حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش) Hijaz Ki Aandhi Part 11

حجاز کی آندھی (عنایت اللہ التمش)

قسط نمبر 11

’’لیکن سپہ سالار! ‘‘اشعر بن اوصامہ نے ایک اور خبر سنائی ۔’’ آپ کمک پر بے خبری میں حملہ نہیں کر سکیں گے۔ میں نے راستے میں اس)سقاطیہ ( سے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو بارسماء کی طرف جاتے دیکھا ہے۔ میں نے دو سواروں کو آپس میں اس لڑائی کی باتیں کرتے بھی سنا ہے۔ میں وہیں سمجھ گیا تھا کہ میرے بھائیوں نے سقاطیہ کا میدان مار لیا ہے……آپ کو سنبھل کر جانا پڑے گا۔ دشمن نے کہیں گھات نہ لگا رکھی ہو۔ جو میدانِ جنگ کے بھگوڑے گھوڑ سوار کچھ دیر تک بار سماء پہنچ جائیں گے ان سے اس لڑائی کی خبریں سن کر وہ اپنے دستوں کو رات کو بھی تیاری کی حالت میں رکھے گا۔‘‘
’’اﷲ ہمارے ساتھ ہے ابنِ اوصامہ! ‘‘ابو عبید نے کہا۔ ’’تو جا اور کچھ آرام کرلے ۔ہم نے سورج غروب ہوتے ہی بارسماء کی طرف کوچ کر جانا ہے۔‘‘
ابو عبید نے اپنے سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سلیطؓ بن قیس کو بلایا اور انہیں بتایا کہ اشعر کیا خبر لایاہے۔
’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم بارسماء کی طرف پیش قدمی کریں ؟‘‘ ابو عبید نے دونوں سالاروں سے پوچھا ۔’’یا تم یہ بہتر سمجھتے ہو کہ جالینوس کا انتظار یہیں کیا جائے؟……میں فوراً پیش قدمی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بیشک یہی بہتر ہو گا ۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ جالینوس کوبھگوڑے فوجی خبردار کر چکے ہوں گے اور وہ ہمارے لڑنے کے طریقے بھی اسے بتا چکے ہوں گے۔‘‘

’’مجھے ایک اور خطرہ نظر آرہا ہے۔‘‘ ابو عبید نے کہا۔’’ اگر ہم جالینوس کا انتظار یہیں کرتے رہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ مدائن سے مزید دستے منگوا لے ۔اس کی نفری پہلے ہی اڑھائی تین گنا زیادہ ہے۔ ہماری نفری شہیدوں اور زخمیوں نے کم کر دی ہے اور کم از کم ایک ہزار مجاہدین کو یہاں چھوڑنا پڑے گا۔تمام مالِ غنیمت اور دشمن کے سینکڑوں گھوڑے یہیں رہیں گے۔ دونوں دریاؤں پر کشتیوں کے جو پل ہیں ان پر بھی قبضہ رکھناہے۔ سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جالینوس کو مہلت ہی نہ دی جائے کہ وہ مدائن سے کمک منگوا سکے……ایک ہزار آدمی یہاں چھوڑو۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کیلئے ان کے پاس رہنے دو اور کوچ کی تیاری کرو۔ چلنے سے پہلے میں ان کے ساتھ ایک دو باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے جالینوس نے بارسماء کے مقام پر پہنچ کر اپنے دستوں کو روک لیا اور پڑاؤ کا حکم دیا۔ لشکر فوراً خیمے گاڑنے میں مصروف ہو گیا۔ جالینوس کا خیمہ کھڑا کر دیا گیا اور اس کے اندر گدوں والا پلنگ اور گھروں کے کمرے جیسا فرنیچر رکھ دیا گیا ۔اندر ریشمی پردے لگ گئے ۔یہ بہت بڑا خیمہ تھا ۔جس کے دو حصے تھے۔ اندر سے یہ محل کے دو کمرے لگتے تھے۔

