ثناء و تعظیم Sana Wa Tazeem

ثناء و تعظیم

اور بعضوں کا قول ہے کہ مراد اس سے ثناء و تعظیم یا فقط تعظیم ہے کمافی المواہب ، و قیل صلوٰتہ  علی خلقہ تکون خاصۃ و تکون عامۃ فیکون صلوتہ علی انبیائہ ہی ما تقدم من الثناء و التعظیم ، و صلوٰتہ علی غیرہم الرحمۃ التی وسعت کل شیٔ ، وقال الحلیمی فی الشعب معنی الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم تعظیمہ ۔ اور اسی کے قریب یہ قول بھی ہے کہ مراد اس سے تشریف و زیادت تکریم ہے کمافی المواہب وحکی القاضی عیاض عن بکر التستری انہ قال الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم من اللہ تشریف و زیادۃ تکرمۃ ۔ شاید دلیل ان اقوال کی یہ ہوگی کہ آیۃ شریفہ میں { صلوا علیہ و سلموا } سے ظاہر ہے کہ صلوٰۃ کچھ اور ہے اور سلام اور ، چنانچہ صحابہؓ نے یہی سمجھا اور سوائے اس کے سلام میں بھی کوئی خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نہیں {سلام علی الیاسین} وغیرہ اکثر وارد ہوا ہے ۔
 الحاصل ان سب اقوال سے مقصود یہ ہے کہ کمال تعظیم و خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حق تعالیٰ کے نزدیک سمجھی جائے اور علو شان و رفعت منزلت درود شریف کی ثابت ہو یہاں تک کہ جنہوں نے صلوٰۃ سے رحمت مراد لی ہے ان کا بھی مطلب یہ نہیں کہ وہ رحمت عامہ ہے بلکہ وہ رحمت مراد ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے لئے خاص کی گئی ہے ۔ چنانچہ زرقانی نے اسی قسم کا جواب اس اعتراض کا دیا جو صاحب مواہب نے اس قول پر وارد کیا ہے کہ اس آیۃ {اولئک علیہم صلوات من ربھم و رحمۃ } سے صلوٰۃ و رحمت میں مغایرت ثابت ہے ،


 حیث قال وأجیب بان الصلوٰۃ الرحمۃ المقرونۃ بالتعظیم فہی اخص من مطلق الرحمۃ و عطف العام علی الخاص کثر مستعمل 
اور اس تقریر سے صاحب مواہب کا یہ اعتراض بھی دفع ہوجاتا ہے کہ جب یہ آیۃ شریفہ نازل ہوئی صحابہؓ نے عرض کیا یا رسولؐ اللہ سلام کا طریقہ تو ہم نے جان لیا یعنے السلام علیک 
ایھاالنبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، صلوٰۃ آپ پر کس طور پڑھیں ۔ فرمایا کہو اللہم صل علی محمد الحدیث ۔ سو اگر صلوٰۃ کے معنی رحمت ہی ہوتے تو فرمادیتے سلام میں ہی تم نے اس کو بھی جان لیا کیونکہ اس میں ( ورحمت اللہ و برکاتہ ) موجود ہے ۔ یہ اعتراض اس وجہ سے دفع ہوسکتا ہے کہ رحمۃ اللہ سے مراد رحمت عامہ ہے اور صلوٰۃ سے مراد رحمت خاصہ ۔ اور ضروری نہیں کہ عام کے معلوم ہونے سے خاص بھی معلوم ہوجائے ، کماقال الزرقانی والجواب ماقد علم فسؤالہم دل علی ان الصلوٰۃ أخص من مطلق الرحمۃ۔
auliaehindpak.com
auliaehindpak.com

