Biography Hazrat Khawaja Abdul Khaliq Gajadwani|Hace Abdulhalık Goncdüvaniخواجہ عبد الخالق غجدوانی

حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ

غجدوان نزد بخارا (۴۳۵ھ/۱۰۴۴ء۔۔۔ ۵۷۵ھ/ ۱۱۷۹ء) غجدوان نزد بخارا

 


قطعۂ تاریخِ وصال

عمر بھر آپ نے فرمائی ہے دیں کی تبلیغ
ہے بزرگوں کی روایت سے یہ روشن صابر

 

ہم پہ اللہ کا انعام ہیں عبدالخالق
’’حامیِ داعیِ اسلام ہیں عبدالخالق‘‘
۱۱۷۹ء

(صاؔبر براری، کراچی)

 

آپ حضرت خواجہ یوسف ہمدانی رحمہ اللہ کے خلیفۂ اعظم، سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے سردار اور طبقۂ خواجگان کے سرِ دفتر ہیں۔ آپ ہمیشہ راہِ صدق و صفاء متابعتِ شرع و سنتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور مخالفتِ بدعت و ہوا میں ساعی و کوشاں رہے۔ آپ کی ولادت ۲۲؍شعبان ۴۳۵ھ/ ۱۰۴۴ء کو غجدوان میں ہوئی۔

آپ کے والدِ گرامی قدر کا نام عبدالجمیل یا عبد الجلیل ہے جو امام عبدالجمیل (یا عبدالجلیل) کے نام سے مشہور و متعارف تھے۔ وہ اپنے وقت کے مقتدر پیشوا، عالمِ ظاہر و باطن اور حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی اولادِ امجاد میں سے تھے۔ چونکہ اُن کی شادی روم کے شاہی خاندان میں ہوئی تھی۔ اس لیے روم میں رہا کرتے تھے اور حضرت خضر علیہ السلام کے صحبت دار تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے اُن کو بشارت دی تھی کہ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ اس کا نام عبدالخالق رکھنا۔ حوادث روزگار کے سبب روم سے نکل کر ماوراء النہر کی طرف نکلے اور ولایتِ بخارا میں پہنچ کر بخارا سے چھ فرسنگ (اٹھارہ میل) کے فاصلے پر غجدان میں سکونت پذیر ہوئے جہاں آفتابِ طریقت اور ماہتابِ معرفت خواجہ عبدالخالق متولد ہوئے اور پرورش پائی۔

حضرت خواجہ عبدالخالق  رحمہ اللہ نے تعلیم حضرت شیخ صدرالدین قاضیٔ بخارا سے پائی اور اجازتِ ذکرِ خفی و ذکرِ نفی و اثبات حضرت خضر علیہ السلام سے پائی۔ حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ بہاؤ الدین نقشبند بخاری قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں خواجہ عبداالخالق اپنے استاد شیخ صدرالدین کے حضور تفسیر پڑھ رہے تھے تو جب اس آیت پر پہنچے:

اُدْعُوْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (اعراف۔ ع ۷)

’’تم اپنے رب کو زاری اور پوشیدگی کے ساتھ پکارو تحقیق وہ حد سے زیادہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔

تو آپ نے استاد سے پوچھا کہ اس پوشیدگی کی حقیقت اور اُس کا طریقہ کیا ہے؟ اگر ذاکر بلند آواز سے ذکر کرے یا ذکر کرتے وقت اعضاء سے حرکت کرے تو غیر شخص اُس ذکر سے واقف ہوجاتا ہے اور اگر دل سے کرے تو بحکمِ حدیث شریف الشیطان یجری من الانسان مجری الدم (ابوداؤد) (شیطان انسان میں خون کی طرح چلتا ہے) شیطان ذکر سے واقف ہوجاتا ہے۔ اُستاد نے فرمایا کہ یہ علمِ لدنی ہے، اگر خدا نے چاہا تو اہل اللہ میں سے کوئی تمہیں مل جائے گا اور بتادے گا۔ اس کے بعد آپ اولیاء اللہ کی تلاش میں رہے یہاں تک کہ ایک روز حضرت خضر علیہ السلام سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تمہیں اپنی فرزندی میں قبول کیا اور تمہیں ایک سبق بتاتا ہوں ، اُسے ہمیشہ دہراتے رہنا تم پر اسرار کھل جائیں گے پھر وقوفِ عددی کی تعلیم دی اور فرمایا کہ حوض میں اترو، غوطہ لگاؤ اور دل سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْل اللہ کہو، آپ نے اسی طرح کیا اور اس ورد میں مشغول و مصروف رہے۔ یہاں تک کہ بہت سے اسرار کھل گئے۔ بعد ازاں جب حضرت یوسف ہمدانی بخارا میں تشریف لائے تو جب تک ان کا قیام  بخارا میں رہا۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہوکر فیوض و برکات حاصل کرتے رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام آپ کے پیر سبق  ہیں اور حضرت خواجہ یوسف ہمدانی پیر صحبت و پیرِ خرقہ، اگرچہ خواجہ یوسف ہمدانی رحمہ اللہ اور اُن کے مشائخ ذکر بالجہر کیا کرتے تھے لیکن چونکہ آپ کو ذکرِ خفی کی تلقین حضرت خضر علیہ السلام سے تھی بدیں وجہ حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی رحمہ اللہ نے اس میں رد و بدل نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ جس طرح تمہیں تلقین ہوئی ہے کیے جاؤ۔


آپ نے اپنی بعض تحریروں میں ذکر کیا ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے مجھے حضرت خواجہ ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے سپرد کیا تو اُس وقت میری عمر بائیس سال کی تھی ایک مدت کے بعد حضرت خواجہ ابویوسف رحمہ اللہ خراسان میں آگئے تو آپ ریاضات و مجاہدات میں مشغول ہوگئے اور اپنے حالات پوشیدہ رکھا کرتے تھے ملک شام میں بہت سے لوگ آپ کے مرید ہوگئے اور وہاں خانقاہ و آستانہ بن گیا۔

ایک روز ایک درویش نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے یہ اختیار دے کہ دوزخ و بہشت میں سے ایک کو اختیار کرلے تو میں  دوزخ کو اختیار کروں گا۔ کیونکہ میں تمام عمر اپنے نفس کی خواہش پر نہیں چلا اور اُس صورت میں بہشت میرے نفس کی مراد ہوگی، آپ نے اُس درویش کی بات کی تردید کی اور فرمایا کہ بندے کو اختیار سے کیا کام؟ جہاں مالک بھیجے لا جائے اور جہاں ٹھہرائے ٹھہرجائے۔ بندگی اسی چیز کا نام ہے ناکہ جو تم کہہ رہے ہو، اُس درویش نے پوچھا کہ سالکانِ طریقت پر شیطان کا غلبہ ہوتا ہے کہ نہیں، آپ نے فرمایا جو سالک مقامِ فنائے نفس کو نہ پہنچا ہو غصہ کے وقت شیطان اُس پر قابو پاتا ہے لیکن جو اُس مقام پر پہنچ گیا ہو اُس کو غصہ نہیں آتا بلکہ غیرت آتی ہے اور جہاں غیرت ہوتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے اور یہ صفت اُس شخص میں ہوتی ہے جو کتاب اللہ کو دائیں ہاتھ میں اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں ہاتھ میں لیے ہوئے ہو اور اُن دونوں کی روشنی میں راستہ چلتا ہو۔

ایک روز آپ اپنے عبادت خانے میں رو رہے تھے، مریدوں نے عرض کیا کہ آپ کے اقوال و افعال ایسے عمدہ اور اچھے ہیں کہ اُن کی نظیر نہیں ملتی، پھر یہ رونے اور خوف کھانے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کا خیال کرتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان قلب و روح سے نکلا چاہتی ہے، خوف اس وجہ سے آتا ہے کہ شاید بلا ارادہ اور نادانستہ طور پر مجھ سے کوئی ایسا کام سرزد ہوجائے  جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو، آپ جس جگہ بیٹھتے تو خوفِ خدا کی وجہ سے حالت ایسی ہوتی کہ گویا آپ کو قتل کرنے کے لیے بٹھایا گیا ہے۔



کرامات:

۱۔       ایک دن آپ کثیرالتعداد مجمع کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک نوجوان لباس زاہدانہ پہنے جانماز کندھے پر ڈالے ہوئے آیا اور ایک کونہ میں بیٹھ گیا، آپ نے اُسے بغور دیکھا اور خاموشی اختیار فرمائی، تھوڑی دیر کے بعد وہ جوان اُٹھا اور کہنے لگا کہ حدیث شریف میں جو آیا ہے اَتَّقُوا فَرسْتَ مُوْمِن فَاِنَّہٗ یَنْظِرْ بِنُوْرِ اللہ۔ (مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے) اس کا مطلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنا زنار توڑ ڈال اور مشرف بہ ایمان ہوجا۔ جوان نے کہا خدا نہ کرے کہ میں زنار پہنوں، آپ نے خادم کو اشارہ کیا، خادم نے اس کے کپڑے اتار کر دیکھا تو زنار موجود تھا۔ اس جوان  نے فی الفور زنار توڑ کر توبہ کی اور ایمان قبول کرلیا۔ اس پر آپ نے لوگوں سے فرمایا، یارو! آؤ ہم بھی اس نومسلم کی طرح زنار توڑ ڈالیں اور ایمان لائیں جس طرح اس نے زنارِ ظاہری توڑا ہے ہم اپنے زنارِ باطنی (خودپسندی) کو توڑ ڈالیں تاکہ اس کی طرح ہم بھی بخشے جاویں، یہ سن کر حاضرین پر عجب کیفیت طاری ہوئی اور سب کے سب آپ کے قدموں پر گر کر توبہ کرنے لگے۔

