رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری بلیاوی Biography Rayisuttahreer Qayide Ahle Sunnat Allama Arshadul qadri

 رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادری بلیاوی

مہتمم جامعہ فیض العلوم، جمشید پور، بہار

ولادت اور تعلیم

اردو کےمشہور انشاء پر دراز رئیس التحریر حضرت علامہ ارشد القادری رضوی موضع سید پور ضلع بلیا میں۱۹۲۴ء کو پیدا ہوئے [1] ۔ آپ کے والد ماجد بحر الاسرار حضرت شاہ عبدالعلیم آسی قدس سرہٗ کے مرید اور سلسلۂ رشیدیہ کے سالک تھے، اسی وجہ سے آپ کا نام غلام رشید تجویز فرمایا [2] ۔ اور بعد میں ارشد القادری سے مشہور ہوئے۔



ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کے مدارس اسلامیہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلیے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا سفر کیا اور وہاں پر حافظ ملت مولانا عبدالعزیز رضوی مراد آبادی کےمخصوص شاگرد رہے، تکمیل درس کے مختلف مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ کچھ عرصہ ناگپور میں بسلسۂ تدریس مقیم رہے۔


فیض العلوم، ادارۂ شریعہ بہار کا قیام

حضرت علامہ ارشد القادری نے تقریباً ۱۹۵۴ء میں جمشید پور میں مشہور دیوبندی مولوی عبداللطیف اعظمی سے کامیاب مناظرہ کیا، اور پورے جمشید پور پر چھاگئے۔ ٹاٹا کمپنی سے زمین حاصل کر کےعظیم الشان فیض العلوم قائم کیا۔ ۱۳۸۸ھ میں سیوان ضلع چھیرہ صوبہ بہار میں صوبائی کانفرنس کلے انعقاد اور اجلاس کے بطن سے پیدا شدہ ادارۂ شریعہ بہار علامہ ارشد القادری کی زندگی کا اہم کارنامہ ہے، ایک مست و سرشار بادۂ حبِ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے پورے بہار کے سنی مسلمانوں کو ہوشیار فرزانہ بنادیا ہے۔


اب ادارۂ شریعہ بہار کی عمارت ایوانِ شریعت تیار کرانے کے لیے راحت وآرام کو تج کر رات دن سفر میں ہیں۔ ۱۹۹۰ء؍۱۴۱۰ھ میں بھاگل پور کا فساد اور اس کثیر تعداد میں مسلمانوں کی ہلاکت، اس موقع پر ادارۂ شریعہ بہار کی خدمات ہندوستان کے باشندوں پر روشن ہیں۔ علامہ ارشد القادری نے تن من دھن کی بازی لگاکر مسلمانوں کو وہ تعاون کیا جس کی نظیر دوبارہ ملنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے گھر اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آرام گاہ کا دیدار بھی کرادیا ہے۔ سیکڑوں چھوٹے بڑے مدارس اور انجمنیں جن کی فعال اور متحرک ذہنیت کا زندہ ثبوت ہیں۔


جامِ کوثر اور جامِ نور

علامہ ارشد القادری قوت عمل میں اپنی نظیر رکھتے۔ جامِ کوثر پندرہ روز اخبار کلکتہ سے نکالا، اس کے بعد جامِ نور جاری کیا۔ آپ منفرد اسلوب تحریر کےمالک ہیں،بلا مبالغہ آپ کو صاحبِ طرز انشاء پر واز کہا جاسکتا ہے۔ علامہ ارشد القادری کی ادیبانہ تحریر نے جامِ نور کو جو مقام دیا وہ مقام آج کل کے رسالوں میں نہیں پایاجاتا، مگر کچھ ناموافق بنا پر جامِ نور بند ہوگیا۔


عامر عثمانی، مولوی ابو اللیث کا اعتراف

جماعتِ اسلامی اور مولانا مودودی پر عقل واستدلال کی روشنی میں نقد و تبصرہ کی کتاب جماعتِ اسلامی (از ارشدالقادری) کی متانتاور سلجھے ہوئے اسلوب کی امیر جماعت اسلامی ہند مولوی ابو اللیث نے تعریف کی، اور اس کا وزن محسوس کیا [3] ۔ علامہ ارشد القادری کی دوسری مایۂ ناز تصنیف زلزلہ پر مولوی عامر عثمانی مدیر "تجلی" نے تبصرہ کرتےہوئے آپ کی علمی صلاحیت اور ادیبانہ تحریر کا اعتراف کیا۔


