حجاز کی آندھی Hijaz Ki Aandhi Part 9

حجاز کی آندھی

(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 9

مجاہدینِ اسلام نے دریائے فرات کے کنارے پر بیشتر شہر اور قصبے فتح کر لیے اور اب وہ مدائن کی طرف بڑھ رہے تھے ۔جو سلطنت ِفارس کا دارالحکومت تھا۔
مدائن محلات کا شہر تھا۔ یہ فارس کے بادشاہوں کی گدّی تھی۔ یہ ایک ہنستا مسکراتا بارونق شہر تھا۔ لیکن اس شہر کی مسکراہٹیں غائب ہو گئیں اور سارے شہر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا۔ مسلمانوں کے راستے میں آنے والے شہروں سے بھاگے ہوئے لوگ مدائن پہنچ رہے تھے۔ ان مین زرتشت کے پجاری اور عیسائی تاجربھی تھے ۔ ان کے پاس مال و دولت تھا۔ جسے مسلمانوں سے بچانے کی خاطر وہ بھاگتے اور پناہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔قلعوں اور میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے افسر، عہدیدار اور سپاہی بھی مدائن پہنچ رہے تھے ۔شہری بھی خاصی تعداد میں پہنچے تھے۔ انہوں نے مدائن میں مسلمانوں کی دہشت پھیلا دی۔
ایک روز فارس کے امراء و وزرا اور کئی زعماء اکٹھے ہوئے۔
’’کیا تم سب سلطنت ِفارس کی یہ ذلت و رسوائی برداشت کر رہے ہو؟‘‘ ان میں سے سب سے زیادہ معمر امیر نے کہا۔
’’ذلت و رسوائی نہیں تباہی کہیں۔‘‘ ایک اور امیر بولا۔ ’’آدھے سے زیادہ عراق پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ ہماری وہ فوج جس نے روم کے ہرقل کو شکست دی تھی ،اب عرب کے پسماندہ بدوؤں کے آگے پسپا ہوتی اور ہتھیار ڈالتی چلی آرہی ہے۔ زرتشت کی لعنت ہو ہم پر کہ ہم مدائن بھی مسلمانوں کے حوالے کرکے چلتے بنیں……اب آپ بولیں محترم بزرگ……‘‘
’’میں نے جو کہنا تھا وہ تم نے کہہ دیاہے۔‘‘ معمر بزرگ نے کہا۔’’تم سب جانتے ہو کہ اس تباہی کی وجہ کیا ہے……خانہ جنگی……یہ بھی ایک قسم کی خانہ جنگی ہے۔ ایک گروہ ایک آدمی کو تخت پر بٹھاتا ہے تو دوسرا گروہ اُسے قتل کرکے اپنے آدمی کو تخت پر بٹھا دیتا ہے۔ یہ تمام بادشاہ قتل ہونے کے ہی قابل تھے۔اگر ہم یہ خونی کھیل تماشائیوں کی طرح دیکھتے رہے تو سلطنت ِفارس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ خود ہم لوگ جو یہاں بیٹھے ہیں ایک دوسرے کے حق میں مخلص نہیں۔ ہم اندر سے ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ ذرا سوچو کہ سلطنت ِفارس ہی نہ رہی تو کیا مسلمان یا رومی تمہیں یہ حیثیتیں یہ رتبے دیں گے جو ہمیں حاصل ہیں؟ہم غلام ہوں گے ۔ ہماری بیٹیاں لونڈیاں بنا لی جائیں گی……اور تم جانتے ہو کہ اور کیا کچھ ہو جائے گا۔‘‘
’’وہ ہم جانتے ہیں۔ ‘‘ایک نے کہا۔ ’’یہ بتائیں کہ اب ہمیں کرنا کیا چاہیے۔ ہمارے پاس باتوں کا وقت نہیں۔‘‘
’’میں نے پہلے سوچا تھا کہ مسلمانوں کو دولت شراب اور انتہائی حسین لڑکیوں کے ذریعے کمزور کر دیاجائے۔‘‘ معمر بزرگ نے کہا۔’’ یہودی ہمارے ساتھ ہیں۔ عیسائی ہمارے ساتھ ہیں۔خود فارس میں ایک سے بڑھ کر ایک حسین لڑکی موجود ہے۔ دولت کی ہمارے پاس کمی نہیں۔ ہم یہ حربے بھی آزماچکے ہیں لیکن مسلمان اس جال میں آنے والی قوم نہیں ۔ یہودی لڑکیوں کو مسلمان ظاہر کرکے مسلمان قبیلوں کے بعض سرداروں کی بیویاں بنایا گیاتھا۔ ان لڑکیوں میں سے تین تو مسلمانوں کے اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کرلیا اور باقی قتل ہو گئیں۔ کیونکہ ان کی اصلیت ظاہر ہو گئی تھی۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’وہ اس طرح کہ انہیں یہ کام دیا گیا تھا کہ مسلمان عورتوں میں فارس کی فوج کی دہشت پھیلائیں۔ ‘‘معمر دانشور نے کہا۔’’ اور اپنے خاوندوں کو بھی ڈراتی رہیں کہ فارس کی فوج میں ہاتھی ہیں جو دشمن کی فوج کو کچل دیتے ہیں۔ ان لڑکیوں کو بتایا گیا تھا کہ اپنے خاوندوں کے ساتھ ایسی محبت کا اظہار کریں کہ وہ پاگل ہو جائیں۔ لیکن مسلمان صرف جذبہ جہاد سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ اس طرح ان لڑکیوں کی اصلیت کھل گئی اور وہ قتل ہو گئیں……
باقی رہی دولت……قلعے جو مسلمانوں نے فتح کر لیے ہیں، سونے چاندی سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کے سپہ سالار نے مالِ غنیمت اپنے لشکر میں تقسیم کرکے باقی اپنے خلیفہ کو بھیج دیا۔ مجھے توقع تھی کہ یہ سالار اتنا زیادہ مال و دولت دیکھ کر خود مختاری کا اعلان کر دیں گے اور مفتوحہ علاقوں میں اپنی بادشاہی قائم کر لیں گے۔ لیکن یہ لوگ اپنے خلیفہ اور اپنے مرکز کو دھوکہ نہیں دیتے۔‘‘
’’ان کی فتح کی وجہ بھی یہی ہے۔‘‘ ایک وزیر نے کہا۔
