Hazrat Mufti Sayyed Shah Ahmad ali Sufi Qaudri

حضرت مفتی سید شاہ احمد علی صوفی قادریؒ

خانوادہ غوث اعظم کے معروف ولی کامل یعنی حضرت صوفی اعظم قطب دکن قدس سرہ (مزار اقدس واقع بیرون دریچہ بواہیر) کے گھر تصوف کدہ کبوتر خانہ قدیم میں فرزند اکبر کی حیثیت سے ۱۰/ رمضان المبارک ۱۳۱۲ھ کو بروز چہارشنبہ بعد ظہر آپ نے آنکھ کھولی، مادہ تاریخ ولادت ’’چراغ حق (۱۳۱۲ھ) ‘‘ ہے، آپ کا اسم گرامی سید شاہ احمد علی صوفی قادری، کنیت ابو الخیر اور تخلص صفیؔ تھا، والد ماجد کی جانب سے آپ کا سلسلہ نسب ۲۲ واسطوں سے حضور سیدنا غوث اعظم پیران پیرؓ سے جا ملتا ہے، فارسی، عربی نحو و صرف نیز تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، منطق، فلسفہ اور کلام اور تاریخ وغیرہ اور سلوک کی تکمیل و نیز تصوف کی تعلیم حقائق و معارف کی تحصیل اپنے پدر بزرگوار حضرت ابو العابد سید شاہ اعظم علی صوفی اعظم قطب دکن قدس سرہ سے کی، علاوہ ازیں اس وقت کے ماہر اساتذہ دکن سے و نیز (۱۳۲۳ھ) میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ سفر و دو سالہ قیام حرمین شریفین کے دوران اکابر علماء و مشائخ حرمین شریفین خصوصاً شیخ عبد اللہ المنصوریؒ مفتی مکہ، شیخ الخطباء احمد مکیؒ، شیخ عودہ نابلسیؒ، شیخ سعید القعقاعیؒ اور شیخ العرب سید احمد برزنجیؒ سے جملہ ظاہری و باطنی علوم کی تحصیل میں خوب استفادہ کیا۔
۱۳۲۵ھ میں دکن واپس ہوئے تو حضرت بحر العلوم بیدل سہارنپوریؒ کی زیر نگرانی فن فقہ میں تحقیق کے ساتھ جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل ہوئے تو سند فضیلت و نیز بانی جامعہ نظامیہ حضرت حافظ انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگؒ سے فیض صحبت حاصل کیا جو اپنے مخصوص حلقہ تصوف کے درس میں حضرت سید الصوفیہؒ کو اپنی سیدھی جانب بٹھاتے اور شیخ اکبر محی الدین ابن عربی  ؒ کی تصوف پر معرکہ آرا کتاب ’’فتوحات مکیہ‘‘ کا متن آپ سے پڑھواتے اور خود فضیلت جنگؒ 
اس کے اسرار و نکات کی عرفانہ تشریح فرمایا کرتے تھے۔

آپ کے والد ماجد و مرشد ارشد حضرت صوفی اعظم قطب دکنؒ نے جمیع سلاسل طریقت قادریہ مخرمیہ، قادریہ نسبیہ، چشتیہ، سہروردیہ، نقشبندیہ، مجددیہ ، شاذلیہ اور اویسیہ وغیرہ میں آپ کو خلافت و اجازت سے سرفراز فرمانے کے بعد ۱۳۳۳ھ میں رشد و ہدایت کی مسند پر اپنا جانشین نامزد فرمایا، اور آپ کے تبحر علمی کمال زہد و تقوی کے باعث خود آپ کے پدر بزرگوار نے کئی طالبان حق کو رشد و ہدایت اور تکمیل سلوک کے لئے اپنے فرزند اکبر و جانشین یعنی حضرت سید الصوفیہؒ سے رجوع کیا۔
آپ ایک فصیح و بلیغ خطیب و واعظ، بلند پایہ ادیب، تاریخ گو شاعر اور بالغ نظر مصنف و مولف و نیز فن خوش خطی کے ماہر تھے جو آپ کو خاندانی طور پر ورثہ میں ملا تھا، عشق رسول  ﷺ میں سرشاری اتباع شریعت، پیروی سنت حق گوئی و بے باکی آپ کی سرشت میں تھی، دین و دنیا کیاس قدر نعمتوں سے مالا مال ہوکر بھی آپ ہمیشہ بوریائے فقیر و درویشی پر قانع رہے حسب و نسب یا علم وکمال پربے جا غرور،نام و نمود اور خود ستائی و تعلی کو آپ نے کبھی پسند نہ فرمایا، سلف صالحین کا نمونہ تھے، آپ کا معمول تھا کہ ہر روز نماز تہجد کی ادائی کے بعد ذکر و شغل میں مصروف رہتے اور نماز اشراق سے فارغ ہوکر درس و تدریس میں مشغول ہوجاتے۔

