حضرت سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی Hazrat Sufiyan sauri Hayat wa Karamat || History in Urdu - Hazrat Sayyiduna Sufiyan Sori

 نام ونسب اور ولادت

سفیان نام، ابوعبداللہ کنیت، ان کے سلسلۂ نسب میں ایک نام ثوربن مناۃ آتا ہے؛ اسی کی نسبت سے وہ ثوری کہلاتے ہیں (اس تذکرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ثور نام کے دوآدمی تھے، ایک کاتعلق مشہور عرب قبیلہ مضر سے اور دوسرے کا مشہور قبیلہ ہمدان سے، امام سفیان ثوری کے بارے میں عام تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ وہ ثور مضر سے ہیں اور بعض لکھتے ہیں کہ ثور ہمدان سے ہیں) باختلاف روایت ان کی ولادت سلیمان ابن عبد الملک کے زمانۂ خلافت میں سنہ 96،97ھ بمطابق 715ء میں ہوئی (بعض لوگوں نے ان کا سنہ ولادت سنہ95ھ لکھا ہے؛ مگریہ اس لیے غلط ہے کہ اس بات پرسب کا اتفاق ہے کہ وہ سلیمان کی خلافت میں پیدا ہوئے تھے اور سلیمان سنہ96ھ میں تخت خلافت پربیٹھا تھا)۔[2]



خاندان

علم وفضل کے لحاظ سے ان کا خاندان کوفہ کے معروف خاندانوں میں تھا، ان کے والد سعید بن مسروق خود صاحب علم وفضل تھے، خاص طور پرحدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تحدیث وروایت میں وہ معروف تھے، عام ارباب تذکرہ ورجال نے ان کی توثیق کی ہے، حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں مستقلا ان کا ترجمہ لکھا ہے، بعض واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی والدہ بھی نہایت عفت مآب، پاکیزہ سیرت اور صاحب علم خاتون تھیں، سفیان کہتے ہیں کہ میں نے ایک بار رات کوآسمان پرنگاہ اُٹھائی تومعلوم ہوا کہ میرا دل پہلو میں نہیں ہے، اس کیفیت کا ذکر میں نے اپنی والدہ سے کیا توبولیں معلوم ہوتا ہے کہ تم نے آسمان پرحیرت پذیری اور غور و فکر کی غرض سے نگاہ نہیں ڈالی؛ بلکہ تمہارا مقصد صرف لہوولعب تھا۔[3]


والدین کے علاوہ ان کے دوبھائی عمرومبارک کا بھی شمار اہلِ علم میں ہوتا ہے، حافظ ابن حجر اور خطیب نے ان کے حالات لکھے ہیں، مشہور امام حدیث اعمش مبارک بن سعید سے اپنی مجلسِ درس میں حددرجہ شگفتہ رہتے تھے، جب ان کویہ معلوم ہوا کہ یہ سفیان کے بھائی ہیں توپھران کواپنے پہلو میں بٹھاتے تھے، ان کوہذالسید، یہ سردار ہیں کے الفاظ سے یاد کرتے تھے، آخری عمرمیں بینائی جاتی رہی تھی۔[4]


دوسرے بھائی عمربن سعید بھی صاحب علم تھے، عمر کے ایک صاحبزادے حفص بھی علم وفضل میں باپ کے جانشین تھے۔[5]


