Hazrat Sayed Abdullah Naqshbandi Mujaddi

 حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی مجددیؒ

محدث دکن ابو الحسنات حضرت سید عبد اللہ شاہ نقشبندی نے جمعہ ۱۰؍ ذی الحجہ ۱۲۹۲ ہجری اس خاکدان عالم میں قدم رکھا۔ 
آپ کے جد اعلیٰ بلد الحرام مکہ مکرمہ سے بعہد عادل شاہی ارضِ ہندوستان پر قدم رنجہ ہوئے اور فرمان شاہی میں نلدرگ (مہاراشٹرا ) میں فروکش رہ کر امور دینیہ اسلامیہ کی سرپرستی فرمائی ۔ حضرت ابو الحسنات کے والد گرامی حضرت پیر سید مظفر حسین نقشبندی رحمہ اللہ نے حکومت آصفیہ کے زمانہ میں حیدرآباد منتقل ہوکر یہیں قیام پسند کیا ۔ خدا رسیدہ بزرگ حضرت شہزادہ قادری رحمہ اللہ کی صاحبزادی آپ کی والدہ محترمہ ہیں ۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ ، کی جانب سے ۴۰ ویں پشت میں اور ۴۴ واسطوں سے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ ،سے ملتا ہے اس طرح آپ نجیب الطرفین سادات ہیں۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ عالم اسلا م کی مشہور دانش گاہ ازہر ہند جامعہ نظامیہ اسلامیہ کا ۱۲۹۲ ہجری میں سنگ بنیاد رکھا جارہا تھا حضرت ابو الحسنات بھی اسی سنہ  ۱۲۹۲؁ھ میں پیدا ہوئے ، والدین نے آپ کا نام سید عبد اللہ رکھا ، ابو الحسنات آپ کی کنیت ہے مسلکا حنفی اہل سنت وجماعت ، مشرباً نقشبندی ہیں ، ہجر رسول کریم علیہ  التحیۃ والتسلیم میں ہمیشہ بے چین وبے قرار رہنے والے بزرگ حضرت عاقبت شاہ رحمہٗ اللہ نے آپ کی تسمیہ خوانی پڑھائی۔اس کے بعد تحصیلِ علم اور تربیتِ ذات کا مرحلہ شروع ہوا۔دکن کی مردم خیز اور علم پرور زمین میں اس وقت ایسے اساتذہ وامام الفنون موجود تھے جو علوم شریعت وطریقت کے ہر شعبہ میں کمال دستگاہ کے حامل تھے ۔حضرت ابو الحسنات علیہ الرحمہ نے جن اساتذہ کرام سے ظاہری وباطنی علوم حاصل فرمائے ان میں شیخ العرب والعجم پیر طریقت حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اجل شیخ الاسلام حضرت العلام ابوالبرکات حافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ والرضوان بانی جامعہ نظامیہ ، کے علاوہ شیخ المعقولات حضرت مولانا منصور علی خاںؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن ؒسہارنپوری خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ،ان اکابرین کے علاوہ آپ نے دیگراساتذہ سے بھی اکتساب علم وفن کیا ۔

حضرت ابو الحسناتؒ نے جس عہد میں تعلیم حاصل فرمائی اس وقت مدارس ومکاتب کی کثرت کے باوجود اعلیٰ تعلیم کے تحت درس وتدریس کا معروف طریقہ یہ تھا کہ مختلف علوم وفنون کیلئے انفرادی تدریسی مراکز قائم تھے ۔حضرت 
انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمۃ کا بھی ایک خصوصی حلقہ درس قائم تھا جہاں ملک وبیرون ملک کے طالبان علم سیراب ہونے کیلئے جوق در جوق چلے آتے ،اسی حلقہ درس سے حضرت ابو الحسنات نے بھی خوب خوب استفادہ ٔ علمی کیا، در حقیقت یہی وہ حلقۂ درس ہے جو بعد میں چل کر ایک عظیم دانش گاہ’’ جامعہ نظامیہ‘‘ کے قیا م کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ حضرت مفتی محمد رکن الدین علیہ الرحمہ کے مطابق حضرت شیخ الاسلام کے اسی فیضان علمی کو باضابطہ وباقاعدہ شکل دینے کیلئے ۱۲۹۲ہجری میںجامعہ نظامیہ کی تاسیس عمل میں آئی اور سارے علماء ومشائخ نے بالاتفاق آپ کو امام العصر تسلیم کرکے جامعہ نظامیہ کی تمام تر تعلیم وتنظیم آپ کے سپرد وحوالہ کردی ۔
علو م ظاہری کی تحصیل وتکمیل کے بعد آپ علوم باطنی کی طرف متوجہ ہوئے اور نقشبندیہ سلسلہ کے مشہوربزرگ پیر طریقت حضرت شاہ سعد اللہ رحمہ اللہ کے خلیفہ حضرت پیر سید محمد بخاری شاہ صاحب رحمہٗ اللہ سے رجوع ہوکر اکتساب طریقت اور فیض حقیقت حاصل کیا ۔ 
حضرت پیربخاری شاہ صاحب ؒدریائے معرفت کے غواص تھے۔آپ حیدرآباد کے محلہ سعیدآباد میں قیام پذیر تھے حسینی علم سے حضرت ابو الحسناتؒ بپابندی اپنے پیر کی خدمت میں حاضری دیتے ، درحقیقت پیر بخاری شاہ صاحب کی بارگاہ وہ سینائے مقدس تھی جو حضرت ابوالحسنات کیلئے تجلّی گاہِ ایمن بنی ہوئی تھی ،عدیم المثال حاضری نے آپ کے ہر روز۔ کو روز عید اور ہر شب کو شب برات بنا دیا تھا۔ آپ کے سوانح نگاروں کا بیان ہے کہ آپ کے مراقبہ کو دیکھ کر حضور اکرم ﷺ کے غار حرا میں مراقب ہونے کا تصور سامنے آجاتا تھا ۔ آپ کا مشرب بہت وسیع اور بے مثال تھا ۔خود کو پس پردہ رکھ کر حق کو ظاہر کرنے کا وصف آپ میں بدرجہ اتم موجود تھا ۔جو کرامات آپ سے ظاہر ہوئیں وہ من اللہ ظاہر ہوئیں۔تصرفات آپ کے ہاں محمود تھے مقصود نہیں ،آپ کی گریہ وزاری میں بڑی دلسوزی تھی جس سے شقی القلب بھی رقیق القلب ہوجاتا ،آپ اپنی دعائوں میں اکثر یہ الفاظ فرماتے ،
’’اے بار الہا تیرے معصوم بندے اس عاجز کو اپنا شیخ جان کر تیری درگاہ میں دعا کی درخواست کرتے ہیں اے اللہ تو میری لاج رکھ لے اور ان سبھوں کی دعا قبول فرمااور نہیں بامراد فرما ۔‘‘
آپ کا وعظ حکمت وموعظت کا بہترین نمونہ ہوتا ، نجی مسائل کے حل میں بھی آپ کی گفتگو بڑی تسلی بخش ہوتی۔قدرت نے آپ کو زبان وبیان کے ساتھ قلم کی قوت سے بھی سرفراز فرمایا تھا ،آپ کے تصنیفات وتالیفات وملفوظات از ابتداء تا انتہاء اپنے موضوعات وعنوانات کے لحاظ سے منفرد سند کا درجہ رکھتے ہیں ، قرآن وحدیث، اقوال صحابہ، تشریحات تابعین،توضیحات تبع تابعین ،اجتہادات مجتہدین وعرفانیاتِ سالکین ،نگارشات مؤرخین سے بھری 
ہوئی ہیں۔ کُن فیکون سے پہلے کی حقیقتوں کو واضح انداز میں سمجھانے والا ’’ میلاد نامہ ‘‘ یہودونصاری کے جسمانی معراج کے ہرگمان کی نفی وتردید میں ’’معراج نامہ‘‘ احوال یوم آخرت سے آگاہ کرنے والا ’’ قیامت نامہ‘‘  منزل معرفت کے درمیان پیش آنے والے ہر مرحلہ کی بلا تمثیل تشریح ’’یوسف نامہ ‘‘ معراج المومنین کی سیر حاصل تفصیل ’’ فضائل نماز ‘‘ زمینِ دل کو گل وگلزار بنانے کیلئے ’’ گلزارِ اولیاء‘‘ روحانی راہ میں رکاوٹ بننے والی بیماریوں کیلئے ’’ علاج السالکین ‘‘ خدا اور رسول سے قریب ہونے کیلئے ’’ کتاب المحبت‘‘ ایک انسان کے شب وروز کواسوۂ حسنہ میں ڈھالنے ’’ مواعظ حسنہ‘‘  سرورکائنات علیہ التحیۃ سے شرف ہمکلامی کیلئے ’’زجاجۃ المصابیح ‘‘ (پانچ جلدوں میں) تصنیف فرمائیں ۔ 
