Ahnaaf par Gair Muqalliden Ka Ilmi wa Tahqeeqi Muhasiba

احناف پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا علمی و تحقیقی محاسبہ

از: محمد آصف رضا برکاتی مصباحی
درجۂ تحقیق فی الحدیث، الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور

مذہبِ اسلام کو دنیا میں تشریف لائے ہوئے چودہ سو بتیس سال ہونے کو ہیں اس مدتِ مدیدہ میں اس مذہبِ حق پر نہ جانے کتنے مخالفتوں کے سیاہ بادل منڈلائے، اس لہلہاتے اور کھلتے سبز و شاداب گلشن پر عداوتوں کی تیز آندھیاں اپنے مسموم جھونکوں کے ساتھ آئیں اور زور دکھا کر لوٹ گئیں، مگر بفضلہ المولیٰ تعالیٰ یہ چمن اسی طرح سرسبز و شاداب رہا۔ اس روشن آفتاب انسانیت تاب پر بارہا بدمذہبیت کی تاریک گھٹاؤں نے ہر دَور میں دھرنے دئیے، مگر یہ سب اس کی ایک کرن کو ماند نہ کرسکیں اور یہ آفتاب اسی چمک دمک کے ساتھ عالمِ انسانی پر ضیا پاشی کرتا رہا۔
کبھی اس پر یزیدی بادل آئے تو کبھی حجازی غبار چھائے، کبھی مامونی طاقت نے سینہ اُبھارا، تو کبھی تاتاری قوتوں نے آنکھیں ملائیں، کبھی کذابی، طفسونی، مرزائی طاقتوں نے پنجہ آزمائی کی، تو کبھی رافضی، خارجی بگولے اُٹھے، کبھی دیوبندی وہابی تحریکوں نے اس کو دبانے کی ناپاک کوششیں کیں، مگر وہ سب اس کی زریں شعاؤں کے سامنے بے نور ہوکر رہ گئیں۔ اور یہ آفتاب پورے جہان کو اپنی تابانی کی خیرات یونہی تقسیم کرتا رہا۔ اور آج بھی خرمنِ دین و دانش اس کی منور کرنوں سے تاباں ہے اور کفر و شرک کی کھیتی جل رہی ہے۔

مگر ان تمام فتنوں میں زبردست فتنہ اور تمام آفتوں میں سب سے بڑی آفت نجدیوں کی تھی، جس کی خبر مخبرِ صادق و مصدوق، عالم ماکان ومایکون، نبی آخر الزماں ﷺ نے پہلے ہی سے دے دی تھی۔ اور ہزار سال قبل ہی اہلِ ایمان کو اس فتنے سے آگاہ کردیا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے یمن، شام، 
عراق و غیرہ کے لیے دعا فرمائی تو بعض اصحاب نے ودوفی نجدنا، کہہ کر دعا کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا، ’’ھناک الزلازل والفتن وبھا یطلع قرن الشیطن‘‘ یعنی میں اس محروم خطے کے لیے دعا کیسے کروں، وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں شیطانی گروہ پیدا ہوگا۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی نگاہِ مستقبل شناس میں فتنۂ دجال کے بعد، نجد کا فتنہ تھا۔ مخبر صادق و مصدوق غیب داں نبی اعظم ﷺ کے اس فرمانِ عالی شان کی صداقت و حقانیت آفتاب عالم تاب کی طرح روشن ہوچکی۔

چنانچہ اسی خبر کے مطابق بارھویں صدی ہجری کی ابتدا میں محمد بن عبدالوہاب نجدی، ۱۷۰۳ء میں نجد کی جنوبی جانب وادیِ حنیفہ کے ایک مقام عُینہ میں پیدا ہوا۔ اس کی شخصیت نے ملتِ اسلامیہ میں افتراق و انتشار کا ایک نیا دروازہ کھولا۔ اہلِ اسلام میں کتاب و سُنّت کے مطابق جو معمولات صدیوں سے رائج تھے، محمد بن عبدالوہاب نجدی نے ان کو کفر و شرک قرار دیا۔ مقابرصحابہ و مشاہد و مآثر کی بے حرمتی کی، قبّہ جات کو مسمار کر دیا، رسوماتِ صحیحہ کو غلط معنی پہنائے اور ایصالِ ثواب کی تمام جائز صورتوں کی غلط تعبیر کرکے انہیں ’’الدعا مخ لغیر اللہ‘‘ اور ’’النذر لغیر اللہ‘‘ کا نام دیا۔ توسّل کا انکار کیا اور انبیا علیہم السلام اورصلحاے اُمّت سے استمداد اور استغاثہ کو ’’یدعون من دون اللہ‘‘ کا جامہ پہنا کر عبادات لغیر اللہ قرار دیا۔ انبیا علیہم السلام، ملائکہ کرام اور حضور تاجدارِ مدینہ محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء سے شفاعت طلب کرنے والوں کے قتل اور ان کے اموال لوٹنے کو جائز قرار دیا، جنت البقیع کے تمام مزارات کو قاعا صفصفا کے مصداق چٹیل میدان بنا دیا۔ 
اس فتنے نے ریگ زارِ عرب کو خون سے نہلا دیا، طائف سے کربلا تک اور مکہ سے مدینہ تک کوئی حرم نہ رہا حتی کہ رحمۃ اللعالمین کے گنبدِ خضرا کی زرنگار چھت برباد کردی گئی اور قبرِ اقدس سے چادر اُتار لی۔ اس نے محبت رسول کے متوالوں کے خلاف تلوار میان سے باہر نکالی اور ان کی جان و مال کو اپنے لیے حلال قرار دیا۔ اور اس تحریک کے ممبروں نے اہلِ ایمان کے ایمان خریدنے کے لیے سیم و زر کی تھیلیوں

