Jayiza Kutub Sawaneh Shaikh Ul Islam Allama Anwar Ul Allah Farooqi

جائزہ کتب سوانح شیخ الاسلام
تصنیف/ تالیف/تحقیق/ ترتیب




حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ کی سوانح اور ان پر لکھے گئے مقالے جس میں مشہور’’ مطلع الانوار‘‘ حضرت مفتی رکن الدین صاحب ’’انوار الانوار‘‘ مولانا قطب الدین انصاری ’’حضرت انوار اللہ فاروقی نور اللہ مرقدہٗ شخصیت اور کارنامے‘‘ ڈاکٹر محمد عبد الحمید اکبر کا پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ ’’مرقع انوار‘‘ مولف مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی کامل جامعہ نظامیہ’’ملامح انوار‘‘ ڈاکٹر نفیس النساء بیگم ’’شیخ الاسلام حیات و تعلیمات‘‘ مولانا سید ضیاء الدین نقشبندی ’’الشیخ محمد انواراللہ الفاروقی وجہودہ فی الفکر الاسلامی‘‘ ڈاکٹر محمد جلال رضا نظامی اظہری شامل ہیں۔ 

مطلع الانوار

  ’’مطلع الانوار‘‘ کے بارے میں مصنف کا بیان ہے کہ شیخی و استاذی شیخ الافضل و استاذ الاکمل قدوۃ العلماء الکرام وعمدۃ الفضلاء العظام جامع شریعت وطریقت شیخ الاسلام حضرت مولانا مولوی حاجی حافظ محمد انوار اللہ نور اللہ مرقدہ المخاطب بہ خان بہادر نواب فضیلت جنگ استاذ حضرت غفران مکاں علیہ الرحمہ و اعلی حضرت ظل سبحانی مظفر الملک و الممالک نظام الملک نواب میر عثمان علی خان بہادر سلطان العلوم آصف جاہ سابع سریر آرائے سلطنت دکن خلد اللہ ملکہ و سلطنۃ و استاذ شہزادگان والا شان نواب اعظم جاہ بہادر ولی عہد سلطنت آصفیہ و نواب معظم جاہ بہادر اطال اللہ عمرہما صدر الصدور و رصوبجات دکن و معین المہام سرکار عالی صیغہ امور مذہبی کی ذات ستودہ صفات حین حیات اہل زمن کے لئے عموماً اور اہل باطن کے لئے خصوصاً باعث فخر و مباہات تھی۔ خدائے پاک نے آپ کو حسب و نسب اور وجاہت ظاہری و باطنی میں ہر طرح سے ممتاز فرما یا تھا۔
اس امتیاز کے ساتھ آپ کے وجود باوجود سے ملک و ملت کو جو فیوض او انوار حاصل ہوئے اس لحاظ سے آپ اسم با مسمی تھے۔ راقم الحروف نے ۱۳۰۸ھ سے سن وصال ۱۳۳۶ھ تک ۲۹ سال خدمت میں رہ کر آپ کے زہد و تقوی، دینداری، مجاہدہ نفس اور عبادت مالی و بدنی کو بہ چشم خود دیکھا اور ہر امر کو شریعت بیضاء کے مطابق پایا۔ اس لئے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ کی ہستی اس زمانہ میں بہ اعتبار اعمال کے برگزیدگان امت مرحومہ سابق اولیاء اللہ و علماء باللہ رضوان الہ علیہم اجمعین کی مقدس ہستیوں کا نمونہ تھی اب جب کہ آپ ذات حمیدہ صفات عالم فنا سے عالم بقا کی طرف رحلت فرماکر جوار رحمت میں جاگزیں ہے اور جو نمونہ ’’السابقون الاولون اولئک المقربون‘‘ کا ہماری اصلاح کے لئے سامنے تھا نظروں سے غائب ہے اس لئے راقم نے ’’متوکلا علی اللہ‘‘ یہ قصد کیا کہ آپ کے برگزیدہ حالات ضبط 
تحریر میں لا کر قوم کے سامنے پیش کرے تا کہ یہ قلمی تمثال جو آپ کے وجود اصلی کا پرتو و مثال ہے ہماری زندگی کا دستور العمل بنے اور آپ کی یاد کو تازہ رکھے۔ دعا ہے کہ خدائے عز وجل اس کو قبول فرمائے۔ او رہمیں اس کے موافق عمل کرنے کی توفیق عطا کرے آمین ثم آمین۔ اعتذار آخر میں یہ عرض ہے کہ راقم نے جمع احوال میں اپنے معلومات کے علاوہ مولانا کے عزیز اقارب اور احباب سے بھی مدد لی ہے۔ اور ممکنہ سعی سے دریغ نہیں کیا۔ چونکہ خطا انسانی فطرت ہے اس لئے اگر اس میں کوئی فرو گذاشت پائیں تو معذور سمجھ کر معاف فرمائیں اور جب کبھی موقع ملے راقم کو دعائے خیر سے فراموش نہ کریں۔(مولانا مفتی) محمد رکن الدین عفی عنہٗ سابق ناظم مدرسہ نظامیہ