۲۔       بخارا شہر میں ایک عورت مجذوبہ برہنہ حالت میں گلی کوچوں میں پھرا کرتی تھی، لوگوں نے اُس سے پوچھا کہ تو کپڑے کیوں نہیں پہنتی، وہ کہنے لگی کہ اس شہر میں کوئی مرد ہے کہ جس سے پردہ کروں؟ ایک روز صبح کے وقت نانبائی کی دکان پر گئی، تنور گرم تھا، اُس میں چھلانگ لگادی اور کہا کہ اس کا منہ بند کردو کیونکہ ایک مرد اس شہر میں داخل ہوگیا ہے، اُس سے اپنے آپ کو چھپاتی ہوں، تھوڑی بعد لوگوں نے تنور کا منہ کھولا اور پوچھا کہ کیا حال ہے۔ اُس نے کہا کپڑے لاؤ تاکہ پہنوں، چنانچہ کپڑے لائے گئے، وہ کپڑے پہن کر تنور سے صحیح سلامت نکلی۔ ایک بال کا بھی نقصان نہیں ہوا تھا، سب لوگ حیران رہ گئے کہ یہ تو ولیہ ہے، سب نے قسم دے کر پوچھا کہ سچ بتا وہ مرد کون ہے جس سے تو پردہ کرتی ہے؟ اس نے کہا کہ میرے ساتھ آؤ کہ میں اُن کی زیارت کو جا رہی ہوں۔ وہ سیدھی آپ (خواجہ عبدالخالق) کے پاس گئی جبکہ آپ ابھی ابھی غجدوان سے آکر بخارا شہر میں داخل ہوئے تھے، آپ اُسے دیکھ کر تعظیم کے لیے اُٹھے اور آپس میں کچھ باتیں ہوئیں جو وہی سمجھی یا آپ سمجھے۔

۳۔      ایک مرتبہ آپ مع مریدوں کے حجِ بیت اللہ کے لیے جا رہے تھے۔ راہ میں شدتِ پیاس نے غلبہ کیا۔ ناگاہ ایک کنویں پر پہنچے مگر وہاں رسی اور ڈول نہ تھا۔ نہایت مایوسی ہوئی، آپ نے فرمایا کہ میں تو نماز پڑھتا ہوں، تم پانی پیو اور وضو کرو، مریدوں نے جو یہ سنا تو سمجھ گئے کہ اس میں کچھ بھید ہے، پھر کنویں پر گئے تو آپ کی برکت سے پانی کناروں تک آگیا تھا۔ سب نے جی بھر کر پانی پیا اور وضو کیا، ایک شخص نے ایک برتن پانی سے بھرلیا تو پانی فی الفور کنویں کی تہہ تک پہنچ گیا یہ بات کسی نے آپ سے عرض کی تو فرمایا: یاروں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ نہ کیا ورنہ پانی قیامت تک اُوپر ہی رہتا۔

۴۔      آپ کی ولایت اس مرتبہ تک پہنچ گئی تھی کہ ہر نماز کے وقت آپ کو خانہ کعبہ جاتے اور واپس آجاتے۔

جب آپ کا آخری وقت آیا تو مرید و فرزند وہاں موجود تھے۔ آپ نے آنکھ کھول کر فرمایا: ’’اے عزیزو! خوشخبری ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہے اور اپنی رضا کی بشارت دی ہے‘‘۔ تمام لوگ رونے لگے اور عرض کی کہ ہمارے لیے بھی دعا فرمائیں، آپ نے فرمایا تم کو بھی بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ جو شخص اس طریقہ پر تا آخر استقامت رکھے گا میں اس پر رحمت کروں گاو راُسے بخش دوں گا، کوشش کرو کہ اس طریقہ سے علیحدہ نہ رہو‘‘۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی یٰاَیّھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃ ارجعِی الیٰ ربک رَاضیۃ مرضیہ لوگوں نے جو خیال کیا تو آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تاریخ وفات ۱۲؍ربیع الاوّل ۵۷۵ھ/ ۱۱۷۹ء ہے۔ مرقد اقدس غجدوان نزد بخارا میں باعثِ تسکین عاشقاں ہے۔

ارشادات قدسیہ:

آپ کے کلماتِ قدسیہ میں آپ کی اصطلاحات ہیں جن پر طریقۂ نقشبندیہ کی بنا ہے، یہ آٹھ کلمے ہیں، ۱۔ ہوش دردم، ۲۔ نظر بر قدم، ۳۔ سفر ور وطن، ۴۔ خلوت در انجمن، ۵۔یاد کرد، ۶۔باز گشت، ۷۔نگاہداشت، ۸۔ یادشات۔ ان آٹھ کے علاوہ تین کلمے اور بھی ہیں جو مصطلحاتِ نقشبندیہ میں سے ہیں۔ ۱۔وقوفِ عددی، ۲۔وقوفِ زمانی، ۳۔وقوفِ قلبی۔ ان گیارہ کلمات پر طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی بنیاد ہے جن کی مختصر سی تشریح درجِ ذیل ہے۔

۱۔ ہوش دردم:

اس سے مراد یہ ہے کہ سالک کا ہر سانس حضور و آگاہی سے ہو نہ کہ غفلت سے یعنی کسی سانس میں خدا سے غافل نہ رہے۔ حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں کہ کسی سانس کو ضائع نہ ہونے دو، سانس کے خروج و دخول میں اور خروج و دخول کے درمیان محافظت چاہیے کہ کوئی وقفہ غفلت کا نہ پایا جائے۔

۲۔ نظر بر قدم:

 اس سے مراد یہ ہے کہ نظر اپنے پاؤں کی پشت پر رکھے تاکہ بے جا نظر نہ پڑے اور دل محسوساتِ متفرقہ سے پراگندہ نہ ہوجائے۔ پس راہ چلتے اِدھر اُدھر نہ دیکھے کہ موجبِ فساد عظیم و مانع حصولِ مقصود ہے۔ یہ عمل تفرقہ بیرونی کے دفعیہ کے لیے ہے جیسا کہ ہوش دردم تفرقہ اندرونی کے دفیعہ کے واسطے ہے یا اس سے مراد یہ ہے کہ سالک کا قدمِ باطن اُس کی نظرِ باطن سے پیچھے نہ رہے۔ رُشحات میں ہے کہ شاید نظر برقدم، سُرعتِ سیر کی طرف اشارہ ہے یعنی مسافت ہستی کے قطع کرنے اور عقباتِ خود پرستی کے طے کرنے میں قدم نظر سے پیچھے نہ رہے بلکہ منتہائے نظر پر پڑے۔ چنانچہ مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی مدح میں فرماتے ہیں  ؎

بسکہ خود کردہ بسرعت سفر

 

باز نماندہ قدمش از نظر

۳۔ سفر در وطن:

یعنی سیرورا نفس سے مراد صفاتِ ذمیمہ سے صفاتِ حمیدہ کی طرف انتقال کرنا ہے۔ خواجگانِ نقشبندیہ نے مقام بقا میں جو سیرانفسی سے تعلق رکھتا ہے۔ بجائے سیر آفاقی کے اسی سفر کیفی کو اختیار کیا ہے۔ اور سفر ظاہر اتنا ہی کرتے ہیں کہ پیرِ کامل تک پہنچ جائیں۔ دوسری حرکت جائز نہیں رکھتے اور ملازمتِ شیخ سے دوری نہیں چاہتے اور ملکۂ آگاہی کے لیے پوری پوری کوشش کرتے ہیں اس لیے وہ سیر آفاقی کو جو دور دراز راستہ ہے حتی الامکان پسند نہیں کرتے بلکہ سیر انفسی کے ضمن میں اُسے قطع کرتے ہیں اور ملکۂ آگاہی کے حصول کے بعد سفر کرتے ہیں یا اقامت۔ دوسرے سلسلوں میں سلوک کو سیرِ آفاقی سے شروع کرتے ہیں اور سیر انفسی پر ختم کرتے ہیں۔ سیر انفسی سے شروع کرنا سلسلۂ نقشبندیہ کا خاصہ ہے۔ اندراج نہایت در بدایت کے یہی معنی ہیں کہ سیر انفسی جو دوسروں کی نہایت (انتہاء) ہے وہ اکابرِ نقشبندیہ کی ہدایت (ابتداء) ہے۔

واضح رہے کہ سیر آفاقی مطلوب کو اپنے سے باہر ڈھونڈنا ہے اور سیر انفسی اپنے میں آنا اور اپنے دل کے گرد پھرنا ہے         ؎

ہمچو نابینا مبر ہر سوئے دست

 

با تو زیر گلیم است ہر چہ ہست

مگر شہود انفسی میں گرفتار نہ رہنا چاہیے اور اس کو مطلوب کے ظلال میں سے ایک ظل تصور کرنا چاہیے کیونکہ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ جیسا کہ ورائے آفاق ہے، ورائے نفس بھی ہے۔ پس اس کو آفاق و انفس سے باہر طلب کرنا چاہیے۔

۴۔ خلوت در انجمن:

اِس سے مراد یہ ہے کہ انجمن میں جو محلِ تفرقہ ہے۔ ازراہِ باطن مطلوب کے ساتھ خلوت رکھے اور غفلت کو دل میں راہ نہ دے۔ ظاہر میں خلائق کے ساتھ اور باطن میں حق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ابتداء میں یہ معاملہ بتکلف ہوتا ہے اور انتہا میں بے تکلف ؎

