جھگڑے کے اسباب ساس اور بہو کی طرف سے اور اس کا حل Jaghde Ke Asbab Saas Aur Bahu Ki Taraf Se

 جھگڑے کے اسباب ساس کی طرف سے:

ساس کی طرف سے جھگڑوں کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں ،سب سے اہم سبب دین سے دوری ہے ،جب گھروں میں دین ہوگا ‘احکام الہی پر عمل ہوگا تو جھگڑے اور فساد خود بخود ختم ہوجائیں گے۔

پہلا سبب:

قدرتی طور پر ساس کے ذہن میں یہ بد گمانی پیدا ہوتی ہے کہ جس بیٹے کو میں نے بچپن سے جوانی تک پالا یہ نئی آنے والی لڑکی اس پر قبضہ کرلے گی اور یہ میرے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

دوسرا سبب:

ساس اپنے گھر کی مالک ہوتی ہے،اپنی مرضی سے گھر کے تمام کام انجام دیتی ہے ،بہو کے آنے کے بعد یہ خدشہ اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ گھر میں میرا تسلط ختم ہوجائے گا اور ہر کام بہو کی مرضی سے ہوگا ‘ جس سے اس کی عزت کم پڑ جائے گی۔

تیسرا سبب:

ساس اپنے خاوند کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کی کمائی پر بھی قبضہ چاہتی ہے ،جبکہ بہو اس میں سے اپنا حصہ چاہتی ہے جو کہ ساس کے لئے ناقابل برداشت ہوتاہے ۔

چوتھا سبب:

ساس کے دل میں اکثر یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ بہو میرے گھر کی چیزیں والدین کے گھر بھیجتی ہے ۔

پانچواں سبب:

ساس اپنا زمانہ بھول جاتی ہے کہ وہ بھی ایک بہو تھی اوراس کی ساس کا اس کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا ،اگر وہ اپنا زمانہ یاد رکھے تو وہ اپنی بہو کو بھی ایک انسان سمجھے گی اور اس سے اچھا سلوک کرے گی ۔

چھٹا سبب:

جب بھی کسی معاملہ میں ذرہ سا وہم ہوجائے تو پھر بدگمانیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اور اس سے نئی نئی باتیں بننا شروع ہوجاتی ہیں۔

ساتواں سبب:

بہت سی ساسیں تلخ مزاج ہوتی ہیں اور اپنی اس تلخ مزاجی کی وجہ سے نہ خود آرام سے رہتی ہیں اور نہ ہی بہو کو رہنے دیتی ہیں،ہربات پر طنز کرتی ہیں، بہو کب تک صبر کرے گی ،وہ بھی مجبوراً جواب دیتی ہے ،نتیجۃً جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں ۔

نندوں کی ناراضگی کی وجہ:

یہی حالت نندوں کی بھی ہے کہ بھابی کے گھر میں آنے کے بعد وہ ماں کے زمانے کی طرح آزاد نہیں رہتیں ،وہ گھر کی کسی چیز کو آزادانہ طور پر استعمال نہیں کرسکتیں ‘اس خوف کی وجہ سے کہ بھابی کچھ کہہ نہ دے،اور یہ بات ان کی طبعیت کے خلاف ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے وہ بھی بھابی سے نفرت کرتی ہیں اور ماں اور بھائی کو اس کے خلاف ابھارتی ہیں ،اور خود بھی اس سے جھگڑتی ہیں ۔

لڑائی جھگڑے کے اسباب بہو کی طرف سے:

بہو ایک نادان اور ناتجربہ کار لڑکی ہوتی ہے جو گھریلو امور میں کسی قسم کا تجربہ نہیں رکھتی کہ کس بات پر بولا جائے‘ کس بات پر خاموش رہا جائے، اور کس طرح بڑی بات کو معمولی بنایا جائے، ان چیزوں کو نہیں سمجھتی۔وہ ہمیشہ اپنے خاوند کو اپناتابعدار ہی دیکھنا چاہتی ہے،ساس یا کسی اور کا تابعدار ہو یہ اس کو گوارا نہیں۔ 

وہ اس بات کو بخوبی جانتی ہے کہ ساس میرے ہر کام کی نگرانی اور اس پر نکتہ چینی کرے گی ،وہ اس طرح سمجھتی ہے کہ ساس بھی میری طرح اس گھر میں بہو بن کر آئی تھی ‘جتنا اختیار اس گھر پر اُس کا  ہے‘ اُتنا میرا بھی ہے، میں اس گھر میں غلام بن کر نہیں آئی ،اگر وہ مجھے برا بھلا کہے گی تو میں بھی کہوں گی۔

