Ameer Ul Momineen Hazrat Sayedna Umar Farooq

امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق  ؓ
 (حضرت شیخ الاسلام کے چالیسویں جدّ اعلیٰ)

آپ کا نام نامی عمر،ابو حفص کنیت، فاروق خطاب تھا اور امیر المؤمنین لقب ، والد کا نام خطاب بن نفیل تھا، والدہ کا نام ختمہ بنت ہاشم تھا، تاریخ الخلفاء سیوطی میں شجرہ نسب یہ ہے عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی ہے۔
تاریخ طبری میں ہے کہ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن عدی بن کعب بن لوی ہے، بہر صورت حضرت عمرؓ کا شجرہ نسب آٹھویں پشت یعنی کعب بن لوی پر رسول اللہ  ﷺ سے مل جاتا ہے۔ پس آپ اشرف قریش میں سے تھے آپ کے والد عرب کے مشہور خطیب اور مقرر و نیز اپنی قوم اور قبیلہ کے امیر اور سردار تھے۔ (لائف آف محمد ﷺ)
امام نووی کے قول کے مطابق حضرت عمرؓ عام فیل سے جو رسول اللہ  ﷺ کی ولادت با سعادت کا سال ہے تیرہ برس بعد پیدا ہوئے (ایضاً) یعنی سن ہجری کے آغاز سے چالیس برس قبل آپ آنحضرت  ﷺ سے بارہ برس چھوٹے تھے اس حساب سے ۵۸۳ء آپ کا سن پیدائش قرار پاتا ہے۔

فاروق کا خطاب اس وقت ملا جب کہ آپ اسلام لائے اور اسلام مکہ میں ظاہر ہوا اور علانیہ خدائے قدوس کی عبادت کی گئی آپ کے اسلام لانے سے گویا حق و باطل میں امتیاز ہوا۔ چنانچہ سرور کونین  ﷺ نے فاروق کا لقب عطا کیا۔ ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمرؓ سے ’’فاروق‘‘ نام پانے کی وجہ میں نے دریافت کی تو سیدنا عمرؓ نے اپنا اسلام لانے کا واقعہ بیان کرکے کہا اس وقت میں سرور کونین  ﷺسے پوچھا کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں۔ سرور کونین  ﷺ نے فرمایا ہاں ہم حق پر ہیں۔ تو میں نے کہا پھر حق کو کیوں چھپا یا جائے اور ہم ارقم کے گھر سے دو صفیں باندھے ہوئے نکلے ایک میں میں تھا۔ دوسری میں سیدنا حمزہؓ تھے یہاں تک کہ مسجد حرام میں پہنچ گئے۔ کافروں نے میری اور حمزہؓ کی طرف دیکھا تو بہت رنج و غم کیا۔ سرو ر کونین  ﷺ نے اس موقع پر ’’فاروق‘‘ نام رکھا کیونکہ اسلام ظاہر ہوا، حق اور باطل میں فرق ہوگیا ۔ (تاریخ الخلفاء)
سر زمین عرب میں آفتاب اسلام طلوع ہوچکا تھا اور مکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ شمع بنویؐ کے پروانوں کی تعداد  میں روز برز اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا مکہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی سے مشرکین اور کفار 
قریش کی پرزور مخالفت کرتے تھے۔ اور آئے دن تکلیفیں دینے سے دریغ نہیں کرتے تھے اس وقت تک حضرت عمر اسلام سے نا آشنا اور سخت برہم تھے۔ رسول اللہ  ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے ’’اے باری تعالی عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام (ابو جہل) سے اسلام کو عزت (مدد) دے۔

