حقائق اشیاء Haqaiq e Ashya

حقائق اشیاء 

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ہر شئے کے لئے ایک حقیقت اور ہویت مختصہ حق تعالیٰ کے نزدیک ثابت ہے جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتاہے : {واعطی کل شی ء خلقہ} و ایضا قال ـ{ انا کل شیء خلقنٰہ بقدر} اور نظائر اس کے بہت ہیں جیسا کہ موت کی صورت دنبے کی ہے اور قیامت 
میں ذبح کی جائے گی ۔ اور نیل و فرات کی حقیقت کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کمافی کنزالعمال من البخاری: 
رفعت الی سدرۃ المنتہیٰ ، منتہاہا فی السماء السابعۃ نبقہامثل قلال ہجر و ورقہامثل اٰذان الفیلۃ فاذا اربعۃ انہار : نہران ظاہران و نہران باطنان ، فاماالظاہران النیل والفرات والباطنان فنہران فی الجنۃ ۔ الحدیث 
یعنے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس میں نے دو نہریں دیکھیں دو ظاہر کی دو باطن کی ، ظاہر کی دو نہریں نیل و فرات ہیں اور باطن کی جنت میں دو نہریں ہیں ۔
اسی طرح ایک خزانہ ہے جس میں اچھے اچھے اخلاق رکھے ہیں کمافی الجامع الصغیر للسیوطی :

ان محاسن الاخلاق مخزونۃ عنداللہ تعالیٰ فاذا احب اللہ عبدا منحہ خلقا حسنا الحکیم عن العلاء بن کثیر مرسلا 
ترجمہ : روایت ہے علاء بن کثیر سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ اچھے اچھے اخلاق اللہ تعالیٰ کے پاس مخزون ہیںجب کسی کو حق تعالیٰ دوست رکھتاہے تو اس کو کوئی اچھا خلق عنایت فرماتا ہے ۔
اور جامع الصغیر میں ہے الحمدللہ تملأ المیزان و التسبیح و التکبیر یملأ السمٰوات والارض و الصلوٰۃ نور ۔ الحدیث حم ن ھ حب عن ابی مالک الاشعریٰ 
ترجمہ : فرمایا حضرتؐ نے الحمدللہ میزان کو بھردے گا اور تسبیح و تکبیر آسمانوں کو اور زمین کو بھردیتی ہیں اور نماز نور ہے ۔
اور زرقانی شرح مواہب میں روایت ہے و اخرج احمد و ابن حبان والضیاء برجال الصحیح عن جابر مرفوعاً اتیت بمقالید الدنیا علی فرس ابلق جاء نی بہ جبریل علیہ 
قطیفۃ من سندس 
یعنے میرے پاس دنیا کی کنجیاں لائی گئیں جن کو جبریل علیہ السلام ابلق گھوڑے پر میرے پاس لائے۔ 
اور اس قسم کی روایتیں بکثرت موجود ہیں حاصل یہ کہ حق تعالیٰ کے نزدیک ہر چیز کی ایک حقیقت ثابت و موجود ہے لیکن بعضوں کا وجود اس عالم میں محسوس ہے اور بعضوں کا محسوس نہیں چنانچہ احادیث مذکورہ بالا سے ظاہر ہے ، پھر ہر حقیقت دوسری سے ممتاز ہے بہ تشخص خاص چنانچہ ان ہی احادیث سے یہ بات بھی ظاہر ہے اور یہ حدیث بھی اس پر دلیل ہے جو کنزالعمال میں ہے 
اذاکان یوم القیامۃ جاء الإیمان والشرک یجثوان بین یدی الرب فیقول للایمان انطلق انت واہلک الی الجنۃ ک فی تاریخہ عن صفوان بن عسال

