حضرتﷺ کا نام مبارک عرش پر Hazrat Ka Naam E Mubarak Arsh Par

حضرتﷺ کا نام مبارک عرش پر : 

قولہ : بوالبشرؑ نے کی وصیت الخ: مواہب لدنیہ میں مروی ہے وروی ابن عساکر عن کعبؓ الاحبار قال اقبل آدمؑ علی ابنہ شیثؑ فقال : ای بنی انت خلیفتی من بعدی فخذہابعمارۃ التقوی والعروۃ الوثقی فکلماذکرت اللہ فاذکر الی جنبہ اسم محمدؐ ، فانی رأیت اسمہ مکتوبا علی ساق العرش و انا بین الروح و الطین ، ثم انی طفت السمٰوات فلم ار فی السمٰوات موضعا الا رأیت اسم محمدؐ مکتوباعلیہ ، وان ربی اسکننی الجنۃ فلم ارفی الجنۃ قصراً ولا غرفۃ الاوجدت اسم محمدؐ مکتوباً علیہ ، ولقد رایت اسم محمدؐ مکتوباعلی نحور الحورالعین و علی ورق قصب آجام الجنۃ و علی ورق شجرۃ طوبی و علی ورق سدرۃ المنتھیٰ و علی اطراف الحجب و بین اُعین الملٰئکۃ ، فاکثر ذکرہ فان الملٰئکۃ من قبل تذکرہ فی کل ساعاتھا ۔ 
ترجمہ : روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے اپنے فرزند شیث علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اے فرزند تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو پس خلافت کو عمارت تقویٰ اور دستگاہ محکم کے ساتھ لو اور جب یاد کرو تم اللہ تعالیٰ کو تو اس کے متصل نام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کرو کیونکہ میں نے ان کا نام ساق عرش پر لکھا دیکھا ہے جب میں روح وطین میں تھا پھر تمام آسمانوں میں پھر کر دیکھا کہ کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا نہ ہو ۔ اور میرے رب نے مجھ کو جنت میں رکھا وہاں کوئی محل اور کوئی بالاخانہ اور برآمدہ ایسا نہیں دیکھا جس پر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نہ لکھا ہو اور سینوں پر تمام حوروں کے ، ہر جنت کے تمام درختوں اور شجرطوبیٰ اور سدرۃ المنتہیٰ کے پتوں پر ، پردوں کے اطراف اور فرشتوں کے آنکھوں کے بیچ میں نام مبارک محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا لکھا ہوا ہے اس لئے اکثر اُن کا ذکر کیا کرو فرشتے قدیم سے ہر وقت اُن کا ذکر کیا کرتے ہیں ۔ انتہیٰ ۔
فائدہ : حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت شیث علیہ السلام کو جو کثرت ذکر حضرت محمد صلی 
اللہ علیہ و سلم کی وصیت فرمائی اس کا منشا ایک تو یہ ہے کہ جب فرشتے ہمیشہ حضرت ؐ کا ذکر کیا کرتے ہیں تو ضرور ہے کہ وہ نہایت عمدہ عبادت ہوگی اور ایسی عبادت زیادہ کرنا بہتر ہوگا ۔ دوسرا یہ کہ حق تعالیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جیسی محبت ہے کسی کے ساتھ نہیں ، ہر چند حضرت ابراہیم بھی خلیل اللہ ہیں مگر حبیب اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ محبت کچھ اور ہی ہے ، چنانچہ خود حضرت خلیل اللہ علیہ السلام معترف ہیں کہ میری خلت اس درجہ کی نہیں ۔ کمافی المواہب و شرحہ للزرقانی و لفظ مسلم عن ابی ہریرۃ و حذیفۃ قال قال صلی اللہ علیہ و سلم : یجمع اللہ الناس فیقوم المؤمنون حتی تزلف لہم الجنۃ فیأتون آدم فیقولون یا أبانا استفتح لنا الجنۃ فیقول وہل اخرجکم من الجنۃ إلاخطئیۃ ابیکم آدم لست بصاحب ذلک اذہبوا الی ابنی ابراہیمؑ خلیل اللہ فیقول ابراہیم  لست بصاحب ذلک انما کنت خلیلا من وراء وراء۔ الحدیث
 ترجمہ : روایت کی مسلم نے ابوہریرہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہما سے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرے گا حق تعالیٰ لوگوں کو محشر میں ، کھڑے ہوں گے ایمان والے یہاں تک کہ قریب ہوگی ان سے جنت تو وہ آدم علیہ السلام کے پاس آکر کہیں گے اے پدر بزرگوار ہمارے ! کھلوایئے ہمارے لئے جنت ، وہ کہیںگے تمہیں جنت سے تمہارے باپ آدم ہی کی خطا نے تو نکالا ہے میں اس کام کا نہیں جاؤ میرے فرزند خلیل اللہ کے پاس ۔ ابراہیم علیہ السلام کہیں گے میں بھی اس کام کا نہیں ہوں میں خلیل صرف دور ہی دور سے تھا ۔ انتھی ۔



الحاصل آدم علیہ السلام پر یہ امر بخوبی منکشف ہوگیا تھا کہ حق تعالیٰ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ نہایت محبت ہے کیونکہ ہر ایک مقام پر نام مبارک کو لکھنا اور فرشتوں سے ہمیشہ ذکر کروانا فرط محبت پر دلیل قطعی ہے ، چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے:
 ( من احب شیئاً اکثر من ذکرہ ) و ہو حدیث مرفوع رواہ ابونعیم والدیلمی عن 
عائشۃ رضی اللہ عنہا، ذکرہ فی المواہب و شرحہ 
ترجمہ: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو شخص کسی چیز کو دوست رکھتا ہے تو اکثر اس کو یاد کیا کرتا ہے ۔ انتہیٰ ۔ 
اس لئے حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے اس فرزندکو جو محبوب ترین اولاد اور خلیفہ تھے ، وصیت کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر بکثرت کیا کریں ۔ 
اس وصیت میں بظاہر دو فائدے ہیں ، ایک خاص نفع ذاتی شیث علیہ السلام کا کہ بدولت اس کے حق تعالی کے نزدیک ان کا تقرب بڑھے ۔ دوسرا یہ کہ تمام اولاد کی بھلائی بھی مدنظر تھی کیونکہ جب سب کو یہ معلوم ہوجائے کہ اپنے پیارے فرزند ولی عہد کو ایسی وصیت کی ہے تو ان میں جو زیرک اور خلف الصدق ہیں ضرور اس کام پر رغبت کریں گے ۔ اس پر بھی اگر کسی ناخلف نے پدر مہربان کی وصیت کو لغو سمجھا تو اپنا نقصان کیا ۔ یہ تو ان کا ذکر تھا جو خود نبی مقرب تھے ۔ اب اس موقع میں ناظرین خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جب انبیائے ؑاولوالعزم نے ذکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم میں اس قدر اہتمام کیا ہوتو ہم امتیوں کو کس قدر اُس کا اہتمام و التزام چاہئے !!کیونکہ ہمارا تو دین و ایمان حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہی محبت کے ساتھ وابستہ ہے ۔ دیکھ لو خود حضورؐ اقدس کیا فرماتے ہیں :
عن انسؓ قال قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : لایؤمن احدکم حتیٰ اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین ۔ رواہ الشیخان و اللفظ للبخاری 
ترجمہ : فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کہ کوئی تم میں ایماندار نہیںہوتا ہے جب تک اس کے دل میں میری محبت اس کے باپ اور بیٹے اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو 
یعنے تمام عالم سے زیادہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت نہ ہو ایمان ہی نہیں ۔

Post a Comment

Previous Post Next Post