Hazrat Allama Nazar Mohammed Khan

حضرت علامہ نذر محمد خان قدس سرہ العزیز

آپ کی ولادت باسعادت جنوری۱۸۳۱؁ء مطابق ۱۳۵۵؁ھ قلعہ قلائی شہر غزنی میں ہوئی سلسلہء پدری نسبت قریش تابک ہے آپ کے دسویں دادا میر حسن بابا قدس سرہ العزیز ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کے دور کے ایک اہل اللہ اور صاحب کمال اولیاء میں شمار ہوتے ہیں اور مادری سلسلہ نسبت بھی کئی واسطوں سے چلتا ہوا غزنی کے مشہور خاندان خلجی سے ملتا ہے جو حضرت مولانا جہاں دار شاہؒ تک پہنچتا ہے۔
بچپن میں غزنی کے مجتہد العصر علماء سے استفادہ فرمایا۔ حصولِ علم کی طلب صادق لے کر کوہِ سلیمان کی دشوار گذار گھاٹیوں کو عبور کردیا۔ درہ خیبر کوہِ سلیمان میں اس دور کے اہل اللہ قطب وقت مردِ خدا اخوند صاحبؒ سے نذرؔ نے نیاز حاصل کیا اور دولتِ ظاہری و باطنی سے سرشار ہوئے بحسب ارشاد اولاً پشاور پہنچے اور وہاں کے شہرہ آفاق مدرسہ عربیہ میں داخلہ لیا لیکن ۱۸۵۷ء کے انقلاب نے انہیں ہجرت پر مجبور کردیا جہاں سے روانہ ہو کر مدرسہء عربیہ جامعہ ملّیہ دہلی میں شرکت فرمائی۔ علوم ظاہری کے یگانہ روزگار علماء سے استفادہ فرمایا۔ علم کی بڑھتی ہوئی تشنگی نے دیوبند، گجرات، اور بمبیٔ پہنچایا۔ اور مختلف درسگاہوں سے اپنی تشنگی بجھاتے ہوئے حضرت قدرت اللہ بخاری کا شغریؒ کے ہمراہ حیدرآباد دکن کے جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا۔ علامہ مولانا انواراللہ خان بہادر المعروف بہ فضیلت جنگ بہادر، بانی جامعہ نظامیہ نے دیکھا کہ حضرت نذر محمدؒ و قدرت اللہ ؒ کے حالات ظاہر وباطن دیگر طلباء سے عجیب وغریب ہیں اسلئے بطور خاص خوردونوش کا انتظام فرمایا۔ پھر اپنے مرشد قدرت اللہ بخاریؒ کے ہمراہ حج بیت اللہ وزیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہوئے۔  فراغت حج بیت اللہ وزیارت کے بعد حضرت بخاریؒ اپنے مرید وساتھی مولوی نذر الحق نذر محمد کو حیدرآباد جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہیں تمہاری شادی اور اولاد ہوگی او ر تم سے ہزارہا تشنگانِ علم ظاہری وباطنی سے مشرّف ہوں گے۔ اس کے بعد حضرت بخاریؒ خودواصل ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک جنت البقیع میں ہے۔ حضرت ممدوح دربار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سیراب ہو کر بحکم دوبارہ حیدرآباد دکن تشریف لائے۔ اسکے بعد حضرت مسکین شاہؒ سے فیض روحانی اورسلسلہ نقشبندیہ حضرت جمال الدین دامانیؒ اور سلسلہ چشتیہ میں حضرت سید شاہ جمال الحق فناؒ۔ اس کے بعد حضرت مکرم نے اپنے شیوخ طریقت کے حسب الحکم شہر گلبرگہ میں اپنی اسلامی خدمات کا آغاز فرمایا اور سال ۱۳۲۱؁ھ میں اسلامیہ مدرسہ ہفت گنبد میں قائم فرمایا۔ اور تشنگانِ علم کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حضرت خواجہء دکن سیّدنا گیسودرازؒ کے منشائِ ومقصد اطہر کے مطابق حضرت خواجہء دکنؒ کے فرزند اکبر حضرت سید شاہ اکبر حسینیؒ کے قائم کردہ مدرسہ کی گویا 
تجدید فرمائی۔ بے شمار طلبا استفادہ کرتے رہے اور سا ل بہ سال دستار فضیلت سے سر فراز ہوتے رہے پھر وظیفہ کے بعد بھی یہ سلسلہ ء درس وتدریس آخری وقت تک جاری رہا۔

