حجاز کی آندھی Hijaz Ki Aandhi 10

حجاز کی آندھی

(عنایت اللہ التمش)
قسط نمبر 10

’’میں عرب ہوں اور مسلمان ہوں۔‘‘ مجاہد نے کہا۔’’ میں وعدہ خلافی نہیں کر سکتا۔ میرے سپہ سالار کے پاس چل کر میرے ساتھ معاملہ طے کر لو۔‘‘
جابان مان گیا۔مجاہد اسے ابو عبیدکے پاس لے گیا، اور بتایا کہ یہ قیدی اپنی رہائی کے عوض کیا پیش کررہا ہے۔
’’یہ کوئی سپاہی نہیں۔‘‘ ایک مجاہد نے اسے پہچانتے ہوئے کہا۔’’ یہ فارسی فوج کا سپہ سالار ہے ۔ میں اسے قتل کرنے گیا تھا لیکن یہ بچ نکلا۔ اسے قتل کر دو۔‘‘
’’ٹھہرو!‘‘ابو عبید نے کہااور جابان کو پکڑنے والے مجاہد سے پوچھا۔ ’’کیا تو نے اسے دو جوان جنگی قیدیوں اور کچھ قیمتی اشیاء کے عوض آزاد کر دینے کا وعدہ کیا تھا؟‘‘
’’ہاں سپہ سالار!‘‘ مجاہد نے جواب دیا۔’’ِؒمیں نے وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’پھر اسے قتل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ ایک مسلمان اس کی جان بخشی کر چکا ہے……اسے لے جاؤ۔ اس سے اپنا عوضانہ لو اور اسے آزاد کر دو۔ مسلمان کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔‘‘
اس طرح فارس کا ایک تجربہ کار جرنیل آزاد ہو گیا۔
’’حجاز کی آندھی‘‘ پارٹ تھری
فارس کے دارالحکومت مدائن کے محل کے ایک کمرے میں فارس کا نامور جرنیل رستم تیز تیز ٹہل رہا تھا۔ وہ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک جاتا اور واپس آجاتا تھا۔ کبھی چلتے چلتے رک جاتا اور ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر مارتا۔ کبھی رک کر سر جھکا لیتا۔ کسی سوچ میں محو ہو جاتا اور اچانک چل پڑتا ۔ اس کے انداز میں عتاب تھا۔
اس کی رہائش شاہی محل سے کچھ دور تھی۔ تفصیل سے پڑھئے
وہ بھی ایک محل تھا لیکن ملکہ ٔفارس پوران شہزادی کے کہنے پر وہ شاہی محل میں آگیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ عرب اور فارس خونریز اور بڑی ہی شدید جنگ میں الجھے ہوئے تھے اور یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی تھی۔ فیصلہ فارس کے خلاف ہوتا نظر آتا تھا۔ کسی بھی لڑائی میں فارس کی فوج مسلمانوں کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکی تھی۔ پوران نے اسے کہا تھا کہ محاذوں سے قاصد آتے ہیں تو پہلے تہارے پاس آتے ہیں ‘پھر تم میرے پاس آتے ہو۔
’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم اکٹھے رہیں؟‘‘ پوران نے رستم سے کہا تھا۔’’ تمہاری طرح میں بھی راتوں کو سو نہیں سکتی۔ جنگ کی اگلی خبر کے انتظار میں جاگتی رہتی ہوں۔‘‘
’’ہاں ملکۂ فارس !‘‘رستم نے کہا تھا۔’’ یہی بہتر ہے کہ ہم اکٹھے رہیں…… ہم اس رات چین کی نیند سوئیں گے جس رات ہمیں یہ اطلاع ملے گی کہ آخری مسلمان کا خون سر زمینِ فارس پر بہا دیا گیا ہے۔‘‘
’’ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔‘‘ پوران نے جذباتی سے لہجے میں کہا تھا۔’’ اور کیا تم ضروری سمجھتے ہو کہ مجھے ملکہ ٔفارس کہو؟ پوران کہا کرو۔ ہم دونوں کا جذبہ ایک ہے۔ فارس جتنا میرا ہے اتنا ہی تمہارا ہے۔‘‘
رستم نے اس کی طرف دیکھا ‘بولا وہ کچھ بھی نہیں تھا۔
پوران نو خیز لڑکی نہیں تھی۔ جوانی کے آخری حصے میں تھی۔ لیکن بادشاہ کی بیٹی تھی اس لیے عمر سے کم لگتی تھی اور وہ فارس کے حسن کا نمونہ تھی۔ اس کے دل میں عربی مسلمانوں کی نفرت اور فارس کی محبت اتنی زیادہ تھی کہ وہ بھول ہی جاتی تھی کہ وہ حسین اور دلکش عورت ہے۔


اس روز جب رستم محل کے ایک کمرے میں غصے اور تفکر کی کیفیت میں ٹہل رہا تھا، اس وقت پوران مدائن کی شہرِ پناہ پر کھڑی اس طرف دیکھ رہی تھی۔ جدھر سے قاصد آیا کرتے تھے۔
’’ملکۂ فارس!‘‘اسے اپنے عقب میں آواز سنائی دی۔
اس نے گھوم کر دیکھا۔ اس کے قریب قلعدار کھڑا تھا۔
’’اگر ملکہ قاصد کے انتظار میں ہیں تو نیچے چلی جائیں۔ ‘‘قلعدار نے کہا۔’’ قاصد آچکا ہے اور وہ سیدھا رستم کے پاس گیا تھا۔‘‘
’’رستم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ پوران نے کہا۔
’’اس سوال کا جواب میں کیسے دے سکتا ہوں ملکہ معظمہ! ‘‘قلعدار نے کہا ۔’’ میں بھی رستم کے پائے کا جرنیل ہوں۔ محاذ سے آنے والے قاصد کو دور سے دیکھ کر بتا سکتا ہوں کہ یہ اچھی خبر لا رہا ہے یا بری۔ میں نے اس قاصد کو دیوار کے اوپر سے دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ اور اس کے گھوڑے کی چال بتا رہی تھی کہ خبر اچھی نہیں۔‘‘
’’خبر جو بھی آتی ہے اچھی نہیں ہوتی۔‘‘ پوران نے اپنے آپ سے بات کرنے کے انداز سے کہا اور دوڑتی ہوئی شہرِ پناہ سے اتر گئی۔
نیچے اس کا گھوڑا کھڑا تھا ۔وہ گھوڑے پر سوا ر ہوئی اور ایڑ لگا دی.
رستم نے دربان کو بلایا۔
’’جالینوس سے کہو فوراً میرے پاس آئے۔‘‘ رستم نے دربان کو حکم دیا۔
دربان باہر نکلا تو کچھ ہی دیر بعد دروازہ بڑی زور سے کھلا۔ رستم کمرے میں کھڑا تھا اور دروازے کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔
’’آگئے جالینوس! ‘‘رستم نے دروازے کی طرف گھومے بغیر کہا۔ ’’جابان کی خبر سن لی تم نے؟ـ‘‘
’’میں خبر سننے ہی آئی ہوں رستم!‘‘