جالینوس اپنے خیمے میں داخل ہو کر بیٹھاہی تھا کہ اس کے حفاظتی دستے )باڈی گارڈز(کا کمانڈر خیمے میں آیا اور جالینوس کو بتایا کہ جہاں وہ کمک لے کے جا رہے ہیں وہاں سے زخمی سوار آرہے ہیں۔ ایک کو وہ اپنے ساتھ لایا ہے۔ وہ کوئی جونیئر کمانڈر تھا۔ جو تھوڑا سا زخمی تھا ۔جالینوس باہر نکل آیا اور غصے سے اس زخمی سے پوچھا کہ سقاطیہ میں کیا ہوا ہے؟
اس زخمی عہدیدار نے اسے تفصیل سے بتایا کہ عربوں نے گذشتہ رات دو شب خون مارے اور صبح طلوع ہوتے ہی حملہ کر دیا ۔زخمی عہدیدار نے لڑائی کی تفصیل یوں سنائی جیسے مسلمانوں کی تعداد اور جنگی طاقت بہت زیادہ تھی۔
’’ان کی تعداد مشکل سے دس ہزار تھی۔‘‘ جالینوس نے قہر بھری آواز میں کہا۔’’ اور تم کم و بیش تیس ہزار حرام خور تھے ……اپنے زخم دکھاؤ۔‘‘
’’اتنا سا زخم کھا کر تم بھاگ آئے ؟‘‘جالینوس نے اس کی ٹانگ کا معمولی سا زخم دیکھ کرکہا۔’’ تم دو سو سپاہیوں کے کمانڈر تھے۔ تم اکیلے نہیں بھاگے ۔تمہارے پیچھے پیچھے دو سو سپاہی بھاگ آئے۔‘‘

’’اتنا سا زخم کھا کر تم بھاگ آئے ؟‘‘جالینوس نے اس کی ٹانگ کا معمولی سا زخم دیکھ کرکہا۔’’ تم دو سو سپاہیوں کے کمانڈر تھے۔ تم اکیلے نہیں بھاگے ۔تمہارے پیچھے پیچھے دو سو سپاہی بھاگ آئے۔‘‘
اتنے میں جالینوس کے دستوں کا ایک افسر ا س کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ اسے سقاطیہ کے ایک بھگوڑے نے بتایا ہے کہ نمارق سے اپنی فوج کے آدمی بھاگ کر سقاطیہ پہنچے اور انہوں نے نرسی، بندویہ اور تیرویہ کے دستوں میں عربی مسلمانوں کی بہادری اور خونخواری کی ایسی خوفناک باتیں سنائیں کہ سقاطیہ کے دستوں میں بے دلی پھیلا دی۔سقاطیہ کی شکست اسی کا نتیجہ ہے۔
’’وہاں کے بھگوڑے ہمارے کیمپ میں آرہے ہیں۔ ‘‘اس افسر نے کہا۔’’ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی ہی فرضی کہانیاں ہمارے سپاہیوں کو سنا رہے ہیں۔‘‘
’’میرا حکم سب تک پہنچا دو۔‘‘ جالینوس نے کہا۔’’ ہمارے دستوں کا کوئی آدمی سقاطیہ کے کسی بھگوڑے کو اپنے خیمے میں داخل نہ ہونے دے۔ نہ کوئی کسی بھگوڑے کے پاس بیٹھ کر اس کی باتیں سنے۔سقاطیہ سے آنے والے کسی بھی فوجی کے عہدے کا خیال نہ کیا جائے ۔ انہیں علیحدہ رکھا جائے……اور اپنے تمام دستوں کو ایک جگہ صفوں میں کھڑا کرو،میں آتا ہوں۔‘