’’سب سے بڑی وجہ ایک اور ہے۔ ‘‘معمر بزرگ نے کہا۔’’ ان مسلمانوں میں خوشامد پسندی کی لعنت نہیں۔میں نے معلوم کروایا ہے۔ کوئی آدمی اپنے خلیفہ کی، اپنے امیر کی، اور اپنے سالار کی خوشامد نہیں کرتا۔ ان کے ہاں شاہی دربار نامی کوئی چیز نہیں۔ خلیفہ مسجد میں بیٹھ کر حکم جاری کرتاہے اور جس کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ بے دھڑک اعتراض کرتا ہے۔ فارس کی شہنشاہی کو خوشامدی دیمک کی طرح کھا رہے ہیں۔ تخت پر قتل و غارت خوشامدیوں نے کرائی ہے۔خوشامدی کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ اور خوشامد ایسامیٹھا زہر ہے جو پتھر کو بھی پگھلا دیتا ہے……
اب میں اصل بات پر آتا ہوں ‘عہد کرو کہ ہم میں کوئی بھی خوشامد نہیں کرے گا۔ اور نہ کسی سے خوشامد کی توقع رکھے گا۔
خوشامد کو جرم قرار دے دیا جائے۔ اب ہمارا بادشاہ اردشیر ہو گا۔ اردشیر میں یہ خوبی ہے کہ مردِ میدان ہے اور جنگی قیادت کا ماہر ہے۔ ہمیں اس وقت بادشاہ کی نہیں بلکہ لڑنے اور لڑانے والے قائد کی ضرورت ہے……اگر کسی کو اعتراض ہے تو بولے۔‘‘
سب نے تائید کی اور اردشیر کو بلایا گیا۔ اردشیر نوشیرواں عادل کا پوتا تھا ۔ اسے ان امراء وغیرہ نے تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ سلطنت ِفارس کو سنبھالے۔
’’آپ اتنی بڑی ذمہ داری مجھے سونپ رہے ہیں۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ تو کیا میں اسے قبول نہیں کروں گا؟……ہماری فوج کی شکست و پسپائی کی وجہ آپس کی دشمنی اور خون خرابہ ہے۔ اس کی ذمہ داری آپ لیں۔ میں تخت پر نہیں بیٹھوں گا۔ میں وہاں جاؤں گا، جہاں مسلمان فتح پر فتح حاصل کر رہے ہیں ۔ خالدؓ بن ولید کو مسلمانوں نے آسمان سے اترا ہوا فرشتہ بنا رکھا ہے۔ میں اسے زندہ پکڑ کر لاؤں گا۔‘‘
اور وہ محا ذپر چلا گیا۔
اُردشیر اب صرف جرنیل ہی نہیں تھا بلکہ شہنشاہِ فارس بھی تھا۔ وہ بگولے کی طرح محاذ پر گیا۔ اس نے اپنی فوج کے افسروں کو برا بھلا کہا۔ چھوٹے کمانڈروں کو گالم گلوچ کی‘ فوج سے خطاب کیا۔ سپاہیوں کو شرم دلائی اور اعلان کیا کہ بھگوڑوں کو گھوڑوں کے سموں تلے روند دیا جائے گا اور پسپا ہونے والے افسروں اور عہدیداروں کو ان جھیلوں میں زندہ پھینک دیاجائے گا جن میں مگر مچھ رہتے ہیں۔
’’عرب کے ان بدوؤں کو عراق سے نکال دو۔‘‘
’’خالد بن ولید کو زندہ یا مردہ میرے سامنے لاؤ۔‘‘
’’ان کے سالاروں کو زندہ پکڑ لاؤ۔‘‘
’’میں تمہیں مدینہ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
وہ دھماکوں جیسی آواز میں بول رہا تھا۔ اس کی آواز پر عزم تھی، وہ بڑ نہیں ہانک رہا تھا۔فارس کی فوج اس وقت کی زبردست فوج تھی۔ جس کے مقابلے میں مسلمانوں کے لشکر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے۔ یہ تو ممولے اور شہباز کی لڑائی تھی۔ لیکن فارس کی فوج پسپا ہوتی ہی چلی جا رہی تھی اور اردشیر بھی اپنی فوج کی اس پسپائی کو روک نہ سکا۔
مسلمانوں میں وہ کون سی طاقت تھی جس کے آگے فارس کی فوج پسپا ہوتی چلی جا رہی تھی؟……اس سوال کا جواب اس ایک واقعہ سے ملتا ہے۔ خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مجاہدینِ اسلام کا لشکر ایک شہر امینشیا تک پہنچا۔ سلطنتِ فارس کے اس شہر کو دولت مندوں کا شہر کہاجاتا تھا۔ وہاں امیر کبیر تاجر‘ جاگیر دار اور شاہی خاندان کے پروردہ لوگ رہتے تھے۔
خالدؓ بن ولید اپنے لشکر کے ساتھ اس قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لینے لگے تو دیکھا کہ شہر کے تمام دروازے کھلے پڑے ہیں اور شہر کی دیوار پر ایک بھی سپاہی نظر نہیں آتا ۔ اسے دھوکا سمجھا گیا۔ خالد ؓبن ولید نے خطرہ مول لیا، اور سوار دستے کو شہر میں بھیجا،۔کچھ بھی نہ ہوا۔ سوا روں کے پیچھے مزید سواروں اور پیادوں کو اندر بھیجا گیا۔
خالد ؓبھی اندر چلے گئے۔
شہر میں خاموشی تھی۔ لوگوں کے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ اگر کوئی جاندار نظر آتا تو وہ بلیاں ‘کتے اور پرندے تھے۔ خالدؓ بن ولید نے حکم دیا کہ گھروں میں داخل ہو جاؤ اور تلاشی لو۔ کسی بھی گھر میں کوئی انسان نہیں تھا۔ لوگ اپنا سامان اور قیمتی چیزیں چھوڑ کر بھاگ گئے تھے ۔ وہ ایسی گھبراہٹ میں بھاگے تھے کہ رقمیں اور سونے کے زیورات بھی ساتھ نہ لے جا سکے۔
ایک مکان میں ایک ضعیف العمر بوڑھا پڑا اونگھ رہاتھا۔ اس نے بتایا کہ اس شہر پر مسلمانوں کی دہشت اتنی زیادہ طاری تھی کہ یہاں خبر پہنچی کہ مسلمانوں کا لشکر ادھر آرہا ہے تو سب سے پہلے فوج کے افسر شہر سے بھاگے پھر فوج بھی نکل گئی۔ لوگوں کو فوج پر ہی بھروسہ تھا ۔وہ بھی بھاگ گئی تو لوگ بھی اٹھ دوڑے۔
