مُلّا نصرالدین Mulla Nasruddin

 مُلّا نصرالدین

ملا نصرالدین کے گاؤں میں ایک اونچی جگہ تھی جہاں رات کے وقت تیز ہوائیں اور انتہائی سردی ہوتی تھی۔
ملا کے دوستوں نے کہا:
ملا ، اگر آپ رات کو اُس پہاڑی پر آگ کے استعمال کے بغیر ٹھہر سکتے ہیں ، تو ہم آپ کو ایک سونے کا سکہ دیں گے ، بصورت دیگر آپ ہم سب کو ایک دن کا کھانا کھلانا پڑے گا
ملا نصرالدین نےہامی بھر لی ،
رات وہاں گئے صبح تک اس پہاڑی پر رہے اور سردی برداشت کی
اور جب وہ صبح آئے تو انھوں نے دوستوں سے کہا :
میں جیت گیا ہوں اب مجھے سونے کا سکہ دیں۔
وہ بولے:
ملا ، کیا تم نے آگ استعمال نہیں کی؟
ملا نے کہا: " نہیں ، صرف دُور ایک گھر میں کھڑکی کے آس پاس روشنی تھی اور یہ واضح تھا کہ وہاں ایک شمع روشن تھی "
دوستوں نے کہا:
" اُسی آگ کی وجہ سے آپ کو سردی نہیں لگی لہذا اب آپ ہار چکے ہیں اور ہمیں ایک دن کا کھانا کھلانا ہو گا "
ملا نصرالدین کچھ سوچتے ہوئے مان گئے اور مقررہ دن آنے کا کہا
دوست اُن کے گھر آئے ، لیکن کھانے کا کوئی انتظام نہیں تھا
انہوں نے کہا:
" ملا ، ایسا لگتا ہے کہ کھانا نہیں ہے "
ملا نے کہا:
" نہیں ایسا نہیں ہے کھانا صرف ابھی تک تیار نہیں ہوا ہے "
دو تین گھنٹے کے بعد دوستوں نے پھر پوچھا
ملا نے کہا:
" ابھی تک پانی اتنا نہیں ابلا کہ میں اس میں چاول ڈال سکوں "
سب دوست باورچی خانے میں گئے یہ دیکھنے کےلئے کہ پانی کیوں نہیں ابل رہا
انہوں نے دیکھا کہ ملا نے اونچی جگہ پر برتن رکھا ہوا ہے اور نیچے ایک چھوٹی موم بتی رکھی ہوئی ہے
انہوں نے کہا:
" ملا ، یہ چھوٹی موم بتی بڑے سائز کے ایک برتن کو دو میٹر کے فاصلے سے گرم نہیں کر سکتی آگ بڑھانی ہوگی اور برتن کو بھی نزدیک کرنا پڑے گا "
ملا نصرالدین نے کہا:
" یہ کچھ فاصلے پر رکھی موم بتی پانی کو گرم نہیں کر رہی تو پھر اُس دن بہت دُور پڑی شمع مجھے سردی سے کیسے بچا سکتی تھی جب تک پانی اُبل نہ جائے اور کھانا تیار نہ ہو کوئی گھر نہیں جائے گا سب کھانے کا انتظار کریں۔

Post a Comment

Previous Post Next Post