apni aulad ko jahannam ka andhan banne se bachao

اپنی اولاد کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچاؤ!

محمد زبیر قادری
مدیردوماہی مسلک ممبئی


’’ڈیڈی آپ مشرک ہیں۔‘‘ میرے بیٹے نے کل مجھ سے کہا تو مَیں نے کہا ’’یہ کیا بکواس کررہے ہو تم؟‘‘ اُس نے کہا ’’آپ کھڑے ہوکر سلام پڑھتے ہو، کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ کرتے ہو، مدد کے لیے غیراللہ کو پکارتے ہو۔ یہ سب شرک ہے۔‘‘
’’بھائی! میری سمجھ میں نہیں آرہا، مَیں کیا کروں؟ میرا بیٹا ابھی کالج کے دوسرے سال میں ہے۔ مَیں نے کس قدر محنت و مشقت سے اس کی پرورش کی اور آج وہ مجھے ہی گمراہ و مشرک کہہ رہا ہے۔‘‘
اپنے ایک دوست کی دردناک بپتا سُن کر مَیں نے اس سے پوچھا کہ آپ کے معمولاتِ زندگی کیا ہیں؟ یعنی آپ کس طرح اپنی صبح و شام کرتے ہیں؟
اُس نے بتایا ’’مَیں صبح ۹؍ بجے گھر سے نکل کر دکان پر جاتا ہوں اور رات نو ، ساڑھے نو تک دُکان بند کرکے گھر  آتا ہوں۔ اس کے بعد کھانا کھاکر تھوڑا دیر ٹی وی دیکھ کر ۱۲؍ بجے تک سوجاتا ہوں۔‘‘
مَیں نے کہا ’’آپ کا بچہ آپ کے ہاتھ سے نکل گیا، اِس کے ذمے دار آپ خود ہی ہیں۔ وہ آج گمراہیت کے راستے پر چل پڑا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی بنیادیں مضبوط نہیں تھیں۔ ورنہ کیسے بھی حالات ہوتے، کوئی کتنا بھی بہکانے کی کوشش کرتا، وہ کسی کے گمراہ کن خیالات و عقائد کو ماننے سے پہلے آپ سے آکر ضرور پوچھتا کہ ڈیڈی! میرا فلاں دوست کہتا ہے کہ فاتحہ، سلام، قبر والوں سے مدد مانگنا وغیرہ شرک ہیں، اور تم لوگ مشرک ہو ۔ تو کیا یہ صحیح ہے؟…  آپ اطمینان سے سوچیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیا آپ نے بچپن سے ہی اسے ناظرہ قرآن کے علاوہ ضروری دینی تعلیمات سکھانے کی کوشش کی؟ مانا کہ آپ بھی دینی معلومات سے واقفیت نہیں رکھتے لیکن کیا آپ کبھی اسے لیکر اہلِ حق کے اجتماعات اور جلسوں 
میں شریک ہوئے؟ کبھی میلاد کی محفلوں میں گئے آپ؟ بارھویں شریف، گیارھویں شریف کے جلسے اور بزرگانِ دین کے عرس میں لے گئے اسے ۔ … ہاں ! لیکر ضرور گئے ہیں تو سنیما گھروں میں، شاپنگ مال میں، پکنک اسپاٹ پر۔ لیکن اللہ و رسول کی محفلوں میں لے جانے کے لیے آپ کو فرصت نہیں تھی، بچہ تو بگڑے گا ہی۔ آپ نے کبھی دیکھا کہ آپ کا بچہ کن دوستوں کی صحبت میںبیٹھتا ہے، کس قسم کی کتابیں پڑھتا ہے، کونسی سی ڈیز سنتا، دیکھتا ہے، دوستوں کے ساتھ کس قسم کی مجالس میں جاتا ہے… آپ نے کبھی صحیح العقیدہ اہلِ سُنّت و جماعت کا لٹریچر یا سی ڈی دی اُسے۔ … بھائی ! بُرا مت ماننا، میری باتیں آپ کو بڑی تلخ محسوس ہورہی ہوں گی لیکن کیا کروں معاملہ بہت ہی نازک ہے۔خیر ہم کوشش کریں گے کہ وہ راہِ راست پر آجائے، باقی ہدایت دینے والا اللہ ہے۔ … خدا کرے کہ آپ کا بچہ گستاخِ رسول نہ بن گیا ہو، ورنہ انجام بہت ہی بھیانک ُہوگا۔ …  یہ باطل فرقے مسلمانوں کے دل سے سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی محبت نکال دیتے ہیں۔ جس کے بعد اللہ کا بندہ… دیو کا اور شیطان کا بندہ بن جاتا ہے۔ پھر یہ رسول ﷺ کو اپنے جیسا بشر سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ  عقل کے اندھے قرآن کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن صاحبِ قرآن کی عظمت و اہمیت کے منکر ہیں۔ جب یہ رسول ﷺ کو نہیں مانتے …  رسول ﷺ کی نہیں مانتے، تو پھر کسی صحابی، امام یا ولی کی بات کیونکر مانیں گے۔ اللہ آپ کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین۔‘‘
یہ واقعہ کوئی نیا … یا انوکھا نہیں۔ یہ آج کے دور کا حسّاس ترین مسئلہ ہے۔ آج گھر گھر میں یہی حالات پائے جاتے ہیں … والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوکر ایک کامیاب زندگی گزارے۔ لیکن آپ سوچیں کہ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو اعلیٰ منصب اور دولت دیکر آپ کی اولاد سے ایمان ہی چھین لے۔ جس اولاد کے اچھے مستقبل کے لیے آپ نے زندگی بھر محنت مشقت کی، کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی پھول جیسی اولاد مرنے کے بعد قبر کے عذاب میں گرفتار ہو … جہنم کے آزار جھیلے۔
ہم اپنے بچوں کی دنیا سنوارنے کے لیے انھیں دنیاوی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں اور وہاں اُن کی آخرت برباد ہونے لگتی ہے۔ وہابیت، تبلیغی جماعت، مودودیت، خارجیت، قادیانیت، بہائیت، دہریت … سب ہی کے گماشتے سنہرے جال بچھائے تعلیمی اداروں میں سرگرم ہیں۔ نہیں نظر آتے تو وہ اہلِ حق اہلِ سُنّت و جماعت ہیں (موجودہ حالات دیکھ کر تو یونہی لگتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہمارا کچھ بھی 
کام نہیں ہورہا ہے) … 
لیکن جو ہوچکا، سو ہوچکا ۔ صرف رونا دھونا کرنے سے حالات میں سدھار آنے سے رہا۔ اس کے تدارک کے لیے، اپنی آنے والی نسلوں کو بدعقیدہ بننے سے بچانے کے لیے ہمیں مل جُل کر کوششیں کرنی پڑیں گی۔ یہاں چند نکات پیش کیے جارہے ہیں، اُمید ہے جن پر عمل پیرا ہوکر نوجوان نسل کی دنیا و آخرت برباد ہونے سے بچائی جا سکے گی۔ 
والدین کی ذمے داری: پرانی کہاوت ہے ’’کھلاؤٗ سونے کا نوالہ دیکھو سونے کی آنکھ سے‘‘۔ پہلے کے بزرگ اس مقولے کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کیا کرتے تھے۔ اس لیے ان کی اولاد صالح، نیک اور فرماں بردار ہوا کرتی تھی۔ …آج والدین، اولاد کے عیش و آرام کے لیےساری زندگی جدوجہد میں گزار دیتے ہیں، اس کے باوجود او لاد نافرمان نکلتی ہے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر شادی کے بعد علیحدہ گھر بسا لیتی ہے ،والدین کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ … اس کے لیے والدین ہی قصور وار ہیں کہ انہوں نے اولاد کو عیش و آرام تو دیا، لیکن اُن کی تربیت کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا، اُن پر نظر نہیں رکھی۔ اور ہر طرح کی آزادی دیکر گمراہ ہونے کا خود ہی موقع فراہم کیا۔ اس لیے سب سے اہم ذمے داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اولاد کی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کا بھرپور خیال رکھیں۔ ضرورت پڑنے پر سختی سے کام لیں۔ نماز کی عادت ڈلوائیں، بلکہ اپنے ساتھ مسجد میں لے جائیں، دینی محافل میں لے جائیں۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت بچوں کے دل میں پیدا کریں۔ سیرتِ رسول ، سیرتِ صحابہ و بزرگانِ دین کے واقعات کہانیوں کی طرح سُناکر اُن میں موجود دَرس کو سمجھائیں۔ گھر میں اسلامی ماحول بنائیں۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے غیر ارادی طور پر ماں باپ کی عادات کو تیزی کے ساتھ اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ اس لیے اچھی عادتوں کو اپنائیں۔ یہ نہ ہو کہ بچوں سے تو منع کریں کہ جھوٹ نہ بولو۔ اور خود جھوٹ بول کر منافقانہ روش کی عادت بچوں میں ڈالیں۔
وقت کا صحیح استعمال کریں (Time Management):  وقت کی اہمیت و افادیت پر جس قدر اسلام میں زور دیا گیا ہے، ایسا کسی مذہب میں نہیں ہے۔ اگر ہم پانچوں وقت کی نمازیں وقت پر ادا کرنے کی عادت اپنا لیں تو خودبخود وقت کی پابندی کے عادی ہوجائیں۔ ہم اپنا وقت فضول کاموں میں صرف نہ کریں۔ افسوس کہ آج ہم ٹی وی کے سامنے گھنٹوں وقت برباد کرتے ہیں لیکن نماز کے لیے ہمارے پاس فرصت نہیں ہوتی۔ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی وقت کی اہمیت 
سمجھائیں اور وقت کی پابندی کرنا سکھائیں۔ نمازوں کی پابندی کرائیں۔ کھیل کے لیے بھی وقت دیں لیکن نظم و ضبط کی پابندی کے ساتھ۔ وقت پر سونے اور جاگنے کا عادی بنائیں۔ ہمارے یہاں فضول ہی رات میں دیر تک ٹی وی دیکھنے میں وقت برباد کیا جاتا ہے، پھر صبح فجر گُل، اور تاخیر سے اُٹھ کر بھاگم بھاگ اسکول یا دفتر جانا۔ اس قبیح عادت پر کنٹرول کرنا اشد ضروری ہے۔ … نوجوان نسل کی بربادی میں موبائل فون بھی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ دن، دن بھر دوستوں سے فو ن پر فالتو باتیں، گیم کھیلنا، گانے سننا، میسیج کرنا وقت کی بربادی کے اسباب ہیں۔ … جدید دَور کا نیا فتنہ انٹرنیٹ جتنا مفید ہے، اس سےزیادہ مضر بھی ہے۔ نوجوان غلط قسم کی سائٹس پر جاکر مخرب اخلاق تصویریں یا فلمیں دیکھ کر یا چیٹنگ کرکے دنیا اور عاقبت برباد کرنے کے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔
اصلاحِ معاشرہ:  ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں وہ روز افزوں انحطاط پذیر ہے۔ اور اس کے برے اثرات سے بچنا ہر کس و ناکس کے لیے بہت مشکل ہے، تو لازمی بات ہے کہ بچے بھی معاشرے کے منفی اثرات سے ضرور متاثر ہوں گے۔ لیکن معاشرے کے بُرے اثرات سے بچوں کو محفوظ رکھنے کا طریقہ بچپن کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیج کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہاں سے وہ اچھی تعلیم و تربیت پاکر نکلی گے… آج تلخ حقیقت یہ ہے کہ اسکولوں میں بچے تعلیم تو حاصل کرتے ہیں لیکن ان کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں۔ بچے اپنے دیگر ساتھیوں سے غلط عادتیں اور باتیں سیکھ کر گھر آتے ہیں۔… بچوں کی اگر گھر پر ہی صحیح تربیت ہو، جیسے ایک فوجی کو میدانِ جنگ میں بھیجنے سے پہلے سخت تربیت سے گزارا جاتا ہے تاکہ وہ ہر طرح کے حالات کی سختیاں برداشت کرنے کا عادی ہوجائے۔ (شیعوں کے بچوں کو دیکھ لیں، وہ ہمیشہ سُنّیوں کے درمیان بلکہ ساتھ رہتے ہوئے بھی شیعہ ہی رہتے ہیں)  اسی طرح ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہیے۔ اور اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کے ضمن میں اسلام کی جو تعلیمات ہیں اس کا مقابلہ پوری دنیا میں کوئی مذہب یا ِازم نہیں کرسکتا۔ اسلام میں خدائے واحد کی عبادت کے ساتھ بندوں کی عمدہ تربیت کے نسخے بھی بتائے گئے ہیں جو ہمارے ہی لیے سود مند ہیں۔ شرط ہے عمل کرنے کی۔
علما کی ذمے داری:  علماے کرام، انبیا کے وارث ہوتے ہیں۔ وہ قوم کے امام ہوتے ہیں۔ لہٰذا زمانے کے سرد و گرم، اچھے بُرے پر نظر رکھنا اُن پر لازم ہے۔ معاشرے کی اصلاح بھی عقائد کی اصلاح 
کی طرح نہایت ضروری ہے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ بندہ نیاز فاتحہ کرے، بزرگوں سے عقیدت رکھے لیکن ساتھ میں چرس، شراب وغیرہ نشے کا عادی ہو، جوے کی لت رکھتا ہو، ناجائز کاروبار کرتا ہو… آج حالات یہ ہیں کہ نوجوان نسل کو غسل کا صحیح طریقہ نہیں معلوم، وضو اور نماز صحیح  ادا کرنا نہیں آتا۔ … علما کو چاہیے کہ جہاں وہ اپنی تقریروں میں عشقِ رسولﷺ، اولیا کرام  کی محبت، ردِّ بدمذہباں بیان کرتے ہیں، وہیں نوجوان نسل کی تربیت و اصلاح کا خیال کرتے ہوئے بنیادی ضروری دینی معلومات بھی فراہم کرتے رہیں۔ حرام و حلال کی پہچان کرائیں۔ غلط صحیح میں امتیاز سکھائیں۔ کیوں کہ آج المیہ یہ ہے کہ نئی نسل کی رسائی موبائل فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ تک ہوگئی ہے جہاں کی غلط اور گمراہ کن باتوں سے متاثر ہوکر وہ غلط راستے کے راہی بن جاتے ہیں۔ علماے کرام حالاتِ حاضرہ کی روشنی میں لوگوں، خصوصاً نسلِ نو کی ہدایت کا سامان کریں۔
ہمیں من حیث الجماعت اپنے اندر کی خامیوں اور کمیوں پر نظر رکھتے ہوئے غور کرنا چاہیے کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ آج کالج جانا والا بچہ ایک ٹائی پہننے والے ڈاکٹر سے اسلام کی گمراہ کن باتیں جلدی سیکھ لیتا ہے، لیکن چودہ سو سالوں سے جاری و ساری مسلکِ  حق اہلِ سُنّت و جماعت کے علما کے پاس نہیں آتا۔ بارہا یہ سننے میں آتا ہے کہ کوئی نوجوان، جب بدمذہبوں کے بہکائے سے گمراہ کُن سوالات کے جواب کے لیے علما کے پاس جاتا ہے تو وہاں اسے تسلّی بخش جوابات نہیں ملتے۔ جس سے وہ اُنھیں ہی غلط سمجھ کر غلط لوگوں کے کارواں میں شامل ہوجاتا ہے۔ 
ضروری ہے کہ دینی خدمات انجام دینے والے علما و مبلغین آج کے حالات کو سمجھیں، ضروریات کو سمجھیں اور اس کے مطابق کام کریں۔ ان شاء اللہ کامیابی ضرور ملے گی۔ لیکن استقلال سے مستقل کام ہو، تو ہی خوش گوار نتائج پیدا ہوں گے۔ 

٭٭٭٭٭

Post a Comment

Previous Post Next Post