یہ تصنیفات ایک جامعہ کا درجہ رکھتی ہیں، بالخصوص زجاجۃ المصابیح کو حضرت ابو الحسنات علیہ الرحمہ کی زندگی کا شاہکار کہا جاسکتا ہے،مسلک امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو احادیث کی روشنی میںپایۂ ثبوت تک پہونچانا قدرت نے آپ کے حصہ میں رکھا تھا جس کے ذریعہ آپ کو حضور فخر کائنات ﷺ کی خوشنودی حاصل ہوئی اس کتاب کو تصنیف کرکے آپ نے بقول عبد الماجد دریا بادی احناف کے سر سے صدیوں کا قرض اتار دیا ۔ اور افغانستان کے فقیہ اعظم علامہ شیخ ابو نصر محمد اعظم ھروی نے دیکھا تو فرمایا کہ ’’ یہ صحیح ترین احادیث کا منبع اور بحر ذخار ہے جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور وسعت قلب وانشراح صدر کا موجب ثابت ہو رہی ہیں اللہ تعالی مؤلف کو اور اشاعت میںمدد کرنے والوں کو جزاء خیر مرحمت عطافرمائے ‘‘۔ ملک شام (سیریا) کے عالمی شہرت یافتہ عالم جلیل الشیخ عبد الفتاح ابو غدہ کا کہنا ہے کہ ’’ بیت اللہ شریف کی گرانقدر منفعتوں میں ایک زجاجۃ المصابیح ہے جس کی وجہ سے میری بصارت اور بصیرت دونوں روشن ہوگئے‘‘۔

دربانبوی ﷺ میں مقبولیت 

حضرت محدث دکنؒ کا یہ عظیم کارنامہ تائید غیبی کا نتیجہ ہے جس کا اظہار خود آپ نے اپنی کتاب کی ابتداء میں اس طرح فرمایا۔
’’جب خطیب تبریزی نے مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت امام شافعیؒ کے مسلک کے مطابق احادیث کو جمع فرمایاتو میر ے دل میں باربار یہ خیال آتاکہ میں مشکوٰۃ ہی کے طرز پر ایک ایسی کتاب تالیف کروں جس میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ والرضوان کے مسلک کے مطابق احادیث جمع کروں مگر میری تنگ   دامنی مجھے اس کام کے انجام دینے سے روک رہی تھی یہاں تک کہ میں نے خواب میں شمس الضحی وبدرالدجی ونورالہدی ومصباح الظلم ہمارے حبیب نبی کریم  ﷺ کو جلوہ گردیکھا اور سلام فرمایا تومیں نے  بھی سلام عرض کیا تو آپ  ﷺ روحی فداہ نے مجھے اپنے اس سینے سے چمٹایا جو علم وحکمتوں کا منبع ہے مجھے کوگلے لگایا جب میں نیند سے شاداں وفرحاں بیدارہوا تواس نعمت پر میں اللہ کی حمد بجالایااوراس کا شکر ادا کیا یہ مبارک 
خواب میر ے سینے کے انشراح کا سبب بن گیا جس کی برکت سے اس کی تنگی کشادگی سے تبدیل ہوگئی، اورمیںنے اس کی تالیف کا پختہ ارادہ کرلیا اور اس کے لئے اپنی کمرکس لی اور اس کتاب میں جو بھی حدیث لکھا ہر حدیث کے تحریر کے وقت حضور نبی کریم ﷺ پر درودشریف پڑھا اور میں نے اس کا نام ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ رکھا ۔