تعلیم وتربیت

امام سفیان نے کوفہ میں آنکھ کھولی جوحرمین کے بعد علوم دینیہ کا سب سے بڑا مرکز تھا، خاص طور پرفقہ وحدیث کے توبیشمار حلقہائے درس قائم تھے، ماشائ اللہ گھرکا ماحول بھی قال اللہ اور قال الرسول کی صدا سے پرشور تھا؛ اسی علم افزا اور روح پرور ماحول میں ان کی تعلیم وتربیت شروع ہوئی، تذکروں میں ان کی ابتدائی تعلیم وتربیت کا کوئی ذکر نہیں ملتا؛ مگران کے والد کے تلامذہ کی جوفہرست رجال کی کتابوں میں ملتی ہے، اس میں ان کا نام بھی ملتا ہے، بعض واقعات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گھر کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی، جوان کے حصولِ علم کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہی تھی؛ مگران کی والدہ کے جذبۂ دینی اور ہمت مردانہ نے اس کودور کر دیا، ایک دن انہوں نے سفیان کوحصولِ علم کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: يَابَنِيْ أُطْلُبُ الْعِلْمَ وَأَنَاأَكْفِيْكَ بِمَغْزِلِ۔[6] ترجمہ: اے نورِ نظر تم حصولِ علم میں لگے رہو میں چرخہ کات کرتمہارے اخراجات پورے کرونگی


نیک بخت ماں نے ان کومحض حصولِ علم کی ترغیب ہی نہیں دی؛ بلکہ ان کویہ نصیحت بھی کی کہ یہ علم ان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے کا سبب ہو، ان کے بگاڑنے کا سبب نہ ہو، وہ عبادت ہو، تجارت نہ ہو، اُن کا یارہو مارنہ ہو ؎علم رابزدل زنی یارے بود


چنانچہ ایک بار بڑی دلسوزی کے ساتھ نصیحت کی کہ: بیٹے جب تم دس حرف لکھ چکو تودیکھو کہ تمہاری چال ڈھال اور حلم ووقار میں کوئی اضافہ ہوا یانہیں؛ اگراس سے کوئی اضافہ نہیں ہوا توسمجھ لو کہ علم نے تم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔[7]


والدہ کی اس نصیحت کوانہوں نے زندگی بھرحرزجان بنائے رکھا، جس کی شہادت ان کی پوری زندگی سے ملتی ہے، والدین کی تعلیم وتربیت کے علاوہ کوفہ کے تمام ممتاز شیوخ حدیث وفقہ سے انہوں نے استفادہ کیا تھا، کوفہ میں اس وقت جن تابعین کی مجلس درس وافتا کوامتیاز حال تھا ان میں امام اعمش اور ابواسحاق سبیعی سرفہرست تھے، ان دونوں بزرگوں سے انہوں نے پورا فائدہ اُٹھایا، خاص طور پرامام اعمش کی روایات کے وہ بہت بڑے امین تھے، امام وقت یحییٰ بن معین فرماتے تھے: سُفْيان الثوري اعلم الناس بحديث الأعمش۔[8] ترجمہ:سفیان ثوری اعمش کی روایتوں کے سب سے بڑے جاننے والے تھے۔


اوپر ذکر آچکا ہے کہ اس عہد میں حدیث کا دفتر سفینوں سے زیادہ سینوں میں تھا؛ اس لیے حدیث کے طالب علموں کوان جواہرریزوں کی تلاش میں دور دور کا خیاک چھاننی پڑتی تھی اور جوریزہ جہاں سے بھی ملتا تھا اُسے اپنے سفینوں میں جمع کرجاتے تھے، برسوں کی اس محنت شاقہ کے بعد کہیں جاکر کوئی شخص تحدیث وروایت کے قابل سمجھا جاتا تھا، امام سفیان ثوری بھی ان ہی بزرگوں میں سے تھے جن کوحدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سننے کے لیے سیکڑوں میل کا سفر کرنا پڑا، پہلے انہوں نے کوفہ کے تمام ممتاز شیوخ حدیث سے استفادہ کیا اور پھربصرہ اور حجاز کے مختلف مقامات کے شیوخ حدیث کی خدمت میں پہنچے اور ان سے سماع حدیث کیا، حافظ ابن حجرکوفہ، بصرہ اور حجاز کے بعض ممتاز شیوخ کا نام لے کرلکھتے ہیں: وخلق من أهل الكوفة..... وجماعة من أهل البصرة..... وطوائف من أهل الحجاز وغيرهم۔[9] ترجمہ: اہل کوفہ کی ایک بڑی تعداد سے استفادہ کیا اسی طرح بصرہ کی ایک بڑی جماعت سے فیض اُٹھایا اور حجاز کے مختلف خلقہائے درس سے بہرہ مند ہوئے