بحیثیت مفتی، مصنف، مترجم و شاعر

افتاء میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا، دار الافتاء واقع تصوف منزل ہائیکورٹ کے آپ بانی مبانی تھے جس کے مفتی کی حیثیت سے سینکڑوں فتوے صادر کرتے ہوئے آخر وقت تک دین و ملت کی خدمت فرماتے رہے۔
آپ ہی کی بناء کردہ صدر مجلس صفہ صوفیہ کے تحت آپ نے ایک دار التصنیف صوفیہ قائم کیا اور اپنے وصال تک کوئی (۲۱۴) کتاب و رسائل شائع فرمائے۔ جس میں حضرت صوفی اعظم قطب دکن کا عرفانی کلام بزبان اردو ’’خلاصہ حقیقت‘‘ کے تاریخی نام سے ۱۳۴۴ھ میں طبع کروایا، حضرت سید الصوفیہؒ کی سہ لسانی (عربی، اردو، فارسی) تصنیفات میں تفسیر صو فی، مثانی الصوفی علی مثنوی الرومی، مقدمۃ العلم، فتاوی صوفیہ، تحفۃ الصوفیہ، قرۃ العین فی سیرۃ الحسین، کنز المعروف بہ اربعین، طعام ولیمہ، المرشد القاری، شرح الصحیح البخاری، الفوائد الصوفیہ، شرح عقائد الصوفیہ، اوصول الہدایہ، اعظم التواریخ، کشف النقاب عن حکم الحجاب، احکام لیلۃ البرأت، تاویلات صوفیہ، مخزن اسرار صوفیہ، ترجمہ مفتاح الحقائق، سیرت حضرت یوسفینؒ، سوانح بابا، احوال حضرت حسین شاہ لی  ؒ، مطیب الانفاس فی سیرۃ العباس، العشرۃ المبشرہ وغیرہ کے علاوہ دکن کے متعدد اولیاء اللہ کے حالات و سوانح شامل ہیں جو بے حد مقبول عام ہوئے، جن کے منجملہ اکثر 
تصانیف اسی دار التصنیف صوفیہ سے طبع ہوئیں۔
کوئی پچیس سال تک صحافت میں بھی آپ کی خدمات ناقابل فراموش رہیں، چنانچہ دینی ماہناموں ’’خواتین‘‘اور ’’رسالہ صوفی اعظم‘‘ کے آپ بانی مالک اور مدیر اعلی تھے، ’’رسالہ صوفی اعظم‘‘ کا پہلا شمارہ حضرت صوفی اعظم قطب دکنؒ کی زیر پرستی یوں تو ۱۳۴۳ھ میں ہی منظر عام پر آیا اورجب حضرت صوفی اعظم قطب دکنؒ کا بتاریخ ۲۵/ رجب ۱۳۴۸ھ وصال ہوا (تو بحیثیت فرزند اکبر و جانشین آپ ہی نے پیٹلہ برج کے وسیع میدان میں حضرت صوفی اعظم قطب دکنؒ کی نماز جنازہ ہزاروں علماء و مشائخ اور مریدین و معتقدین کی موجودگی میں پڑھائی) اور باضابطہ ایک رجسٹرڈ رسالہ کی حیثیت سے بہ پابندی شائع ہونے لگا اور جس کی اشاعت کا سلسلہ حضرت سید الصوفیہؒ کے وصال (ربیع الاول ۱۳۶۸ھ) تک یعنی قریب پچیس سال تک بلا وقفہ جاری رہا، اس رسالہ کو ریاست حیدرآباد دکن کے چودہ اضلاع کے علاوہ شمالی ہند میں بھی بڑی مقبولیت حاصل رہی، (۵۴) سال کے وقفہ کے بعد وہی رسالہ صوفی اعظم الحمدللہ اب نئی آب و تاب کے ساتھ جدید رجسٹریشن کے بعد پھر سے شائع ہو رہا ہے۔



