Biography Hazrat Molana Mufti Inayat Ahmed Kakorwi Shaheed e Madeena حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ


حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ

نام ونسب: اسم گرامی: حضرت مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ۔لقب: مجاہدِجنگ آزادی،امام الصرف،جامع العلوم۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:حضرت علامہ مفتی عنایت احمد کاکوروی بن منشی محمد بخش بن منشی غلام محمد بن منشی لطف اللہ علیہم الرحمہ۔آپ کےآباؤاجدادمیں امیر حسام نامی ایک بزرگ بغداد سےہندوستان آئے۔دیوہ ضلع بارہ بنکی اودھ میں مقیم ہوگئے۔امیر حسام کےصاحبزادےضیاء الدین دیوہ کےقاضی مقررہوئے۔آپ کاخاندان علم وفضل اور دینی ودنیاوی وجاہت میں معروف تھا۔

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 9/شوال المکرم 1228ھ/مطابق اوائل  ماہ اکتوبر/1813ء کو دیوہ ضلع بارہ بنکی میں ہوئی۔کچھ عرصہ بعد آپ کےوالد گرامی نےکاکوروی ضلع لکھنؤ اپنےسسرال منتقل ہوئےتوآپ بھی اپنی ننھیال میں مستقل سکونت اختیارکرلی۔جس کی نسبت سےآپ کو’’کاکوروی‘‘ کہا جانےلگا۔

تحصیلِ علم:ابتدائی تعلیم دیوہ اور کاکوری میں ہوئی۔مزید تعلیم کےلئےآپ نےرام پورسفر کیا۔جہاں مولانا سید محمد رام پوری سےصرف ونحو اور مولانا نورالاسلام اور مولوی حیدر علی سےدیگرعلوم وفنون کی کتابیں پڑھیں۔پھر دہلی آکر مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی سے درس حدیث وسندحدیث حاصل کی۔دہلی کےبعدعلی گڑھ پہنچے ورمولانا بزگ علی مارہروی(شاگر مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی،مولاناشاہ رفیع الدین دہلوی) سےریاضی پڑھی۔فراغت کےبعدعلی گڑھ میں ہی مفتی ومنصف(جج)مقرر کیے گئے۔جامع مسجد علی گڑھ میں مدرس ہوگئے۔علی گڑھ کےتلامذہ میں مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھی،مولانا سید حسین شاہ بخاری وغیرہ ہیں۔

سیرت وخصائص:غریق بحرِ رحمت،امام ِعزیمت،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،مجاہد جنگ آزادی حضرت علامہ مولانا مفتی عنایت احمد کاکوروی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کےجیدعالم دین اورعظیم داعی تھے۔آپ کی خداداد صلاحیتوں ،محبت و خلوص اور درس و افتا میں مہارتِ تامہ کے سبب آپ کی شہرت اور نیک نامی دور دور تک پھیلتی گئی۔ آپ ﷫عوام و خواص کے مرجع بنتے گئے۔حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی﷫ کو درس و تدریس سے بے پناہ لگاؤ اور شغف تھا۔ آپ عدالت میں جاری اجلاس کے دوران بھی اپنے طلبہ کو مقدمے سے فرصت ملتے ہی پڑھانے لگتے تھے۔ علم بانٹنے اور پھیلانے کی جو امنگ اور جوش وولولہ آپ کے اندر تھا نیز آپ کے تدریسی ذوق و شوق،طریقۂ تعلیم و تربیت، طلبہ سے محبت و مروت اور تقسیم علم کے جذبۂ خیر کااندازہ پروفیسر ایوب قادری بدایونی کی تحریر کردہ اس روایت سے ہوتا ہے:مولانا سید حسین شاہ بخاری فرمایا کرتے تھے کہ مفتی صاحب مجھ کو ہدایہ اجلاس میں پڑھایا کرتے تھے۔ جیسے ہی کسی مقدمہ سے فرصت ہوئی اشارہ ہوتا۔ میں پڑھنا شروع کردیتا ۔ پھر کوئی سرکاری کام آجاتا تو اس میں مصروف ہوجاتے ۔اس دوگونہ مصروفیت کے باوجود مسائل اس طرح ذہن نشین کرادیئے کہ کبھی فراموش نہ ہوئے۔ آپ طلبہ سے خاص تعلق رکھتے تھے ۔ مولوی لطف اللہ صاحب کی تعلیم کے زمانہ میں ہی مفتی صاحب کا تبادلہ علی گڑھ سے بریلی ہوگیا تھا۔ مولوی لطف اللہ صاحب بریلی ساتھ گئے۔ وہاں جملہ کتبِ درسیہ ختم کیں۔صبح کی نماز کے بعد مفتی عنایت احمد صاحب تلاوت کرتے تھے۔ مولوی لطف اللہ صاحب خدمت میں حاضر رہتے ۔دورانِ تلاوت کوئی مشکل صیغہ آتا تو مفتی صاحب خود حل کرکے بتاتے ۔ مفتی عنایت احمد صاحب نے فراغ کے بعد مولوی لطف اللہ صاحب کو اپنے ہی اجلاس کا سررشتہ دار مقرر کرلیا۔(چندممتازعلمائےانقلاب:118)