وثوقِ علم

اپنے علم وفن پروثوق واعتماد ہرعلم وفن کے لیے ضروری ہے، خاص طور پرتحدیث روایت میں یہ اور بھی زیادہ ضروری ہے؛ اگرریب وشک سے سے کوئی شخص حدیث نبوی کی روایت کرے گا تووہ اس روایت میں بھی شک پیدا کرے گا اور اس سے دوسروں کے دل میں بھی بے اعتمادی پیدا ہوگی، عام طور پر محدثین کو اپنی یادداشت اور اخذروایت پراعتماد ہوتا تھا؛ مگرامام سفیان ثوری اس میں خاص طور پرممتاز تھے۔


اوپرذکر آچکا ہے کہ اعمش کے تلامذہ میں سفیان ثوری ان کی روایتوں کے سب سے بڑے امین تھے؛ انہوں نے ان سے جوروایتیں کی تھیں، ان پراتنا وثوق تھا کہ اس سلسلہ میں استاذ سے تسامح ہوجاتا تھا؛ مگران سے نہیں ہوتا تھا، مشہور محدث زائدہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ اعمش کی خدمت سے حدیث لکھ کرواپس ہوتے تھے، توان مکتوبہ روایتوں کوامام سفیان کی خدمت میں پیش کرتے تھے، وہ دیکھ کربعض روایتوں کے بارے میں فرماتے تھے کہ فلاں فلاں روایت تو اعمش کی بیان کردہ نہیں ہیں، ہم کہتے کہ انہوں نے ابھی ہم سے ان کی تحدیث کی ہے، فرماتے کہ جاؤ اور اُن سے یہ بات کہو؛ چنانچہ ہم لوگ جاتے اور اُن سے کہتے تووہ غور کرکے فرماتے کہ صدق سفیان، سفیان نے ٹھیک کہا ہے اور پھراپنے صحیفہ (یعنی اس کے حدیث نبوی ہونے میں شبہ نہیں تھا اور نہ امام سفیان کواس پراعتراض تھا؛ بلک ہان کے اعترا ضکا مطلب یہ تھا کہ اس روایت کوان روایتوں میں شامل نہ کیا جائے، جوامام اعمش نے اپنے شیوخ سے براہِ راست سنی ہیں، اندازہ کیجئے کہ تدونِ حدیث میں محدثین نے کتنا دیدہ ریزی کی ہے) سے اس کو مٹادیتے تھے۔


عبد الرحمن بن مہدی جوخود امامِ حدیث ہیں، فرماتے تھے: مارأيت صاحب حديث احفظ من سفيان الثوري۔ ترجمہ:میں نے سفیان ثوری سے زیادہ حدیثیں یاد رکھنے والا نہیں دیکھا۔