’’اسلام اور سر زمینِ عرب کی ناموس کے محافظو!‘‘سقاطیہ میں سپہ سالار ابو عبید مجاہدین کے لشکر سے مخاطب تھا۔’’ واﷲ بما تعملون بصیرۃ )تم جو کچھ کرتے ہو سب اﷲ کی نظر میں ہے(۔تم راہِ حق پر جہاد کیلئے گھروں سے نکلے ہو۔ یہ اﷲ کا حکم ہے تم جس کی تعمیل کر رہے ہو۔ اس کا اجر تمہیں اﷲ ہی دے گا۔ اﷲ کا اجر دیکھ لو۔ اﷲ کے دین کے منکروں کی لاشیں دیکھ لو ۔ان کے زخمیوں کو تڑپتا اور مرتا دیکھ لو۔ یہ کفار تعداد میں تم سے تین گنا تھے ۔اﷲ نے تمہیں ان پر فتح و نصرت عطا کی۔یہ تمہارا انعام ہے جو تمہیں دنیا میں ملا ہے اور جو انعام آخرت میں ملے گا وہ بے حساب ہو گا……
آج تمہارا حق تھا کہ تم آرام کرتے لیکن آگ کے ان پجاریوں کا ایک اور لشکر یہاں سے ایک رات کی مسافت پر پڑاؤ کیے ہوئے ہے ۔یہ لشکر ان کی مدد کیلئے آ رہا تھا جن میں سے کوئی ایک بھی اب یہاں موجود نہیں۔ زندہ رہنے والے بھاگ گئے ہیں اور وہ وہاں پہنچ رہے ہیں جہاں ان کی کمک ٹھہری ہوئی ہے ۔تم تھکے ہوئے ہو ‘وہ تازہ دم ہیں۔ ہم ان پر بے خبری میں حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اپنی روحانی قوتیں بیدار کر لو اور اﷲ کے حضور سرخرو ہو جاؤ۔عجمیوں پر ثابت کر دو کہ عربی خدا کے محبوب بندے ہیں اور عربوں کو اﷲ نے رسالت سے نوازا ہے۔‘‘
’’…… اور مت سنو ان کی باتیں جو سقاطیہ سے بھاگ آئے ہیں ۔‘‘ جالینوس اپنے دستوں سے مخاطب تھا۔’’ عرب کے ان بدوؤں سے مت ڈرو۔ یہ بھگوڑے تمہیں یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہ تو بہت بہادر ہیں لیکن مسلمانوں کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے جو ان کی مخالف فوج کی طاقت سلب کر لیتا ہے۔ میں نے ان بھگوڑوں کو الگ کھڑا کر دیا ہے۔ یہ زرتشت کے گناہ گار بندے ہیں۔ یہ سلطنتِ فارس کے غدار ہیں۔ ان کے چہرے دیکھو یہ منحوس چہرے ہیں……


مسلمان اپنے مذہب کو سچا مذہب کہتے ہیں۔ تم انہیں شکست دے کر ثابت کر دو کہ مذہب تمہارا سچا ہے۔ تم نے ان کا نام و نشان مٹا کر ان کے مذہب کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دینا ہے۔ پھر ان کا ملک عرب بھی سلطنتِ فارس میں شامل ہو گا۔ مت بھولو کہ تم نے رومیوں کی جنگی طاقت کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے کچلا ہے۔ فارس کی فوج کے تم جیسے بہادروں نے روم کے ہرقل کو شکست دی ہے۔ جسے رومی جنگ کا دیوتا کہا کرتے تھے……
آج رات تم نے ہوشیار رہنا ہے۔ خیمہ گاہ کے اردگرد سنتریوں کی نفری زیادہ ہوگی۔ مسلمان شاید فتح کے نشے میں شب خون مارنے آجائیں ۔وہ آئیں تو ان میں کوئی بھی زندہ نہ جائے۔ خیمہ گاہ کے باہر ہی انہیں گھیر کر ان کے جسموں کا قیمہ بنا دو۔ میں سقاطیہ کی طرف سے آنے والے راستوں پر گھات کا انتظام کر رہا ہوں۔‘‘
جالینوس نے اپنے دستوں کو گرما بھڑکا کر بیدار کر دیا اور سقاطیہ کے بھگوڑوں کو مجرموں کی طرح الگ کر دیاکہ وہ کسی کے ساتھ بات بھی نہ کر سکیں۔
ابو عبید کا لشکر سقاطیہ سے چل پڑا۔ اب مجاہدین کی تعداد نو ہزار سے کچھ کم تھی۔ کچھ شہید ہوئے، بہت سے زخمی ہوئے اور چند سو مجاہدین کو پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔ مجاہدین کے جسم تھکن سے چو رتھے ۔ایک روز پہلے انہوں نے کوچ کیا تھا۔ رات بیدار رہے اور اگلے دن بڑے ہی گھمسان کی لڑائی لڑی، اور اس کے فوراً بعد بارسماء کی طرف پیش قدمی کا حکم مل گیا۔ گھوڑے بھی تھکے ہوئے تھے ۔ابو عبید نے گھوڑ سوار مجاہدین سے کہا تھا کہ وہ راستے میں پیادوں کو گھوڑے دیتے رہیں تاکہ انہیں سارا سفر پیدل نہ طے کرنا پڑے۔ بہت سے پیادہ مجاہدین کو فارسیوں کے گھوڑے مل گئے تھے۔