اَلدَّعْوَۃُ الْاِسْلَامِیَّۃُ العَالَمِیَّۃ


۱۹۷۲ء میں علامہ ارشد القادری نے دوسرا سفر حج کیا،ج یہ سفر ایک اہم دینی تبلیغی مرکز کے قیام کا سبب بن گیا، جہاں مختلف ممالک کے نائندوں کی موجودگی میں عالمی طور پر مسلمانوں میں پھیلی ہوئی مذہبی بے اعتدالی کے خلاف ایک اہم کنونشن (CONVENTION) منعقد ہوا، علماء کرام نے اپنے اپنے انداز میں مذہبی بیداری اور دینی انقلاب پیدا کرنے کےلیے ایک عالمی ادارے کے قیام پر زور دیا [4] ۔جس کے بارے میں علامہ ارشد القادری خود تحریر فرماتے ہیں:


مجلس نے متفقہ طور پر یہ طے کیا کہ مُلحدانہ تحریکات اور مادیت پسندانہ طریقِ زندگی کےنتیجے میں آج امت اپنے رسول سے دور ہٹتی جارہی ہے، اس لیے عالمی سطح پر ایک ایسے ادارہ کا قیام اب ضروری ہوگیا ہے، جس کے ذریعہ امت کے افراد کو عشق و یقین اور اطاعت و تقویٰ کی زندگی کی طرف واپس لایا جائے، مجلس کے ارکان نے اس تحریک کو "الدعوۃ الاسلامیۃ العالمیۃ" کے نام سے موسوم کیا، اور متعدد سہولتوں کے پیشِ نظر اس تحریک کا مرکز انگلستان کا مشہور شہر بریڈ فورڈ نامزد کیا گیا [5] ۔


اسلام کی عام فلاح وبہود کے سؤال پر وقت کے داخلی اور خارجی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے جن اغراض و مقاصد کے ساتھ اس تحریک کو منسوب کیا گیا وہ یہ ہیں:


(الف) عالمی سطح پر ایک تبلیغی نظام کا قیام


(ب) مسلم معاشرہ میں دینی زندگی کی ترویج


(ج) غیر مسلم اقوام میں اسلام کا مؤثر تعارف


(د) مسلمانانِ عالم کے درمیان رابطۂ اخوت اسلامی کا قیام


(ہ) گمراہ کن افکار وتحریکات سےنسلِ اسلامی کا تحفظ


(و) اسلامی تبلیغ کی قائدانہ صلاحیتیں پیدا کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی تربیتی مرکز کا قیام [6]


چنانچہ اس عظیم دینی تحریک کی پہلی تنظیمی کانفرنس بریڈ فورڈ کے "جار جیز"ہال میں مولانا شاہ احمد نورانی رضوی پاکستان (خلف اصغر مولانا شاہ عبدالعلیم رضوی میرٹھی) کی زیر صدارت مورخہ ۲۱؍اپریل ۱۹۷۴ء کو منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں وسہ سالہ لائحہ عمل منظور کیا گیا اس کا خلاصہ یہ ہے۔


1. اسلامک مشنری کالج کے نام سے ایک تربیتی ادارہ کا قیام جس میں فارغ التحصیل نوجوان علماء کو انگریزی، جدید عربی، اور فرنچ تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں مذہبی قیادت کی تربیت دی جائے گی۔


2. مختلف زبانوں میں اسلام کا تبلیغی لڑیچر تیار کرنے کے لیے ایک دار التصنیف کا قیام۔


3. اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں ایک ماہنامہ کا اجراء اردو نام دعوتِ اسلامی، عربی نام الدعوۃ الاسلامیۃ، اور انگریزی نام وائس آف اسلام تجویز کیا گیا۔


4. دنیا کے مختلف خطوں میں رہنے والےمسلمانوں سے دینی رابطہ قائم کرنے کے لیے رابطۃ الاخوۃ الاسلامیۃ کے نام سے ایک تنطیمی اور ادارہ کا قیام۔


کٹک کا تاریخی

کئی سال ہوئے اڑیسہ کے وار الخلافہ کٹک میں دیوبندیوں سے ایک تاریخی مناظرہ ہوا تھا، یہ واقعہ غالباً ۱۳۹۹ھ کا ہے۔ اس مناظرہ کی خصوصیت یہ تھی کہ مجاہد ملت مولانا شاہ محمد حبیب الرحمٰن رضوی اڑیسوی سرپرست اور بانی مناظرہ کی حیثیت سے اہلِ سنت کے اسٹیچ پر یہ نفس نفیس تشریف فرما تھے، اہلِ سنت کی طرف سے جلسۂ مناظرہ کے صدر مولانا مفتی شریف الحق رضوی امجدی مقرر ہوئے تھے جب کہ مناظر کی حیثیت سے مجاہد ملت نے مولانا ارشد القادری کو نامزد فرمایا تھا، اور دوسری طرف دیوبندی فرقہ اپنے مناظر کی حیثیت سے مولوی ارشاد احمد فیض آبادی مبلغ دارالعلوم دیوبند کو پیش کیا تھا۔


