ایک مثالی بیوی کا قصہ: Ek Misali Biwi Ka Qissa

 ایک مثالی بیوی کا قصہ:

قاضی شریح  ؒ نے امام عامر بن شراحیل شعبیؒ سے ایک دن ملاقات کی تو امام شعبی نے ان سے گھریلو حالات کے بارے میں سوال کیا تو قاضی صاحب نے انہیں بتایا کہ شادی ہوئے بیس سال ہو چکے ہیں لیکن میں نے اپنی بیوی سے کوئی ایسا کام یا کوئی ایسی حرکت نہیں دیکھی جس  پر میں اسے غصے ہوا ہوں۔ امام شعبیؒ نے کہا یہ کیسے؟ قاضی صاحب نے کہا :جب میری شادی ہوئی تھی تو پہلی رات میں اپنی بیوی کے پاس گیا تو میں نے اسے عجیب ہی حسین و جمیل پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں وضو کر کے دو نفل شکرانے کے پڑھ لیتا ہوں ‘جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا میری بیوی بھی میری اقتداء میں نماز پڑھ کر سلام پھیر چکی ہے، جب ہمارا گھر ساتھیوں اور دوستوں سے خالی ہوا تو میں اپنی بیوی کی طرف گیا اور اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تو وہ کہنے لگی: ذرا ٹھہر جایئے! اے ابو امیہ! اپنی حالت پر رہیئے۔

پھر اس نے یہ خطبہ پڑھا:

’’ الحمد للہ احمدہ واستعینہ واصلی علی محمد وآلہ‘‘

پھر بات شروع کی تو کہا کہ میں ایک عورت ہوں جو اپنے وطن سے دور ہوں، مجھے آپ کے اخلاق اور آپ کی عادات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے‘ میں نہیں جانتی کہ آپ کی عادتیں کیا ہیں؟ آپ مجھے وہ تمام کام بتا دیں جو آپ کو اچھے لگتے ہیں تاکہ میں وہی کروں اور جو آپ ناپسند کرتے ہیں وہ بھی بتادیں تاکہ میں وہ نہ کروں‘ پھر اس نے کہا کہ آپ کی قوم میں کئی عورتیں تھیں جن سے آپ شادی کرسکتے تھے اورمیری قوم میں کئی مرد میرے لئے ہم سر تھے جن سے میں شادی کر سکتی تھی ۔ لیکن اللہ تعالی جب کوئی کام کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے تووہ ہو کر رہتا ہے‘ اب آپ میرے مالک ہیں آپ کو اللہ تعالی نے جو حکم دیا ہے وہ کریں۔

’’ امساک بمعروف او تسریح باحسان ‘‘

میں آپ کو پسند ہوں تو اچھے طریقے کے ساتھ رخصت کرنا‘ میں اپنی بات ختم کرتی ہوں اور اپنے اللہ سے اپنے اور آپ کے لئے گناہوں کی معافی مانگتی ہوں۔

قاضی صاحب فرماتے ہیں: اے شعبی! اللہ کی قسم اس نے مجھے بھی اس مقام پر خطبہ پڑھنے پر مجبور کردیا چنانچہ میں نے خطبہ پڑھا:

’’الحمد للہ احمدہ واستعینہ واصلی علی النبی وآلہ واسلم وبعد‘‘

پھر میں نے کہا کہ اے میری بیوی!بلا شبہ تو نے ایسی اچھی بات کی ہے اگر تو اس پر ثابت قدم رہے گی تو اس میں تو خوش قسمت اور خوش نصیب رہے گی اور اگر تو ایسا نہیں کرے گی تو یہ تیرا خطبہ پڑھنا تیرے  خلا ف حجت ثابت ہوگا ۔ دیکھ لے مجھے فلاں فلاں کام اچھے لگتے ہیں 

 اور فلاں فلاں کام نا پسند ہیں اور برے لگتے ہیں ،اگر تو میری کوئی خوبی دیکھے تو اس کو شہرت دے اور اگر کوئی عیب دیکھے تو اس پر پردہ ڈال ۔

اس نے کہا آپ کس حد تک پسند کرتے ہیں کہ میرے گھر والے آپ کی زیارت کرنے کے لئے آیا کریں تو میں نے کہا کہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے سسرال والے مجھے اکتاہٹ میں ڈالیں‘ پھر اس نے کہا کہ آپ اپنے پڑوسیوں میں سے کس کے بارے میں پسند کرتے ہیں کہ وہ آپ کے گھر آئیں تاکہ میں انہیں آنے کی اجازت دوں اور کن کا آپ کے گھر آنا آپ کو نا پسند ہے تاکہ میں بھی ان کا آنا نا پسند سمجھوں ۔ تو میں نے اسے بتایا کہ کہ فلاں قبیلے کے لوگ نیک ہیں اور فلاں کے برے۔

قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے ساتھ وہ پہلی رات بہت اچھی گزاری اس کے ساتھ زندگی بسر کرتے ایک سال گزر گیا تھا‘ میں نے اس میں کوئی بھی ایسی بات نہ دیکھی جس کو میں نا پسند کروں‘ جس وقت سال پورا ہوا تو میں مجلس قضا سے گھر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک عورت گھر میں تھی‘ میں نے کہا یہ کون ہے؟

میری بیوی نے بتایا کہ یہ آپ کی ساس ہے (یعنی میری ساس)تو اس نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا ’’ اے شریح! تو نے اپنی بیوی کو کیسا پایا؟‘‘ میں نے کہا یہ بہت ہی اچھی بیوی ہے تو اس نے کہا ’’اے ابو امیہ! دو حالتوں کے علاوہ کبھی بھی عورت کی حالت نہیں بگڑتی۔

۱۔ جب کسی بچے کی ماں بن جائے۔

۲۔ اس کا خاوند اس کے ناز و نخرہ کودیکھتا رہے اور اسے کچھ نہ کہے ‘اللہ کی قسم! ناز و نخرہ والی عورت جیسا بڑا شر کبھی بھی کسی نے اپنے گھر میں جمع نہیں کیا ۔تو جتنا بھی میری بیٹی کو با ادب بنانا چاہے بنا ‘ اور جتنا بھی تہذیب یافتہ بنانا چاہے بنا۔ تجھے کوئی روک ٹوک نہیں۔ 

قاضی صاحب نے کہا ’’ یہ عورت میرے ساتھ بیس سال سے رہ رہی ہے میں نے کبھی بھی اس میں قابل اعتراض کوئی بات نہیں دیکھی ۔ ہاں اتنی زندگی میں صرف ایک دفعہ میں نے اس پر اعتراض کیا تھا اور حقیقت ہے کہ وہ اس میں بھی بے قصور تھی‘ غلطی میری ہی تھی۔

خاوند ایسا ہی ہونا چاہئے اور بیویاں بھی ایسی ہی ہونی چاہیئں اوربیویوں کی مائیں یعنی خاوند کی ساسیں بھی ایسی ہی ہوں۔


Post a Comment

Previous Post Next Post