Biography Peer Karam Shah Al Azhari | Peer Karam Shah AlAzhari Exposed | تعارف پیر کرم شاہ ازہری

ضیا ء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ رحمۃاﷲ علیہ


 جب ہم اسلامی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہر دور میں اسلام کی سر بلندی اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے ایسی شخصیات اس دنیا میں تشریف لائیں جنہوں نے انتھک محنت ، بے داغ کردار اورعلمی و روحانی برکات سے انقلاب برپا کیا۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں۔ ایسی ہستیوں میں ایک حضور ضیاء الامت، جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری ؒہیں۔ آپ کا تعلق دریائے جہلم کے کنارے ضلع سرگودہا کے ایک تاریخی شہر بھیرہ سے ہے۔ اسی شہر میں 1918 میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپکا تعلق سلسلہ چشتیہ کے عظیم علمی اور روحانی خانوادہ سے ہے۔ آپ کی روحانی وابستگی آستانہ عالیہ سیال شریف میں خواجہ شمس العارفین کی خانقاہ سے ہے۔ آپؒ کی بیعت طریقت قمر الملت والدین خواجہ قمر الدین سیالویؒ کے ہاتھ پر تھی۔ آپؒ نے ابتدائی تعلیم بھیرہ میں ہی حاصل۔ جب مولانا نورالحقؒ کے پاس حصول علم کیلئے لاہور تشریف لائے تو ایک سال تک آپکی قیام گاہ داتا صاحب ؒ کے دربار پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کے حجرہ اعتکاف کے ساتھ متصل ایک حجرہ میں تھی۔ 1942 میں دورہ حدیث کیلئے مولانا نعیم الدین ؒ کے پاس مراد آباد گئے اور 1943 میں واپس آئے اور 1951 تک دارالعلوم محمدیہ غوثیہ میں تدریس کے فرائض سرانجام دئے۔ 1951سے 1954 تک جامعہ الازہر مصرمیں اعلی تعلیم کیلئے گئے۔ آپ نے یکم رمضان بروز پیر بمطابق اٹھائیس فروری 1960 کوقرآن کی تفسیر ’’ضیا ء القرآن ‘‘ لکھنے کا آغاز کیا اور بروز پیر چھ اکتوبر1975 کو پانچ جلدوں پر مشتمل یہ تفسیر پایہ تکمیل تک پہنچی۔ ’’ضیا ء النبی ‘‘ کے نام سے سات جلدوں پر مشتمل سیرت النبیﷺ بھی آپ ہی کا علمی کارنامہ ہے۔ آپ نے ضیائے حرم کے نام سے ماہنامہ مجلہ شروع کیا جو سابقہ نصف صدی سے مستقل شائع ہو رہاہے۔ حضور ضیاء الامت 1982 میں وفاقی شرعی عدالت پاکستان کے جج مقرر ہوئے۔ بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایپلیٹ کورٹ کے جج طور پر تا دم وصال 1998 تک فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپؒ کی دور رس نگاہ نے نباض قوم کے طور پر جدید و قدیم علوم پر مشتمل ایک مربوط نظام تعلیم متعارف کرایا۔ آپ کے عظیم کارناموں میں سے ایک دارالعلوم محمدیہ غوثیہ کی وقت، حالات اور ماحول کے مطابق نشاۃ ثانیہ ہے۔ یہ ادارہ نوے سال پہلے 1925 میں معرض وجود میں آیاجس کی بنیاد آپ کے والد گرامی پیر محمد شاہؒ نے رکھی اور آپ اس کے پہلے طالب علم بھی تھے۔ اس وقت یہ ادارہ ایک عظیم الشان یونیورسٹی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ہزارہا طلبہ و طالبات اس دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہو ہر دنیا بھر میں زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ اس دارالعلوم کی صرف پاکستان میں تین سو سے زیادہ شاخیں ہیں۔ برطانیہ و یورپ میں بھی کثیر تعداد میں حضور ضیاء الامت ؒکے فیض یافتگان اور اس ادرارے کے فضلاء دینی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔آپ کے علمی فیضان کے سلسلے کی ایک کڑی کی برطانیہ میں جامعہ الکرم ہے جو کہ آپ ہی کے نام پر قائم ہے۔ اس ادارے کے بانی اور مہتمم پیرزادہ امداد حسین ہیں۔ ابھی تک سینکڑوں کی تعداد میں برطانیہ میں پیدا ہونے والے بچے اور بچیاں اس ادارے سے سند فراغت حاصل کر کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کر رہے ہیں۔ ضیاء الامہ فاؤنڈیشن، مسلم ہینڈز اور مسلم چیرٹی بھی آپ ہی کے تربیت و فیض یافتگان چلا رہے ہیں جو دنیا بھر کے دکھی اور پریشان حال لوگوں کی مدد میں مصروف عمل ہیں۔


