Biography Allama Shah Abdul Aleem Siddiqi

 

مبلّغِ اعظم علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی  کا ایک مختصر تعارف



نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ0

خلیفۂ اعلیٰ حضرت

مبلّغِ اعظم علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی ﷫ کا ایک مختصر تعارف

تحریر: ندیم احمد نؔدیم نورانی

شعبۂ ریسرچ، انجمن ضیاء طیبہ، کراچی

 

؏:   آج موضوعِ سخن ہے عظمتِ عبدالعلیم

نام:                   محمد عبدالعلیم

نسب:                 صدّیقی

القاب و خطابات:      مبلّغِ اسلام، مبلغ ِاعظم، مبلغ ِچین و جاپان، سفیرِ اسلام، سفیرِ پاکستان، گشتی سفیرِ پاکستان، سیاحِ عالم، علیمِ رضا، عدیم النظیر مقرر، His Exalted Eminence (فضلیت مآب) اور شاہ۔ ان میں سے دو، ‘‘مبلّغِ چین و جاپان’’ اور ‘‘علیمِ رضا‘‘، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کے عطا کردہ ہیں۔

جائے ولادت:          محلّۂ مشائخاں، شہرِ میرٹھ، صوبۂ یوپی، ہندوستان۔

والدِ ماجد:                نجیبِ مصطفیٰ حضرت علّامہ الحاج قاضی مفتی شاہ محمد عبدالحکیم جوؔش و حکیمؔ صدّیقی قادری چشتی قُدِّسَ سِرُّہٗ ایک ناموَر صوفی، عالمِ دین، نعت گو شاعر اور شاہی جامع مسجد ’’التمش‘‘ (میرٹھ، یوپی، انڈیا) کے امام و خطیب تھے۔

عمِّ محترم:               معروف ادیب و شاعر حضرت مولانا محمد اسماعیل میرٹھی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، جن کی نظمیں آج بھی داخلِ نصاب ہیں، حضرت شاہ عبدالعلیم صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے چچا یعنی۔ حضرت شاہ عبدالحکیم صدّیقی کے چھوٹے بھائی تھے، دونوں بھائیوں کی عمروں میں ۱۴،سال کا فرق تھا۔

صحیح تاریخِ ولادت:    ۱۵،رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ مطابق تین(۳) اپریل ۱۸۹۳ء بروز پیر۔ عموماً مبلغِ اعظم حضرت الحاج علامہ مولانا حافظ قاری حکیم شاہ عبدالعلیم صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیدائش کا سن ’’۱۸۹۲ء‘‘ لکھا جاتا ہے، جب کہ تاریخی   شواہد، آن لائن کلینڈر اور تقویمِ تاریخی کے مطابق ’’۱۵،رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ‘‘ کو عیسوی سن ’’۱۸۹۳‘‘ تھا، نہ کہ ۱۸۹۲ء۔ آپ کی پیدائش کے تین ماہ سات دن بعد، ۲۲،ذی الحجہ ۱۳۱۰ھ مطابق ۷،جولائی ۱۸۹۳ء بروز جمعہ بوقتِ صبحِ صادق ،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری محدّثِ بریلوی قُدِّسَ سِرُّہٗ کے شہزادۂ اصغر حضور مفتیِ اعظم علامہ شاہ محمد مصطفیٰ رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت ہوئی۔

مختصر شجرۂ نسب:

مبلغِ اعظم حضرت علامہ شاہ عبد العلیم ’’﷫نجیب الطرفین‘‘، یعنی ماں اور باپ دونوں طرف سے، صدّیقی تھے۔ چنانچہ آپ کا سلسلۂ نسب۳۶، ویں پشت میں حضرت محمد بن ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما تک اور سلسلۂ حسب (ماں کی طرف سے سلسلۂ نسب) ۳۲، ویں پشت میں حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے مورثِ اعلیٰ حضرت مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی۱۵۲۵ء میں ظہیر الدین بابر بادشاہ کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے تھے۔اس طرح آپ کے آبا و اجداد میں سے کئی حضرات قاضی القضات کے منصب پر فائز رہے۔ ‘‘حیاتِ اسماعیل‘‘ میں درج شدہ معلومات کی روشنی میں، حضرت مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی ﷫تک، مبلغ اعظم کا شجرۂ نسب یہ ہے:

’’شاہ محمد عبد العلیم بن شاہ عبد الحکیم جوؔش بن شیخ پیر بخش بن شیخ غلام احمد بن مولانا محمد باقر بن مولانا محمد عاقل بن مولانا محمد شاکر بن مولانا عبد اللطیف بن مولانا یوسف بن مولانا داؤد بن مولانا احمد بن مولانا قاضی صوفی حمید الدین صدّیقی خجندی رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم۔‘‘        (محمد اسلم سیفی بن مولانا محمد اسماعیل میرٹھی(خان بہادر)،سابق چیئرمین، میونسپل بورڈ، میرٹھـ: ‘‘حیاتِ اسماعیل(مع کلیاتِ اسماعیل)‘‘مرتّبہ و مدوّنہ: محمد اقبال رانا، شایع کردہ: برائٹ بکس، لاہور،: ۲۰۰۳ء، ص ۳۰ تا ۳۱)

تعلیم و تربیت:

آپ نے اردو، عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والدِ بزرگوار سے حاصل کی، چار سال دس ماہ کی عمر میں قرآنِ مجید ناظرہ ختم کیا اور صرف سات سال کی عمر میں قرآنِ پاک مکمّل حفظ کر لیا۔ بعد ازاں، مدرسۂ عربیہ اسلامیہ، میرٹھ، میں داخل ہوئے۔ تین جمادی الاخریٰ ۱۳۲۲ھ (اگست ۱۹۰۴ء) کو والدِ ماجد کا سایہ سر سے اٹھا، تو بقیہ تعلیم و تربیت آپ کی والدۂ ماجدہ (والدہ صاحبہ کا انتقال ۱۹۳۱ء میں اپریل کے آخر یا مئی کے شروع میں ہوا) اور برادرِ اکبر حضرت علامہ شاہ احمد مختار صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ﷫نے کی۔ چنانچہ حضرت مبلغ اعظم نے مدرسۂ قومیہ عربیہ، میرٹھ، میں داخلہ لیا اور ۱۳۲۶ھ میں امتیازی حیثیت سے درسِ نظامی کی سند حاصل کی۔ دینیات کے موضوع پر نیشنل عربک انسٹی ٹیوٹ سے ڈپلوما کیا۔ تبلیغِ دین کے جذبے کے تحت، آپ نے علومِ جدیدہ کی طرف متوجہ ہوکر، بی۔اے کیا اور پھر وکالت کا امتحان پاس کر کے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایل۔ ایل۔ بی کی سند حاصل کی؛ میرٹھ کے مشہور حکیم احتشام الدین صاحب سے فنِّ حکمت (علمِ طب) سیکھا ۔