یہ کہنے کے بعد انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ایک بار انہوں نے حماد بن ابی سلیمان عن عمروبن عطیہ عن سلمان الفارسی کے واسطہ سے ایک روایت بیان کی میں نے اُن سے عرض کیا کہ ابوعبداللہ! اس میں آپ سے غلطی ہوئی ہے؟ پوچھا کیسے؟ کسی اور واسطہ سے روایت منقول ہے، میں نے کہا ہاں! حماد سے ربعی نے، ربعی نے سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، فرمایا کس نے اس واسطہ سے روایت بیان کی ہے میں نے، امام شعبہ نے فرمایا: امام شعبہ سے غلطی ہوئی ہے؛ پھرکچھ دیر خاموش ہوکر سوچتے رہے؛ پھرپوچھا کہ اچھا اس روایت میں امام شعبہ کی کسی اور نے بھی تائید کی ہے، میں نے ہشام الدستواثی، سعید بن عروبہ اور حماد بن زید کا نام لیا، فرمایا کہ حماد سے غلطی ہوئی ہے، ان ہی نے مجھ سے عروبہ اور حماد بن زید کا نام لیا، فرمایا کہ حماد سے غلطی ہوئی ہے، ان ہی نے مجھ سے عروبہ بن عطیہ کے واسطہ سے یہ روایت بیان کی ہے، ابن مہدی کہتے ہی ں کہ میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جب چار اادمی ایک بات پرمتفق ہیں تووہی صحیح ہوگی؛ لیکن ایک سال بعد یعنی سنہ181ھ میں شیخ غندر کے پاس گیا توانہوں نے امام شعبہ کا مرتب کردہ صحیفہ حدیث مجھ کودکھایا، اس میں یہ روایت عن عماد عن ربعی کے الفاظ میں موجود تھی، امام شعبہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ حماد کبھی اسے عمروبن عطیہ سے بھی روایت کرتے تھے اور کبھی ربعی سے، یہ دیکھ کرابن مہدی کی زبان سے بے اختیار نکلا ابوعبداللہ! آپ پرخدا رحم کرے، آپ جب کوئی حدیث یاد کرلیتے ہیں توپھریہ پروا نہیں کرتے کہ کون آپ کی مخالفت کرتا ہے۔[10]


اسی بناپریحییٰ بن معین فرماتے تھے جوبھی امام سفیان کی مخالفت کرے، بات ان ہی کی صحیح ہوتی ہے۔


امام سفیان اور امام شعبہ

امام سفیان اور امام شعبہ تقریباً ہم عصر ہیں اور دونوں بزرگوں کوامامت فی الحدیث کا درجہ حاصل ہے؛ مگران دونوں کی کچھ جدا جدا خصوصیتیں ہیں، اسی لیے خطیب نے امام شعبہ اور امام سفیان کی امتیازی خصوصیات کے ذکر کے لیے ایک الگ باب باندھا ہے، امام شعبہ کی خصوصیات کا ذکر اوپر آچکا ہے، یہاں امام سفیان کی خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے۔


ابن قطان کہتے تھے کہ میری نظر میں امام شعبہ سے بڑا اور محبوب آدمی دوسرا نہیں ہے؛ لیکن جب امام سفیان اور ان میں اختلاف ہوتا ہے تومیں امام سفیان کی روایت کولیتا ہوں، یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ سفیان امام شعبہ سے زیادہ اثبت ہیں اور رجال کے عالم ہیں۔


رویات کے مشہور زمانہ ناقدیحییٰ بن معین فرماتے تھے کہ روایات میں سفیان کی جوبھی مخالفت کرے ان ہی کی روایت قابل ترجیح ہوگی، کسی نے کہا کہ شعبہ بھی ان کے مخالف روایت کریں جب بھی فرمایا، ہاں! پھرکسی نے کہا کہ اگربصریوں کی روایات میں شعبہ ان کی مخالفت کریں توکس کوترجیح ہوگی؟ فرمایا:یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امام شعبہ بصریوں کی روایات میں ان کی مخالفت کریں۔[11]


امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے اہلِ علم کا اعتراف

امام ابوحنیفہ ان کے فضل وکمال کے حددرجہ معترف تھے، ایک بار فرمایا کہ اگروہ تابعین کے عہد میں بھی ہوتے توبھی ان کا ایک خاص مقام ہوتا، ایک دفعہ امام کے پاس ایک شخص آیا اور بولا کہ آپ نے سنا نہیں کہ سفیان ثوری نے کیا روایت کی ہے، امام ابوحنیفہ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہوکہ میں یہ کہوں کہ سفیان حدیث کی روایت میں غلطی کرتے ہیں؛ اگرسفیان، ابراہیم نخعی (امام ابوحنیفہ کے استاذالاساتذہ ہیں) کے زمانہ میں ہوتے توبھی لوگ حدیث میں ان کے محتاج ہوتے، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اگرابراہیم کے زمانہ میں بھی سفیان کی موت ہوتی تولوگوں کوان کی عدم موجودگی محسوس ہوتی۔


