سالارِ نقشبند حضرت خواجہ باقی باللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ Biography Khwaja Baqi Billah Naqshbandi | Naqshbandi Mujaddidi Sufi



 

صفحہ دہر کی تاریخ میں بے شمار دریتیم ہستیوں نے اپنے نشان قدم کو چھوڑا ہے انہیں میں سے ایک خواجہ محمد باقی باللہ بیرنگ نقشبندی احراری دہلوی علیہ الرحمۃ کی ہستی ہے ،

آپکا نام خواجہ باقی باللہ یا رضی الدین محمد باقی ہے اور والد گرامی کا نام  قاضی عبد السلام خلجی سمرقندی قریشی ہے۔

جو اپنے زمانے کے معروف عالمِ باعمل اور صاحبِ وجد و حال و فضل و کمال بزرگ تھے۔۔

آپ کی ولادت باسعادت 5ذی الحجہ 971ھ بمطابق 15جولائی 1592ء کو کابل میں   قاضی عبد السلام خلجی سمرقندی قریشی کے گھر ہوئی،

ابتدائی تعلیم علاقہ کے مکتب میں حاصل کرکے مشہور زمانہ شخصیت ملاصادق حلوانی کے حلقہ درس میں داخل ہوکر علوم متداولہ سے فراغت حاصل کی۔

آپ نے آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ اُس دور کے کابل کے مشہور عالمِ دین محمد صادق حلوائی سے تلمذ اختیار کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں علم و عمل کے آفتاب بن کر چمکنے لگے اور اپنے زمانے کے اہلِ علم میں شہرتِ دوام حاصل کر لی۔ سمرقند میں فقہ، حدیث، تفسیر اور دوسرے دینی علوم کی تکمیل کی۔ بچپن سے آثار تجرید و تفرید اور علاماتِ فقر و درویشی آپ کی پیشانی سے عیاں تھیں۔

ایک مجذوب کی نظر کرم سے کتابوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور آپ کسی مرشد کامل کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ 

آپ امیر عبداللہ بلخی علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوے ،جب یہاں پہنچے توآپ کو سکون وقرار حاصل ہوا اور منازل روحانیہ میں ترقی ہوئی لیکن دل کو سیرابی حاصل نہ ہوسکی اور پیر کامل کی تلاش جاری رہی چنانچہ آپ نے ابتدائے جوانی میں غیرمنقسم ہندوستان کی جنت نشاں وادی کشمیر میں باباولی سے فیض حاصل کیا۔خواجہ محمد اعظم لکھتے ہیں ’’خواجہ دو سال تک شیخ بابا ولی علیہ الرحمۃ کی صحبت میں رہے ۔بعد ازاں سنبھل میں شیخ الٰہ بخش سنبھلی کی خدمت میں حاضر ہوے ،تلاش مرشد میں وہ جا بجا گئے آخر کار دہلی پہنچے اور چشتیہ سلسلہ کے نام ور بزرگ شیخ عبدالعزیز کی خانقاہ میں مقیم رہے اور ان کے صاحب زادے شیخ قطب عالم کی خدمت میں رہ کر عبادت الٰہی میں مشغول رہے ‘‘شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے لکھا’’ایک رات شیخ قطب العالم پر منکشف ہوا کہ حضرت خواجہ کا حصہ بخارا میں ہے ۔وہ اسی وقت باہر آئے اور خواجہ سے کہا کہ آپ کو مشائخ بخارا بلاتے ہیں،روانہ ہوجائیے یہ سن کر خواجہ اسی وقت روانہ ہو گئے اور ماوراء النہر میں سمر قند کے مضافات میں امکنہ نامی آبادی کے قریب حضرت خواجہ محمد امکنگی  کی خدمت میں پہنچے ،انہوں نے آپ کو سلسلہ نقش بندیہ کی تعلیم دے کرخلافت عطا فرمائی اور ہندوستان واپس جانے کا حکم فرمایا۔