جنگ آزادی میں کردار: 1857ء میں جب انگریزوں کےخلاف انقلاب کی دستک ہوئی تو اس میں مفتی عنایت احمد کاکوروی نے نہایت اہم کردار ادا کیا ۔ آپ جہادِ آزادی کی تنظیم و تشکیل کے لیے شب و روز مصروف رہے ۔ بریلی ان دنوں آزادی کااہم مرکز تھا۔ اور آپ تحریکِ آزادی کے قائد و رہنما تھے ۔میاں عبدالرشید کالم نگار روزنامہ نوائےوقت لاہور کے بہ قول: ’’آپ بریلی میں نواب خان بہادر خاں روہیلہ کی زیرِ قیادت جہادِ حریت کی تنظیم کے لیے سرگرمِ عمل رہے۔ ان دنوں روہیل کھنڈ بریلی مجاہدینِ آزادی کا اہم مرکز تھا۔ اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی﷫ کے جد امجد مولانا رضا علی خاں بریلوی ﷫اس تحریک کے قائدین میں سے تھے۔ مفتی عنایت احمد ﷫نے مجاہدین کی تنظیم پرہی اکتفا نہ کیا بل کہ نواب خان بہادر خاں روہیلہ کے دستِ راست کی حیثیت سے مختلف معرکوں میں عملی حصہ بھی لیا۔‘‘ (جنگِ آزادی نمبر ، ترجمانِ اہل سنت کراچی ، شمارہ جولائی 1975ء)مفتی عنایت احمد کاکوروی﷫ کی علمی صلاحیتوں اور لیاقتوں کی بنیاد پر اُن کو 1273ھ میں آگرہ کاصدرالصدور بنایا گیا ۔ آپ ابھی بریلی سے آگرہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہی تھے کہ 1857ء کی جنگ کا آغاز ہوگیا اور آپ نے آگرہ جانا ترک کردیا اور بریلی و را م پور میں جنگِ آزادی کے لیے متحرک و فعال ہوگئے ۔ لوگوں کے اندر جذبۂ حریت کو بیدار کیا۔ 

مفتی عنایت احمد کاکوروی﷫ اپنے بریلی میں قیام کے دوران ’’جلسۂ تائیدِ دینِ متین‘‘ کے نام سے ایک تبلیغی و اصلاحی انجمن کی بنیاد ڈالی تھی۔ جس کے تحت آپ نے دینی لٹریچر کی نشرواشاعت کی۔اس انجمن کو بر صغیر کے مسلمانوں کا پہلا اصلاحی ادارہ کہاجاتا ہے۔ اس انجمن سے شائع ہونے والی کتب زیادہ تر مفتی عنایت احمد کاکوروی﷫کی تالیف کردہ ہوتی تھیں ۔ یہ کتابیں اصلاحی اور تبلیغی موضوعات پر تھیں۔جب ہندوستان میں پہلی جنگِ آزادی کی روح بیدار ہونا شروع ہوئی تو اس وقت انگریزوں کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنےاور مجاہدین کے لیے مالی امداد و اعانت پر ایک اہم فتویٰ بریلی میں جاری ہوا تو اس پر مفتی عنایت احمد کاکوروی ﷫نے اپنے دستخط ثبت کیےاور عوام و خواص میں روحِ آزادی پھونکنے میں عملی کردار ادا کیا۔ انگریزوں نے جب انقلاب 1857ء کو ناکام بنانے کے بعد علمائےکرام اور قائدینِ انقلاب کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا شروع کیاتو اس دوران بریلی کے اسی اہم فتویٰ کی بنیاد پر مفتی عنایت احمد کاکوروی کے خلاف بھی مقدمہ چلایا گیا دکھاوے کی خاطر معمولی سی سطحی عدالتی کارروائی کے بعد آپ کو سزائے کالا پانی کے طور پر جزیرۂ انڈیمان بھیج دیا گیا۔ جہاں آپ نے چار سال تک قید و بندکی سخت مشقتیں جھیلیں۔