اعلیٰ حضرت سے سندِ اجازتِ حدیث:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ﷫ سے بھی آپ کو شرفِ تلمّذ حاصل تھا؛ اعلیٰ حضرت نے مبلغِ اعظم ﷮ کو ۱۹، ذی الحجہ ۱۳۳۲ھ کو صِحاحِ سِتّہ وغیرہا کتبِ احادیث کے روایت کرنے کی سندِ اجازت عطا فرمائی۔ اس سند کا عکس حضرت مبلغِ اعظم کے پچاسویں عرس شریف کے موقع پرخواتین اسلامی مشن۔ پاکستان، گلشن اقبال، کراچی کے شائع کردہ خصوصی مجلّہ ‘‘عظیم مبلغ اسلام‘‘ کے صفحہ ۱۵۶ سے ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے:


دنیا کی زبانوں پر عبور:

آپ کو دنیا کی بہت سی زبانوں پر دسترس حاصل تھی، جن میں:

اردو،انڈونیشی، انگریزی، جاپانی، جرمن، چینی، ڈچ، سواحلی(افریقی)، عربی، فارسی، فرانسیسی، ملائی، ہندی

وغیرہ زبانیں شامل ہیں۔ آپ نے السنۂ شرقیہ(Oriental Languages) میں پنجاب یونیورسٹی سے سند بھی حاصل کی۔

 

عدیم النظیر مقرر:

آپ کو فنِّ خطابت میں بھی بڑی مہارت حاصل تھی؛ ماہرِ رضویات و مجددیات مسعودِ ملّت حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ﷫، خلیل احمد رانا صاحب کی تالیف ‘‘مبلغِ اسلام علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی قادری‘‘ کی تقدیم میں تحریر فرماتے ہیں:

‘‘جاپان کی ایک مجلس میں، جہاں آپ (علامہ شاہ محمد عبد العلیم صدّیقی) نے تقریر فرمائی، ٹوکیو کے پروفیسر این۔ ایچ برلاس نے انگریزی زبان میں آپ کی مہارت کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی آواز کو ترنّم ریز و دل آویز قرار دیا۔ راقم (ڈاکٹر مسعود احمد) کو بھی حضرت مولانا کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی آواز میں بلا کی کشش اور کھنک تھی۔ اردو، عربی، انگریزی اور بعض دوسری زبانوں میں بے تکان تقریر کرتے تھے۔‘‘

آپ کی مقررانہ و خطیبانہ صلاحیتوں ہی کی بنا پر ایشیا، افریقہ اور یورپ کے مسلم مؤرّخوں نے آپ کو ’’عدیم النظیر مقرر‘‘ قرار دیا۔ آپ نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی تقریر ۹سال کی عمر میں جامع مسجد میرٹھ میں ‘‘میلاد شریف‘‘ کے موضوع پر کی۔

نعت گو شاعر:

حضرت مبلّغِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک قادرالکلام نعت گو شاعر بھی تھے اور’’علیم‘‘ تخلّص کرتے تھے۔ بطورِ نمونہ آپ کی ایک نعت شریف، آپ ہی کی تصنیفِ لطیف سے،  ہدیۂ قارئین کی جارہی ہے:

الٰہی! وہ زباں دے جو ثنا خوانِ محمد ہو
ثنا ایسی جو ہر آئینہ شایانِ محمد ہو
وہ جانِ پاک دے یا رب! جو قربانِ محمد ہو
وہ دل دے جو شکارِ تیرِ مثرگانِ محمد ہو
جنونِ عشق و گرما گرمِیِ سوزِ محبّت سے
یہ آوارہ ہوا دشت و بیابانِ محمد ہو
شرابِ شوق سے لب ریز ہو پیمانۂ الفت
نگارِ حسن ہو، میں ہوں، خیابانِ محمد ہو
مقامِ ‘‘لِیْ مَعَ اللہ‘‘ تک بھلا کس کی رسائی ہو
جب اُس خلوت کدے میں خاص جانانِ محمد ہو
بدل جائے شبِ بختِ سیہ صبحِ دل آرا سے
اگر جلوہ نما روئے درخشانِ محمد ہو
علیمؔ ِ خستہ جاں تنگ آ گیا ہے دردِ ہجراں سے
الٰہی! کب وہ دن آئے کہ مہمانِ محمد ہو

(‘‘ذکرِ حبیبﷺ’’، حصّۂ اوّل)

بیعت و خلافت و روحانی فیوض:

مبلّغِ اعظم ﷫ کی بیعت و خلافت کے حوالے سے آپ کی شہزادی محترمہ ڈاکٹر فریدہ احمد صاحبہ نے راقم الحروف (ندیم احمد ندیم نورانی) سے ایک ملاقات کے دوران فرمایا:

‘‘بعض لوگ میرے والدِ ماجد کے متعلق لکھ دیتے ہیں کہ آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید تھے؛ یہ بات درست نہیں ہے؛ صحیح یہ ہے کہ آپ اپنے برادرِ اکبر حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید تھے ؛ البتّہ آپ کو اعلیٰ حضرت ﷫ سے شرف ِخلافت ضرور حاصل تھا۔‘‘

شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حضور مفتیِ اعظم علامہ محمد مصطفیٰ رضا خاں نوری بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی ’’کشف ضلالِ دیوبند‘‘ شرح ’’الاستمداد علی اجیال الارتداد‘‘ میں حضرت مبلّغِ اعظم کو اعلیٰ حضرت کا خلیفہ لکھا ہے۔

چنانچہ مفتیِ اعظم لکھتے ہیں:

‘‘جناب حامیِ سنّت فاضل نوجوان مولانا مولوی حاجی محمد عبدالعلیم صاحب صدّیقی میرٹھی قادری برکاتی رضوی خلیفۂ اعلیٰ حضرت مدّظلّہٗ۔‘‘ (صفحہ۶۸)

اعلیٰ حضرت کے علاوہ، حضرت مبلغِ اعظم کو اپنے پیر و مرشد و برادرِ اکبر حضرت علامہ احمد مختار صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(خلیفۂ اعلیٰ حضرت) اور قطب المشائخ حضرت ابو احمدسیّد شاہ محمد علی حسین اشرفی جیلانی کچھوچھوی عرف ’’اشرفی میاں‘‘﷭ نَوَّرَ اللہُ تَعَالیٰ مَرْقَدَہٗ سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی؛ نیز، مذکورہ بزرگوں کے علاوہ، اپنے والدِ ماجد، اور حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی، شیخ احمد الشمس مراکشی مدنی اور لیبیا کے صوفی بزرگ حضرت شیخ السنوسی ﷭سے بھی آپ نے روحانی فیوض کا اکتساب کیا؛ شیخ الدلائل حضرت مولانا عبد الحق ابنِ یار محمد صدّیقی الٰہ آبادی مہاجر مکی سے،جن کی دلائل الخیرات شریف کی سند بہت معروف ہے، دلائل الخیرات کی اجازت لی۔(قَدَّسَ اللہُ تَعَالٰی اَسْرَارَھُمُ الشَّرِیْفَۃ)

اعلیٰ حضرت کی مبلّغِ اعظم پر شفقت:

مبلّغِ اعظم پر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رضی اللہ تعالیٰ عنھما ﷮بڑی شفقت فرماتے اور پیار سے آپ کو ’’علیمِ رضا‘‘ کے لقب سے پکارتے ؛ علاوہ ازیں، اعلیٰ حضرت نے اپنے قصیدے ’’اَلْاِسْتِمْدَاد عَلٰٓی اَجْیَالِ الْاِرْتِدَاد‘‘(صفحہ ۶۸) میں اپنے خلفا اور تلامذہ کےدورانِ ذکر، بد عقیدہ و بد مذہب گروہ کے مقابلے میں، آپ کے علمی مقام کو یوں بیان فرمایاہے:     ؎