کے بند منہ کھول دیے۔ اسی تحریک کا ایک ممبر ہندستانی شخص مولوی اسمٰعیل دہلوی بنا، اسی کے توسط سے نجدی فتنے نے تن کے گورے من کے کالے انگریزوں کے زیر حمایت ہندستان میں پیر پسارے اور مختلف ناموں کے ساتھ برصغیر میں گردش کرتی رہی، آخر میں آکر اس کے اہلیان نے اس تحریک پر اہلِ حدیث کا خول چڑھا دیا۔ اسی کے بینر تلے اس کے متبعین نے ائمۂ مجتہدین اور ان کے مقلدین بالخصوص امام اعظم ابو حنیفہ اور ان کے مقلدین فقہا و محدثین پر انگشت نمائی کی۔
فقہ اور خصوصاً فقۂ حنفی کو فرسودہ بتاکر طرح طرح کے لایعنی اعتراضات جڑ کر دشنام طرازیاں کیں۔ ہدایہ، فتاویٰ عالم گیری، درمختار وغیرہ کتبِ فقیہ کو فریب کا پلندہ کہا۔ لہٰذا ذیل میں ہم ان کے اعتراضات میں سے چند نقل کرکے ساتھ ہی ان کا علمی و تحقیقی محاسبہ کریں گے۔ ان شاء اللہ جس سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گا کہ غیر مقلدین جبہ و دستار کی آڑ میں اہلِ حدیث کا لیبل چسپاں کرکے سادہ لوح اہلِ ایمان کے ایمان پر دن دہاڑے کس طرح ہاتھ صاف کررہے ہیں۔ حدیث کا سبز باغ دکھا کر دراصل حدیث ہی سے بیگانہ کررہے ہیں۔ ممبرانِ تحریکِ وہابیت، معمولاتِ اہلِ سُنّت جو عہدِ صحابہ و تابعین و تبع تاُبعین سے چلے آرہے ہیں ان کو مٹانے کے لیے سارا زورِ علم و قلم خرچ کررہے ہیں۔ لہٰذا جن باتوں سے وہ مغالطہ دیتے ہیں، جن معمولات پر شرک و بدعت کا ہوّا کھڑا کرکے مسلمانوں کو خوف زدہ کرتے ہیں ان سب کا احاطہ تو اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں، مگر ہم چند کا جائزہ لیتے ہیں۔

اعتراض:  رہبری کے لیے قرآن و حدیث کافی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ولا رطب و ولا یابس الا فی کتب مبین‘‘ ہر خشک وتر چیز قرآن پاک میں موجود ہے۔ جب ان میں سب کچھ موجود ہے تو کسی کی تقلید کرنے اور فقہ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ (ظفر المبین فی ردّ مغالطات المقلدین)
جواب:  بلاشبہ قرآن و حدیث میں سب کچھ ہے اور یہ رہبری کے لیے بھی کافی ہیں مگر ان کو سمجھنا اور مسائل کا استنباط کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں، اس کے لیے اس بحر کے غواصوں کی ضرورت ہے اور فقہ الگ سے  کوئی نومولود چیز نہیں بلکہ قرآن اور حدیث کے مفاہیم و مطالب کا خلاصہ اور مقصودِ بحریں کا نچوڑ ہے۔ ائمہ مجتہدین نے اپنی پوری عمریں ان دونوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں صرف کردیں اور ان دونوں دریاؤں میں غوّاصی کرکے جو موتی اور جواہر نکالے اسی کا نام فقہ ہے۔ اور فقہ کے لیے تو خود رسولِ کریم ﷺ نے ترغیبی الفاظ ارشاد فرمائے: من یرید اللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین یعنی جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کا فقیہ بنادیتا ہے۔ تو 
پھر کیسے کہنا صحیح ہے کہ تحصیلِ فقہ کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ خود صحابۂ کرام، ام المومنین عائشہ صدیقہ، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہم بہت بڑے فقیہ و محدث تھے اور دوسروں کی بات کیا، خود ہمارے ملک میں اسلام لانے والے، اسلام قبول کرنے والے، اسلام پھیلانے والے سب کے سب اہلِ سُنّت و جماعت فقیہہ و حنفی تھے۔ نیز یہاں کے تمام مفسّرین، محدثین، اولیاے کرام اور سلاطین عظام سُنّی فقیہ اور حنفی تھے۔ تو کیا وہ سب غلط تھے۔ خدا محفوظ فرمائے ان خرافات سے۔

