھی ہے کہ جو اہلِ مدینہ کے ساتھ مکر و فریب یا برائی کا ارادہ  کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلائے گا جیسے نمک پانی میں پگھلتا ہے۔

بد بخت اور بدباطن شخص کو مدینہ شریف کی سکونت نصیب نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ مدینہ طیبہ بھٹی کی مانند ہے۔ جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ اور گندگی کو دور کر دیتی ہے۔ ایسے ہی یہ شہرِ منور خبثِ باطن اور منافقت رکھنے والوں کو دور کر دیتا ہے۔ شریر اور گندی خصلت کے لوگ اس شہر میں جاہی نہیں پاتے۔ اگر چلے بھی جائیں تو وہ اس کی برکتوں اور رحمتوں کو حاصل کیے بغیر ہی اس شہر سے کوچ کرجاتے ہیں اس لیے کہ بھٹی میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔ شہرِ نبی بھی آلودگیوں اور آلودہ رہنے والوں کو دور کردیتا ہے۔ پاکیزہ صفت لوگ ہی اس شہر کا مقدر ہیں، جو اس شہر کو ناپسند کرکے 
چھوڑتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بہتر شخص کو مدینہ طیبہ کے لیے قبول فرمالیتا ہے اور مدینہ کو چھوڑنے والے سے بہتر اور عمدہ شخص ہی اس کی سکونت حاصل کرتا ہے۔ روے زمین پر مختلف فتنے برپا ہوتے ہیں۔ جوں جوں قیامت قریب ہوگی فتنے بھی بڑھتے جائیںگے۔ قربِ قیامت بڑے فتنوں میں ایک بہت ہی بڑا فتنہ دجّال کا ہوگا، جو دین کی خفت اور علم کی نایابی کے وقت جنم لے گا۔ چالیس دنوں میں پوری دنیا کی سیاحت کرے گا۔ اس کا ایک دن ایک سال کا، ایک دن ایک مہینے کا، ایک دن ہفتے کا اور باقی تمام دن عام دنوں کی طرح ہوں گے۔ دجّال کے اثرات پوری دنیا میں پھیلیں گے لیکن اس وقت بھی مدینہ طیبہ کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ دجّال مدینہ میں داخل نہ ہونے پائے گا، بلکہ دجّال کے اثرات اور رعب بھی مدینہ میں داخل نہ ہوگا۔ مکہ اور بعض روایات کے مطابق دمشق بھی دجّال سے محفوظ ہوں گے۔رب کریم نے مدینہ طیبہ کی حفاظت کے لیے ملائکہ کو مقرر فرمایا ہوا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے پوچھا یا نبی اللہ ﷺ کیا دجّال مدینے میں داخل ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا وہ ارادہ تو کرے گا لیکن ہر راستے اور دروازے پر ایسے فرشتے پائے گا جو صفیں باندھے دجّال سے مدینہ طیبہ کی حفاظت کررہے ہوں گے۔ اسی طرح طاعون بھی مدینہ طیبہ میں داخل نہ ہونے پائے گا۔

