کرناٹک میں اردوکافروغ وارتقا

کرناٹک میں اردوکافروغ وارتقا


سبھی اردوداں اس بات سے بخوبی واقف ہیںاردوکی جنم بھومی سرزمین دکن ہے اور ہم اس علاقے کے پڑوسی۔اس حوالے سے ہمارا علاقہ اردو کا آنگن ٹھہرا۔اردو ہمارے علاقے میں کھیلی،پلی بڑھی جوان ہوئی اورشمال میں جاکرنکھری سنوری سجی۔ہمارے اہل قلم کو ہمیشہ ہی سے یہ شکوہ ہے کہ اہل شمال نے اہل جنوب کونظرانداز کیاہے۔اس سلسلے میں مجھے صرف ایک اقتباس ششماہی جہان نعت کے ادارے سے عرض کرناہے۔:: جنوب کی سرزمین دنیائے اسلام اور عالم علم و ادب کو ایک سے ایک اولیاء ،صوفیاء علماء فضلاء،ادبا ء شعراء اور سائنسدانوں اورمحققین سے نوازاہے مگرافسوس ہے کہ ہمیشہ جنوب کونظرانداز کیاگیا اس  کے ذمہ داراہل شمال نہیں بلکہ خود اہل جنوب ہیں اس لئے کہ ہم نے انہیں دنیائے علم وادب میں متعارف کرانے میں تساہلی کاشکار رہے۔::(جہان نعت شمارہ 4)
کرناٹک میں جب ہم اردو کے فروغ وارتقا کے پس منظرپرروشنی ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ اردوکے اول دن ہی سے ریاست میں جانبازوں نے اردو کے فروغ وارتقا کی کوشش کی۔قلی قطب شاہ سے لے کرآج تک ایک لشکرجرار ہے جواردوکے لئے تن من دھن سے قربان ہے۔اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ہونے کاشرف جہاں قلی قطب شاہ کوحاصل ہے وہیں اردوکے اولین نعت گو شاعر ہونے کاسہرا کرناٹک کے مشہور صوفی حضرت خواجہ بندہ نواز کے سر باندھاجاتاہے نیز ہندوستان میں اردو کااولین حمدونعت کاادبی رسالہ جہان نعت ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے سے قصبے ہیرور(ہانگل) سے شائع ہوتاہے اورعالمی سطح پر انٹرنیٹ پرپہلادوماہی حمدونعت کاادبی رسالہ جہان نعت بھی ہیرور ہی سے شائع ہوتاہے۔کرناٹک میں کنڑاکاسامراج ہوتے ہوئے بھی اردوکاجادو سب پرحکومت کرتاہے۔حال ہی میں ایک کنڑ فلم بنی ۔جس کا م نام ہے ـ’’گوند نماہ‘‘ہے ۔ اس فلم میں شامل ایک کنڑگیت میں اردو کے الفاظ بھی استعمال کئے گئے ہیں ’’ ُپیار گے آگو بٹ ٹئی تے ، کھانا پیناسیر تا اِلا ‘‘ اس گیت نے کنڑفلم بینوں میں زبردست مقبولیت حاصل کی اور اسی گیت کی وجہ سے فلم ریلیز سے قبل ہی زبردست مقبولیت حاصل کر رہی ہے  اس گیت کا اصل اٹرایکشن اس میں شامل اردو کے الفاظ ہیں ان اردو الفاظ کی وجہ سے گیت میں وہ خوبصورتی آئی ہے کہ دل میں پھول کھلتے ہوئے اور زبان پر مصری کی مٹھاس گھلتے ہوئے محسوس ہوتا ہے ۔ نیوز چینل نے بھی یکم فروری کی نشر میں کھلے دل سے اردو کی مٹھاس کا اعتراف کر تے ہوئے ۔ موجودہ سیاسی پس منظر پر مبنی اس گانے کی پیروڈی پیش کی جس میں جگہ جگہ اردو الفاظ کا اس طرح استعمال کیا گیا کہ یہ پیروڈی بھی طنزومزاح کا ایک شا ہکار بن گئی۔ کنڑ شام نامہ ’’سنجے وانی‘‘ نے ۹ فروری کے شمارے میں یہ رپورٹ پیش کی ہے کہ اردو الفاظ کے اشتراک سے بنا یہ کنڑ گیت کنڑ فلم انڈسٹری کی تاریخ کا سب سے مقبول گیت ہے ۔ یقیناََ یہ اردو کا جادو ہے جو کنڑ والوں کے بھی سر چڑکر بول رہا ہے ۔ ہمارا تو ماننا ہی ہے کہ اردو ایسی میٹھی زبان ہے کہ اس کے الفاظ آپ کسی بھی زبان میں استعمال کرو تو ان الفاظ کی وجہ سے دیگر زبانوں میں جان آجا تی ہے۔
ایک دور تھا جب کنڑ کے  ایک مرحوم ادکار  نے’’شدھ کنڑ‘‘ کی تحریک چلائی تھی۔اور کنڑ میں دیگر  زبانوں کے الفاظ سے پر ہیز کرنے کی با ضابطہ تحریکیں چھڑی تھیں۔ اور ایک یہ دور بھی آیاہے کہ نہ صرف گیتوں میں بلکہ ڈائیلاگس میں بھی اردو الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے مقبولیت کا راستہ  اپنا یا جا رہا ہے۔سچ ہے کہ اردو زبان ایسا دریا ہے جس پر لاکھ باندھ لگائو مگر یہ بہتا ہی رہے گا۔اردو میں وہ جادو گری ہے کیا اپنے کیا پرائے سبھی اسکی جادو گری پہ فدا ہیں۔۔
کرناٹک میں اردوکے فروغ وارتقامیں اردواخبارات،رسائل ،شعراوقلمکار کاناقابل فراموش حصہ ہے۔ اخبارات ورسائل میں چنداہم نام یہ ہیں، روزنامہ سالار،سالارویکلی،روزنامہ سیاست،روزنامہ سہارا،انقلاب دکن گلبرگہ،کے جی ین ٹائمس گلبرگہ،ٹاپ نیوز ویکلی یادگیر،نشیمن ہفت روزہ بنگلور، شام سے شام تک،قومی اتحاد ہبلی وغیرہ،
اردورسائل کی فہرست میں چندنمایاں نام یہ ہیں۔ماہنامہ ذرین شاعیں بنگلور،کرناٹک اردواکاڈمی کے زیراہتمام شائع ہونے والا مجلہ اذکار،بچوں کاماہنامہ غبارہ،سہ ماہی چراغ نوریادگیر،ششماہی ودوماہی جہان نعت ہیرور وغیرہ۔
شعرا کی ناختم ہونے والی فہرست میں سے چندمنتخب نام یہ ہیں۔عزیزاحمدشحنہ،حضرت خواجہ بندہ نواز،رازامتیاز،ضیامیر،عثمان اسد،ابراہیم آتش،محمود ایاز،ؔحمیدالماس ،محمداسماعیل تابش،ؔمحمد اعظم آتش،نیازؔوارثی ۔یس یس قادری۔اقبال فرید۔حسنی سرورمیسور(مرحومین)۔راج پریمی۔اکرم نقاش،وہاب عندلیب،سلیمان خمار،ریاض احمدخمار، عزیزبیلگامی، ظہیررانی بنوری، حافظ کرناٹکی،مظہرمحی الدین۔ولی کرناٹکی۔غلام ربانی فداؔ ،وحیدواجد،ڈاکٹروحیدانجم،ساغرکرناٹکی۔حسین، محی الدین قادر، قاسم، ذبیح اللہ، شریف محمد اور احمد جیسے شعرا شاعری میں ہندوستانیت کی روح کو تشکیل دیتے پائے جاتے ہیں، اس میں قدیم تہذیبی عناصر اور اپنی مٹی کی سوندھی خوشبو کا رنگ و روغن موجود ہے۔ ان کی شاعری پر اطراف و اکناف کی دکنی، مرہٹی اور کنڑا کے اثرات مخلوط زبان کی شکل میں ملتے ہیں۔ 
