قاضی نیپال فقیہ النفس امام النحو حضرت علامہ مفتی محمد عثمان رضوی Biography Huzur Qazi e Nepal Mufti usman Razvi sahab Qibla

  

  قاضی نیپال فقیہ النفس امام النحو حضرت علامہ مفتی محمد عثمان رضوی  علیہ الرحمہ 

جن صاحبان فضل وکمال اور علماے  ربانی نے سرزمین نیپال میں حق وایمان کے پودے لگائے اور پھر لگاتار ان کی آبیاری کی ،اور جن کے احسانات سے اہل نیپال زیر بار ہیں ،انہیں خداشناسوں میں ایک ذات   قاضی نیپال فقیہ النفس حضرت مفتی محمد عثمان رضوی علیہ الرحمہ کی تھی۔ آپ کی مختصر حالات زندگی  یہ ہے:



ولادت : حضرت مفتی صاحب قبلہ کی ولادت باسعادت مدینۃ العلما بیلا لادو ،پنچایت بندھی وارڈ نمبر ۳ ضلع دھنوشا نیپال کے خاندان حاجی محمد عرف لوٹن میاں مرحوم کے نواسہ حاجی محمد یس کے دولت خانہ میں ۱۹؍ستمبر ۱۹۵۴ء کو ہوئی ۔

تعلیم وتربیت :جب آپ کی عمر مکتب جانے کی ہوئی تو گاؤں ہی میں واقع ’’ مدرسہ مظہر اسلام ‘‘ جانے لگے جہاں آپ نے حافظ محمد عین الحق، برداہا نیپال سے ابتدائی تعلیم  ،اور مولانا صغیر کنہواں سے فارسی کی تعلیم حاصل کی  ،اس کے بعد آپ دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین ،علی پٹی حاضر ہوئے اور زاہدملت﷫ سے گلستاں  اور محدث اعظم نیپال سے بوستاں  پڑھ کر مدرسہ رضویہ شمس العلوم ،باڑا سیتا مڑھی میں داخل ہوئے ،اور یوسف زلیخا ،میزان ومنشعب  سے ہدایۃ النحو تک تعلیم پائی ،پھراعلی تعلیم  کے لیے دار العلوم علیمیہ انوار العلوم ،سرکار سرکانہی ، اور دارالعلوم تیغیہ ،ماری پور مظفر پور حاضر ہوئے  اور فقیہ عصر حضرت علامہ علی احمد جید القادری کے زیر سایہ تعلیم مکمل کی ،اور ۱۹۷۲ء میں دار العلوم علیمیہ انوار العلوم ، سرکار سرکانہی شریف سے فضیلت کی سند ودستار سے شرف یاب ہوئے ،نیز بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے فاضل حدیث ،فاضل اردو ،اور فاضل فارسی  کی اسناد امتیازی نمبرات سے حاصل کیں ،ساتھ ہی فاضل حدیث میں آپ کو گولڈ میڈلیسٹ  ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔

بیعت وخلافت : ۱۹۶۸ء میں دوران تعلیم ہی سیوان میں منعقد ہونے والےسنی کانفرنس میں حضور مفتی اعظم ہند ﷫کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے ،اور صاحب سجادہ فقیہ عصر علامہ علی احمد جید القادری خانقاہ قادریہ آبادانیہ ، سرکار سرکانہی شریف ،مظفرپور  اور مولانا توصیف رضاخاں بریلی شریف نے آپ کو تحریرا وتقریرا خلافت واجازت عطا فرمائی ۔

تدریسی خدمات : آپ بچپن ہی سے ذہین وفطین تھے ،جس کے سبب آپ کے استا ذ محترم فقیہ عصر علامہ علی احمد جید القادری نے آپ کو دوران تعلیم ہی معین المدرسین کے طور پر دار العلوم علیہمیہ انوار العلوم میں تدریس کی ذمہ داری سونپ دی ،اور بعد فراغت دار العلوم تیغیہ ،ماری پور میں منصب تدریس پر مامور ہوئے ،لیکن ایک سال بعد ہی ۱۹۷۳ء میں مدرسہ غریب نواز، کٹک اڑیسہ میں بحیثیت صدر المدرسین آپ کا انتخاب ہوا ،لیکن یہاں بھی صرف دوماہ رہے کہ آپ مدرسہ انوار العلوم، کما سوتیہارا سیتا مڑھی تشریف لے آئے اور ۱۹۷۴ء تک اپنے فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے رہے ،۱۹۷۵ء میں مدرسہ اسلامیہ، گوپال گنج بہار میں خدمت تدریس سے منسلک رہے ،اور ۱۹۷۷ء میں دارالعلوم امانیہ امان الخائفین،  علی پٹی نیپال میں درس وتدریس کی ذمہ داری نبھانے کے بعد آپ دوبارہ اپنے مادر علمی مدرسہ تیغیہ ماری پور تشریف لائے ،اور ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ء تک ایک طویل مدت تک یہاں علمی ہیرے لٹاتے رہے ،پھر ۱۹۸۵کے اواخر میں مدرسہ انوار العلوم ،کما سوتیہارا تشریف لائے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے ، اور ریٹائرمنٹ کے بعد نیپال کی قدیم دینی درس گاہ جامعہ حنفیہ برکاتیہ ، جنک پور میں صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے آخری عمر میں نیپال کے مرکزی ادارہ دار العلوم قادریہ مصباح المسلمین علی پٹی شریف میں صدر المدرسین اور شیخ الحدیث کے منصب پر فائز تھے۔آپ کی دریسی خدمات پچاس سال پر محیط ہے۔

تصنیفی خدمات : آپ کی کثرت مشغولیت اور تبلیغی اسفار کے باوجود  مسلمانوں کو آپ کی بارگاہ جو  کتابیں ملیں  وہ یہ ہیں :

آئینہ حق نما، امامت کے مسائل (مطبوعہ) مسائل سجدہ، مسائل سفر، فتاوی قاضی القضاۃ نیپال (زیر ترتیب) مزید سہ ماہی سنی پیغام کے مستقل کالم "پیغام حدیث" کے مستقل کالم نگار تھے۔

ان خدمات کے علاوہ ،جواب استفتا،آل نیپال سنی جمیعۃ العلما کی نظامت ،ادارہ شرعیہ جنک پور میں دار القضا کی خدمت حنفیہ جامع مسجد ملحقہ مدرسہ حنفیہ برکاتیہ ،جانکی نگر میں نماز جمعہ کی امامت وخطابت ،ہندونیپال میں تبلیغی اسفار ،اور موبائیل وٹیلیفون کے ذریعہ آئے ہوئے سوالوں کے جوابات  وغیرہ جیسی  دینی و ملی اور مسلکی مشغولیات کی  لمبی فہرست تھی۔

اللہ سبحانہ تعالی حضرت مفتی صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی بے حساب مغفرت فرماکر  ان کے درجات بلند  فرمائے اور پسماندگان اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا کرے  اور ہم غربائے اہل سنت و جماعت نیپال کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔

 





Post a Comment

Previous Post Next Post