حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش) قسط نمبر 14 Hijaz Ki Aandhi Part 14-

 حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش)

قسط نمبر 14

ان سب کے پاس چھوٹی چھوٹی مشعلیں تھیں۔ جلتی ہوئی مشعلوں کے شعلوں نے رات کو دن بنا دیا تھا۔ لیکن جہاں دور دور تک لاشوں اور کراہتے ہوئے زخمیوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا ‘وہاں مشعلوں کے ناچتے پھڑ پھڑاتے شعلے کچھ ڈراؤنے اور پراسرار لگتے تھے۔ مرد ہتھیار اکٹھے کر رہے تھے ۔لاشوں کے کمر بند کھول کر تلاشی لے رہے تھے اور عورتیں لاشوں کے چہرے دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں ۔گیدڑ اور بھیڑیئے وغیرہ الگ لاشوں کو نوچ رہے تھے ۔کبھی کبھی کسی عورت کی چیخ سنائی دیتی اور ساتھ یہ پکار۔ ’’میرا بیٹا! ہائے میرا بیٹا۔‘‘ ایسے ہی کسی بیوی کو اپنے خاوند کی لاش مل جاتی تو وہ واویلا بپا کر کے اپنے ساتھ آئے ہوئے مردوں کو پکارنے لگتی۔ کسی بہن کو اپنے جوان بھائی کی لاش نظر آجاتی تو وہ سینہ کوبی شروع کر دیتی۔
منظر ہولناک تھا ۔ دلوں پر ہیبت طاری ہو رہی تھی۔
بار سماء کی ایک نوخیز لڑکی جس کی عمر سولہ سترہ سال ہو گی‘ ہاتھ میں مشعل لیے اپنے بڑے بھائی کو ڈھونڈ رہی تھی۔ اس کا باپ بھی ساتھ آیا تھا اور اس کی ماں بھی آئی تھی ۔وہ الگ الگ ہو کر لاشوں کے چہرے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد تینوں اکٹھے ہوئے۔
’’تم میری بات کیوں نہیں مانتیں؟‘‘ باپ نے لڑکی اور ا س کی ماں سے کہا۔’’ وہ سقاطیہ کی لڑائی میں مارا گیا تھا ۔ بتانے والوں نے ٹھیک ہی بتایا تھا۔ تم اسے ڈھونڈنے یہاں آگئی ہو۔‘‘
’’بتانے والوں نے شک میں بتایا تھا۔‘‘ ماں نے کہا۔’’ ہو سکتاہے وہ آج کی لڑائی میں مارا گیا ہو۔‘‘
’’تھوڑی دیر اور دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ لڑکی نے باپ سے کہا۔
’’دیکھو……دیکھو۔ ‘‘باپ نے جھنجھلا کر کہا۔’’ جاؤ دیکھو۔‘‘
ایک ماں تھی‘ دوسری بہن تھی۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا ۔ وہ پھر الگ الگ ہو گئیں اور جھک جھک کر چہرے دیکھنے لگیں۔
کچھ دیر بعدلڑکی ایک لاش کے پاس رک گئی۔ لاش زمین پر پڑی ہوئی نہیں تھی بلکہ اس کی پیٹھ ایک درخت کے تنے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اور ٹانگیں آگے کو تھیں۔ جیسے زندہ آدمی درخت کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھا ہوا ہو۔ اس کی ایک ٹانگ کی ران پر کپڑا لپٹا ہو اتھا جو خون سے لال تھا ۔دوسری ٹانگ کے ٹخنے پر کپڑا لپٹا ہوا تھا۔ وہ یقینا مرا ہو اتھا اور وہ فارسی نہیں عربی تھا۔ لڑکی چونکہ فارس کی رہنے والی تھی۔ اس لیے اسے عربی مسلمان کے ساتھ کو ئی دلچسپی اور ہمدردی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ لیکن لڑکی نے مشعل اور آگے کی اور ا س مسلمان کا چہرہ غور سے دیکھنے لگی۔
لڑکی ا س کے پاس بیٹھ گئی اور مشعل ذرا اور آگے کی ۔لاش کا چہرہ اس طرح ایک طرف مڑ گیا جیسے زندہ آدمی نے شعلے کی تپش سے بچنے کیلئے چہرہ موڑ لیا ہو۔ پھر ا س کے ہاتھ کو حرکت ہوئی اور اس کے ہونٹوں سے سسکی نکلی۔’’ پانی!‘‘
’’زندہ ہے۔‘‘ لڑکی کے منہ سے بے اختیار آواز نکلی اور اس نے مشعل پیچھے کر کے پوچھا۔’’ زندہ ہو؟‘‘
زخمی نے منہ اس کی طرف کرکے سر کے اشارے سے بتایا کہ وہ زندہ ہے اور اس کے ایک بار پھر پانی مانگا۔
لڑکی اِدھر اُدھر پانی ڈھونڈنے لگی۔ وہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔ سپاہی اپنے ساتھ پانی کی چھاگلیں)چھوٹے چھوٹے مشکیزے(رکھا کرتے تھے۔ لڑکی کو ایک چھاگل مل گئی جو اس نے اٹھائی۔ دوڑتی ہوئی زخمی تک پہنچی اور اس کے منہ کے ساتھ لگا دی۔
’’کسے پانی پلا رہی ہو زمرّد!‘‘ایک آدمی کی آواز گرجی۔’’ یہ عربی ہے۔ ہمارا سپاہی نہیں، مسلمان ہے۔ ہٹو آگے سے!‘‘
وہ آدمی تلوار تان کر اس زخمی کو قتل کرنے کیلئے آگے بڑھا۔ لڑکی جس کا نام زمرد تھا۔ اپنے دونوں بازو پھیلا کر زخمی مسلمان کے آگے ڈھال بن گئی۔
’’نہیں چچا!‘‘زمرد نے کہا۔’’ تم اسے بھول گئے ہو ۔ میں نہیں بھول سکتی۔ اس نے میری بے عزتی کا انتقام لیا تھا۔ میں نے اسے پہچان لیا ہے۔‘‘
’’تو اس کا کیا کرو گی؟‘‘ چچا نے پوچھا۔’’ اسے یہیں رہنے دو، میں اسے نہیں مارتا۔ خود ہی مر جائے گا۔‘‘
’’میں اسے مرنے نہیں دوں گی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میری مدد کرو چچا!‘‘
’’کیا مجھے مروانا چاہتی ہو؟‘‘چچا نے کہا۔ ’’کسی فوجی نے دیکھ لیا کہ ہم ایک عربی کی مدد کر رہے ہیں تو وہ اس کے ساتھ ہمیں بھی مار ڈالے گا۔‘‘
’’پھر تم یہاں سے چلے جاؤ چچا!‘‘ زمرد نے کہا۔
٭