اعتراض:  حنفی مذہب میں ہے کہ خون ناپاک ہے، اگر کپڑے پر لگ جائے تو کپڑا بھی ناپاک ہوجائے گا، اور وضو بھی ناقض ہوجائے گا۔ اگر اس حالت میں نماز پڑھی تو نماز نہ ہوگی۔ حالاں کہ بخاری شریف، حصہ اوّل، باب من لم یرالوضوء میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع سے واپسی پر ایک جگہ پڑاؤ کیا تو وہاں ایک صحابی حضرت عبادہ کے نماز کی حالت میں کسی دشمن نے تیر مارا، جس سے ان کے بدن سے خون بہنے لگا اور انہوں نے اسی حالت میں نماز مکمل کی۔ اگر خون ناقضِ وضو ہوتا تو آپ دوبارہ وضو کرکے نماز پڑھتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ لہٰذا مذہبِ حنفی حدیث کے خلاف ہے، لائقِ عمل نہیں۔ (طریقِ محمدی از محمد صاحب محدث جونا گڑھی)
جواب:  خون کے ناقضِ وضو ہونے کا مسئلہ یہ احناف کی رائے نہیں، بلکہ احادیثِ صحیحہ اس باب میں وارد ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بہنے والاخون ناقضِ وضو ہے۔
اوّل: حدیث صحیح جس کی تخریج دارقطنی نے اپنی سُنن میں کی ’’عن عمر بن عبدالعزیز عن تمیم الداری قالَ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الوضوء من کل دَمٍ سائلٍ‘‘ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ہر بہنے والاخون ناقضِ وضو ہے۔
دوم:  زید ابن ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث، جس کی تخریج ابن عدی محدث نے اپنی کتاب ’’الکامل‘‘ میں کی ہے ’’عن عبدالرحمن بن ابّان ابن عثمان بن عفان عن زید بن ثابت قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الوضوء من کلِّ دمٍ سائد‘‘ حضرت زید ابن ثابت کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر بہنے والاخون ناقضِ وضو ہے۔
سوم: ابن ماجہ اور امام بیہقی نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی، فرمایا: 
’’من اصابہ قرئٌ او زعاف، او قلس، او مذی، فلنصرف فلیتوضو، ثم لیبن علیٰ صلوتہ وھو فی ذلک مالم یتکلم‘‘ یعنی جس شخص کو نماز میں قے ہو، یا نکسیر پھوٹے، یا مذی نکلے تو نماز سے نکل جائے اور وضو کرے اور اسی نماز پر بنا رہے جب تک کہ بات نہ کی ہو۔

چہارم:  حضرت فاطمہ بنت حبیش کی حدیث، جس کی تخریج امام بخاری نے ’’بخاری شریف‘‘ میں کی ہے: ’’عن عائشہ قالت: جأت فاطمۃ بنت ابی حُبیش الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقالت: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انی امراۃ استحاضٌ فلا اطھر افادع الصلوٰۃ، قال: لا، انما ذالک عرقٌ ولبست بالحیض فاذا اقبلت الحیض فدعی الصلوٰۃ واذا ادبرت عنک الدم ثم توضی لکل صلوٰۃ حتی یجر ذلک الوقت‘‘ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں: فاطمہ بنت ابی حبیش بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ میں مستحاضہ عورت ہوں تو کیا اس حالت میں نماز چھوڑ دوں، تو آپ نے فرمایا: نہیںوہ تو رگ کا خون ہے حیض نہیں، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ اور جب ختم ہوجائے تو خون صاف کرکے غسل کرو پھر وضو کرو ہر نماز کے لیے۔
ان تمام احادیث سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ بہنے والا خون ناقضِ وضو ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کثیر احادیث صحیحہ موجود ہیں جو واضح طور پر خون کے ناقض وضو ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور اس پر بھی کہ خون ناپاک ہے۔
رہا مذکورہ صحابی کا واقعہ کہ جسم سے خون بہتا رہا تو انہوں نے نماز بلا وضو مکمل کی تو اس کے کئی جواب ہیں۔ اولاً: یہ کہ وہ صحابی یعنی حضرت عبادہ استغراق کے عالم میں تھے، انہیں نماز میں جو لذت مل رہی تھی اس نے ان کو اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیا کہ خون سے کپڑا ناپاک ہوگیا اور وضو ٹوٹ گیا۔ نیز استغراق کے عالم میں جو افعال صادر ہوتے ہیں وہ دوسروں کے لیے دلیل نہیں ہوتے۔