جہل کی بہل بھگاتے یہ ہیں

عبدِ علیم کے علم کو سن کر

مبلغِ چین و جاپان:

          خلیفۂ اعلیٰ حضرت و مصنّف ’’بہار ِشریعت‘‘ حضرت صدر الشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے شہزادے حضرت علامہ حافظ قاری رضاء المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقم طراز ہیں:

         ’’(اعلیٰ حضرت نے) حضر ت قبلہ شاہ عبدالعلیم صدّیقی علیہ الرحمۃ کو ’’مبلغ چین و جاپان‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اب تک پورے ہندوستان میں لوگ حضرت قبلہ کو مبلغِ چین و جاپان کے نام سے جانتے ہیں۔‘‘

(مجلّہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘، کراچی، ص ۷۹)

 

مفتیِ اعظم کے گرامی دوست اور ردِّ تھانوی:

          شہزادۂ اعلیٰ حضرت ، مفتیِ اعظم حضرت علامہ مصطفیٰ رضا خاں قُدِّسَ سِرُّہٗ بھی مبلغِ اعظم سے محبت کرتے تھے اور آپ کو اپنا دوست لکھتے تھے۔

چناں چہ حضرت مفتیِ اعظم فرماتے ہیں:

’’اور ہمارے گرامی دوست فاضل نو جوان حامیِ سُنن مولانا مولوی محمد عبدالعلیم صاحب صدّیقی میرٹھی سَلَّمَہٗ نے تو اس مہلکۂ تھانویّہ کے ردّ میں مستقل تحریریں شائع کی ہیں، فَرَحِمَ اللہُ مَنْ عَظَّمَ قَدْرَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃُ وَالثَّنَآءُ، قَاتَلَ اَھْلَ التّوْھِیْنِ وَالْجَفَآءِ آمِیْن۔‘‘

(‘‘تکمیلات’’ بر’’الاستمداد‘‘، ص۹۵)

مبلّغِ اعظم کی اعلیٰ حضرت سے عقیدت:

          حضرت مبلغِ اعظم بھی اعلیٰ حضرت سے بڑی گہری عقیدت رکھتے تھے؛ جب ۱۹۱۹ء میں حج کا فریضہ ادا کرنے گئے ، تو عرب میں اعلیٰ حضرت کی غائبانہ پزیرائی اور قدر و منزلت ملاحظہ کی؛ جب حرمین ِ شریفین کی زیارت سے لوٹے؛ تو بریلی میں، اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر، اعلیٰ حضرت ہی کی شان میں اپنی ایک منقبت پڑھ کر سنائی، جس کے ایک شعر میں اس مقبولیت کا ذکر اس طرح کیا:

عرب میں جا کے اِن آنکھوں نے دیکھا جس کی صولت کو
عجم کے واسطے لاریب وہ قبلہ نما تم ہو

 

جبّۂ اعلیٰ حضرت:

حرمین شریفین سے واپسی کے اس موقع پر، جب حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی ﷫نے اپنی پوری منقبت پڑھ کر سنا دی، تو اعلیٰ حضرت ﷫نے ارشاد فرمایا:

’’مولانا میں آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ (اپنے عمامے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے، جو بہت قیمتی تھا، فرمایا) اگر اس عمامے کو پیش کروں تو آپ اس دیارِ پاک سے تشریف لا رہے ہیں، یہ عمامہ آپ کے قدموں کے لائق بھی نہیں؛ البتّہ میرے کپڑوں میں سب سے بیش قیمت ایک جبّہ ہے، وہ حاضر کیے دیتا ہوں۔‘‘

چنانچہ اعلیٰ حضرت نے کاشانۂ اقدس سے سرخ کاشانی مخمل کا جبّۂ مبارکہ لا کر عطا فرما یا اور حضرت مبلّغِ اعظم نے سر و قد کھڑے ہو کر، دونوں ہاتھ پھیلا کر، اس جبے کو آنکھوں سے لگایا، لبوں سے چوما، سر پر رکھا، پھر سینے سے دیر تک لگائے رہے۔     (ملک العلماحضرت علامہ ظفر الدین بہاری ﷫: ’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘، شایع کردہ: مکتبۂ نبویہ، لاہور، ص ۱۱۹ تا ۱۲۰)

سعادتِ حجِ بیت اللہ:

مبلّغِ اعظم نے اپنی پوری زندگی میں تقریباً ۳۵، بار حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے پہلا حج ۱۹۱۹ء میں ادا فرمایا۔

تبلیغی خدمات(ایک لاکھ سے زائد مسلمان):

مبلّغِ اعظم حضرت علامہ شاہ محمد عبدالعلیم صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تبلیغی زندگی کا باقاعدہ آغاز ۱۹۱۴ء میں کیا۔ تبلیغِ دین کے سلسلے میں،حسبِ ذیل ممالک و خطّہ ہائے زمین کے دورے کیے:

آسٹریلیا، اٹلی، ارجنٹائن، اردن، افریقہ کی نو آبادیات، افغانستان، انڈونیشیا، انڈوچائنا، برٹش گیانا، برطانیہ، برما، بیلجئم، پاکستان، پرتگال، ترکی، تنزانیہ، تھائی لینڈ، ٹرینی ڈاڈ، جاپان، جرمنی، جنوبی امریکہ، جنوبی افریقہ، چین، ڈچ گیانا، رومانیہ، ری یونین، زنجبار، سائبیریا، سعودی عرب، سنگا پور، سیام، سیلون، شام، شرق الہند، عراق، غرب الہند، فرانس، فلپائن، فلسطین، کانگو، کینیڈا، کینیا، گھانا، لبنان، لیبیا، ماریشس، ماریطانیہ، مڈغاسکر، مراکش، مشرقی افریقہ، مصر، ملائشیا، ملایا، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، نیروبی، و یتنام، ہندوستان، یوگنڈا۔

(مجلّہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘، کراچی، ص ۷۵، ۱۳۸)

آپ کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہونے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ سے زئد ہے: چناں چہ ،جمعۃ المبارک، ۵،صفر المظفّر ۱۴۲۰ھ مطابق ۲۱،مئی ۱۹۹۹ء کو بعدِ نمازِ عشا، مل والا اپارٹمنٹ (رنچھوڑ لائن، کراچی) میں ‘‘مولانا شاہ عبدالعلیم صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں یہ فقیر (ندیم احمد ندؔیم نورانی) بھی اپنے عزیز دوست و برادرِ طریقت جناب مولانا سیّد محمد صدّیق نعیمی نورانی زِیْدَ مَجْدُہٗ (امام وخطیب جامع مسجد نظامیہ، ناظم آباد نمبر۱، کراچی) کے ہم راہ شریک تھا۔ اس کانفرنس میں حضرت مبلغِ اعظم کے فرزندِ ارجمند قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی﷫رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘میرے والد﷫ نے اپنی زندگی میں، تقریباً ایک لاکھ سے زائد عیسائیوں کو، ملحدوں کو، ہندوؤں کو، کافروں کو مسلمان کیا۔‘‘