اخلاق وعادات

پیرانِ طریقت کی تربیت وفیضان سے آپ نے ان جوہر علیہ کو اخلاقی حیثیت سے نکھارا جس سے آپکے اوصاف حمیدہ واخلاق منوّرہ علمی وعملی میدان میں مختلف طریقوں سے ظاہر ہوتے رہے جو زندگی میں تکلّفات اور نام نمود پائے ناپسند فرماتے البتہ صفائی پاکیزگی سلیقہ آپ کی روز مرّہ زندگی کے ضروری اجزا تھے متعلقین کے علاوہ عزیز واقارب سے بھی ہمدردی فرماتے۔ ان کے آڑے وقت مدد کرتے جو کبھی قرضہ حسنہ کی شکل میں ہوتی اور کبھی قیمتی نصائح اور نیک مشورہ سے کبھی عطایا کے طور پر آپکے حُسنِ سلوک اور امداد کی کسی کو خبر نہ ہوتی۔ مریدین کو سلوک طے کرنے کی رغبت دلاتے۔ جس میں جیسی صلاحیت ہوتی اسی انداز میں تعلیم فرماتے۔ ظاہری تعلیم کابھی یہی حال تھا۔ غرض خداداد قابلیت کے حامل تھے۔ اگر مریدوں میں دنیوی معاملات میں اختلاف ہوتا تو افہام وتفہیم کے ذریعہ نہایت عمدگی سے صلح کرادیتے۔

عشق محمّدیؐ

حضرت ممدوح کو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعقیدت انتہائی عشق کے حد تک تھی اور فرماتے کہ ’’خوفِ خدا کے بجائے اس سے محبت سیکھنا چاہئے۔ محبت خدا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی ہستی سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اسلئے کوئی کام ایسا نہ کرنا چاہئے کہ اس محبوب ترین ہستی کی ناراضی کا سبب ہو‘‘۔ اور ارشاد فرماتے کہ’’ رسولؐ کی محبت ایمان ہے۔ اھلِ بیت اطہار جزوِ رسولؐ ہیں۔اُن سے محبت، جزوِ ایمان ہے۔ اور اصحابِ رسولؐ سے محبت، لوازمہء ایمان ہے‘‘۔ اور عشقِ رسولؐ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ تھی : 
بجز حبّ محمدؐ کامل ایماں ہو نہیں سکتا
خدا کا چاہنے والا مسلماں ہونہیں سکتا
آپ کی ذات میں جوش وتڑپ ، گریہ وزاری اور سوز وگداز بھی شامل تھا اور رسولؐ کی غلامی پر ناز تھا۔ سرکار دوعالمﷺ کا ذکرِ مبارک فرماتے تو ایک خاص کیفیت سے سرشار ہوجاتے تھے ۔ جب حدیث شریف پڑھاتے تو سرکارؐ کے تصوّر میں مستغرق ہوجایا کرتے۔ اور حضرت ﷺ سے والہانہ اور بے پناہ عقیدت کے متعدد واقعات بیان فرماتے۔ اس وقت آپ کا چہرئہ مبارک عشقِ رسولؐ کی وجہ سے دمکنے لگتا اور بے تاب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ آپ کے چشم مبارک سے آنسو جاری ہوتے اور بیٹھنے والوں پر رقّت طاری ہوجاتی۔ جس سے دیکھنے والوں کا ایمان تازہ ہوجاتا 
تھا۔ بے شک اگر انسان کے دل میں ایمان کی ذرّہ برابر بھی چنگاری ہوگی تو ایسے ایمان والوں کو دیکھ کر ایمان کی روشنی سے دل منوّر ہوگا اور اس شخص کو یادِ الہی اور محبت رسولؐ کی دولت حاصل ہوگی۔ غرض کہ بوقت حج اہل مدینہ ان ہی حالات کے پیش نظر آپ کو عاشقِ رسولؐ سے مخاطب فرماتے۔ جب کبھی  آپ اپنے شیوخ اور پیرانِ طریقت اور کاملینِ حقیقت کا ذکر فرماتے تو ان کے تصوّرات میں گم ہوجاتے اور مزے لیکر ان کے حالات اور واقعات بیان فرماتے تھے اور اُن مقدس اور پاک ہستیوں کے قرب اور فیضِ محبت، غیرمعمولی اوصاف اور اعلیٰ مرتبہ کا ذکر فرماتے اور ان  بافیض ہستیوں سے اپنی نسبت پر فخر فرماتے تھے۔ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودراز بلند پرواز قطب دکنؒ کی نسبت یوں فرماتے تھے۔ ’’نورِ محمدی‘‘ کے ایک لباس کا نام ’’بندہ نواز‘‘ ہے۔ حضرت خواجہ بندہ نوازؒ سے بے حد والہانہ محبت وعقیدت اور انتہائی عشق تھا۔ اس محبت وعشق کا اثر سمجھنا چاہئے کہ حضرت نذر محمد قبلہؒ پائین گیسودرازی و بندہ نوازیؒ میں استراحت فرمارہے ہیں۔ آپ اس سرائے فانی سے ۱۹؍رجب المرجب ۱۳۸۳؁ہجری مطابق ۱۸؍ڈسمبر۱۹۶۲؁ء شبِ دو شنبہ رفیق اعلی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قد افلح من تزکی وذکر اسم ربہ فصلّی ، ترجمہ: بے شک بامراد ہوگیا وہ شخص جو پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔ اللھم صل علی سیدنا محمد وعلی الہ واصحابہ وبارک وسلم۔
چمنے کہ تاقیامت گُل اوبہار بادا
صنمے کہ برجمالش دو جہاں نثار بادا