اسی طرح امام احمد بن حنبل نے بھی ان کے علم وفضل کا بڑی وسعت قلب کے ساتھ اعتراف کیا ہے، کسی نے پوچھا کہ سفیان ثوری احفظ تھے، یاسفیان بن عیینہ بولے سفیان ثوری احفظ تھے اور بہت کم غلطی کرتے تھے اور سفیان بن عیینہ حافظ تھے۔


ابن مہدی فرماتے تھے کہ میں نے امام مالک سے عاقل، عبد اللہ بن مبارک سے زیادہ اُمت کا خیرخواہ، امام شعبہ سے زیادہ متقشف اور امام سفیان ثوری سے زیادہ حدیث کا جاننے والا نہیں دیکھا۔


امام نسائی کہا کرتے تھے کہ وہ اس سے زیادہ بلند تھے کہ ان کی توثقی کی جائے، امام مالک فرماتے تھے کہ عراق ہم پردرہم ودینار کی بارش کرتا تھا، اس نے سفیان کے بعد علم کی بارش شروع کردی۔[11]


ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ یہ بات زبانوں پ رہے کہ امیرالمؤمنین عمربن الخطاب ر اپنے زمانہ میں راس الناس تھے اور ان کے بعد ابن عباسؓ راس الناس ہوئے اور ان کے بعد امام شعبی (تابعین میں) اور امام سفیان (تبع تابعین) میں راس الناس قرار پائے۔


مرویات کی تعداد

دوسری صدی کے بعد جب حدیث کا منتشر ذخیرہ بڑی حد تک جمع ہو گیا تومحدثین کے لیے لاکھوں کی تعداد میں روایات اور اُن کے سلسلہ اسناد کا یاد رکھنا آسان ہو گیا؛ لیکن جب یہ ذخیرہ منتشر تھا توپھردوچار ہزار حدیثوں کا بھی سینوں اور سفینوں میں محفوظ رکھنا مشکل تھا، اس لیے تبع تابعین کے عہد میں دس ہزار سے زیادہ کسی امام حدیث کوحدیثیں مشکل سے یاد تھیں؛ لیکن امام سفیان کواس حیثیت سے بھی امتیاز حاصل تھا کہ ان کی مرویات کی تعدادجو ان کے سینہ میں ہروقت محفوظ رہتی تھیں تیس ہزار تھی۔[12]


زہد وتقویٰ

زہدوتقویٰ جیسا کہ مذکورہ خط سے بھی معلوم ہوتا ہے، ان کا خاص وصف تھا، ایک شاگرد نے ان سے ایک دن کہا کہ لوگوں میں آپ کا اتنا چرچا ہے اور آپ رات کوسوتے رہتے ہیں، بولے چپ رہو! اصل چیز دل کا تقویٰ ہے (عبادت وریاضت کی کثرت نہیں)۔[13]


انہوں نے دنیا حاصل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی؛ بلکہ حصولِ دنیا کے جتنے ذرائع تھے، انہوں نے اپنے اوپر مسدود کرلیے تھے، خراسان میں ان کواپنے چچا کی کچھ جائداد ملی تھی اسی پران کا گذراوقات تھا۔[14]


دنیا سے بے رغبتی کا حال یہ تھا کہ عمربھر گھرکے اوپر ایک حبہ صرف نہیں کیا، فرماتے ہیں: ماأنفقت درهما قط في بنا۔[15] ترجمہ:میں نے ایک درہم بھی مکان کے بنانے میں صرف نہیں کیا۔