شفاعتِ مصطفیٰ ہی کامیابی کی علامت ہے۔ ہر مسلمان یقین رکھتا ہے کہ مدنی تاجدار اس کی شفاعت فرمائیں۔یہ اعزاز واکرم اور خصوصیت اہلِ مدینہ کو حاصل ہے کہ ان کی شفاعت سب سے پہلے کی جائے گی۔ عبدالملک بن عباد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سب سے پہلے میں اپنی امت میں سے جن کی شفاعت کروں گا وہ اہلِ مدینہ ہوں گے پھر اہلِ مکہ پھر اہلِ طائف ہوں گے۔
حدیث میں اہلِ مکہ پر بھی اہل ِ مدینہ کی شفاعت کو مقدم کیا گیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سب سے پہلے نبی ﷺ کے ساتھ اہلِ مدینہ ہی اٹھیں گے۔
موت برحق ہے۔ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہر انسان اپنے اعمال کے مطابق موت کے لمحات سے دوچار ہوگا۔ اچھے اور اعمالِ صالحہ کو اختیار کرنے والوں کو مکھن سے بال نکالنے کی طرح موت آئے گی۔ بُرے اور گندے اعمال کے مرتکب ہونے والوں کی کیفیت بہت تکلیف دہ ہوگی۔ زندہ جانور کی کھال اُتارنے کی مانند اُن کی موت کے وقت میں کرب و شدت سے گزرنا 
ہوگا۔ کسی موت ہواؤں کے دوش پر اور کسی کو موت سمندروں میں، کسی کو قحبہ اور جوا خانوں میں، کسی کو بازار میں، کسی کو مسجد میں اور کسی کو نہ جانے کہاں کہاں اس کا سامنا کرنا ہے لیکن خوش قسمت وہ شخص ہے جس کو موت مدینہ طیبہ میں آئے۔ ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مدینہ میں مرنے کی طاقت واستطاعت رکھتا ہے تو اسے مدینہ میں مرنا چاہیے، جو اس میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ اس حدیث سے مدینہ طیبہ میں رہنے کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔ خصوصاً زندگی کے آخری ایام مدینہ طیبہ میں گزارنا اور ہی موت کی خواہش کرنا باعث بخشش ومغفرت ہے۔ وہ لوگ جوصدق دل سے مدینہ میں موت کی آرزو کرتے ہیں ان میں سے بہت لوگوں کو قبول کرلیا جاتاہے۔ بہت سے ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ عشاق حاضری کے لیے جاتے ہیں۔ اور وہیں وقت آتا ہے اور اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ اس طرح مدینہ میں مرنے اور وہیں دفن ہونے کی آرزو پوری ہوجاتی ہے۔

رکن شامی سے مٹی وحشتِ شامِ غربت
اب مدینہ کو چلو صبح دل آرا دیکھو
اسلام میں ہجرت کی بہت فضیلت ہے۔ ہجرت کو فضیلت اس لیے عطا کی گئی ہے کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے ہجرت فرمائی ہے۔ آپ کے لیے رب کریم نے جو شہر منتخب فرمایا وہ مدینہ طیبہ ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ ان تینوں شہروں المدینہ النورہ، البحرین، قسرین میں سے ایک کو منتخب فرمایئے۔ دیگر احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مدینہ شریف ترجیحاً بیان کیا گیا اور خواب میں بھی کھجوروں والی زمین (مدینہ طیبہ) ہی ہجرت کے لیے دکھائی گئی۔ ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم اور پسند سے ہمیشہ کے لیے آپ ﷺ نے اسی شہر کو پسند فرمایا۔ جناب ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے حکم ہجرت کے بعد بارگاہ الہٰ میں عرض کیا۔
اللھم انک اخرجتنی من احب البلاد الی فاسکنی احب البلاد الیک۔
’’اے اللہ تو نے مجھے میرے محبوب شہر سے ہجرت کا حکم فرمایا اب اس شہر کو میری جائے سکونت بناجو تجھے زیادہ محبوب ہو‘‘۔
دعا کے کلمات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدینہ طیبہ ربّ کریم کا بھی محبوب شہر ہے اور 
اسی  وجہ سے آپ کے لیے مدینے کو منتخب کیا گیا۔ جانِ کائنات ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ کو اس قدر پسند فرمایا کہ آپ کی آرزو یہی تھی کہ مدینہ طیبہ ہی میں وصال ہو، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ داخل ہوتے یوں دعا فرماتے: اللھم لا تجعل منایانا بھا حتی تخرجنا منھا۔