’’انوار الانوار‘‘

حضرت سید برہان اللہ حسینی ثانی قبلہؒ سجادہ نشین حضرت سید علی سالگڑے سلطان مشکل آسان قبلہؒ کی دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تھا۔ لڑکے کا نام حضرت سید رحمت اللہ حسینی  ؒ اور لڑکیوں کے اسمائے گرامی مریم بی بی زوجہ حاجی امیر الدین محتسب بنولہ اور دوسری لڑکی مہرن بی زوجہ قاضی محمدجعفر انصاری قاضی بلکنڈہ تھیں۔ قاضی امیر الدین، محتسب بنولہ کی صاحبزادی حضرت شیخ الاسلام کی زوجہ تھیں۔ اس طرح شیخ الاسلام کے خسر اور قطب معین الدین انصاری کے جد حضرت قاضی محمد جعفر انصاری مرحوم ہم زلف تھے۔ چونکہ قطب معین انصاری اس طرح حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان قبلہؒ کی آل سے تھے اور بانی جامعہ کی اہلیہ کا تعلق بھی حضرت سانگڑے سلطان مشکل آسان قبلہؒ سے تھا۔ اس طرح دونوں خاندانوں میں باہمی تعلق تھا۔
چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ قطب معین انصاری کے والد بزرگوار حیدرآباد آنے کے بعد شیخ الاسلام ہی کے گھر چیلہ پورہ میں حضرت کے ساتھ رہتے تھے او رمولف کی پیدائش بھی حضرت شیخ الاسلام کے مکان میں ہی ہوئی اور حضرت نے ان کا نام قطب معین الدین رکھا۔ کچھ عرصہ بعد محمد صدیق انصاری والد بزرگوار قطب معین الدین انصاری پہلے ہری باؤلی اور بعد میں محلہ کوٹلہ عالی جاہ میں مکان خرید کر منتقل ہوگئے۔

 آخری زمانہ میں قطب معین الدین انصاری مرحوم محلہ شاہ گنج مفتی رحیم الدین صاحب قبلہؒ کے مکان کے قریب منتقل ہوگئے۔ اسی مکان میں پروفیسر اکبر الدین صدیقی صاحب نے اپنے زمانے طالب علمی کے زمانے میں اکثر قیام کیا۔ قطب معین انصاری صاحب کو بچپن ہی سے حضرت سے والہانہ عقیدت تھی۔ اسی عقیدت کے نتیجہ میں مولف نے حضرت کے حالات جمع کرنے کا ارادہ کرلیا اور مواد جمع کرنے لگے اور اپنی تمام کاوشوں کو ’’انوار الانوار‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ترتیب دیا۔ مولف نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کا م کو انجام دیا۔ اس سلسلہ میں مولف نے حضرت کی ایک فوٹو بھی حاصل کرلی جو حضرت کے ایک 
درباری اجتماعی فوٹو میں شامل تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ہر سال شیخ الاسلام کے عرس شریف کے موقع پر یہ فوٹو لے جاکر جامعہ نظامیہ کے طلباء اور شیوخ کو بتلاتے اور اپنی طرف سے بطور تبرک مالیدہ تقسیم کرتے۔ اچانک بیماری کی وجہ سے ۷/ اپریل ۱۹۷۸ء کو انتقال کر گئے اور مولف مرحوم کی تدفین مقبرہ سید محمود صاب قبلہؒ فتح دروازہ میں عمل میں آئی۔ حضرت کے انتقال کے بعد مولانا شجاع الدین فاروقی صاحب مرحوم جو حضرت بانی جامعہ کی نواسی کے صاحبزادے تھے جو مولانا سید شاہ راجو ثانی کے بیان کے مطابق ان کے  خسر مرحوم کو ماموں کہا کرتے تھے اور مولانا قاضی سراج الدین فاروقی مرحوم (قاضی قندہار شریف) بھی جو مولانا سید شاہ راجو حسینی کے خسر مرحوم کے عزیز ہوتے تھے۔ 
حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ کے حیات اور کارنامے کے سلسلے میں یہ تذکرہ اپنی جگہ کافی مواد سے بھر پور ہے۔ اور یہ مولف کی محبت کا نذرانہ عقیدت ہے جس کی تعریف بجا طور پر کی جا سکتی ہے۔