امام شعرانی کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر تین باتیں لازم کرلی تھیں، ایک یہ کہ وہ کسی سے خدمت نہ لیں گے اور نہ ان کا کپڑا کوئی درست کرے گا اور نہ وہ اینٹ پراینٹ رکھیں گے۔[14]


وہ چاہتے تودنیا میں مال ودولت اقتدار سب کچھ حاصل کرسکتے تھے؛ مگریحییٰ بن یمان کا بیان ہے کہ: أقبلت الدنيا عليه فصرف وجهه عنها۔[16] ترجمہ:دنیا ان کی طرف بڑھی مگرانہوں نے اس سے منہ پھیرلیا۔


امرا وسلاطین کا ذکر کیا اپنے خاص خاص دوستوں تک کے ہدایا قبول نہیں کرتے تھے، ان کے بھائی مبارک کہتے ہیں کہ امام سفیان کے ایک دوست تھے، جن کے یہاں اکثر ان کی آمدورفت رہتی تھی اور ان کے یہاں ٹھہرا بھی کرتے تھے ان کا ایک لڑکا ایک مرتبہ درہموں سے بھری ہوئی ایک یادو تھیلی لے کر ان کی خدمت میں آیا وہ مزاج شناس تھا، بولا کہ میرے والد کی طرف سے آپ کوکوئی شکایت تونہیں ہے، فرمایا کہ نہیں خدا اُن پررحم کرے، وہ بڑی خوبیوں کے آدمی ہیں؛ پھر اس نے کہا کہ یہ توآپ جانتے ہیں کہ دولت ہمارے پاس کن ذرائع سے آئی ہے؟ اس لیے میری خواہش ہے کہ یہ رقم جومیں لے کر آیا ہوں آپ اسے قبول کر لیں اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کریں؛ انہوں نے تھیلی اپنے ہاتھ میں لے کررکھ لی، جب وہ ان سے رخصت ہوکر باہر چلا گیا تومبارک کوبلایا اور فرمایا باہر لے جاکر رقم اسے لوٹا دو، مبارک کہتے ہیں کہ میں اس سے ملا اور وہ رقم لوٹا دی وہ پھرواپس آیا اور اس نے اصرار کیا کہ وہ دوبارہ اس رقم کوواپس لے لیں، فرمایا کہ میں نے ہاتھ میں لے تولی تھی، اب پھرتم اس کوواپس لے جاؤ، اس نے کہا کہ کوئی ناراضی تونہیں ہے، فرمایا نہیں وہ بار بار رقم کے لینے پراصرار کرتا رہا اور یہ واپسی کے لیے بصد تھے؛ یہاں تک کہ وہ شخص واپس چلا گیا، جب تنہائی ہوئی توان کے بھائی مبارک ان کے پاس آئے اور بولے بھائی آپ کا دل بالکل پتھر ہو گیا ہے آپ کے اگراہل وعیال نہیں ہیں توہم پرتورحم کرتے، آپ کواپنے بھائیوں اور ان کے بچوں پربھی رحم نہیں آیا، کہتے ہیں کہ میں نے اسی طرح ان کوبہت کچھ سنایا، جب یہ سب کچھ کہہ چکا توفرمایا کہ: يامبارك تاكلها أنت هنيئا مريئا وأسأل اناعنها لايكون هذا ابدا۔[16] ترجمہ:مبارک تم تورقمیں لے لے کرمزے سے کھاؤ پیو اور اس کے بارے میں میری باز پرس ہو ایسا قطعی نہیں ہو سکتا۔


ہدیہ کی طرح قرض لینے سے بھی سخت گریز کرتے تھے؛ حالانکہ بسااوقات فاقہ کی نوبت آجاتی تھی اور ہدیہ نہ قبول کرنے اور قرض نہ لینے کی وجہ بیان کرتے تھے کہ لوگ مجھ کوعطیہ وہدیہ دے کراگرفخرمحسوس نہ کرتے تومیں ضرور اُن کے ہدایا قبول کرلیتا اور جس سے میں قرض لوں گا وہ غایت خوشی میں اسے چھپانے کی بجائے لوگوں سے فخریہ یہ کہے گا کہ کل سفیان ثوری مجھ سے قرض لینے آئے تھے۔[17]