’’اے اللہ ہمیں (مکّہ) میں موت نہ دینا یہاں تک کہ ہمیں یہاں سے نکال دے‘‘۔
اور اس بات میں بھی شک نہیں کہ کسی نبی کی روح کو اسی مقام پر نکالا جاتا ہے جہاں ان کو دفن ہونا پسند ہو۔ رسولِ کریم ﷺ کو ہمیشہ کے لیے مدینہ طیبہ ہی پسند تھا اس لیے آپ کا وصال اسی شہر میں ہوا۔ آپ کے بستر کی جگہ ہی آپ ﷺ کی تدفین ہوئی اور یہ حقیقت ہے زمین کا وہ حصہ جس کو رسولِ کریم ﷺ کے جسدِ اطہر کو مس کرنے کی سعادت ملی وہ تمام زمین سے افضل ہے بلکہ عرش سے بھی۔ علامہ سمہودی نے رقم کیا:ان تلک البقعۃ افضل من العرش۔ زمین کا یہ ٹکڑا عرش سے بھی افضل ہے۔ اس لیے کہ یہاں نور علیٰ نور کے پیکر آرام فرمائیں۔
باغِ طیبہ میں سہانا پھول پھولا نور کا
مست بو ہیں بلبلیں پڑھتی ہیں کلمہ نور کا
مدینہ طیبہ ایسا خوب صورت، دلکش، جاذبِ قلب ونظر اور روح پر ورشہر ہے کہ دلوں کا میلان خود بخود ہی اس شہر کی جانب ہوتا ہے۔ بذاتِ خود رسول کریم ﷺ جب مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے جاتے اور واپسی کے وقت مدینہ کے قریب سواری کو تیز فرما لیتے تاکہ جلد مدینہ میں داخل ہوجائیں۔ اہلِ محبت کے لیے بھی سواری کو تیز کرنا، دخولِ مدینہ سے پہلے غسل، عمدہ لباس اور پسندیدہ خوش بو استعمال کرنا مستحب ہے۔ غسل، تبدیلیِ لباس اور خوشبو کے عمل سے تھکاوٹ و آثارِ سفر ختم ہوتے ہیں اور تروتازہ ہوکر شہر محبوب میں حاضری ہوتی ہے۔ رسولِ کریم ﷺ سفر سے شام کو لوٹتے تو مدینہ کے باہر ہی قیام فرماتے اور پھر صبح چاشت کے بعد مدینہ میں داخل ہوتے۔ اہلِ عقیدت کو مدینہ شریف میں کثرت سے آپ ﷺ کی بارگاہ میں درود وسلام پیش کرنا چاہیے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ’’جو آدمی میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اسے سنتا ہوں اور جو دور سے پڑھتا ہے وہ مجھے پہنچا یا جاتا ہے‘‘۔ قرآن و سُنّت کے مطالعے سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ درود و سلام ایک عمدہ عمل ہے اس سے اللہ تعالیٰ 
کی رحمتوں کا نزول اور بارگاہِ مصطفوی میں قرب ملتا ہے۔
کعبہ کے بدرالدجیٰ تم پہ کروروں درود  
طیبہ کے شمس الضحیٰ تم پہ کروروں درود

شہرِ طیبہ کی بہت سی مساجد کو نسبتوں کی سوغات کا شرف نصیب ہوا۔ سرِ فہرست مسجد نبوی ہے۔ دو یتیموں سے جگہ خرید کر عظیم مسجد کی تعمیر کی گئی۔ یہ ایسی بلند مرتبہ مسجد ہے جس میں ایک نماز ادا کرنے والے کو دوسری مساجد میں ہزاروں نمازوں سے زیادہ فضیلت ملتی ہے۔ مسجد نبوی کو برسوں مصطفیٰ کریم ﷺ کے قیام، رکوع وسجود اور خطبوں کی سعادت ملی۔ گنبد خضریٰ، ریاض الجنۃ، منبرو مصلی رسول اور اصحابِ صفہ کے چبوترے سمیت کئی نسبتوں کا حصول مسجد نبوی کا مقدر ٹھہرا۔
مصطفیٰ کے قدموں کو چوما ہے تو جی بھر کے
جھومتی ہے قسمت پر ہر گلی مدینہ کی
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک ﷺ نے فرمایاجس نے میری اس مسجد میں چالیس نمازیں پڑھیں اس کی کوئی نماز فوت نہ ہویہ اس کے حق میں جہنم سے آزادی، عذاب سے نجات اور نفاق سے برأت لکھ دی جائے گی۔ مسجد قباوہ معروف مسجد ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی۔ اس میں دو رکعت پڑھنے والے کو عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ مسجد قباکو ہفتے میں ایک بار مصطفیٰ کریم ﷺ کے پاوں مبارک چومنے کی نسبت حاصل ہوتی۔ سلعہ پہاڑ کی مغربی جانب مدینہ کی سات مشہور مساجد بھی ہیں۔