خالدؓ نے حکم دیا کہ تمام گھروں سے قیمتی اشیاء باہر لاکر ایک جگہ اکٹھی کر لی جائیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے ریشمی کپڑوں اور قیمتی اشیاء کا بہت بڑا ڈھیر لگ گیا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ مجاہدین یہ سامان دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ انسان کی عیش و عشرت کیلئے اتنا قیمتی سامان بھی ہوتا ہے ۔خالد ؓنے دیکھ لیا کہ اکثر مجاہدین خوش ہو رہے تھے کہ انہیں یہ قیمتی سامان ملے گا۔
’’آگ لگا دو اس سامان کو۔‘‘ خالد ؓبن ولید نے حکم دیا۔’’ یہ عیش و عشرت کا وہ سامان ہے جس نے فارسیوں کو اتنا بزدل بنا دیا ہے کہ ہماری پیشقدمی کی اطلاع پر ہی بھاگ گئے ۔ان کے مکان اور محل دیکھ لو۔ اﷲ جسے تباہ کرنا چاہتا ہے اسے عیش و عشرت میں ڈال دیتا ہے۔‘‘
اس سامان کو آگ لگا دی گئی۔ سونا ہیرے جواہرات اور رقمیں الگ کر لی گئیں ۔ان کا پانچواں حصہ مدینہ خلیفہ ابو بکر ؓکو بھیج کر باقی تمام مال لشکر میں تقسیم کردیا گیا۔
یہ تھا مسلمانوں کا کردار، اور یہی مسلمانوں کی وہ طاقت تھی جس نے فارس جیسی طاقتور فوج کو پسپائی بلکہ بھگدڑ پر مجبور کر دیا تھا۔
اُردشیر جب خالدؓ بن ولید اور مثنیٰ بن حارثہ کی طوفانی پیشقدمی کے آگے ناقابل ِتسخیر چٹان بننے کیلئے نکلا تھا تو اس کے کانوں میں یہی ایک آواز پڑی تھی ۔مسلمانوں نے فلاں شہر بھی لے لیا ہے اور فا رس کی فوج حوصلے جذبے ہارے بھاگی چلی آرہی ہے۔ اسے جب یہ اطلاع ملی کہ حیرہ شہر میں بھی مسلمان داخل ہو گئے ہیں تو اُردشیر بیمار پڑ گیا۔ حیرہ اتنا بڑا اور خوبصورت شہر تھاکہ اسے سلطنت ِفارس کا ہیرا کہا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے یہ شہر بغیر مقابلے کے لے لیا تھا۔
فرات کے کنارے جو لڑائیاں ہوئیں وہ فارس کی فوج کی پسپائی پر ختم ہوتی رہیں ۔ حضرت خالدؓ نے اپنے سالاروں کوصلاح و مشورے کیلئے بلایا ۔
’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ فارسی ہمیں تھکا رہے ہیں؟……‘‘خالد ؓنے کہا۔’’یہ ایک جگہ سے بھاگ کر اگلے شہر یا علاقے کی فوج میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ وہاں ہمیں پہلے سے زیادہ لڑنا اور نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ آخر یہ فوج کسی قلعے یا میدان میں ہمارے مقابلے میں قدم جما لے گی۔ ہم تھکے ہوئے ہوں گے اور یہ فوج بڑی آسانی سے ہمیں نا صرف شکست دے گی بلکہ ہمارا قتل عام کرے گی۔ کیا میرایہ حکم ظالمانہ ہوگا کہ اگلی لڑائی میں فارس کے کسی فوجی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ خواہ وہ جنگی قیدی ہی ہو؟‘‘
’’نہیں ابن ولید!‘‘ دو تین سالاروں نے بیک زبان کہا‘اور ان میں سے ایک نے کہا،۔’’اس سے پہلے کہ ہمارا قتل ِعام ہو‘ ہم ان کا قتلِ عام کریں گے۔ جو ان لڑائیوں میں ہمارے ہزاروں ساتھیوں کو شہید کر چکے ہیں۔‘‘
تمام سالاروں نے خالدؓ بن ولید کے فیصلے کی تائید کی۔
اگلی لڑائی زیادہ خونریز تھی۔ اس لڑائی کی تفصیلات سنانے کا یہ موقع نہیں۔ آخر میں یوں ہوا کہ فارس کی فوج جس کی نفری مسلمانوں کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا تھی پسپا ہونے لگی۔ خالدؓ نے حکم دیا کہ انہیں پسپا نہ ہونے دیا جائے اور انہیں زندہ پکڑا جائے۔
گھوڑ سوارمجاہدین نے بھاگتے ہوئے فوجیوں کا تعاقب کیا اور انہیں گھیر گھیر کر پیچھے لانے لگے ۔خالدؓ کے حکم سے انہیں دریائے خسیف کے کنارے لاکر اس طرح قتل کیا جانے لگا کہ ان کے سر دریا میں گرتے اورجسم کنارے پر۔ فارس کی فوج میں تقریباً آدھی نفری عیسائیوں کی تھی۔ مسلسل تین دن فارس کی فوج کے آتش پرستوں اور عیسائیوں کو قتل کیا جاتا رہا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فارس کی فوج کے ستر ہزار افرادکو قتل کیا گیا۔ ان کا خون دریا میں گرتاتھا ۔دریا کا پانی لال ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخوں میں اس دریا کو دریائے خون لکھا گیا ہے۔
غیر مسلم مؤرخوں نے خالدؓ کے اس قتلِ عام کو ظالمانہ کہا ہے ۔لیکن خالدؓ کا خیال کچھ اور تھا۔ انہوں نے کہا۔ ’’میں نے اﷲ سے عہد کیا تھا کہ کفار کے خون کا دریا بہاؤں گا۔ میں نے اپنا عہد پورا کیا ہے۔‘‘
اس عہد کے علاوہ خالدؓ نے دشمن کی ستر ہزار فوج کو جہنم واصل کرکے اپنے راستے کی رکاوٹ اور مزاحمت کو ختم کر دیا تھا۔
جب یہ خبر اردشیر تک پہنچی تو اس کی حالت بگڑنے لگی۔ اس پر خاموشی طاری ہو گئی‘ اورکوئی پراسرار روگ اسے اندر ہی اندر کھانے لگا۔ اس کی بھوک اور نیند ختم ہو گئی۔ شاہی طبیب اسے صحت یاب کرنے کی سرتوڑکوششیں کرتے رہے۔ لیکن اردشیر جو اپنے دور کا فرعون تھا۔ گھلتا اور پگھلتا ہی چلاگیا۔ آخر طبیب اس کا روگ سمجھ گئے۔ انہوں نے محل میں سختی سے یہ حکم جاری کرادیا کہ اردشیر تک اپنی فوج کی شکست اور پسپائی کی خبر تک نہ پہنچنے پائے۔