جالینوس نے رات بھر اپنے دستوں کو بیدار رکھا تھا اور اس نے خیمہ گاہ سے کچھ دور ایک ایسے علاقے میں جہاں مٹی کے ٹیلے اور وسیع کھڈ تھے ، دو جگہوں پر گھات لگا دی تھی۔
رات گزر گئی۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ مجاہدین تازہ دم ہوتے تو ان کی رفتار تیز ہوتی۔
ابو عبید کے ساتھ مثنیٰ بن حارثہ اور سلیطؓ بن قیس جیسے منجھے ہوئے سالار تھے۔ ان کے مشورے ابو عبید کیلئے بڑے ہی کارآمد تھے ۔بار سماء کی طرف ان کا کوچ ایک کالم کی صورت میں تھا۔ لیکن بار سماء سے کچھ دور سالاروں نے اپنے لشکر کو جنگی ترتیب میں پھیلا دیا۔ اس ترتیب میں یہ لشکر کم و بیش ایک میل تک پھیل کر آگے بڑھ رہا تھا۔
جالینوس کے ایک جگہ دو سو سوار گھات میں چھپے ہوئے تھے ۔اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ مسلمان کس ترتیب میں آرہے ہیں ۔وہ اچانک مجاہدین کو نظر آگئے۔ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن انہیں گھوڑوں پر سوار ہونے کی بھی مہلت نہ ملی۔ مجاہدین نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ ان کے گھوڑے اور برچھیاں پیادہ مجاہدین کو دے دی گئیں اور ان مجاہدین کو سوار دستوں میں شامل کر لیا گیا۔
جالینوس کو قبل از وقت اطلاع مل گئی کہ مسلمان آرہے ہیں۔ اس وقت سورج کچھ اوپر اٹھ آیا تھا۔ جالینوس نے فوراً اپنے دستوں کو جنگی ترتیب میں آنے کا حکم دیا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمان جو ایک میل وسعت میں دائیں بائیں کو پھیلے ہوئے ہیں وہ کیا چال سوچ کر آرہے ہیں۔

بلاذری نے لکھا ہے کہ جالینوس نے غالباً یہ سوچا تھا کہ مسلمان کل کی لڑائی اور رات بھر سفر کے تھکے ہوئے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے قلب پر حملہ کر دیا ۔ابو عبید اسی حصے میں تھا اور پرچم اس کے ساتھ تھا۔ ابو عبید نے تین بار نعرہ لگایا۔’’ اﷲ اکبر! اﷲ اکبر! اﷲ اکبر!‘‘ اس کے ساتھ ہی مسلمان مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔
’’آج عربوں کی زندگی عجمیوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ یہ جالینوس کا نعرہ تھا۔
فارسی تازہ دم تھے۔ وہ کسی میدانِ جنگ سے نہیں بلکہ مدائن سے آرام کے شب و روز گزار کر آئے تھے۔ گذشتہ شام جالینوس کے حکم سے اردگرد کے دیہات سے اس کے فوجی لوگوں کی بھیڑ بکریاں اور مویشی جبراً کھول لائے تھے۔ انہیں ذبح کر کے سپاہیوں کو کھلا دیا گیا تھا۔ سپاہیوں کو اور زیادہ خوش کرنے کیلئے کھانے کے ساتھ ان میں مفت شراب تقسیم کی گئی تھی۔
’’……اور یہ لڑائی عربوں کو بہت مہنگی پڑے گی۔‘‘ جالینوس نے اپنے خطاب میں سپاہیوں سے کہا تھا۔’’ اور تم مالامال ہو جاؤ گے۔ عربوں نے ہر شہر سے بہت سونا لوٹا ہے۔یہ سب ان کے پاس ہے۔ یہ سب تمہارا مال ہے۔ اس میں سے شاہی محل کا حصہ نہیں نکالا جائے گا جو جتنا مال اکٹھا کرلے گا وہ اسی کا ہو گا۔‘‘