ان کے اسی زہدوورع کی بناپرلوگ کہا کرتے تھے کہ: لولا الثوري لمات الورع۔[16] ترجمہ:اگرسفیان نہ ہوتے توزہدوورح کا خاتمہ ہوجاتا۔


رقت قلب اور فکرآخرت

نہایت ہی رقیق اور فکر آحرت میں ڈوبا ہوا دل پایا تھا، خوف آخرت سے ہروقت لرزاں اور ترساں رہا کرتے تھے، خود فرماتے ہیں کہ میں رات کوسوتا ہوں اور اچانک کوئی آواز آجاتی ہے تویہ تصور کرکے چونک پڑتا ہوں کہ ہم پرعذاب نہ آگیا ہو۔[13]


ایک بار زوال سے پہلے نفل پڑھ رہے تھے، جب قرآن کی اس آیت: فَإِذَانُقِرَ فِي النَّاقُورِo فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ۔ (المدثر:8،9) ترجمہ: پھرجب صور میں پھونک ماردی جائے گیo تووہ بڑا مشکل دن ہوگا۔[18]


پرپہنچے توچیختے ہوئے، سخت دھوپ میں باہر نکل پڑے؛ یہاں تک کہ لوگوں نے دھوپ سے ان کوواپس کیا۔[13]


ایک بار عشا کی نماز پڑھ کرایک شاگرد یوسف سے طہار کا برتن مانگا، شاگرد نے ان کودیدیا، برتن کوداہنے ہاتھ میں لے لیا اور اسی حالت میں پوری رات گذاردی اور اپنی جگہ سے حرکت نہیں کی، صبح کوشاگرد نے کہا کہ ابوعبداللہ صبح ہو گئی، فرمایا کہ جب سے تم نے یہ برتن دیا اسی وقت سے آخرت کے انجام پرغور کرتا رہ گیا؛ یہی شاگرد کہتے ہیں کہ جب سفیان ثوری سوچنے لگتے تھے توان کا خون پیشاب ہونے لگتا تھا۔[19] ان کے شاگرد ابواُسامہ کہتے ہیں ایک بار بیمار پڑے، میں اُن کا قارورہ لے کر کسی طبیب کے پاس گیا توطبیب نے قارورہ دیکھ کرکہا کہ یہ کسی راہب کا قارورہ معلوم ہوتا ہے، غم نے اس شخص کا جگرشق کر دیا ہے، اس کے لیے کوئی علاج کارگر نہیں ہے (ان کے بعض اقوال سے گوشہ گیری کی ترغیب معلوم ہوتی ہے، ان اقوال کی نسبت یاتوان کی طرف صحیح نہیں ہے یاپھروہ کسی خاص موقع اور محل کے لیے کہے گئے ہیں)۔


عبد الرحمن بن مہدی کہتے ہیں کہ اُن سے زیادہ رقیق القلب آدمی سے میرا سابقہ نہیں پڑا، یکے بعد دیگرے کئی رات اُن کودیکھتا رہا، وہ رات کے پہلے حصہ میں سوجاتے تھے؛ پھریکایک گھبراکر دوزخ، دوزخ چیختے ہوئے اُٹھ جاتے، فرماتے کہ دوزخ کی یاد نے مجھے نیند اور خواہشِ نفس سے دور کر دیا ہے؛ پھروضٰ کرتے اور وضو کے بعد یہ دُعا کرتے کہ اے اللہ! توبغیر بتائے ہوئے میری حاجت سے واقف ہے، میں تجھ سے عذاب دوزخ سے نجات کے علاوہ کچھ نہیں مانگتا، اے اللہ! فکرآخرت کی گھبراہٹ ہی نے مجھے رقیق القلب بنادیا ہے اور یہ میرے اوپرتیرا بڑا انعام ہے، اے اللہ! اگرگوشہ گیری کے لیے کوئی عذر میرے پاس ہوتا تومیں ایک لمحہ بھی لوگوں میں نہ رہتا، اس دُعا کے بعد نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے، نماز میں گریہ وبکا کی وجہ سے قرأت نہیں کرپاتے تھے، میں شرم اور اُن کی ہیبت کی وجہ سے اُن کی طرف دیکھ تونہیں پاتا تھا؛ مگرکوشش کے باوجود اُن کی قرأت صاف سنائی نہیں دیتی تھی۔[13]