اردشیر کو پے در پے شکستوں کا صدمہ لے بیٹھا تھا۔
طبیبوں نے یہ طریقہ بھی آزمایا کہ اردشیرکو فارس کی فتح کی جھوٹی خبریں سنائی جانے لگیں ۔لیکن اردشیرایسا حقیقت پسند تھا کہ ان خبروں کو سچ نہیں مانتا تھا۔ آخر ایک روز اس صدمے نے اس کی جان لے لی۔
حضرت عمرؓ فاروق کے دورِ خلافت میں واپس آنے سے پہلے ہم فارس کی شہنشاہی کی داستان سنادینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس شہنشاہی کے تخت پر بیٹھے ہوئے ایک شہنشاہ نے رسول اﷲﷺ کے پیغام کی ہی توہین نہیں کی تھی بلکہ حضور ﷺکو گرفتار کرکے اس کے دربار میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ کسریٰ کی سلطنت ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کسریٰ کے محل پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺکی توہین کی پاداش میں کس طرح قہر نازل کیا۔
اُردشیر مر گیا تو فارس کی شہنشاہی نے زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ تخت کی وراثت پر ایک بار پھر شاہی خاندان میں خون خرابہ شروع ہو جائے گا ۔ وطن اور قوم پرست امراء وزراء نے اردشیرکی بیٹی آزرمیدخت کو تخت پر بٹھا دیا۔
آزرمیدخت جواں سال لڑکی تھی، اور بہت حسین تھی،۔شہسوار اور تیغ زن تھی، اور امورِ سلطنت کو بڑی اچھی طرح سمجھتی تھی۔ اس میں کچھ ایسے ہی جوہر دیکھ کر اسے تخت پر بٹھایا گیا تھا۔ لیکن اس نے کچھ اور ہی جوہر دکھانے شروع کر دیئے۔ ملکۂ فارس بننے سے پہلے وہ شہزادی تھی۔ شہزادوں اور شہزادیوں کو ہر گناہ کی کھلی چھٹی ہوتی تھی ۔لیکن ملکہ بن کر اس شہزادی پر پوری سلطنت کی ذمہ داری آپڑی۔ سلطنت کی حالت یہ تھی کہ عراق کا بیشتر حصہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا تھا اور مسلما ن اس طاقتور سلطنت کو روندتے چلے آرہے تھے۔ اس صورتِ حال میں فارس کا تخت پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بچھونا بن گیا تھا۔
وہاں سیادخش نام کا ایک جوان آدمی تھا۔ جو شاہی خاندان کے دور پار کے رشتے داروں میں سے تھا۔ محل کی دنیا کے باسی جانتے تھے کہ آزرمیدخت سیادخش میں جو دلچسپی لیتی ہے وہ عام قسم کی دلچسپی نہیں۔ اُنہیں محل کے باہر جنگل میں بھی اکٹھے دیکھا گیا تھا۔ لیکن کسی نے کبھی اعتراض نہیں کیاتھا۔شہزادی شکار کھیلنے جایا کرتی تھی تو سیادخش بظاہر اتفاق سے اُدھر جا نکلتا تھا ۔یہ شہزادی تخت پر بیٹھی تو اس نے اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک سمجھ لیا۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ سیادخش کو بیشمار جاگیر عطا کر دی اور اسے حکومت میں ایک اونچا رتبہ دے دیا۔ پھر اس نے سیادخش کے خاندان پر نوازشات کا مینہ برسا دیا۔
’’ملکہ عالیہ! ‘‘ایک روز بوڑھے وزیر نے اسے کہا۔’’آپ کو تخت پر اس لیے نہیں بٹھایا گیاتھا کہ تخت خالی نہیں رہنا چاہیے۔ نہ ہی یہ تخت آپ کو ورثے میں ملاہے۔ ہم نے آپ میں کچھ خوبیاں دیکھی تھیں۔ سلطنت کی حالت دیکھیں اور ا س کے مطابق حکم جاری کریں۔سلطنت کو مسلمانوں سے بچانا ہے مگر آپ نے انعام و اکرام کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔‘‘
’’کیا میں خود آگے جا کر لڑوں؟‘‘آزرمیدخت نے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’ ہم نے اتنی بڑی فوج کیوں رکھی ہوئی ہے؟آدھا خزانہ تویہ فوج کھا جاتی ہے۔ آج سے یہ میراحکم ہے کہ قلعے میں یا کسی میدانِ جنگ میں ہماری فوج شکست کھا جائے تو اس کے جرنیل کو یہاں بلا کر قتل کر دیا جائے۔ ہم بزدلوں کا وجود برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ملکہ عالیہ!‘‘ وزیر نے کہا۔’’اگر ہم شکست کھانے کے جرم میں جرنیلوں کو سزائے موت دینے لگتے تو اس وقت تک ہم آدھے سے زیادہ جرنیلوں سے محروم ہو چکے ہوتے……ملکہ عالیہ! جنگ ایک کی جیت اور دوسرے کی ہار پر ختم ہو اکرتی ہے۔ ایک بار ہارا ہو اجرنیل دوبارہ نہیں ہارا کرتا۔ ہمارے جرنیلوں نے رومیوں کو شکستیں دی ہیں۔ آپ کے اس حکم کو کوئی بھی پسند نہیں کرے گا۔ ایک جرنیل کو سزائے موت دینے سے ساری فوج میں بغاوت پھیل سکتی ہے ……آپ جنگ کی صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔‘‘
’’آپ وزیر ہیں۔‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔’’ جنگ کی صورتحال پر آپ نظر رکھیں اور جو فیصلہ آپ سے نہیں ہو سکتا وہ مجھ سے کروائیں۔‘‘