مناظرہ کے دوران دیوبندی مناظرے اعلیٰ حضرت کے لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو تو صرف ‘‘حضرت’’ کہا جاتا ہے اور آپ لوگ مولانا احمد رضا خاں صاحب کو ‘‘اعلیٰ حضرت’’ کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لوگوں نے اپنے پیشوا کو حضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) سے بھی بڑھادیا ہے۔


مولانا ارشد القادری نے اس کے اس مہمل اعتراض کا ایسا دنداں شکن جواب دیا کہ پورے دیوبندی اسٹیچ پر سنّاٹا چھاگیا۔


مولانا ارشد القادری نے فرمایا کہ تنقیص رسول کے ناپاک جذبے میں آپ لوگوں کے قلوب اس درجہ مسخ ہوگئے ہیں کہ اہانت کا کوئی موقع بھی آپ لوگ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اس بات کا شکوہ تو اپنی جگہ پر ہے کہ ج ن کی دسواں انگلیاں اہانت رسول کے خون میں ڈوبی ہوئی ہیں شکایت یہ ہے کہ اس واقعہ سے آپ بھی بے خبر نہیں ہیں کہ سلف سے خلف تک امت کے مشاہیر حضرات کو جن القابات سے بھی موسوم کیا گیا ان کا تقابل ان کے صرف معاصرین کے ساتھ تھا کسی نے بھی امام اعظم کے لفظ سے یہ نہیں سمجھا کہ انہیں امام اعظم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام کے مقابلے میں بولا جارہا ہے، لیکن یہ آپ لوگوں کے دلوں کےن فاق کی کاری گری ہے کہ بجائے اس کے آپ لوگ سلف کی روایت اور عرف کے مطابق اعلیٰ حضرت کے لفظ کے مفہوم کو انکے معاصرین تک محدود سمجھتے زبردستی کھینچ تان کر اس لفظ کےاطلاق کا دائرہ عہد رسالت تک وسیع کردیا تاکہ لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے نہ بھی تنقیص شان کا حامل ہو جب بھی تقابل کی راہ سے تنقیص کے معنی پیدا کردیئے جائیں۔


اس کے بعد علامہ ارشد القادری نے گر جدار آواز میں دیوبندی مناظر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب آپ حضرات کے یہاں القابات کے مفہوم کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ عہد رسالت تک کو حاوی ہے تو اب آپ بریلی سے دیوبند آیئے اور اپنی شقادتوں کی یہ بھیانک تصوری دیکھیے کہ خود آپ کے گھر میں تنقیص شانِ رسالت کے کیسے کیسے سازو ساہان موجود ہیں۔


دیکھیے! یہ مرثیہ رشید احمد گنگنوہی ہے جس کے مرتب آپ کے شیخ الہند مولوی محمود الحسن ہیں، انہوں نے بالکل سرورق پر گنگنوہی صاحب کو ان القابات سے ملقب کیاہے:


‘‘مخدوم الکل، مطاع العالم بعینی سب کے مخدوم اور سارے عالم کے مطاع و مقتدا’’


اب آپ اپنی ہی منطق کی بنیاد پر یہ الزام قبول کیجئے کہ آپ حضرات گنگنوہی صاحب کو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر سید المرسلیلن مخدوم العالمین صلی اللہ علیہ وسلم تک اور ان کے بعد قیامت تک پیدا ہونے والے سارے نبی نوع انسان کا مخدوم سمجھتے ہیں۔


علامہ ارشد القادری نے کہا کہ مخدوم الکل کایہ مفہوم آپ کی طرح میں کھینچ تان کر نہیں پیدا کر رہا ہوں، بلکہ موجب کلیہ کا سور ہونے کی حیثیت سے لفظ کل کے وضعی اور اصطلاحی معنی ہی یہ ہیں کہ اس کے دائرے سے نسلِ انسانی کا ایک فرد بھی خارج نہ ہو۔ خوب غور سے سُن لیجئے کہ دائرہ اطلاق کی یہ وسعت خود لفظ کے اندر موجود ہے باہر سےیہ معنی نہیں پہنائے گئے ہیں جب کہ اعلیٰ حضرت کا لفظ اپنے وضعی معنی کے اعتبار سے دائرۂ اطلاق کی وسعت کا سرے سے کوئی مفہوم ہی نہیں رکھنا، اپنی بد نیتی کے زیر اثر زبردستی آپ لوگوںنے اسے غلط معنی پہنادیا ہے۔