حضرت ممدوح  ؒکی ہدایتیں

ایک مرتبہ آپ کے ایک شاگرد جو عدالت کے جج تھے یوں نصیحت فرمائی ، اے عزیز! تو اللہ کے معاملہ میں احتیاط کر اور اس سے ڈر، اللہ زیادہ طاقتور ہے تجھ کو انسانوں کے اثر سے بچا سکتا ہے۔ اللہ میں یہ قدرت ہے کہ تیرے پاس فرشتہ بھیج دے اور تجھ کو اس کُرسی عدالت سے اُتاردے اور تجھ کو اس کشادہ مکان سے نکال کر تنگ وتاریک قبر میں پہنچا دے وہاںتیرے عمل کے سوائے کوئی چیز کام نہ آئے گی۔ گناہ سے بچ، خدانے تجھے حکومت دی ہے اس حکومت سے تو بزرگانِ خدا کو دین کا مددگار اور معاون بنا اور اس حکومت کو دین کے خلاف استعمال نہ کر۔ خدا کی طاعت میں کسی بندہ کی طاعت اور فرماں برداری ناجائز اور حرام ہے۔

خوفِ خدا

تصوف میں اصل احسان یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سامنے حضوری کا تصور ہر وقت رہے۔ حضرت ممدوح پر یہ 
کیفیت غالب تھی اور اللہ تعالی کی شانِ جلالت سے ہر وقت خائف رہتے تھے جب مسجد میں آتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی دوست کو دفن کر کے آرہے ہیں اور مسجد میں بیٹھے تو اس قدر اُداس نظر آتے تھے گویا وہ قیدی ہیں جس کے قتل کا حکم دیا جاچکاہے اور جب دوزخ کا ذکر سنتے تو حضرت ممدوح پر وحشت طاری ہوتی تھی لرزہ بہ اندام ہوجاتے تھے۔ اس خوف کی وجہ سے کثرتِ نوافل کے سوا اہل بیت سے دلی محبت رکھتے تھے تا کہ ان نفوس قُدسیہ کے اتباع کی وجہ غضبِ الہی سے محفوط رہیں، جب ان نفوس قدسیہ کا ‘ذکر آتا تو تڑپ جاتے تھے۔ خدا کے فضل وکرم سے عوام میں ہر دلعزیزی وعزت حاصل تھی۔ شہرت وہردلعزیزی کے باعث مسائل دریافت کرنے اور معاملات حل کرانے والوں کاتانتا بندھا ہوتا تھا۔ قادرِ مطلق نے حضرت ممدوح کوایک اور نعمت سے سرفراز فرمایا تھا وہ یہ کہ آپ مستجاب الدعوات تھے ۔ چنانچہ دوران درس وتدریس ایک شخص آیا اور کہا کہ میرا بیٹا گھر سے چلاگیا ہے اس کی ماں بہت پریشان ہے اس کی پریشانی دیکھ کر سربہ سجود ہوکر آپ نے یوں دعا فرمائی ’’ اے اللہ کوئی شبہ نہیں، آسمان تیرا آسمان ہے، زمین تیری زمین ہے اور جو کچھ زمین و آسمان کے درمیان ہے وہ بھی تیرا ہے تو اس لڑکے کو یہاں پہنچادے‘‘۔ حضرت ممدوح ابھی سر سجدے سے نہیں اٹھائے وہ شخص کیا دیکھتا ہے لڑکا سامنے کھڑا ہے وہ بڑا خوش ہوا اور حضرت ممدوح کا معتقد ہوگیا۔