پہلے بیان ہو چکا ہے کہ معرکہ جسر سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے مثنیٰ بن حارثہ نے فارس کے ایک قصبے بار سماء کو گھیرے میں لے کر اعلان کیا تھا کہ فارس کے جو فوجی یہاں موجود ہیں وہ باہر آجائیں۔ بارسماء فارس کا ہی قصبہ تھا۔ ایک لڑائی میں مسلمانوں نے فارسیوں کو بہت بری شکست دی تو فارس کے کچھ فوجی بھگوڑے قریبی بستیوں میں جا چھپے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کا لشکر ان بستیوں میں نہیں پہنچا تو انہوں نے اپنے ہی لوگوں کے گھروں کولوٹنا اور نوجوان لڑکیوں کو بے آبرو کرناشروع کر دیا۔
سپہ سالار ابو عبید ابھی زندہ تھے۔ ان کے پاس ان بستیوں کے فریادی آئے اور بتایا کہ ان کے اپنے ہی بھگوڑے فوجی انہیں پریشان کر رہے ہیں۔ ابو عبید نے کہا جہاں اسلا م کا سایہ پہنچ گیا ہے وہاں کے لوگوں کی عزت اور جان و مال کی حفاظت مسلمانوں کی ہی ذمہ داری ہے۔ ابو عبید نے مثنیٰ اور سلیط ؓبن قیس کو ان بستیوں میں بھیجا کہ فارس کے فوجیوں کو گرفتار کر کے لے آئیں اور ان سے لوٹا ہوا مال لے کر لوگوں کو واپس دے دیں۔
مثنیٰ بار سماء نا م کی ایک بڑی بستی میں گئے تھے اور فارس کے فوجیوں کو باہر نکال دیا تھا۔ مثنیٰ نے بستی کے لوگوں سے کہا تھا کہ ان فوجیوں میں سے کسی نے کسی عورت کی آبروریزی کی ہو تو اسے پہچانو۔
کم و بیش بیس فوجیوں کو لوگوں نے پہچان کر آگے کر دیا۔ مثنیٰ بن حارثہ نے ایک فوجی کو اور آگے کر کے اسے گھٹنوں کے بل بٹھا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اس نے جس عورت کی آبروریزی کی ہے وہ عورت آگے آئے۔
ایک نوخیز لڑکی اپنے باپ کے ساتھ آگے آئی ۔مثنیٰ نے اپنی نیام سے تلوار نکال کر لڑکی کو دی اور فوجی کی گردن جھکا کر اس لڑکی سے کہا کہ وہ اس کی گردن اپنے ہاتھوں سے کاٹ کر اپنی بے عزتی کا انتقام لے۔ لڑکی کی عمر بمشکل سولہ سال تھی ۔ اس نے مثنیٰ کے ہاتھ سے تلوار لے کر فوجی کی گردن پر رکھی اور دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائی لیکن لڑکی کے ہاتھ کانپنے لگے اور ا س کے بھولے بھالے چہرے کا رنگ پیلا پڑ گیا ۔ایک انسان کی گردن کاٹنا تو دور کی بات ہے اس لڑکی نے کبھی تلوار ہاتھ میں نہیں لی تھی۔ ا س نے تلوار نیچے کر کے مثنیٰ کی طرف بڑھا دی۔ او ر رونے لگی۔



اچانک ایک مجاہد جس کی عمر بیس بائیس سال تھی۔دوڑتا ہو اآگے آیا۔ اس نے نعرہ لگایا۔’’ اس لڑکی کا انتقام میں لوں گا۔‘‘ اس کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس نے ایک ہی وار سے فارسی فوجی کا سر تن سے جدا کر دیا۔ پھر ا س نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’ ہم تمہاری عزت کے محافظ ہیں۔‘‘ وہ جس تیزی سے آیاتھا ‘اسی تیزی سے واپس اپنی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا۔
لڑکی اسے حیرت زدہ نظروں سے دیکھتی رہی۔ اس کے بعد کم و بیش بیس فارسی فوجیوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔ لوگوں نے محوت سے یہ تماشہ دیکھا لیکن لڑکی عرب کے اسی نوجوان کو دیکھتی رہی جس نے اس کی بے عزتی کا انتقام لیا تھا۔
عرب کا یہ خوبرو نوجوان صہیب القدر تھا اور صہیب ثقفی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا ۔وہ ابو عبید شہید کے قبیلہ بنو ثقیف میں سے تھا۔ ا س کی شہرت غیر معمولی شجاعت کی بدولت تھی۔ معرکہ جسر میں اس نے شجاعت کے جوہر دکھائے تھے ۔ہاتھیوں کے ہودوں کی رسیاں کاٹنے میں وہ پیش پیش تھا۔ اس نے دو ہاتھیوں کے پیٹ تلوار سے چاک کر دیئے تھے۔