بہر حال قدرت کی جانب سے حضرت عمر بن خطاب کا انتخاب ہوگیا اور آپ نبوت کے چھٹے سال مشرف بہ اسلام ہوئے۔ صحابہ کرام اور رسول اللہ  ﷺ بے انتہا مسرور تھے اور خو شی کا اظہار فرمایا۔ ادھر مشرکین قریش نے حضرت عمرؓ کے متعلق یہ سنا کہ وہ مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں تو وہ حضرت عمرؓ کو اس حال میں دیکھ کر تعجب ہوئے۔ نیز آپ نے اپنے اسلام قبول کرنے کا علانیہ اظہار کیا۔
ہوگئی اسلام کو قوت نصیب
آپ جب آئے ادھر حضرت عمرؓ
آپ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی عجیب ہے وہ یہ کہ آپ کی ہمشیرہ اور بہنوی مشرف بہ اسلام ہوچکے تھے۔ ایک دن ابو جہل معززین قریش کی جماعت میں اعلان کرتا ہے کہ جو کوئی آنحضـرت  ﷺ کو قتل کرے اسے سو سرخ اونٹ اور چالیس ہزار درہم انعام دئیے جائیں گے۔ حضرت عمرؓ اس ارادہ سے نکلتے ہیں۔ راستے میں بنی زہرہ کے قبیلہ کے نعیم بن عبداللہ نے کہا کہ پہلے بہن کی خبر لو تب وہاں جانا۔ گھر پہنچے تو دروازہ بند پایا اور قرآن مجید کے پڑھنے کی آواز سنی اس آواز کا سننا تھا کہ بہن کے قرآن کی فصاحت اور بلاغت نے آپ کے دل پر اثر کیا اور کہا کہ یہ بیشک سچا کلام ہے اور کاشانہ نبوت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا اور دربار رسالت میں حاضر ہوئے۔ دروازہ کھولا گیا حضرت عمرؓ کا ارادہ معلوم ہونے پر صحابہ کرام اور سرور کونین  ﷺ نے خوشی کا اظہار فرمایا حضرت عمرؓ نے ’’اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد انک محمد الرسول اللہ‘‘ پکار کر کہا اور فرمایا یا رسول اللہ  ﷺ خانے کعبہ کا طواف کرنے تشریف لے چلیں چنانچہ صحابہ کرام اور سرور کونین  ﷺ علی الاعلان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں کسی کی ہمت و جرأت نہ ہو سکی کے کچھ کہہ سکیں۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ’’جب حضرت عمرؓ اسلام لائے تو مشرکین نے کہا کہ آج کے دن ہماری قوم کمزور ہوگئی ۔ (تاریخ الخلفاء) حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ جب سے حضرت عمر ؓ اسلام لائے ہم طاقتور ہوگئے، ابن اسحاق کا قول ہے کہ حضرت عمرؓ جب اسلام لائے وہ نہایت قوی بے خوف اور سیاس تھے ان کی کسی چیز کی طرف کوئی ان کے غائبانہ میں بھی آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا تھا۔
حضرت عمرؓ نہایت ذہین، طباع، بالغ نظر، مدبر اور صائب الرائے تھے۔ جاہلی اور اسلامی دونوں علوم میں 
پ کو یکساں کمال حاصل تھا۔ فصاحت و بلاغت ، انشاء و خطابت، شاعری و لسانی، سپہ گری اور بہادری وغیرہ ان تمام اوصاف و کمالات میں جو عرب میں لازمہ شرافت سمجھے جاتے تھے،  آپ کو وافر حصہ ملا تھا۔ آپ کی بہت سی تقریریں اور تحریریں کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جن سے آپ کی فصاحت و بلاغت کا اندازہ ہوتا ہے۔
شاعری کا نہایت اور پاکیزہ مذاق رکھتے تھے۔ خود بھی شعر کہتے تھے، مگر بہت کم ابن رشیق نے کتاب العمدہ میں آپ کے اشعار نقل کئے ہیں لیکن ناقد اور سخن سنج بڑے اعلی درجہ کے تھے، ابن رشیق کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ اپنے زمانہ کے شعر کے سب سے بڑے نقاد اور ادا شناس تھے۔ (کتاب العمدہ، ص۱۳) مشہور ادیب جاحظ لکھتا ہے کہ عمرؓ اپنے عہد کے سب سے بڑے سخن سنج تھے۔ (کتاب البیان والبتین جلد۱، ص۹۷) لکھنے پڑھنے کا ذوق آپ کو ابتداء سے تھا اور آپ اس زمانہ سے لکھنا پڑھنا جانتے تھے جب قریش میں صرف سترہ آدمی لکھے پڑھے تھے۔ (بلا ذری، ص۴۷۱) مسند دارمی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو عبرانی زبان سے بھی واقفیت تھی۔