زجاجۃ المصابیح کی پانچوں جلدیں جو تقریباً ڈھائی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں، اس کی تکمیل ۱۹۵۱؁ء میں ہوئی ، عدم سرمایہ کی وجہ سے اس کی طباعت تین سال کے بعد ہوئی اس وقت آصفی سلطنت باقی تھی، حضرت محدث دکنؒ کی متو کلانہ طبیعت کسی عہد یدار سے اس کتاب کی اشاعت کے لئے سرمایہ طلب کرنے پر راضی نہیں تھی بفحوائے۔
مردے از غیب بروں آید و کارے بکند
(غیب سے کوئی شخص نمودار ہوگا اور کام انجام دے گا
حضرت کے ایک مرید جناب عبدالرزاق صاحب گتہ دار بیڑ (مہارشٹرا) حسب معمول ذکرالہی میں تھے، مکاشفہ میں انہوںنے دیکھا کہ پیرومرشد قدس سرہٗ نور کے ایک ہال میں گھرے ہوئے ہیں لیکن اس نور کو پھیلنے کا راستہ نہیں ہے وہ بہت حیران ہوئے کہ کیا ماجرا ہے، انہوںنے اپنے اس وارد کو حضرت علیہ الرحمہ کے ایک شاگرد جناب حکیم محمد صابر صاحب لکچرر عربی اور نگ آباد کالج سے ذکرکیا انہوں نے بتایا حاجی صاحب آپ کا مکاشفہ بالکل صحیح ہے حضرت پیر و مرشد نے تاجدارمدینہ سرورقلب وسینہ ﷺکے نورانی ارشادات یعنی احادیث شریفہ پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تالیف فرمائی ہے۔ جو سراسر نورہی نور ہیں اورراستہ یو ں بند ہے کہ حضرت کے پاس اس کی اشاعت کے لئے کوئی سرمایہ نہیں ہے تم راستہ نکالو اور ثواب دارین حاصل کرو۔ چنانچہ موصوف نے تخمینہ مصارف کے بعد آٹھ ہزار روپئے کی خطیر رقم حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں روانہ فرمائی اور طباعت کا کام شروع ہوگیا اور ۱۹۵۳؁ء سے ۱۹۶۰؁ء تک زجاجۃ المصابیح کی پانچوں جلدیں زیور طباعت سے آراستہ ہوگئیں اور اس کتاب کا دوسرا ایڈ یشن کوئٹہ (پاکستان ) سے ۱۹۹۱؁ء میں شائع ہوا ۔(۵)
مولانا عبد الحکیم شرف قادری شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، پاکستان نے فرمایا:
’’ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کتاب کو دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا جائے اور اس کی زیادہ اشاعت کی جائے خوشی کی بات یہ ہے کہ فرید بک اسٹال لاہور کی طرف سے یہ کتاب متن اور ترجمہ کے ساتھ شائع کی جاری ہے اس کتاب کی اشاعت سے اہلِ علم قارئین کوپتہ چلے گا کہ فقہ حنفی کس قدر مضبوط دلائل کی بنیاد پر استوارہے‘‘ ۔
الغرض آپ کی یہ تصنیف ایسی زبردست عظمت وشہرت کی مالک ہے کہ جس کی وجہ تا دور شمس و قمر آپ کو فراموش 
نہیں کیا جاسکے گا۔ آپ کی حیات پر ہمیشہ حیات رسول اور سیرت صحابہ کا پرتو رہا ۔ آپ کے ہر فعل میں سنت طیبہ کی اتباع پائی جاتی تھی اور ساری زندگی شریعت حقہ کی عملی تفسیر تھی ۔حضرت ابو الحسنات نے علم وعمل اور دین حق کی ترویج واشاعت میں اپنی عمر کے ۹۲ سال بسرکئے اور آنے والوں کیلئے نقوش چھوڑے ،اس کو کرامت کے سوا اور کیا عنوان دیا جاسکتا ہے کہ دم آخر جب کہ آپ کی نبض ڈوب چکی ہے لیکن قلب کی حرکت جاری وساری تھی۔ ۱۸؍ ربیع الثانی ۱۳۸۴ ہجری مطابق ۲؍ اگست ۱۹۶۴ء آپ نے اس دار فانی کو چھوڑاا ور رفیق اعلی سے جاملے ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post