صہیب ثقفی اس وقت زخمی ہوا تھا جب مثنیٰ اپنے بچے کھچے مجاہدین کو میدانِ جنگ سے نکال کر پل سے گزار رہے تھے۔ صہیب ثقفی اپنے ساتھیوں کے ساتھ فارسیوں کو پل سے دور رکھنے کیلئے لڑ رہاتھا۔ اسے اپنے ساتھیوں کی طرح ذرا پیچھے رہنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ بہت آگے نکل گیا تھا ۔ایک فارسی کی تلوار نے اس کی ران اس طرح کاٹ دی کہ تلوار گوشت کو کاٹتی ہوئی ہڈی کے قریب جا رُکی۔ اس نے فارسی کو تو ختم کر دیا لیکن خود گر پڑا اور ایک گھوڑے کا پاؤں اس کے ٹخنے پر آگیااور وہاں سے کھال اتر گئی۔ ابھی معلوم نہیں تھا کہ وہاں سے ہڈی ٹوٹی تھی یا نہیں لیکن یہ پاؤں زمین پر ٹکتا نہیں تھا۔
اس نے اپنے لشکر کے تین ہزار مجاہدین کو تو دریا پار کروا دیا لیکن خود وہاں سے نہ نکل سکا۔ زخموں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا اور زخمی پاؤں جسم کا بوجھ لیتا ہی نہیں تھا۔ صہیب ایک درخت کے نیچے جا کر گر پڑا اور یوں دم سادھ لیا جیسے مر گیا ہو ۔ پھر دونوں طرف کی فوجیں چلی گئیں تو صہیب نے قریب پڑی ہوئی ایک لاش کی کمر کے گرد لپٹا ہوا کپڑا کھولا جو آدھی چادر کے برابر تھا اور اپنے زخموں پر کس کر باندھ لیا۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن کھڑا نہ رہ سکا۔جسم کا خون ختم ہو رہا تھا۔

وہ ایک درخت کے ساتھ پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا، اور موت کا انتظار کرنے لگا۔اس کے ہونٹ اﷲ کے کلام کے ورد میں ہل رہے تھے لیکن پیاس نے اس کے جسم کی ساری نمی چوس لی تھی اور حلق ایساخشک ہوا جیسے حلق میں کانٹے چبھ رہے ہوں۔ اس کے اثر سے اس کے ہونٹوں کی حرکت بند ہو گئی تھی اور پھر اسے غشی کے دورے پڑنے لگے۔ اس نے موت کو قبول کر لیا تھا اور یہی اس کیلئے باعثِ اطمینان و سکون تھا لیکن زخموں کا درد اسے بہت پریشان کر رہا تھا۔
پھر وہ ایسا بے ہوش ہوا کہ ہوش میں آنے کا امکان ہی ختم ہو گیا۔
زمرد کی مشعل کے شعلے کی تپش تھی جو اسے ہوش میں لے آئی تھی اور اس کے پتھر جیسے خشک ہونٹوں سے سسکی نکلی تھی۔ پانی۔ زمرد نے اسے مرا ہوا سمجھ کر مشعل ا سکے چہرے کے اتنی قریب کر دی تھی کہ صہیب ثقفی نے چہرہ پرے کر لیاتھا اور پوری طرح ہوش میں آگیاتھا۔
زمرد بارسماء کی وہی لڑکی تھی جو ایک فارسی فوجی کی گردن پر تلوار نہیں چلا سکی تھی اور یہ کام صہیب نے اپنی تلوار سے کر دیا تھا۔ جتنی دیر صہیب وہاں موجود رہا زمر داُسی کو دیکھتی رہی تھی اور جب یہ خوبرو عرب نوجوان وہاں سے چلا گیا تو زمرد اسے تصور میں دیکھنے لگی۔ اور یہ پرنور چہرہ ہر وقت ا س کے سامنے رہنے لگا۔


اس رات زمرد اس شک پر جسر کے میدانِ جنگ میں گئی کہ ہو سکتا ہے اس کا بھائی زخمی یا مردہ مل جائے تو اس کی نظر اس چہرے پر پڑی جو اس کے ذہن میں نقش ہو گیا تھا ۔ جہاں سب چہرے ایک جیسے لگتے تھے اور ہر چہرے پر موت کا ایک ہی جیسا سایہ تھا۔ وہاں دو چار قدم دور سے کسی چہرے کو پہچاننا ممکن ہی نہ تھا۔ لیکن زمرد نے صہیب کو پہچان لیا۔
صہیب ثقفی کے جسم میں پانی گیا تو اس کے ہوش ٹھکانے آگئے اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔
’’کون ہو تم؟‘‘صہیب ثقفی نے زمرد سے پوچھا۔’’تم عربی نہیں ہو۔‘‘
’’عربی نہیں ہوں، لیکن عربی بول سکتی ہوں۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ بارسماء کی رہنے والی ہوں، تمہیں جانتی ہوں۔‘‘
’’کیسے؟‘‘صہیب نے کہا۔’’ میں تمہیں نہیں جانتا۔‘‘
زمرد نے اسے وہ واقعہ یاد دلایا۔
’’تم مجھے بہت یاد آتے رہے ہو۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ تم نے اس شیطان کی گردن کاٹ کر میرے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور کہا تھا کہ ہم تمہاری عزت کے محافظ ہیں ۔ہم تو سمجھتے تھے کہ ہماری فوج ہماری عزت کی محافظ ہے لیکن ہمارے محافظوں نے ہی ہماری عزتیں لوٹیں……‘‘
’’یہ وقت باتوں کا تو نہیں۔ مجھے بتاؤ تمہیں کس طرح بچا سکتی ہوں؟میں تمہیں یہاں پڑا رہنے نہیں دوں گی۔‘‘
’’مجھے میرے لشکر تک پہنچا دو۔‘‘ صہیب نے کہا۔’’ لیکن یہ کام تم نہیں کر سکو گی۔‘‘
’’میں تمہیں بار سماء لے جاؤں گی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ اپنے گھر رکھوں گی۔‘‘
’’کسی فارسی فوجی نے دیکھ لیا تو وہ میرے ساتھ تمہیں بھی قتل کر دے گا۔‘‘ صہیب نے کہا۔’’ تم جاؤ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں کچھ دیر کامہمان ہوں۔میری آنکھیں صبح کا سورج نہیں دیکھ سکیں گی۔ میں مرتے وقت تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘
لڑکی فوراً اٹھی اور یہ کہہ کر چلی گئی ۔’’ آتی ہوں!‘‘
وہ ایک گھوڑے پر سوار جلد ہی آگئی۔ کود کر اتری اور صہیب کو اٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔
’’ہمت کرو اور اٹھو۔‘‘ اس نے کہا۔’’ایک بار گھوڑے پر سوار ہو جاؤ لیکن بہت جلدی ، یہ میرے چچا کا گھوڑا ہے، وہ یہیں کہیں گھومتا پھرتا ہو گا۔ اس نے دیکھ لیا تو بنا بنایا کام بگڑ جائے گا۔‘‘


