Hazrat Moulana Mohammed Abdul Jabbat Khan Sufi Malkapuri

مولانا محمد عبدالجبار خاں صوفی ملکاپوریؒ

مولانا محمد عبدالجبار خان صوفی ملکاپوریؒ (برار) کے ایک مذہبی اور علم دوست خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن زندگی کا بڑا حصہ حیدرآباد میں بسر ہوا اور ایک مدت تک مدرسۂ اعزہ سے وابستہ رہے۔ فارسی اور عربی کے عالم تھے اور اپنے عہد کے زبردست محقق اور مورخ سمجھے جاتے تھے۔ ان کا کتاب خانہ بڑا شاندار تھا جس میں دواوین اور بیاضوں کے علاوہ دکن اور ہندوستان کی سینکڑوں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تاریخیں محفوظ تھیں۔ بقول عماد الملک یہ ایک ایسا ذخیرہ تھا جو ان سے پہلے کسی مورخ کو نصیب نہ ہوسکا۔ موسیٰ ندی کی طغیانی میں یہ بیش بہا ذخیرہ تباہ ہوگیا۔
مولانا عبدالجبار خاں نے اپنی زندگی تاریخ دکن کی تحقیق و تدوین کے لیے وقف کردی تھی اور برسوں کی عرق ریزی اور جگرکاوی کے بعد ’’محبوب التواریخ‘‘ کا سلسلہ مرتب کیا جو پانچ جلدوں اور آٹھ حصوں پر مشتمل تھا۔ محبوب الوطن (تاریخ سلاطین بہمنیہ)محبوب الزمن (تذکرہ شعرائے دکن) اور محبوب ذی المنن (تذکرہ اولیائے دکن) اسی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کتابوں کی اہمیت کا اندازہ نواب عمادالملک کی اس رائے سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے مولف کی مالی امداد کے سلسلے میں دی تھی۔ انہوں نے لکھا تھا ’’یہ تاریخ ایسی مشرح اور مفصل لکھی جارہی ہے اور اس قدر تحقیق کے ساتھ کہ آج تک کسی نے نہیں لکھی۔ دفتر گزیٹر خاص اس کام کے واسطے سرکار سے تقرر ہوا تھا۔ باوجود تین لاکھ خرچ کے وہ کام نہیں ہوسکا جو مولوی صاحب کررہے ہیں۔ جب یہ تاریخ کامل ہوکر طبع ہوجائے گی عام طور پر بہت ہی کارآمد ہوگی اور اس عہد حکومت کی ایک یادگار قائم کردے گی‘‘۔ +
نواب عماد الملک کی اس رائے میں مبالغہ نہیں۔ آج بھی جب کہ تحقیق بہت آگے نکل چکی ہے دکن کی تاریخ اور خاص طور پر دکنی ادب پر کام کرنے والے ’’محبوب الزمن‘‘ سے استفادہ کے بغیرایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے دکن کے بیسیوں شاعروں کو گم نامی سے بچالیا اور ان کے حالات اور کلام کو اپنی تصانیف میں محفوظ کردیا۔ انہیں بعض نقادوں نے دکن کا آزاد کہا ہے اور اس میں شبہ نہیں وہی اس کے مستحق ہیں۔ جب تک اردو ادب زندہ ہے ان کا نام بھی زندہ رہے گا   ؎
دکن زندہ کردم بایں آرزو
کہ نامم بماند دریں چار سو(۲۳)
مولانا عبدالجبار خاں صوفی نے علامہ یوسف اسماعیل نبھانی کی عربی میں لکھی گئی سیرت النبی کاانتہائی فصیح بلیغ اورسلیس ترجمہ’’ شمایل الرسول‘‘ کے نام سے کیا ہے جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مقدمہ میں اپنے استاذ 
محترم حضرت شیخ الاسلامؒ کا تذکرہ انتہائی والہانہ انداز میں کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔
’’اس کتاب میں بعض ایسے دشوار اور مشکل مقامات تھے کہ موارد استعمال لغات میں لا محالہ تشکیک کااندیشہ تھا اسکی تحقیق خاص خاص مقام پر بحر علوم عقلیہ و نقلیہ،کاشف معضلات احادیث نبویہ، محی سنتِ سنیہ مصطفویہ،اسوہ علمائے ربانی، قدوئہ کملائے زمانی، رئیس المفسرین، تاج المحدثین، الفاضل الفاصل بین الحق والباطل، ذو المجد والتفاخر مولنا مولوی معنوی محمد انوار اللہ خان بہادر استاد شہزادئہ بلند اقبال سے کی گئی ہے۔ 
حررہ من لہ الافتقار إلی مولٰہ المنان محمدعبدالجبار خان الشھیر بالآصفي النظامی سر رشتہ دار دفتر پیشی قدر قدرت اعلحضرت حضور پر نور نظام الملک آصفجاہ خلد اللہ ملکہ و ابد سلطانہ ۱۱؍جمادی الاول ۱۳۱۴؁ ہجری‘‘ ۔ (۲۴ )

Post a Comment

Previous Post Next Post