آپ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے چنانچہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں میں محامد، نعوت اور مناقب اور بطور فن تاریخ گوئی کے اعلی نمونوں پر مشتمل آپ کا گراں مایہ منتشر کلام ترتیب و تدوین اور طباعت کے مراحل میں ہے انشاء اللہ بہت جلد شائع ہوجائے گا، اردو اور فارسی کلام میں صفیؔ یا صوفی صفیؔ اور عربی میں صوفیؔ تخلص فرماتے تھے، امام عالی مقام سید الشہدا، سیدنا امام حسینؓ کے حضور بزبان عربی آپ کا عرض کردہ ایک سلام۔
سید الشھداء سلام علیک
سبط خیر الوری سلام علیک
کافی مقبول و مشہور ہے۔

بحیثیت خطیب و واعظ

حضرت صوفی اعظم قطب دکنؒ کے فرزند اکبر و سجادہ نشین کی حیثیت سے ارنگ زیب کی معطیہ معاش و خاندانی سجادگی او رصدر خطابت پرگنہ نرکھوڑہ آپ کے نام ہی جاری ہوئی جس کا سلسلہ پشت در پشت آپ ہی کی اولاد میں آج تک جاری ہے، ہر ماہ ہلالی ۲۵/تاریخ کو بہ پابندی مجلس وعظ و حلقہ ذکر جہری، ماہ محرم کی عظیم مجلس شہادت، ماہ ربیع الاول میں بارہ روزہ محافل میلاد النبی  ﷺ، ربیع الآخر میں گیارہ روزہ مجلس غوثیہ و نیز شب معراج، شب برات وشب قدر کے مواقع پر مکہ مسجد اور تصوف منزل نزد ہائی اسکول میں منعقدہ محافل میں نیز شہر کے دیگر مقامات و مختلف اضلاع دکن و 
یاست ہائے بیرونی میں بحیثیت واعظ و خطیب آپ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، تا دم آخر سلطنت آصفیہ کے واعظ سرکار عالی اور معتمد مجلس واعظین دکن کے اعزازی عہدہ پر بھی فائز رہے، محلہ کی مسجد کمیلہ قدیم گھانسی بازار میں ہفتہ واری درس تفسیر کا بھی اہتمام فرماتے، آپ کے مواعظ میں شائقین دور دور سے آکر علمی نکات او رمعلومات سے نہ صرف محظوظ و فیضیاب ہوتے بلکہ اپنے اندر صالح انقلاب محسوس کرتے، دوران وعظ مثنوی مولانا روم کے اشعار مخصوص ترنم میں جب آپ سناتے تو ایک سماں بندھ جاتا، ۱۳۵۳ھ میں مدراس سیرت کمیٹی کے زیر اہتمام مدراس میں سمندر کے کنارے ایک عظیم الشان تاریخی جلسہ میلاد النبی  ﷺ زیر صدارت پرنس آف آرکاٹ سر غلام محمد علی خان منعقد ہوا تو اس جلسہ سے خطاب کرنے کے لئے حضـرت سید الصوفیہؒ کو خاص طور پر حیدرآباد سے مدعو کیا گیا تھا، آپ کا بصیرت افروز خطاب ختم ہوتے ہی طالباب حق کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ تقریباً ڈھائی ہزار نفوس نے آپ کے دست حق پرست پر بیعت کی اور علمائے مدراس نے آپ کی خدمت میں ’’افضل العلماء‘‘ کاا عزازی خطاب پیش کیا۔