زمرد نے صہیب کو اٹھا کر اس طرح سہارا دیا کہ اس کا وزن اپنے جسم پر ڈال لیا۔ گھوڑا قریب ہی کھڑا تھا ۔بڑی ہی مشکل سے زمرد نے صہیب کا پاؤں رکاب میں رکھا اور اس کے جسم کو اپنے کندھوں پر اور پیٹھ پر ڈال کر اسے گھوڑے پر سوارکرایا۔ صہیب کیلئے گھوڑے کی پیٹھ پر سنبھل کر بیٹھنا محال ہو رہا تھا۔
’’میں راستے میں ہی گر پڑوں گا۔‘‘ صہیب نے زمرد سے کہا۔
’’میں تمہیں اکیلا تو نہیں بھیج رہی۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میں تمہارے ساتھ جاؤں گی۔‘‘
وہ گھوڑے پر صہیب کے پیچھے سوار ہو گئی اور اس کی پیٹھ اپنے سینے کے ساتھ لگا کر اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا۔
’’تم گھوڑے کو قابو میں رکھنا۔‘‘ زمرد نے کہا۔’’ میں تمہیں قابو میں رکھوں گی۔ ہوش ٹھکانے رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘انہیں ایک للکار سنائی دی۔’’ ٹھہر جا زمرد!‘‘
یہ زمرد کے چچا کی آواز تھی۔ جس کا گھوڑا تھا ۔وہ ان کی طرف دوڑا آ رہا تھا۔
’’یہ گھوڑا میرچچا کا ہے ۔‘‘زمرد نے کہا۔’’ وہ آرہا ہے۔‘‘ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا کر کہا۔’’ سنبھلو ذرا……پل کی طرف!‘‘
گھوڑا لاشوں کو روندتا پھلانگتا کشتیوں کے پل پر جا پہنچا۔ زمرد نے مشعل پھینک دی تھی۔ زمرد کا چچا چیختا چلاتا رہ گیا اور گھوڑا پل پار کر گیا۔
فارس کے دارالحکومت مدائن میں ایک پراسرار ڈرامہ زمین کے نیچے نیچے چل رہا تھا اور یہ ملکۂ فارس پوران اور رستم کے گرد گھومتا تھا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پوران نے سلطنت کے تمام اندرونی اور بیرونی امور، دفاع اور جارحیت کے فیصلوں کے اختیارات رستم کو دے دیئے تھے۔ اس کی اپنی حیثیت برائے نام ملکہ کی سی رہ گئی تھی۔ وہ اوررستم زیادہ وقت اکٹھے گزارتے تھے اور یہ شک ہی نہیں بلکہ شاہی حلقوں کا مشاہدہ تھا کہ رستم اور پوران کے سرکاری تعلقات ذاتی دوستی کا رنگ اختیار کر گئے تھے اور یہ دوستی قابلِ اعتراض حدود میں داخل ہو چکی تھی۔
مدائن میں فارس کے دو جرنیل اور بھی تھے فیروزان اور مہران۔ وہ بھی بہمن جادوویہ کے اور جالینوس کے پائے کے جرنیل تھے۔ لیکن رستم انہیں نظر انداز کر کے بہمن جادویہ اور جالینوس کو زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ فیروزان اور مہران کے دلوں میں خلش پرورش پا رہی تھی۔ جو اس وقت ابھر کر سامنے آگئی، جب رستم نے بہمن جادویہ اور جالینوس کو ہاتھی دے کر مسلمانوں کے خلاف بھیج دیا۔



یہ فوج مدائن سے نکل گئی تو رستم اور پوران جو کچھ دور تک فوج کے ساتھ گئے تھے ،واپس محل میں آئے۔ فیروزان نے اپنے ایک آدمی سے کہا کہ رستم اِدھر اُدھر ہو جائے تو اسے اطلاع دے۔
کچھ ہی دیر بعد اسے اطلاع ملی کہ رستم چلا گیا ہے۔ فیروزان بغیر اطلاع پوران کے کمرے میں چلا گیا۔
’’ملکۂ فارس کو میری یہ جرأت تواچھی نہ لگی ہو گی کہ میں بغیر اطلاع اندر آگیا ہوں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔
’’بیٹھو فیروزان!‘‘ ملکۂ فارس پوران نے کہا۔ تمہارا بغیر اطلاع اندر آجانا تو اتنا برا نہیں لگا۔ مجھ تک کچھ ایسی باتیں پہنچی ہیں جو مجھے اور رستم کو بہت بری لگی ہیں۔‘‘
’’اس سے پہلے کہ میں وہ باتیں پوچھوں جو ملکہ عالیہ کو بری لگی ہیں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ میں یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ رستم کون ہے؟کیا وہ شاہی خاندان کافرد ہے؟کیا وہ کسریٰ کی نسل سے ہے؟……وہ میرے اور مہران جیسا ایک جرنیل ہے۔‘‘
’’کیا تم یہ نہیں جانتے کہ میں نے اسے اختیارات دیئے ہیں؟‘‘پوران نے کہا۔ ’’ اور کیا تم نہیں جانتے کہ میں نے یہ فیصلہ سلطنت کی سلامتی اور بقا کیلئے کیاہے۔ میں اس روز اپنے آپ کہ ملکۂ فارس سمجھوں گی جس روز میرے کانوں میں یہ خبر پڑے گی کہ اب کوئی زندہ مسلمان فارس کی سر زمین پر نہیں رہا۔ اور فارس کے کھوئے ہوئے علاقے واپس لے لیے گے ہیں۔‘‘ 