ایک بار مجلس میں آپ نے ایک ایک شخص سے سوال کیا کہ تم رات میں کیا کرتے ہو، سب نے اپنے معمولات بتائے، جب سب لوگ بتاچکے توکسی نے امام سے پوچھا کہ آپ بھی تواپنے معمولات سے مطلع فرمائیے، فرمایا کہ میں پہلے حصہ میں بھرپورنیند سے سوجاتا ہوں؛ پھرجب اُٹھتا ہوں تودوبارہ ٹیک نہیں لگاتا۔


امام فقہ

امام سفیان ثوری کا ائمہ مجتہدین میں بھی شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ معاصر فقہا میں حلال و حرام کے مسائل کو ان سے زیادہ جانے والا کوئی اور نہ تھا۔ علم وراثت میں بھی سند سمجھے جاتے ہیں۔


جن ائمہ فقہ وحدیث کوزمرۂ تبع تابعین کا گل سرسید کہا جاسکتا ہے، ان میں ایک امام سفیان ثوری بھی ہیں، علم وفضل کے لحاظ سے ان کا شمار ان ائمہ مجتہدین میں ہوتا ہے جوایک جدافقہی مسلک کے بانی تھے، گوائمہ اربعہ کے مسلک کے سامنے یہ مسلک زیادہ دن تک زندہ نہ رہ سکا؛ مگراس کے باوجود فقہ وحدیث کی تمام قدیم کتابوں میں ائمہ رابعہ کے ساتھ سفیان ثوری کی رایوں اور مجتہدات کا ذکر بھی ملتا ہے، حدیث کی مشہور کتاب ترمذی ہی کواٹھا کردیکھ لیجئے، قریب قریب ہرباب میں وعلیہ سفیان الثوری وغیرہ کے الفاظ آپ کوملیں گے، اس عہد میں جن بزرگوں کوقرآن اور اس کی تفسیر وتاویل سے خاص شغف تھا اور جنہوں نے اس فن میں اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑیں ان میں امام موصوف بھی تھے، تذکرہ نگاروں نے امام کوبحیثیت فقیہ اور محدث توپیش کیا ہے؛ مگرطبقات المفسرین میں ان کا شمار نہیں کیا ہے؛ حلانکہ اس فن میں ان کا کارنامہ سفیان بن عیینہ، وکیع بن جراح، اسحاق بن راہویہ سے کم نہیں تھا، حیرت ہے کہ ان بزرگوں کوتومفسرین کی فہرست میں جگہ دی گئی ہے اور سفیان ثوری کواس شرف سے محروم رکھا گیا۔


علم وفضل کے ساتھ زہدواتقا میں بھی ضرب المثل تھے، ان کے بارے میں عام تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ دنیا ان کی طرف بڑھی مگرانہوں نے اس سے اپنی نظرپھیرلی ان مجمل اشارات کے بعد مفصل حالاتِ زندگی ملاحظہ ہوں۔


تصانیف

آپ کی تصانیف درج ذیل ہیں۔


الجامع الکبیر

الجامع الصغیر

کتاب الفرائض

وفات

ان کی وفات۔ 161ھ /۔ 778ء میں ہوئی

Post a Comment

Previous Post Next Post