رستم تیزی سے گھوما۔ جالینوس کے بجائے اس کے سامنے پوران کھڑی تھی۔
’’تمہارا چہرہ بتا رہا ہے خبر اچھی نہیں۔‘‘ پوران نے کہا۔ ’’اسی لیے تم نے مجھے ابھی تک بے خبر رکھا ہے ۔ ‘‘پوران نے رستم کی کمر میں بازو ڈال کر اسے بٹھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارے چہرے پر شکست کا تاثر نہیں دیکھ سکتی……کیا خبر آئی ہے؟‘‘
’’جابان اور مروان شاہ نے سلطنتِ فارس کی بنیادیں ہلا ڈالی ہیں۔‘‘ رستم نے شکست خوردہ نہیں بلکہ غصیلے لہجے میں کہا۔ ’’دونوں نے مسلمانوں سے ایسی شکست کھائی ہے کہ مروان شام کو مسلمانوں نے پکڑ لیا تھا۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی تو اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘
’’اور جابان؟‘‘
’’وہ زندہ ہے۔‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ قاصد نے بتایا ہے کہ جابان بھی پکڑا گیا تھا لیکن انہیں ایک دھوکا دے کر زندہ واپس آگیا ہے……اگر مروان شاہ اور جابان جیسے جرنیل شکست کھا گئے تو کیا میں خود اآگے چلا جاؤں؟‘‘
’’نہیں رستم!‘‘ پوران نے ا س کے گلے میں بازو ڈال کر اور اپنا ایک رخسار رستم کے گال سے لگا کر کہا۔’’ تم ساری فوج کے قائد ہو۔ سلطنت کے تمام اہم امور کے بھی تم ہی ذمہ دار ہو۔ تم یہاں بیٹھ کر جرنیلوں کو لڑاؤ۔‘‘
پوران کے ریشم جیسے ملائم بال رستم کے چہرے کو مس کر رہے تھے۔ رستم اٹھ کھڑا ہوا۔
’’مجھے اپنے حسن سے مسحورکرنیکی کوشش نہ کرو پوران!‘‘ رستم نے غصیلی سنجیدگی سے کہا۔’’ مجھے اس کیفیت میں ہی رہنے دو جو مجھ پر طاری ہے۔‘‘
’’میں تمہارا غصہ کم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ میں تمہیں سکون دینے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کیا سلطنتِ فارس کے متعلق میرے جذبات سے تم واقف نہیں ہو؟ میں نے اپنی زندگی اور اپنا سب کچھ فارس کی سلطنت کیلئے وقف کر دیا ہے……ان باتوں کو چھوڑو رستم! اب یہ سوچو کہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں، یا ہماری فوج میں کوئی ایسی خامی ہے جو ہمارے جرنیلوں کو مسلمانوں کے آگے ٹھہرنے نہیں دیتی۔ میں تو یہ سنتی ہوں کہ مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابلے میں بہت ہی کم ہوتی ہے۔ پھر ہر میدان میں فتح یاب کیوں ہوتے ہیں؟‘‘
’’اس لیے کہ وہ خوبصورت عورتوں کے گالوں اور ریشمی بالوں سے سکون حاصل نہیں کرتے۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ وہ شراب کی صراحیاں خالی کر کے اپنی شکست کو بھولنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ محلات میں نہیں رہتے۔ معلوم نہیں ان کا مذہب سچا ہے یا نہیں لیکن وہ اپنے عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘
’’میں تو یہ سمجھی ہوں کہ مسلمانوں کی قیادت مستحکم اور پر عزم ہے۔‘‘ پوران نے کہا۔’’ میں نے سنا ہے کہ ان کا نیا خلیفہ انقلابی ذہن کا آدمی ہے۔ کیا نام ہے……‘‘
’’عمر بن الخطاب!‘‘رستم نے کہا۔’’ ہمارے جاسوس مدینہ میں موجود ہیں۔ وہ یہودی ہیں اور مدینہ کے اردگرد دو چارعیسائی بھی ہیں۔وہ باقاعدہ خبریں بھیج رہے ہیں۔‘‘
’’ان خبروں سے تم نے کیا حاصل کیا ہے؟‘‘پوران نے پوچھا۔