حضرت عمرؓ ۷ نبوی میں اسلام لائے تھے اور ۱۳ نبوی میں ہجرت ہوئی اس طرح گویا انھوں نے اسلام لانے کے بعد تقریباً چھ یا سات برس تک قریش کا مظالم برداشت کئے جب مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ہوئی تو حضرت عمرؓ بھی اس سفر کے لئے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوتؐ سے اجازت لے کر چند آدمیوں (صحیح بخاری میں بیس کا عدد مذکور ہے) کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اور اس شان کے ساتھ روانہ ہوئے کہ پہلے مسلح ہوکر مشرکین کے مجموعوں سے گذرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچے، نہایت اطمینان سے طواف کیا، نماز پڑھی پھر مشرکین سے مخاطب ہو کر کہا جس کو مقابلہ کرنا ہو وہ مکہ سے باہر نکل کر مقابلہ کرلے، لیکن کسی کی ہمت نہ ہوئی اور وہ مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ (زرقانی، جلد۱، ص۳۷۱)
اس علی الاعلان ہجرت کے متعلق سیدنا علیؓ کا ارشاد ہے کہ مکہ سے ہجرت کرنا اس قدر مشکل ہوگیا تھا کہ سب نے چھپ چھپ کر ہجرت کی مگر حضرت عمرؓ نے سفر ہجرت کے بعد طواف کعبہ دشمنوں کے سامنے کیا پھر دو رکعات نماز پڑھی اور پھر قریش کے مجمع میں جاکر کھڑے ہوئے اور فرمایا آؤ مشرکو جو کوئی تم میں سے اپنی ماں کو محرومی اولاد کا اپنی اولاد کو یتیمی کا اور اپنی بیوی کو بیوگی کا داغ دینا چاہے وہ میرا تعاقب کرے میں ہجرت کر رہا ہوں۔ سب نے آپ کا اعلان سنا اور کسی کو آپ کے روکنے کی جرأت نہ ہو سکی۔

اس سال حضرت عمرؓ کو یہ شرف حاصل ہواکہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہؓ رسول اللہ  ﷺ کے عقد میں آئیں حضرت حفصہؓ کا نکاح جاہلیت میں خنیس بن حذافہ کے ساتھ ہوا تھا۔ خنیس کے انتقال کے بعد حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے خواہش کی کہ حفصہؓ کو اپنے نکاح میں لائیں انھوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ پھر حضرت عثمانؓ سے 
درخواست کی وہ بھی چپ ہو رہے کیوں کہ ان دونوں صاحبوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خود جناب رسول اللہ  ﷺ حضرت حفصہؓ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں چنانچہ شعبان ۳ھ میں آنحضرت  ﷺ نے حضرت حفصہؓ سے نکاح کیا۔
وصال النبی کے حادثہ عظیم نے صحابہؓ او رمقربین خاص کو دیوانہ بنا دیا، حضرت عمرؓ کو فرطِ محبت و عقیدت میں آپؐ کی وفات کا یقین نہ آتا تھا۔ اور وارفتگی کے عالم میں تلوار کھینچ کر کہتے تھے جو شخص کہے گا کہ رسول اللہ  ﷺ نے وفات پائی اس کا سر قلم کردوں گا۔
وصال کے دن صبح کو آپ کی طبیعت بحال دیکھ کر حضرت ابوبکر ؓ آپ کی اجازت سے جہاں ان کی بیوی رہتی تھیں چلے گئے تھے وہاں سے واپس ہوئے تو رسول اللہ  ﷺ کا وصال ہو چکا تھا اور مسجد نبویؐ کے دروازہ پر وارفتگانِ محبت میں شور برپا تھا۔ آپ سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور رخ انور سے نقاب اٹھاکر پیشانی مبارک کو بوسہ دیا اور رو کر کہا۔

