نام مبارک سے رفع وحشت Naam e Mubarak Se Raf e Wahshat

نام مبارک سے رفع وحشت : 

قولہ : وحشت آدمؑ گئی نام شہ لولاک سے : کمافی المواھب روالزرقانی (واخرج ابونعیم فی الحلیۃ عن ابی ھریرۃ ؓ رفعہ لمانزل آدم علیہ السلام بالہند استوحش فنزل جبریل علیہ السلام فنادی بالأذان اللہ اکبر اللہ اکبر مرتین اشہد ان لاالہ الا اللہ مرتین اشہدان محمدا رسول اللہ مرتین ۔ الحدیث ) ورواہ ایضاً الحاکم و ابن عساکر و قد روی الدیلمی عن علی راٰنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حزیناً فقال : یا ابن ابی طالب مالی اراک حزیناً ، فمر بعض اہلک یؤذن فی اذنک فانہ دواء للہم فجربتہ فوجدتہ کذلک ، و قال کل من رواتہ : جربتہ فوجد تہ کذلک ۔ 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب آدم علیہ السلام ہند میں اترے ان کو وحشت ہوئی اس وقت جبریل علیہ السلام اترے اور اذان کہی اس طور سے اللہ اکبر اللہ اکبر دوبار اشہدان لاالہ الا اللہ دوبار اشہدان محمدا رسول اللہ دو بار آخر حدیث تک ( مقصود یہ کہ بدولت اس اذان کے 
وحشت جاتی رہی ) اور علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ کو حزین و غمگین دیکھ کر فرمایا کہ اے ابن ابی طالب تم کو میں غمگین پاتا ہوں ، کسی سے کہو کہ تمہارے کان میں اذان کہدے وہ غم کی دوا ہے ، علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ میں نے اس کو آزمایا فی الحقیقت اس سے حزن جاتا رہا اور اس حدیث کے جتنے راوی ہیں سبھوں نے ایسا ہی کہا کہ ہم نے بھی اس کو آزمایا ہے واقعی یہی تاثیر پائی ۔ انتھیٰ ۔

نکتہ : وجہ اس کی یہ ہے کہ جب کوئی اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے تو جتنے خیالات وحشت انگیز ہوں سب محو ہوجاتے ہیں ، اس لئے کہ جب انسان کو کسی کے ساتھ کمال درجہ کی محبت ہو اور اس کو یادکرے تو دل اسی کے ساتھ متعلق ہوجاتا ہے جس سے خیال ان امور کا جو وحشت انگیز ہوں باقی نہیں رہتا یعنے کیفیت جدیدہ دل میں متمکن ہونے کی وجہ سے کیفیت سابقہ محو ہوجاتی ہے ،جب یہ تاثیر ہر محبوب کے یاد کرنے میں عموماً ٹھہری تو محبوب رب العالمین کے یاد کرنے میں کس قدر تاثیر ہونا چاہئے ! جب بحسب عقیدۂ اہل اسلام کسی کیفیت قلبی وغیرہ کا وجود بے تخلیق خالق ممکن نہیں ۔ سو جیسے حق تعالیٰ نے ہر محبوب کے یاد کرنے میں تاثیر رکھی ہے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کی یاد میں اگر خاص طور پر وہ تاثیر رکھی ہو تو کیا عجب ! البتہ ان دونوں میں اتنا فرق ہوگا کہ وہاں تذکّر کے بعد ایک نئی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس سے کیفیت سابقہ محو ہوجائے ۔ اور یہاں توسط کیفیت جدیدہ کی ضرورت نہیں ، مگر چونکہ تاثیرات اشیاء من جانب اللہ ہیں ، اثر آخری دونوں کا ایک طور پر ہوا ۔ جیسے طب یونانی و مصری یا ڈاکٹری کہ کسی میں علاج بالضد ہے اور کسی میں بالموافق ۔ ہر چند کیفیات درمیانی متغایر ہوں مگر انجام دونوں کا جوازالۂ مرض ہے ایک ہے ۔
الحاصل : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر مبارک میں یہ اثر دیا گیا ہے کہ وحشت و اندوہ کو دفع کرے ۔ میں یقین سمجھتا ہوں کہ یہاں باریک و نازک اسرار ہوں گے ، جس کو اہل مذاق جانتے ہوں گے ۔ اتنا تو میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ ادھر شان رحمتہ للعالمینی جلوہ گر ہے کہ نام سے آثار رحمت 
ہویدا ہیں ۔