سب سے زیادہ، عیسائیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ بہت سے قادیانیوں کی بھی توبہ اور ایمان کا آپ سبب بنے۔آپ نے دنیا میں جگہ جگہ تبلیغی و فلاحی ادارے قائم فرمائے اور ہر زبان میں اسلامی لٹریچر شائع کیا       ؎

وہی عبدالعلیم اسلام کا اعظم مبلغ تھا
برادر تھا جو مولانا نذیر احمد خجندی کا

شاہ عبدالعلیم صدّیقی میرٹھی ہیں مبلّغِ اعظم
اُن کی خدماتِ دین سے، اے نؔدیم! جگمگایا ہے سارا ہی عالَم

دس لاکھ سے زائد مرید:

مبلّغِ اعظم حضرت شاہ عبدالعلیم صدّیقی علیہ الرحمہ کی تبلیغی مساعی سے ایک طرف غیر مسلموں نے اسلام سے رشتہ جوڑا، تو دوسری جانب آپ کے علم و عمل سے متاثر ہو کر لاکھوں مسلمان آپ کے دامن سے وابستہ ہوئے۔

چنانچہ آپ کے داماد پروفیسر محمد احمدصدّیقی صاحب لکھتے ہیں:

‘‘پوری دنیا میں آپ کے ۱۰، لاکھ سے زیادہ مرید تھے۔‘‘                  (مجلّہ ‘‘عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۲۴)

صحافتی و فلاحی خدمات/ مختلف اداروں کا قیام:

آپ نے بے شمار ملکوں میں، متعدد مساجد، لائبریریز، تعلیمی و تبلیغی ادارے قائم فرمائے، ہسپتال اور یتیم خانے تعمیر کرائے، کئی ایک رسالے جاری فرمائے:

مثلاً ۱۹۳۱ء میں سنگا پور سے ’’رئیل اسلام‘‘، سنگاپور ہی سے ۱۹۳۶ء میں ’’دی جینوئن اسلام‘‘، کولمبو سے اسٹار آف اسلام’’، افریقہ سے‘‘دی مسلم ڈائجسٹ‘‘ اور ‘‘دی رمضان اینول‘‘ وغیرہ۔

مبلغِ اعظم نے کئی تنظییمں بھی تشکیل دیں، مثلاً کمیونزم اور لادینیت کے خلاف سنگاپور میں،۱۹۴۹ء میں ’’تنظیم بین المذاہب‘‘قائم فرمائی۔ اس موقع پر آپ کی خدمات کے اعتراف میں مختلف ادیان کے پیشواؤں نے متفقہ طور پر آپ کو‘‘His Exalted Eminence’’(فضیلت مآب) کا خطاب دیا۔

حج پر ٹیکس مبلغِ اعظم کی کوششوں سے ختم ہوا:

سعودی حکومت نے حاجیوں پر ٹیکس لگایا، تو آپ نے بڑی کوشش اور بحث و مباحثہ کر کے والیِ سعودی عرب سلطان عبد العزیز بن سعود کو حج ٹیکس ختم کرنے پر مجبور کر دیا۔

چنانچہ سابق صدر جمعیت علماے پاکستان حضرت علامہ مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقم طراز ہیں:

’’میں نے قائدِ اعظم مسٹر محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان اور نواب محمد اسماعیل خان صاحب کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ بزمانۂ حج مسلم لیگ کا ایک وفد بھیجا جائے جو عالمِ اسلام کے مشاہیر سے پاکستان اور مسلم لیگ کے بارے میں تبادلۂ خیال کرے اور یہی وفد حکومتِ سعودی عربیہ کے سارے حج ٹیکس بند کرانے کی کوشش کرے۔ مجھے وفد کا سیکریٹری اور حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صاحب کو امیرِ وفد تجویز کیا گیا۔‘‘

آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:

’’حج ٹیکس کے سلسلے میں جلالۃ الملک ابنِ سعود سے مولانا(شاہ عبدالعلیم صدّیقی) کی قیادت میں متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی ملاقات تقریباً ڈیڑھ گھنٹے رہی، حضرت مولانا صاحب نے حج پر ٹیکس نہ لگانے کی تجویز کو اس عمدگی سے پیش فرمایا کہ جلالۃ الملک نے فرمایا کہ حج پر ٹیکس لگانا حرام ہے میں نے یہ ٹیکس اس لیے لگایا ہے کہ شیوخ اور قبائل کے لوگوں پر اس کی آمدنی صرف کروں ، میں جلد ہی ٹیکس اٹھانے کی اسکیم پر عملی قدم اُٹھاؤں گا۔‘‘

          (مجلّہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۷۱)

آپ کے اس کار نامے سے آج تک دنیا بھر کے مسلمان فائدہ اُٹھا رہے ہیں، لیکن صد افسوس! اکثر مسلمان اپنے محسن کے اس عظیم احسان سے ناواقف ہیں۔

تحریکِ پاکستان میں خدمات:

تحریکِ پاکستان میں بھی آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس تحریک میں آپ نے قدم قدم پر مسلمانوں کی عملی طورپر رہ نمائی فرمائی ۔ آپ ہی کی کوششوں سے عرب ممالک سمیت تمام عالمِ اسلام مطالبۂ پاکستان کا حامی بنا۔قائدِ اعظم نے آپ کو ‘‘گشتی سفیرِ پاکستان‘‘ کا خطاب دیا۔

مولانا عبدالحامد بدایونی رقم طراز ہیں:

‘‘تحریکِ خلافت کے بعض علما وزعما ہندو ذہنیت کو دیکھ کر گانگریس سے علیٰحدہ ہوچکے تھے، وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کے انگریز جائیں اور ایک آزاد اسلامی حکومت قائم ہو؛ چنانچہ جیسے ہی مسٹر محمد علی جناح نے پاکستان کی تحریک شروع کی فرنگی محل، بدایوں، مراد آباد اور میرٹھ کے علما مسلم لیگ اور پاکستان کے قیام کی تحریک میں پوری قوت سے شامل ہوگئے، حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صاحب نے ۱۹۴۶ء میں بنارس سنّی کانفرنس میں ہر اوَل دستے کا کردار ادا کر کے تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔‘‘                         (مجلّہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۷۱)

نوٹ: آپ کے مبارک فرزندِ قائدملّتِ اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی علیہ الرحمہ نے بھی اپنے عالمِ شباب میں، تقاریر و عملی کردار کے ذریعے،تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور ۱۹۷۰ء تا ۲۰۰۳ء یعنی تا دمِ رخصت پاکستان کے لیے آپ کی خدمات کسی سے مخفی نہیں۔

بانیِ پاکستان سے تعلقات اور نمازِ عیدالاضحیٰ:

بانیِ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ساتھ مبلغِ اعظم حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدّیقی علیہ الرحمۃ﷫ کے تعلقات بڑے دوستانہ تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد،پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی خصوصی دعوت پر مرکزی عید گاہ مسجد، جامع کلاتھ مارکیٹ، کراچی میں ، آپ نےنمازِ عید الاضحیٰ کا خطبہ دیا اور نماز بھی پڑھائی، جس میں قائدِ اعظم، لیاقت علی خاں اورسردار عبدالرب نشتر وغیرہم زعماے ملک نے شرکت کی۔

          حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:

          ’’قیام پاکستان کے بعد پہلی نماز عید، عید گاہ میدان میں حضرت مولانا (شاہ عبدالعلیم صدّیقی) کی امامت میں ہوئی، قائدِ اعظم اور تمام عمّال، جماعت میں شریک ہوئے حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صاحب نے اپنے خطبے میں اسلامی دستور اور مذہبی لائحۂ عمل پر روشنی ڈالی۔ یہ خطبہ مسائل کی اہمیت و جامعیت کے لحاظ سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرگیا۔‘‘            (مجلّہ ‘‘عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۷۲)

حضرت مبلّغِ اعظم کے بڑے بھائی حضرت مولانا نذیر احمد صدّیقی خجندی﷫ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے بھی قائدِ اعظم بہت سے امور میں رہ نمائی لیتے تھے، یہاں تک کہ جب قائدِ اعظم نے ایک پارسی لڑکی رتن بائی سے نکاح کرنا چاہا، تو وہ اُسے مولانا نذیر احمد﷫خُجندؔی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس لے کر آئے؛ حضرت خجندؔی نے اسے مسلمان کیا اور نکاح پڑھایا۔

تصانیف و تالیفات:

مبلّغِ اعظم علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک بہترین ادیب بھی تھے؛ چنانچہ آپ نے اپنی عدیم الفرصتی کے باوجود، چند تصانیف و تالیفات بھی یاد گار چھوڑی ہیں، جن میں :

احکامِ رمضان المبارک؛ بہارِ شباب؛ دیو بندی مولویوں کا ایمان؛ ذکرِ حبیب حصّۂ اوّل و دوم؛ فرت من قسورۃ؛ کتاب التصوف مسمّٰی بہ ’’لطائف المعارف‘‘؛ مرزائی حقیقت کا اظہار؛ The Elementary Teachings of Islam (for Hanafis); How to Preach Islam

وغیرہ کتب شامل ہیں۔

تین بڑی آرزوئیں:

حضرت مبلّغِ اعظم کی تین بڑی آروزوئیں تھیں:

پہلی آرزو: مدینۂ منورہ میں موت آئے:

ملک التحریر حضرت علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رقم طراز ہیں:

‘‘انھی(حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی) کے خلف الرشید قائدِ اہلِ سنّت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کی روایت کے مطابق، یہ شعر مبلّغِ اعظم اپنی تقریروں کے درمیان اکثر پڑھا کرتے تھے         ؎

مدینے جاؤں پھر آؤں مدینے پھر جاؤں
تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے

عمر کے آخری حصّے میں نمازِ تراویح کے موقع پر ایک عقیدت کیش نے جب مبلّغِ اعظم سے اس شعر کے سنانے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ عمر کا وہ حصّہ اور تھا جب مدینہ جانے اوراعلائے کلمہ حق کے لیے مدینہ سے واپس آنے کی میں دعا مانگا کرتا تھا، لیکن اب جب کہ دل کے دروازے پر اپنے وجدان کی دستک سن رہا ہوں تو اب یہ شعر اس ترمیم کے ساتھ میں پڑھا کرتا ہوں:

مدینے جاؤں؛ نہ آؤں، وہیں پہ رہ جاؤں
درِ حبیب پہ قصّہ تمام ہو جائے’’

(مجلّہ ‘‘عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۷۶)

 

          چنانچہ اِسی آرزوئے شوق کی تکمیل کے لیے، بروز پیر، ۲۰، صفر المظفر ۱۳۶۶ھ مطابق ۱۳،جنوری ۱۹۴۷ء کو آپ نے رہائش کے لیے مدینۂ منورہ میں زمین خریدی، جس کا حسبِ ذیل قطعۂ تاریخی سیّد اسلام الحی سیفی ندوی متوطن مسعود منزل،بلیا و مدیر ‘‘علم و ادب،دہلی‘‘ نے کہا           ؎

شیخ عبد العلیم فکرش راست

بارک اللہ عالِمِ مقبول

کہ بہ طیبہ خرید و خیر بخواست

شد بہ تملیک قطعۂ ارضی

گویمش کز درِ رسول عطاست

ثمرۂ یافت ایں زِ عشقِ رسول

ذہن تاریخ فی البدیہہ بخواست

چوں رسیدم بہ ایں خبر سیفیؔ

گفتم از ارضِ طیبہ مضمونش
بارک اللہ لک، بلا کم و کاست

 

( ۶ ۶ ۳ ۱ ھ)

(امداد صابری: ‘‘تذکرۂ شعراءِ حجاز‘‘، دہلی، ۱۹۶۹ء)

قیامِ پاکستان کے بعد حضرت مبلغِ اعظم نے اس قطعۂ ارضی پر ایک مکان بنوا کر اسے ’’وقف علی الاولاد‘‘ کر دیا اور شرط رکھ دی کہ اگر میری کوئی نرینہ اولاد نہ رہے، تو یہ مکان مسجدِ نبوی کی ملکیت میں شامل کر لیا جائے۔

آپ نے اپنی زندگی کا آخری سال اسی مکان میں گزارتے ہوئے مدینۂ طیّبہ میں رحلت فرمائی اور یوں آپ کی پہلی آرزو، بر آئی۔

دوسری آرزو:

آپ کی دوسری آرزو اور تمنّا یہ تھی کہ موت سنّتِ نبوی کے مطابق ۶۳، برس کی عمر میں آئے۔ چنانچہ اپنے وصال سے ایک سال قبل یعنی ۱۳۷۲ھ (۱۹۵۳ء) میں آپ نے مستقل طور پر مدینۂ منورہ ہی میں رہائش اختیار کر لی اورکہیں آنا جانا، یہاں تک کہ تبلیغی دوروں کو بھی، موقوف کر دیا۔ جب کوئی آپ کو کہیں آنے کی دعوت دیتا، تو فرماتے:

‘‘میری زندگی کا صرف ایک سال رہ گیا ہے، وہ میں یہاں مدینۂ منوّرہ ہی میں گزاروں گا۔’’

 

وصالِ مبارک:

چنانچہ آپ کی یہ دوسری تمنّا اور پیشین گوئی اس طرح پوری ہوئی کہ۲۲ اور ۲۳ ذی الحجہ (اتوار اور پیر) کی درمیانی شب ۱۳۷۳ھ مطابق ۲۲، اگست ۱۹۵۴ء کو گنبدِ خضرا(مدینۂ منورہ) کے سائے میں، باب السّلام پر، آپ کا وصال ہوا۔

ملک التحریر حضرت علامہ ارشد القادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے آپ کے وصالِ مبارک کی منظر کشی اِن الفاظ میں کی ہے:

اُسی سال(۱۳۷۳ھ) کے ماہِ ذی الحجہ میں (مبلّغِ اعظم) بیمار ہوئے، دن بہ دن حالت سنگین ہوتی گئی۔ جب محسوس ہوا کہ سفر کا وقت قریب آ گیا ہے تو بالیں کے قریب کھڑے ہونے والوں سے ارشاد فرمایا:

’’میری چار پائی کاندھے پر اُٹھاؤ اور باب السلام پر لے چل کر رکھ دو کچھ عجب نہیں کہ سرکار میری روح کو اذنِ باریابی مرحمت فرمائیں اور درِ پاک پر مٹنے کی آخری آرزو بھی پوری ہوجائے‘‘ جیسے ہی باب السلام کی چوکھٹ پر چار پائی لاکر رکھی گئی، کسی نے یہ شعر گنگنایا        ؎