از بروں درمیانِ بازارم

 

وز دروں خلو تیست بایارم

حضرت خواجہ اولیائے کبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خلوت در انجمن یہ ہے کہ سالک اگر بازار میں جائے تو ذکر میں استغراق کے سبب سے کوئی آواز نہ سنے۔ حضرت خواجہ عبیداللہ احرار قدس سرہ کا قول ہے کہ ذکر میں جہد و اہتمامِ بلیغ کے ساتھ مشغول ہونے سے سالک کو پانچ چھ روز میں یہ دولت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ بہاء الدین نقشبند بخاری قدس سرہ نے اس کلمہ کی جو تشریح کی ہے وہ آگے آئے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مشائخِ نقشبندیہ بجائے چلہ کے اسی خلوت پر قناعت کرتے ہیں کیونکہ حاصلِ چلہ اس میں داخل ہے اور آفات سے دور ہے۔

۵۔ یاد کرد:

اس سے مراد یہ ہے کہ ہر وقت ذکر میں مشگول رہے خواہ زبانی ہو یا قلبی۔ ذکر کی تلقین کا طریق بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں۔

۶۔ بازگشت:

اس سے مراد یہ ہے کہ جب ذاکر بطریقِ معہود کلمۂ توحید کا ذکروں سے کرے تو ہر بار کلمۂ توحید کے بعد زبانِ دل سے کہے خدایا مقصود میرا تُو ہے اور تیری رضا۔ مشائخ نقشبندیہ کا معمول یہ ہے کہ کلمۂ توحیدکے تلفظ کے ضمن میں لا مقصود ملاحظہ کرتے ہیں کیونکہ جو معبود ہوتا ہے وہ مقصود ہوتا ہے جیسا کہ آیہ اَفَرَءیْتَ من اتَّخذَ اِلھَہٗ ھَوَہُ سے ظاہر ہے۔

۷۔ نگاہداشت:

اس سے مراد یہ ہے کہ قلب کو خطرات و حدیثِ نفس سے نگاہ میں رکھا جائے یعنی کلمہ طیبہ کے تکرار کے وقت ماسوا قلب میں خطور نہ کرے۔ خطرات کے دور کرنے کے لیے کلمہ طیبہ حبسِ دوم کے ساتھ مفید ہے۔

۸۔ یادداشت:

اس سے مراد یہ ہے کہ دوامِ آگاہی بحق سبحانہ برسبیلِ ذوق ؎

وارم ہمہ جاباہمہ کس درہمہ خیال

 

دردِل ز تو آرزو  و در دیدہ خیال

اگر دوامِ آگاہی اس قدر غالب ہو کہ کثرتِ کونیہ اُس کی مزاحم نہ ہو بلکہ اپنے وجود کا بھی شعور نہ رہے تو اسے فناء کہتے ہیں اگر اس بے شعوری کا شعور بھی نہ  رہے تو اسے فنائے فنا بولتے ہیں اور عین الیقین بھی کہتے ہیں۔

*        انتباہ: حضرت خواجہ ناصرالدین عبیداللہ احرار قدس سرہ نے آخیر کے چار کلموں کی تشریں یوں فرمائی ہے کہ یاد کرو سے مراد ذکر میں تکلف ہے یعنی جس ذکر کی شیخ سے تلقین ہوتی ہے اُس کے تکرار میں بتکلف مشغول رہے، یہاں تک کہ مرتبۂ حضور حاصل ہوجائے اور بازگشت سے مراد رجوع بحق سبحانہ بدیں طور پر کہ جتنی بار کلمہ طیبہ کا ذکر کرے ہر بار اُس کلمہ کے بعد دل میں خیال کرے کہ خدایا مقصود میرا تو ہے اور تیری رضا۔ اور نگاہداشت سے مراد ہے اس رجوع کی محافظت بغیر زبان سے کہنے کے وار یاد داشت سے مراد نگاہداشت میں رسوخ ہے۔

*        وقوفِ عددی: سے مراد ذکرِ نفی و اثبات میں عددِ ذکر سے واقف رہنا ہے یعنی ذاکر اس ذکر میں سانس کو عددِ طاق پر چھوڑے نہ کہ جفت پر ، کہتے ہیں کہ آداب و شرائط کی رعایت کے ساتھ ایک سانس میں ۲۱ بار نفی و اثبات کرنا مثمرِ فناء ہے۔ حضرت خواجہ علاء الدین عطار قدس سرہ فرماتے ہیں کہ زیادہ کہنا شرط نہیں جو کچھ کہے وقوف سے کہے جب عدد ۲۱ سے تجاوز کر جائے اور اثر ظاہر نہ ہو تو اس عمل کی بے حاصلی کی دلیل ہے۔ اثرِ ذکر یہ ہے کہ زمانِ نفی میں وجود بشریت منفی ہوجائے اور زمانِ اثبات میں جذباتِ الٰہی کے تصرفات کے آثار میں کوئی اثرمحسوس ہو۔ یہ جو کلامِ خواجگان میں آیا ہے کہ فلاں بزرگ نے فلاں شخص کو وقوفِ عددی کا امر فرمایا اس سے مراد ذکر قلبی مع رعایتِ عدد ہے نہ کہ فقط رعایت عدد۔

*        وقوفِ زمانی: اس کے دومعنی ہیں۔ ایک یہ کہ سالک کو چاہیے کہ واقفِ نفس رہے اور پاس انفاس کو ملحوظ رکھے یعنی ہر وقت خیال رکھے کہ سانس حضور میں گزرتا ہے یا غفلت میں دوسرے معنے یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنے حال سے واقف رہے، اگر وقت طاعت میں گزرا ہے تو شکر بجالائے اور اگر معسیت میں گزرا ہے تو عذر خواہی کرے۔ اسی طرح حالتِ بسط میں شکر اور حالتِ قبض میں استغفار کرے۔ صوفی کرام کی اصطلاح میں اسے محاسبہ کہتے ہیں، قول باری تعالیٰ: وَاَنِیْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاتِیْکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ[۱] اور قول حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ حَاسبوا قبل ان تحاسبوا[۲] میں اسی محاسبہ کی طرف اشارہ ہے۔

[۱۔اور رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور اُس کی فرمانبرداری کرو پہلے اس سے کہ آوے تم پر عذاب۔ پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا۔(پ۲۴ سورہ زمر۔ ع ۶)]

[۲۔تم محاسبہ کرو پہلے اس سے کہ محاسبہ کیے جاؤ۔]

*        وقوفِ قلبی: اس کے دو معنیٰ ہیں، ایک یہ کہ ذکر کے وقت دل حق سبحانہ سے واقف و آگاہ رہے اور یہ مقولہ یاداشت سے ہے۔ دوسرے معنیٰ یہ ہیں کہ بندہ اثنائے ذکر میں قلبِ صنوبری کی طرف متوجہ رہے اور اُسے ذکر میں مشغول کرےاور ذکر اور ذکر کے مفہوم سے غافل نہ ہونے دے۔  حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ نے ذکر میں حبسِ دم اور رعایت عدد کو لازم قرار نہیں دیا مگر وقوف قلبی بہر دو معنیٰ کو ضروری سمجھا ہے۔ آیہ یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اذْکُرُو اللہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا [۱] میں اسی وقوفِ قلبی کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ خواجہ محمد معصوم قدس سرہ فرماتے ہیں کہ وقوفِ قلبی یہ ہے کہ دل کا نگران و واقف رہے اور قطع نظر ذکر کرکے اُس کی طرف توجہ رکھے تاکہ اس میں تفرقہ راہ نہ پائے اور وہ ماسوائے نقوش سے منقش  نہ ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ دل بے کار نہیں رہتا یا ماسوا سے ملا رہتا ہے یا مطلوبِ حقیقی سے۔ جب دل ماسوا سے ممنوع ہوگیا تو اُسے مطلوب کی طرف توجہ سے چارہ نہ ہوگا، غرض تم دل کو دشمن سے باز رکھو، دوست کی طلبی کی حاجت نہیں، وہ خود جلوہ گر ہوجائے گا۔

[۱۔ اے ایمان والو! خداکو بہت یاد کرو۔ (پ۲۲۔ سورہ احزاب۔ ع ۶)]

(ب)    آپ کا ایک وصیت نامہ آدابِ طریقت کے بارے میں ہے جسے آپ نے اپنے خلیفہ و فرزندِ معنوی خواجہ اولیائے کبیر قدس سرہ کے لیے لکھا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو جو سلسلہ نقشبندیہ کے متوسلین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