معاف انوار

’’معارف انوار‘‘ کے نام سے یہ کتاب جس کے سر ورق پر یہ عبارت ہے۔ معارف انوار بانی جامعہ نظامیہ حضرت العلامہ مولانا محمد انوار اللہ فضیلت جنگ قدس سرہ العزیز کے مختصر حالات زندگی، رشحات قلم، استاذ الاساتذہ حضرت علامہ محمد عبد الحمید صاحبؒ سابق شیخ الجامعہ نظامیہ اس کتاب کے ذیلی عنوانات اس طرح ہیں۔ ظہور نور، خاندانی حالات، ابتدائی حالات، سلسلہ نسب، تعلیم و تربیت، جملہ سلاسل میں بیعت، حــضرت شیخ الاسلام کا طریقہ تربیت، اقوال، ازدواج، ملازمت و استعفاء، سفر ہائے حجاز، شاہان آصفیہ کی تعلیم، اخلاق و عادات، مشاغل روز و شب، پابندی احکام شرع، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج ، مجاہدہ نفس، تجرد، رمضان المبارک کا احترام، افطار و سحر کا اہتمام، سماع، اصلاحی کارنامے، دینی علمی خدمات، کتب جات آصفیہ، دائرۃ المعارف العثمانیہ، مجلس اشاعت العلوم، انوار احمدی، مقاصد الاسلام ، کتاب العقل، افادۃ الافہام، انوار الحق، مدرسہ نظامیہ کا قیام، مدرسہ نظامیہ کی مقبولیت، اسباب سے زیادہ مسبب پر نظر، وفات، اقسام کرامات، اعلی حضرت حضور نظام کی مزار شریف پر حاضری، فرمان مبارک، حلیہ، شعر و شاعری، نظم۔
یہ کتاب کئی بار طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے باوجود اختصار کے جامعیت کی حامل ہے۔ طرز تحریر عالمانہ ہے کیوں نہ ہو جب کہ حضرت مصنف اپنے عہد کے استاذ الاساتذہ تھے جائزہ کے لئے دستیاب ایڈیشن ۱۴۰۵ھ کا مطبوعہ ہے۔ شعبہ نشر و اشاعت مکتبہ حمیدیہ، پنجہ گلی، شاہ گنج اور مرکزی مکتبہ اہل سنت و جماعت کوچہ نسیم مچھلی کمان حیدرآباد کے سلسلہ اشاعت ۴ ہے اعجاز پریس حیدرآباد سے اس کی اشاعت  ہوئی قیمت ایک روپیہ اور ڈیمائی سائز کے ۳۲ صفحات پر مشتمل ہے جو لیتھو کی طباعت سے مزین ہے۔
مصنف نے مطلع الانوار کے نہج اور اسلوب تحریر میں علامہ مفتی رکن الدینؒ کا تتبع کیا ہے۔ علامہ فضیلت جنگ شناسی میں اس کتاب کا بھی قابل قدر  حصہ ہے۔ جو علامہ فضیلت جنگ کے تئیں مصنف کے جذبات عقیدت و محبت کی آئینہ دار ہے اس کا نسخہ کتب جامعہ نظامیہ کے گوشہ نظامیہ میں موجود ہے۔

ماہنامہ ارشاد کا ’’فضیلت جنگ نمبر‘‘

سابق میں حیدرآباد دکن سے ایک ماہنامہ ’’ارشاد‘‘ کے نام سے شائع ہوا کرتا تھا، جس میں ادبی، مذہبی اور تاریخی مضامین، تبصرے، جائزے اور مختلف شعراء کا کلام شامل ہوا رکرتا تھا، حیدرآباد کے علمی اور مشائخ خانوادہ کے معروف شخصیت حضرت پیر زادہ سید جاوید قادری اس کے مدیر اعلیٰ تھے۔
حضرت شیخ الاسلام سے آپ کو غیر معمولی اسن اور عقیدت و محبت تھی اور وہ آپ کی شخصیت و خدمات کے نہ صرف معترف و قدرداں تھے بلکہ اس کو علمی حلقوں میں متعارف کرانے کے لئے موصوف نے ’’ارشاد‘‘ کا ایک خاص شمارہ حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کے نام موسوم کرتے ہوئے ’’فضیلت جنگ نمبر‘‘ بڑے اہتمام سے شائع کیا اس کے سرورق پر حضرت شیخ الاسلام کی قلمی تصویر بھی شائع کی ہے، اس خاص شمارہ میں حیدرآباد کے مقتدر اہل قلم اور اہل علم کے معلوماتی مضامین اور حضرت شیخ الاسلام سے نظامیہ سے تعلق فرامین شاہی آصف جاہی کی بھی شریک خود آپ بھی تحریر اس میں شامل ہے۔
یہ خاص شمارہ آپ کی جانب سے بارگہ شیخ الاسلام میں خراج عقیدت کے علاوہ شیخ الاسلام شناسی کا ایک اہم ذریعہ بنا ۳۰×۲۰ حجم کا یہ خاص نمبر زیادہ صفحات پر مشتمل نہ ہونے کے باوجود اپنے مندرجات و شمولات ہیں، بڑی جامعیت و افادیت رکھتا ہے، یہ نمبر عام طور سے دستیاب تو نہیں خاص کتب خانہ میں البتہ دستیاب ہے۔