انگریزوں کی طرف سے دیگر علماء و قائدین کی طرح آپ پر بھی طرح طرح سے مصائب کے پہاڑ توڑے گئے۔حالتِ اسیری میں ابھی دوسال ہوئے تھے کہ ایک انگریز نے آپ سے مشہورِ زمانہ کتاب ’’تقویم البلدان‘‘کے ترجمہ کی خواہش ظاہر کی جسے آپ نے قبول فرماکر دوسال میں مکمل کردیا۔ اس اہم علمی کام سے متاثر ہوکر اُسی انگریز نے آپ کی رہائی کی راہیں ہموار کیں اور آپ 1277ھ/1860ء میں جزیرۂ انڈمان سے آزاد ہوکر ہندوستان واپس آئے۔جزیرۂ انڈمان میں سزاے کالا پانی کے دوران مفتی عنایت احمد کاکوروی کی طرح قائدِ تحریکِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی بھی محبوس تھے ۔ ان دوعظیم المرتبت علماے کرام کی موجودگی سے انڈمان کا قید خانہ بھی علم و فضل اور دین و دانش کا ایک مرکز بن گیا۔ہمارے ان مقتدر اسلافِ کرام نے بہ حالتِ اسیری دین و ادب کی خوب خوب خدمت انجام دی۔ تصنیف و تالیف اور تحقیق و تفحص کاسلسلۂ خیر جاری رکھا جس کے نتیجے میں کئی اہم کتب و رسائل منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے۔ جزیرۂ انڈمان میں مفتی عنایت احمد کوروی اورعلامہ فضل حق خیرآبادی کی تاریخی وعلمی خدمات کے بارے میں مولانا عبدالشاہد شیروانی رقم طراز ہیں:علامہ فضل حق جزیرۂ انڈمان پہنچے۔مفتی عنایت احمدکاکوروی،مفتی مظہر کریم دریابادی اور دوسرے مجاہدین علما وہاں پہنچ چکے تھے۔ان علما کی برکت سے یہ جزیرہ دارالعلوم بن گیا تھا۔ان حضرات نے تصنیف وتالیف کا سلسلہ وہاں بھی قائم رکھا۔خرابیِ آب وہوا،تکالیف شاقہ وجدائی احباب واعزہ کے باوجود علمی مشاغل جاری رہے۔مفتی صاحب (مفتی عنایت احمد کاکوروی)نے ’’علم الصیغہ ‘‘ جیسی صَرف کی مفید کتاب جو آج تک داخلِ نصاب ہے وہیں لکھی ۔’’تواریخِ حبیبِ الٰہ‘‘بھی تالیف کی۔ ان دونوں کتابوں کے دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ ان حضرات کےسینے علم کے سفینے بن گئے تھے۔ تاریخی یادداشت ، ترتیبِ واقعات ، قواعدِ فنون ،ضوابطِ علوم سبھی حیرت انگیز کرشمے دکھارہے ہیں ‘‘۔قرآن مجید بھی وہیں پر حفظ کیا۔(باغیِ ہندوستان:225)

سفرِ حج و زیارت کے دوران حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی ﷫اپنی ایک اہم ترین بے نقطہ کتاب’’ لوامع العلوم و اسرارالعلوم ‘‘ کا مسودہ ساتھ لے کر گئے تھے ۔ راستے میں نہایت عالمانہ و محققانہ انداز میں بڑی عرق ریزی اور جانفشانی اس کو مرتب فرمارہے تھے۔ افسوس ! کہ جہاز ٹکرانے سے یہ نہایت اہم ذخیرۂ علوم و فنون غرقِ سمندر ہوگیا اور دنیا ایک بڑے خزانے سے محروم رہ گئی۔اس میں چالیس علوم کا خلاصہ لکھنا پیشِ نظر تھا۔ ہر علم کا نام بھی بے نقطہ تھا۔ مثلاً علوم التفسیر کانام علم کلام اللہ۔ علم حدیث کانام علم کلام الرسول۔ علم فقہ کا نام علم الاحکام ۔ وغیرہ۔

حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی ﷫علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے پیکر باعمل عالمِ دین تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ دینِ متین کی خدمت اور تعلیم و تعلم میں بسر فرمائی۔ علوم و فنون کے جامع اور ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع المطالعہ اور ژرف نگاہ محقق و مصنف تھے۔ قوم و ملت کا درد اور انقلابِ امت کا جذبۂ خیر آپ کے سینے میں موجز ن تھا۔ آپ کی اصلاحی و تبلیغی تڑپ بھی نمایاں تھی۔ جس کے لیے آپ ہمہ دم ہمہ تن عملی کوششوں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ جہاں بھی رہے عوام و خواص کی توجہ کا مرکز رہے اوردینی و علمی کاموں میں نہایت فعال اور متحرک رہے۔اسی طرح آپ نےمتنازعہ ترین کتاب تقویۃ الایمان کا مختلف طریقوں سے ردکیا۔(الحق المبین:9)

تاریخِ وصال: آپ﷫نے 1279ھ کوبذریعہ بحری جہاز حج کا سفر کیا۔جہاز جدہ پہنچ کرپہاڑی سےٹکراکر ڈوب گیا۔مفتی صاحب بحالتِ نمازاحرام باندھے ہوئے17/شوال1279ھ مطابق 7/اپریل 1663ء کوغریقِ بحرِ رحمت ہوئے۔

ماخذومراجع: تذکرہ علمائے اہل سنت۔چندممتاز علمائے انقلاب۔باغی ہندوستان۔

Post a Comment

Previous Post Next Post