ثانیاً:  اس کا بھی امکان ہے کہ اس وقت حضرت عبادہ کو اس مسئلے کا علم نہ ہو کہ خون ناپاک اور ناقضِ وضو ہے۔ یا پھر اس وقت خون کا یہ حکم نہ ہو، بعد میں یہ حکم صادر ہوا۔ نیز یہ بھی کہ اس واقعہ میں مذکور نہیں کہ حضور اقدس ﷺ کو اس کی خبر دی گئی۔
ثالثاً:  خون بہہ ہی رہا تھا، رُکتا ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ معذور تھے اور ایسے معذور کو حالتِ عذر
میں نماز درست ہے۔ جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو جب زخم لگا تو آپ نماز میں تھے، خون بہہ رہاتھا لیکن انہوں نے اسی حالت میں نماز مکمل کی۔ اسی طرح کوئی مسلسل بول کا مریض ہو تو اس کو بھی اجازت ہے۔ لہٰذا خون ناقضِ وضو تو ہے مگر معذور کے لیے رخصت ہے۔
اعتراض:  رسولِ کریم ﷺ نے قربانی کے جانور کے اشعار کیا (ہلکا سا چیرا لگایا) جیسا کہ ترمذی شریف کی حدیث ہے: ’’اشعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابہ۔‘‘(ترمذی، ج ۱، ص۱۸۰)
مگر امام اعظم ابو حنیفہ اس حدیث کے خلاف اشعار کو مکروہ کہتے ہیں،جیسا کہ ہدایہ میں ہے:  ’’الاشعار مکروہ عند ابی حنیفۃ‘‘  (ہدایہ، ج ۱، ص۲۵۶)
جواب:  اشعار کی دو قسمیں ہیں: ۱) اشعارِ مسنون ۲) اشعارِ غیر مسنون۔
اشعارِ مسنون یہ ہے کہ قربانی کے جانور کی فقط کھال کاٹ دی جائے، گوشت محفوظ رہے۔ اس طور پر کہ ذرا خون بہہ جائے۔ امام اعظم اس صورت کو مکروہ یا مثلہ نہیں کہتے بلکہ مستحب کہتے ہیں۔ چناں چہ درمختار میں ہے ’’فاما من احسنہ بان قطع الجلد فقط فلا بأس بہ‘‘ یعنی جو شخص اشعار عمدہ طور پر اس طرح کرے کہ فقط کھال کاٹ دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

طحطاوی شرح درمختار میں ہے: ’’قولہ فلا بأس بہ اراد انہ مسحب لما قدمنا‘‘ یعنی لا بأس بہ سے مراد مستحب ہے۔
مبسوط وغیرہ فقہ کی کتابوں میں اس قسم اشعار کو مسنون کہا ہے، مثلہ یا مکروہ نہیں کہا ہے۔ 
۲) اشعارِ غیر مسنون یہ ہے کہ جانور کی کھال کے ساتھ ساتھ گوشت بھی کاٹ دیا جائے، اس طور پر کہ جانور کی ہلاکت کا اندیشہ ہوجائے۔ چناں چہ امام اعظم ابو حنیفہ کے دَور میں لوگ اس طرح اشعار کرتے تھے کہ جانور ہلاکت کے قریب ہوجاتا تھا اور ساتھ ہی وہ اس کو مسنون کہتے تھے۔ اسی کو امام اعظم نے مکروہ کہا اور مثلہ بتایا۔ اور مثلہ کی ممانعت پر بیش تر احادیث موجود ہیں ، جو بخاری، ابو داؤٗد، مسند احمد، مستدرک حاکم وغیرہ میں مذکور ہیں۔
چناں چہ علامہ عینی نے شرح ہدایہ میں لکھا ہے:  ’’لان مراد ابی حینفۃ لیس مطلق المثلۃ وانما مرادہ المثلۃ التی لا یباح فعلھا وابو حنیفۃ رضی اللہ 
عنہ ماکرہ اصل الاشعار وکیف یکرہ ذلک مع ما اشھر فیہ من الاٰثار، وقال الطحاوی: انما کرہ ابو حنیفۃ اشعار اھل زمانہ لانہ راھم ینقصون فی ذلک علی وجہ یخاف منہ ہلاک البدنہ یسرالتہ خصوصاً فی حرِّ الحجاز۔‘‘
یعنی امام صاحب کی مراد مثلہ سے مطلق مثلہ نہیں بلکہ وہ مثلہ ہے جس کا کرنا جائز نہیں۔ امام اعظم نے اصل اشعار کو مکروہ نہیں کہا اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جب کہ بہت آثارِ صحابہ اس باب میں موجود ہیں۔ امام اعظم نے اپنے زمانے کے طریقۂ اشعار کو منع فرمایا ہے کیوں کہ آپ نے ان لوگوں کو اس طرح اشعار کرتے دیکھا کہ جانور کی ہلاکت کا اندیشہ ہوتا تھا، بالخصوص حجاز میں شدتِ گرمی کی وجہ سے۔