’’میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، خدا کی قسم آپ پر دو موتیں جمع نہیں ہوسکتیں، وہ موت جو آپ کے لئے مقدر تھی آچکی اس کے بعد دوسری موت نہ آئے گی۔ (بخاری شریف)
حجرہ سے نکل کر دیکھا تو حضرت عمرؓ  قسم کھا کھا کر وصال  نبویؐ کا انکار کر رہے تھے یہ بڑا نازک وقت تھا، اگر محرم اسرار نبوت کی دینی بصیرت اس وقت مسلمانوں کی دستگیری نہ کرتی تو معلوم نہیں کیا نتائج نکلتے۔ آپ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا بیٹھ جاؤ لیکن انھوں نے وارفتگی میں کچھ نہ خیال کیا تو آپ نے الگ مسلمانوں کو مخاطب کرکے ایک  بصیرت آموز تقریر فرمائی، جس نے حضرت عمرؓ پر حقائق کا انکشاف کردیا۔ 
مسند خلافت پر حضرت ابوبکر صدیق  ؓ نے ترسٹھ برس کی عمر میں ۲۲/جمادی الثانی ۱۳ھ دوشنبہ کے روز وفات پائی اور حضرت عمر فاروق  ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے۔ (خلفائے راشدین، ص۶۱)’
حضرت ابو بکر صدیق  ؓ کی طرح حضرت عمر فاروق  ؓ بھی اسلامی اخلاق کا اعلی ترین نمونہ تھے۔ آپ کی سیرت میں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ سنت رسولؐ کی پابندی ہے آپ کسی حالت میں بھی سنت نبویؐ سے تجاوز نہیں کرنا چاہتے تھے روزانہ زندگی کی معمولی سے معمولی بات میں سنت رسول کی پیروی ضروری سمجھتے تھے۔ اور حکومت کے تما عہدیداروں کو پابندی سنت کے متعلق تاکیدی احکام بھیجتے رہتے تھے۔ سادگی آپ کی سیرت کا ایک روشن پہلو تھا۔ آپ نہ صرف دوسروں کو تفاخر اور ذاتی نمود سے روکتے تھے بلکہ خود بھی سادگی کی مجسم تصویر تھے زندگی کے کسی دور میں آپ کی سادگی میں فرق نہ آیا۔ آپ کے پاس روزانہ لباس کے لئے موٹے کھدر کے چند کپڑے ہوتے تھے۔ جن میں کئی 
کئی پیوند لگے ہوتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات صرف ایک ہی جوڑے پر اکتفاء کرتے تھے اور اس کو بار بار دھو کر استعمال کرتے تھے۔ حضرت امام حسنؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں نے ان کے لباس میں بارہ پیوند شمار کئے۔ آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کوئی شخص آپ کے لباس سے شناخت نہیں کر سکتا تھا کہ آپ ہی مسلمانوں کے عظیم الشان فاتح ہیں قیصر و کسریٰ کے سفراء سے بر سر عام اسی لباس میں ملتے تھے۔

آپ فطرتاً مزاج کے سخت واقع ہوئے تھے لیکن اسلام نے ان میں نرمی پیدا کردی تھی اور خلافت کے بعد تو اور بھی نرم دل ہوگئے تھے۔ جب حضرت ابو بکر صدیق  ؓ نے انتقال کے وقت آپ کو جانشین نامزد کیا اور بعض صحابہؓ نے آپ کی سختی مزاج کی شکایت کی تو حضرت ابو بکرؓ نے یہ کہ کر ان کی شکایت کو رد کردیا کہ آپ کی سختی میری نرمی کی وجہ سے ہے جب خلافت کا بار سنبھالیں گے تو خود بخود نرم ہوجائیں گے (واقعی ایسا ہی ہوا آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ میرا دل اللہ تعالی کے معاملہ میں نرم ہوجاتا ہے تو جھاگ سے بھی زیادہ نرم اور سخت ہوجاتا ہے تو پتھر سے بھی زیادہ سخت۔
آپ کی اصابت رائے بھی مسلم تھی جب آپ کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرتے تھے تو بعد کے واقعات آپ کے فیصلہ کو صحیح ثابت کردیتے تھے اسلامی شریعت کے بہت سے احکام آپ ہی کے استفسار کے جواب میں نازل ہوئے۔ اذاں کے متعلق آپ ہی کی تجویز منظور کی گئی۔ پردہ اور شراب کی حرمت کے متعلق آپ ہی کے پوچھنے پر آیات اتریں، آپ ہی کی تجویز پر حضرت ابو بکر صدیق  ؓ نے قرآن کریم کی تدوین کی۔ مہمات ملکی میں بھی اکثر آپ کا فیصلہ ٹھیک ثابت ہوا۔ اگر چہ صحابہؓ کی اکثریت ا سکی مخالف ہوتی تھی ممالک مقبوضہ کی زمینوں کے متعلق تمام صحابہؓ کی یہ رائے تھی کہ اسے فوج میں بطور جاگیر تقسیم کردیا جائے مگر آپ نے اس کی مخالفت کی اور اس طرح خلافت اسلامیہ کو جاگیرداری نظام کی لعنتوں سے بچا لیا۔ آپ جمہوریت اور آمریت کا ایک لطیف امتزاج تھے۔ ایک طرف تو یہ رعب اور دبدبہ کہ حضرت خالد بن ولیدؓ اور عمروؓ بن العاص جیسے جلیل القدر فاتح آپ کے سامنے دم نہ مار سکتے اور دوسری طرف یہ جمہوریت نوازی کے ایک معمولی سا بدو آپ کو برسرعام کسی مسئلہ کے متعلق ٹوک رہا ہے۔ چنانچہ اس کے متعلق بھی کئی واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں حضرت ابو بکرؓ کی طرح آپ کا بھی یہ اصول تھا کہ جن معاملات کے متعلق کتاب اللہ اور سنت رسولؐ میں کوئی صاف حکم نہیں مل سکتا تھا آپ انھیں مجلس شوری میں پیش کردیتے تھے۔ اور بغیر اکابر صحابہ کی رائے کے کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔
رعایا کی خبر گیری میں کوئی بادشاہ آپ تک نہیں پہونچ سکتا۔ آپ کا معمول تھا کہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد صحن مسجد میں بیٹھ جاتے اور لوگوں کی شکایات برسرعام سنتے اور وہیں بیٹھے بیٹھے ان کا ازالہ کرتے۔