’’ملکہ ٔفارس! ‘‘فیروزان نے کہا۔’’ اگر آپ کے اور رستم کے انداز و اطوار یہی رہے تو وہ د ن کبھی نہیں آئے گا۔‘‘
’’فیروزان!‘‘ پوران نے کہا۔’’ معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں رستم کے خلاف ذاتی عناد پیدا ہو گیا ہے۔‘‘
’’نہیں ملکۂ عالیہ! ‘‘فیروزان نے کہا۔’’ بات اگر عناد کی ہے تو عناد رستم کے دل میں پیدا ہو اہے۔ اسے بہمن جادویہ اور جالینوس کے سوا کوئی اور جرنیل نظر ہی نہیں آتا۔ یہ دونوں شکست خوردہ جرنیل ہیں۔ دونوں صرف پسپا ہی نہیں ہوئے بلکہ اپنی فوج کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ آنے والے جرنیل ہیں۔‘‘
’’میں تمہاری شکایت سمجھ گئی ہوں فیروزان!‘‘
’’آپ کچھ نہیں سمجھ رہیں ملکۂ عالیہ!‘‘فیروزان نے کہا۔’’آپ بھول گئی ہیں کہ فارس کے تخت و تاج پر شاہی خاندان میں کس قدر قتل و غارت ہو چکی ہے۔ اس تخت پرجو بھی بیٹھا وہ قتل ہو گیا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے رستم کو ساتھ لے کر تخت و تاج کو فوج کا تحفظ دلایا ہے۔ لیکن آپ نے رستم پر اندھا اعتماد کر کے اچھا نہیں کیا۔ اور پھر اس کے ساتھ ذاتی دوستی پیدا کرکے اور زیادہ برا کیاہے……ملکۂ عالیہ! میرے دل میں فارس کی محبت اور درد ہے۔ میری وفاداری فارس کے ساتھ ہے آپ کے ساتھ نہیں۔ میں یہ کہنے میں ذرا سا بھی نہیں ڈروں گا کہ رستم پر آپ کے جوانی اور حسن کا نشہ طاری ہوگیا ہے۔ آپ اسے خوش اور مطمئن رکھنا چاہتی ہیں۔ اس لیے آپ نے اسے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ آپ کے اس خوبصورت جسم کے ساتھ کھیلے اور دل بہلائے۔
’’فیروزان!‘‘ پوران نے غصے سے بھڑکتے ہوئے کہا۔’’ اپنی حیثیت کو پہچانو۔ مت بھولو کہ میں اس ملک کی ملکہ ہوں اور تم ملازم ہو۔ تم مجھ پر اتنا گھٹیا الزام عائد کر رہے ہو؟‘‘


’’ملکۂ فارس!‘‘ فیروزان نے بے خوف وخطر کہا۔’’ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ آپ کون سے فارس کی ملکہ ہیں؟وہ فارس جس کی فوجیں مسلمانوں کے آگے آگے بھاگی چلی جا رہی ہیں؟اور جس کے جرنیل اپنی فوج سے پہلے میدان چھوڑ کر بھاگ آئے ہیں؟اور اس فارس کی آپ ملکہ ہیں جو آدھے سے زیادہ مسلمانوں کے قبضے میں چلا گیاہے ……میں بہت دور کی سوچ رہا ہوں ملکۂ عالیہ! اگر مدائن پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا تو وہ ساری دنیاکو سنائیں گے اور ڈرائیں گے کہ کسریٰ پرویز نے ان کے رسول)ﷺ( کا خط پھاڑ دیا تھا اور ان کے رسول)ﷺ( نے کہا تھا کہ سلطنتِ فارس بھی اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ مسلمان کہیں گے کہ دیکھو اﷲ کے رسول)ﷺ( کی توہین کرنے والوں پر کیسا عذاب نازل ہوتا ہے۔ میں عرب کے محمد )ﷺ(کی پیش گوئی پوری نہیں ہونے دوں گا۔
’’تم جا سکتے ہو۔‘‘ پوران نے شاہی جلال سے کہا۔’’ میں رستم کے ساتھ بات کروں گی۔‘‘
فیروزان کمرے سے نکل گیا۔
اُدھر بہمن جادویہ اور جالینوس اپنی فوج کے ساتھ جس میں ہاتھی بھی تھے ، فرات کے کنارے مروحہ کے مقام سے کچھ دور پہنچ چکے تھے۔انہوں نے ابو عبید کے لشکر کے خلاف معرکہ آراء ہونا تھا جو معرکہ جسر کے نام سے مشہور ہوا اور مسلمانوں کی پسپائی پر ختم ہوا تھا۔
سورج غروب سے ہونے کچھ دیر پہلے مدائن میں فوج کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کیلئے نقارہ بجنے لگا۔ شہرکے لوگوں پر خوف طاری ہو گیا۔ وہ سمجھے کہ مسلمان آ گئے ہیں اور وہ شہر کو محاصرے میں لے رہے ہیں۔ فوج کے جرنیل اور سپاہی بڑی تیزی سے تیار ہو کر میدان میں جمع ہونے لگے۔ ان کے افسروں نے انہیں جیشوں اور دستوں کی ترتیب میں کھڑا کر دیا۔

رستم گھوڑے پر سوار آتا نظر آیا۔ اس کے پیچھے اس کے گھوڑ سوار محافظ تھے۔ رستم فوج کے اجتماع کے سامنے رکا اور فوج پر نظر دوڑائی۔ فوج پر سناٹا طاری ہو گیا۔
’’ملکۂ فارس کا ایک حکم کان کھول کر سن لو!‘‘ رستم نے بلند آواز سے کہا۔’’ فوج کے کسی بڑے سے بڑے افسر اور ادنیٰ سے ادنیٰ سپاہی کو اجازت نہیں کہ وہ ملکۂ عالیہ پوران دخت کے ساتھ محل میں جاکر یا کہیں براہِ راست بات کرے۔ اگر کسی نے کوئی مشورہ دینا ہو تو اپنے کسی عہدیدار کو دے۔ کسی کو کوئی شکایت ہو تو وہ بھی اپنے عہدیدار سے ہی کرے۔ تمہاری شکایت اوپر پہنچ جائے گی……کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فارس پر کتنا برا وقت آن پڑا ہے؟ آدھے ملک پر عربوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟……تم اور صرف تم……فوج……ہر میدان سے تم بھاگے ہو‘ جرنیل بھاگے ہیں ۔ان سے کم درجہ افسر بھاگے ہیں۔ یہ وہ فوج تھی جس نے روم کے ہرقل کو میدان سے بھگایا ہے۔ رومیوں سے بڑھ کر طاقتور کون تھا؟ہم نے اس اتنی بڑی جنگی طاقت پر دھاک بٹھا دی تھی۔آج وہ دہشت جو فارس نے رومیوں پر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پر طاری کر دی تھی، وہ عرب کے بے مایہ اور بے نام بدوؤں نے تم پر طاری کر دی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تمہیں جب اطلاع ملتی ہے کہ عربی آرہے ہیں تو تم خوف سے کانپ جاتے ہو؟عجمی ایسے بزدل تو نہیں تھے کہ عربوں سے ڈر جاتے……
اب میں نے عربوں کو ہمیشہ کیلئے کچل دینے کیلئے ہاتھی بھیجے ہیں اور میں نے دو ایسے جرنیل بھیجے ہیں جو فرات کے پانی کو عرب کے مسلمانوں کے خون سے لال کرکے ہی آئیں گے۔ ان میں ایک بہمن جادویہ ہے اور دوسرا ہے جالینوس……لیکن مدائن میں ایسے لوگ موجوود ہیں جن کی دلچسپی اور وفاداری فارس کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی ذات اور اپنے اقتدار کے ساتھ ہے……وہ حاسد ہیں۔ وہ ملکہ ٔفارس کو میرے خلاف بھڑکا رہے ہیں کہ مجھے ان اختیارات سے محروم کر دیا جائے جو ملکۂ عالیہ نے مجھے دیئے ہیں۔‘‘
’’خاموش رہ رستم!‘‘ایک آواز گرجی۔’’ اقتدار کا بھوکا تو خود ہے۔‘‘