امام طحاوی کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کے زمانے میں لوگ اشعار میں زیادتی کرتے تھے۔ اسی وجہ سے آپ نے اس کو مکروہ کہا حالاں کہ اصل اشعار جو مسنون ہے وہ تو امام صاحب کے نزدیک بھی مسنون ہے، نہ کہ مکروہ۔
نیز اشعار کوئی ایسا مسئلہ مسنونہ نہیں جس کی تاکید کی ہو بلکہ رسول اللہ ﷺ نے فقط ایک مرتبہ ایسا کیا ہے۔ اسی لیے ابن عباس اور ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کے ترک کی اجازت بھی دی ہے۔ لہٰذا فعلِ رسول بدعت نہیں ہوسکتا، البتہ افراط و تفریط بدعت ہوسکتی ہے۔ (عینی شرح ہدایہ)
اعتراض:  ہدایہ، جلد اوّل، صفحہ ۱۷۶، درمختار اور عالم گیری وغیرہ فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے ’’قال ابوحنیفۃ لیس فی الاستسقاء صلوۃ مسنونۃ فی الجماعتہ‘‘ ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ نمازِ استسقاء باجماعت مسنون نہیں۔ حالاں کہ بخاری، جلد اوّل، صفحہ ۱۴۰ اور مسلم جلد اوّل، صفحہ ۲۹۳ کی حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ استسقاء باجماعت مسنون ہے۔ نیز امام اعظم کے نزدیک اس میں چادر پلٹنا اور خطبہ بھی مسنون نہیں۔ (عصارِ محمدی، صفحہ ۳۷ از محمد صاحب جونا گڑھی)جواب:  فتح المنان باب الاستسقاء میں ہے کہ امام اعظم کے نزدیک استسقاء، دعا اور استغفار ہے کیوں کہ قرآن کریم میں ارشادِ الٰہی ہے: ’’استغفروا ربکم انہ کان غفا راہ یرسل السماء علیکم مدرارا‘‘ یعنی اپنے رب سے مغفرت طلب کرو وہ بخشنے والا ہے اور تم پر برسنے والا ابر بھیجتا ہے۔

علاوہ ازیں بہت سی احادیث صحیحہ میں استغفار کا طریقہ مرقوم ہے ان میں نماز نہیں مگر ایک حدیث میں صرف نماز ثابت ہے۔ وہ یہ کہ رسولِ کریم ﷺ عید گاہ تشریف لے گئے، نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا۔ اولاً تو یہ حدیث درجۂ صحت پر نہیں۔ ثانیاً یہ رسول اللہ ہی کے ساتھ خاص ہے۔ کیوں کہ سُنّت وہ ہے جس پر آپ نے ہمیشگی برتی ہو، مگر کبھی ترک کردیا ہو۔ اور یہاں بیش تر احادیث میں نماز نہ پڑھنا ہی ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث ہے کہ آپ نے استسقاء میں استغفار کیا اور فقط دعا مانگی، نماز نہ پڑھی۔ اگر نماز باجماعت مسنون ہوتی تو آپ ہرگز اس کو ترک نہ فرماتے۔ حالانکہ یہ فعل صحابہ کی موجودگی میں ہوا مگر اس پر کسی نے نکیر نہ کی۔
امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول ’’استسقاء میں جماعت نہیں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جماعت دوسری خصوصیات کے ساتھ مسنون نہیں۔ ورنہ ہر شخص بطور نفل پڑھے اور دعا استغفار کرے تو جائز ہے بلکہ مستحسن ہے۔ اور اکثر طرق جن میں خصوصیات اور کیفیات مذکورہ ہیں، وہ بھی ضعف سے خالی نہیں۔ اسی وجہ سے امام اعظم نے اس کا خلاصہ اور مقصد اصلی جو دعا و استغفار ہے اخذ کرلیا ور نماز کو بلاجماعت و خطبہ کے جائز رکھا۔ مگر باوجود اس کے فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺ کے فعل سے خطبہ اور جماعت ثابت ہے، خصوصیت کی کوئی دلیل بھی نہیں پائی جاتی۔
اور رہا چادر پلٹنے کا مسئلہ تو امام ابن الھمام فتح القدیر میں لکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا چادر پلٹنا بطور نیک فالی کے تھا، جیسا کہ اس کی صراحت حاکم نے مستدرک میں کی ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کا چادر پلٹنا اس لیے تھا تاکہ قحط سالی خوش حالی کی طرف پلٹ جائے۔ طبرانی میں حضرت انس سے مروی ہے کہ آپ نے چادر کو اس لیے پلٹا کہ قحط سالی پلٹ کر ارزانی ہو جائے۔