آپ کا یہ بھی معمول تھاکہ ہر سال مختلف علاقوں سے وہاں کے لوگوں کے وفد بلواتے اور ان سے جزوی حالات تک پوچھتے سفر میں جاتے تو ایک ایک مقام پر ٹہر کر حالات دریافت کرتے۔ رعایا کی ذرا سی تکلیف پر آپ بے چین ہوجاتے تاریخوں میںاس قسم کے کئی واقعات مذکور ہیں کہ آپ نے مفلوک الحال لوگوں کی امداد کے لئے اپنے ہاتھ سے کھانا پکایا اور ان کو کھلایا۔ جب عرب میں قحط پڑا تو آپ نے تمام لذات دنیا ترک کردیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی صحت بگڑ گئی۔ مگر آپ نے بالکل اس کی پروانہ کی آپ کے زمانے میں بیت المال کے دروازے نادار مسلمانوں اور غیر ذمیوں پر یکساں طور پر کھلے ہوئے تھے اور بلا قید مذہب و ملت سب کی پرورش ہوتی تھی یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی نظیر آج کل کا مہذب دور بھی نہیں دے سکتا۔
علم و فضل میں بھی آپ کا درجہ کسی سے کم نہ تھا زمانہ جاہلیت میں جب تمام عرب میں پڑھے لکھے اشخاص کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی آپ کا شمار فضلاء میں ہوتا تھا آپ عربی کے علاوہ سریانی بھی جانتے تھے اور توریت اور انجیل پڑھ سکتے تھے۔ فصاحت، بلاغت، انشاء اور خطابات، شاعری اور سپہ گری میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی بہت سی تقریریں اور تحریریں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ الغرض آپ ایک عجیب و غریب جامع کمالات شخصیت تھے۔ (تاریخ مملکت اسلام، ص ۲۲۵تا ۲۲۸)