مسجد فتح: خندق کے موقع پر نبی پاک ﷺ نے یہاں دعا فرمائی جس کو فورا قبول ہونے کا اعزاز ملا۔ صحابہ پر مشکل آتی تو آپ ﷺ کی نسبت سے اسی مقام پر جاکر دعا کرتے تو اجابت کی سعادت ملتی۔ 
مسجد اجابہ: اس مسجد میں نبی پاک تشریف فرما ہوئے، نمازادا کی اور تین دعائیں فرمائیں۔ پہلی۔ اُمت کو قحط سے ہلاک ہونے سے بچا۔ دوسری۔ اُمت کو سیلاب سے ہلاک ہونے سے بچا۔ یہ دونوں قبول ہوئیں۔ تیسری۔ امت میں آپس میں جنگ نہ ہو۔ پہلی دونوں کو قبول فرمالیا اور تیسری دعا کو اللہ تعالیٰ نے روک لیا۔ 
مسجد قبلتین: اس مسجد میں نبی پاک ﷺ جماعت کروا رہے تھے کہ تبدیلی قبلہ کا حکم ہوا۔ 
نماز میں ہی آپ نے رخ تبدیل فرمایا۔ 
مسجد الجمعہ: ہجرت کے بعد سب سے پہلے یہیں آپ ﷺ نے جمعہ ادا فرمایا۔ اس مسجد کو مسجد عاتکہ بھی کہا جا تا ہے۔ 
مسجد بنی عبدالا شہل: اس مقام میں آپ ﷺ نے بنی عبدالاشہل کو نمازِ مغرب پڑھائی اور سُنتیں گھر میں ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ 
مسجد الغمامہ(مصلی): یہاں آپ ﷺ نمازِ استسقاء، عیدین ادا فرماتے۔ کبھی جنازہ بھی۔ 
مسجد ابی ذر (مسجد سجدہ): یہاں کھجوروں کا باغ تھا۔ نبی پاک ﷺ نے یہاں سجدۂ شکر اس موقع پر ادا کیا جب جبریل نے خبردی کہ آپ کی اُمت میں جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ اس پر رحمت فرمائے گا۔ جس نے ایک بار سلام بھیجا اللہ اس پر بھی سلام فرمائے گا۔ اس بات پر سجدۂ شکر کرنے کی وجہ سے یہاں مسجد بنائی گئی۔

مسجد البغلہ (بنی ظفر): اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے بعد آپ چٹان پر تشریف فرما ہوئے اور گریہ فرمایا۔
 مسجد بنی قریظہ: محاصرہ کے دوران آپ ﷺ نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ نماز کے بعد سعد آئے تو انصار کو ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے  کا فرمایا۔ 
مدینہ طیبہ کی اور بہت سی مساجد مشہور ہیں جن میں مسجد الفضیح (مسجد شمس)، مسجد السقیا، مسجد ام ابراہیم، مسجد بنی زریق اور دیگر شامل ہیں۔
جبلِ اُحد مدینہ طیبہ کے اہم مقامات میں شامل ہے۔ یہ وہ برکتوں اور محبتوں والا پہاڑ ہے کہ جس کے بارے میں جانِ کائنات ﷺ نے غزوہ سے واپسی پر اُحد کو دیکھ کر فرمایا۔ ھذا جبل یحبنا ونحبہ۔ ’’یہ اُحد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں‘‘۔ یہ کلمات غزوۂ خیبر یا غزوۂ تبوک یا حج سے واپسی پر ارشاد فرمائے۔ اس حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں۔ ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ متعدد بار آپ ﷺ نے احد سے محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ متعدد بار اظہار فرمانے میں بھی ممکن ہے کہ جب بھی آپ احد کے پاس تشریف لاتے ہوں تو احد پہاڑ آپ سے محبت کا اظہار کرتا ہو جو اباً آپ بھی اس سے محبت کا اظہار فرماتے۔
حضور ﷺ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ جبلِ اُحد پر تشریف فرما ہوئے تو وہ فرطِ محبت سے جھومنے لگا۔ آپ ﷺ نے پاؤں سے ضرب لگائی اور فرمایا: اثبت احد، فما علیک الا نبی او صدیق او شھیدان۔ ’’اے اُحد ٹھہر جا تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔ جبل حرا اور جبل ثبیر کے بارے میں بھی ایسی روایات موجود ہیں۔ کسی شاعر نے خوب کہا:
و مال حراء تحتہ فر حا بہ فلو لا مقال اسکن تضعضع وانقضا