’’میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ مسلمان عقیدے کے پکے ہیں۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ یہودیوں نے اپنی بڑی ہی حسین لڑکیوں کو استعمال کرکے دیکھ لیا ہے لیکن ناکام رہے۔ اُدھر ہمارے سپاہی سے سالار تک کا یہ حال ہے کہ عیاشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے……مجھے مدینہ سے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ مسلمانوں کا ایک عقیدہ یہ بھی ہے کہ کسریٰ پرویز نے ان کے رسول )ﷺ(کا پیغام پھاڑ کر اس کے ٹکڑے بکھیر دیئے تھے ۔اس لیے سلطنت ِفارس اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گی……میں یہ سمجھا ہوں کہ ان کا نیا خلیفہ عمر اپنے رسول)ﷺ( کے پیغام کی توہین کا بدلہ لے رہا ہے۔‘‘
’’اور وہ کامیاب بھی ہے۔‘‘ پوران نے کہا۔
’’ہاں پوران!‘‘ رستم نے کہا۔’’ ابھی عمر کو کامیابی کی خبریں مل رہی ہیں۔ ہمارا ہر حربہ نا کام ہو رہا ہے۔ یہودیوں نے مسلمان تاجروں کے روپ میں مدینہ سے دور دراز کے علاقوں کے مسلمانوں کو فارس کی جنگی طاقت سے اتنا ڈرا دیا تھا کہ وہ عراق کا نام بھی نہیں لیتے تھے۔ مجھے یہ بھی اطلاع ملی تھی کہ ہماری فوج کی دہشت مدینہ کے لوگوں پر بھی طاری ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ خلیفہ کے اپنے حلقے کے آدمیوں نے عراق کے محاذ پر آنے کی ہامی نہیں بھری تھی۔ مسلمانوں کی باقاعدہ فوج نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً بھرتی کر لیں۔ وہ رضاکارانہ طور پر ایک لشکر کی صورت میں منظم ہو جاتے ہیں اور اپنے امیر اور سپہ سالار کی حکم عدولی کو گناہ سمجھتے ھیں
ان کے خلیفہ عمر نے ہمارے خلاف لڑنے کیلئے رضا کار مانگے تو کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ آخر ایک شخص جس کا نام ابو عبید ہے اٹھا ‘اور اپنے آپ کو محاذ کیلئے پیش کیا اس کے بعد رضاکار آگے آنے لگے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کو ہمارے جنگی ہاتھیوں سے ڈرایا تھا ۔انہوں نے مسلمانوں کو ہاتھیوں کی ایسی خوفناک باتیں بتائی تھیں کہ یہ یقین ہو گیا تھا کہ خلیفہ ہمارے خلاف کوئی اور لشکر تیار نہیں کر سکے گا۔ لیکن ان کا جو لشکر آیا، اس کی تعداد دس ہزار تھی۔ اس کا سالار ابو عبید ہے ۔ اس نے پہلی لڑائی میں ہی ہمارے دو جرنیلوں کو ایسی بری شکست دی کہ دونوں کو پکڑ لیا اور ایک کو قتل کر دیا۔‘‘
’’اب تم نے کیا سوچا ہے۔‘‘ پوران نے پوچھا۔


’’جالینوس کو بلایا ہے۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ وہ آگیا ہو گا۔‘‘
رستم باہر نکلا ۔ فارس کی فوج کا ایک نامور جرنیل تاریخ میں جس کا نام جالینوس لکھا گیا ہے۔ باہر کھڑا تھا۔ رستم اسے اندر لے آیا۔
’’جالینوس!‘‘رستم نے اس سے پوچھا۔’’ کیا تم نے نمارق کی لڑائی کا انجام سن لیا ہے؟‘‘
’’سن لیا ہے۔‘‘ جالینوس نے کہا۔’’ میں نے قاصد سے پوچھا تھا ۔ تفصیلات کا علم نہیں۔‘‘
’’تفصیلات سن کر کیا کرو گے؟‘‘رستم نے بے دلی سے کہا۔’’ مروان مارا گیا ہے اور جابان کسی طرح جان بچا کر عربوں کی قید سے نکل آیا ہے ۔ ان دونوں کے دستوں کے بچے کچھے آدمی کسکر جا پہنچے ہیں۔ جہاں اپنے جرنیل نرسی کا لشکرخیمہ زن ہے۔ تم فوراً کچھ دستے ساتھ لو۔ سوار دستے ساتھ لے جانا۔‘‘
’’جالینوس!‘‘ ملکۂ فارس نے کہا۔’’ جنگ کے متعلق تمہیں رستم ہدایات اور احکامات دے گا۔میں صرف یہ کہوں گی کہ فارس ایک اور شکست کا متحمل نہیں ہو سکے گا۔ ہم تو مسلمانوں کو ختم کرنے کا عہد کیے ہوئے تھے لیکن فارس کو بچانا مشکل نظر آنے لگا ہے۔‘‘
’’آپ اب اچھی خبر ہی سنیں گی ملکۂ فارس!‘‘ جالینوس نے کہا۔’’ زرتشت کی قسم!پہلی شکستوں کا بھی انتقام لوں گا۔‘‘
جالینوس نے اپنے دستوں کو تیار کیا۔ مدائن پر خوف و ہراس طاری تھا۔ فارس کے اس مرکزی شہر کے لوگوں کے کانوں میں یہی ایک آواز پڑتی تھی کہ آج فلاں جگہ سے فوج بھاگ آئی ہے اور آج مسلمان فلاں شہریا فلاں قصبے پر قابض ہو گئے ہیں۔ ان شہروں اور قصبوں سے لوگ بھاگ کر مدائن پہنچ رہے تھے۔ اب شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ مروان شاہ اور جابان بھی شکست کھا گئے ہیں اور جالینوس آگے جا رہا ہے۔
مدائن کی گلیوں میں مجذوب سا ایک آدمی اوٹ پٹانگ بولتا اکثر نظر آیا کرتا تھا۔ لوگ اسے کھانے کیلئے کچھ دے دیا کرتے تھے۔ جب جالینوس کمک کے دستے تیار کروا رہا تھا یہ مجذوب شہر کے ایک دروازے سے باہر نکلا۔وہ حسبِ معمول کبھی اونچی کبھی دھیمی آواز میں کچھ نہ کچھ بولتا جا رہا تھا۔ کسی نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ وہ شہر سے کچھ دور چلا گیا۔
آگے زمین نشیبی تھی اور درخت خاصے زیادہ تھے۔ مجذوب نشیب میں اتر گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔
’’آجا ! آجا!‘‘اسے آواز سنائی دی۔’’ جلدی آ۔‘‘