  ہبلی شہر ایک زمانے میں اردوکے لئے ایک دبستانی حیثیت رکھتاتھا 1955 اور1965 دوران یہاں کی ادبی فضا بہت خوبصورت رنگ وآہنگ سے مالامال تھی۔۔جنہوں نے اپنے خون جگر سےسینچ کراس شہرکودبستانی حثیت دی ان میں نمایاں نام ہیں حکیم فیاض الدین موج قریشی لکھنوی،  ظہیرقاسمی،سیماب اکبرآبادی کے شاگرد آسی سیمابی تھے۔ان کے ساتھیوں میں عطاہبلوی،عزیزہبلوی ،مزاحیہ شاعر کلیم ہبلوی ،مرحومین۔خادم کرناٹکی،ولی کرناٹکی۔ڈرامہ نگارانل ٹھکر وغیرہ۔1965 کے بعد آسمان ادب پربحیثیت شاعروافسانہ نگار نمودار ہونے والے ستاروں میں افسانہ نگارعبدالغنی ملاں۔افسانہ نگارسی نذیرالدین ،عثمان شاہد۔محبوب بڑائی(ـمدیراعلی کرناٹک پنچ ہبلی)(مرحومین)۔۔مظہرمحی الدین۔۔کامل کلادگی، چراغ ہبلوی ۔ڈاکٹرسہیل نظام وغیرہ۔
کرناٹک میں اردوکے فروغ کے لئے ایک بہت بڑی محققین کی ٹیم نے بھی کوشش کی ہے جس کے نام بیان کرنے کے لئے مختصر وقت کافی نہیں ۔میں یہ سمجھتاہوں کہ اہل قلم ہی اس کی فہرست بنائیں تومناسب ہوگا مجھ سے اردو کاایک ادنی طالب علم کے بس کی بات نہیں۔
اردوافسانہ نگار وں میں رؤف خوشتر،ضیارومانی۔چراغ ۔ہبلوی۔ضیاجعفر۔مشتاق سعید ریشمانکہت۔نصرین تاج۔قیصرعرفان وغیرہ۔
کرناٹک ہمیشہ ہی سے اردو کے لئے سرسبزوشاداب رہاہے۔ اردوکے ناقدین ومحققین نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ دیگرریاستوں کے مقابلے میں "شمس الرحمٰن فاروقی کے الفاظ میں"
 کرناٹک میں اردو کا حال یوپی سے پھر بھی بہتر ہے۔کرناٹک میں اردو کا حال مدھیہ پردیش سے بہتر ہے ،راجستھان سے بہتر ہے۔
اردو کے تحفط وفروغ میں ان تنظیموں اورتحریکوں،رسالوں ،اخباروں،اداروں کوبھی فراموش نہیں کرسکتے جو اردو کے نام سے نمودار ہوئیں اور قربانیاں دی پھراردو کے قبرستان میں دفن ہوگئیں جوہماری لاپرواہی کے باعث جن کے نام بس چندلوگوں تک محدود رہ گئے۔
اردو کے فروغ میں ہم کرناٹک بھرمیں قوم مسلم کی متحدہ وفعال تنظیم انجمن اسلام نے بھی قربانیاں دی ۔اردو ادارے قائم ۔اردورسائل واخبارات کی سرپرستی۔ وقتاََ فوقتاََ اردوکانفرنسیس ،سیمینارس ،مذاکرے،مباحثے قائم کئے۔جس کی ایک ہلکی سی جھلک آپ انجمن اسلام کی قربانیوں اور اردودوستی کی مثالیں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔میں دعویٰ سے کہتاہوں کہ انجمن اسلام کی اردوخدمات اردو تاریخ کاوہ باب ہے جس کے بغیر اردوتاریخ مکمل ہوہی نہیں سکتی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post