حضرت عمرؓ کی محبت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وصال فرمایا  تو ان کو کسی طرح اس کا یقین نہیں آتا تھا۔ مسجد نبویؐ میں حالت وارفتگی میں قسمیں کھا کھا کر اعلان کرتے تھے کہ جو کہے گا کہ میرا محبوب آقاؐ دنیا سے اٹھ گیا تو اس کا سر اڑادوں گا۔ (خلفائے راشدین، ص۱۱۲)
ذات نبویؐسے والہانہ شیفتگی تھی جان مال اولاد ہر محبوب چیز آنحضرت ﷺ پر سے فدا تھی جب آنحضرت ﷺ نے ازواج مطہرات سے ناراض ہو کر چند دنوں کے لئے ان سے علحدگی اختیار کر لی تھی تو حضرت عمرؓ کا شانہ نبویؐ پر حاضر ہوئے لیکن بار بار اذن طلب کرنے پر بھی جب باریابی کی اجازت نہ ملی تو پکار کر عرض کیا، خدا کی قسم میں حفصہؓ (ام المؤمنین حضرت عمرؓ کی صاحبزادی) کی سفارش کے لئے نہیں آیا ہوں اگر رسول اللہ حکم دیں تو اس کا سر قلم کردوں۔ (فتح الباری، جلد۹، صفحہ ۲۵۱)
حضور  ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت عمرؓ کے سامنے جب کبھی عہد مبارک کی کسی خصوصی نہج سے یاد تازہ ہوجاتی تو رقت طاری ہوجاتی تھی اور روتے روتے حالت غیر ہوجاتی۔
رنگ سرخ و سفید، سرکے بال کم، رخسار ے پر کم گوشت، داڑھی گھنی، مونچھیں بڑی، قد نہایت ڈیل یہاں تک 
کہ سینکڑوں کے مجمع میں کھڑے ہوں تو سب سے بلند نظر آئیں۔ آپ دونوں ہاتھوں سے یکساں کام کرتے تھے۔ آپ کا قد لمبا پڑتا تھا۔ (تاریخ الخلفاء سیر الصحابہ، تاریخ علامہ ابن خلدون)

حضرت عمرؓ نے تقریباً ساڑھے دس برس خلافت کی اور اس قلیل عرصہ میں وہ کمال کردکھا یا جس کی مثال تاریخ میں مفقود ہے۔ آپ نے بیت المال کھولا، عدالتیں قائم کیں، قاضی مقرر کئے، تاریخ اور سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے امیر المؤمنین کا لقب اختیار کیا۔ فوجی دفتر ترتیب دیا، والینٹروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ دفتر مال قائم کیا، پیمائش جاری کی، مردم شماری کرائی، نہریں کھدوائیں، کوفہ، بصرہ، جزیرہ فسطاط (قاہرہ) اور موصل نئے سرے سے تعمیر کراکر آباد کئے، ممالک مقبوضہ کو صوبوںں میں تقسیم کا منشور مقرر کیا، دریا کی پیداوار مثلاً عنبر وغیرہ پر محصول عائد کیا، حربی تاجروں کو ملک میں داخل ہونے اور تجارت کرنے کی اجازت دی جیل خانہ قائم کیا، درہ کا استعمال کیا، راتوں کو گشت لگا کر رعایا کے دریافت حال کا طریقہ نکالا، پولیس کا محکمہ قائم کیا، جابجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں، گھوڑوں کی نسلوں کی تمیز کے لئے ایک محکمہ قائم کیا، پرچہ نویس مقرر کئے، مکہ سے مدینہ تک مسافروں کے لئے سرائے تعمیر کیں، راہ پڑے ہوئے بچوں کی پرورش کے لئے ایک محکمہ قائم کیا، بچوں کے روزینے مقرر کئے مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے، قانون بنادیا کہ کوئی اہل عرب گروہ کافر بھی ہو غلام نہیں بنایا جا سکتا، مفلوک الحال لوگوں کے روزینے مقرر کئے۔ مکاتیب قائم کئے معلمین اور مدرسین کی تنخواہیں مقرر کیں، قرآن کی ترتیب کرائی، قیاس کا اصول قائم کیا، فرائض میں عول مسئلہ ایجاد کیا، فجر کی اذاں میں ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کا اضافہ کیا،نماز تراویح با جماعت قائم کی، تین طلاق کو جو ایک ساتھ دی جائیں طلاق بائن قرار دیا، شراب نوشی کی حد اسی کوڑے مقرر کئے، تجارت کے گھوڑوں پر زکوۃ مقرر کی، بنو تغلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوۃ مقرر کی، وقف کا طریقہ ایجاد کیا، نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجتماع کرادیا، مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا، اماموں اور موذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں، مساجد میں روشنی کا انتظام کیا، ہجو کہنے پر سزا مقرر کی اور غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے کو حرام قرار دیا۔ (مسلمانان عالم، صفحہ ۳۲۰،۳۲۱)
آپ کے عہد خلافت کے وقت ممالک مقبوضہ کا کل رقبہ (۲۲۵۱۰۳۰) میل تھا یعنی مکہ معظمہ سے شمال کی جانب ۱۰۳۶ میل، مشرق کی جانب ۱۰۸۷ میل، جنوب کی جانب ۴۸۳ میل اور مغرب کی جانب جدہ تک حکومت تھی۔ ان میں شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عجم، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا کچھ حصہ تھا شامل تھے یہ تمام فتوحات حضرت عمرؓ نے کی تھیں اور تقریباً دس سال کے عرصہ میں حاصل ہوئی تھیں۔