’’پیارے فرزند! میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ، وظائف و عبادات کی پابندی رکھو، اپنے حالات کی نگہبانی کرتے رہو، خدا تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہو، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کو نگاہ میں رکھو۔ ماں باپ اور تمام مشائخ کے حقوق کا خیال رکھو تاکہ ان خصلتوں سے تم رضائے خدا سے مشرف ہوجاؤ۔ خدا تعالیٰ کا حکم بجالاؤ تاکہ وہ تمہارا حافظ رہے۔ تم پر لازم ہے کہ قرآن شریف کا پڑھنا ترک نہ کرو، تلاوت بلند آواز سے ہو یا آہستہ، زبانی ہو یا دیکھ کر۔ قرآن مجید کو غور و تفکر اور خوف و گریہ سے پڑھو، اور تمام امور میں قرآن کی پناہ لو کیونکہ بندوں پر خدا کی حجت قرآن کریم ہے ۔ علمِ فقہ کی طلب سے ایک قدم بھی دور  نہ رہو اور حدیث کا علم سیکھو۔ جاہل صوفیوں سے دور رہو کیونکہ وہ دین کے چور اور مسلمانوں کے رہزن ہیں۔ تم پر لازم ہے کہ مذہب اہل سنت و جماعت کے پابند رہو اور آئمہ سلف کے مسلک کو اختیار کرو کیونکہ جو نئی باتیں پیدا ہوئی ہیں وہ گمراہی ہیں۔ عورتوں، نوجوانوں، بدعتیوں اور دولتمندوں سے صحبت مت رکھو کیونکہ یہ دین کو برباد کردیتے ہیں اور دنیا سے دو روٹی پر قناعت کرو، اگر صحبت رکھو تو فقیروں سے رکھو، ہمیشہ خلوت نشین رہو اور حلال کھاؤ کیونکہ حلال نیکی کی کنجی ہے، حرام سے بچو ورنہ خدا تعالیٰ سے دور ہوجاؤ گے۔ اسی پر ثابت رہنا تاکہ کل کو دوزخ کی آگ میں نہ جاؤ، حلال پہنو تاکہ عبادت کی لذت پاؤ، حق تعالیٰ کی جلالت  سے ڈرتے رہو اور بھولو مت کہ ایک روز تم موقفِ حساب میں کھڑے ہو گے۔ رات دن نماز بہت پڑھا کرو اور جماعت کو ترک نہ کرو، امام و مؤذن نہ بنو، قبالہ پر اپنا نام نہ لکھو۔ محکمہ قضا میں حاضر نہ ہو۔ خارج از طریقت بادشاہوں کی صحبت میں نہ بیٹھو، لوگوں کی وصیتوں میں دخل نہ دو اور لوگوں سے بھاگو کہ جس طرح شیر سے بھاگتے ہیں تم پر لازم ہے کہ گمنام رہو  تاکہ نیک نام ہوجاؤ، تم پر لازم ہے کہ سفر بہت کرو تاکہ تمہارا نفس خواہ ہوجائے، خانقاہ نہ بناؤ اور نہ خانقاہ میں رہو، کسی کی مدح سے مغرور اور کسی کی مذمت سے غمگین نہ ہو۔ بندوں کی مدح و مذمت تمہارے نفس کے نزدیک برابر ہونی چاہیے لوگوں سے حسن خلق سے معاملہ کرو، تم پر لازم ہے کہ تمام حالات میں ادب سے رہو، برے بھلے تمام مخلوقات   پر رحم کرو تمہیں قہقہہ مار کر ہنسنا نہ چاہیے کیونکہ قہقہہ غفلت کے

 سبب سے ہوتا ہے اور دل کو مردہ کردیتا ہے۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے اہوال و شدائد جو مجھے معلوم ہیں اگر تم کو معلوم ہوجائیں تو خندہ (ہنسنا) تھوڑا اور رویا زیادہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نڈر  اور اس کی رحمت سے ناامید نہ رہو۔ خوف و امید میں زندگی بسر کرو کیونکہ سالکوں کو کبھی خوف ہوتا ہے اور کبھی امید۔

اے فرزند! شیخ اپنے مرید کے لیے بمنزلہ باپ کے ہے بلکہ باپ سے بھی زیادہ مشفق کیونکہ وہ مرید کو مقامِ قرب میں پہنچا دیتا ہے۔ اگر ہوسکے تو نکاح مت کر، ورنہ طالبِ دنیا بن جاؤ گے اور دنیا کی طلب میں دین کو برباد کردو گے۔ اگر تمہارا نفس نکاح کا مشتاق ہو تو روزے رکھو اور آخرت کے غم میں رہو اور موت کو بہت یاد کرو، طالبِ ریاست مت بنو کیونکہ جو طالبِ ریاست ہو اُسے سالکِ طریقت نہ کہنا چاہیے تم پر لازم ہے کہ فقر میں پرہیز و دیانت اور پرہیزگاری و علم کے ساتھ پاکیزہ رہو اور خدا تعالیٰ  کے رستے میں ثابت قدم رہو۔ جاہلوں سے بچو جان و ت ن و مال سے مشائخ کی خدمت کرو، اُن کے دلوں کا خیال رکھو، اُن کی پیروی کرو، اُن کے سیر و سلوک پر نگاہ رکھو۔ اُن میں سے کسی کا انکار نہ کرو سوائے اُن چیزوں کے جو خلافِ شرع ہوں، اگر تم مشائخ کا انکار کرو گے تو کبھی کامیاب نہ ہو گے لوگوں سے کوئی چیز مت مانگو اور کل کے لیے ذخیرہ نہ کرو، حق تعالیٰ کے ذخیروں پر بھروسہ کرو کیونکہ وہ ارشاد فرماتا ہے اے فرزندِ آدم! میں ہر روز تیری روزی تجھے پہنچا دیتا ہوں تو اپنے آپ کو تکلیف نہ دے۔ مقامِ توکل میں قدم رکھو کیونکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (سورۃ الطلاق آیہ۳)

’’جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہے‘‘۔

پس جان لو کہ رزق قسمت میں لکھا ہوا ہے جوان مرد سخی بنو۔ جو کچھ خدا تعالیٰ نے تمہیں دیا ہے تم خلقِ خدا پر خرچ کرو۔ بخل و حسد سے دور رہو کیونکہ بخیل اور حاسد قیامت کے دن دوزخ میں ہوں گے۔ اپنے آپ کو آراستہ مت کرو کیونکہ ظاہر کا آراستہ باطن کی خرابی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کرو اور تمام خلائق سے نااُمید ہوجاؤ اور اُن سے اُنس نہ پکرو۔ سچ بولو اور ڈرو مت۔ مخلوقات میں کسی سے صحبت نہ رکھو کیونکہ وہ تمہارے دین کو برباد کردیں گے اور تم خدا تعالیٰ سے دور ہوجاؤ گے۔ تم پر  لازم ہے کہ اپنے نفس کی ضروریات کا خیال رکھو تاکہ وہ درست ہوجائے۔ اپنے نفس کی عزت نہ کرو۔ غیر ضروری باتوں سے زبان کو بند رکھو اور ہمیشہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہو، تم پر لازم ہے کہ کم بولو، کم کھاؤ، کم سوؤ اور جلدی اٹھو۔ سماع میں زیادہ نہ بیٹھو کیونکہ سماع کی کثرت سے نفاق پیدا ہوتا ہے اور دل  مردہ ہوجاتا ہے۔ سماع کا انکار نہ کرو کیونکہ اصحابِ سماع بہت ہیں۔ سماع روا (جائز) نہیں مگر اس شخص کے لیے جس کا دل زندہ اور نفس مردہ ہو، ورنہ نماز، روزے میں مصروف و مشغول ہونا بہتر ہے۔ چاہیے کہ تمہارا بول غمگین، تمہارا بدن بیمار، تمہاری آنکھ روتی، تمہارا عمل خالص، تمہاری دعا مجاہدہ کے ساتھ، تمہارا کپڑا پرانا، تمہارے رفیق درویش، تمہارا گھر مسجد، تمہارا مال کتبِ دین، تمہاری آرائش، زہد اور تمہارا مونس باری تعالیٰ ہو۔ کسی شخص سے برادری نہ کرو جب تک یہ پانچ  خصلتیں اُس میں نہ پاؤ، اوّل، فقیری، دوم، دین کو دنیا پر ترجیح دے، سوم، ذلت کو عزت پر ترجیح دے، چہارم، علم ظاہر و باطن کا جاننے والا ہو، پنجم، موت کے لیے تیار ہو۔

اے فرزند! میری وصیتوں کو نگاہ میں رکھو جس طرح میں نے اپنے تشیخ قدس سرہ سے یاد کیں اور اُن پر عمل کیا، اسی طرح اب تم بھی یاد کرو اور عمل کرو، خدا تعالیٰ دنیا و آخرت میں تمہارا حافظ و نگہبان ہوگا۔ اگر یہ خصلتیں کسی سالک میں پائی جائیں تو اس کا شیخ و پیر ہونا مسلم ہوگا۔ جو شخص ایسے شیخ کی پیروی کرے گا۔ وہ اس کو مقصد و مقصود تک پہنچا دے گا۔ مگر یہ مرتبہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔

(ج)     ایک درویش نے آپ سے دریافت فرمایا  کہ ’’تسلیم‘‘ کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا: تسلیم یہ ہے کہ روزِ الست جو نفس و مال فروخت کرکے بہشت خریدا ہے، آج بھی تسلیم کرلے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنہ تسلیم نفس و مال اس طرح ہوتا ہے کہ اپنے نفس کو مملوکِ حق تعالیٰ سمجھے اور اپنے آپ کو  وکیلِ خرچ حق تعالیٰ جانے اور جہاں تک ہوسکے اپنے نفس اور مال سے بندگانِ خدا کے ساتھ بے لوث نیکی کرے اور مالِ دنیا کو باطن میں جگہ نہ دے اور اپنے آپ کو حکم و قضاء حق تعالیٰ کے تسلیم کرے۔