چنانچہ آپ کے حکم پر ترکستان سے لاہور ہوتے ہوئے ہندوستان کے مرکزی شہر دہلی تشریف لائے اور دریائے جمنا کے کنارے قلعہ فیروز آباد میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ کی تشریف آوری سے پانچ چھ سال کے اندر اندر روحانی حلقوں میں انقلاب برپا ہو گیا۔ علماء و مشائخ اور عامۃ المسلمین کے علاوہ اُمراء سلطنت بھی آپ کے حلقہ بیعت میں شامل ہونے لگے۔ چنانچہ نواب مرتضی خان فرید بخاری، عبدالرحیم خان خاناں، مرزا قلیج خان اور صدر جہاں وغیرہم بھی آپ کے نیاز مندوں میں شامل ہونے لگے۔ آپ نے دورِ اکبری کے منفی اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک خاص حکمت عملی کے تحت بشمول انہی راسخ العقیدہ امرا و علما و صوفیا کی ایک جماعت تیار کی جن میں حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی بھی شامل تھے۔ ان حضرات نے علمائے سوء کے منفی کردار کے اثرات زائل کرنے کے لیے اکبر کے بعد نور الدین جہانگیر کی جانشینی پر اس شرط کے ساتھ حمایت کی کہ وہ دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں ان کا حامی و موئید ہو گا۔ اکبر کے دربار سے وابستہ بہت سے امرا بھی آپ کے متعقد تھے۔ آپ نے امرا کے طبقے کی اصلاح کی طرف توجہ دی یہ آپ ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ اکبر کے عہد میں جو لامذہبیت پیدا ہو رہی تھی اس کا خاطر خواہ سدباب ہوااور طبقہ امرا میں مذہب سے وہ انس پیدا ہو گیا جس کے سامنے اکبر کے خیالات فروغ نہ پاسکے۔