فوج کے اجتماع پر سناٹا طاری ہو گیا۔ یہ مدائن کے جرنیل فیروزان کی آواز تھی۔ وہ اپنا گھوڑا دوڑا کر رستم کے گھوڑے کے قریب لے گیا اور فوج کی طرف منہ کر لیا۔
’’میں اپنے سے اعلیٰ درجے کے سالار کی شان میں گستاخی کر رہا ہوں۔‘‘ فیروزان نے کہا۔’’ میں اس جرم کی سزا قبول کرتاہوں لیکن سچ کہنے سے باز نہیں آؤں گا۔ میں رستم سے پوچھتا ہوں کیا اس نے ایک بزرگ سے یہ نہیں کہا تھا کہ اس نے اقتدار کی ہوس اور حکومت کے لالچ میں سلطنت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں؟رستم اپنے آپ کو علم ِنجوم کاماہر سمجھتا ہے۔ اس نے اس بزرگ سے کہا تھا کہ نجوم کا علم بتاتا ہے کہ سلطنتِ فارس کا انجام ٹھیک نہیں ہو گا……میں بتاتا ہوں کہ انجام کیوں ٹھیک نہیں ہو گا۔ اگر ا س شخص کی نیت ٹھیک ہو جائے تو سلطت کا انجام بھی ٹھیک ہو گا……یہ بہمن جادویہ اور جالینوس کو اتنے طاقتور جرنیل سمجھتا ہے کہ وہ فرات کے پانی کو عربوں کے خون سے لال کر آئیں گے۔ تم جانتے ہو کہ یہ دونوں جرنیل عربوں سے شکست کھا کر بھاگے ہوئے ہیں۔ رستم خود محاذ پر کیوں نہیں جاتا؟……صرف اس لیے کہ یہ پوران دخت کے ساتھ جو برائے نام ملکہ ہے‘ عیش و عشرت میں مصروف ہے……‘‘
’’اسے گرفتار کر لو۔‘‘رستم نے نیام سے تلوار نکال کر کہا۔’’ میں اپنی توہیں برداشت کر لوں گا، ملکۂ عالیہ کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کروں گا۔‘‘
رستم کے پیچھے کھڑے چار گھوڑ سوار محافظ فیروزان کی طرف بڑھے۔ فیروزان نے تلوار نکال لی۔
’’مجھے گرفتار کرنے کیلئے خود آگے آ رستم‘‘!فیروزان نے رستم کو للکارا۔
’’خبردار!‘‘فوج کے اجتماع میں ایک اور آواز گرجی۔’’ فیروزان کے قریب کوئی نہ آئے۔‘‘

چار پانچ گھوڑ سوار سامنے آئے۔ سواروں کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں۔ انہوں نے فیروزان کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی فوج میں ہڑبونگ مچ گئی۔
’’ہم فیروزان کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’فیروزان سچ کہتا ہے۔‘‘
’’رستم ہمارا بادشاہ ہے۔‘‘
’’ہم رستم کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’فیروزان غدار ہے۔‘‘
’’رستم سب سے بڑا غدار ہے۔‘‘
دیکھتے ہی دیکھتے فوج دو حصوں میں بٹ گئی۔ جس ترتیب میں فوج کھڑی تھی وہ درہم برہم ہو گئی۔ صورتِ حال خانہ جنگی والی پیدا ہو رہی تھی۔ رستم کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگا۔ اسے اس کے مخبر تو یہ بتا تے رہتے تھے کہ فوج اور شہری انتظامیہ کے حکام میں اس کے خلاف ایک لہر چل رہی ہے مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ آدھی فوج اس سے باغی ہے۔
یہ فیروزان اور مہران کی خفیہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ مدائن میں رستم کی اتنی زیادہ مخالفت پیدا ہو گئی تھی۔
’’رک جاؤ۔‘‘ رستم اس شوروغل میں چلّانے لگا۔’’ رک جاؤ‘ میری پوری بات سن لو۔ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نہ نکالنا۔‘‘
’’نہیں سنیں گے……نہیں سنیں گے۔‘‘ یہ ہجوم کا شور تھا۔
ایک طرف سے ایک گھوڑا دوڑتا آیا اور فوج کے دونوں حصوں کے درمیان جا رُکا ۔اس پر ملکۂ فارس پوران دخت سوار تھی۔
’’زرتشت کے پجاریو!‘‘پوران نے چلّا چلّا کر کہا۔’’ کیا ہو گیا ہے تمہیں کہ ایک دوسرے کا خون بہانے پر آگئے ہو۔ اپنے ملک کے ٹکڑے کرنے سے پہلے اپنی تلواروں سے میرے جسم کے ٹکڑے کر دو۔ کیا تم بھول گئے ہو کہ میں نے فارس کے تخت و تاج کو خون خرابے سے کس طرح روکا تھا؟ میں نے اپنے ملک کی سلامتی کی خاطر شادی نہیں کی۔ میں نے فارس کو دشمنوں سے بچانے کیلئے اپنے اختیارات فوج کے حوالے کر دیئے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی ملکہ سمجھا ہی نہیں۔ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ رستم ان ااختیارات کا اہل نہ تھا جو میں نے اسے دیئے ہیں ۔تو مجھے موقع دو کہ میں اپنی غلطی کا ازالہ کر سکوں۔ میں اپنا حکم نہیں چلاؤں گی۔ تمہاری سنوں گی اور تمہاری مانوں گی۔‘‘