ترجمہ : روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ قیامت کے روز ایمان اور شرک حاضر ہوں گے اور حق تعالیٰ کے روبرو دو زانو بیٹھ جائیں گے ایمان کو ارشاد ہوگا کہ تو اپنے اہل کے ساتھ جنت میں چلا جا ۔ انتہیٰ ۔ اسی طرح درود شریف کا بھی حال سمجھنا چاہئے کہ ایک شئے ممتاز ہے اور وجود اس کا اس عالم کے جنس سے نہیں اور نہ ادراک اس کا حواس جسمانیہ سے ہوسکتا ہے ۔ بلکہ وہ خاص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانیت سے متعلق ہے اور تعجب نہیں کہ حضرت ﷺ اس کو دیکھ بھی لیتے ہوں کیونکہ ملکوت وغیرہ عوالم کی اشیاء جن تک خیال کی رسائی دشوار ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو محسوس تھیں ۔ اس سے بڑھ کر کیا چاہئے کہ قیامت کی اشیاء کو یہاں سے ملاحظہ فرماتے تھے۔ کمافی الفردوس للدیلمی : 
عن جابرؓ ان اللہ رفع لی بیت المقدس وانا عندالکعبۃ فجعلت انظر الیہ والی مافیہ ولقدرأیت جہنم واہلہا فیہا و اہل الجنۃ فی الجنۃ قبل ان یدخلوہا کماانظر الیکم 
یعنے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المقدس روبرو میرے کیا گیا جس کو میں دیکھ رہا 
تھا اور قبل اس کے کہ جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں جائیں میں ان کو اپنے اپنے مقامات میں دیکھ لیا ہوں جس طرح تم کو دیکھتا ہوں
 و فی المواہب روی الشیخان من حدیث عقبۃ بن عامر قال : صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علی قتلی أحد بعد ثمان سنین کا لمودع للأحیاء والأموات ثم طلع المنبر فقال : انی بین ایدیکم فرط و انا علیکم شہید وان موعدکم الحوض وانی لانظرالیہ وأنافی مقامی ہذا وانی قداعطیت مفاتیح خزائن الأرض ۔ الحدیث ۔

ترجمہ : نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے شہداء احد پر آٹھ سال کے بعد ، جیسا کہ کوئی رخصت کرتا ہے زندوں اور مردوں کو ، پھر چڑھے حضرتؐ منبر پر اور فرمایاکہ میں تمہارے لئے میر منزل ہوں اور تمہارا شاہد ہوں اور ہمارے اور تمہارے ملنے کی جائے حوض ہے جس کو میں اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوںاور زمین کے خزانوں کی کنجیاں مجھ کو دی گئیں ۔ انتہیٰ ۔ 
اور سوا اس کے اس دعویٰ پر اور بہت سی دلیلیں ہیں ۔ الغرض صلوٰۃ کا ادراک و احساس آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم ہی کو ہے دوسرا اس پر واقف ہو نہیں سکتا ، جیسا کہ کورما درزاد سیاہ و سفید پر مطلع نہیں ہوسکتا ۔ اور مثال اس کی ایسی سمجھنا چاہئے کہ حضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے صوم وصال یعنی پے درپے روزے بلا افطار رکھنا شروع کئے ، صحابہؓ نے بھی اتباع کا قصد کیا ارشاد ہوا کہ مجھ کو اپنے پر قیاس مت کرو کھلاتا ہے مجھ کو میرا رب اور پلاتا ہے ۔ جیسا کہ بخاری شریف میں ہے عن ابی سعید الخدریؓ أنہ سمع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم یقول لا تواصلو افأیکم أرادأن یواصل فلیواصل حتی السحر ، قالوا فانک تواصل یارسول اﷲ ، قال : لست کھیئتکم انی أبیت لی مطعم یطعمنی و ساق یسقینی ۔ و فی روایۃ منہ یطمعنی ربی و یسقینی ۔

