ضیغم الاسلام مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا عبد الستار خان نیازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ Biography Mujahid e Millat Hazrat Allama Abdul Sattar Khan Niazi

 ضیغم الاسلام مجاہد ملت حضرت علامہ مولانا عبد الستار خان نیازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ



ہم لاکھ چاہ کر بھی حضرت مولانا عبد الستارخان نیازی کا مکمل تعارف نہیں پیش کر پا رہے ہیں۔ آپ کی سیرت کے لیے ہزاروں صفحات درکار ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ مختصر سہی آپ تک ان کا خاکہ پیش کریں۔ مزید خواہش مند احباب لازمی طور پر سیرت مولانا نیازی کا مطالعہ کریں۔

ضیغمِ اسلام حضرت علامہ  مولانا عبدالستار خان بن جناب ذوالفقار خان ذوالحجہ ۱۳۳۳ھ/ اکتوبر ۱۹۱۵ء میں بمقام اٹک پنیالہ، تحصیل عیسیٰ خیل، ضلع میانوالی پیدا ہوئے۔ آپ میانوالی کے مشہور نیازی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔ ان کا شجرہ، شیرشاہ سوری کی افواج کے کمانڈرانچیف عیسیٰ خاں نیازی سے جا ملتا ہے ۔ان کے والدین بچپن ہی میں فوت ہوگئے۔ مولانا نیازی کی تربیت و پرورش ان کے نانا صوفی محمد خاں اور تایا محمد ابراہیم خان نے کی ۔ 

خاندانی ماحول:

آپ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی، جہاں ہر وقت دین کا چرچا رہتا تھا اور گھر کے تمام افراد تہجد  گزار تھے اور اسی پاکیزہ ماحول کا نتیجہ ہے کہ تہجد گزاری علامہ نیازی کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ آپ کے نا نا جان کو تاریخِ اسلام سے بڑی دلچسپی تھی، چنانچہ آپ نے ان کی تربیت میں صحابہ کرام کے مجاہدانہ کارناموں سے قلبی وابستگی پیدا  کی۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ اسکول و کالج میں آپ ہمیشہ مستشرقین کی ایسی نگارشات پر سیخ پا ہوتے جن سے حضور علیہ السلام کی ذاتِ اقدس کے بارے میں اشارتاً یا کنائتاً بے ادبی کا پہلو نکلتا ہو۔

تعلیم و تربیت:

علامہ نیازی نے ۱۹۳۳ء میں عیسیٰ خیل (میانوالی) سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ اسی سال آپ لاہور تشریف لاکر شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے جاری کردہ اشاعتِ اسلام کالج میں داخل ہوئے یہ کالج علامہ اقبال کا "برین چائلڈ"تھا جس کا مقصد ایسے مبلغین اسلام کی تیاری تھا جو جدید تقاضوں سے آگاہ ہوں اور نئی نسل سے جدید علم الکلام میں بات کرسکیں۔ قرآن،حدیث، سیرت النبیؐ، فقہ، تاریخ اسلام اور مختلف  مذاہب کے تقابلی مطالعے پر مبنی اس کا نصاب بھی علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال  کا مرتب کردہ تھا۔

سیاسیا ت ، عربی اور فارسی میں  تین ماسٹر ڈگریا ں حاصل کرنے والے مولانا نیازی  اشاعت اسلام کالج سے علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال کے دستخطوں کی حامل "ماہر تبلیغ " کی اس سند پر زیادہ فخر کیا کرتے تھے ۔ جو 1935ء میں انہیں امتحان میں کامیابی حاصل کرنے پر حکیم الامت علامہ محمداقبال نے اپنے ہاتھوں سے عطا کی تھی ۔ بعد ازاں  1936ء میں مولانا نیازی نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا ، خوش قسمتی سے وہاں ان کی ملاقات حمید نظامی ، میاں محمد شفیع (م ش) اور ابراہیم علی چشتی جیسے ذہین طلبہ سے ہوئی۔ یہ تینوں طلبہ ملی سوچ کے حامل انسان تھے۔ انہی طلبہ نے مسلم سٹوڈ نٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی ۔ 1938ء میں مولانا نیازی مسلم سٹوڈنٹس کے تیسرے صدر منتخب ہوئے ۔اسی سال مولانا نیازی نے ایم اے عربی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔

تدریسی خدمات:

آٹھ سال تک آپ اسلامیہ کالج لاہور میں تدریسی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ اسی دوران ۱۹۴۳ء میں آپ کو انجمن نعمانیہ ہندو کا ڈپٹی سیکرٹری بنادیا گیا، جبکہ اس سے پہلے اقبال ڈے سوسائٹی کے سیکریٹری بنائے جا چکے تھے۔ ستمبر ۱۹۴۳ء میں آپ کو اسلامیہ کالج لاہور میں شعبۂ اسلامیات کا صدر مقرر کیا گیا اور پھر ۱۹۴۶ء میں جب کانگرس کی چیرہ دستیوں اور اسلامیانِ ہند کے حق خود ارادیت سے صریح انکار پر قائدِ اعظم نے ڈائرکٹ ایکشن کا فیصلہ کیا، تو آپ کالج کی مصروفیات چھوڑ کر تحریکِ پاکستان کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے۔

اصلاحی خدمات:

۲۶/ ۱۹۳۵ء میں جب تقریباً تمام کاروبار ہندوؤں کے ہاتھ میں تھا اور سیاسی طور پر ہندو، متحدہ قومیت کا فتنہ برپا کر رہے  تھے۔ مولانا نیازی نے ۱۹۳۶ء میں میانوالی میں ’’مجلس  اصلاحِ قوم‘‘ کی بنیاد رکھی اور ملتِ اسلامیہ کی خدمت کے لیے شب و روز ایک کردیے۔ ہندوؤں کی سازش اور چالوں کو ناکام بنانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ تجارت میں مسلمانوں کو دخیل کیا اور انہیں جداگانہ ملی تشخص کا احساس دلایا۔ نیز اسلامی شریعت کے نفاذ کی خاطر عوام کو منظم کیا اور غریبوں کے لیے بیت المال قائم کیا۔