اُدھر مسلمان بڑھے آرہے تھے اِدھر آزرمیدخت سیادخش کے ساتھ عشق و محبت کا کھیل کھیل رہی تھی۔ وہ جوانی کے جذبات سے سرشار ضیافتوں اور شکار کی رسیا ہوتی چلی گئی۔ سیادخش کو اس نے اتنا اونچا رتبہ دے دیا تھا کہ وہ الٹے پلٹے حکم جاری کرنے لگا۔
ایک رات ملکہ ٔعالیہ اکیلی باہر نکل گئی۔ اس کے محافظ دستے کے کمانڈر نے وزیر کے گھر جا کر اسے بتایا کہ وہ ملکۂ عالیہ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتا ۔ وہ اکیلی باہر چلی گئی ہے۔
وزیر گھر سے نکلا۔ اس نے شاہی خاندان کے دو تین آدمیوں کو ساتھ لیا اور اس طرف چلا گیا جس طرف ملکہ عالیہ گئی تھی۔ محل کے قریب ہی ایک بڑی خوبصورت ہری بھری جگہ تھی۔ گھاس مخمل جیسی ملائم تھی۔ چاندنی بڑی شفاف تھی۔ تھوڑی ہی دور سے نسوانی قہقہے سنائی دینے لگے۔
وزیر اور اس کے ساتھی دبے پاؤں جھاڑ پات اور درختوں کی اوٹ میں آگے گئے۔ انہوں نے ملکہ ٔعالیہ اور سیادخش کو فحش حرکات کرتے دیکھا ۔ان سب نے آگے بڑھ کر انہیں گھیرے میں لے لیا۔
’’یہ کیا بد تمیزی ہے؟‘‘آزرمیدخت نے ان سب کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔’’ تمہیں ملکہ کی تنہائی میں مخل ہونے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘
’’اس وقت سے تم ملکہ نہیں ہو۔‘‘ شاہی خاندان کے ایک فرد نے کہا۔’’ اُدھر سلطنت ہاتھ سے نکلی جا رہی ہے اِدھر تم بد کاری میں مگن ہو۔ واپس چلو۔‘‘
’’اگر میں تمہارا حکم نہ مانوں تو……‘‘
’’تو تمہارے ساتھ تمہاری تنہائی کے اس ساتھی سیادخش کو بھی قید میں ڈال دیا جائے گا ۔‘‘وزیر نے کہا۔’’ خاموشی سے تخت سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ تم دونوں کا انجام بہت برا ہو گا۔‘‘
سیادخش وہاں سے کھسک گیا اور آزرمیدخت ان سب کے ساتھ چل پڑی۔
اگلے روز اس خاندان کے ایک اور فرد شاہ پور کو تخت پر بٹھا دیا گیا۔ شاہ پور کو پہلے بھی تخت پر بٹھایا جا سکتا تھا۔ لیکن وہ آگے جا کر لڑنا چاہتا تھا۔ اب آزرمیدخت کے روےّے کو دیکھتے ہوئے تخت نشینی قبول کرلی۔ اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے ایک معتمد اور دانشمند فرخ زاد کو
وزیر بنا دیا۔
’’آزرمیدخت! ‘‘ایک روز شاہ پور نے آزرمیدخت کو بلا کر حکم دیا۔’’ تمہاری شادی نئے وزیر فرخ زاد سے کی جا رہی ہے۔ اگر تمہاری شادی بہت پہلے ہو جاتی تو تم سیادخش جیسے عام سے آدمی کے ساتھ عشق و محبت کا یہ شرمناک کھیل نہ کھیلتیں۔ اب میں تمہیں آزاد نہیں رہنے دوں گا۔‘‘
’’فرخ زاد میری رعایا میں سے ہے۔ ‘‘آزرمیدخت نے کہا۔ ’’وہ میرا ملازم ہے۔ میرا غلام ہے۔‘‘
’’اچھی طرح سن لے شہزادی!‘‘شاہ پور نے کہا۔ ’’تمہاری شادی فرخ زاد سے ہو رہی ہے۔ حکم عدولی کی جرأت تمہیں بڑے بھیانک انجام کو پہنچائے گی۔‘‘
دو چار دنوں کے بعد آزرمیدخت کو فرخ زاد کے ساتھ بیاہ دیا گیا۔
فرخ زاد کوئی جوان آدمی نہیں تھا۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے کچھ کم تھی اور وہ تاریخ کے ایک مشہور جرنیل رستم کا باپ تھا۔
شادی کی پہلی رات فرخ زاد حجلۂ عروسی میں داخل ہوا اور آزرمیدخت کی طرف بڑھا جو دلہن بنی بیٹھی تھی۔
’’میرے قریب نہ آنا۔‘‘ آزرمیدخت نے اسے کہا۔’’ جہاں کھڑے ہو وہیں کھڑے رہو۔‘‘
’’کیا تم ابھی تم اپنے آپ کو ملکہ سمجھ رہی ہو۔ ‘‘فرخ زاد نے کہا۔’’ کم عقل لڑکی!آج سے تم میری بیوی ہو۔‘‘
فرخ زاد آگے بڑھ ہی رہاتھا کہ کمرے کے اندر سے ہی سیادخش جو کہیں چھپا ہوا تھا نکلا۔ وہ عقب سے دبے پاؤں آیا اور فرخ زاد کو کمر سے دبوچ لیا، پھر اسے اٹھا کر پلنگ پر پھینکا۔ اس نے اور آزرمیدخت نے فرخ زاد کو پیٹھ کے بل کرکے ایک تکیہ اس کے منہ پر رکھ کر او پر سے دبا لیا۔ فرخ زاد بڑھاپے میں داخل ہو چکا تھا۔ سیادخش ابھی جوانی کی عمر میں تھا ۔فرخ زاد سانس رکنے سے تڑپا اور کچھ دیر تڑپ تڑپ کر بے حس ہو گیا۔
سیادخش وہاں سے چلا گیا اور آزرمیدخت نے شاہ پور کو اطلاع بھجوائی کہ فرخ زاد حجلۂ عروسی میں مر گیا ہے۔ محل میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ شاہ پور کے پیچھے طبیب دوڑے آئے ۔اس دور میں اس قسم کی موت کا باعث معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، طبیبوں نے کہا کہ فرخ زاد حرکت ِقلب اچانک بند ہونے سے مرا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ بڑھاپا بتائی۔
دو ہی دنوں بعد فارس کا شہنشاہ شاہ پور بھی اسی طرح پراسرار موت کاشکار ہو گیا اور آزرمیدخت نے اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا اور اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ تخت کا کوئی وارث سامنے آئے تو وہ شاہ پور جیسے انجام کو پہنچے گا۔ تب یہ شک ابھرا کہ شاہ پور کو قتل کیا گیا تھا۔