اس کھانے پینے کی حقیقت دوسروں کو کیا معلوم ہوسکے ۔ اگر وہ ہمارے کھانے پانی کی جنس  سے ہوتا تو صوم وصال ہی کیوں کہا جاتا اور لست کھیئتکم وغیرہ کیوں فرماتے ۔ ایسا ہی صلوٰۃ کا ادراک و احساس حضرت صلی اﷲ علیہ و سلم ہی کو ہے اور تعجب نہیں کہ وقرۃ عینی فی الصلوٰۃ سے اسی کے طرف اشارہ ہو ، اگرچہ اکثر محدثین نے معنی اس کے نماز کے لئے ہیں مگر اس پر کوئی قرینہ نہیں ، بخلاف معنی درود کے کہ اس پر یہ حدیث قرینہ ہے جو اوپر مذکور ہوئی  مامن عبد یصلّی علیّ إلاعرج بہاملک حتی یجیٔ بہا وجاہ الرحمٰن فیقول اﷲ عزوجل اذہبوا بہاإلی قبر عبدی یستغفر لقائلہا و تقربہا عینہ ۔ الدیلمی عن عائشۃؓ کذافی کنزالعمال یعنی درود جب حق تعالیٰ کے پاس گزرانا جاتا ہے تو فرماتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے پاس اس کو لیجاؤ تا اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ انتہیٰ ۔ اسی وجہ سے بعضوں کا مذہب یہی ہے کہ مراد قرۃ عینی فی الصلوٰۃ سے درود ہے کماقال القسطلانی فی مسالک الحنفاء ، معنٰی قرۃ عینی فی الصلوٰۃ فی حدیث حبّب لی من دنیاکم ثلاث النساء والطیب و جعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ ، الصلوٰۃ التی ذکرہافی قولہ تعالیٰ ان اﷲ و ملٰٓـئکتہ  عند بعض ۔ انتہیٰ۔ ہ تواﷲ تعالیٰ کی صلوٰۃ کا حال تھا ، اب رہی صلوٰۃ ملائکہ اور مومنین سو محدثین نے لکھا ہے کہ مراد اس سے استغفار و دعا ہے ، وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ صلوٰۃ یعنی رحمت خاصہ کا خزانہ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی کو اس میں دخل نہیں ۔ خیر خواہوں کا کام صرف دعا گوئی ہے ۔ اور وہ بھی صرف اس غرض سے کہ ہم بھی دعا گو  رہیں ورنہ پیاپے رحمت خاصہ کا اترنا بغیر دعا کے ہمیشہ جاری ہے جیسا کہ خود حق تعالیٰ اس آیۃ شریفہ میں بصیغہ استمرار اس کی خبر دیتا ہے ۔ مگر چونکہ اس دعا و استغفار پر بھی صلوٰۃ ہی کا اطلاق فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس صلوٰۃ کی صورت دعائیہ کو بدل کر اسی صلوٰۃ کی صورت میں جلوہ گرفرماتاہے جو مختص آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے ساتھ ہے اور کچھ مستبعد نہیں ۔ کیونکہ جب ایمان لانے والوں کی سیئات کی صورت کو بدل کر حسنات کی صورت میں جلوہ گر کرتا ہے تو اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ و سلم کے متعلق دعا کی  صورت کو ان کی خوشنودی کے واسطے بدل دینا مالک کن فیکون کے نزدیک کونسی بڑی بات ہے ، دیکھ لیجئے سیئات کو حسنات بنادینا اس آیۃ شریفہ سے ثابت ہے ، قال تعالیٰ { الا من تاب واٰمن و عمل عملا صالحا فاولئک یـبدل اﷲ سیٰاتھم حسنٰت و کان اﷲ غفورا رحیما ۔ }
ترجمہ : مگر جس نے توبہ کی اور یقین لایا اور کیاکچھ کام نیک پس بدل دیتا ہے اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں کے ساتھ اور اﷲ غفور و رحیم ہے ۔