بحیثیت سید الصوفیہ، محدث فی الدکن ، پیر کامل و شیخ الدلائل

۱۳۶۶ھ میں اپنے تیسرے حج کے موقع پر حرم کعبۃ اللہ میں آپ کے حلقہ درس حدیث و تصوف میں عرب کے علماء بھی شریک رہتے تھے جن میں علامہ سید محمود علی اسماعیل المرغنی المصری اسکالر جامعہ ازہر نے تصوف کے لطیف موضوعات پر کئی دن تک مسلسل حضرت سید الصوفیہؒ سے عربی زبان میں بحث کرنے کے بعد بالآخر آپ کی پیشانی کو چوم لیا اور حضرت سید الصوفیہؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے، اور خرقہ خلافت سے بھی نواز ے گئے، جس کے فوراً بعد آپ کی شان میں موصوف نے فی البدیہہ ایک عربی قصیدہ لکھ کر پیش کیا جو فصاحت و بلاغت اور قرآنی تلمیحات کا نایاب مرقع ہے، دوران سفر آپ کے ہمراہ بحری جہاز میں حیدرآباد کے ڈاکٹر حمید اللہؒ (مقیم پیرس)، ڈاکٹر ولی الدین وغیرہ بھی تھے، جن کے منجملہ عالمی شہرت یافتہ عالم و محقق ڈاکٹر حمید اللہ نے احرام باندھنے سے متعلق میقات کے مسئلہ پر بمقام یلملم و نیز دیگر مسائل مناسک حج پر آپ کے اختیار کردہ موقف سے متاثر ہوکر نہ صرف آپ کی قابلیت کا اعتراف کیا بلکہ آپ سے استفادہ بھی کیا، اس سفر کے دوران مختلف ممالک سے آئے ہوئے فضلاء عرب جب آپ کے تبحر علمی سے واقف و مستفید ہوئے تو آپ کو سید الصوفیہ اور محدث فی الدکن کے القاب سے یاد کرنے لگے۔
اپنے والد ماجد کے ساتھ آپ نے اپنے قیام مدینہ منورہ کے دوران ۱۳۲۴ھ میں شیخ الدلائل وقت محمد امین بن سید احمد رضوانؒ سے ’’دلائل الخرات‘‘ کی خصوصی اجازت حاصل فرمائی اور دکن میں خود ’’شیخ الدلائل‘‘ رہے کیونکہ آپ کی بارہویں پشت کے جد ممجد حضرت سید ابو الحسن فخر الدین امیر علی صوفی زاہد قادری قدس سرہ کو خود مصنف دلائل الخیرات 
حضرت شیخ عبد اللہ بن سلیمان جزولی قدس سرہ سے ملاقات کرنے اور بالمشافہ اجازت لینے کا شرف حاصل تھا اس طرحضرت سید الصوفیہ کو اپنے پدر بزرگوار سے دلائل الخیرات کی خاندانی اجازت بھی حاصل تھی، ۱۳۶۶ھ پھر اپنے تیسرے حج کے موقع پر شیخ الدلائل حضرت ابو الحسن سید احمد بن سید محمد مدنی سے بھی دلائل الخیرات کی اجازت کا باہم تبادلہ فرمایا اس طرح حضرت سید الصوفیہ جملہ تین طریقوں کے ذریعہ دلائل الخیرات کی اجازت رکھتے ہیں، شیخ الدلائل فی الدکن کی حثییت سے معروف تھے اور شائقین دلائل الخیرات و عاشقین مصطفی  ﷺ کو اجازت دیا کرتے تھے۔

آل و اولاد

حضرت سید الصوفیہؒ کا عقد بتاریخ ۲۴/ ربیع الثانی ۱۳۲۸ھ عارف باللہ حضرت الحاج سید شاہ یسین پاشاہ قادریؒ مشائخ ٹیکمال کی صاحبزادی سے انجام پایا، جن کا نسبی سلسلہ (۳۰) واسطوں سے حضور غوث اعظمؓ سے جا ملتا ہے۔
آپ کے جملہ چار صاحبزادوں (۱) حضرت ابو المحمود سید محمد علی صوفی سید پاشاہ قادریؒ (سید الصوفیہؒ کے حین حیات ۱۸ سال کی عمری میں فوت) (۲) حضرت ابو التسلیم رضا علی صوفی معز پادشاہ قادریؒ (۳) حضرت ابو الاعظم سید شاہ اعظم علی ثانی عرف مرشد پیر قادری مدظلہ العالی (۴) حضرت سید شاہ سجاد علی صوفی علی پادشاہ قادریؒ اور تین صاحبزادیوں میں سے فرزند سوم حضرت علامہ الحاج قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی دوم قادری قبلہ مدظلہ ہی خانوادہ صوفیہ کے منبع فیوض بن کر اپنے پدر بزرگوار کے قدم بہ قدم سچے جانشین کی حیثیت سے تصوف منزل قریب ہائیکورٹ سے اپنے خاندانی فیضان کو عام کر رہے ہیں اور دین و مسلک کی خاموش و بے لوث خدمت اپنی زبان و قلم کے ذریعے انجام دے رہے ہیں اور فی زمانہ علم و فضل بلکہ ہر جہت سے حضرت صوفی اعظم قطب دکنؒ کے خاندان کی سب سے زیادہ بزرگ و محترم شخصیت ہیں۔