(د)      ایک روز ایک خادم نے عرض کیا کہ فراغت کس کو کہتے ہیں؟ فرمایا فراغتِ دل یہ ہے کہ محبت دنیا دل میں راہ نہ پائے اور یہ نہیں کہ دنیا کے کام کاج سے آزاد ہو، اللہ تعالیٰ نے حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا فَاِذا فَرغْتَ فَانْصب یعنی جس وقت تمام موجودات سے دل فارغ ہوجائے، اُس وقت میری خدمت میں مشغول ہو۔ جو لوگ خرید و فروخت اور لوگوں سے معاملہ داری میں اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہوتے اُن کی تعریف اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں یوں فرماتا ہے: رِجَالٌ لا تلھیم تعبارۃ ولا بیع عن ذکر اللہ[۱] اگر ان لوگوں میں ہوجاؤ تو سبحان اللہ ورنہ اِن لوگوں کی جان و مال سے خدمت کرنے میں کوتاہی نہ کرنا تاکہ قیامت کے دن اُن کی خدمت اور محبت کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہی تمہارا حشر ہو۔

[۱۔ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید و فروخت (سورۃ النور، آیت۳۷)]

 

 (تاریخِ مشائخ نقشبند)

خواجہ عبدالخالق غجدوانی قدس سرہ

مقام و مرتبہ:

آپ طبقہ خواجگان ِسلسلہ نقشبندیہ کے سردار ہیں۔ طریقت میں آپ کی روش محبت  ہے۔ آپ تمام فرقوں میں مقبول ہیں۔ آپ ہمیشہ راہ صدق و  صفا اور متابعت شرع و سنت مصطفےٰ ﷺ اور مخالفت بدعت و ہوا میں کوشاں رہے ہیں۔ اور اپنی روش پاک کو آپ نے اغیار کی نظر سے پوشیدہ رکھا ہے۔

ولادتِ باسعادت:

آپ کے والد کا اسم گرامی عبدالجمیل ہے جو عبدالجمیل امام کرکے مشہور تھے۔ وہ اپنے وقت کے مقتدا اور عالم ظاہر و باطن تھے۔ اور امام مالک کی اولاد سے تھے۔ روم میں رہا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ روم کے شاہی خاندان سے تھیں۔ کہتے ہیں کہ عبدالجمیل حضرت خضر علیہ السلام کے صحبت دار تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو بشارت دی تھی کہ تمہارے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا۔ اس کا نام عبدالخالق رکھنا۔ حوادث روزگار کے سبب سے عبدالجمیل مع متعلقین روم سے ماوراء النہر کی طرف نکلے۔ اور ولایت بخارا میں پہنچ کر موضع غجدوان میں جو بخارا سے چھ فرسنگ کے فاصلہ  پر ہے سکونت پذیر ہوئے۔ خواجہ عبدالخالق وہیں پیدا ہوئے۔ اور نشوونما پائی۔ اور بخارا میں تحصیل علوم میں مشغول ہوئے۔


باطنی علوم کا حصول:

حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند بخاری قدس سرہ کا بیان ہے کہ خواجہ عبدالخالق اپنے استاد  صدرالدین کے پاس تفسیر پڑھ رہے  تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ  تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (اعراف، ع۷)۔ تم اپنے رب کو زاری اور پوشیدگی کے ساتھ پکاروتحقیق وہ حد سے زیادہ تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ تو آپ نے استاد سے پوچھا کہ اس پوشیدگی کی حقیقت اور اس کا طریقہ کیا ہے۔ اگر ذاکر بلند آواز سے ذکر کرے یا ذکر کے وقت اعضاء سے حرکت کرے تو غیر شخص اس ذکر سے واقف ہوجاتا ہے۔ اور اگر دل سے ذکر کرو تو بحکم حدیث الشیطان یجری من الانسان مجری الدم[۱]۔ شیطان ذکر سے واقف ہوجاتا ہے۔ استاد نے فرمایا کہ یہ علم لدنی ہے۔ اگر خدا نے چاہا، تو اہل اللہ میں سے کوئی تمہیں مل جائے گا اور بتادے گا۔ اس کے بعد حضرت خواجہ اولیاء اللہ کی تلاش میں رہے۔ یہاں تک کہ ایک روز حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات نصیب ہوئی۔ بعد دریافت حال حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں خضر ہوں میں نے تمہیں فرزندی میں قبول کیا۔ میں تمہیں ایک سبق بتاتا ہوں اسے ہمیشہ دہراتے رہنا۔ تم پر اسرار کھل جائیں گے پھر وقوف عددی کی تعلیم دی اور فرمایا کہ حوض میں اترو اور غوطہ لگاؤ اور دل سے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہو۔ حضرت خواجہ نے اسی طرح کیا اور اس ورد میں مشغول رہے۔ یہاں تک کہ بہت سے اسرار کھل گئے۔ بعد ازاں حضرت خواجہ یوسف ہمدانی بخارا میں تشریف لائے۔ جب  تک ان کا قیام بخارا میں رہا۔ آپ ان کی صحبت میں حاضر ہوکر فیض اٹھاتے رہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت خواجہ خضر علیہ السلام آپ کے پیر سبق ہیں اور خواجہ یوسف ہمدانی پیر صحبت و پیر خرقہ۔ اگرچہ خواجہ یوسف اور ان کے مشائخ ذکر بالجہر کیا کرتے تھے لیکن چونکہ خواجہ عبدالخالق کو ذکر خفیہ کی تلقین حضرت خضر علیہ السلام سے تھی اس لیے خواجہ یوسف نے اس میں رد و بدل نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا کہ جس طرح تم کو تلقین ہوئی ہے کیے جاؤ، خواجہ عبدالخالق نے اپنی بعض تحریرات میں ذکر کیا ہے کہ جب حضرت خضر علیہ السلام نے مجھے خواجہ یوسف کے سپرد کیا تو اس وقت میری عمر بائیس سال کی تھی۔ ایک مدت کے بعد خواجہ یوسف خراسان میں آگئے حضرت خواجہ ریاضات و مجاہدات میں مشغول ہوگئے۔ آپ اپنے حالات پوشیدہ رکھا کرتے تھے۔ ملک شام میں بہت سے لوگ آپ کے مرید ہوگئے۔ اور وہاں خانقاہ و  آستانہ بن گیا تھا۔

[۱۔ شیطان انسان میں خون کی طرح چلتا ہے۔ (ابوداؤد۔ کتاب الادب۔ باب فی حسن الظن)]

درویش سے مباحثہ:

ایک روز ایک درویش حضرت خواجہ کی خدمت میں کہہ رہا تھا کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے دوزخ و بہشت کے درمیان اختیار دے تو میں دوزخ کو اختیار کروں گا ۔ کیونکہ میں تمام عمر اپنے نفس کی مراد پر نہیں چلا اور اس صورت میں بہشت میرے نفس کی رماد ہوگی۔ حضرت خواجہ نے اس درویش کے کلام کی تردید کی اور فرمایا کہ بندے کو اختیار سے کیا کام۔ جہاں مالک بھیجے چلا جائے اور جہاں  ٹھہرائے ٹھہر جائے۔ بندگی اسی کا نام ہے۔ نہ کہ جو تم کہہ رہے ہو اس درویش نے پوچھا کہ سالکانِ طریقت پر شیطا ن کا غلبہ ہوتا ہے یا نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جو سالک مقام فنائے نفس کو نہ پہنچا ہو۔ شیطان اس پر غصہ کے وقت قابو پاتا ہے۔ لیکن جو اس مقام پر پہنچ گیا ہو اس کو غصہ نہیں آتا۔ بلکہ غیرت آتی ہے اور جہاں غیرت ہوتی ہے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے اور یہ صفت اس شخص میں ہوتی ہے جو کتاب اللہ کو دائیں ہاتھ میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بائیں ہاتھ میں لیے ہوئے ہو اور ان دونوں کی روشنی میں راستہ چلتا ہو۔

مومن کی فراست:

۱۔ ایک دفعہ ایام عاشورہ میں لوگوں کی ایک بڑی جماعت آپ کی خدمت میں حاضر تھی۔ آپ معرفت پر کلام فرما رہے تھے۔ اچانک ایک جوان زاہدوں کی صورت میں خرقہ پہنے اور سجادہ کندھے پر ڈالے ہوئے حاضر ہوا اور گوشہ میں بیٹھ گیا۔ حضرت خواجہ نے اس کی طرف نظر کی۔ کچھ دیر کے بعد وہ اٹھ کر کہنے لگا۔ اے خواجہ! حضور رسالت مآب ﷺ نے فرمایا ہے: اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ عزوجل۔ مومن کی فراست سے ڈرو۔ کیونکہ وہ اللہ عزوجل کے نور سے دیکھتا ہے اس حدیث کا سر کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس حدیث کا سرّ یہ ہے کہ زنّار کو توڑدے اور ایمان لا۔ اس نے کہا بخدا کہ میرے پاس زنّار ہو۔ حضرت خواجہ نے خادم کی طرف اشارہ کیا چنانچہ خادم اٹھا اور اس جوان کے بدن پر سے خرقہ اٹھادیا۔ پس خرقہ کے نیچے سے زنّار ظاہر ہوگیا۔ یہ دیکھ کر اس جوان نے اسی وقت زنّار توڑ دیا اور ایمان لایا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا: یارو! آؤ ہم بھی اس نو مسلم کی طرح اپنے زنّار کو توڑ ڈالیں اور ایمان لائیں جس طرح اس نے زنّار ظاہر توڑا ہے۔ ہم اپنے زُنّار باطنی جس سے مراد خود پسندی ہے توڑڈالیں تاکہ  اس کی طرح ہم بھی بخشے جائیں۔ یہ سُن کر حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ وہ حضرت خواجہ کے قدموں پر گر کر توبہ کرنے لگے۔