آپ کے قدموں کے نیچے حرا فرحت و انبساط میں جھومنے لگا۔ اگر اسکن کا کلمہ نہ ہونا تو وہ عاجزی کرتے کرتے ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ اُحد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہوگا اور یہ جنت کا پہاڑ ہے۔ حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ چار پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ہیں، ان میں احد ایک پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے اور یہ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے۔
جبلِ اُحد کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ غزوہ اُحد اس کے دامن میں ہوا اور شہداے اُحد خصوصاً حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ مدفون ہیں۔ غزوۂ احد کے دوران آپ ﷺ اُحد پر تشریف رہے۔ جس مقام پر آپ ﷺ بیٹھے آج بھی ان پتھروں سے خوشبو آتی ہے۔
جب سے آنکھوں میں سمائی ہے مدینہ کی بہار
نظر آتے ہیں خزاں  دیدہ گلستاں ہم کو
جبل سلع بھی مدینہ منورہ کا ایک معروف پہاڑ ہے۔ اس میں ایک غار ہے جس کو بنی حرام کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، اس غار کا حجم ایک کمرے کے برابر ہے۔ اس کا راستہ مسجد فتح کی جانب ہے۔ غزوہ خندق کے ایام میں آقاے کریم ﷺ نے کئی راتیں اس غار میں بسر فرمائیں۔ اسی غار میں بشارت ملی کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو امت میں پریشان نہیں کرے گا۔ اسی طرح جبل الرایہ (ذباب) حجازِ مقدس کا ایک پہاڑ ہے اس پر رسول پاک ﷺ نے نماز ادا فرمائی۔
دو وادیاں مدینہ پاک کی بہت مشہور ہیں۔ ایک وادی العقیق اور دوسری وادی بطحان۔ وادی عقیق ایک مبارک وادی ہے۔ جس کی برکتوں کی بشارتیں بھی دی گئیں۔ اس وادی میں تہلیل (لا الہ الا اللہ) کا حکم ہوا۔ وادی بطحان یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہوگا۔


اس 
کی فضیلت میں یہ بھی ہے کہ اس کو جنت کے ایک حوض یا دروازہ پر بنایا ہے۔ اس کی مٹی کو شفا بنایاہے۔ مدینہ طیبہ کے معروف کنوووں میں بئر اریس (الخاتم)، بئر حاد، بئر بضاعہ، بئر انس بن مالک، بئر رومہ، السقیا، بئر محمود بن ربیع اور دیگر شامل ہیں مقام زوراء۔ یہ وہ حرم شریف سے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اسی مقام پر حضور ﷺ کی مبارک انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔
غبار، مٹی، پھل ہر شے مدینہ طیبہ کی باعث برکت ورحمت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں کوئی شخص اپنی حاجت رکھتا، زخم، پھوڑا یا کوئی اور مرض۔ نبی پاک ﷺ اپنی انگلی اس طرح کرتے اور کہتے باسم اللہ، تربۃ ار ضنا، بریقۃ بعضنا، لیشف بہ سقیمنا باذن ربنا۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے، ہماری زمین (مدینہ طیبہ) کی مٹی، ہمارے بعض کے لعاب کے سبب، ہمارے رب کے اِذن سے بیماروں کے لیے باعثِ شفا ہے۔ (متفق علیہ) آپ انگلی پر لعاب اور مٹی لگاکر بیمار کے متاثرہ حصے پرلگاتے اور شفاہو جاتی۔ حدیث کے کلمات میں یہ بات واضح ہے کہ مدینہ طیبہ کی مٹی باعثِ شفا ہے۔ مٹی کی طرح غبارِ مدینہ بھی رحمت وبرکت اور شفا کا سبب ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ جب غزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو مسلمانوں سے پیچھے رہنے والے لوگ آپ ﷺ سے آملے۔ انہوں نے غبار اُڑایا تو نبی پاک ﷺ کے ساتھ موجود لوگوں میں سے بعض نے اپنی ناک ڈھانپ لیے مگر آپ ﷺ نے اپنے چہرے سے نقاب اُتار دیا اور فرمایا والذی نفسی بیدہ، ان فی غبار ھا شفاء من کل داء قسم ہے اس ذات کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے۔ اس غبار میں ہر بیماری  سے شفا ہے۔