خلاصہ یہ کہ حضرت عمر کا دعا کو نماز پر ترجیح دینا، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مسنون یہی طریقہ ہے نہ کہ نمازِ باجماعت۔ لہٰذا مذہب امام قرآن و حدیث کے خلاف نہیں، بلکہ موافق ہے۔ غیر مقلدین کا اعتراض کرنا قرآن و حدیث کو نہ سمجھنے کی بنیاد پر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اعتراض:  حدیث شریف میں ہے کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ مغیرہ ابن شعبہ کی حدیث ’’عن مغیرہ ابن شعبہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی سباطن قوم فعال وتوضا ومسح بناصبب وعلی العمامۃ وعلیٰ الخفین۔‘‘ حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ قوم کی کوڑی کے پاس آئے، پیشاب فرمایا اور وضو کیا، ناصیہ، عمامہ، خفین پر مسح فرمایا۔ اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے کی ہے اور اسی کو ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں 
ذکر کیا۔ لہٰذا حدیث سے معلوم ہوا کہ عمامہ پر مسح کرنا جائز ہے۔ مگر امام اعظم کے نزدیک جائز نہیں، جیسا کہ عینی شرح ہدایہ، اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ وغیرہ فقہ حنفی کی کتابوں میں ناجائز لکھا ہے۔ معلوم ہو کہ فقہ حنفی مخالف حدیث ہے۔ (درایت محمدی، محمد صاحب محدث جونا گڑھی)

جواب:  عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں، کیوں کہ قرآن میں ہے ’’وامسحوا برؤسکم‘‘ اپنے سروں کا مسح کرو۔ آیت کریمہ میں سر پر مسح کرنے کا حکم ہے، عمامہ پر مسح کرنے سے نصِ قرآن پر عمل نہ ہوسکے گا، کیوں کہ حکم مسح راس کا ہے نہ کہ عمامہ کا۔ حدیث مغیرہ کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بقدر ناصیہ سر کا مسح کرکے باقی کو عمامہ پر مکمل کرے۔ امام اعظم اس صورت کو منع نہیں کرتے۔ بلکہ صرف عمامہ پر مسح کرنا اور سر کے کسی حصے کا مسح نہ کرنا کو منع کرتے ہیں۔ امام شافعی، امام مالک اور جمہور علما کے نزدیک بھی یہ صورت جائز نہیں ہے۔ حدیث مذکورہ اور اس کے علاوہ جن احادیث میں عمامہ پر مسح کرنا آیا ہے ان میں یہ دلالت نہیں کہ سر کا مسح نہیں کیا، صرف مسح عمامہ پر اکتفا کیا۔ بلکہ بعض روایات میں تو مسح عمامہ کے ساتھ مسح ناصیہ کی تصریح ہے۔
موطا امام محمد میں حضرت جابر ابن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ’’انہ سئل عن العمامۃ فقال: لا حتی یمس الشعر المائ‘‘ جابر بن عبداللہ سے عمامہ پر مسح کے متعلق معلوم کیا گیا تو آپ نے فرمایا: جائز نہیں، یہاں تک کہ بالوں تک پانی نہ پہنچے یعنی جب تک سر کے کسی حصہ کا مسح نہ کیا جائے۔ فقط عمامہ پر مسح جائز نہیں۔
اس کے بعد امام محمد فرماتے ہیں: ’’وبھذا ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ رحمۃ اللہ علیہ‘‘ یعنی اسی پر ہمارا عمل ہے اور یہی امام اعظم کا قول ہے۔