اس صورت میں تینوں صلوات کی صورت بالمآل ایک ہی ہوگی ۔ اس پر یہ بھی قرینہ ہوسکتا ہے کہ جب آیۃ صلوٰۃ نازل ہوئی صحابہ رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا یا رسول اﷲ ، سلام کی کیفیت تو ہمیں معلوم ہوئی صلوٰۃ کاکیا طور ہوگا چنانچہ درمنثور وغیرہ اکثر کتب میں اس مضمون کی روایتیں وارد ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے و أخرج ابن أبی سعد و أحمد و عبد بن حمید و البخاری و النسائی و ابن ماجۃ و ابن مردویہ عن ابی سعید الخدری قال قلنا : یارسول اﷲ ہذا السلام علیک قد علمناہ فکیف الصلوٰۃ ؟ قال : قولو أللّٰہم صل علی محمد عبدک و رسولک کماصلیت علی آل ابراہیم و بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم ۔ کذافی الدر المنثور للسیوطی فی تفسیر آیۃ ان اﷲ و ملٰٓـئکتہ اس سے معلوم ہوا کہ صلواۃ سے مراد صحابہ نے دعا نہ سمجھی ورنہ ہر شخص دعا گوئی میں مصروف ہوجاتا ، استفسار کی وجہ یہی ہوگی کہ رحمت نازل کرنا تو خاص اﷲ تعالیٰ کا کام ہے اس امر کا امتثال ہم سے کیوں کر ہوسکے ، ارشاد ہوا کہ تمہارا کام اتنا ہی ہے کہ ان الفاظ کو کہدیا کرو ،اس تقریر سے ابومنصور ماتریدی رحمتہ اﷲ علیہ کے اس قول کا مطلب بھی معلوم ہوگیا جو ابھی مذکور ہوا اور وہ اشکال بھی دفع ہوگیا جو قسطلانیؒ نے شرح بخاری میں وارد کیا ہے کہ ’’ان اﷲ و ملٰٓـئکتہ میں لفظ اﷲ کی خبر محذوف ہے ۔ یااﷲ و ملٰٓـئکتہ دونوں کی خبریصلون ہے ‘‘یہ نہیں ہوسکتا کہ یصلون دونوںکی خبر ہو کیونکہ اﷲ کی صلوٰۃ کچھ اور ہے اور ملائکہ کی کچھ اور ۔ ایک لفظ کا استعمال دو معنی مختلف میں وقت واحد میں درست نہیں۔ اور اگر کہا جائے کہ لفظ اﷲ کی 
خبر محذوف ہے یعنی یصلی اور یصلون ملٰٓـئکتہ کی خبر ہے تو وہ بھی درست نہیں اس لئے کہ نحو میں تصریح ہوچکی ہے کہ جب معنی دو خبروں کے جدا جدا ہوں تو اس وجہ سے کہ دوسری خبر محذوف پر دلالت نہیں کرتی ایک کو حذف کرنا درست نہیں اگرچہ لفظ دونوں کا ایک ہو جیسے زید ضارب و عمرو میں اگر محذوف ضارب سے چلنے والا مراد ہو یعنی مسافر اور مذکور سے مارنے والا


کماقال القسطلانی فی شرح البخاری ان اﷲ و ملٰٓـئکتہ یصلون علی النبی اختلف ہل یصلون خبر عن اﷲ و ملائکتہ أوعن الملٰٓئکۃ فقط و خبرالجلالۃ محذوف لتغایر الصلاتین لأن صلوۃ اﷲ غیر صلٰو تہم أی ان اﷲ و ملٰٓـئکتہ یصلون إلا ان فیہ بحثا و ذلک أنہم نصواعلی أنہ اذا اختلف مدلولا الخبرین فلایجوز حذف أحدھما لدلالۃ الآخر وان کانا بلفظ واحد فلا تقول زید ضارب و عمرو یعنی و عمرو ضارب فی الارض ای مسافر وجہ دفع اشکال یہ ہے کہ تینوں صلوٰۃ حقیقت میں ایک ہیں اور مصداق سب کا ایک ہی قسم کا ہے ، نہ مختلف ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post