فارسیوں کا حملہ اتنا شدید تھا کہ ابو عبید کے قلب کے دستے اس کے آگے قدم نہ جما سکے ۔ کچھ تو وہ حملے کی شدت سے پیچھے اور زیادہ تر دانستہ پیچھے ہٹنے لگے تاکہ فارسی اورآگے آجائیں۔ مسلمان ہوش و حواس اور حوصلہ قائم رکھ کر بے جگری سے مقابلہ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ رہے تھے۔
کچھ وقت گزرا تو جالینوس کو اپنے عقب میں شوروغل سنائی دیا۔ اس نے اُدھر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے اپنی فوج کے جو دو حصے مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کرنے کیلئے پیچھے چھوڑے تھے۔ ان پر عقب سے حملہ ہو گیا تھا۔ ان دونوں حصوں کے افسر اور سپاہی اپنے دستوں کے حملو ں کا تماشا دیکھ رہے تھے کہ ان پر عقب سے دائیں اور بائیں سے حملہ ہو گیا ۔یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ فارسی بوکھلا گئے ۔انہیں یہ تو پتا ہی نہ چلا کہ حملہ آوروں کی تعداد ان سے بہت کم ہے۔ وہ ان کی تعداد بہت زیادہ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے مدائن میں مسلمانوں کی فتوحات اور اپنی فوج کی ہر جگہ شکست کی خبریں بھی سنی تھیں اور یہ بھی سنا تھا کہ مسلمان وحشی اور خونخوار ہیں جو اپنی جانوں کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔
تاریخ نویس ابنِ خلکان نے لکھا ہے کہ خود جالینوس بوکھلا گیا۔ اس کیلئے یہ حملہ متوقع تو تھا اسے معلوم تھا کہ مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستے بھی ہیں لیکن اسے یہ توقع نہیں تھی کہ تھکے ماندے مسلمان اتنی جلدی حملہ کر دیں گے ۔اس نے لڑائی کا اپنا جو پلان بنایا تھا وہ ناکام ہو گیا تھا۔اس کے پیچھے والے دستے عقبی حملے کے دباؤ سے آگے گئے اور اپنے ان دستوں میں چلے گئے جنہوں نے مسلمانوں کے قلب پر حملہ کیا تھا۔ اس طرح جالینوس کی ترتیب اور تنظیم گڈ مڈ ہو گئی۔ فارسی سوار اپنے گھوڑوں تلے اپنے ہی پیادوں کو کچل رہے تھے۔
فارسی تعداد میں زیادہ تھے۔ مسلمان کم تعداد کی وجہ سے انہیں پوری طرح گھیرے میں نہ لے سکے۔ فارسی لڑائی سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔ اتنے میں جالینوس کا پرچم غائب ہو گیا۔ مجاہدین نے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔’’ ان کا پرچم گر گیا ہے۔‘‘ فارسیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ مجاہدین نے انہیں چن چن کر مارا۔
جالینوس نے مدائن جا کر دم لیا۔
جالینوس سے پہلے چند ایک گھوڑ دسوار میدانِ جنگ سے بھاگ کر مدائن پہنچے تھے ۔رستم کوپتا چل گیا اور اس نے ان سب کو بلایا۔ رستم کو قہر و غضب کی کیفیت میں دیکھ کر یہ بھگوڑے کانپنے لگے ۔انہوں نے لڑائی کی تفصیل سنائی ۔رستم غصے سے باؤلا ہو گیا۔
’’جالینوس کہاں ہے؟‘‘اس نے گرجتی ہوئی آواز میں پوچھا۔’’ کیاوہ ماراگیا ہے؟‘‘

’’کچھ معلوم نہیں۔‘‘ ہر سوار نے لا علمی کا اظہار کیا۔ ایک نے کہا ۔’’پر چم غائب ہو گیا تھا۔‘‘
’’اب میں یہ سننا چاہتا ہوں کہ جالینوس مارا گیا ہے ۔‘‘ رستم نے کہا۔’’ اگر وہ زندہ ہے تو اسے میں مار ڈالوں گا۔‘‘
اس وقت رستم کے پاس ایک بزرگ مفکر آیا بیٹھا تھا۔ رستم باہر کھڑا غصے میں گرج رہا تھا۔ یہ واقعہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے کہ رستم کے متعلق مشہور تھا وہ کہ علمِ نجوم میں مہارت رکھتا تھا اور آنے والے حالات و واقعات کی پیش گوئیاں کیا کرتا تھا ۔بزرگ مفکر نے اُسے اندر بلایا۔
’’کیا ہو گیا ہے رستم؟‘‘ بزرگ نے پوچھا۔
’’مروان شاہ، جابان، نرسی، بندویہ ، تیرویہ کے بعد جالینوس بھی مسلمانوں سے شکست کھا گیا ہے۔‘‘ رستم نے کہا۔
’’میں نے سنا ہے کہ تم نے ستاروں کی گردش سے حساب لگا کر کہا تھا کہ سلطنتِ فارس کا انجام ٹھیک نہیں ہو گا؟‘‘بزرگ نے پوچھا۔
’’ہاں !‘‘ رستم نے جواب دیا۔’’ میں نے ایسے ہی کہا تھا۔‘‘
’’پھر تم نے سلطنت کی ذمہ داریاں اپنے سر کیوں لی ہیں؟‘‘بزرگ مفکر نے پوچھا۔
’’اقتدارکی ہوس اور حکومت کے لالچ میں!‘‘رستم نے جواب دیا۔
رستم کے یہ الفاظ تقریباً ہر مؤرخ نے لکھے ہیں۔
سقاطیہ کے بعد بار سماء کے مقامات پر فارسیوں کی شکستیں مسلمانوں کی بہت اہم فتوحات تھیں۔ یہ زرخیز اورآباد علاقے تھے۔ بار سماء دولت اور جاگیر داروں اور رئیسوں کی بستی تھی۔ وہ ایک اشارے پر اپنی فوج تیار کر سکتے تھے۔

