آج کی فکر کیجئے: Aaj Ki FIkar Kijiye اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول کرلیں:

 اپنے آپ کو کسی کام میں مشغول کرلیں:

اعصابی کھچاؤ سے جو قلق پیدا ہوتاہے اسے دور کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے آپ کو کسی مفیدکام میں یا مفید علم میں مشغول کرلیں۔کیونکہ مفید کام میں آپ کی مشغولیت آپ کے قلبی رجحان کو اس قلق و بے چینی سے غافل کردے گی۔

عین ممکن ہے کہ غم واندوہ کے اسباب ہی سرے سے آپ بھول جائیں اور نفسی سرور آپ کو حاصل ہوجائے، اور نشاط و چستگی میں اضافہ ہوجائے، اس تگ و دوہ میں کافر اور مومن یکساں ہیں، لیکن مومن اپنے ایمان، اخلاص، نیت بھلائی اور اس پر مرتب ہونے والے ثواب کی  وجہ سے ممتاز ہے، کیونکہ جب مومن یہ دیکھتا ہے کہ اسے اس نیک کام پر اللہ کی طرف سے اجر بھی ملنا ہے تو اس کے نشاط میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاہے۔

کیونکہ اگروہ کام عبادت ہے تو اس کا تو کیا ہی کہنا ، لیکن اگر وہ دنیوی مشغلہ ہے تو اس کے ساتھ جب نیکی کی نیت کا اضافہ ہوتاہے تو وہ بھی عبادت بن جاتاہے، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اطاعت خداوندی پر مومن جب مدد خداوندی کو شامل حال کرتاہے تو اس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔

غم و حزن و ملال کو دور کرنے کا یہ بڑا عمدہ اور مجرب نسخہ ہے، بہت سے لوگ جو قلق اور بے چینی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں، ان کے لئے بہترین علاج یہی ہے کہ وہ بے چینی اور قلق کے اسباب اور وجہ کو بھول جائیں اورا سے کسی مفید کام میں مشغولیت اختیار کرکے آسانی سے بھلایا جاسکتاہے۔

لیکن اتنا ضرور ہے کہ جس کام کو آپ اختیار کرنے جارہی ہیں ، اس کی طرف دلی میلان بھی ہو اور نفس کی خواہش بھی ،کیونکہ مقصد میں کامیابی کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہے۔

آج کی فکر کیجئے:

غم و حزن کو دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی ساری توجہ آج کے کام پر لگادیں اور مستقبل کی فکر سے گریز کریں۔ ادھر ماضی کے غم کو بھی بھول جائیں۔

اسی وجہ سے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غم و حزن سے پناہ مانگی ہے، گزرے ہوئے امور کا غم دور کرنا بڑ ا مشکل ہے اور مستقبل کا خوف بھی بہت خطرناک ہے ۔لیکن انسان اگر حال کی فکر کرے اور اسی کی اصلاح میں لگ جائے تو دل کی ساری توجہ حال کے اعمال کو بجا لانے کی طرف ہوجاتی ہے اور یوں بندے کو غم و حزن سے تسلی ہوجاتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خاص طریقہ تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے یا امت کی دعا کی طرف رہنمائی فرماتے تو اس بات کی اہمت کو اجاگر فرماتے کہ انسان اپنی محنت و کوشش کے ہمراہ اللہ کی مدد اور استعانت کو بھی کرے اور اپنے اس عمل میں توفیق خداوندی کو شامل کرے۔ کیونکہ دعا عمل کے ساتھ ملی ہوئی ہے، چنانچہ بندے کو چاہئے کہ دہ دین و دنیا کی بھلائی کے لئے کوشش کرے اوررب سے اپنے  مقصد میں کامیابی کے حصول کی دعا کرے اور اس کی استعانت طلب کرے جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: 

احرص علی ما ینفعک ،واستعن باللہ،ولا تعجز واذا اصابک شیء ،فلا تقل : لو انی فعلت کذا، کان کذا و کذا، ولکن قل: قدر اللہ وماشاء فعل ، فان لو تفتح عمل الشیطان

’’مفید کام میں لگ کر اللہ سے مدد طلب کر،عاجز بن کر نہ بیٹھو، اگر کوئی مصیبت آپہنچے تو یوں مت کہو: اگر میں یوں کرلیتا تو یوں ہوجاتا، بلکہ یہ کہہ: جو اللہ نے چاہا اور تقدیر میں تھا وہ ہوگیا۔


یاد رکھو!یہ لفظ ’’لو‘‘ شیطانی عمل کے لئے دروازہ کھول دیتاہے ‘‘

دیکھئے!اس فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مفید کاموں کی حرص کی ترغیب دی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے استعانت طلب کرنے اور سستی و کاہلی کو چھوڑ نے کا بھی حکم دیا ہے۔ نہ تو ماضی کی فکر میں لگ کر حسرت و یاس کی تصویر بن جائے اور ’’کاش‘‘ کی صدا ہی بلند کرتا رہے بلکہ سب کچھ تقدیر کے قلم کے سپرد کرکے حال کی جستجو میں لگ جائے۔

Post a Comment

Previous Post Next Post