حضرت عمر فاروق  ؓ کے متعلق اہل بیت اطہار کے اقوال پیش کئے جا رہے ہیں، جن سے آپس کی دلی محبت 
اور عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔
۱۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ جب صالحین کا ذکر کرو تو عمرؓ کو نہ بھول جائو یہ کچھ بعید نہیں ہے کہ سکینہ (فرشتہ) ان کی زبان سے بولتا ہے۔ (تاریخ الخلفاء)
۲۔ حضرت ابن عباسؓ سے کسی نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کی تعریف پوچھی تو آپ نے فرمایا حضرت ابو بکرؓ   تو سراپا خیر ہیں اور حضرت عمرؓ کی مثال ایسی چڑیا کی سی ہے کہ جس کے دیکھتے ہی آدمی کا جی چاہے کہ جس طرح بنے اسے پکڑلے۔ (ایضاً)
یہی سوال حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ حضرت عمرؓ استقلال عاقبت اندیشی استواری، علم، شجاعت، اور دلیری سے پر ہیں۔ (طیفوریات)
۳۔ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدینؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفسار کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے جناب میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا کیا مرتبہ تھا۔ فرمایا وہی مرتبہ تھا جو اس وقت بھی ہے یعنی روضہ اقدس میں سب سے زیادہ قرب حاصل ہے۔ (مسند امام احمد)
۴۔ حضرت امام محمد باقر  ؓ نے فرمایا ’’نہیں دیکھا میں نے کسی کو اپنی اہل بیت سے لیکن وہ محبت رکھتے ہیں ان دونوں ابوبکرؓ و عمرؓ سے‘‘ (مسند)
۵۔ حضرت امام جعفر صادق  ؓ نے فرمایا کہ ’’میں اس شخص سے بیزار ہوں جو ابو بکر صدیق  ؓ و عمر فاروق  ؓ کو بھلائی سے نہ یاد کرے۔ (تاریخ الخلفاء)
۲۳ھ میں سیدنا عمرفاروق  ؓ کی شہادت کا حادثہ عظمی پیش آیا وہ یہ کہ مغیرہ بن شعبہ کے ایک پارسی غلام فیروز نامی جس کی کنیت ابو لولو تھی حضرت عمرؓ سے اپنے آقا کے جاری محصول لینے کی شکایت کی یہ غلام نقاشی، نجاری، لوہاری وغیرہ صنعتوں سے خوب واقف تھا اس لئے حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ تیری ان ہنر مندیوں اور آمدنی کے مقابلہ میں اس محصول کی رقم کچھ زیادہ نہیں ہے ابو لولو پارسی یہ سن کر دل میں بہت ناخوش ہوا اور اس کی مذہبی عداوت نے انتقام کی آگ اس کے تن بدن میں پھونکدی۔ دوسرے دن بہت سویرے اندھیرے اندھیرے مسجد کے ایک گوشہ میں آ چھپا۔ آپ مسجد نبویؐ میں نماز اد ا کرنے کے لئے پہنچے تھے۔ ابو لولو فیروز موقع پاکر نماز فجر میں شریک ہوا۔ اور پہلی صف میں کھڑا ہوا۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق  ؓ امامت فرما رہے تھے عین حالت نماز میں اچانک دو دھاری خنجر سے حملہ کردیا۔ اور متواتر چھ زخم لگائے۔ 
دوا علاج کی بھی کوشش کی گئی مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی جب صحابہ کرام کو یہ معلوم ہوا آپ کی زندگی کی توقع نہیں ہے اس وقت عجیب حالت سب کی تھی سب نے جا کر آپ سے کہا امیر المؤمنین اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے آپ نے 
کتاب اللہ کی پیروی کی اور رسول اللہ  ﷺ کی سنت پر عمل کیا۔ (تاریخ الخلفاء و سیرت خلفائے راشدین)
سیدنا عمرؓ نے اپنے بیٹے عبد اللہؓ سے کہا کہ حضرت عائشہؓ کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمرؓ آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ  ﷺ کے پہلو میں دفن کیا جائے عبد اللہؓ حضرت عائشہؓ کے پاس آئے (صدیقہؓ اس وقت حضرت عمرؓ کے زخمی ہونے پر رو رہی تھیں) حضرت عمرؓ کا سلام کہا اور پیغام پہنچایا حضرت عائشہؓ نے کہا کہ اس حجرہ میں ایک ہی قبر کی جگہ تھی میں نے اپنے لئے رکھ چھوڑی تھی لیکن آج عمرؓ کو اپنے آپ پر ترجیح دونگی، عبد اللہؓ واپس آئے اور حضرت عمرؓ خبر دی تو فرمایا الحمد للہ میری سب سے بڑی آرزو یہی تھی۔ (بخاری و تاریخ الخلفاء و تذکرہ عمرؓ)