سورج غروب ہو رہا تھا جب تین چارشہری مجاہدین کے پاس آئے ۔وہ ڈرے ڈرے لگتے تھے۔ انہوں نے مجاہدین سے کہا کہ وہ سپہ سالار سے ملنا چاہتے ہیں۔ مجاہدین نے ملاقات کی وجہ پوچھی جو انہوں نے نہ بتائی۔ صرف یہ کہا کہ وہ فریاد لے کر آئے ہیں۔ ابو عبید کو اطلاع دی گئی ۔اس نے انہیں فوراً بلا لیا۔
’’فارس کے بھگوڑے فوجی شکست کھا کر ہمارے گھروں میں گھس آئے ہیں ۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔ ’’اور اردگرد کے دیہات میں پھیل گئے ہیں۔ پہلے انہوں نے ہماری بھیڑیں اور بکریاں اور ہمارے مویشی ہم سے چھینے اور کھا گئے۔ اب وہ ہمارے گھروں میں آگئے ہیں۔ پہلے انہوں نے کہا کہ کھانا تیار کرو اور کھانے کے ساتھ شراب ضرور ہو۔ ان کا یہ حکم مانا تو انہوں نے ہماری عورتوں سے دست درازی شروع کر دی۔ کسی بھی بستی میں جا کر دیکھیں کسی کے گھر کی عزت محفوظ نہیں رہی۔‘‘
’’اور یہاں کے جاگیردار جو بادشاہ کے درباری ہیں وہ ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم ان فوجیوں کو اپنی جوان عورتیں پیش کردیں ۔‘‘ایک اور فریادی بولا۔
’’خدا کی قسم! یہاں کے لوگوں کی عزت ہماری عزت ہے۔‘‘ ابو عبید نے بھڑک کر کہا۔’’ جہاں اسلام کا سایہ پہنچ گیا ہے وہاں کے نیک و بد کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔ ہم کچھ دینے آئے ہیں لینے نہیں آئے۔ اگر ہم ایسے ہوتے تو تمہارے بھگوڑوں سے پہلے ہم تمہارے گھروں میں پہنچتے اور یہی کچھ کرتے جو تمہارے اپنے فوجی کر رہے ہیں……تم جاؤ‘ ہم آتے ہیں۔‘‘