۱۹۳۸ء میں ایام تعطیلات کے دوران آپ ضلع میانوالی  میں اصلاحی کاموں میں دوبارہ منہمک ہوگئے اور ’’انجمن اصلاحِ قوم‘‘ کی جنرل کونسل میں ایک مستقل قرارداد کے ذریعے انجمن کا نام تبدیل کرکے ’’انجمن اصلاح المسلمین‘‘ رکھا گیا۔

 1939ء میں قائداعظم محمد علی جناح سے دہلی میں ملاقات کرکے" خلافت پاکستان "کی تجویز پیش کی، جس پر قائداعظم  نے فرمایا "تمہاری سکیم بہت گرماگرم اور پرجوش ہے۔" تو مولانا نیازی نے برجستہ جواب دیا "کیونکہ یہ سکیم ایک پرجوش دل سے نکلی ہے۔" ایک موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے مولانا نیازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا "نیازی  جیسے نوجوان میرے ساتھ ہیں تو پاکستان کے قیام کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔" 1946ء کے عام انتخابات میں محمد علی جناح نے مولانا نیازی  کو مسلم لیگ کا ٹکٹ دیا ۔ مولانا نیازی بھاری اکثریت سے جیتے ۔1953ء میں تحریک ختم نبوت چلی ۔ تو مولانا نیازی کو گرفتار کرلیا گیا۔ فوجی حکومت نے بغاوت اور قتل کیس میں سزائے موت سنا دی ۔ مولانا نیازی کو موت کی سزا کے فیصلے پر دستخط کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے کرنل کو للکار کرکہا جب میں پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈالوں گا تو یہ میرے دستخط ہی تصور ہونگے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران جب فائل فوجی عدالت کے سامنے پیش کی گئی تو فو جی افسر نے کہا "آپ 1947ء سے پہلے بھی خطرناک ایجی ٹیٹر تھے ۔ مولانا نیازی نے جواب دیا اگر ہم ایجی ٹیٹر کا جرم انگریزوں کے خلاف نہ کرتے تو آج تم اس کرسی پر نہ بیٹھے ہوتے۔ اس کے بعد مولانا نیازی  کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کردیا گیا۔"بعدا زاں مزید تخفیف کے بعد سزا صرف تین سال رہ گئی ۔ایوب خان کے مارشل لاء  دور میں بھی مولانا نیازی  کا جیل میں آنا جانا لگا رہا۔ پھر جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، ایوب خاں کے خلاف صدارتی الیکشن کے میدان میں اتریں تو مولانا نیازی ان کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ میانوالی میں مادر ملت کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نیازی نے کہا ہم اس شخص (گورنر کالا باغ ) کو جوتے کی نوک پر بھی نہیں رکھتے ۔ نوازشریف کے دور اقتدار میں بھی حلیف ہونے کے باوجود آپ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیاتھا کہ اگر ملک سے سودی نظام معیشت کا خاتمہ نہ کیا تو میرا ڈنڈا تم پر لہرائے گا۔آپ  نے اتحا د بین المسلمین کے لیے اپنے دور وزارت میں جو سفارشات مرتب کیں وہ آج تک تمام مکاتب فکر میں مقبولیت کا درجہ رکھتی ہیں ۔آپ دو مرتبہ قومی اسمبلی اور ایک مرتبہ سینٹ کے رکن بھی منتخب ہوئے ۔ عمر کا بڑا کا حصہ جیل میں گزارا۔

حج و زیارت:

مولانا نیازی مدظلہ نے پہلا حج بس کے ذریعے کیا۔ ۲۲؍دسمبر کو آپ روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ شریف اور روضۂ پاک کی زیارت سے مشرف ہوکر ۲۰؍جنوری ۱۹۷۳ء میں واپسی ہوئی۔

دوسری مرتبہ ۲۰؍دسمبر ۱۹۷۴ء کو حضرت قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی کی رفاقت میں حج و زیارت کا شرف حاصل کیا اور پھر عالمی تبلیغی دورہ کرکے ۱۴؍اپریل ۱۹۷۵ء کو واپس تشریف لائے۔


بیعت:

آپ کے خاندان کا روحانی تعلق سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں پیرِ طریقت حضرت مولانا جان محمد رحمۃ اللہ علیہ میبل شریف سے ہے۔ حضرت پیر صاحب سومرو خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت محمد رضا صاحب (زکوڑی شریف) کے خلیفہ تھے۔ علامہ نیازی کی بیعت حضرت مولانا جان محمد رحمہ اللہ کے پوتے فقیر قادری بخش نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ سے ہے۔

علامہ نیازی پر بے شمار قاتلانہ حملے ہوئے۔اور آپ نے تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ اور تحریک ختم نبوت میں جو قربانیاں دی ہیں۔ ان کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ یہ مرد مجاہد عشق رسول میں سرشار تھا۔

تحریک ختم نبوتؐ کے دوران آٹھ دن اور سات راتیں پھانسی کی کوٹھڑی میں گزاریں ۔ مولانا نیازی  نے 86سال عمر پائی ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ تک سیاست میں سرگرم رہے ۔ کوئی جائیداد، مکان، پلاٹ یا بینک بیلنس نہیں تھا ۔ 2 مئی 2001ء بروز بدھ نماز فجر ادا کرنے کے فوراً بعد حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مرقد پر رحمتیں نازل فرمائے ۔


 


Post a Comment

Previous Post Next Post