یہ ایک آدمی کی آواز تھی جو ایک گھوڑے کی لگام پکڑے ایک گھنے جھنڈ میں کھڑا تھا۔ اُسے دیکھتے ہی مجذوب دوڑتا ہوا اس تک پہنچا۔
’’سوار ہو جاؤ اور نظر نہ آؤ۔‘‘ گھوڑے والے نے کہا۔’’ ابو عبید نمارق میں ہو گا۔ اسے یہاں کی پوری اطلاع دو۔ تم نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔‘‘
’’کچھ اور بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ مجذوب نے کہا۔’’ مجھے جالینوس کی کمک سے بہت پہلے ابو عبید تک پہنچنا ہے……اﷲ حافظ! ‘‘اور مجذوب نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔
وہ کوئی مجذوب نہیں بلکہ ایک ذہین اور دماغی لحاظ سے چاک و چوبند رہنے والا عربی مسلمان اشعر بن اوصامہ تھا۔ خالدؓ بن ولید نے جہاں فنِ حرب و ضرب اور جنگی قیادت میں ایسامقام پیدا کیا تھا کہ دشمنوں نے بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کیا تھا وہاں جاسوسی کا ایک ایسانظام قائم کیا تھا کہ دشمن کی نقل و حرکت کا انہیں خاصاقبل از وقت علم ہو جاتا تھا۔ انہوں نے خصوصی طور پر عقلمند اور جانباز قسم کے جاسوس دشمن کے شہروں میں بھیج دیئے تھے۔
اشعر بن اوصامہ انہی جاسوسوں میں سے تھا جو مجذوب اور پاگل بن کر مدائن میں کبھی داخل ہوا تھا۔ شہر والے اسے روز ہی کہیں نہ کہیں بیٹھا ، کھڑا یا چلتا پھرتا اور کچھ نہ کچھ بولتا دیکھتے تھے۔ لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا تھا کہ رات کو وہ کہاں غائب ہو جاتا ہے۔ وہ راتیں ایک عراقی عیسائی کے گھر میں گزارتا تھا۔ یہ عیسائی دراصل عرب تھا اور مدائن میں جا کر آباد ہو گیا تھا۔ اس کی ہمدردیاں عربوں کے ساتھ تھیں ۔اس کے علاوہ مسلمان جاسوسوں کو اپنی پناہ میں رکھنے اور اُنہیں معلومات فراہم کرنے کا اسے معاوضہ ملتا تھا۔
جالینوس ابھی اپنے دستوں کے ساتھ مدائن سے نہیں نکلا تھاکہ اشعر بن اوصامہ سپہ سالار ابو عبید کے پاس پہنچ گیا۔ابو عبید پاگلوں جیسے حال حلیے کے اس آدمی کو دیکھ کر حیران ہوا کہ اتنی اچھی نسل کا اور اتنا تندرست و توانا گھوڑا کہاں سے لایا ہے۔
’’میرا نام اشعر بن اوصامہ ہے۔‘‘ اس نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔’’ مدائن سے آرہا ہوں۔جاسوسی کیلئے کچھ عرصہ وہیں رہا۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ ابو عبید نے کہا ۔’’میں مان نہیں سکتا کہ تم جیسا آدمی جاسوس ہو سکتا ہے……کیا کسی سالار کو جانتے ہو؟‘‘
’’اگر مثنیٰ بن حارثہ یہاں موجود ہیں تو وہ مجھے پہچان لیں گے۔‘‘ اشعر نے کہا۔


مثنیٰ بن حارثہ ابو عبید کے ماتحت سالار تھے۔ اُنہیں بلایا گیا۔ انہوں نے اشعر کو پہچان لیا اور ابو عبید کو بتایا کہ یہ اپنا ہی آدمی ہے۔
’’اب میری بات سنیں۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’ آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں کسکرایک مقام ہے جسے سقاطیہ بھی کہتے ہیں ۔فارس کی فوج کے بہت سے دستے وہاں قیام کیے ہوئے ہیں۔ آپ نے جن دستوں کو شکست دی ہے ان کے بھاگے ہوئے آدمی سقاطیہ چلے گئے ہیں۔ وہاں کے جرنیل کا نام نرسی ہے۔رستم اس کیلئے کمک بھیج رہا ہے ۔میرے حساب کے مطابق نرسی تک یہ کمک چارروز بعد پہنچے گی۔‘‘
اشعر بن اوصامہ نے ابو عبید اور مثنیٰ کو بتایا کہ جالینوس کتنی کمک لا رہا ہے۔
ابو عبید کیلئے یہ اطلاع بڑی قیمتی تھی۔
’’ابنِ حارثہ!‘‘ ابو عبید نے مثنیٰ سے کہا۔’’ جو تجربہ اب تک تجھے حاصل ہو چکا ہے وہ مجھے حاصل نہیں ۔لیکن ہم جالینوس کی کمک سے پہلے سقاطیہ پہنچ جائیں تو خدا کی قسم‘ ہم فارسیوں کی کمر توڑ ڈالیں گے۔‘‘
’’اﷲ کا نام لے ابو عبید!‘‘ مثنیٰ نے کہا۔’’ فوراً کوچ کا حکم دے، تو نے امیر المومنین کی ہدایات پر عمل کیا ہے کہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے اپنے ساتھی سالاروں سے مشورہ کر لیا کرنا……تو نے ٹھیک سوچا ہے۔ ہم اگر فارسی جرنیل نرسی تک جالینوس سے پہلے پہنچ گئے تو اسے الگ اور جالینوس کو الگ شکست دے سکیں گے اور اگر یہ اکٹھے ہوگئے تو ہمارے لیے مشکل ہو جائے گی۔‘‘
ابو عبید نے اسی وقت کوچ کا حکم دے دیا ۔ اس نے سالاروں نائب سالاروں کو بتا دیا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور ہدف کیا ہے۔ غزوۂ بدر سے یہ روایت چلی تھی کہ مسلمان تعداد میں کم تھے ۔دشمن نفری کے لحاظ سے تین گنا طاقتور تھا ۔ اس کے پاس گھوڑے زیادہ اور ہتھیار بہتر قسم کے تھے۔ رسولﷺ کی قیادت میں مجاہدینِ اسلام نے تعداد کی کمی اور ہتھیاروں کی کمی کو جذبے اور جنگی فہم و فراست سے پورا کیا تھا۔ اس کے بعد یہی روایت چل پڑی کہ مسلمان ہر دور میں اور ہر میدان میں کم تعدا دمیں لڑے اور فتحیاب ہوئے۔
رسولﷺ نے مجاہدین میں دوسری یہ خوبی پیدا کر دی تھی کہ کوچ اور پیش قدمی اس قدر تیز ہوتی تھی کہ دشمن حیران ہو جاتا اور بوکھلا اٹھتا تھا۔ ایک وصف اور جو خالدؓ بن ولید اور ان کے پائے کے سالاروں نے اپنے مجاہدین میں پیدا کیا تھا وہ یہ تھا کہ نظم و نسق برقرار رکھیں اور حکم کے بغیر کوئی حرکت نہ کریں ۔یہ تھی امیر کی اطاعت جسے مسلمان ایک فریضہ سمجھتے تھے اور اس کی پابندی کرتے تھے۔ لیکن یہ خوبی اس وقت کے ہر امیر اور ہر سالار میں تھی کہ وہ ذاتی معاملات اور پسند و نا پسند اور تعصبات سے پاک ہوتے تھے۔


دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان ایک وسیع میدان میں فارس کا جرنیل نرسی اپنی فوج کے ساتھ خیمہ زن تھا۔ کسی بھی مؤرخ نے اس کے دستوں کی صحیح نفری نہیں لکھی۔ یہ لکھا ہے کہ نرسی کی فوج مسلمانوں سے تقریباً اڑھائی گنا زیادہ تھی۔ وہ اس وقت کے جدید ہتھیاروں سے مسلح تھی اور اس میں سواروں کی تعداد زیادہ تھی۔ ہر سوار کے پاس ایک برچھی اور ایک تلوار تھی۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب الفاروق ؓمیں دو مؤرخوں بلاذری اور ابو حنیفہ کے حوالے سے لکھا ہے ۔’’فارسی جرنیل نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا اور اس کے ساتھ کسریٰ کے دوماموں زاد بھائی بندویہ اور تیرویہ، میمنہ اور میسرہ پر تھے۔‘‘ یہ دونوں فارس کے مشہور اور جارح جرنیل تھے۔ ہر لڑائی میں بندویہ فوج کے دائیں پہلو پر اور تیرویہ بائیں پہلو پر رہتا تھا اور یہ اپنے دشمن کو گھیرے میں لے کر ختم کر دیتے تھے۔ انہوں نے روم جیسی طاقتور فوج کو بہت بری شکستیں دی تھیں۔
نرسی ان دونوں جرنیلوں کے ساتھ مدائن سے آنے والی کمک کا انتظار اتنی بے تابی سے کر رہا تھا کہ ہر صبح ایک سوار کو مدائن کے راستے پر آگے بھیج دیتا کہ کمک دور سے آتی نظر آئے تو آکر اطلاع دے۔
نرسی کی اس فوج میں کچھ ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ جس سے فوج کا جذبہ مجروح ہو گیا تھا۔ یہ صورت مروان شاہ اور جابان کے ان فوجیوں نے پیدا کی تھی جو نمارق کی لڑائی میں مجاہدین سے شکست کھا کر بھاگے اور سقاطیہ نرسی کی فوج کے کیمپ میں جا پناہ لی۔ شکست کی خفت کو مٹانے کیلئے انہوں نے مسلمانوں کی بہادری بلکہ خونخواری کی ایسی خوفناک باتیں بتائیں جیسے مسلمان انسان نہیں جنات اور بھوت ہوں۔
’’ہم جنوں اور بھوتوں سے تو نہیں لڑ سکتے۔‘‘ بھاگے ہوئے ہر سپاہی کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔


نرسی کے دستوں کو یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ نمارق میں فارس کے دونوں جرنیل پکڑے اور مارے گئے ہیں۔جابان ابھی لا پتا تھا۔ مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ جابان رستم اور ملکۂ فارس کے سامنے جانے سے گریز کر رہا تھا۔ اس سے نرسی کے دستوں میں مزید دہشت پیدا ہو گئی تھی۔
’’…… اور یہ سب بزدل ہیں جو اپنے جرنیلوں کو مروا کر بھاگ آئے ہیں۔‘‘ ایک روز نرسی اپنے دستوں سے خطاب کر رہا تھا۔’’ یہ بھگوڑے غدار ہیں ۔میرا حکم چلے تو میں انہیں مقدس زرتشت کی آگ میں زندہ جلا ڈالوں۔ یہ غیرت والے ہوتے تو زندہ واپس نہ آتے۔ یہ اب عورتوں کی طرح ڈرے ہوئے بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں‘ اور اپنا قومی جذبہ مضبوط کر کے عہد کریں کہ مسلمانوں سے شکست کا انتقام لیں گے۔ان کی باتیں مت سنو یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔‘‘
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کی آج کی تقریر سے اپنے سپاہیو ں کا لڑنے کا جذبہ مضبوط ہو جائے گا؟‘‘شام کے کھانے کے دوران جرنیل بندویہ نے جرنیل نرسی سے پوچھا۔
’’نہیں!‘‘ نرسی نے کہا۔’’ میں ہر روز اپنے مخبروں سے سپاہیوں کے جذبے اور دیگر امور کے متعلق پوچھتا رہتا ہوں۔’’ ان سب پر مسلمانوں کی دہشت طاری ہو چکی ہے۔ خالدؓ بن ولید کو یہ آسمان سے اتری ہوئی کسی ہولناک مخلوق میں سے سمجھتے ہیں۔ میں نے اسی لیے مدائن سے کمک منگوائی ہے کہ وہاں سے جو سپاہی آئیں گے وہ مسلمانوں سے بالکل نا واقف ہوں گے اور مسلمانوں کے خوف سے آزاد ہوں گے۔‘‘
’’ورنہ کمک کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ جرنیل نے تیرویہ سے کہا۔’’ کمک کو پہنچ جانا چاہیے تھا۔ ہم رستم اور ملکۂ فارس کو اچھی خبر سنائیں گے۔‘‘
’’سقاطیہ کو ہم مسلمانوں کا قبرستان بنا دیں گے۔‘‘ بندویہ نے کہا۔
ابو عبید کے مجاہدین کی پیش قدمی بہت تیز تھی۔ لیکن راستے میں دریا حائل ہو گیا۔ ابو عبید نے اس خیال سے لشکر کو روک لیا کہ دن کی روشنی میں دریا عبور کرنا خطرناک ہو سکتا تھا ۔دریا عبور کرنے کے دوران دشمن آجائے تو وہ تیروں اور پھینکنے والی برچھیوں سے سب کو دریا میں ختم کر سکتا ہے۔
رات کے اندھیرے میں دریا عبور کرنا تھا۔ وہاں کشتیاں نہیں تھیں جن کا پل بنایا جاتا۔ اتفاق سے ایک مقامی اُدھر سے گزرا ۔اس نے بتایا کہ تقریباً دو میل آگے کشتیوں کا ایک پل ہے جو فارس کی فوج نے بنایا ہے۔ اور ا س کے دونوں طرف دن رات دو دو فوجی پہرے پر کھڑے رہتے ہیں۔‘‘
رات کو چار جانباز مجاہدین کو آگے بھیجا گیا ۔پل سے ذرا ہی دور تین مجاہدین چھپ گئے اور ایک پہرہ داروں کے پاس چلا گیا۔ اس نے دونوں کو باتوں میں لگا لیا اور اُنہیں باتوں باتوں میں پل سے اُدھر لے آیا۔ تین مجاہدین جھاڑیوں کے پیچھے سے اٹھے اور ان دونوں فارسیوں کو دبوچ کر ان کے گلے گھونٹے اور مار دیا۔ ان کے کپڑے اتار کر دو مجاہدین نے پہنے اور پل کی دوسری جانب چلے گئے۔ وہ سپاہی انہیں اپنے آدمی سمجھے ۔قریب جا کر مجاہدین نے ان دونوں کو خنجروں سے قتل کر دیا۔
ایک مجاہد پیچھے جا کر ابو عبید کو اطلاع دے کر آیا کہ راستہ صاف ہے۔ ابو عبید نے پیش قدمی کا حکم دیا اور پل پر آکر بے خوف و خطر دریا پار کر لیا۔
جالینوس اپنے دستوں کے ساتھ مدائن سے چل پڑا تھا۔ لیکن اس کے سامنے بڑا لمبا راستہ تھا ۔ابو عبید نے تو جالینوس سے پہلے سقاطیہ پہنچنے کی دوڑ لگا رکھی تھی۔
اگلی شام ابو عبید کا لشکر سقاطیہ کے قریب پہنچ گیا ۔اس وقت لڑائی شروع نہیں کی جا سکتی تھی۔ اب لشکر کو دشمن سے چھپایا نہیں جا سکتا تھا ۔قریب ہی ایک گاؤں میں گئے اور اعلان کیا کہ رات کو گاؤں میں کوئی بھی بچہ باہر نہ نکلے ۔اس کے ساتھ ہی گاؤں کے اردگرد پہرے کھڑے کر دیئے۔
اس احتیاطی نظام کے باوجود یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی کہ فارسیوں کو مجاہدین کے لشکر کا پتا نہیں چلے گا۔فارسیوں کے اگلے دن کی لڑائی کو درہم برہم کرنے کیلئے یہ کارروائی کی گئی کہ رات کو جب فارسیوں کا لشکر سویا ہوا تھا تو بیس بیس مجاہدین کی دو پارٹیوں نے ایک دوسری کے بعد لشکر گاہ پر شبخون مارے۔ دوسری پارٹی نے یہ کارروائی کی کہ شب خون کے دوران گھوڑوں کی رسیاں کاٹ ڈالیں اور گھوڑوں کو تلواروں کی نوکیں چبھو کر دوڑادیا ۔گھوڑوں نے کیمپ میں قیامت بپا کر دی۔


