زبان کی بے اعتدالی: Zuban Ki Be Etidali WaJghade Ki Burayi

 زبان کی بے اعتدالی:

عورت کی ازدواجی زندگی کی ناکامی اور بدنامی کی اہم وجہ زبان کی بے اعتدالی اور بے ہودگی ہے ،بات سے بات نکالنا ،فکرے بازی،عیب جوئی،طعنہ زنی، اور باتوں کے بتنگڑ بنانا‘ خواتین کا محبوب مشغلہ ہے ۔ جب یہ چیز ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے تو وہ بے چاری اپنے خاوندوں کے سامنے بھی بد تمیزی اور بد زبانی سے باز نہیں آسکتی‘ نتیجۃً وہ ناعاقبت اندیشی کا شکار ہوجاتی ہیں۔

یاد رکھئے! ایسی اکھڑ مزاج اور بد زبان عورتیں کبھی بھی سکون اور عزت نہیں پاسکتیںبلکہ ان بیچاریوں کو ہمیشہ ذلت و رسوائی و تباہی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ اس کے برعکس اگر عورت خاموش طبع ‘سچائی پسند اور نرم لہجہ والی ہو تو صرف زبان کی مٹھاس ہی سے اپنی کئی خامیوں پر پردہ ڈال سکتی ہے اور اپنے گھر کو گلستان بنا لیتی ہے۔ایک شاعر نے اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

خذ   العفو منی    تسدیمی   مودتی 

ولا تنطقی فی سورتی حین اغضب  

’’جو کچھ میں دوں اسے قبول کرلے تو ہمیشہ میری محبت کے سائے میں رہے گی ،جب مجھے غصہ آئے تو میرے سامنے زبان نہ کھولا کر ‘‘

ہم لوگوں میں ایک رواج عا م ہوگیا ہے جو مشاہدہ میں بھی ہے کہ لڑکے شادی کے بعد بھی ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں ،ماں باپ اپنی اولاد کی شادی عمر کے اس حصہ میں کرا دیتے ہیں ‘جب وہ گھریلو ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں رکھتے پھر ماں باپ خود ہی ان کا خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں اولاد کو ماں با پ کے ساتھ اسی گھر میں رہنا پڑتاہے اس صورت میں ساس بہو کو ایک ساتھ رہنا پڑتاہے ۔

ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام طور پر دیکھنے میں آتاہے کہ اگر کوئی لڑکااپنی بیوی کو لیکر اپنے والدین سے الگ ہوجائے تو لوگ اسے برا ،بیوقوف، کم عقل ،نادان سمجھتے ہیں ۔لوگوں کا یہ طرز ماں باپ کے لئے دکھ کا باعث ہے۔جن کی محبت یہ گوارا نہیں کرتی کہ جس بچے کو بچپن سے پال پوس کر بڑا کیا ‘وہ ایک دم سے ماںباپ کو تنہا چھوڑ کر چلا جائے اور یہ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے‘ کیونکہ ماں باپ بیٹے کی شادی ہزاروں تمناؤں کو لیکر کرتے ہیں۔جب ان کی اولاد دیکھنے کا موقع آئے وہ ان سے الگ ہوجائے۔اگرچہ بعض علماء اس علیحدگی کو محبوب خیال کرتے ہیں،اور علت ان کی بھی بجا ہے۔

شاید ہی کوئی خوش نصیب بہو ہو جو اس مصیبت سے بچ جائے ورنہ ہر ایک بہوکو اس مصیبت سے گزرنا پڑتاہے۔کیونکہ جب ایک ہی گھر میں ایک ساتھ رہنا ضروری ہوگا تو یقینا آپس میں جھگڑے اور فساد ہوں گے۔

جھگڑا اور تکرار انتہائی بری چیز ہے:

لڑائی جھگڑے کے بارے میں زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں ‘ سب جانتے ہیں کہ لڑائی کسی کے بھی ساتھ ہو یہ اچھی چیز نہیں،لڑائی جھگڑے کی وجہ سے آپس کا اطمینان‘ سکون اور راحت ختم ہوجاتاہے ، دونوں فریقوں کے دلوں میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا ہمیشہ خطرہ رہتاہے،خاص طور پر اگر یہ لڑائی’’ میاں بیوی ،ساس بہو‘‘ کے درمیان ہوتو گھر کا سکھ‘ چین ختم ہوجاتاہے ۔

جن گھروں میں اس قسم کی لڑائیاں ہوں ان میں مصیبتوں اور تکلیفوں کے علاوہ کچھ نہیںہوتا‘ ایسے گھروں میں رہنا دوزخ میں رہنے کے برابر ہے ، آرام اور اطمینان ختم ہوجاتاہے ‘ہر وقت ایک ہی خیال دل میں آتا ہے کہ اس نے یہ کیوںکہا،یہ طعنہ کیوںدیا،آخر میرا قصور کیا تھا  ’’ آئندہ میں بھی دکھا دوں گی…‘‘

ساس کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ بیٹے اور بہو میں محبت نہ بڑھے ، اور بہو کی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح ساس کو نیچا دکھائے ۔اگر یہ طریقہ کارگر نہ ہو تو پھر عاملوں اور کاہنوں کا سہارا لیا جاتاہے۔  

ان تمام جھگڑوں میں شوہر کے لئے ایک عجیب کشمکش ہوتی ہے کہ ایک طرف تو ماں ہے جس کے بے شمار حقوق اس کے سامنے ہیں  ،اگر وہ ان حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے ماں کی طرف داری کرے تو یہ بات بیوی کے لئے نا پسندیدہ ہے ۔دوسرے طرف بیوی ہے جس کے ساتھ ساری زندگی گزارنی ہے اگر اس کی طرف داری کرے تو ماں اس کو برا سمجھتی ہے۔

اس تمام صورت حال میں شوہر ذہنی طور پر لاچار ہوجاتاہے اور آخر کار وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپاتا کہ ایک طرف ماں ہے اور دوسری طرف بیوی وہ کس کا ساتھ دے؟

ان تمام جھگڑوں سے نمٹنے کے لئے کوئی ایسی صورت تلاش کرنی چاہئے کہ ساس بہو کا جھگڑا بھی ختم ہوجائے اور دونوں کے درمیان      نا اتفاقی بھی پیدا نہ ہو اور آپس کا حسد اور بغض بھی ختم ہوجائے ۔اس کے لئے سب سے پہلے جھگڑے کے اسباب تلاش کئے جائیں پھر ان تدابیر کو سوچاجائے جن کے ذریعے ان جھگڑوں کو روکا جاسکے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post