پھر جب صلوٰۃ رحمت خاصہ کانام ٹھہرا تو رحمت کے ذکر سے صلوٰۃ کا ذکر لازم نہیں آتا کیونکہ جہاں خاص کا ذکر مقصود ہو عام کا ذکر کافی نہیں جیسا کہ انسان کا ذکر جہاں مقصود ہو وہاں حیوان کہنا درست نہ ہوگا اسی وجہ سے ابن عبدالبرؒ نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکر کے وقت رحمہ اللہ تعالیٰ کہنا درست نہیں کما قال السخاوی فی القول البدیع : جزم ابن عبدالبربالمنع فقال لایجوزلأحد اذا ذکرالنبی صلی اللہ علیہ و سلم ان یقول رحمہ اللہ لانہ قال من صلی علیّ ولم یقل من ترحم علیّ ولا من دعا لی ، و ان کان معنی الصلوٰۃ الرحمۃ ولکنہ خص لہذا اللفظ تعظیما لہ فلایعدل الی غیرہ ویؤیدہ قولہ تعالیٰ { لاتجعلوا دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا } اس تقریر سے پانچ اعتراض ابن قیم کے بھی دفع ہوگئے ۔

باقی رہا چھٹا اعتراض ان کا ، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہم صل الخ کی ہیئت ہر چند دعا کی ہے مگر جب فکیف الصلوٰۃ کے جواب میں وہ ارشاد ہوا تو بحسب تعیین شارع صلوٰۃ اسی کا نام ہوگا ۔ اسی وجہ سے ان الفاظ مشروعہ کو کوئی پڑھ لے تو صلی علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم کہنا صادق آجائے گا نہ دعالہ حالانکہ وضع صیغہ دعا کے واسطے ہے۔
 نکتہ : یہ امر ظاہر ہے کہ جس کام کا حکم حق تعالیٰ نے فرمایا اس کے امتثال میں کوئی کام کیا جاتا ہے مثلاً نماز کے حکم پر قیام و رکوع وغیرہ ادا کئے جاتے ہیں اور روزہ کے حکم پر بھوکے
پیاسے رہتے ہیں بخلاف اس کے درود شریف پڑھنے کے لئے جب {صلوا} ارشاد ہوا تو کوئی کام نہیں کیا جاتا بلکہ یہی کہا جاتا ہے اللھم صل علیہ یہ تو بلاتشبیہ ایسا ہوا جیسے بنی اسرائیل نے قتال کے حکم کے جواب میں {فقاتلا} کہا یعنے تم ہی لڑلو ۔ وجہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ عہدہ برائی اس کی کسی سے نہ ہوسکے گی
 فرمایا یہ کام اللہ تعالیٰ ہی کے تفویض کر دیا کرو یعنے تفویض کردینا ہی صلوٰۃ ہوجائے گا اسی مسئلہ میں امام ابومنصور ماتریدی نے اپنی تفسیر مسمی بہ ’’تأویلات القرآن ‘‘ میں اسی قسم کی تقریر کی ہے


 کما قال : والاشکال ان فی الآیۃ الأمر للمؤمنین ان یصلوا علی النبی ثم قال : لماسئل عن کیفیۃ الصلوٰۃ علیہ و ماہیتھا فقال ان یقولوا اللہم صل علی محمد و ہذا سوال من اللہ تعالیٰ ان یتولی بنفسہ الصلوٰۃ علی محمد علیہ السلام ، و فی ظاہر الآیۃ ہم المأمورون یتولون الصلوٰۃ بانفسھم علیہ فکیف یخرجون عن الأمر بالصلوٰۃ علیہ بالدعاء و السوال من اللہ تعالیٰ بالصلوٰۃ علیہ فنقول ہم أمروا بالصلوٰۃ وہی الغایۃ من الثناء علیہ و لکنہ لم یرالنبی صلی اللہ علیہ و سلم فی وسعہم وطاقتہم القیام بغایۃ ماأمروا بہ من الثناء علیہ فامرہم ان یکلوا ذلک الی اللہ تعالیٰ و یفوضوا الیہ وان یسألوہ لیتولی ذلک ہو دونہم لم یرفی وسعہم القیام بغایۃ الثناء علیہ وإلا فلیس فی ظاہر الآیۃ سوال للرب تعالیٰ ان یصلی ہو بنفسہ علیہ ولکن فیہا الأمر للذین اٰمنوابأن یصلوا علیہ و اللہ أعلم۔

Post a Comment

Previous Post Next Post