علیمؔ ِ خستہ جاں تنگ آ گیا ہے دردِ ہجراں سے
الٰہی! کب وہ دن آئے کہ مہمانِ محمدﷺ ہو

          شعر کیا تھا کہ حسرت و بے قراری کی ایک تڑپتی ہوئی بجلی تھی جو لوگوں کے سینے میں کوند گئی۔ ہر طرف گریۂ درد سے چیخیں بلند ہونے لگیں، ۴۵سال سے عشقِ محمدی کا پرچم اٹھاتے ہوئے جس پیکرِ وفا نے سارے جہاں کی خاک چھانی تھی، آج اس کی زندگی کا سفینہ ساحلِ مقصود پر کھڑا تھا۔ دل کا اضطراب اب مچل رہا تھا کہ کب اذنِ باریابی ملے، نگاہِ شوق طلوع ہونے والی صبحِ امّید کے انتظار میں بار بار جھک رہی تھی، اٹھ رہی تھی کہ کرم کی کوئی تجلی نمودار ہو اور کب جلوے اپنا نقاب الٹیں۔ امّید و آرزو کی بے تابیوں کا یہی عالم تھا کہ حجرۂ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پردوں کو جنبش ہوئی، حریمِ رحمت کا در کھلا، ایک روشنی چمکی، ایک خوشبو پھیلی اور اس کے بعد کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم، بس اتنا یاد ہے کہ باب السلام پر ایک شور بپا تھا کہ آخر ایک عاشق کی بے چین روح اپنے محبوب کے قدموں پر نثار ہو ہی گئی۔

جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بےقراری کو قرار آ ہی گیا

          نقیبِ غوث الوریٰ، قطبِ مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین مہاجر مدنی، پاس ہی کھڑے تھے، آگے بڑھے اور برستی ہوئی آنکھوں سے پیشانی کی فیروز بختیوں کو بوسہ دیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں ارشاد فرمایا:

علیمِؔ خستہ جاں کو مبارک ہو کہ محمدﷺ کے گھر کی مہمانی کا اعزاز قیامت کے لیے محفوظ ہوگیا۔‘‘

(مجلّہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘، ص ۷۷)

نمازِ جنازہ، قطبِ مدینہ نے پڑھائی:

آپ کی نمازِ جنازہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدّثِ بریلوی کے مرید و خلیفہ اور قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت علامہ شاہ احمدنورانی صدّیقی کے دادا سسر، قطبِ مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین احمد قادری مدنی﷭نے پڑھائی۔ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم)                                        (‘‘سیّدی ضیاء الدین احمد القادری‘‘، جلد دوم، صفحہ۲۳۱)

تیسری آرزو:

          حضرت مبلّغِ اعظم نَوَّرَاللہُ تَعَالٰی مَرْقَدَہٗ کی تیسری بڑی آرزو یہ تھی کہ مدینۂ منورہ میں حضورِ پُر نور نبیِّ کریمﷺ کے روضۂ اقدس کے قریب آپ کو مَدْفَن (دفن کی جگہ) ملے۔

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اطہر نعیمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ (خلیفۂ و شاگردِ صدر الافاضل علامہ سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اپنے ایک مضمون: ‘‘چند یادیں۔ چند باتیں‘‘ میں اپنی یادوں کے دریچوں سے پردہ ہٹاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جامعہ نعیمیہ مراد آباد کے سالانہ جلسۂ تقسیمِ اَسناد سے خطاب کرتے ہوئے، حضرت مبلّغِ شاہ اعظم اہ عبدالعلیم صدّیقی مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بارگاہِ رسالت میں منظوم نذرانۂ عقیدت بھی پیش فرمایا، جس کا ایک مصرع یہ تھا:

مدینے کی زمیں میں دفن ہوں یہ ہڈّیاں میری

اس مصرع کا ذکر فرمانے کے بعد حضرت مفتی اطہر نعیمی مدظلّہ العالی مزید لکھتے ہیں

’’دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ انتقال سے قبل حضرت مولانا (شاہ عبدالعلیم) قُدِّسَ سِرُّہٗ اتنے نحیف ہوگئے تھے کہ جسم صرف پوست و استخواں (کھال اور ہڈّی) کا مجموعہ تھا اور ربّ العالمین نے حضرت مولانا کی دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرمایا اور مولانا قدِّسَ سِرُّہٗ جنّت البقیع میں آسودۂ خاک ہوئے۔‘‘

(مجلّہ ’’عظیم مبلّغِ اسلام‘‘، کراچی، ص۱۴۳تا۱۴۴)

نوٹ: حضرت مفتی اطہر نعیمی صاحب نے راقم الحروف (ندیم نورانی) سے بھی اور راقم کے عزیز دوست مولانا ڈاکٹر حامد علی علیمی زِیْدَ مَجْدُہٗ سے بھی اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ مذکورۂ بالا اقتباس میں ’’دیکھنے والوں‘‘ سے مراد قطبِ مدینہ حضرت علامہ مولانا ضیاء الدین احمد قادری مدنی قُدِّسَ سِرُّہٗ ہیں۔

علاوہ ازیں، حضرت مبلغِ اعظم ﷫نے اپنے ایک خطاب کے دوران، جس کی آڈیو کیسٹ راقم کے پاس موجود ہے، اپنے والدِ ماجد حضرت علامہ شاہ محمد عبد الحکیم جؔوش و حکیمؔ صدّیقی﷫ کے چند نعتیہ اشعار پڑھے، جن میں ایک شعر یہ بھی تھا:

قریبِ روضۂ اقدس اگر مدفن میسر ہو
دلِ مضطر کو آغوشِ لحد آغوشِ مادر ہو

 

اللہ تبارک و تعالیٰ نے، سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے قریب، جنّت البقیع میں امّ المومنین حضرت عائشہ صدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک قدموں میں آپ کو دفن کے لیے جگہ عطافرما کر کے، آپ کی یہ تیسری خواہش بھی پوری کر دی۔

؏:   پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

اِس فقیر نے عرض کیا ہے      ؎

مِل گیا مدفن قریبِ روضۂ اقدس اُنھیں
یعنی مقبولِ خدا ہے دعوتِ عبد العلیم

 

قائدِ اہلِ سنّت وجمیلِ ملّت صاحبان کی

مبلّغِ اعظم اور اُن کے برادرِ اکبر کی قبروں پر حاضری:

            جمیلِ ملّت حضرت علاّمہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ نے اتوار، ۳۰،شعبان المعظّم ۱۴۳۵ھ مطابق ۲۹، جون ۲۰۱۴ء کی ملاقات کے دوران، دار العلوم نعیمیہ کرا چی کی ایک نشست میں اِس فقیر (ندؔیم نورانی) کو بتایا کہ:

’’میں ۱۹۶۳ء (۱۳۸۲ھ) میں جب حج کے لیے گیا تھا، تو حج کے بعد مدینۂِ منوّرہ میں حضرت قائدِ اہلِ سنّت علامہ شاہ احمد نورانی صدّیقی ﷫ کے ہم راہ جنّت البقیع حاضر ہوا، وہاں حضرت قائدِ اہلِ سنّت کے والدِ ماجد اور تایا ابّا کی قبروں کی بھی زیارت کی۔ حضرت قائدِ اہلِ سنّت نےہاتھ کے اشارے سے فرمایا: ‘یہ میرے والدِ ماجد حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدّیقی کی قبر ہے اور یہ میرے تایا ابّا حضرت مولانا نذیر احمد خجندؔی کی قبر ہے۔‘‘’

دونوں بھائیوں کی قبروں کے درمیان فاصلہ:

            مذکورۂِ بالا ارشادِ مبارک سن کر، اِس فقیر نےحضرت جمیلِ ملّت سے استفسار کیا کہ ان دونوں بزرگوں کی قبروں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے، تو آپ نے ارشاد فرمایا:

          ‘‘ٹھیک سے یاد نہیں، یہ کوئی پانچ، سات گز کا فاصلہ ہوگا۔‘‘

اولادِ امجاد:

مبلّغِ اعظم حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی مدنی﷫ كے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں كے نام پیدائشی ترتیب کے لحاظ سے یہ ہیں:

۱۔        اَمَت السبّوح عرف سُبحیہ بیگم(متوفّٰی: ۳،جمادی الآخرۃ ۱۴۲۱ھ/ ۲،ستمبر ۲۰۰۰ء)

۲۔      نذرِ غوث علامہ مولانا محمد جیلانی صدّیقی (متوفّٰی:۵ذیقعد۱۴۱۵ھ /۶،اپریل۱۹۹۵ء)

۳۔      قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت علامہ امام شاہ احمد نورانی صدّیقی(متوفّٰی: جمعرات، ۱۶،شوّال ۱۴۲۴ھ/ ۱۱،دسمبر۲۰۰۳ء، دوپہر بارہ بج کر بیس منٹ)

۴۔      نذرِ فرید جناب حامد ربّانی صدّیقی مدظلّہٗ

۵۔      ڈاكٹر عزیزہ اقبال(متوفّٰی: بدھ، ۸، ربیع الاوّل ۱۴۳۳ھ/یکم فروری ۲۰۱۲ء)

۶۔      ڈاكٹر فریدہ احمد صدّیقی(متوفّٰی: بدھ، ۲۸، ویں شب، رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ/۷، اگست ۲۰۱۳ء، تقریباً ڈیڑھ بجے)

۷۔      نذرِ خواجہ جناب حمّاد سبحانی صدّیقی مدظلّہٗ العالی

ان میں سے جناب حامد ربّانی اور جناب حمّاد سبحانی صاحبان الحمد للہ ابھی بہ قیدِ حیات ہیں۔

خلفائےِ مبلّغِ اعظم اور تسبیحِ اعلیٰ حضرت:

حضرت مبلّغِ اعظم ﷫کے خلفا میں پہلا نام‘‘فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا حافظ قاری مفتی محمد فضل الرحمٰن مدنی ﷫‘‘ کا ملتا ہے۔

چنانچہ جناب شیخ محمد عارف قادری ضیائی مدنی علیہ الرحمۃ ﷫ رقم طراز ہیں:

‘‘مبلغِ اسلام حضرت علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی قادری ﷫نے ۱۳۶۵ھ میں،جب کہ آپ (حضرت علامہ فضل الرحمٰن مدنی ) کی عمر اکیس (۲۱) برس تھی، سندِ حدیث کے ساتھ جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت عنایت فرمائی اور وہ تسبیح عنایت فرمائی جو سیدنا اعلیٰ حضرت عظیم البرکت(امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی ؔ) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ (حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی ﷫)کو عطا فرمائی تھی۔ اس دن آپ (حضرت فضل الرحمٰن مدنی)کے سب سے بڑے بیٹے حضرت حافظ حبیب الرحمٰن قادری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا عقیقہ تھا۔‘‘

(‘‘سیّدی ضیاء الدین احمد القادری’’، شائع کردہ: حزب القادریہ،لاہور، جلدِ دوم صفحہ ۴۰۹)

حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدنی ﷫ نسباً رحمانی صدّیقی تھے(حضرت عبد الرحمٰن بن ابوبکر صدّیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد کو ’’رحمانی صدّیقی‘‘ یا صرف ’’رحمانی‘‘ کہا جاتا ہے)۔ علاوہ ازیں، آپ اعلیٰ حضرت کے مرید و خلیفہ قطبِ مدینہ حضرت علامہ ضیاء الدین احمد قادری مہاجر مدنی ﷫کے فرزندِ ارجمند و جانشیں اور قائدِ ملّتِ اسلامیہ حضرت امام شاہ احمد نورانی صدّیقی﷫ کے سسر محترم اور ہم سبق تھے؛ آپ اور قائدِ ملّتِ اسلامیہ دونوں نے ایک ساتھ ایک ہی استاد حضرت شیخ القرّا حَسَنُ الشاعر ﷫کے دامنِ شفقت میں قراءت کی تعلیم حاصل کی تھی۔

مبلّغِ اعظم ﷫ کے داماد (ڈاکٹر فریدہ احمد صدّیقی علیھا الرحمۃ کے شوہر) پروفیسر محمد احمدصدّیقی صاحب نے مجلہ ’’عظیم مبلغِ اسلام‘‘ (شائع کردہ: خواتین اسلامی مشن۔ پاکستان، گلشن اقبال، کراچی، ستمبر ۲۰۰۳)کے صفحہ ۲۴ پرمبلغِ اعظم کے خلفا کے تحت دو ناموں کا ذکر فرمایا ہے:

۱۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری                 ۲۔مولانا شاہ احمد نورانی صدّیقی

         مبلغِ اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، مبلغِ اعظم کے بڑے داماد یعنی حضرت اَمَتُ السُّبُّوْح سُبْحِیَّہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھا کے شوہر تھے۔

حضرت علامہ ومولانا ابو داؤد محمد صادق رضوی صاحب دامت برکاتہم العالیۃ (گوجرانوالہ، پاکستان) اپنی تالیف’’شاہ احمد نورانی‘‘ حصّۂ اوّل کے صفحہ ۱۲،پر رقم طراز ہیں

’’مولانا شاہ احمد نورانی کو اپنے والدِ بزرگوار علیہ الرحمۃ سے بیعت و خلافت اور سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ میں منسلک ہونے کا شرف حاصل ہے، اور آپ نے پاکستان و بیرونِ پاکستان اپنی وسیع تبلیغی مساعی و مسلسل دینی جد و جہد اور شریعت و طریقت کی خدمات سرانجام دے کر اپنے والدِماجد کی نیابت و جانشینی کا حق ادا کیا ہے۔‘‘

جناب عبد الحق انصاری صاحب نے حضرت شیخ علی مراد شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کے تذکرے میں انھیں(یعنی مراد شامی صاحب کو) مبلغِ اعظم حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی ﷫کا خلیفہ بتایا ہے اور لکھا ہے کہ جناب شیخ علی مراد شامی﷫ قطبِ مدینہ حضرت سیّدی ضیاء الدین احمد قادری ﷫ کے بھی خلیفہ تھے؛ اور آپ ہی نے حضرت قطبِ مدینہ کا نمازِ جنازہ بھی پڑھایا تھا۔