’’ہم آپ کو دو رئیسوں کے نام بتا دیتے ہیں ۔‘‘ ایک فریادی نے کہا۔’’ ایک فرخ ہے جو بار سماء میں بادشاہوں کی طرح رہتا ہے اور دوسرے کا نام فراونداد ہے۔ وہ یہاں سے کچھ دور ایک بستی زوابی میں رہتا ہے۔یہ دونوں شاہی خاندان کے پالتو خوشامدی ہیں۔‘‘
ابو عبید نے مثنیٰ بن حارثہ اور سلیمان بن قیس کو بلایا۔
’’میں یہیں رہوں گا۔‘‘ ابو عبید نے دونوں سالاروں سے کہا ۔’’ مالِ غنیمت کی تقسیم اور دوسرے کام میں خود کر لوں گا ۔تم دونوں اپنے ساتھ جتنی نفری لے جانا چاہتے ہو لے جاؤاور دور دور تک کی بستیوں کو فارسی بھگوڑوں سے صاف کردو۔‘‘ ابو عبید نے انہیں بتایا کہ اس علاقے کے ان آدمیوں نے کیا فریاد کی ہے پھر کہا۔’’ ان لوگوں کو اعمال اور افعال سے بتاؤ کہ تکریمِ انسانیت اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔یہ لوگ خود توحید اور رسالت کو مان لیں گے۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ نے بار سماء کی بستی کو گھیرے میں لے لیا، اور چاروں اطراف سے اعلان کرایا کہ فارس کے فوجی باہر نکل آئیں اور جو فوجی چھپا ہو املے گا اسے وہیں قتل کر دیا جائے گا ۔اعلان میں یہ بھی کہا گیا کہ فوجیوں نے جو چیزیں لوگوں کے گھروں سے اٹھائی ہیں وہ ان ہی گھروں کو واپس کردیں۔ اعلان میں یہ بھی کہا کہ جس گھر میں کوئی فوجی موجود ہے اس گھر کا بڑا آدمی آکر ہمیں بتائے۔


اعلان ہوتے ہی چند ایک فوجی باہر آگئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک ادھیڑ عمر آدمی دوڑا آیا اور ایک فوجی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔
’’اس شخص نے میری کنواری بیٹی کی عزت لوٹ لی۔‘‘ اس آدمی نے مثنیٰ کے آگے فریاد کی ۔’’ اور یہ ہمیں قتل کی دھمکیاں دیتا رہا ہے۔‘‘
مثنیٰ کے حکم سے اس فوجی کو الگ کھڑا کر دیا گیا۔
کچھ دیر بعد دو چار فوجی اور باہرآگئے۔ ان میں سے بھی ایک نے ایک عورت نے آبروریزی کی تھی۔ اُسے بھی الگ کھڑا کر دیا گیا۔
ان کے بعد بارسماء کا جاگیردار فرخ باہر آیا اور مثنیٰ بن حارثہ سے ملا اور اپنا تعارف کروایا۔
’’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان فوجیوں کو معاف کر دیں۔‘‘ فرخ نے کہا۔’’ اور انہیں مدائن جانے دیں۔‘‘
’’کیا عربوں کو تم جاہل سمجھتے ہو؟‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ کیا میں یہ سمجھ نہیں سکتا کہ تم ان فوجیوں کو ہم سے چھڑا کر ملکۂ فارس اور اس کے سپہ سالار کو خوش کرنا چاہتے ہو…… اور تم ابھی تک اپنے آپ کو ملکہ ٔفارس کی رعایا سمجھ رہے ہو۔یہ علاقہ اب فارس کی سلطنت سے نکل گیا ہے ۔اگر تم مجرموں کی حمایت کرو گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے۔ یہ بزدل بھگوڑے ان بیگناہ لوگوں کے مال و متاع اور ان کی عزتیں لوٹ رہے ہیں اور تم ان کی پشت پناہی کر رہے ہو۔‘‘
’’یہ میری بھول تھی معزز سالار!‘‘ فرخ نے مثنیٰ کے تیور دیکھ کر کہا۔’’ میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ علاقہ اب آپ کی بادشاہی میں آگیا ہے۔‘‘

’’ہماری بادشاہی میں نہیں۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ اﷲ کی بادشاہی میں……اور اﷲ کی بادشاہی میں کوئی انسان کسی انسان پر ظلم نہیں کر سکتا ۔ہم انسانوں کو ان کے حقوق اور عدل و انصاف دینے آئے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ تم اس علاقے کے بادشاہ بنے ہوئے ہو۔ جاؤ اور تما م فوجیوں کو باہر لے آؤ اور انہیں کہو کہ لوگوں کے گھروں سے لوٹا ہوا مال ساتھ لے آؤ۔‘‘
فرخ دوڑا گیا اور کچھ ہی دیر بعد جالینوس کے دستوں کے فوجی جن میں چند ایک عہدیدار بھی تھے باہر آگئے۔ انہوں نے جو اشیاء لوگوں کے گھروں سے اٹھائی تھیں وہ مثنیٰ کے آگے زمین پر رکھ دیں۔ بستی کے لوگوں کو بلایا گیا کہ وہ اپنی اشیاء شناخت کر کے لے جائیں۔
پھر بستی کے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان فوجیوں کو پہچانیں جنہوں نے ان کی عزتیں لوٹی ہیں۔ لوگوں نے کم و بیش بیس فوجیوں کو آگے کر کے کہا کہ انہوں نے ان کے گھروں میں من مانیاں کی تھیں۔
مثنیٰ نے ان میں سے ایک کو دھکیل کر آگے کیا اور گھٹنوں کے بل بٹھا کر اس کی گردن جھکا دی۔
’’اس کے ہاتھوں ستائی ہوئی عورت کو آگے لایا جائے۔‘‘ مثنیٰ نے بستی کے لوگوں کے ہجوم سے کہا۔
ذرا وقفے سے ایک نوخیز لڑکی اپنے باپ کے ساتھ آگے آئی۔ مثنیٰ نے اپنی تلوار نیام سے کھینچ کر لڑکی کو دی اور اسے کہا کہ اس شخص کی گردن اڑا کر اپنی بے عزتی کا انتقاام لے۔