ایک عورت کی چیخ و پکار سن کر ایک دوسرے کے خلاف بپھرے ہوئے فوجی خاموش ہو گئے۔ ان کے افسروں نے بھی انہیں پر سکون رہنے کو کہا۔
’’اپنے اصل دشمن کو پہچانو۔‘‘ پوران کہہ رہی تھی۔’’ اپنے بھائیوں کو دشمن سمجھ کر تم مسلمانوں کی غلامی میں جانے کے سوا کچھ اور حاصل نہیں کر سکو گے۔ تم مسلمانوں کو بلا رہے ہو کہ وہ مدائن پر بھی قبضہ کر لیں اور تمہاری کنواری بیٹیوں اور بہنوں کو لونڈیاں بنا کر لے جائیں۔ تم جو اتنی شان سے اتنے خوبصورت اور توانا گھوڑو ں پر سوا ہو۔عرب کے شہروں کی گلیوں میں بھیک مانگتے پھرو گے۔
تمہیں معلوم ہے کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج لے کر مروحہ گئے ہوئے ہیں۔ انہیں ہاتھی بھی دیئے گئے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ عربی مسلمانوں کو کچل اور مسل کر واپس آئیں گے اور تمہاری ساری شکایتیں ختم ہو جائیں گی۔ اس لڑائی کے نتیجے کا انتظار کرلو۔ یہ دونوں جرنیل واپس آجائیں گے تو پھر میں تمام جرنیلوں کو اکٹھا بٹھا کر ایسے فیصلے پر پہنچ جاؤں گی جسے تم سب بہترین فیصلہ کہو گے۔ پر سکون اور پر امن رہو اور اپنے اپنے ٹھکانے پر چلے جاؤ۔
فوج کی اجتماع گاہ خالی ہو گئی۔ فیروزان اورمہران بھی چلے گئے۔ رستم اور پوران وہیں رہ گئے یا ان کے گھوڑ سوار محافظ تھے جو ان سے کچھ دور کھڑے تھے۔
’’مشکل یہ ہے کہ ہم جنگی حالات سے گزر رہے ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ اگر حالات معمول کے مطابق ہوتے تو میں فیروزان اور مہران کو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘ رستم نے سر جھٹک کر پوران کی طرف دیکھا اور بولا۔’’ اب میں تم سے دور رہوں گا پوران!شدید ضرورت کے تحت ہی آیا کروں گا۔‘‘


’’مجھے توقع نہیں تھی کہ ہمارے حالات اتنے زیادہ بگڑ گئے ہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ اسے ذاتی مسئلہ نہ بنا لینا رستم!‘‘
فارس کی بنیادیں ہل چکی تھیں اور کسریٰ کے ایوانوں کی دیواروں میں دراڑیں صاف نظر آنے لگی تھیں ۔پو ران اور رستم ذہن سے اتا ر چکے تھے کہ کسریٰ پرویز نے رسوال اﷲﷺ کے خط کو بہت سے ٹکڑوں میں پھاڑ کر انہیں ایک پھونک سے اڑا دیا تھا۔ رسول اﷲﷺ کو اطلاع ملی تو آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ سلطنتِ فارس اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔ کسریٰ نے صرف یہی ایک گستاخانہ حرکت نہیں کی تھی۔ وہ توہینِ رسالت کا یوں مرتکب ہوا تھا کہ اس نے اپنے ایک گورنر کو حکم بھیجا تھا کہ محمدﷺ کر گرفتار کر کے میرے دربار میں پیش کرو۔
رسولﷺ نے اپنا کوئی پیغام نہیں بھیجا تھا۔ وہ تو اﷲ کا پیغام تھا جو اس تک پہنچایا گیاتھا کہ قبول کرو کہ اﷲ وحدہ لا شریک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ رسالت اور حق کے پیغام کی جو توہین کسریٰ پرویز نے بھرے دربار میں کی تھی ۔ اس کی سزا اسے فوراً ہی ملنی شروع ہو گئی تھی۔ اس کے خاندان میں قتل و غارت شروع ہو گئی تھی اور نوبت خانہ جنگی تک پہنچ گئی تھی۔
جس وقت فیروزان اور رستم آمنے سامنے آگئے اور فوج دو حصوں میں بٹ گئی اور دونوں دھڑے تلواریں نکال کر ایک دوسرے کاخون بہانے پر اتر آئے تھے۔ اُس وقت ایک گھوڑ سوار مدائن سے نکلا اور مروحہ کی طرف رُخ کر کے اس نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ وہ بہمن جادویہ کا مخبر تھا۔ جسے بہمن جادویہ یہ کام سونپ کر گیا تھا کہ مدائن میں کوئی بھی گڑ بڑ ہو جائے تو وہ فوراً اطلاع دے ۔ بہمن جادویہ پہلے ہی جالینوس سے کہہ رہا تھا کہ فوج دو حصوں میں بٹتی جا رہی ہے۔

بہمن جادویہ کا مخبر اس دن اور اس وقت اس کے پاس پہنچا جب فارس کی فوج مسلمانوں کو بہت بری شکست دے چکی تھی اور مثنیٰ بن حارثہ اپنے بچے کچھے مجاہدین کو کشتیوں کے پل سے دریا پار کر وا رہے تھے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مثنیٰ نے چند ایک مجاہدین کو ساتھ لے کر کس طرح فارس کی فوج کو روکے رکھا اور مجاہدین پل تک پہنچتے اور دوسرے کنارے کی طرف دورتے رہے ۔وہ ایک بہت بڑے خطرے کے آگے دوڑ رہے تھے۔ خطرہ یہ تھا کہ فارسی تعاقب میں آئیں گے۔ میدان ان کے ہاتھ تھا۔ ان کے پاس نفری بھی زیادہ تھی۔ ان کا تعاقب میں آنا یقینی امر تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کا اس قدر جانی نقصان ہو چکا ہے کہ اب وہ بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
فارسی ان تین ہزار مجاہدین کے پیچھے آکر انہیں ختم کر سکتے تھے۔ مثنیٰ اسی خطرے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اﷲ نے ان پر یہ کرم کیا کہ مدائن سے جو گھوڑ سوار نکلا تھا وہ اس وقت جسر کے میدان میں پہنچا جب بہمن جادویہ اپنے افسروں کو حکم دے رہا تھا کہ عربوں کا تعاقب کیا جائے اور کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ ا جائے۔ اُنہیں پل توڑنے کی مہلت ہی نہ دی جائے۔
مدائن کا سوار اس کے سامنے جا رُکا اور گھوڑے سے کود کر اُترا۔
’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے کہ تم کوئی اچھی خبر نہیں لائے۔ ‘‘بہمن جادویہ نے کہا۔
’’یقینا اچھی نہیں۔‘‘ سوار نے ہانپتے ہوئے کہا اور بڑی تیزی سے بولتے ہوئے اسے یہ بتایا کہ مدائن میں کیا ہوا ہے۔
بہمن جادویہ اور جالینوس کے چہروں کے رنگ اُڑ گئے۔



