Hazrat Allama Sayed Ibrahee, Adeeb Razvi

حضرت علامہ سید ابراہیم ادیبؔ رضویؒ

آپ حضرت سید عباس رضوی کے فرزند اول ہیں۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے جو سید ابراہیم رضوی بن سید عباس بن سید ابراہیم بن سید حیدر بن سید عباس بن سید عبدالقادر المعروف بہ قادر پاشاہ بن سید محمد بن سید ابو الحسن نجفی (نزیل حیدرآباد) سے سید امام رضا علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت 1295ھ میں بمقام موضع میسرم تعلقہ ابراہیم پٹنم (حیدرآباد دکن ) ہوئی۔ 
ابتدائی تعلیم والد کے پاس آبائی مقام میسرم ہوئی۔ آپ کے والد بھی صاحب علم و فضل اور مدرسہ نظم جمعیت میں استاد تھے۔ ولادت سے تین سال قبل 1292ھ میں جامعہ نظامیہ کی شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ شاہ صاحب فضیلت جنگ کے ہاتھوں تاسیس ہوچکی تھی۔ والدین نے حصول علم میں اس ہونہار کے ذوق و شوق کو دیکھ کر جنوبی ہند کی عظیم درس گاہ میں داخل کرادیا۔ اس وقت نظامیہ ملک کے جید علما ء کا مرکز تھا۔ اس کے علاوہ شاہانہ سرپرستی کی وجہ سے ہند وبیرون ہند سے علم و فن کی عظیم شخصیتیں حیدرآباد کھنچی چلی آئی تھیں۔

آپ کے اساتذہ میں مولانا عبد الکریم افغانی، شیخ محمد یعقوب، مولانا مفتی محمد رکن الدین، مولانا عبد الرحمن سہارنپوری اور علامہ آغا شوستری جیسی نامور، شخصیتیں شامل ہیں، مولانا عبد الرحمن سہارنپوری محدثؒ سے 1321ھ میں صحاح ستہ کی سندلی ۔ اس وقت آپ کی عمر صرف 26 سال تھی۔
عربی ادب میں آغا شوستری کے شاگرد تھے، جن کا قیام کوہ مولا علی میں تھا۔ استاد کو ایسے جوہر قابل کے استاد ہونے پر فخر تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ ’’لیت لی ولدامثلہ ‘‘ استاد کے یہ الفاظ رسمی سند سے کہیں گراں قدر ہیں۔ حصول علم کے ذوق میں آپ اپنے مقام میسرم سے استاد کی جائے قیام کوہ مولا علی تک کا طویل فاصلہ پیدل طے کرتے تھے۔
جامعہ عثمانیہ میں شعبہ عربی کے اساتذہ کے تقرر کیلئے انٹرویو مقرر کیا گیا تھا، اس انٹرویو کے صدر پروفیسر المالطیفی تھے جو 8زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ جب مولانا کی باری آئی تو پروفیسر نے ان سے کہا کہ میز پر رکھے ہوئے اردو اخبار کا عربی میں ترجمہ کیجئے۔ اس پر مولانا نے دریافت کیا کہ ترجمہ نثر میں کیا جائے یا نظم میں؟ اور پھر مختصر سے وقت میں منظوم ترجمہ کردیا۔ 
ترجمہ دیکھ کر پروفیسر لطیفی اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ بیشک آپ ادیب اور شاعر ہیں۔
مولاناکی ادبی مہارت کا اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ حرم شریف کے قیام کے دوران مکہ معظمہ کے ادیب محمد امین الکتبی نے آپ سے آپ کے قصیدہ لامیۃ الدکن کی سندلی۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگولیتھ نے جب جامعہ عثمانیہ کا دورہ کیا تو شعبہ عربی میں آپ سے ملاقات ہوئی کچھ علمی مباحثہ ہوا جس کے بعد پروفیسر نے آپ کی غیر معمولی وسعت علمی اور عربی ادب میں مہارت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے ہندوستان بھر میں عربی ادب کا ایسا ماہر نہیں پایا‘‘۔
عرب ممالک سے مراسلت کی ذمہ داری بانی جامعہ نظامیہ نے آپ ہی کے سپرد کی تھی۔ عربی زبان کے بلند مرتبہ شاعر تھے۔ طبیعت فطرتاً موزوں تھی۔ فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ آپ کے قصائد شعرائے قدیم کے طرز میں یعنی قصیدہ کی ابتداء تشبیب سے ہوتی ہے۔

آپ نے اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت حضـرت جمال الدین شاہ حسنی الحسینی القادریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ نے 1950ء میں حرمین شریفین کا قصد فرمایا اور حج و زیارت سے مشرف ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کے شیوخ و صلحاء کی صحبتوں سے مستفید ہوئے۔
دبلے پتلے، قد و قامت متوسط، رنگ سانولہ، آنکھیں بڑی اور روشن، داڑھی نہ گھنی نہ چھدری۔ سرپر سبز رنگ کا بڑا عمامہ اور سادہ لباس پر طویل جبہ۔ آخری ایام میں پاجامہ کی بجائے تہمدباندھنے لگے تھے۔
82 سال کی عمر میں 2؍شوال المکرم 1377ھ مطابق 22؍ اپریل 1958ء بروز سہ شنبہ رات کے 8 بجے عالم جاودانی کی طرف کوچ فرمایا۔ اس وقت آپ بمقام سید علی چبوترہ اپنے سمدھی مولانا حکیم محمد حسین صاحبؒ کے مکان میں قیام فرما تھے۔ دوسرے دن نماز جنازہ مسجد چوک میں پڑھائی گئی حضرت مولانا سید محمد پاشاہ حسینیؒ نے امامت فرمائی۔ علماء و صلحاء و تلامذہ و متوسلین کی کثیر تعداد شریک تھی۔ تدفین قادری باغ عنبر پیٹ میں پیر و مرشد کے پائین میں بائیں جانب ہوئی۔ طاب اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ۔ لوح مزا پر تاریخ وفات فی روضۃ یحبرون کندہ ہے۔ مولانا ڈاکٹر محمد عارف الدین فاروقی نے ان المتقین فی جنت وعیون سے استخراج کیا ہے۔آپ کے 6 صاحب زادے اور3 صاحب زادیاں تھیں۔


مختلف موضوعات پر بہت سی تصانیف عربی اور اردو میں یادگار چھوڑی ہیں جن کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱) تفسیر سورۃ والتین و سورۃ قریش۔ ۲) معالم النور (تصوف۔ جس میں عوالم کی حقیقیت بیان کی گئی ہے) ۔ ۳)شرح لامیۃ العرب للشنفری (عربی ادب)۔ ۴) شرح شواہدفی الاتقان (تفسیر)۔ ۵)الملخص من شرح الشواہد (تفسیر)۔  ۶) حاشیہ و تعریب علی کتاب الفائق (لغت)۔  ۷) قصیدہ لامیۃ الدکن ۔  ۸) قصیدہ دالیہ۔  ۹)
مطلق الوجود۔  ۱۰) رسالت و نبوت۔  ۱۱)مطالع النور۔  ۱۲)کلمہ توحید ۔ ۱۳)  28 حروف 28 اسماء ۔ ۱۴)حاضرات متعارفہ۔ ۱۵) شرح شرح مأۃ عامل ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post