لڑکی کی عمر بمشکل سولہ برس تھی ۔ اس نے تلوار اس فوجی کی گردن پر رکھی اور دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھائی۔ کچھ دیرتلوار اوپر ہی اٹھی رہی اور لڑکی کے ہاتھ کانپنے لگے۔آخر لڑکی نے تلوار نیچے کر کے مثنیٰ کی طرف بڑھا دی اور وہ رونے لگی۔ ایک مجاہد دوڑ کر آگے آیا۔ وہ بیس بائیس برس کی عمر کا خوبرو جوان تھا۔ جو صہیب ثقفی کے نام سے مشہور ہو گیا تھا ۔اس کی شہرت غیر معمولی شجاعت کی بدولت تھی۔ اس کا پورا نام صہیب ابن القدر تھا۔ وہ ابو عبیدکے قبیلے ثقیف میں سے تھا۔
’’ میں ا س لڑکی کا انتقام لوں گا۔‘‘ اس نے پر جوش آواز میں کہا اور اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے اس نے اس فارسی کا سر اس کے جسم سے الگ کر دیا۔ اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’ ہم تمہاری عزت کے محافظ ہیں۔‘‘
صہیب ثقفی جس تیزی سے آیا تھا اسی تیزی سے واپس جا کر اپنی جگہ چلا گیا۔ لیکن لڑکی اسے وہیں کھڑی حیرت ذدہ نظروں سے دیکھتی رہی۔
مثنیٰ بن حارثہ کے حکم سے باقی آدمیوں کو بھی اسی طرح سزائے موت دی گئی۔ کسی کو مظلوم عورت نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا اور کسی کا سر کسی مجاہد نے تن سے جدا کیا۔ بستی میں سے دوسرے جو فوجی برآمد ہوئے انہیں جنگی قیدی بنا لیا گیا۔
’’میں آپ کی اطاعت قبول کرتا ہوں۔‘‘ فرخ نے کہا۔

اُدھر ایک اور بستی زوابی میں بھی یہی منظر بنا ہو اتھا۔ وہاں دوسرے سالار سلیطؓ بن قیس گئے۔ وہاں بھی فرخ جیسا ایک جاگیر دار تھا۔ جس کا نا م فراونداد تھا، وہ فرخ سے زیادہ طاقتور تھا ۔اس نے مزاحمت کی بھی کوشش کی تھی۔ لیکن بستی کے لوگوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا ۔ اسے پکڑ کر سلیطؓ کے سامنے کھڑا کیا گیا۔
’’کیا تم نے اپنے بہادر اور شیر دل سالاروں کا انجام نہیں سنا؟‘‘سلیطؓ نے اسے کہا۔’’ کیا جالینوس سے بڑھ کر کوئی اور بہادر سالار تمہاری فوج میں تھا؟……کہاں ہے تمہارا جالینوس؟……اس نے ہم سے ایسی شکست کھائی ہے کہ بھاگتا نظر نہیں آیا ۔کیا تم جالینوس سے زیادہ بہادر ہو؟‘‘
’’میری بستی کے لوگوں نے مجھے دھوکا دیا ہے۔‘‘ اس فارسی جاگیردار نے کہا۔’’ اگر یہ میراساتھ دیتے تو میں مقابلہ کرتا۔‘‘


’’اب تمہارا ساتھ کوئی نہیں دے گا۔‘‘ بستی کے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’ تمہاری بادشاہی ختم ہو گئی ہے۔‘‘

Post a Comment

Previous Post Next Post