’’طبری‘‘ نے حضرت عمرؓ کے ازواج کی تعداد سات بیان کی ہے جن میں تین جاہلیت میں نکاح کیا تھا۔ ان کے نام زینب اور ملیکہ اور قرینہ لکھے ہیں اور یہ کہ جب حضرت عمرؓ اسلام لائے تو وہ ان سے جدا ہوگئیں اور مدینہ میں انھوں نے ام حکیم اور جمیلہ اور ام کلثوم صاحبزادی حضرت علی مرتضیٰؓ (بطن سیدہ فاطمۃ الزھراؓ) اور عاتکہ بنت زید ، غرض چار عورتوں سے نکاح کیا، لیکن ایک دوسری روایت میں آپ کے ازواج کی تعداد چھ بیان کی گئی ہے۔
پہلی زینب بنت منطعون حمجی عثمان اور قدامہ کی بہن تھیں جاہلیت میں ان سے نکاح کیا تھا اسلام لائیں اور ہجرت کرکے ساتھ گئیں۔
دوسری عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل عدوی آپ کے چچا زاد بھائی کی بیٹی تھیں اور سعد بن زیدؓ کی جو عشرہ مبشرہ سے ایک ہیں بہن تھیں ان سے جاہلیت میں نکاح کیا بعد میں وہ اسلام لائیں اور ہجرت کرکے ساتھ گئیں۔
تیسری ام کلثوم جمیلہ بنت عاصم بن ثابت بن ابی افلح انصاری۔ ان کا نام عاصیہ تھا اور حضرت عمرؓ نے ان کا نام جمیلہ رکھا تھا اور بعض کا قول ہے کہ رسول اللہ  ﷺ نے یہ نام رکھا تھا۔
چوتھی ام کلثوم بنت حارث بن ہشام مخزومی، ابو جہل کی بھتیجی، ان کے والد اسلام قبول کر لئے تھے۔
پانچویں ملیکہ بنت جرول خزاعی چھٹی ام کلثوم بنت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ۔ (سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراؓ کے بطن سے تھیں اپنی خلافت کے زمانے میں سیدنا عمر فاروق  ؓ نے ان سے نکاح کیا تھا)۔

طبری نے حضرت عمرؓ کی اولاد آٹھ لڑکے اور چار لڑکیاںلکھی ہیں۔ مگر دوسرے مورخین کا بیان ہے کہ نو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں جن کے نام یہ ہیں۔ ۱۔ عبداللہ ۲۔ عبید اللہ ۳۔ عبد الرحمن اکبر ۴۔ عبد الرحمن اوسط ۵۔ عبد الرحمن اصغر ۶۔ زید اکبر  ۷۔عیاض ۸۔ عاصم۔ بیٹیوں کے نام : ۱۔ بی بی حفصہؓ ۲۔ بی بی رقیہ ۳۔ بی بی فاطمہ ۴۔ بی بی زینب۔ (سیرت الفاروق صفحہ ۲۷۶)
(سیرت امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق  ؓ، مولانا حبیب محمد الحسین بی۔ اے (عثمانیہ) استاذ جامعہ نظامیہ،  مطبوعہ اعجاز پرنٹنگ پریس چھتہ بازار، حیدرآباد، دکن)

Post a Comment

Previous Post Next Post