جناب یوسف عبدالرحمٰن المرعشلی صاحب نے اپنے شیوخ کی فہرست میں حضرت مبلغِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسمِ مبارک بھی تین مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ‘‘مُعجَمُ الْمَعَاجِمِ وَالْمَشیْخَات‘‘، مطبوعۂ مکتبۃ الرشد، ریاض، جزءِ اوّل، ص۱۰۷، جزءِ ثالث، ص۴۰، ۲۶۵۔

علاوہ ازیں، مفتی اکرام المحسن فیضی صاحب (نبیرۂ بیہقیِّ وقت حضرت علامہ محمد منظور احمد فیضی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ﷫) نے انٹر نیٹ اور کچھ کتب سے دیکھ کر، خلفائے حضرت مبلغِ اعظم ﷫کے مندرجۂ ذیل نام لکھوائے:

شیخ محمد یاسین فادانی، شیخ محمد بن عبد الرحمٰن باشیخ، شیخ احمد مشہور الحداد، شیخ محمد صدّیق میمنی(متوفّٰی: ۲۰۰۹ء)، شیخ سلیمان بن محمد بن سلیمان بن سعید العلوی الزنجباری، شیخ محمد بن احمد الحداد انڈونیشی، علامہ شیخ ابراہیم خَتَنی مدنی بن سعد اللہ بن عبد الرحیم اور علامہ شیخ ذکی ابراہیم مصری۔

دس ہزار سے زائد تلامذہ:

مبلغِ اعظم حضرت شاہ عبد العلیم صدّیقی ﷫پیشہ ور معلّم یا مدرّس تو نہ تھے؛ لیکن، تبلیغِ دین کے جذبے کے تحت، آپ نے یہ میدان بھی خالی نہیں چھوڑا۔ خانۂ کعبہ میں درسِ قرآنِ مجید بھی دیتے رہے، مسجدِ نبوی شریف میں بابِ سیّدنا صدّیقِ اکبر کے سامنے ستون سے متصل بیٹھ کر گنبدِ خَضرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤںمیں، بہت سے طلبہ کو تفسیرِ جلالین اور کتبِ احادیث بخاری شریف و مشکوٰۃ شریف بھی پڑھاتے رہے اور ان کے سوالات کے جوابات بھی ارشاد فرماتے رہے۔ متعدد علماے کرام کو مسجدِ نبوی میں حدیث کی سندیں بھی عطا فرمائیں۔

مبلغِ اعظم کے شاگردوں کی تعداد سے متعلق، رفیقِ قائد ملتِ اسلامیہ حضرت پروفیسر سیّد شاہ فرید الحق صاحب﷫ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

’’کتنوں نے شاگردی اختیار کی، صحیح تعداد کا اندازہ ممکن نہیں ہے۔ تھوڑا بہت اندازہ ایک سووینئر ((Souvenirکے اُن الفاظ سے ہوتا ہے جو ماریشس میں ۱۹۴۱ء میں مولانا کی آمد کے موقع پر انگریزی میں چھپا۔ دنیا کے مختلف حصّوں میں اُن کے لاتعداد شاگرد ہیں،جن میں صرف ماریشس میں ان کے دس(۱۰) ہزار شاگردوں پر اس جزیرے کو فخر ہے۔‘‘         (مجلّہ ‘‘عظیم مبلغِ اسلام‘‘ شائع کردہ: خواتین اسلامی مشن۔ پاکستان، گلشن اقبال، کراچی، ستمبر ۲۰۰۳ء،صفحہ ۲۹)

الغرض، دنیا کے بہت سے لوگوں کو آپ کے شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے چند خاص خاص شاگردوں کے نام یہ ہیں:

(ا) امام شاہ احمد نورانی صدّیقی(۲) مولانا فضل الرحمٰن انصاری(۳) مسٹر عزیز ایچ عباسی ، نیوزی لینڈ(۴) ڈاکٹر محمد عالم،آسٹریلیا(۵)جے ماجد، سیلون(۶) ڈاکٹر ایچ۔ ایس منشی،مدیر دی جینوئن اسلام، سنگاپور(۷) سید ابراہیم الشگوف (۸)میجی گن یونیورسٹی کے ماہرِ تعلیم مسٹر عبد الباسط(۹)۱۹۵۰ء میں شرقی ریاستہائے متحدہ کے مفتیِ اعظم حضرت      عبد الرحمٰن لٹسر آپ کے شاگرد ہوئے(۱۰)جانشینِ قطبِ مدینہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن مدنی نے مبلّغِ اعظم ﷭سے ’’ادب‘‘ وغیرہ کی کتب کا درس لے کر، علوم کی تکمیل کی اور سند ِحدیث کے ساتھ جمیع سلاسل کی اجازت و خلافت حاصل کی۔

اختتامِ مضمون:

          میں اپنے اس مضمون کا اختتام رفیقِ قائدِ ملّتِ اسلامیہ، جمیلِ ملّت حضرت علامہ مولانا جمیل احمد نعیمی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُھُمُ الْعَالِیَۃ کے ان کلمات پر کرتا ہوں:

’’آپ (علامہ شاہ عبد العلیم صدّیقی علیہ الرحمہ) کے خانوادے اور آپ کی دینی، سماجی، اصلاحی اور تبلیغی خدمات پر بہت کچھ تحریر کیا جا سکتا ہے؛ لیکن افسوس صد افسوس! کہ ہم نے اس عظیم عالم اور مبلغِ اسلام، جن کی تعمیر و تشکیلِ پاکستان میں دیگر علما و مشائخِ اہلِ سنّت کے ساتھ عظیم و بیش بہا خدمات ہیں، (کو) فراموش کر دیا۔ اگر دیانت داری سے توجہ کی جائے تو آپ کی خدمات سنہری حروف میں تحریر کیے جانے کے قابل ہیں۔ احقر نے اپنے بعض اکابر سے یہ بھی سنا ہے کہ علامہ موصوف کی ایمانی، روحانی اور تبلیغی صلاحیتوں کو دیکھ کر بعض غیر مسلموں نے یہاں تک کہا کہ ان عظیم صلاحیتوں کی شخصیت اگر ہمارے پاس ہوتی، تو ہم نہ صرف ان کو سر آنکھوں پر بٹھاتے؛ بلکہ ان کو اس سے کہیں زیادہ بلند مقام دیتے۔ بقولِ شاعر           ؎

وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنھیں خاک چھان کر‘‘

 

(مجلّہ ’’عظیم مبلغ اسلام‘‘ (۱۴۲۴ھ ،۲۰۰۳)شائع کردہ: خواتین اسلامی مشن۔ پاکستان، گلشن اقبال، کراچی، ص ۳۲)

نوٹ: یہ مضمون اس سے پہلےپاکستان و ہندوستان کے چند رسائل میں’’آسماں کو چھورہی ہے رفعتِ عبدالعلیم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے، جو اب کچھ ضروری ترامیم اور مفید اضافوں کے ساتھ ہدیۂ قارئین کیا گیا ہے۔

                                                                   دعا گو و دعا جو

منگل، ۷، ذی الحجہ ۱۴۳۶ھ                            
                    ندیم احمد نؔدیم نورانی

۲۲،ستمبر ۲۰۱۵ء                                             

            شعبۂ ریسرچ، انجمن ضیاءِ طیبہ، کراچی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post