آزرمیدخت نے سیادخش کو وزیر سے بھی اونچا رتبہ دے دیا۔ اس حسین اور عیار عورت نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں سیادخش کے خاندان کو اعلیٰ عہدوں، رتبوں اور جاگیروں سے نوازا تھا، اس خاندان کے کچھ لوگ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے مدائن میں مقیم فوج کو اپنے زیرِ اثر کر لیا اور فوج کو سر سبز باغ دکھا کر سلطنتِ فارس کے بجائے آزرمیدخت اور سیادخش کا وفادار بنا دیا۔ مدائن فارس کا دارالحکومت تھا۔
چند دنوں میں مدائن کی فوج صرف مدائن کی ہو کر رہ گئی۔ اس میں ہزار ہا عیسائیوں کی جبری بھرتی کے ذریعے اضافہ کرلیا گیا۔
پوران دخت ایک اور شہزادی تھی۔ جسے تاریخوں میں اُردشیر کی بیٹی لکھا گیا ہے۔ اس نے فارس کے شاہی خاندان کے درمیان اختلافات اورامراء کی آپس کی عداوت اورتفرقہ بازی ختم کرنے کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ چونکہ وہ نیک طینت عورت تھی اور وہ مفاد پرست نہیں تھی۔ اس لیے ہر کوئی اس کی بات مان لیتا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ اُدھر مسلمان فتح پر فتح حاصل کرتے آرہے ہیں اور مدائن تک کو محاصرے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اِدھرآزرمیدخت نے سلطنت کی تباہی سے نظریں پھیر کر اپنی ذاتی حکومت بنا لی ہے تو وہ آزرمیدخت کے پاس گئی۔
پوران شہزادی نے اسے سمجھانے کیلئے بہت کچھ کہا۔ جو وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
’’کیا تم یہ چاہتی ہو کہ میں تخت سے دستبردار ہو جاؤں؟‘‘ آزرمیدخت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’ کیا اب تم فارس کی ملکہ بننا چاہتی ہو؟کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اس تخت نے کتنی جانیں لے لی ہیں؟‘‘
’’نہیں ملکۂ فارس!‘‘ پوران نے کہا۔’’ سوال تخت کا نہیں، اب تو سلطنتِ فارس کی بقا اور سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ تخت پر آپ ہی بیٹھی رہیں لیکن اہم امور کے فیصلے تجربہ کار مشیروں اور امراء کو کرنے دیں۔‘‘
’’میری بات غور سے سن لو پوران!‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔’’ آج کے بعد میرے سامنے نہ آنا……میں ملکہ ہوں۔ سلطنت کے بھلے برے کو میں تم سے زیادہ بہتر سمجھتی ہوں۔ تم جن کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہو انہیں میں اچھی طرح جانتی ہوں ۔اس پندو نصیحت سے باز آجاؤ۔‘‘
’’میں پندونصیحت سے باز آجاؤں گی۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ لیکن سلطنتِ فارس کو خطرے سے بچانے کیلئے نہ جانے کیا کر گزروں گی ۔ میں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ اس تخت نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی، اور یہ بھی سوچ لو کہ فارس ہی نہ رہا تو کیا مسلمان آپ کو تخت پر بٹھائیں گے؟‘‘
’’مسلمان مدائن کو فتح نہیں کر سکتے۔‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔’’ اور کوئی مجھے اس تخت سے اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا۔‘‘
’’ایسے جرأت مند لوگ موجود ہیں ملکہ!‘‘پوران نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’مجھے ایک بار تخت سے اُٹھا کر شاہ پور کو بٹھایا گیا تھا ۔‘‘ آزرمیدخت نے کہا۔ ’’کہاں ہے شاہ پور؟……مجھے مجبور اور بے بس کرنے کیلئے فرخ زاد کی بیوی بنا دیا گیا تھا۔ فرخ زاد کسریٰ کے خاندان کا فرد نہیں تھا، وہ شاہی خاندان کا ملازم تھا۔ میں اسے اپنا غلام سمجھتی تھی۔ میں اپنے غلام کی بیوی کیسے بن جاتی؟ میں نے شادی کی پہلی ہی رات اس کو اس کی زندگی کی آخری رات بنا دیا……اس تختِ طاؤس پر جو کوئی ہاتھ ڈالے گا وہ ان دونوں کے انجام کو پہنچے گا۔‘‘
پوران کو پہلے ہی شک تھا کہ فرخ زاد حرکت قلب بند ہونے سے نہیں مرا بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ اب آزرمیدخت کی باتوں سے یہ شک یقین میں بدل گیا۔
فارس کا مشہور و معروف جرنیل رستم فرخ زاد کا بیٹا تھا۔ اسے یہی بتایا گیا تھا کہ اس کے باپ کی موت حرکتِ قلب بند ہونے سے واقع ہوئی تھی۔ وہ اس کو سچ مانتا رہا ۔وہ اس وقت خراسان کی سرحد پر تھا۔ ایک روز مدائن کا ایک گھوڑ سوار اس کے پاس سرحد پر پہنچا اور اسے پوران کا تحریری پیغام دیا۔ اس میں پوران نے مدائن کے حالات اور آزرمیدخت کی فرعونیت کی تفصیل لکھی اور پھر لکھا:
’’……آپ کے والد فرخ زاد کی موت طبعی نہیں تھی۔ میں نے محل کے ملازموں سے جو سراغ حاصل کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے والد کو آزرمیدخت اور سیادخش نے شادی کی پہلی رات ان کا سانس روک کر قتل کیا تھا اور شاہ پور کو بھی ان دونوں نے قتل کیا تھا۔ آزرمیدخت نے مجھے کہا ہے کہ اس کے تخت پر جو کوئی بھی ہاتھ ڈالے گا، وہ ان دونوں کے انجام کو پہنچے گا……آپ پر دو فرائض عائد ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ اپنے والد کے قتل کا انتقام لینا ہے اور دوسرا فرض سلطنت ِفارس کی عظمت کا تحفظ کرنا ہے۔ میں بتا چکی ہوں کہ آزرمیدخت اور سیادخش نے اپنا لشکر تیار کر رکھا ہے۔ جب بھی آئیں اکیلے نہ آئیں۔ پوری فوج ساتھ لائیں۔ آپ کو لڑائی لڑنی پڑے گی۔‘‘
رستم نے جب یہ پیغام پڑھا تو بگولے کی طرح اُٹھا ۔اس نے کچھ سوار دستے منتخب کئے اور کہا:
’’باہر کے دشمن کی نسبت اندر کا دشمن زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے ۔ خطرہ جو اپنے گھر سے اٹھتا ہے وہ باہر کے خطرے سے زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ حکمرانی کے ہوس کار اپنے ہی ملک کو تباہ کر دیا کرتے ہیں۔ ہم اپنے ان ساتھیوں اور بھائیوں سے لڑنے جا رہے ہیں جو فارس کی اتنی بڑی شہنشاہی کیلئے خطرہ بن گئے ہیں ۔ تمہیں اپنی ہی فوج کے خلاف لڑنا ہو گا۔‘‘
رستم ان دستوں کو ساتھ لے کر چل پڑا۔ اس کی پیش قدمی بہت ہی تیز تھی ۔ کسی ذریعے سے آزرمیدخت اور سیادخش کو پتا چل گیا کہ رستم ان کے خلاف فوج لا رہا ہے۔ آزرمیدخت نے مدائن کی فوج کے چند دستے رستم کو روکنے کیلئے مدائن سے کچھ دور بھیج دیئے۔ رستم تیز و تند آندھی کی طرح آرہا تھا۔اس نے اپنے دستوں سے کہا کہ مدائن کی فوج کا ایک بھی آدمی واپس نہ جائے۔
رستم نے اپنے دستوں کو پہلے ہی مشتعل کر رکھا تھا ۔ ان سوار دستوں نے پھیل کر مدائن کی فوج کو گھیرے میں لے لیا۔رستم نامور اور تجربہ کار جرنیل تھا ۔ اس کی جارحانہ قیادت نے آزرمیدخت کے دستوں کو بے بس کر دیا۔ معرکے میں بہت خونریزی ہوئی ۔ آخر رستم کی فوج نے آزرمیدخت کی فوج کو کاٹ کر ڈھیر کر دیا۔
پھر رستم نے مدائن کو محاصرے میں لے لیا۔ مدائن کی فوج نے محاصرہ توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن محاصرہ کرنے والوں کا قائد رستم تھا۔ شہر کے اندر پوران شہزادی موجود تھی اور آزرمیدخت اور سیادخش کے مخالف امراء بھی موجود تھے۔ انہوں نے کوئی ایسا خفیہ انتظام کیا کہ ایک دروازہ کھول دیا گیا۔ رستم کے دستوں کیلئے یہی کافی تھا۔ سوار اس دروازے سے شہر میں داخل ہو گئے اور ایک اور دروازہ کھل گیا۔
شہر کے اندر لڑائی شروع ہوئی تو پوران اور ا س کے حامی امراء گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر میں بھاگنے دوڑنے لگے ۔رستم بھی اندر آگیا۔ یہ سب چلّا چلّا کر کہہ رہے تھے:
’’آپس میں نہ لڑو۔‘‘
’’تم بھائی بھائی ہو، ایک دوسرے کا خون نہ بہاؤ۔‘‘
’’انہیں قتل کروجو تمہیں لڑا رہے ہیں۔‘‘
’’تباہ ہو جاؤ گے ۔اپنی بہنوں کو بیوہ نہ کرو۔‘‘
اس طرح اعلان کر کر کے اس خانہ جنگی پر قابو پا لیا گیا۔ آزرمیدخت اور سیادخش کو اس وقت پکڑ لیا گیا جب وہ بھاگے کی کوشش کر رہے تھے۔ رستم نے تمام فوج کو ایک جگہ اکٹھا کر کے آزرمیدخت اور سیادخش کو ایک چبوترے پر کھڑا کیا اور فوج کے دونوں دھڑوں کو بتایا کہ ان دونوں نے کس طرح تخت و تاج کے لالچ میں بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا۔
رستم نے ساری روداد سنا کر سیادخش کو آگے کیا اور اپنی تلوار سے اس کا سر تن سے جدا کر دیا پھر جلّاد کو بلا کر کہا گیا کہ آزرمیدخت کی آنکھیں نکال کر اسے شہر سے نکال دیا جائے۔
دو سپاہیوں نے آزرمیدخت کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور جلّاد نے خنجر کی نوک سے اس کی دونوں آنکھیں نکال دیں۔ اس کے بعد وہ تاریخ سے ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی۔
رستم نے امراء سے صلاح مشورہ کرکے اسی وقت اعلان کر دیا کہ آج سے پوران ملکہ فارس ہے۔ وہیں تاج پوشی کی مختصر سی رسم ادا کرکے پوران نے اسی وقت شاہی فرمان جاری کر دیا کہ آج سے رستم ہی وزیر ہے اوررستم ہی تمام افواج کا کمانڈر انچیف ہے اور سلطنت کے اہم امور کے فیصلے رستم ہی کیا کرے گا ۔ پوران نے یہ بھی کہا کہ یہ فرمان رعایا کے ہر گھر اور ہر فرد تک پہنچا دیاجائے کہ فارس کے ہر فرد پر رستم کی اطاعت فرض کر دی گئی ہے اور ہر فرد و بشر پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ سلطنتِ فارس کو مسلمانوں سے بچانے کیلئے اپنے مال اور اپنی جانیں قربان کر دے۔