’’معلوم نہیں اب تک وہاں کیا ہو چکا ہو گا۔‘‘ سوار نے کہا۔’’ میں فوج کو دو حصوں میں بٹا ہوا اور ایک دوسرے کو للکارتاہوا چھوڑ آیا ہوں۔ سردار رستم اور سردار فیروزان نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال لی تھیں۔‘‘
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بہمن جادویہ اور جالینوس فوج کے زیادہ تر دستے اپنے ساتھ مدائن لے گئے اور کچھ دستے اپنے ایک جرنیل جابان کو دے گئے ۔جابان مجاہدین کے تعاقب میں گیا اور الیس کے مقام پر مثنیٰ کے تین ہزار تھکے ماندے مجاہدین نے ایک بھی فارسی کو زندہ نہ چھوڑا اور جابان پکڑا گیا۔ مثنیٰ کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔
بہمن جادویہ اور جالینوس اپنے دستوں کے ساتھ انتہائی رفتار سے مدائن پہنچے۔ انہوں نے کہیں رُکے بغیر یہ مسافت آدھے وقت میں طے کی۔ انہیں مخبر نے جو اطلاع دی تھی اس کے مطابق شہر میں خانہ جنگی ہونی چاہیے تھی۔ لیکن شہر میں داخل ہوکر انہیں اطمینان ہوا کہ امن و امان ہے۔انہو ں نے فوج کو فارغ کر دیا اور خودرستم کے پاس گئے۔ فیروزان اور مہران کو بھی بلا لیا اور سب پوران دخت کے ہاں گئے۔
’’ہم نے فرات کے کنارے عربوں کو جس طرح کاٹا ہے وہ جا کر دیکھیں۔‘‘ بہمن جادویہ نے سب کو بتایا۔’’ ان کے لشکر کا بمشکل تیسرا حصہ بچ کر بھاگا ہے۔ اگر ہمیں مدائن کی اطلاع نہ ملتی تو ہم ان بھاگنے والوں کو بھی وہیں رکھتے۔ ذرا غور کرو اور پھر شرم کرو کہ ہم مسلمانوں کو اتنی زبردست شکست دے رہے ہیں اور تم لوگ یہاں ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال رہے ہو۔ مسلمانوں کی پسپائی شروع ہو چکی ہے۔اب ہم انہیں ہر جگہ سے بھگائیں گے۔ انہیں کاٹیں گے۔ اگر تم نے آپس میں ہی لڑنا شروع کر دیا تومدائن بھی مسلمانوں کو دے بیٹھو گے۔‘‘
چونکہ بہمن جادویہ نے مسلمانوں کی شکست کی خوشخبری پہلے ہی سنا دی تھی۔ اس لیے فضا میں جو تلخی اور کدورت تھی ،وہ بہت کم ہو گئی تھی۔ ملکۂ فارس رستم اور دوسرے جرنیلوں کے کانوں میں پہلی بار یہ آواز پڑی کہ مسلمانون کو کسی میدان میں شکست دی گئی ہے۔


کچھ دیر جرنیلوں کا بحث و مباحثہ ہوا۔ مؤرخ لکھتے ہیں پوران چونکہ محب وطن تھی اس لیے ملکہ کی حیثیت سے اس نے اپنا کوئی فیصلہ نہ ٹھونسا ۔اس نے تمام فیصلے جرنیلوں پر چھوڑ دیئے۔ مشہور مؤرخ طبری اور ابو حنیفہ نے لکھا ہے کہ فارس کے جرنیل فیروزان اور مہران کہ یہ شکایت تھی کہ ملکۂ پوران نے رستم کو اپنے تمام اختیارات دے کر اسے بادشاہ کا درجہ دے دیا ہے۔ اس شکایت کو یوں رفع کیا گیا کہ سلطنتِ فارس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک کے اختیارات فیروزان کو اور دوسرے کے رستم کو دے دیئے گئے۔
’’میں تمہیں یقین دلاتی ہوں۔‘‘ پورا ن نے کہا۔’’ کہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ میں ملکہ رہتی ہوں یا نہیں یا میرے پاس شاہی احکام جاری کرنے کے اختیارات رہتے ہیں یا نہیں۔ مجھے فارس چاہیے۔ جس نے روم کے ہرقل کو شکست دی تھی اور جس فارس کی جنگی طاقت سے ہر ملک خائف تھا۔

دو تین مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رستم اور فیروزان نے سلطنتِ فارس آپس میں تقسیم کر لی تھی۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے پوران کو معزول کردیا گیا تھا۔ لیکن مستند تاریخوں میں پوران بدستور ملکہ نظر آتی ہے۔ البتہ ایسے اشارے ،سراغ ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ملکہ کے جرنیلوں نے بظاہر سمجھوتا کر لیا تھا۔ لیکن در پردہ ان میں اختلافات موجود رہے اور یہی وجہ ہوئی کہ وہ فوری طور پر مسلمانوں کے خلاف جنگی تیاری نہ کر سکے۔
جرنیلوں کے اس سمجھوتے میں یہ طے پایا کہ مہران تمام فوجوں کی کمان لے اور اس وقت تک فوجوں کا جو جانی اور مالی نقصان ہو چکا ہے وہ پورا کرے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post