نافع کہتے ہیں کہ: ’’میں نے صفیہ بنت ابو عبیدہ یعنی زوجہ عبداللہ بن عبداللہ بن عمر کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے خمار اُتار کر مسح کیا۔‘‘ نیز امام محمد فرماتے ہیں: عمامہ پر مسح پہلے تھا اس کے بعد ترک کردیا اور حکم سابق منسوخ ہوگیا۔ اور یہی ابوحنیفہ اور ہمارے تمام فقہا کا قول ہے۔ ہشام بن عروہ کہتے ہیں: ’’کہ میں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کرتے وقت عمامہ علیحدہ کیا، پھر مسح کیا۔‘‘ (مؤطا امام محمد، ص: ۷۰)
مجمع البحار میں ہے: ’’انہ یحتاج الی مسح قلیل بن الواس ثم لیمسح علی العمامۃ بدل الاستیعاب‘‘ یعنی مسح کرنے میں تھوڑے سر کا مسح ضروری ہے، پھر عمامہ پر مسح کرے تو یہ پورے سر کے مسح کے برابر ہوجائے گا، مطلق عمامہ پر کیا تو قطعاً نہ ہوگا۔ (مجمع البحار، 
ج:۱، ص: ۳۷۷)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’ولو اقتصر علی العمامہ ولم یمسح شیئًا من الراس لم یجزہ ذلک عندنا بلا خلاف وھو مذہب مالک وابی حنیفۃ واکثر العلمائ‘‘ یعنی اگر صرف مسح عمامہ پر کیا اور سر کو بالکل نہ چھوا تو مسح نہ ہوگا، یہ ہمارے (شافعیہ) کے نزدیک ہے۔ امام مالک، امام اعظم ابو حنیفہ اور اکثر علما کا بھی یہی مذہب ہے۔ (شرح صحیح مسلم، ج:۱، ص: ۱۳۴۰)
قرآنی آیت، احادیث صحیحہ اور جمہور فقہا و محدثین کے اقوال سے ثابت ہوا کہ عمامہ پر مسح جائز نہیں۔ معترض نے جو حدیث پیش کی تو اس کا جواب یہ  دیتے ہیں کہ یہ حکم پہلے تھا بعد میں منسوخ ہوگیا۔ ملّا علی قاری مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہوسکتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے ناصبہ پر مسح کرکے عمامہ کو درست کیا ہو اور راوی نے اسی کو مسح گمان کرلیا ہو۔ (مرقات، ج:۱، ص: ۳۱۱) بہرحال مذہب امام قرآن و حدیث کے بالکل موافق ہے، سرِمو مخالف نہیں، غیر مقلدین کا لعن طعن کرنا صرف ذہنی ہیضہ ہے۔

اعتراض: مسلم شریف میں ہے: ’’قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان ابراھیم مکۃ وانی حرمت المدین ما بین لا بیتھا لا یقطع عظاھما ولا یصار صیدھا‘‘ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اور مَیں مدینہ کو حرم بناتا ہوں اس کی زینت کو ختم نہ کیا جائے اور نہ اس کا شکار کیا جائے۔ (مسلم شریف، ج:۱، ص: ۴۴۰) لیکن حنفی مذہب مدینہ کو حرم نہیں مانتا اور اس کا شکار جائز بتلاتا ہے۔ (طریق محمدی، ص: ۱۰۴، محمد صاحب محدث جوناگڑھی)
جواب:  علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کا مدینہ کو حرم کرنا اس سے آپ کی مراد حرمت تعظیمی ہے، جو احکام حرم سے متعلق ہوتے ہیں وہ مراد نہیں۔ اس کی دلیل خود مسلم شریف کی حدیث ہے: ’’ولا یحبط فیھا شجرۃ الا لعلف‘‘ (مسلم، ص: ۴۴۲) یعنی درخت کے پتے نہ جھاڑے جائیں مگر صرف چوپایوں کے چارے کے واسطے۔
حالانکہ حرم مکہ کے پتّے جھاڑنا کسی بھی حالت میں درست نہیں۔ رہا مدینہ کے شکار کا مسئلہ تو اگرچہ چند صحابہ نے اس کو حرم کہا ہے مگر جمہور صحابہ کرام نے مدینہ شریف کے جانور کے شکار کا انکار نہیں کیا ہے۔ نیز شکار مدینہ کے باب میں کوئی حدیث ایسے طرق پر مشتمل نہیں جس پر اعتبار کیا 
جائے۔ حالاں کہ رسولِ کریم ﷺ نے حضرت عمیر سے ارشاد فرمایا: ’’یا ابا عمیر ما فعل النغیر‘‘ اگر مدینہ کا شکار حرام ہو تو آپ اس موقع پر سکوت نہ فرماتے۔ (مرقات، ص۱۲۰)