ان دو شب خونوں نے فارسیوں کو جانوں کا بھی نقصان پہنچایا اور بہت سے سپاہی شدید زخمی ہو کر اگلے روز کی لڑائی کیلئے ہی نہیں بلکہ لمبے عرصے کیلئے میدانِ جنگ میں آنے سے معذور ہو گئے۔ یہ تو نفری کا نقصان تھا۔ اصل نقصان یہ پہنچا کہ ان دستوں پر پہلے ہی مسلمانوں کا جو ڈر سا بیٹھ گیا تھااس میں اضافہ ہو گیا۔
شب خون مسلمانوں کا خصوصی طریقۂ جنگ تھا۔ جس میں انہوں نے غیر معمولی مہارت حاصل کر لی تھی۔ شب خون میں بڑے ہی مضبوط حوصلے اور جسمانی پھرتیلے پن کی ضرورت ہوتی تھی۔ یہ اوصاف مسلمانوں میں ہی تھے اور یہ اوصاف مسلمانوں میں اس لئے تھے کہ وہ ایک نظریئے اور ایک عقیدے کے فروغ اور تحفظ کیلئے لڑ رہے تھے ۔ ان کے ذہن و دل میں اﷲ اور رسولﷺ کی خوشنودی تھی ۔غیر مسلم مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مسلمان اپنے مذہبی عقیدے کے جنون کی کیفیت میں لڑتے تھے اور دوسری قوموں کی فوجیں اپنے بادشاہوں اور جرنیلوں کے حکم سے لڑ اکرتی تھیں۔ یہ پہلو خاص طور پر پیش ِنظر رکھنے والا ہے کہ جس دور کی یہ داستان پیش کی جا رہی ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں ہوا کرتی تھی ۔سپہ سالار سے سپاہی تک سب رضاکارہوا کرتے تھے۔ سب اپنی رضا و رغبت سے ایک جذبے سے سرشار میدانِ جنگ میں جاتے تھے۔
اس جنون اس نظریئے اور اس جذبے کا یہ کرشمہ تھا کہ ابو عبید کے جانبازوں نے ایک ہی رات میں دو شب خون مارے اور دشمن کی جنگی تیاری اور خیمہ گاہ کو درہم برہم کر دیا۔
ایک یورپی تاریخ نویس نے اپنی انگریزی کتاب اسلام اور آتش پرست میں لکھا ہے کہ فارسیوں کے اس کیمپ میں کئی سپاہیوں کو یہ کہتے سنا گیا کہ یہ حملہ آور )مسلمان(انسان نہیں ہو سکتے۔
صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جرنیل نرسی ،بندویہ اور تیرویہ رات بھر کے جاگے ہوئے اپنے دستوں کو منظم کرنے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔
’’وہ دیکھو!‘‘ یہ ایک بلند آوا ز تھی جس میں گھبراہٹ کا لرزہ تھا۔
اس آواز کی گھبراہٹ سارے کیمپ میں پھیل گئی۔ ہر کوئی اُدھر دیکھ رہا رتھا۔ دس ہزار مجاہدین کا لشکر جنگ کی ترتیب میں آرہا تھا۔ کیمپ میں کھلبلی بپا ہو گئی حالانکہ فارسیوں کی نفری کم و بیش تیس ہزار تھی ۔جس میں سوار زیادہ تھے۔ ان کے تینوں جرنیلوں کی حالت بہت بری ہو رہی تھی۔
’’کمک نہیں پہنچی۔‘‘ نرسی بار بار کہہ رہا تھا۔
دوسرے دونوں جرنیل اپنے اپنے دستوں کو ترتیب میں لا رہے تھے۔
جالینوس کمک لے کر مدائن سے چل پڑ اتھا لیکن اس کے سامنے دو پڑاؤ کی مسافت تھی۔