ایک کرامت:

حضرت خواجہ کی ولایت اس مرتبہ تک پہنچ گئی تھی کہ ایک وقت کی نماز میں آپ خانہ کعبہ جاتے اور واپس آجاتے۔

وصال مُبارک:

حضرت خواجہ کی وفات ۱۲ ربیع الاول ۵۷۵ھ میں ہوئی۔ آپ کا مزار مبارک غجدوان میں ہے۔

ارشادتِ عالیہ

حضرت خواجہ عبدالخالق قدس سرہ کا ایک وصیت نامہ آداب طریقت میں ہے۔ جسے آپ نے اپنے خلیفہ و فرزند معنوی خواجہ اولیائے کبیر قدس سرہ کےلیے لکھا ہے ہم اس کا ترجمہ بطورِ تبرک کے یہاں درج کرتے ہیں:

‘‘پیارے فرزند! میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ تقویٰ کو اپنا شعار بناؤ۔ وظائف و عبادات کی پابندی رکھو۔ اپنے حالات کی نگہبانی کرتے رہو۔ خدا تعالیٰ سے ہمیشہ ڈرتے رہو۔ خدا  تعالی ٰ اور رسول ﷺکے حقوق کو نگاہ میں  رکھو۔ ماں باپ اور تمام مشائخ کے حقوق کا خیال رکھو تاکہ خصلتوں سے تم رضائے خدا سے مشرف ہوجاؤ۔ خدا تعالیٰ کا حکم بجا لاؤ تاکہ وہ تمہارا حافظ رہے۔ تم پر لازم ہے کہ قرآن شریف کا پڑھنا ترک نہ کرو۔ تلاوت بلند آواز سے ہو یا آہستہ۔ زبانی ہو یا دیکھ کر۔ اور قرآن مجید کو تفکر و خوف و گریہ سے پڑھو۔ اور تمام امور میں قرآن کی پناہ لو۔ کیونکہ بندوں پر خدا کی حجت قرآن کریم ہے۔ اور علم فقہ کی طلب سے ایک قدم بھی دور نہ رہو۔ اور حدیث کا علم سیکھو۔ جاہل صوفیوں سے دور رہو کیونکہ وہ دین کے چور اور مسلمانوں کے رہزن ہیں۔ تم پر لازم ہے کہ مذہب اہلِ سنت و جماعت کے پابند رہو۔ اور ائمہ سلف کے مسلک کو اختیار کرو کیونکہ جو نئی باتیں پیدا ہوئی ہیں۔ وہ گمراہی ہیں۔ اور عورتوں۔ نوجوانوں۔ بدعتیوں اور دولت مندوں سے صحبت مت رکھو۔ کیونکہ یہ دین کو برباد کر دیتے ہیں۔ اور دنیا سے دو روٹی پر قناعت کرو۔ اگر صحبت رکھو تو فقیروں سے رکھو اور ہمیشہ خلوت نشین رہو۔ اور حلال کھاؤ کیونکہ حلال نیکی کی کنجی ہے۔ اور حرام سے بچو ورنہ خدا تعالیٰ سے دور ہوجاؤ گے۔ اسی پر ثابت رہنا تاکہ کل کو دوزخ کی آگ میں نہ جاؤ۔ اور حلال پہنو تاکہ عبادت کی لذت پاؤ۔ حق تعالیٰ کی جلالت سے ڈرتے رہو۔ اور یہ مت  بھولو کہ ایک روز تم موقف حساب میں کھڑے ہوگے۔ اور رات دن نماز پڑھا کرو۔ اور جماعت کو ترک نہ کرو اور امام و مؤذن نہ بنو۔ قبالہ پر اپنا نام نہ لکھو۔ محکمہ قضاء میں حاضر نہ ہو۔ اور خارج از طریقت بادشاہوں کی صحبت میں نہ بیٹھو، لوگوں کی وصیتوں میں دخل نہ دو۔ اور لوگوں سے بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہیں۔ تم پر لازم ہے کہ گمنام رہو تاکہ نیک نام ہوجاؤ۔ اور تم پر لازم ہے کہ سفر بہت کرو تاکہ تمہارا نفس خوار ہوجائے۔ خانقاہ نہ بناؤ اور نہ خانقاہ میں رہو۔ کسی کی مدح سے مغرور اور کسی کی مذت سے غمگین نہ ہو۔ بندوں کی مدح و مذمت تمہارے نفس کے نزدیک برابر ہونی چاہیے۔ لوگوں سے حسن خلق سے معاملہ کرو۔ تم پر لازم ہے کہ تمام حالات میں ادب سے رہو۔ برے بھلے تمام مخلوقات پر رحم کرو۔ تمہیں قہقہہ مار کر ہنسنا نہ چاہیے۔ کیونکہ قہقہہ غفلت کے سبب ہوتا ہے اور دل کو مردہ کردیتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے احوال و شدائد جو مجھے معلوم ہیں اگر تم کو معلوم ہوجائیں تو خندہ تھوڑا اور رویا بہت کرو۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نڈر اور اس کی رحمت سے نا امید نہ رہو۔ خوف و امید میں زندگی بسر کرو کیونکہ سالکوں کو کبھی خوف ہوتا ہے اور کبھی امید ہوتی ہے۔

اے فرزند! شیخ اپنے مرید کے لیے بمنزلہ اپنے باپ کے ہے بلکہ باپ سے بھی زیادہ مشفق کیونکہ وہ مرید کو مقام قرب میں پہنچادیتا ہے۔ اور اگر ہوسکے تو نکاح مت کرو۔ ورنہ طالب دنیا بن جاؤ گے۔ اور دنیا کی طلب میں دین کو برباد کردو گے۔اگر تمہارا نفس نکاح کا مشتاق ہو تو روزے رکھو اور آخرت کے غم میں رہو۔ اور موت کو بہت یاد کرو۔ طالب ریاست مت بنو۔ کیونکہ جو طالب ریاست ہو اسے سالکِ طریقت نہ کہنا چاہیے۔ تم پر لازم ہے کہ فقر میں پرہیز و دیانت اور پرہیز گاری و حلم کے ساتھ پاکیزہ رہو۔ اور خدا تعالیٰ کے راستے میں ثابت قدم رہو۔ جاہلوں سے بچو۔ جان و تن و مال سے مشائخ کی خدمت کرو۔ ان کے دلوں کا خیال رکھو۔ ان کی پیروی کرو۔ ان کے سیر و سلوک کو نگاہ  میں رکھو۔ اور ان میں سے کسی کا انکار نہ کرو۔ سوائے ان چیزوں کے جو مخالف شرع ہوں۔ اگر تم مشائخ کا انکار کرو گے تو کبھی کامیاب نہ ہوگے۔ لوگوں سے کوئی چیز مت مانگو۔ اور کل کے لیے ذخیرہ نہ کرو۔ حق تعالیٰ کے ذخیروں پر بھروسہ کرو کیونکہ وہ ارشاد فرماتا ہے اے فرزند آدم! میں ہر روز تیری روزی تجھے پہنچادیتا ہوں۔ تو اپنے تئیں تکلیف نہ دے۔ مقام توکل میں قدم رکھو۔ کیونکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَے اللہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ۔  جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اسے  کافی ہے۔ پس جان لو کہ رزق قسمت میں لکھا ہوا ہے۔ جوان مرد و سخی بنو۔ جو کچھ خدا تعالیٰ نے تم کو دیا ہے تم خلقِ خدا پر خرچ کرو۔ اور بخل و حسد سے دور رہو۔ کیونکہ بخیل و حاسد قیامت کے دن دوزخ میں ہوں گے۔ اپنے ظاہر کو آراستہ مت کرو۔ کیونکہ ظاہر کا آراستہ کرنا باطن کی خرابی ہے۔ خدا تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کرو اور تمام خلائق سے نا امید ہوجاؤ۔ اور ان سے انس  نہ پکڑو۔ سچ بولو اور ڈرومت۔ مخلوقات میں سے کسی سے صحبت نہ رکھو۔ کیونکہ وہ تمہارے دین کو برباد کردیں گے۔ اور تم خدا تعالیٰ سے دور ہوجاؤ گے۔ تم پر لازم ہے کہ اپنے نفس کی ضروریات کا خیال رکھو تاکہ وہ درست ہوجائے۔ اپنے نفس کی عزت نہ کرو۔ غیر ضروری باتوں سے زبان بند رکھو۔ اور ہمیشہ لوگوں کو نصیحت کرتے رہو۔ تم پر لازم ہے کہ کم بولو۔ کم کھاؤ۔ کم سوؤ اور جلدی اٹھو۔ سماع میں بہت نہ بیٹھو۔ کیونکہ سماع کی کثرت سے نفاق پیدا ہوتا ہے۔ اور دل مردہ ہوجاتا ہے۔ سماع کا انکار نہ کرو کیونکہ اصحابِ سماع بہت ہیں۔ سماع روا نہیں مگر اس شخص کے لیے جس کا دل زندہ اور نفس مردہ ہو۔ (سماع کسی کے لیے بھی جائز نہیں کیونکہ یہ صحابہ کرام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں یہ ایرانیوں نے دین میں شامل کیا ہے۔یہ توکلی صاحب کا اپنا قول ہے،بہت جلیل القدر مشائخ سے سماع ثابت ہے ،مشائخ کا سماع آجکل کے جاہل صوفیوں کے سماع سے با الکل مختلف ہوتا تھا  ۔تونسوی) ورنہ نماز روزے میں مشغول ہونا بہتر ہے۔ چاہیے کہ تمہارا دل غمگین۔ تمہارا بدن بیمار۔ تمہاری آنکھ روتی۔ تمہارا عمل خالص۔ تمہارے دعا مجاہدہ کے ساتھ۔ تمہارا کپڑا پرانا۔ تمہارے رفیق درویش۔ تمہارا گھر مسجد۔ تمہارا مال کتب ِدین۔ تمہاری آرائش زہد اور تمہارا مونس باری تعالیٰ ہو۔ کسی شخص سے برادری نہ کرو۔ جب تک یہ پانچ خصلتیں اس میں نہ پاؤ۔اول۔ فقیری کو امیری پر ترجیح دو۔ دوم ۔دین کو دنیا پر ترجیح دو۔ سوم ۔ذلت کو عزت پر ترجیح دو۔ چہارمؔ ۔علم ظاہر و باطن کا جاننے والا ہو۔ پنجم ۔موت کے لیے تیار ہو۔