جمہور کے نزدیک شکاری پر حرم مدینہ کوئی جزا نہ ہونے سے بھی حرم مکہ سے فرق ہے۔ یہ صرف بعض حضرات کی رائے ہے کہ حرم مکہ اور مدینہ کے احکام برابر ہیں۔ مگر جمہور صحابہ و ائمہ دونوں میں فرق کرتے ہیں۔ مگر چوں کہ رسولِ کریم نے مدینہ کو ہجرت فرمائی تھی اور مسلمان دن بدن آباد ہورہے تھے، اس لیے آپ نے اس کی زیب و زینت کے واسطے درخت وغیرہ کاٹنے کی ممانعت فرمادی۔ کیوں کہ لوگ اگر درخت وغیرہ کاٹ لے جائیں گے تو اس کی ہریالی سب ختم ہوجائے گی اور اُجڑا، اُجڑا سا معلوم ہوگا۔ اگر دونوں حرموں کا حکم ایک ہوتا تو پتّے توڑنے کو بھی منع فرما دیتے۔ حاصل یہ ہے کہ حرم مدینہ کا حکم بعینہٖ حرم مکہ کی طرح نہیں ہے۔ غیر مقلدین نے صرف ایک حدیث کو اور وہ بھی صرف ظاہری الفاظ دیکھا اور معنی کی تہہ میں غور نہ کیا اور نہ مزاجِ نبوی کو سمجھا اور برابری کے قائل ہوگئے۔ اس مسئلے میں احناف پر بہت تیر و نشتر برسائے گئے ہیں مگر بنظرِ دقیق دیکھا جائے تو ائمہ ثلاثہ اور ہمارے علما کے مسلک میں کوئی فرق نہیں اور عہدِ رسالت سے تعامل اسی پر ہے کہ بوقت ضرورت مدینہ شریف کے درخت کاٹے جاسکتے ہیں۔
اعتراض: مسلم شریف کی حدیث ہے کہ شراب کا سرکہ 
بنانا جائز نہیں ’’عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن الخمر نتخذھا خل قال: لا۔‘‘  حضرت انس سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ سے شراب کے متعلق معلوم کیا گیا: کہ کیا ہم اس کو سرکہ بنا سکتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا:ـ نہیں۔ (مسلم، ج:۲، ص: ۱۶۳)
لیکن حنفی مذہب میں اس کو جائز کہا گیا ہے جیسا کہ قدوری میں ہے ’’واذا تخلک الخمر حلت سواء صارت بنفسھا خلا او بشیٔ طرح فیھا ولا یکرہ تخلیلھا‘‘ یعنی شراب جب سرکہ بن جائے خواہ وہ خودبخود بنے یا کوئی چیز ڈالنے سے تو اس کا سرکہ لینا مکروہ نہیں۔(قدوری، ص: ۲۲۳)

احناف کی یہ حدیث کی مخالفت نہیں تو اور کیا ہے۔ (طریق محمدی، ص: ۱۰۷ محمد صاحب محدث جونا گڑھی)
جواب:  شراب کا سرکہ بنانا جائز ہے اور یہ قرآن و حدیث کے موافق ہے مخالف نہیں۔ قرآن میں ہے: ’’احل لکم من الطیبات‘‘ پاک چیزیں تمہارے لیے حلال کی گئیں۔ اور سرکہ چوں کہ 
بالطبع پاک ہے، لہٰذا یہ بھی مدلول آیت ہے۔ نیز مسلم شریف کی حدیث ہے ’’نعم الادام الخل‘‘ سرکہ کیا ہی عمدہ سالن ہے۔ سرکہ چوں کہ حدیث شریف میں مطلق ہے، لہٰذا سرکہ کی تمام اقسام کو شامل ہوگا۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ بن جانے کے بعد خمر کا وصف مفسد زائل ہوجاتا ہے اور اس میں اصلاح کی صفت پیدا ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ وہ صفراء کو سکون دیتا ہے اور شہوت کو توڑتا ہے۔ سرکہ سے غذا حاصل کرنا مباح ہے اور جو چیز ان مصالح و فوائد کی صلاحیت رکھتی ہو وہ بھی مباح ہوتی ہے۔ رہی معترض کی پیش کردہ حدیثِ انس کہ سرکار نے سرکہ بنانے سے منع فرمایا ہے، تو اس کے چند جواب ہیں۔
اول:  یہ کہ یہ ممانعت ابتداے اسلام پر محمول ہے، کیوں کہ اس وقت شراب کے معاملے میں شدت کی گئی تھی شراب کی عادت چھڑانے کے واسطے ۔ یہی نہیں بلکہ شراب کے برتن، مٹکے وغیرہ کو بھی توڑنے کا حکم فرمایا تھا۔ یہ حکم اب نہیں ہے۔
دوم:  حدیث کا محمل یہ ہے کہ شراب کے ساتھ سرکہ جیسا معاملہ نہ کیا جائے۔ بایں طور پر کہ شراب کو سرکہ کی طرح دسترخوان پر رکھا جائے۔
سوم:  یہ حدیث معلول ہے۔ کیوں کہ اس کے رواۃ میں یحییٰ ابن یحییٰ ہیں جو مجہول ہیں۔ ’’تقریب التہذیب‘‘ میں ہے ’’یحییٰ بن یحییٰ مجھول‘‘ (تقریب التہذیب، ص: ۵۵۶)

معلوم ہوا کہ شراب اگر سرکہ بن جائے خواہ وہ خود بنے یا کوئی چیز ڈال کر تو وہ جائز ہے، مکروہ نہیں۔ کیوں کہ جب وصف ِ حرمت زائل ہوگیا تو اب حرمت کی کوئی علّت باقی نہیں رہی۔ ان تمام دلائل سے چشم پوشی کرکے اس کی حرمت کا قول کرنا اور فقۂ حنفی پر انگشت نمائی کرنا دراصل قرآن و حدیث کے مطالب نہ سمجھنے کی بنا پر ہے۔ 
دعا ہے کہ مولیٰ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صراطِ مستقیم پر چلائے اور غیر مقلدیت و گمراہیت سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہِ طہٰ و یٰس۔OOOO

Post a Comment

Previous Post Next Post