وصال و تدفین

الغرض اقلیم شریعت و طریقت کا یہ تاجدار جس کے شب وروز عشق رسول  ﷺ میں ڈوبے ہوئے تھے ہزاروں تلامذہ اور بے شمار مریدین و طالبین کو عرفان و آگہی کی دولت بانٹنے کے بعد بتاریخ ۱۵/ ربیع المنور ۱۳۶۸ھ بروز شنبہ بوقت عشاء ذکر جہری کرتے ہوئے آخر کلمہ شہادت کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ چہرے سے سینے تک پھیرتے ہوئے واصل بحق ہوا ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ تاہم بوقت وصال حضرت سید الصوفیہؒ نے اپنے اٹھارہ سالہ فرزند اعظم قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظم دوم قادری کو اپنے سینے سے چمٹا کر سیبہ بہ سینہ منتقل ہو رہی خاندانی ، روحانی و ایمانی امانتوں کا امین بنادیا، پیٹلہ برج کے وسیع میدان پر علماء و مشائخین، قائدین و معززین اور مریدین و معتقدین کے مجمع کثیر میں نماز جنازہ 
آپ کے فرزند اعظم حضرت قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی اعظم دوم قادری مدظلہ نے پڑھائی اور دوسرے دن آپ کے آبائی مقبرہ دریچہ بواہیر میں آپ کے جس خاکی کو سپرد لحد کیا گیا، آپ کے ہجری مادہ تاریخ وصال کا استخراج علامہ قاضی صوفی اعظم قادری مدظلہ العالی نے کیا جو ایک قرآنی آیت ’’اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ   فِیْ جَنّٰتٍ  وَّ عُیُوْنٍ‘‘ (حجر-۴۵) سے بر آمد ہوتا ہے، (ترجمہ : بے شک پرہیز گار لوگ، باغوں اورچشموں میں ہیں) آپ نے اپنے ایک تاریخی فارسی شعر میں سید الصوفیہ ؒ کے سن ولادت عمر شریف اور سن رحلت کو اس طرح جمع کردیا ہے  ؎
’’چراغ حق‘‘ سن پیدائش و ’’اھل ھدی‘‘ عمرش
۲ ۱ ۳ ۱ ھ ۵ ۵
سن رحلت از ’’اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ   فِیْ جَنّٰتٍ  وَّ عُیُوْنٍ‘‘  آیت

کرامات

حیات مبارکہ کے علاوہ بعد وصال بھی آپ سے متعدد خوارق عادات کا ظہور ہوا خصوصیات بوقت دفن آپ قبر میں لٹادینے کے بعد آخری دیدار کے لئے جب آپ کے چہرہ مبارک سے کفن ہٹایا گیا تو وہاں موجود ہزاروں اصحاب نے مشاہدہ کیا کہ غسل اور تجہیز و تکفین کے وقت آپ کی دونوں آنکھیں جو بند تھیں وہ قبر میں پوری طرح کھل گئیں اور سب کے دیدار کر لینے کے بعد اپنے آپ آنکھیں پھر بند ہوگئیں۔

تلامذ ہ و معاصرین

آپ کے خرمن فیض سے مستفید ہونے والوں میں آپ کے صاحبزادگان کے علاوہ حضرت مولانا سید احمد عبد القادر حسینی  ؒ سجادہ نشین ٹیکمال، حضرت حسین شجاع الدین صدیقی عزتؔ فرزند و جانشین حضرت بحر العلوم محمد عبد القدیر صدیقی حسرتؔ، شیخ القرا حضرت شیخ سالم العمودیؒ، مولانا ابو العرفان شاہ وزیر الدین صوفی، مولانا حکیم مسیح الدین صوفی، ڈاکٹر تجمل علی خان، ڈاکٹر حمید اللہ اور محمد خیر الدین صاحب ایڈوکیٹ قابل ذکر ہیں، آپ کے ہم عصر علماء مشائخ میں قابل ذکر حضرت مولانا بحر العلوم محمد عبد القدیر صدیقی حسرتؔ، حضرت سید شاہ محمد پادشاہ حسینی قادریؒ، حضرت مولانا شیخن احمد شطاری کاملؒ، مولانا سید وحید پاشاہ قادری الموسویؒ، حضرت مولانا غوثی شاہؒ، حضرت مولانا سید یحییٰ پادشاہ قادریؒ، حضرت مولانا سید فرید پادشاہ قادریؒ، حضرت مولانا سید رشید پادشاہ قادریؒ، حضرت مولانا سید عبد اللہ شاہ قادری نقشبندیؒ، حضرت مولانا عبد الکریم بغدادیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین شیخ الجامعہ ، حضرت مولانا مفتی ابو الوفاء افغانی  ؒ شیخ الفقہ نظامیہ، حضرت مفتی مخدوم بیگؒ مفتی جامعہ نظامیہ، حضرت مولانا ابراھیم رشید خطیب مکہ مسجد اور مولانا حبیب عیدروس مدیحج 
وغیرہ ہیں۔ (ماخوذ از: جمع السلاسل تذکرہ صوفیہ، اعظمیات، مقد س ٹیکمال)

Post a Comment

Previous Post Next Post