اے فرزند! میری وصیتوں کو نگاہ  میں رکھو۔ جس طرح میں نے اپنے شیخ قدس سرہ سے یاد کیں اور ان پر عمل کیا۔ اسی طرح اب تم بھی یاد کرو اور عمل کرو۔ خدا تعالیٰ دنیا و آخرت میں تمہارا حافظ و نگہبان ہوگا۔ اگر یہ خصلتیں کسی سالک میں پائی جائیں تو اس کا شیخ و پیر ہونا مسلّم ہوگا۔ جو شخص ایسے شیخ کی پیروی کرے گا۔ وہ اس کو مقصد و مقصود تک پہنچادے گا۔ مگر یہ مرتبہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا۔ انتہےٰ۔ [۱]

[۱۔ مولانا ابوالخیر فضل بن روز بہاں معروف بہ خواجہ مولانا اصفہانی نے ان وصایا کی شرح لکھی ہے اور آغاز شرح سے پہلے تین فصلیں لکھی ہیں۔ پہلی فصل میں حضرت خواجہ خواجہ عبدالخالق قدس سرہ کے حالات ہیں۔ دوسری میں سلسلہ مشائخ کے حالات اور تیسری میں حضرت خواجہ کےخلفاء کے حالات درج کیے ہیں۔ کشف الظنون۔]

آٹھ کلمات:

حضرت خواجہ قدس سرہ کے کلمات قدسیہ میں سے یہ آٹھ کلمے بھی ہیں۔ ہوش دردم۔ نظر بر قدم۔ سفر دروطن۔ خلوت درانجمن۔ یاد کرو۔ بازگشت۔ نگاہد اشت۔ یاد داشت۔ ان آٹھ کے علاوہ تین کلمے اور ہیں جو مصطلحات نقشبندیہ میں سے ہیں۔ یعنی وقوف عددی۔ وقوف زمانی۔ وقوف قلبی۔ ان گیارہ کلمات پر طریقہ نقشبندیہ کی بنا ہے۔ جن کا مطلب بطریق اختصار ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

ہوش دردم:

ہوش دردم ۔سے مراد یہ ہے کہ سالک کا ہر ایک سانس حضور و آگاہی سے ہو نہ کہ غفلت سے یعنی کسی سانس میں خدا سے غافل نہ رہے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں کہ کسی سانس کو ضائع نہ ہونے دو۔ سانس کے خروج و دخول میں اور خروج و دخول کے درمیان محافظت چاہیے کہ کوئی وقفہ غفلت کا نہ پایا جائے۔

نظر برقدم:

نظر برقدم سے مراد یہ ہے کہ سالک راہ چلنے میں نظر اپنے پاؤں پر رکھے تاکہ بیجا نظر نہ پڑے اور دل محسوسات متفرقہ سے پرا گندہ نہ ہوجائے۔ پس راہ چلتے ادھر ادھر نہ دیکھے کہ موجب فسادِ عظیم و مانع حصولِ  مقصود ہے۔ یہ عمل تفرقہ بیرونی کے دفعیہ کے لیے جیسا کہ ہوش دردم تفرقہ اندرونی کے دفعیہ کے واسطے ہے۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ سالک کا قدم باطن اس کی نظر باطن سے پیچھے نہ رہے۔ رشحات میں ہے کہ شاید نظر برقدم سرعت سیر کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مسافت ہستی کے قطع کرنے اور عقبات خود پرستی کے طے کرنے میں قدم نظر سے پیچھے نہ رہے۔ بلکہ منتہائے نظر پر پڑے۔ چنانچہ مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ کی مدح میں فرماتے ہیں۔          ؎

بسکہ زخود کردہ بسرعت سفر بانماندہ قدمش از نظر

 

سفر در وطن :

سفر در وطن (سیر درنفس) سے مراد صفات ذمیمہ سے صفات حمیدہ کی طرف انتقال کرنا ہے۔ خواجگان نقشبندیہ نے مقام بقا میں جو سیر نفسی سے تعلق رکھتا ہے بجاے سیر آفاقی کے اسی سیر کیفی کو اختیار کیا ہے۔ اور سفر ظاہر اتناہی کرتے ہیں کہ پیر کامل تک پہنچ جائیں۔ دوسری حرکت جائز نہیں رکھتے اور ملازمت شیخ سے دوری نہیں چاہتے۔ اور ملکہ آگاہی کے حصول میں نہایت کوشش کرتے ہیں اس لیے وہ سیر آفاقی کو جو دور دراز راستہ ہے حتی الامکان پسند نہیں کرتے بلکہ سیر النفسی کے ضمن میں اسے قطع کرتے ہیں۔ اور ملکہ آگاہی کے حصول کے بعد سفر کرتے ہیں یا اقامت۔ دوسرے سلسلوں میں سلوک کو سیر آفاقی سے شروع کرتے ہیں اور سیر نفسی پر ختم کرتے ہیں۔ سیر نفسی سے شروع کرنا سلسلہ نقشبندیہ کا خاصہ ہے۔ اندراج نہایت در بدایت کے یہی معنی ہیں کہ سیر نفسی جو دوسروں کی نہایت ہے وہ اکابر نقشبندیہ کی بدایت ہے۔

واضح رہے کہ سیر آفاقی مطلوب کو اپنے سے باہر ڈھونڈنا ہے۔ اور سیر نفسی اپنے میں آنا اور اپنے دل کے گرد پھرنا ہے۔

ہمچونا بینا مبر ہر سوے دست
باتو زیر گلیم است ہرچہ ہست

مگر شہود نفسی میں گرفتار نہ رہنا چاہیے۔ اور اس کو مطلوب کے ظلال میں سے ایک ظل تصور کرنا چاہیے۔ کیونکہ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ جیسا کہ ورائے  آفاق ہے اور ورائے  نفس بھی ہے۔

خلوت در انجمن:

خلوت در انجمن سے مراد ہے کہ انجمن میں جو محل تفرقہ ہے ازراہ باطن مطلوب کے ساتھ خلوت رکھے اور غفلت کو دل میں راہ نہ دے۔ ظاہر میں خلائق کے ساتھ اور باطن میں حق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ابتداء میں یہ معاملہ بتکلف ہوتا ہے اور انتہاء میں بے تکلف۔

از بروں درمیان بازارم         وزدروں   خلوتیست بایا رم

خواجہ اولیا کبیر فرماتے ہیں!  کہ خلوت در انجمن یہ ہے کہ سالک اگر بازار میں جائے تو ذکر میں استغراق کے سبب سے کوئی آواز نہ سنے۔ خواجہ احرار قدس سرہ کا قول ہے کہ ذکر میں جہد و اہتمام ِ بلیغ کے ساتھ مشغول ہونے سے سالک کو پانچ چھ روز میں یہ دولت حاصل ہوجاتی ہے۔ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ نے اس کلمہ کی جو تشریح کی ہے وہ آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ مشائخ نقشبندیہ بجائے چلہ کے اسی خلوت پر قناعت کرتے ہیں۔ کیونکہ حاصلِ چلہ اس میں داخل ہے۔ اور آفات سے دور ہے۔

یاد کرد:

یاد کردؔ سے مراد یہ ہے کہ ہر وقت ذکر میں مشغول رہے خواہ زبانی ہو یا قلبی۔ ذکر کی تلقین کا طریق بیان کرنے کی یہاں ضرورت نہیں۔

باز گشت:

بازگشتؔ سے مراد یہ ہے کہ جب ذاکر بطریق معہود کلمہ توحید کا ذکر دل سے کرے۔ تو ہر بار کلمہ توحید کے بعد زبان دل سے کہے۔ خدایا  میر مقصود تو ،اور تیری رضا ہے۔ مشائخ نقشبندیہ کا معمول یہ ہے کہ کلمہ توحید کے تلفظ کے ضمن میں لا مقصود ملاحظہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جو معبود ہوتا ہے وہ مقصود ہوتا ہے جیسا کہ آیۃ اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰہٗ سے ظاہر ہے۔

یاد داشتؔ سے مراد ہے دوام آگاہی بحق سبحانہ بر سبیل ذوق۔

دارم ہمہ جابا ہمہ کس در ہمہ حال
در دل ز تو آرزو در دیدہ خیال

اگر دوام آگاہی اس قدر غالب ہو کہ کثرت کونیہ اس کی مزاحم نہ ہو بلکہ اپنے وجود کا بھی شعور نہ رہے۔ تو اسے فناء کہتے ہیں۔ اگر اس بے شعوری کا شعور بھی نہ رہے تو اسے فناء سے فناء بولتے ہیں۔ اور جمع الجمع اور عین الیقین بھی کہتے ہیں۔