اہل وعیال 

سراج العارفین کو اپنے اہل وعیال کے حالات پر توجہ اور ان کے حقوق کی پابجائی کا خیال رہتا تھا۔ برتاؤ دو قسم کا ہوتا تھا۔ بیوی کی قدر اور ہمّت افزائی کی جاتی تھی غلطیوں اور کوتاہیوں پر بلا توقف تنبیہ کرتے تھے۔ حضرت ممدوح کے پانچ صاحبزادے اور د و صاحبزادیاں ہیں جن کی کماحقہٗ تعلیم وتربیت فرمائی۔ خصوصی طور پر خلف اکبر نیاز محمود خاں کو بیعت سے مشرف فرماکر روحانی تربیت سے آراستہ کرکے خلافت سرفراز فرماکر جانشین مقرر فرمایا۔ دوسرے صاحبزادے جن کا نام فیض احمد تھا طالب علمی کے زمانے میں ۱۹ سال کی عمر میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ تیسرے صاحبزادے جن کا نام نور احمد خاں صاحب ہے مدرسہ نظامیہ حیدرآباد سے فارغ التحصیل ہیں اور حضرت ممدوح کی ہدایت پر گامزن ہے۔ چوتھے صاحبزادے ظہور احمد خاں حضرت ممدوح کے زیر تربیت رہ کر تصوف ومسائل دینی وروحانی کی تکمیل فرمایا۔ پانچویں صاحبزادے عبدالحمید خاں حضرت ممدوح کے تبلیغی کاموں کا ذوق رکھتے ہیں۔ دونوں صاحبزادیاں حضرت ممدوح کے رشد وہدایات پر گامزن رہ کر تبلیغی کاموں میں مصروف ہیں۔

خلفاء ومریدین

حضرت قبلہ کے مریدوں اور شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ ہر دل عزیزی کی وجہ آپ کی ذات کو خاص وعام 
نظر میں مرکز بنادیا۔ جن لوگوں کا تعلق بیعتِ ارادات کا تھا ان کی صلاحیتوں کے مطابق زیورِ سلوک سے آراستہ فرماتے تھے۔ خلفاء کی صحیح تعداد معلوم نہ ہوسکی مگر بعض قابلِ ذکر ہیں۔
حاجی مولوی نورا للہ قادری صاحبؒ مولوی کامل کو کرنول اور اسکے اطراف واکناف میں تبلیغ واشاعت دین کا ایک مقام حاصل ہے گویا کہ کرنول کی فضاء آپکی کرنوں سے منوّر ہے۔
ایک خلیفۂ کامل مولوی محی الدین پاشاہ قادری صاحب حیدرآبادی جو جذب حال میں سرشار رہتے ہیں مرشد کے ارشادات پر گامزن ہیں۔
اِن کے علاوہ مولوی عبداللہ خاں صاحب نقشبندی اورنگ آبادی، میراں حسینی صاحب، جعفر علی صاحب نقشبندی بیدر شریف، رکن الدین صاحب جنیدی، بیدر شریف، مولوی عبدالہادی صاحب، الحاج مولوی عبدالعزیز صاحب نقشبندی، حاجی غلام علی صاحب اثرؔ نقشبندی، غلام رسول صاحب نقشبندی یادگیری کے علاوہ اور تعلقہ جات میں آپ کے بکثرت مریدین ہیں۔
حاجی محمود شریف صاحب گلبرگوی، محمود خاں صاحب ضلع محبوب نگر، حاجی مولوی طاہر حسین صاحب حیدرآبادی، محمد حنیف صاحب ادھونی، امیر علی صاحب ادھونی، مرشد کے تعلیمات و ارشادات کا تبلیغی کام کما حقہ انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے خلفاء ومریدین اپنی اپنی ذمّہ داری کو پورا کررہے ہیں۔ حضرت کے ایک خلیفہ حاجی امیر علی صاحب نقشبندی قادری جو دعوت دین اسلام کا والہانہ جذبہ رکھتے ہیں، پیر ومرشدکے حسبِ ارشاد مختلف دیہات کا دورہ کرتے ہیں اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف بلاتے اور رہبری ورہنمائی کرتے ہیں۔ اس پیرانہ سالی میں بھی مرشد کے حکم تعمیل میں سفر کرتے ہیں اور ہر وقت ہر آن دامے درمے قدمے قلمے پورا کرتے رہتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز صاحب جو حضرت کے شاگرد اور خلیفہ ہیں اس پیرانہ سالی میں ہر اتوار کو مدینۃ الحاج میں درس قرآن، اور تفسیر سے عوام کو فیض پہنچارہے ہیں۔ حکیم محمد ابراہیم صاحب وظیفہ یاب حیدرآباد قابل ذکرہیں۔ حضرت قبلہ کے خلیفہ مولوی حکیم پاشاہ محی الدین صاحب عامل نقشبندیہ سلوک کے مدارج طے فرماچکے ہیں اور سلسلہ مریدی اور خدمت خلق جاری ہے۔ بفضلِ خدا دعا مرشدی ومولائی ہر اتوار کو ختم خواجگان کا سلسلہ مرشد کے خلف اکبر الحاج نیاز محمود خاں اب تک جاری وساری ہے۔ سلسلہء نقشبندیہ کے ذکر اذکار ومراقبہ وذکرِ جہری خفی بلاناغہ اتوار کو ہوتا ہے۔ درود و سلام سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش ہوتا ہے ۔ ہر آن قبول ہوتا رہے۔ آمین۔

Post a Comment

Previous Post Next Post