جس وقت آزرمیدخت نے فرخ زاد اور شاہ پور کو قتل کرکے تخت پر قبضہ کر لیااور مدائن میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کر دیئے گئے تھے۔ اس وقت تاریخِ اسلام کے مشہور سالار مثنیٰ بن حارثہ فارس کے ایک بڑے شہر حیرہ میں تھے۔ جاسوسوں نے انہیں فارس کے دارالحکومت کے یہ حالات سنائے۔ وہ خلیفہ اول حضرت ابو بکرؓ کا دور تھا ۔ سالار مثنیٰ مدینہ گئے اور حضرت ابو بکرؓ کو فارس کی اندرونی تفرقہ بازی کی تفصیل سناکر فارس پر حملے کی اجازت طلب کی۔
وہ حضرت ابو بکرؓ کی زندگی کے آخری دن تھے۔ انہوں نے خالد ؓبن ولید کو عراق سے شام بھیج دیا کیونکہ وہاں کے محاذ پر مسلمانوں کی پوزیشن کچھ کمزور ہو گئی تھی ۔ ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ مثنیٰ کو زیادہ سے زیادہ آدمی اکٹھے کر کے دو۔ اس کے فوراً بعد ابو بکرؓ انتقال فرما گئے‘ اور حضرت عمر ؓخلیفہ بنے۔
اس داستان کے ابتدائی ابواب میں بیان ہو چکا ہے کہ حضرت عمر ؓاور مثنیٰ بن حارثہ نے کس طرح لوگوں کو عراقی محاذ پر جانے کو کہا تھا اور لوگوں کا رد عمل کتنا سرد سا تھا ۔آخر ابو عبید اٹھے اور کہا کہ وہ مثنیٰ کے ساتھ جائیں گے ۔اس کے بعد رضا کار اپنے آپ کو پیش کرنے لگے اور جب مثنیٰ بن حارثہ مدینہ سے محاذ کو چلے تو ان کے ساتھ ایک ہزار رضاکار مجاہدین تھے۔ راستے میں رضاکار ان کے ساتھ ملتے رہے اور تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی۔ جب مثنیٰ محاذ پر پہنچے تو ان کے ساتھ جو مجاہدین تھے ان کی تعداد دس ہزار تھی۔
پوران کے تخت نشین ہوتے ہی رستم نے فارس کے تمام امراء اور سارے ملک کے بڑے بڑے جاگیرداروں کو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز پیغام بھیجے ۔اس نے سب کو لکھا کہ اپنی جاگیروں کو اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچانا چاہتے ہو تو لڑنے والے جس قدر آدمی اکٹھے کر سکتے ہو اُنہیں فوج میں لاؤ اور مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دو۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رستم کے اس پیغام نے فارس کے دور دراز کونوں کھدروں سے بھی لوگوں میں قومی غیرت مندی کو آگ لگا دی۔ لڑنے والے آدمی ٹولیوں کی شکل میں مدائن میں پہنچنے لگے۔ رستم مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس نے مدائن سے مسلمانوں کے خلاف دو لشکر بھیجے۔ ایک کا کمانڈر جابان تھا ۔اسے رستم نے کہا تھا کہ دریائے فرات کے کنارے کنارے جائے اور حیرہ پہنچے جو اس وقت مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔
دوسرے لشکر کا کمانڈر نرسی تھا ۔اسے حکم دیا گیا تھا کہ فرات اور دجلہ کے درمیانی علاقے کے ایک مقام کسکر جاکر اگلے حکم کا انتظار کرے۔
اس وقت ابو عبید دس ہزار مجاہدین کے ساتھ ایک مقام خفان تک پہنچ گئے۔ انہیں اطلاع دی تھی کہ فارسیوں کا ایک لشکر فرات کے کنارے کنارے حیرہ کی طرف آ رہا ہے۔ ابو عبید نے اپنے مجاہدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیشتر اس کے کہ دشمن حیرہ تک پہنچے ہم اسے راستے میں ہی روک لیں گے۔ ابو عبید نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور دس ہزار مجاہدین کو لے کر چل پڑے۔
حیرہ اور قادسیہ کے درمیان ایک مقام غارق کے قریب مجاہدین نے جابان کے لشکر کو روک لیا۔ یہ ایک خونریز لڑائی تھی۔ ابو عبید کو جنگی قیادت کا اتنا تجربہ تو نہ تھا لیکن اس نے ذرا سی بھی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کیا اور اپنے دس ہزار کے لشکر کو ایسی اچھی طرح تقسیم کرکے لڑایا کہ فارسیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ فارسیوں میں مسلمانوں کی دہشت تو پہلے ہی موجود تھی۔ مجاہدین ایسی بے جگری سے لڑے کہ دشمن غیر منظم ہو کر پسپا ہونے لگا۔
رستم کا یہ لشکر اپنی بے شمار لاشیں اور تڑپتے ہوئے زخمی پیچھے چھوڑ کر ایسا بکھرا کہ مجاہدین نے فارسی کمانڈر جابان اور ا س کے نائب مروان شاہ کو پکڑ لیا۔ مروان شاہ نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے گرفتار کرنے والے نے وہیں قتل کر دیا۔
جس مجاہد نے جابان کو پکڑا تھا۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ یہ فارس کی فوج کا جرنیل ہے۔
’’میرے عرب دوست!‘‘ جابان نے مجاہد سے کہا۔’’
۔’’ مجھے پکڑ کر کیا کرو گے۔ میں بوڑھا آدمی ہوں۔ آؤ‘ میں تمہیں دو جوان جنگی قیدی دوں گا۔ یہ دو بڑے قیمتی غلام ہوں گے اور میں تمہیں کچھ قیمتی چیزیں دوں گا۔‘‘
’’غلام اور قیمتی چیزیں کہاں ہیں؟‘‘ مجاہد نے پوچھا۔
’’میں یہ تمہارے حوالے کروں گا تو مجھے آزاد کرنا۔‘‘ جابان نے کہا۔’’ لیکن وعدہ کرو کہ غلام اور قیمتی اشیاء لے کر مجھے آزاد کر دو گے۔‘‘
جاری ہے....

Post a Comment

Previous Post Next Post