انتباہ۔ حضرت خواجہ احرار قدس سرہ نے اخیر کے چار کلموں کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ یاد کرو سے مراد ذکر میں تکلف ہے یعنی ذکر جس کی تلقین شیخ سے ہوتی ہے اس کے تکرار میں بتکلف مشغول رہے یہاں تک کہ مرتبہ حضور حاصل ہوجائے۔ اور بازگشت سے مراد رجوع بحق سبحانہ بدیں طور کہ جتنی بار کلمہ طیبہ کا ذکر کرے۔ ہر بار اس کلمہ کے بعد دل میں خیال کرے کہ خدایا مقصود میرا تو ہے، اور تیری رضا۔ اور نگاہداشت سے مراد ہے اس رجوع کی محافظت بغیر زبان سے کہنے کے۔ اور یاد داشت سے مراد نگاہداشت میں رسوخ ہے۔

وقوف عددی:

وقوف عددی سے مراد ذکر نفی و اثبات میں عدد ذکر سے واقف رہنا ہے یعنی ذاکر اس ذکر میں سانس کو عدد طاق پر چھوڑے نہ کہ جفت پر۔ کہتے ہیں کہ آداب و شرائط کی رعایت کے ساتھ ایک سانس میں ۲۱ بار نفی و اثبات کرنا مثمر فناء ہے۔ حضرت علاء الدین عطار فرماتے ہیں کہ زیادہ کہنا شرط نہیں جو کچھ کہے وقوف سے کہے۔ جب عدد ۲۱ سے تجاوز کر جائے اور اثر ظاہر نہ ہو تو یہ اس عمل کی بیجاہونیکی دلیل ہے۔ اثر ذکریہ ہے کہ زمان نفی میں وجود بشریت منفی ہوجائے اور زمان اثبات میں جذبات الٰہی کے تصرفات کے آثار میں سے کوئی اثر محسوس ہو۔ یہ جو کلام خواجگان میں آیا ہے کہ فلاں بزرگ نے فلاں شخص کو وقف عدد کا امر فرمایا اس سے مراد ذکر قلبی مع رعایت عدد ہے نہ کہ فقط رعایت عدد۔

وقوف زمانی کے مفہوم:

وقوف زمانی کے دو معنٰی ہیں۔ ایک یہ کہ سالک کو چاہیے کہ واقف ِنفس رہے اور پاس انفاس کو ملحوظ رکھے۔ یعنی ہر وقت خیال رکھے کہ سانس حضور میں گزرتا ہے یا غفلت میں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنے حال سے واقف رہے۔ اگر وقت طاعت میں گذرا ہے تو شکر بجا لائے اور اگر معصیت میں گزرا ہے تو عذر خواہی(توبہ) کرے۔ اسی طرح حالت بسط میں شکر اور حالت قبض میں استغفار کرے۔ صوفیہ کرام کی اصطلاح میں اسے محاسبہ کہتے ہیں۔ قول باری تعالیٰ ہے ’’رَبِّكُمْ وَ اَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَo [۱] اور قول حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ’’حَاسِبُوْا قَبْل اَنْ تُحَاسَبُوا‘‘ میں اسی محاسبہ کی طرف اشارہ ہے۔[۲]

[۱۔ اور رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور اُس کی فرنبرداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب۔ پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا۔ (پ ۲۴۔ زمر۔ ع۔۶)]

[۲۔ تم محاسبہ کرو پہلے اس سے کہ محاسبہ کیے جاؤ۔]

وقوف قلبی کے مفہوم:

وقوف قلبی کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ذکر کے وقت دل حق سبحانہ سے واقف    و آگاہ رہے۔ اور یہ مقولہ یاد داشت سے ہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ بندہ اثنائے ذکر میں قلب صنوبری کی طرف متوجہ رہے اور اسے ذکر میں مشغول کرے اور ذکر اور ذکر کے مفہوم سے غافل نہ ہونے دے۔ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس سرہ نے ذکر میں حبس دم اور رعایت عدد کو لازم قرار نہیں دیا۔ مگر وقف قلبی ذکر جہر شروع کیا۔ کیونکہ حضرت خواجہ عارف نے اخیر وقت میں فرمایا تھا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جس کی طرف ہمیں اشارہ ہوا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ طالبوں کو بنابر مصلحت ذکر جہر اختیار کرنا پڑے گا۔ مولانا حافظ الدین بخاری نے جو اس وقت کے بڑے عالم اور خواجہ محمد پارسا قدس سرہ کے جد اعلیٰ تھے رئیس العلماء شمس الائمہ حلوانی کے اشارے سے علما ء ِوقت کی ایک جماعت کے روبرو حضرت خواجہ محمود سے استفتاء کیا کہ آپ ذکر جہر کس نیت سے کرتے ہیں آپ نے فرمایا تاکہ سویا ہوا بیدار اور  غفلت سے ہوشیار ہوجائے۔ اور راہ راست پر آجائے اور شریعت و طریقت پر استقامت حاصل کرے اور توبہ و انابت (جو ہر نیکی کی اصل ہے) کی طرف رغبت کرے۔ مولانا نے فرمایا کہ آپ کی نیت درست ہے اور آپ کے لیے یہ شغل جائز ہے۔ لیکن ذکر جہر کی ایک حد مقرر کر دیجیے کہ جس سے حقیقت مجاز سے اور بیگانہ آشنا سے ممتاز ہو جائے۔ اس پر حضرت خواجہ نے فرمایا کہ ذکر جہر اس شخص کے لیے جائز ہے کہ جس کی زبان جھوٹ اور غیبت سے پاک ہو۔ اور جس کا حلق حرام و شبہ سے اور دل ریا و سمعہ سے اور باطن توجہ ما سوا سے پاک ہو۔

حضرت خواجہ علی رامیتنی کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ محمود قدس سرہ کے وقت میں ایک درویش نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا اور ان سے پوچھا کہ اس زمانے میں مشائخ میں سے ایسا کون ہے جو طریق استقامت پر ثابت قدم ہوتا کہ اس کا مرید بن کر اس کی پیروی کروں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے جواب دیا کہ خواجہ محمود انجیر فغنوی۔ خواجہ رامیتنی کے بعض اصحاب نے کہا کہ وہ درویش سائل خود خواجہ علی رامیتنی تھے۔ مگر اپنا نام بدیں خیال نہ لیا کہ یہ ظاہر نہ ہو جائے کہ آپ نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا ہے۔

سفید پرندہ:

ایک روز خواجہ علی رامیتنی خواجہ محمود کے باقی اصحاب کے ساتھ موضع رامتین میں ذکر میں مشغول تھے کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا سفید پرندہ ان کے اوپر اڑا چلا جاتا ہے۔ جب وہ پرندہ ان کے عین سمت الراس پر آیا تو فصیح زبان سے بولا۔ اے علی مردانہ باش۔ یہ دیکھ کر اصحاب پر ایک کیفیت طاری ہوگئی اور وہ بیہوش ہوگئے۔ جب ہوش میں آئے تو حضرت خواجہ سے پوچھا کہ یہ کیا تھا ہم نے دیکھا اور سنا۔ حضرت خواجہ نے فرمایا کہ وہ خواجہ محمود قدس سرہ تھے۔ حق سبحانہ نے ان کو کرامت عطا فرمائی ہے کہ وہ ہمیشہ اس مقام پر پرواز کرتے ہیں۔ جہاں حق سبحانہ نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ سے کئی ہزار کلمات فرمائے۔ اس وقت آپ خواجہ دہقان قلتی کے سرہانے گئے تھے جو خواجہ اولیائے کبیر کے پہلے خلیفہ ہیں۔ خواجہ دہقان کا اخیر وقت تھا۔ انہوں نے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تھی کہ خدایا ! دمِ اخیر میں اپنے دوستوں میں سے کسی کو میرے پاس میری مدد کے لیے بھیج دے۔ چنانچہ خواجہ محمود بحکم ربانی خواجہ دہقان کے پاس بغرض امداد تشریف لے گئے تھے۔ وہاں سے واپس آتے  ہوئے اس راہ سے گزرے ہیں۔ بہر دو معنی کو ضروری سمجھا ہے۔ آیۃ ’’یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا‘‘ [۱] میں اسی وقوف قلبی کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت عروۃ الوثقیٰ خواجہ معصوم قدس سرہ فرماتے ہیں کہ وقوف قلبی یہ ہے کہ دل کا نگران و واقف رہے۔ اور قطع نظر ذکر کے اس کی طرف توجہ رکھے۔ تاکہ اس میں تفرقہ راہ نہ پائےاور وہ ماسوا کے نقوش سے مثقش نہ ہوجائے۔ کہتے ہیں کہ دل بےکار نہیں رہتا۔ یا ماسوا سے ملا رہتا ہے۔ یا مطلوب حقیقی سے۔ جب دل ماسوا سے ممنوع ہوگیا۔ تو اسے مطلوب کی طرف توجہ سے چارہ نہ ہوگا۔ غرض تم دل کو دشمن سے باز رکھو۔ دوست کی طلب حاجت نہیں۔ وہ خود جلوہ گر ہوجائے گا۔ (انیس الطالبین۔ نفحات۔ رشحات)۔

[۱۔ اے ایمان والو! خدا کو بہت یاد کرو۔ (پ ۲۲ احزاب۔ ع ۶)]

(مشائخِ نقشبندیہ)

Post a Comment

Previous Post Next Post