شیخ الاسلام نمبر

شیخ الاسلام نمبر ماہنامہ اسلامی افکار حیدرآباد کی خصوصی اشاعت ہے، یہ ان مقالات پر مشتمل ہے جو اردو گھر حیدرآبادمیں ڈاکٹر حسن الدین احمد،  ڈاکٹر حمید اکبر، ڈاکٹر سید بدیع الدین صابری، ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے انجمن  فیضان المسلمین کے زیر اہتمام سمینار میں پڑھے گئے تھے، یہ ایک مستقل کتاب تو نہیں کہی جاسکتی لیکن اس کے مقالات و منظومات مفید اور معلوماتی ہیں، راقم الحروف نے اس کو مرتب کیا تھا، جناب حافظ و قاری محمد عبدالحمید ملتانی قادری نے یہ مقالات فراہم کئے تھے، ایک مقدمہ اور مقالات کے علاوہ اس میں عربی اردو منظومات بھی شامل ہیں، اس خاص نمبر کے مقالات دوسرے رسالوں نے نقل کئے، کئی طلبہ اور شائقین نے اس کی اشاعت میں حصہ لیا تھا، کتب خانہ جامعہ نظامیہ میں اس کا ایک نسخہ موجود ہے، مقدمہ کے آخر میں راقم نے تحریر کیا تھا۔
ملک و وطن، قوم و ملت کے لئے آپ کی خدمات تاریخ کے ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتے ہیں جسے ضبط تحریر میں لانا اور نئی نسلوں تک پہنچانے کے لئے عزم محلم، سعی پیہم اور اخلاق باہم کی ضرورت ہے۔ صحافت اور اہل فکر و اہل خیر کا تعاون عمل بھی ناگزیر ہے۔ دور حاضر میں شیخ الاسلام کے علمی و عملی پیغام کو عام کرنے کے لئے حالات کا تقاضہ ہے کہ علماء و مشائخ اہل فکر دانش بالخصوص فارغین و طالبین نظامیہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں، اس وقت شاید نئی تاریخ مرتب ہوگی جو انشاء اللہ العزیز پچھلی تاریخ سے وقیع و عظیم ہوگی۔(شمارہ(۳):جمادی الاولی /جمادی الآخر ۱۴۱۵ھ مطابق نومبر ۱۹۹۴ء، مدیر، طابع، ناشر:محمد فصیح الدین نظامی، او ایس گرافکس، نارائن گوڑہ، حیدرآباد)

شیخ الاسلام محمد انواراللہ فاروقی شخصیت، علمی و ادبی کارنامے

ڈاکٹر ایم۔ اے حمید اکبر رقمطراز ہیں کہ ’’حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ شخصیت، علمی و ادبی کارنامے‘‘ کے موضوع کا انتخاب اس طور پر ہوا کہ میرے والد بزرگوار الحاج قاری محمد عبد العزیز صاحب قادری کا تعلیمی تعلق جامعہ نظامیہ سے رہا ہے اور ا ن کے اساتذہ میں حضرت مولانا شاہ نذر محمد خان صاحب نقشبندی اور مولانا محمد اسماعیل شریف صاحب ازلؔ قابل ذکر ہیں۔ والد صاحب کے بقول، ان کے یہ دونوں اساتذہ مولانا محمد انوار اللہ فاروقی کے شاگردان رشید ہیں اور ان کے پیر و مرشد حضرت شیخ احمد علی صاحب جنیدی القادری کو حضرت شیخ الاسلام سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ والد گرامی نے ان دونوں اساتذہ کرام اور پیر طریقت حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کی علمی و ادبی عظمت کے چرچے سنے تھے۔ چنانچہ مجھے بھی اپنے والد محترم کے توسط سے حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقی کا نام اور ان کے کارنامے کو سننے کا اتفاق ہوا۔ اس طرح مجھے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے متعلق دلچسپی پیداہوئی اور مولانا کی اردو نثری کتابوں کے علاوہ ان کے شعری مجموعے بنام ’’شمیم الانوار‘‘ مطالعہ کرنے کا خیال ہوا۔
اس مقالے کا مقصد، دنیائے علم و ادب کو حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقی کی نثر نگاری اور شاعری کے علاوہ ان کے علمی و اصلاحی کارناموں سے روشناس کرانا ہے۔
مقالہ چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول میں مولانا کے حالات زندگی اور ان کی شخصیت سے بحث کی گئی ہے۔ حالات زندگی کے تحت ان کی ولادت، تعلیم و تربیت، فکر معاش، اصلاحی و تعلیمی خدمات، مختلف تعلیمی و اشاعتی اداروں کے قیام، شاہی خطابات ازدواجی زندگی، اولاد اور شاگرد، اور ان کے شب و روز کے مشاغل پر نظر ڈالی گئی ہے۔ شخصیت کے ضمن میں مولانا کی علمیت، مشرب و مسلک کے علاوہ مولانا بحیثیت استاذ سلاطین دکن اور ماہر علوم اسلامی کے علاوہ اس باب میں مولانا کی علالت اور وفات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
حالات زندگی اور شخصیت کے بعد ضرو ری تھا کہ زیر بحث فنکار کے فکری پس منظر کا جائزہ لیا جائے۔ چنانچہ اس باب میں مولانا کے فکری پس منظر کے تحت، تصوف اور اس کی تاریخ (ابتداء سے مولانا انوار اللہ فاروقی تک) کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے۔ تصوف کے موضوعات، جیسے نفس، دل، روح، وجد وسماع، جبر قدر، خوش خلقی، صلح پسندی، تسلیم و رـضا پر مولانا کے افکار و خیالات پیش کئے گئے ہیں۔ مولانا کے اصلاحی نظریات خواہ وہ مسلمانوں کے عقائد و نظریات سے متعلق ہوں یامعاشرت سے ان سب کا جائزہ لیتے ہوئے اصلاح حال کے تحت، معاشرے کی اصلاح، عقائد و افکار کی اصلاح اور نظام درگاہ کی اصلاح وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔

فکری پس منظر کے اس جائزہ کے بعد تیسرے باب میں مولانا کی شاعری سے بحث کی گئی ہے۔اس باب میں مولانا کی شاعری، بحور و اوزان کا استعمال، موضوعات کا انتخاب، محاورات کے استعمال اور ان کی شاعرانہ خصوصیات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
چوتھے باب کو مولانا کی نثری تصانیف کے لئے مختص کیا گیا۔ جس میں ان کی ہر تصنیف کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے اور ان کی تحریری خصوصیات کا جائزہ ان کی تصانیف کی روشنی میں لیا گیا ہے۔
پانچواں باب اس مقالے کا اہم باب ہے جو مولانا کے اسلوب نگارش سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں پہلے اسلوب کی تعریف و ماہیت بیان کی گئی ہے، پھر اس کے علمی و ادبی تشکیلی عناصر سے بحث کی گئی ہے اور مولانا کے طرز تحریر کا اسلوب کی روشنی فنی تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں مولانا کا اردو ادب میں مقام و مرتبہ متعین کیا گیا ہے۔
چھٹا باب کتابیات سے متعلق ہے۔ اس مقالے کی تیاری میں جن ماخذات اور معاون کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان کی فہرست حروف تہجی کے لحاظ سے اس باب میں ترتیب دی گئی ہے۔
مولانا کے خطوط، مشاہیر کے خطوط، مختلف اداروں کے تعزیتی پیامات اور مراسلات کے علاوہ ایک درخواست پر مولانا کی تجویز اور ان کی دستخط وغیرہ ان سب کی فوٹو کاپیاں ’’ضمیمے‘‘ کے تحت شامل کردی گئی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب سابقہ ثقہ مآخذ سے استفادہ کرتے ہوئے نئے حقائق کے انکشافات و تحقیقات کے ذریعہ شیخ الاسلام شناسی کا اردو دنیا میں اہم وسیلہ ثابت ہوئی ہے، جسے جامعاتی سطح پر ایک مثالی اور قابل تقلید کاوش قرار دیا گیا۔
الشیخ محمد انواراللہ الفاروقی وجھودہ فی الفکر الاسلامی
یہ کتاب دراصل ایم۔ اے کے لئے لکھا گیا عربی مقالہ ہے، اس کے مصنف مولانا محمد جلال رضا نظامی ہیں جنہوں نے جامعہ نظامیہ سے مولوی عالم، مولوی فاضل  کامیاب کرکے بعد جامع ازہر میں اعلیٰ و عربی کی تعلیم مکمل کی اور
جامعۃ القاہرہ سے حضرت شیخ الاسلام کی اسلامی فکر پر مقالہ تحریر کیا اس مقالہ میں جامع مقدمہ، مقدمہ، تاریخ الدکن، الأوضاع السیاسیۃ، الأوضاع الاجتماعیۃ، الأوضاع الثقافیۃ حیات الشیخ محمد انوار اللہ الفاروقی و نشأتہولادتہ، اسمہ ولقبہ، نسبہ، أسرتہ، والدہ، نشأتہ وتربیتہ، حبہ للعلم وکثرۃ الاطلاع، أساتذتہ، شیوخہ فی الطریقۃ والسلوک، زوجتہ و أولادہ، وظیفۃ الشیخ و استقالتہ، رحلات الشیخ و أسفارہ، تعیینہ أستاذاً للأمیر، أخلاقہ وشیمہ، الاھتمام بالصلاۃ و الصوم وغیرھما من العبادات، مساعی الشیخ فی توعیۃ المسلمین بأحکام الاسلام، جھود الشیخ فی اقامۃ المجامع و المراکز العلمیۃ، انشاء الجامعۃ النظامیۃ، انشاء المکتبۃ الآصفیۃ، انشاء دائرۃ المعارف العثمانیۃ، انشاء مجلس اشاعۃ العلوم، اجراء المساعدات للمراکز الاسلامیۃ، تلامیذ الشیخ، مؤلفاتہ، تعریف موجز بمؤلفاتہ، آراء المفکرین فی الشیخ، مرض الشیخ و وفاتہ، الباب الأول جھود الشیخ فی الفلسفۃ، نقد الشیخ آراء القدماء فی قدم العالم وجحود الخالق، انتقاد الشیخ لنظریۃ دیمقریطس الفلسفی، حقیقۃ الانسان، فی خلق الروح، البا، الثانی: جھود الشیخ فی شرح قضایا التصوف الاسلامی، التصوف فی الہند، تعریف الشیخ للتصوف، التصوف لغۃ و اصطلاحا، ھل التصوف و الفلسفۃ وجھان لعلمۃ واحدۃ؟، المعرفہ و المعارف، فی بیان الأعیان الثابتۃ، بیان قضیۃ وحدۃ الوجود، الباب الثالث: جھود الشیخ فی علم الکلام، تعریف الشیعۃ ونشأتھا، ابن سبا المنافق وفتنتہ وضلیلہ للناس، التقیۃ عند الشیعۃ، تعریف التقیۃ، الشیعۃ و الخلفاء الثلاثۃ، الشیعۃ وحب سیدنا علی رضی اللہ عنہ، قضیۃ خلق أفعال العباد من خلال آراء الشیخ، انتقادات الشیخ آراء المعتزلۃ فی صفات اللہ عزوجل، انتقادات الشیخ آراء الکلامیۃ للشیخ شبلی النعمانی، نقد الشیخ لتأویلات المفکرین الھنود فی المعجزات، مخاطر التأویل من منظور آراء الشیخ، انکار المعجزات عند میرزا حیرت، التواتر وأھمیتہ فی اثبات المعجزات، الباب الرابع جھود الشیخ فی الرد علی أہل الملل و الأھوا ء و النحل، الرد علی الھندوس فی تحریمھم ذبح البقر وغیرھا من الحیوانات، ابطال أوھام الھندوس فی التناسخ، جہود الشیخ فی الرد علی الطائفۃ القادیانیۃ، حیاۃ میرزا غلام احمد القادیانی، علاقۃ القادیانیۃ بالبابیۃ والبھائبۃ، الظروف التی نشأت فیھا القادیانیۃ، أھدات میرزا من تألیف کتابہ ’’براہین أحمدیۃ‘‘، نماذج من الھامات میرزا، موقف میرزا من معجزات الأنبیاء الکرام علیھم الصلاۃ والسلام، دراسۃ آراء الشیخ حول المذھب الطبیعی النیتشری، وشبھات سر سید احمد خان،
الشبہۃ الأولی: فی وقوع المعجزۃ، الشبہۃ الثانیۃ : انکار وجود الملائکۃ و الجن عند سر سید احمد خان، الشبہۃ الثالثۃ : انکار السحر عند سر سید احمد خان، الخاتمۃ، ثبت المراجع و المصادر، ملخص العرسالہ بالانجلیزیۃ، جامعۃ القاہرۃ، کلیۃ دار العلوم، قسم الفلسفۃ الاسلامیۃ
اس مقالہ کی تفصیلات اس طرح ہیں: تحت اشراف، فضیلۃ الأستاذ الدکتور ؍ عبد الحمید مدکورالأستاذ بقسم الفسلفۃ الاسلامیۃ بکلیۃدار العلوم جامعۃ النظامیۃ القاہرۃ، فضیلۃ الأستاذ الدکتور ؍ محمد السعید جمال الدین الأستاذ بکلیۃ الآداب  جامعۃ عین شمس القاہرۃ
مقدمۃ:الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء و المرسلین، وعلی الہ وصحبہ أجمعین۔ اما بعد !
فھذہ دراسۃ حول علم شامخ من أعلام الدعوۃ الاسلامیۃ فی الہند، وقد جاء ت الدراسۃ بعنوان ’’الشیخ محمد أنوار اللہ الفاروقی وجہود فی الفکر الاسلامی‘‘ و دفعنی الی اختیار ھذا الموضوع الأسباب التالیۃ:
أولا: کنت قد اطلعت علی مؤلفات الشیخ فی أول الأمر و أنا طالب بالجامعۃ النظامیۃ التی أسسھا الشیخ محمد انوار اللہ الفاروقی بحیدآباد، الدکن ۱۲۹۲ھ- ۱۸۶۷م، فوجدت فی کتاباتہ الأصالۃ والجدۃ الموضوعیۃ و العمیق فکان ہذا سببا من الأسباب التی رغبتی فی ھذہ الدراسۃ والاستفادۃ من فکرہ الأصیل۔