پچھلے سترہ سال سے جامعہ الکرم ریٹفورڈ میں آپؒ کی یاد میں عرس کی باوقار تقریب کا اہتمام ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے سکالرز شرکت کرکے آپکی خدمات کا اعتراف اور آپ کے مشن کو اجاگر کرتے ہیں۔ پچھلے ہفتے بھی عرس کی تقریب کا اہتمام تھا جس میں انڈیا، پاکستان اور یورپ بھر سے علماء و مشائخ اور اور آپ کے وابستگان نے شرکت کی۔اس تقریب کی صدارت جانشین ضیاء الامت، وزیر مملکت برائے مذہبی امور حکومت پاکستان پیر محمد امین الحسنات شاہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ بھیرہ شریف نے کی۔ آپ نے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ میرے بزرگوں نے نوے سال پہلے جس رستے کا انتخاب کیا تھا وہ علم کا رستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا آبائی شہر بھیرہ ہندو آبادی کاشہرتھا ۔ میرے دادا جان گھر گھر جا کر مسلمانوں کے دروازے کھٹکھٹاتے اور انہیں حصول علم کا احساس دلاتے۔ اگر کوئی غربت کی وجہ سے فیس کی ادئیگی میں مشکلات بتاتا تو آپ فرماتے کہ حصول علم دین کیلئے بچہ تم دے دو فیس میں ادا کروں گا۔ آپ مریدوں سے فرماتے کہ مجھے آپ کے پیسے، جانور یا نذرانہ نہیں چاہیے بلکہ علم دین سکھانے کیلئے تمہارے بچے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے والد گرامی حضور ضیاء الامت کے توکل علی اﷲ اور خود داری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ1992 میں نواز شریف صاحب بھیرہ آئے تو پیر صاحب سے پوچھا کہ آپ کے ادارے کو کس چیز کی ضرورت ہے جو میں پوری کرسکتا ہوں۔ آپ نے جواب دیا کہ جس مالک حقیقی سے میرا تعلق ہے ان کے خزانے بے بہا ہیں مجھے کسی سے مانگنے کی ضروت نہیں۔ حضو ر ضیاء ا الامت کی شخصیت نظام خانقاہی کے سجادہ نشینوں کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ ؒنے پیری مریدی کو ذاتی جاہ و جلال اور مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا بلکہ امت مسلمہ کی بہتری کیلئے کام کیا۔ تمام خانقاہیں آپ کی طرز پر علمی مراکز قائم کریں تو ایک عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ آپ نے علم و عرفان کی روشنی کو پھیلانے کیلئے دن رات کاوشیں کیں۔ راقم الحروف کی زندگی کا ایک حصہ بھی آپؒ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے میں گزرا۔ آپ کثرت کے ساتھ ذکر الہی کرنے والے سچے عاشق رسول تھے۔ آپ کی زندگی سیرت مصطفوی کا عکس جمیل نظر آتی تھی۔ سادگی آپ کا شعار تھا اور خلوص و خود داری سے آپ کی زندگی کے شب و روز آراستہ تھے۔ آپ کا وصال 1998 میں عیدالاضحی کے دن ہوا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Post a Comment

Previous Post Next Post