یوں ہی ‘‘مطاع العالم’’ کی ترکیب میں ‘‘عالم’’ کا لفظ بھی اپنی وضع ہی کے اعتبار سے زمان ومکان کی ہمہ گیر وسعت کو چاہتا ہے جس میں نہ کسی فرد کا استثناء ہے اور نہ کسی وقت کا جس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ آپ حضرات سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضور مطاع العالم صلی اللہ علیہ وسلم تک سب کو معاذ اللہ گنگنوہی صاحب کا محکوم اور اطاعت گزار سمجھتے ہیں۔


یہاں پہنچ کر علامہ ارشد القادری نے دیوبندی مناظر کو للکارتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ حضرت کے لفظ پر آپ کے اعتراض کے جواب یہ ساری بحث میں نے سرف اس لیے اٹھائی ہےکہ آپ حضرات کو اپنی کج فہمی اور غلط اندیشی کا اندازہ ہوجائے۔


اب سنبھل جایئے! کہ آپ ہی کا اعتراض آپ ہی پر الٹ رہا ہوں۔ اب اپنی ہی تلوار سے آپ اگر لہو لہان ہوجائیں تو میرے اوپر خون نا حق کا کوئی الزام نہیں ہے۔


مولانا ارشد القادرینےکہا بریلی کے ایک ‘‘اعلیٰ حضرت پر تو آپ لوگوں کےیہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے لیکن خود دیوبند کے بت خانے میں کتنے ‘‘اعلیٰ حضرت’’ آپ لوگوں نے تراش رکھے ہیں شاید اس کا اندازہ آپ کو نہیں ہے۔ قوتِ ضبط ہو تو اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھتے ہوئے اپنے اکابر پرستی کی یہ عبرت ناک داستان سنیے۔


علامہ ارشد القادرینے کتاب اٹھاکر کہا کہ یہ دیکھیے میرے ہاتھ میں آپ کے گھر کی مستند کتاب تذکرۃ الرشید ہےجس کےمصنف آپ کے عظیم پیشوا مولوی عاشق الٰہی میرٹھی ہیں۔ اس کی جلد دوم کے صرف چار صفحوں میں انہوں نے اپنے خانوادہ کےمرشدِ اعظم حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کو گیارہ جگہ اعلیٰ حضرت لکھا ہے ۲۳۷ص پر چار جگہ، ۲۳۸ پر چار جگہ، ۲۳۹ص پر ایک جگہ اور، ۲۴۱ پر دو جگہ۔ خود گنگوہی صاحب نے اپنےایک مکتوب میں جو تذکرۃ الرشید جلد اول کے ۱۲۸ص پر چھپا ہے اپنے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو دو جگہ اعلیٰ حضرت لکھا ہے اور جلد اول ۱۳۰ص، ۱۳۶ص پر آپ کے حکیم الامت جناب تھانوی نے خاص اپنے قلم سے حاجی صاحب کو تین جگہ اعلیٰ حضرت تحریر فرمایا ہے۔ اب دوسری کتاب ملاحظہ فرمایئے ‘‘تحفۃ القادیان’’۔ یہ کتاب بھی دیوبند سے شائع ہوئی ہے۔ اس کےمصنف ہیںمولوی سیف اللہ مبلغ دارالعلوم دیوبند اسکے ۹ص پر لکھتے ہیں:


بحکم سیدی ومولائی قطب ربانی حکیم الامت قاری طیب صاحب دارالعلوم دیوبند


علامہ ارشد القادری کا وقت ختم ہورہا تھا، اس لیے حوالہ کی کتابیں بند کرتے ہوئے آپ نے دیوبندی مناظر کو مخاطب کیا:


آپ نے اپنے گھر کےاعلیٰ حضرتوں کو سن لیا، اب زحمت نہ ہو تو ان عبارتوں کے حوالہ سے ذرا وہی الفاظ پھر دہرایجیے کہ:


رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو تو صرف حضرت کہا جاتا ہے اورمولوی عاشق الٰہی میرٹھی، مولوی گنگوہی اور مولوی تھانوی اپنے پیر ومرشد کو اعلیٰ حضرت کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو تصرف حضرت کہا جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کے لوگ اپنے مہتمم صاحب کو اعلیٰ حضرت کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے:؎


ہم نہ کہتے تھےکہ اے داغؔ تو زلفوں کو نہ چھیڑ

اب وہ برہم ہے تو ہے تج کو قلق یا ہم کو!