آپ کی رحم دلی کا عالم یہ تھا کہ ایک مرتبہ شہر لاہور میں سخت قحط پڑا تو کئی روز تک آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا،جب آپ کے سامنے کھانا لایا جاتا تو فرماتے کہ ’’یہ بات انصاف سے بعید تر ہے کہ کوئی تو گلی کوچے میں بھوک پیاس سے جان دے دے اور ہم یہاں پر کھانا کھائیں اوراس طرح سے سارا کھانا مسکینوں کو بھیجوا دیا کرتے تھے ۔ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس دور کی سب اہم بات یہ ہے کہ جب کوئی علم حق بلند کرتا ہے تو اس کو روشن خیال طبقہ متشدد اور نافہم کہہ کر ٹال دیتاہے اور اگر حکمۃً بھی کسی فتنے کے سدباب کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جاے تو یہی طبقہ انہیں صلح کلی کہہ کر قہوہ خانے کا عنوان بنادیتا ہے شاید انہیں تمام وجوہات کی بنیاد پر اسلام اور مسلمان دونوں خارجی فتنوں میں کم اور داخلی فتنوں کے چیلنجز میں زیادہ گھرے ہوئے ہیں یقینا ایسے پُر فتن حالات میں مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے خواجہ باقی باللہ کی ذات گرامی قدر ہمارے لیے ایک مستقل آئین کی حیثیت رکھتی کہ آپ اس دور میں دینی قیادت کے فرائض انجام دے رہے تھے جس دور میں فتنہ اکبری دین الحاد نے مذہب وملت کے درمیان بے شمار خرافات کو جنم دے دیا تھا،اگر چہ اس سے عوام الناس پر کوئی خاص اثرنہ پڑا تھا لیکن درباریوں کے طور طریقے بگڑ چکے تھے ،اونچے طبقوں میں خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں جس سے اس بات کا اندیشہ تھاکہ عامۃ الناس بھی اس سے متاثر ہوجائیں جس کے سد باب کے لیے فوری طور پر کوئی نظر نہیں آرہا تھا جو شیخ امان پانی پتی علیہ الرحمۃ وغیرہ کے مرید تھے وہ فتنہ اکبری کی مذہبی بوالعجبیوں کے ساتھ کھڑے تھے اور جو شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے زیر اثر تھے انہوں نے گوشہ تنہائی،درس وتدریس اورذکر اللہ کو جائے امن سمجھا تھا،اس وقت کے صدرالصدور شیخ عبدالنبی کو ان کے آپسی اختلاف نے بے اثر کردیا،ملا محمد یزدی جون پوری اور علمائے پنجاب اکبری تعزیری کاروائیوں کے شکار ہوگئے ۔اس طرح سے حالات کی اصلاح اور فتنہ کی سرکوبی حسب ضرورت کسی سے نہ ہو سکی۔ایسے دردناک ماحول اور اکبری دربار میں دین کی قربان گاہ بننے کے وقت صرف ایک بزرگ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ نے مستحکم اور مضبوط محاذ قائم کرکے فتنہ اکبری کو لگام دینے کی بھر پور کام یاب کوشش فرمائی۔آپ نے اپنی روحانی صفائی و پاکیزگی،حکمت اور عظمت کردار سے اکبری ارکان سلطنت،صدور مملکت اور علما و مشائخ کو مسخر فرمایا جس سے ہندوستان میں اسلامی روحانیت کی ایسی پرزور لہر چلی کہ فضائِ اکبری کے نت نئے رجحانات وخیالات کا فروغ پانا ناممکن ہوگیا۔آپ کا طریق کار عین مقتضائے حال کے موافق تھا۔اصفیا میں اس طریق کارکی سب سے زیادہ پرزور ترجمانی سلسلہ نقش بندیہ کے افراد نے کی۔ نتیجۃًہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ آپ کا جوہر آپ کی اخلاقی پاکیزگی اورمصلحت شناسی تھی آپ کو ابتداء ً ہی بتا دیا گیا تھا کہ ’’حاصل سلوک،تہذیب الاخلاق ہے ‘‘اسی لیے آپ نے سای کوششیں تزکیہ نفس اور روحانی پاکیزگی پر مرکوز رکھیں۔اس بات سے بھی کسی کو مجال انکار کی چنداں گنجائش نہیں کہ آپ کو علمی دنیا میں تاریخ نے وہ مقام نہیں دیا جو آپ کے معتقد شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کو دیا اور نہ ہی زورِ قلم میں وہ مرتبہ جو مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو ملا لیکن امر اصلیہ رُشد و ہدایت میں آپ منفرد اور یکتائے روزگار رہے ۔

اولاد

خواجہ محمد باقی باللہ کے دو صاحبزادے تھے۔

خواجہ عبیداللہ کلاں

خواجہ عبداللہ خورد

خلفاء

1008ھ میں حضرت مجدد الف ثانی خواجہ باقی باللہ سے بیعت ہو کر خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے جن سے بالخصوص پاک و ہند اور بالعموم پوری دنیا میں سلسلہ نقشبندیہ کی اشاعتِ عام ہوئی۔ آپ کے مشہور خلفاء کے نام درج ذیل ہیں

مجدد الف ثانی

شیخ تاج الدین سنبھلی

خواجہ حسام الدین

وفات

ہفتہ 25 جمادی الثانی 1012ھ بمطابق 29 نومبر 1603ء کو بعد نماز عصر ذکر اسم ذات کرتے ہوئے وفات پائی۔ .نقشبندِ وقت. اور .بحرِ معرفت بود. سے تاریخ وفات نکلتی ہے۔ خواجہ باقی باللہ کا مزار دہلی میں فیروز شاہ قبرستان میں صحنِ مسجد کے متصل واقع ہے۔


مکتوبات امام زبانی

مکتوبات امام ربانی میں آپ کے نام حضرت مجدد الف ثانی کے لکھے ہوئے 20 مکتوبات ہیں جو دفتر اول یعنی پہلی جلد میں ادباً و احتراماً شروع میں رکھے گئے ہیں۔ ان میں آپ کے ذاتی احوال کے علاوہ علوم و معارف کے بے شمار جوہر گرانمایہ شامل ہیں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post