اور ادھر عظمت شان غیوری آمادہ قہر ہے کہ جب عموماً محبوبوں کے ذکر میں وہ تاثیر ہو ، کیا معنی کہ محبوب رب العالمین کے ذکر میں وہ اثر نہ ہو! دلوں پر جبر ہے کہ بخرق عادت بلا توسط کیفیت جدیدہ وحشت و اندوہ دفع ہوا کرے ۔ یہاں ایک بات اور یاد رکھ لینا چاہئے کہ اگر کسی بداعتقاد قسی القلب کے دل میں یہ اثر ظاہر نہ ہو، تو یہ نہ سمجھیں کہ اس کی تاثیر میں کچھ فرق ہے ۔ بلکہ وہاں یہ سمجھناچاہئے کہ محل میں صلاحیت نہیں ۔ جیسے اطباء معترف ہیں کہ جب محل میں صلاحیت قبول نہ ہو، دوا کیسی ہی قوی الاثر کیوں نہ ہو کچھ تاثیر نہیں کرتی ۔ علیٰ ہذا القیاس اورادِ اَدعیہ و سور قرانی باوجود قطعیت تاثیر کے اسی وجہ سے کبھی اثر نہیں بھی کرتے ہیں ۔
فائدہ : اگر کوئی یہاں یہ سوال کرے کہ حدیث شریف سے تو مجموع اذان کی تاثیر ثابت ہوتی ہے اور اس میں کئی امور مذکور ہیں خاص حضرتؐ کے نام کی تاثیر کہاں سے ثابت ہوئی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اذان میں تین چیزوں کا ذکر ہے : اللہ تعالیٰ ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم ۔ اور نماز کی دعوت ۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اس اذان سے دعوت نماز مقصود نہیں ورنہ علی کرم اللہ وجہہ کو کان میں اذان کہلوانے کا ارشاد کیوں ہوتا ۔ فرما دیتے کہ اذان وقتیہ سن لو ۔ اب رہا خدائے تعالیٰ کا ذکر سو اس میں کچھ شک نہیںکہ خدائے تعالیٰ کے نام پاک میں ہر قسم کی تاثیرات ہیں ، اس کا انکار کون کرسکے ۔ مگر یہ بھی تو ہے کہ موثر حقیقی وہی ہے ، اور وہ مختار ہے چاہے تاثیر کسی شئے کی کسی وقت ظاہر کرے چاہے نہ کرے ۔ چنانچہ آدم علیہ السلام جب سے کہ اپنے مقام سے جدا ہوئے ، کیا ہوسکتا ہے کہ اس محل وحشت اندوہ میں سوائے خدائے تعالیٰ کے اور کسی کا ذکر انہوں نے کیا ہوگا ، پھر باوجود اس کے نام پاک کی تاثیر ظاہر نہ فرمائی کیونکہ مقصود کچھ اور تھا ، پھر جب وحشت کو ان کی دفع کرنا منظور ہوا جبریل علیہ السلام بھیجے گئے کہ اذان کہیں جس میں نام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی تھا ، اب ذرا غور کیا جائے کہ ایسے موقع میں آدم علیہ السلام نے کیا خیال کیا ہوگا ۔

 یہی وجہ تھی کہ جب نام مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یاد دلادیا گیا تمامی خصوصیات حضرتؐ کے جو وہ دیکھ چکے تھے سب 
آنکھوں کے سامنے ہوگئے اور کہنے لگے الہٰی بحق محمد صلی اللہ علیہ و سلم مجھے بخشدے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تمامی اذان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے نام مبارک کا ذکر مقصود تھا ۔ جس کی تاثیر ظاہر ہوئی اور اس کی مثال ایسی ہوئی جیسے قیامت میں بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سے صرف تصدیق رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مقصود ہوگی کمافی المواہب و شرحہ ( واخرجہ ) ای حدیث ابی ہریرۃ المذکور ( الطبرانی و الحاکم بلفظ ) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ( تحشر الانبیاء علی الدواب و أبعث علی البراق و یبعث بلال علی ناقۃ من نوق الجنۃ ینادی بالأذان محضاً و بالشہادۃ حقاً حتی اذا قال اشہد ان محمداًرسول اللہ شہد لہ المؤمنون من الاولین و الاٰخرین ) 
ترجمہ : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ انبیاء کا حشر سواریوں پر ہوگا اور سوار ہوں گا میں براق پر اور بلال ناقۂ جنت پر ہوں گے اور اذان خالص کہیں گے اور سچی گواہی دیں گے جب اشہدان محمداً رسول اللہ کہیں گے تو سب اگلے پچھلے اہل ایمان اس کی گواہی دیں گے ۔ انتھیٰ ۔

یہ بات ظاہر ہے کہ نہ محشر میں نماز کی دعوت مقصود ہے نہ شہادت توحید کیونکہ وہاں تو کفار بھی موحد ہوجائیں گے مقصود یہ کہ مجموع اذان سے دونوں صورتوں میں ایک ہی چیز مقصود ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اذان میں جو رفع وحشت و اندوہ کی تاثیر ہے بنظر نام مبارک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہے اور وحشت آدم علیہ السلام کی اسی سے زائل ہوئی ، و ھوالمطلوب ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post