جب علامہ ارشد القادری پندرہ منٹ کی اپنی جو ابی تقریر سے فارغ ہوکر بیٹھے تو دیکھا کہ حضرت مجاہد ملت کی خدا ترس آنکھوں میں خوشی کے آنسو امنڈ رہے تھے۔ علامہ ارشد القادری لکھتے ہیں کہ:


وہ مقدس لمحے میں زندگی بھر نہ بھولوں گا جب غوث الوریٰ کے دربار گہربار کے ایک دارفتہ جگر درویش، اور مسلک رضویت کے ایک پُر سوز داعی کی شفقتوں کے بادل ٹوٹ ٹوٹ کر میرے اوپر برس رہے تھے اور میں قدموں میں مچل مچل کر نہارہا تھا [7]


بیعت و خلافت

حضرت علامہ ارشد القادری رضوی کو ارادت اور خلافت کا شرف مفتی اعظم مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ سے حاصل ہے [8] ۔ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن رضوی نے اجازت سے نوازا۔


تصانیف

مولانا ارشد القادری قلم کے بادشاہ ہیں۔ تحریر کے ذریعہ انہوں نے وہ خدمات جلیلہ انجام دی ہیں جو کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں۔ مندرجہ ذیل تصانیف طبع ہوچکی ہیں۔ بہت سی کتابوں پر پیش لفظ اور مقدمے تحریر فرمائے۔


۱۔ زلزلہ


۲۔ زیروزبر


۳۔ تبلیغی جماعت


۴۔ لالہزار


۵۔ جماعتِ اسلامی


۶۔ تعزیراتِ قلم


۷۔ تفسیرام القرآن


۸۔ لسان الفردوس (عربی)


۹۔ محفل حرم


۱۰۔ علماءِ دیوبند اور مسئلہ ختم ِنبوت


۱۱۔ نقش کربلا


۱۲۔ دو یتیموں کا خون


۱۳۔ پہلی ملاقات


۱۴۔ دل کی آشنائی


۱۵۔ دل کی مراد


۱۶۔ نقش خاتم


۱۷۔ دہلی سے سہارنپور کا سفر


۱۸۔ آیئے حج کریں


۱۹۔ دربارک کا ہیرا


نوٹ


راقم نے علامہ ارشد القادری کے نام کئی خطوط روانہ کیے مگر روابط قائم کرنے کے باوجود مزید حالات حاصل نہ ہوسکے، اور نہ ہی علامہ کے تلامذہ کی فہرست حاصل ہوئی۔ ۱۲رضوی غفرلہٗ


حجاز کا نفرنس

لندن میں ہونے والی عظیم الشان کانفرنس جس میں غیر ممالک کے مندوہین نے کثیر تعداد میں شرکت کی، حجاز کانفرنس لندن میں علامہ ارشد القادری نے حضرت جانشین مفتی اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری قادری بریلوی دامت برکاتہم القدسیہ کے ہمراہ شرکت کی، اور اس میں اخوتِ اسلامی پر پر مغز خطاب بھی فرمایا [9]



[1] ۔ارشد القادری، مولانا: جماعت اسلامی ص۶، چند سطریں مصنف کے بارے میں از مولانا رضاء المصطفیٰ اعظمی۔


[2] ۔محمود احمد قادری، مولانا: تذکرہ علماء اہلِ سنت ص۶۷


[3] ۔محمود احمد قادری، مولانا: تذکرہ علماءِ اہلِ سنت ص۶۷


[4] ۔بدر القادری، مولانا: اشرفیہ کا ماضی اور حال ص ۹۸


[5] ۔ارشد القادری، علامہ: سکریٹری رپورٹ ص ۹،بحوالہ اشرفیہ کا ماضی اور حال، ص ۹۸، ۹۹


[6] ۔روزنامہ قوی آواز لکھنؤ ص ۳ بابت یکم مئی ۱۹۷۴ء


[7] ۔بدر الدین احمد رضوی، مولانا: سوانح اعلیٰ حضرت ص ۸تا۱۲ مقدمہ بقلم علامہ ارشد القادری رضوی


[8] ۔عبد المجتبیٰ رضوی، مولانا: تذکرہ مشائخ قادریہ رجویہ ص ۵۲۲


[9] ۔حضرت جانشین مفتی اعظم دامت برکاتہم کے حالات کے ضمن میں حجاز کانفرنس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۱۲رضوی غفرلہٗ


تجویزوآراء

Post a Comment

Previous Post Next Post