ثانیا : التعریف بأفکار الشیخ و اسہاماتہ فی الفکر الاسلامی للعالم العربی حیث مر علی وفاتہ حوالی ۹۲ عاما، ول ینل اہتمام الباحثین کما ینبغی، وقد اطلعت حول شخصیۃ الشیخ علی کتابین فقط: أحدہا ’’مطلع الانوار‘‘ باللغۃ الأردیۃ ألفۃ أحد تلامیذہ وھو الشیخ المفتی رکن الدین الحیدرآبادی لازم الشیخ ۲۷ عاما فی الحل و الترحال وھو کتب یتحوی علی ۸۵ صفحۃ فقط، والکتاب الثانی أیضا باللغۃ الأردیۃ وھی دراسۃ جامعیۃ نال بھا المؤلف د/کی محمد عبد الحمید أکبر (خریج الجامعۃ النظامیۃ) درجۃ الدکتور من احدی جامعات الھند، وقد ترکزت ھذہ الدراسۃ الأخیرۃ علی مآثر الشیخ الأردیۃ من الشعر و النثر الأردی و الفارسی ولم أطلع علی دراسۃ مستفیضۃ باللغۃ العربیۃ حول الشیخ العلمیۃ و الفکریۃ، وہذا ہو الدافع الأساسی لاختیار ھذا الموضوع۔
ثالثا : وبما أن الجامعۃ النظامیۃ کانت بمثابۃ نعمۃ علی تستوجب منی الشکر و التقدیر لمؤسسھا، حیث درست فیھا من عام ۱۹۸۹م الی ۱۹۹۷م وشرفت بنیل شہادۃ الفضیلۃ منھا، فقد أردت من خلال ہذہ الدراسۃ مقابلۃ الجمیل بالجمیل۔
رابعا : اخترت ہذا الموضوع أیضا ایمانا منی بأہمیۃ التواصیل الفکری والثقافی بین أبناء الأمۃ الاسلامیۃ علی اختلاف لغاتھم و ثقافاتہم و ألو مما نستشہد بہ علی مصداقیۃ عالمیۃ الدعوۃ الاسلامیۃ۔
خدمات الجامعۃالنظامیۃ و مؤسسھا فی نشر اللغۃ العربیہ