’’ابو عبید!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے اپنے سپہ سالار ابو عبید سے کہا۔’’ کیا تم دشمن کو منظم ہو نے اور حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہو؟ ان کی تعداد اور ان کے گھوڑے دیکھو۔‘‘
ابو عبید مجاہدین کے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے صف آراء کر چکا تھا۔ چوتھا حصہ محفوظہ کا تھا جسے ابو عبید نے اپنے پیچھے رکھا تھا ۔مثنیٰ بن حارثہ کی للکار سنتے ہی ابو عبید نے قلب کے حصے کو حملے کا حکم دے دیا۔ اس نے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے دستوں کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ حملہ ہوتے ہی وہ دائیں اور بائیں پھیل جائیں اور دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کریں۔
مثنیٰ بن حارثہ دائیں پہلو پر تھے ۔وہ خالدؓ بن ولید کے پائے کے سالار تھے اور خالدؓ کے ماتحت انہوں نے رومیوں کے خلاف گھمسان کے معرکے لڑے تھے اور خالدؓ سے بڑے کارآمد داؤ پیش سیکھے تھے ۔اس کے علاوہ مثنیٰ نے عہد کررکھا تھا کہ فارسیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر آتش پرستی کے باطل کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے۔ دس ہزار مجاہدین کا یہ لشکر مثنیٰ ہی مدینہ سے لائے تھے۔ اس داستا ن کے شروع میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کی زندگی میں مدینہ یہ درخواست لے کر گئے تھے کہ انہیں ایک لشکر مل جائے تو وہ سلطنتِ فارس کو بنیادوں سے اکھاڑ دیں گے۔ اس وقت حضرت ابو بکرؓ بسترِ مرگ پر تھے۔ اُنہوں نے حضرت عمرؓ سے وصیت کی تھی کہ مثنیٰ کو لشکر تیار کر کے دینا ہے۔
حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ اور مثنیٰ بن حارثہ نے جس طرح عراق کیلئے لشکر تیار کیا تھا۔ وہ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
اب سقاطیہ کے مقام پر مثنیٰ دائیں پہلو پر تھے اور ان کے ساتھ سوار زیادہ تھے۔ انہیں غالباً معلوم تھا کہ فارسی جرنیل بندویہ اور تیرویہ پہلوؤں سے حملہ کرنے کے ماہر ہیں۔ مثنیٰ اپنے دستوں کو بڑی تیزی سے اتنی دور باہر کو لے گئے کہ فارسیوں کا پہلو ان کے اندر آگیا۔
بائیں پہلو پر ایک صحابی سلیطؓ بن قیس تھے۔ اُنہوں نے بھی مثنیٰ بن حارثہ والی چال چلی اور اپنے دستے کو دور بائیں طرف لے گئے اور فارسیوں کے پہلو کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔
مجاہدین کا یہ حملہ اتنا اچانک اور انتہائی شدید تھا کہ فارس کی فوج زیادہ دیر ٹھہر نہ سکی۔ پیچھے دریا تھا ۔ مثنیٰ اور سلیطؓ نے پہلوؤں سے فارسیوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ فارسی سپاہیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی کمزور ہو گیا تھا۔ گذشتہ رات کے شب خون نے مزید دہشت طاری کر دی تھی۔ فارسی بڑھ کر حملے کرنے کے بجائے دفاعی لڑائی لڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی بعض نے بھاگنا بھی شروع کر دیا۔ وہ دریا میں کود رہے تھے۔
زیادہ دیرنہیں گزری تھی کہ میدان فارسیوں کی لاشوں سے اٹ گیا۔ نرسی کا پرچم گر پڑا اور تینوں جرنیل لاپتا ہو
گئے۔سپاہی دوڑ دوڑ کر مسلمانوں کے پاس آنے لگے۔
یہ مکمل اور فیصلہ کن شکست تھی۔
اس فتح کے بعد مجاہدین فارسیوں کی خیمہ گاہ اور میدانِ جنگ سے مالِ غنیمت اکٹھاکر رہے تھے اور اشعر بن اوصامہ سپہ سالار ابو عبید کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔
’’سپہ سالار!‘‘ اشعر نے ابو عبید کو کہیں دور دیکھ کر پکارا اور اس کے قریب جا کر گھوڑے سے اترا۔
’’کیا خبر لائے ابن اوصامہ!‘‘ ابو عبید نے اشعر سے پوچھا۔
’’مدائن سے آنے والی کمک یہاں سے ایک پڑاؤ دور ہے ۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’ آج رات مدائن کے یہ دستے بار سماء کے قریب پڑاؤ کریں گے۔‘‘ اشعر نے میدانِ جنگ کی حالت دیکھ کر کہا۔’’ خدا کی قسم! آپ نے آتش پرستوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔‘‘