شہرِ نبی کے پھلوں کی برکت یہ ہے کہ جو تناول کرتا ہے وہ آفات و بلیات سے محفوظ ہوتا ہے۔ خصوصاً عجوہ کھجور نہار منہ سات کی مقدار میں کھانے والااس دن زہر اور جادو کے اثرات سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ حدیث کے مفہوم کے مطابق عجوہ کھجور جنت سے ہے اور یہ زہر سے شفا دینے والی ہے۔ سات دن سات عجوہ کھجوریں نہار منہ جذام سے بھی نجات دلاتی ہیں۔ اسی طرح دل کی بیماری کے لیے بھی یہ مفید ہیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مَیں بیمار تھا رسولِ کریم ﷺ 
میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے اپنا دستِ مبارک میرے سینے پر رکھا، میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل پر محسوس کی، پھر آپ ﷺ نے فرمایا بے شک تو دل کا مریض ہے۔ تم ثقیف کے بھائی حارث بن کلاہ کے پاس جاؤ۔ وہ طبیب ہے۔ اسے چاہیے کہ مدینہ طیبہ کی سات عجوہ کھجوریں لےکر انہیں گھٹلی سمیت کوٹ کر خوب باریک کرلے اور پھر وہ تمہیں پلا دے۔ (سنن ابی داؤد)
جنت البقیع مدینہ طیبہ کا وہ با برکت قبرستان ہے جہاں کبھی رات اور کبھی دن کو تشریف لے جاتے اور اہلِ بقیع کے لیے دعا اور استغفار فرماتے اور ان کلمات کے ساتھ سلام فرماتے۔
السلام علیکم دار قوم مومنین، واتاکم ما توعدون، غذا منو جلون، وانا ان شاء اللہ بکم لاحقون، اللھم اغفر لا ھل بقیع الغرقد۔
اہلِ بقیع وہ ہے کہ بروزِ محشر رسولِ پاک ﷺ کے بعد شیخین اور ان کے بعد انہی کو اٹھایا جائے گا۔ بقیع میں دفن ہونے والوں کو آقاے کریم کی شفاعت بھی نصیب ہوگی۔ اہلِ بیت اطہار اور بہت سے صحابہ کرام بقیع ہی میں آرام فرما ہیں۔ مدینہ طیبہ کی سکونت اور بقیع میں جگہ کا نصیب ہونا خوش بخت ہونے کی علامت ہے۔ اللہ اپنے محبوب کے وسیلے سے ہمیں بھی اس سعادت سے نواز ے۔

اللھم نجنی من کل ضیق فانت  الھنا مولی الجمیع وھب لی فی المدینہ مستقر او رزقائم دفنا فی البقیع۔
اے اللہ مجھے ہر تنگی اور مصیبت سے نجات عطا فرما، تو ہمارا الہٰ اور تمام کا مولیٰ ہے۔
مجھے مدینہ میں سکونت اور رزق عطافرما اور بقیع میں دفن ہونے کی سعادت عطا فرما۔
مدینہ کے  خطے  خدا تجھ کو  رکھے
غریبوں  فقیروں کے ٹھہرانے  والے 
٭٭ ٭

Post a Comment

Previous Post Next Post