یہ تحقیقی مقالہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لئے شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ سے محترمہ ڈاکٹر نفیس النساء بیگم نے ۲۰۰۶ء میں تحریر کیا تھا،جو ۳۲۵ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں تقریباً ۲۰۰ صفحات پر حضرت شیخ الاسلام کی سوانح حیات، خدمات و کارنامے بڑی تفصیل سے درج کئے گئے ہیں ذیلی عناوین کی فہرست میں تمہید، ترجمہ شیخ الاسلام مؤسس الجامعۃ النظامیہ، زوجہ و اولاد، مولدہ، طفولتہ و بیئتہ المنزلیۃ، نشأتہ و تربیتہ، البیعۃ والارشاد، اثرہ التعلیمی من خلال الشعر، الکسب والوظیفۃ، خدماتہ الجلیلۃ فی وصلاح المجتمع البشریٰ، اللغۃ الرسمیتہ، اجلالۃ الی الحرمین الشریفین، رحلۃ الی اماکن الشریفۃ، ماثرہٗ العلمیۃ، خدماتہ العلمیۃ فی ابطال الفرق الضالۃ، الرد علی الزعیم سرسید والشیخ شبلی، مناصب الجلیلہ، القابہ، الزواج و اھلہ، صفاتہ الخلقیۃ والخلقیۃ، حلیتہ، لباسہ، طعامہ، ایثارہ، تلامیذہ، اعمالہ الیومیۃ، شخصیتہ، العلمیہ، مسلک الشیخ و مشربہ، استغنائہ عن الخلق، وخشیتہ للخالق، الشیخ عارف باللہ و مدرس سلاطین الدکن، الشیخ عارف باللہ و نبوغہ فی العلم الدینی، الاقتراحات القیمۃلتفیذ الاحکام الاسلامیہ، التصوف فی الدکن، شعرہ، وغیرہ شامل ہیں، نیز حضرت شیخ الاسلام کی تصانیف و تالیفات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے بعد ۵۰ ماخذ و مراجع سے مستند مواد پیش کیا گیا ہے، فہرس الاعلام بھی بڑے خاصے کی چیز ہے جو پندرہ صفحات پر محیط ہے، یہ مقالہ محققین و مؤلفین کے لئے مرجع بنا ہوا ہے، کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں اس کا ایک نسخہ گوشہ نظامیہ میں موجود ہے۔

ملامح انوار

حضرت شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ پر کئی حضرات و خواتین نے کتابیں لکھیں، بعض مبسوط اور بعض مختصر ہیں ہر مصنف نے اپنی اپنی فکر اور نوعیت کے لحاظ سے اہم پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے، ڈاکٹر نفیس النساء بیگم صدر معلمہ کلیۃ البنات جامعہ نظامیہ (سابق) نے بھی ’’ملامح انوار‘‘ کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں اختصار کے باوجود جامعیت کے ساتھ بنیادی اور اہم مواد مستند مآخذ و مصادر سے پیش کیا گیا ہے، زبان شستہ، سلیس اور آسان ہے،

۳۲ صفحات کی اس کتاب میں جن پہلوئوں کو پیش کیا گیا ہے اس میں حیات مبارکہ، حسب و نسب، تعلیم و تربیت، معیشت، عقدنکاح، جامعہ نظامیہ، اصلاحی تعلیمی اور تالیقی خدمات، مجلس اشاعۃ العلوم، آپ کی حیات مبارکہ بیک نظر، معمولات یومیہ،کرامات، معنوی کرامات، وفات، زندگی کے روشن عنوانات پر اصل کتاب اختتام کو پہنچتی ہے، آخر میں تین مناقب بھی شریک اشاعت ہیں جو بالترتیب حضرت سید شاہ طاہر رضوی قادریؒ، حضرت محمد خواجہ شریف قادری، آصف سابع نواب میر عثمان علی خاں کے قلم سے ہیں اور کلام عارف باللہ شیخ الاسلام بھی شامل ہے، جون ۲۰۰۰ء میں مرکز احیاء الادب الاسلامی المعہد الدینی العربی حیدرآباد نے اس کو شائع کیا تھا، جس کی قیمت پندرہ روپئے ہے، مولانا مفتی خلیل احمد مدظلہٗ کے کلمات خیر تقریظ اور مصنفہ کا پیش لفظ ابتدائے کتاب میں درج ہے۔
’’سابقہ شیخ الاسلام العارف باللہ محمد انواراللہ الفاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ ‘‘ کے نام ڈاکٹر صاحبہ کی ایک اور کتاب عربی زبان میں سوال و جواب کے طور پر لکھی گئی ہے، اس کتاب کو بھی مرکز احیاء الادب الاسلامی حیدرآباد نے ۲۰۰۰ء میں شائع کیا ہے، عربی قارئین کے لئے ایک مفید کتاب ہے۔