’’یہ اﷲ کا کرم اور تیری محنت کا کرشمہ ہے ابن اوصامہ!‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ تو مدائن سے جو خبر لایا تھا وہ ہمارے کام آئی ۔یہ تیری جاسوسی کا ثمرہ ہے……کمک کی نفری کتنی ہے؟‘‘
’’اتنی ہی ہے جتنی کو آپ نے یہاں کاٹ بھی دیا ہے اور بھگا بھی دیا ہے۔‘‘ اشعر نے جواب دیا۔ ’’اس کاسالار جالینوس ہے ۔جسے فارس کے لوگ میدانِ جنگ کا دیوتاکہتے ہیں۔ کمک میں سوار دستے پیادوں سے زیادہ ہیں۔‘‘
’’ابو عبید!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے اپنے سپہ سالار ابو عبید سے کہا۔’’ کیا تم دشمن کو منظم ہو نے اور حملے میں پہل کرنے کا موقع دے رہے ہو؟ ان کی تعداد اور ان کے گھوڑے دیکھو۔‘‘
ابو عبید مجاہدین کے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے صف آراء کر چکا تھا۔ چوتھا حصہ محفوظہ کا تھا جسے ابو عبید نے اپنے پیچھے رکھا تھا ۔مثنیٰ بن حارثہ کی للکار سنتے ہی ابو عبید نے قلب کے حصے کو حملے کا حکم دے دیا۔ اس نے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے دستوں کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ حملہ ہوتے ہی وہ دائیں اور بائیں پھیل جائیں اور دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کریں۔
مثنیٰ بن حارثہ دائیں پہلو پر تھے ۔وہ خالدؓ بن ولید کے پائے کے سالار تھے اور خالدؓ کے ماتحت انہوں نے رومیوں کے خلاف گھمسان کے معرکے لڑے تھے اور خالدؓ سے بڑے کارآمد داؤ پیش سیکھے تھے ۔اس کے علاوہ مثنیٰ نے عہد کررکھا تھا کہ فارسیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر آتش پرستی کے باطل کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا ہے۔ دس ہزار مجاہدین کا یہ لشکر مثنیٰ ہی مدینہ سے لائے تھے۔ اس داستا ن کے شروع میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ مثنیٰ بن حارثہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کی زندگی میں مدینہ یہ درخواست لے کر گئے تھے کہ انہیں ایک لشکر مل جائے تو وہ سلطنتِ فارس کو بنیادوں سے اکھاڑ دیں گے۔ اس وقت حضرت ابو بکرؓ بسترِ مرگ پر تھے۔ اُنہوں نے حضرت عمرؓ سے وصیت کی تھی کہ مثنیٰ کو لشکر تیار کر کے دینا ہے۔
حضرت ابو بکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ اور مثنیٰ بن حارثہ نے جس طرح عراق کیلئے لشکر تیار کیا تھا۔ وہ پہلے تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔
اب سقاطیہ کے مقام پر مثنیٰ دائیں پہلو پر تھے اور ان کے ساتھ سوار زیادہ تھے۔ انہیں غالباً معلوم تھا کہ فارسی جرنیل بندویہ اور تیرویہ پہلوؤں سے حملہ کرنے کے ماہر ہیں۔ مثنیٰ اپنے دستوں کو بڑی تیزی سے اتنی دور باہر کو لے گئے کہ فارسیوں کا پہلو ان کے اندر آگیا۔
بائیں پہلو پر ایک صحابی سلیطؓ بن قیس تھے۔ اُنہوں نے بھی مثنیٰ بن حارثہ والی چال چلی اور اپنے دستے کو دور بائیں طرف لے گئے اور فارسیوں کے پہلو کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔


مجاہدین کا یہ حملہ اتنا اچانک اور انتہائی شدید تھا کہ فارس کی فوج زیادہ دیر ٹھہر نہ سکی۔ پیچھے دریا تھا ۔ مثنیٰ اور سلیطؓ نے پہلوؤں سے فارسیوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ فارسی سپاہیوں کا لڑنے کا جذبہ پہلے ہی کمزور ہو گیا تھا۔ گذشتہ رات کے شب خون نے مزید دہشت طاری کر دی تھی۔ فارسی بڑھ کر حملے کرنے کے بجائے دفاعی لڑائی لڑنے لگے اور اس کے ساتھ ہی بعض نے بھاگنا بھی شروع کر دیا۔ وہ دریا میں کود رہے تھے۔
زیادہ دیرنہیں گزری تھی کہ میدان فارسیوں کی لاشوں سے اٹ گیا۔ نرسی کا پرچم گر پڑا اور تینوں جرنیل لاپتا ہو
گئے۔سپاہی دوڑ دوڑ کر مسلمانوں کے پاس آنے لگے۔
یہ مکمل اور فیصلہ کن شکست تھی۔
اس فتح کے بعد مجاہدین فارسیوں کی خیمہ گاہ اور میدانِ جنگ سے مالِ غنیمت اکٹھاکر رہے تھے اور اشعر بن اوصامہ سپہ سالار ابو عبید کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔
’’سپہ سالار!‘‘ اشعر نے ابو عبید کو کہیں دور دیکھ کر پکارا اور اس کے قریب جا کر گھوڑے سے اترا۔
’’کیا خبر لائے ابن اوصامہ!‘‘ ابو عبید نے اشعر سے پوچھا۔
’’مدائن سے آنے والی کمک یہاں سے ایک پڑاؤ دور ہے ۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’ آج رات مدائن کے یہ دستے بار سماء کے قریب پڑاؤ کریں گے۔‘‘ اشعر نے میدانِ جنگ کی حالت دیکھ کر کہا۔’’ خدا کی قسم! آپ نے آتش پرستوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔‘‘
’’یہ اﷲ کا کرم اور تیری محنت کا کرشمہ ہے ابن اوصامہ!‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ تو مدائن سے جو خبر لایا تھا وہ ہمارے کام آئی ۔یہ تیری جاسوسی کا ثمرہ ہے……کمک کی نفری کتنی ہے؟‘‘
’’اتنی ہی ہے جتنی کو آپ نے یہاں کاٹ بھی دیا ہے اور بھگا بھی دیا ہے۔‘‘ اشعر نے جواب دیا۔ ’’اس کاسالار جالینوس ہے ۔جسے فارس کے لوگ میدانِ جنگ کا دیوتاکہتے ہیں۔ کمک میں سوار دستے پیادوں سے زیادہ ہیں۔‘‘


اشعر بن اوصامہ بڑا ہی ہوشیار جاسوس تھا۔ جو مدائن سے خبر لایا تھا کہ مدائن سے نرسی کو کمک جا رہی ہے اور نرسی سقاطیہ کے مقام پر ہے۔ ابو عبید نے جب نرسی کو سقاطیہ کی جانب کوچ کر نے کاحکم دیا تھا اسی وقت اشعر کو اس علاقے کی طرف روانہ کر دیا تھا جدھر سے مدائن سے سقاطیہ کو کمک نے گزرنا تھا۔ اشعر کے ذمے یہ کام تھا کہ کمک کے متعلق جو بہت اہم اطلاع ہو وہ سقاطیہ پہنچائے۔
اشعر یہودی پیشوا کے روپ میں گیا تھا اور بر وقت اطلاع لے آیا کہ کمک بارسماء پہنچنے والی ہے اور رات وہاں پڑاؤ کرے گی۔
جاری ھے

Post a Comment

Previous Post Next Post