اس کی سہیلیاں اس کو یہ سبق پڑھاتی ہیں اگر تو ایک بار ساس کے سامنے جھک گئی تو ہمیشہ جھک کر ہی رہنا پڑے گا۔نتیجۃً وہ اپنے دماغ میں جھک کر رہنے تک کا خیال بھی نہیں آنے دیتی ۔

عمومی طور پر جھگڑوں کے اسباب یہی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بد گمانیاں پیدا ہوتی ہیں ،اور یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ایک دن بڑے طوفان کا منظر پیش کرتی ہیں،اور آخر کار نہ ختم ہوجانے والے جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں، جو محلے داروں اور رشتہ داروں کے لئے ایک تماشہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔

ساس کو کیا سمجھنا چاہئے:

ساس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بہو کو ایک انسان سمجھے جس کے پہلو میں دل ہے اور اس کی بھی کچھ امیدیں ہیں ،وہ ہمیشہ کے لئے اپنے گھر کو چھوڑ کر آئی ہے اور اسی گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہے ،بہو اس کے بیٹے کی عزت ہے غلام نہیں۔ 

شوہر کے اس پر حقوق ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف سے عطا کردہ ہیں ‘اس کو بھی دکھ کا ایسا احساس ہوتا ہے جیسا کہ ساس کو ۔ساس بھی کبھی بہو تھی‘ جیسا سلوک وہ اپنی ساس سے چاہتی تھی ایسا ہی سلوک اس کی بہو اس سے چاہتی ہے‘ کیونکہ ساس اپنی زندگی کا ہر عیش و آرام حاصل کر چکی ہے ۔

آپ سسرال کو اپنا گھر سمجھئے:

جب کوئی لڑکی نئی بیاہ کر کسی خاندان میں آتی ہے تو وہ اس گھر میں بالکل اجنبی ہوتی ہے آج سے پہلے یہاں اس کا کوئی مقام ‘ اس کی کوئی اہمیت اور اس کا کوئی حق نہ تھا‘ لیکن ایجاب قبول کے دو جملوں کے ساتھ ہی اہل خانہ میں سب سے زیادہ اہمیت اسی کی ہوتی اور سب سے زیادہ حقوق اسی کے ہوتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جب تک وہ نئی نویلی دلہن رہتی ہے اس وقت تو لوگ اس کی اہمیت کے گن گاتے ہیں ‘ اسے اپنی آنکھوں میں بٹھاتے ہیں ‘ اور خوش ہوتے ہیں۔ کہ ان کے گھر ایک نئی دلہن آگئی لیکن یاد رکھئے گا !ان کی نگاہوں میں آپ کا ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل کر لینا انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ‘اگر چہ وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بظاہر  کر نہیں پاتے ۔ لیکن حقیقت یہی ہوتی ہے ۔

یہی چیز انہیں سب سے پہلے دلہن کی عیب جوئی پر مجبور کرتی ہے تاکہ وہ اس کی اہمیت کو گھٹا سکیں اور دلہے کی نظروں میں اسے جھکا سکیں۔ چند دن گزرنے کے بعد کوئی تو اس کے ناک نقشے پر اعتراض کرتاہے ‘ کوئی جہیز اور زیور میں کیڑے نکالنے لگتاہے‘ اور کسی کو ان دو دنوں میں ہی اس کی طبعیت اور مزاج کی خرابی دکھائی دینے لگتی ہے۔ 

دلہن کا کامل بھروسہ دولہا پر ہوتاہے‘ وہ یہ خیا ل کرتی ہے کہ اس کے شوہر کی آمدنی پر گھر والوں کا بہت کچھ دار و مدار ہے ۔لہذا اس کا سہارا جس کو حاصل ہوگا ‘مضبوط سہارا ہوگا‘ یوں دو محاذ قائم ہوجاتے ہیں اور حقوق کی جنگ شروع ہوجاتی ہے ۔

اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ دلہن میں یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ ڈولی سے اترتے ہی یہ خیال دل سے نکال دے کہ وہ غیر گھر میں قدم رکھ رہی ہے۔ اسے ذہن میں یہ وسوسہ بھی نہیں لانا چاہئے کہ وہ جن لوگوں کے درمیان جارہی ہے وہ یقینا اس کے ساتھ ناروا سلوک رکھیں گے ۔وہ اس کی بد گوئی اور مخالفت کریں گے ۔

اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ تمام انسانوں کی فطرت یکساں نہیں ہوتی ‘مزاج یکساں نہیں ہوتے ۔ہوسکتا ہے کہ سسرال والوں میں سے کوئی تنگ مزاج بھی ہو ۔آپ اپنے مد نظر اس بات کو رکھیں کہ آپ نے ان کی اچھائیوں کو لینا ہے ‘برائیوں سے چشم پوشی کرنی ہے ۔ 

آپ ان کے کسی ناپسندیدہ سلوک کا جواب ناپسندیدہ سلوک سے نہ دیں ۔بلکہ ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ان کے ساتھ خلوص اور محبت کا سلوک کریں ۔ آپ کا یہ سلوک انہیں اپنی عادات بدلنے پر مجبور کردے گا۔ 

دوسری گزارش یہ ہے کہ سسرال کو قطعاً غیر گھر تصور نہ کیا جائے ۔ کیونکہ آپ اسی کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارنے کا عہد کر چکی ہیں اور اسی عہد نے آپ کو ایک ذمہ دارانہ حیثیت دے دی ہے ۔ یہ گھر تو وہ ہے جہاں آپ کو اپنی پوری زندگی گزارنی ہے ‘یہاں آپ نے اگر کسی کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا تو دلوں میں میل بیٹھ جائے گا‘ پھر یہ منافرت گھر پکڑ لے گی۔ 

’’بہو نے آکر لڑکے کا دل پھیر دیا‘‘

زندگی کا یہ دور جس سے آپ گزر رہی ہیں جذبات کا دور ہوتاہے ، عقل کا استعمال نہ صرف کم بلکہ جذبا ت کے استعمال کے بعد ہوتاہے ، دولہا کو بھی اپنی دلہن سے جذباتی لگاؤ ہی ہوتاہے ، چنانچہ شادی کے بعد جو چیز بڑی صراحت سے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے گھر والوں کے درمیان گھل مل کر بیٹھنے والا لڑکا‘ اب سارا وقت دلہن کے ساتھ ہی گزارتاہے۔ شادی سے پہلے وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا‘ والدین کی فکر کیا کرتا تھا‘ ان کی خدمت کے لئے ہر وقت مستعد رہتا تھا‘ لیکن اب یک دم ایسا ہوا ہے کہ اس کے پاس ان کے لئے وقت ہی نہ رہا ۔

ادھر دلہن اپنی جگہ پر مطمئن ہوتی ہے کیونکہ اسے دولہا کے خلوص و محبت کا ضرورت سے زیادہ ثبوت مل رہا ہوتاہے ، مگر ذرا ان گھر والوں کے بھی خبر لیجئے کہ جنہیں دلہن کے لانے کے شوق نے بے تاب کر رکھا تھا  اب اسی دلہن کی وجہ سے وہ اپنے لڑکے کا منہ پھرا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

سچ بات تو یہ ہے کہ اس میں نہ تو دولہا کی غلطی ہوتی ہے اور نہ ہی دلہن کی ، بلکہ وہ تو دونوں جذبات کے دھارے میں بہہ رہے ہوتے ہیں 

اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ دلہن خود اپنے شوہر کوتوجہ دلائے بلکہ خود بھی اس طرف توجہ دے ،اور پہلے دن ہی سے آپ یہ کوشش کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے سسرال والوں کو یہ بد گمانی نہ ہونے پائے کہ بہو نے آکر لڑکے کا دل پھیر دیا۔نہ تو انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ لڑکے کی محبت میں کمی آگئی ‘بلکہ لڑکے کی محبت کے ساتھ انہیں بہو کی سعادت مندی اور محبت بھی میسر آنی چاہئے ۔تاکہ انہیں اطمینان کے ساتھ بے حد مسرت بھی ہو ۔

اس کا حل بہت ہی آسان ہے …بس … ذرا سی قربانی کی ضرورت ہے آپ دونوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اب آپ کا رشتہ بے حد پائیدار ہے اور اس تعلق کو صرف موت ختم کرسکتی ہے ۔لہذا اس وقت ضرورت سے زیادہ لگاؤ کا اظہار کرنا اور دوسرے گھر والوں کو نظر انداز کرنا ‘سراسر جذباتی ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اس وقت کے لگاؤ کو معمول پر لایا جائے ، یہ بات بھی مد نظر رکھئے کہ ضرورت سے زیادہ خلوص اور  لگاؤ کا اظہار بسااوقات نرا بناوٹی رہ جاتاہے اور جلد ہی ایک دوسرے کو بیزار کردیتاہے ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post