مرقع انوار

مرقع انوار راقم الحروف کی تدوین و ترتیب سے ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا جو کل ۱۳۰۰ تیرہ سو صفحات،۱۳ ابواب اور چار زبانوں اردو، عربی، انگریزی، فارسی پر مشتمل ہے، یہ ضخیم کتاب لگاتار تین سال چھ ماہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جس میں دنیائے علم و ادب کے مشاہیر اور صف اول کے قلمکاروں کی نگارشات اکٹھا کی گئی ہیں جو حضرت شیخ الاسلام سے تعلق ہیں، منظوم خراج عقیدت کے تحت کئی نامور شعراء کرام کا خراج عقیدت بھی شامل ہے، شیخ الاسلام شناسی میں اس کتاب نے اہم رول ادا کیا ہے اس کے نہج کو مقبولیت حاصل ہوئی اور کئی کتابیں اسی نہج پر تیار کی گئیں۔
حضرت قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی چیف ایڈیٹر صوفی اعظم ، ڈاکٹر عقیل ہاشمی صدر شعبہ عثمانیہ یونیورسٹی، ڈاکٹر حمید اکبر ڈین فیکلٹی آف آرٹس گلبرگہ یونیورسٹی، پروفیسر سید یوسف حسینی بیجاپور، مولانا ادریس رضوی ممبئی، ماہنامہ جام نور دہلی، پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی کراچی، حضرت مفتی محمد عظیم الدین صدر مفتی جامعہ نظامیہ، حضرت سید فضل المتین چشتی گدی نشین درگاہ شریف اجمیر، ڈاکٹر منظور دکنی، ڈاکٹر اطہر معز گلبرگہ، حضرت پروفیسر محمد عبدالستار خان نقشبندیؒ جیسے اکابرین علم و ادب نے تحسین و آفرین کرتے ہوئے اس کو حضرت شیخ الاسلام کی حیات و خدمات کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیا، حضرت شیخ الاسلام کے قائم کردہ ادارہ مجلس اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد نے اس کو نہایت اہتمام سے شائع کیا تھا اس کتاب 
کے نسخے جامعہ نظامیہ کے علاوہ مختلف کتب خانوں میں دستیاب ہیں۔

شیخ الاسلام حیات و تعلیمات

’’شیخ الاسلام حیات و خدمات‘‘کے نام سے یہ کتاب مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ نے تحریر کی ہے اس کتاب میں مؤلف نے حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت و خدمات کے جن پہلوئوں پر قلم اٹھایا ہے ان میں شیخ الاسلام ایک ہمہ گیر شخصیت، ولادت سے قبل پیشن گوئی، خاندانی پس منظر، اساتذہ والا شان اور اکتساب علم و عرفان، شیخ الاسلام کا علمی مقام مشاہیر کی نظر میں، شیخ الاسلام کا استغناء اور ملازمت سے استعفیٰ، شاہان وقت کی تعلیم، حرمین شریفین کا سفر اور مدینہ منورہ میں قیام، حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب دکن واپسی، جامعہ نظامیہ کا قیام اور اس کے مقاصد، دائرۃ المعارف العثمانیہ کا قیام، شیخ الاسلام کی کاوشو ں سے ایک لاکھ ایک سو ستاون احادیث شریفہ کی اشاعت، اصلاح امت کے وسائل اور ان کا استحکام، اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کا قیام، دارالافتاء کا قیام، مجلس اشاعۃ العلوم کی تشکیل ، فتوحات مکیہ کا درس، منصب شیخ الاسلام کے لئے انتخاب، شیخ الاسلام مجدد دین و ملت، مساجد کی تعمیر اور آبادی، مدارس کی تاسیس اور تنظیم، مختلف گوشوں میں رہنمائی، انجمن اصلاح مسلمانان کا قیام، اصلاح امت کے اہم اخدامات، انجمن تحفظ اوراق متبرکہ کی تشکیل، مدینہ طیبہ کے مساکین کی خدمت، رئویت ہلال کمیٹی کی تشکیل، نکاح کے سیاہ ناموں کی ترتیب، مختلف مقامات کا معائنہ اور اصلاحات، تصنیف و تالیف کے ذریعہ عقائد باطلہ کا رد بلیغ، باطل فرقوں کی فریب کاریوں پر دلسوزی کا اظہار، مسلک اہل سنت کی حمایت اور شیخ الاسلام کا فکر انگیز تجزیہ کے تحت ۳۹ عناوین پر حضرت شیخ الاسلام کی تصانیف سے متعلقہ عبارات ذیلی سرخیوں کے تحت بڑے سلیقہ سے درج کی گئی ہیں، ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر حیدرآباد نے ۲۰۱۲ء میں اھتمام سے اس کتاب کوشائع کیا ہے عام طور سے دستیاب ہے۔


Post a Comment

Previous Post Next Post