قمرؔسیوانی:ایک معتبر فن کار Qamar Sewani Ek Mutabar Fankaar

ارشدقمر
DaltonGanj/Palamu
Jharkhand

              قمرؔسیوانی:ایک معتبر فن کار


صوبہ بہار میں سیوان‘ سارن کمشنری کا ایک قدیم ضلع ہے جہاں سے بہت ساری نابغہ ٔروزگار ہستیوں نے جنم لیا۔ جن میں شعراء وادبا ء کے علاوہ بڑی تعداد میں سماجی و ملّی ہستیاں بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے نہ صرف اپنا بلکہ صوبے اور ملک کا نام روشن کیاہے۔ انہیں شعرا کی فہرست میں ایک اہم نام حضرت قمرؔ سیوانی کا ہے جنہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اردو کی زلفِ گِرہ گیر کو سلجھانے اور سنوارنے میں گزاردی۔ شاعری میں یوں تو انھیں بیشتر اصنافِ سخن پر دسترس حاصل ہے لیکن رباعی گوئی میں انھوں نے جس مہارت صلاحیت کا ثبوت دیا ہے اس کی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
اصنافِ سخن میں رباعی اگر ایک طرف بہت محبوب صنف ِسخن ہے تو دوسری طرف مشکل ترین صنف بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ رباعی گوئی کی طرف اکثر شعرا کافی مشق سخن کے بعد ہی متوجہ ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں نے رباعی کو اردو ادب کی ایک مشکل ترین صنف ِسخن قرار دیا ہے۔ بقول ڈاکٹر مظفر حنفی۔’’رباعی کا فن کوزے میں سمندر کو سمونے کا فن ہے ،اور رباعی کے لئے ایک اور صرف ایک ہی بحر کی پابندی فن کار کے لئے پل صراط کی سی حیثیت رکھتی ہے‘‘۔
جب کہ اس کے بر عکس پروفیسر عبد المغنی کا خیال ہے کہ ’’ادراک اگر تیز ہو اور ذہانت نکتہ سنج تو رباعی کے لئے یہ اوصاف سرمایہ ہیں‘‘۔

دیگر اقسام ِشاعری کے مقابل رباعی ہی ایسی واحد صنف ِفن سخن ہے جس کے نمایاں نقوش تاریخ ادب کے ہر دور میں بہ آسانی تلاش کئے جا سکتے ہیںتو یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ ہئیت اور تکنیک کے سخت ترین اصول و ضوابط سے عدم واقفیت کی بنا پر اکثر فن کار اس کے حدود و امکانات کی توسیع میں ناکام رہے ہیں۔
رباعی کے ضمن میں حضرت ناوکؔ حمزہ پوری کا یہ قول بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔وہ فرماتے ہیں’’مختصر اصنافِ سخن میں اس سے زیادہ طیّب و طاہر اوردلکش و دل نشیں کوئی دوسری صنف نہیں‘‘۔
ظاہر ہے چار مصرعوں میںوہ بھی رباعی کے مروجہ اوزان میں اپنی بات قاری کی سماعتوں میں منتقل کرنا یقینا ایک مشکل عمل ہے،مگر جس نے یہ ہنر سیکھ لیا ایک کامیاب رباعی گو کی حیثیت سے خود کو منوا لیا۔

رباعی کا نکتۂ ارتکاز اس کا آخری مصرع ہوتا ہے جس میں ایک ایک لفظ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے اور مصرعوں کی نہایت موزوں ترتیب کے بغیر اس فن میں زیادہ کامیابی نہیں ہوسکتی۔  اس کے لئے مشق ومزاولت کے ساتھ ساتھ تجربہ کا ہونا بھی لازمی ہے۔

قمر سیوانی صاحب کی رباعیوں کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو پاتے ہیں کہ وہ ایک مشّاق سخن گو ہیں اور الفاظ پر بلا کی قدر ت رکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان کی رباعیات فنی لوازمات کے ساتھ ساتھ ان کی فکری جہات اور بالیدہ شعور کا عمدہ نمونہ بن گئیں ہیں۔ پہلے رباعیات کے موضوعات تصوف‘وارداتِ حسن و عشق اور حکیمانہ طرز کے ہوتے تھے لیکن اب اس میں کافی توسیع ہوئی ہے اور غزل کی طرح رباعیوں میں بھی انس وآفاق کے سبھی پہلوؤں کو جگہ دی جانے لگی ہے۔اس تناظر میں دیکھیں تو حضرت قمر کی رباعیاں بھی عصری حالات کا آئینہ نظر آتی ہیں۔ ان رباعیوں میں جمالیات کے ساتھ ساتھ انسانی سروکار‘مجر و ح جذبات اور انہدام پذیر معاشرے کی سچی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ان رباعیوں کی سب سے بڑی خصوصیت استعارات وعلائم کا بر ملا استعمال ہے جس کی بنا پر یہ رباعیاں تاثر پذیری کے ساتھ ساتھ گیرائی وگہرائی کا عمدہ نمونہ بن گئی ہیں۔ مختلف موضوعات پر مبنی ان کی چند  رباعیات پیش ہیں۔ملاحظہ فرمائیں:
ہر موجِ بلا خیز کا دم ٹوٹ گیا
تھا جس پہ بہت ناز وہ’ ہم‘ ٹوٹ گیا
کشتی نے مری دھول چٹا دی اس کو
اس گہرے سمندر کا بھرم ٹوٹ گیا
٭
برسات میں پانی کی گرانی دیکھی 
تہوار میں پوشاک پرانی دیکھی
مرجھائے ہوئے پھول مجھے یاد آئے
جب میں نے غریبوں کی جوانی دیکھی
٭
نکیلی چٹانوں سے گزرتا ہوگا
وہ ٹوٹ گیا ہو گا بکھرتا ہوگا
اب شام ہوئی رخت ِسفر ساتھ لیے
سورج کسی دریا میں اُترتا ہو گا

اس میں شک نہیں کہقمرؔ سیوانی صاحب ایک منجھے ہوئے پختہ مشق اورماہر ِفن فنکار ہیں۔انہوں نے زمانے اور زندگی کا بغور مطالعہ کیا ہے‘تلخ وشیریں تجربات کا ذائقہ چکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تجربات اور مشاہدات سے تمازت کشید کرکے جزوِ شاعری بنایا ہے اور یہ رباعیاں اپنے وقت کا آئینہ بن گئی ہیں۔ان کے رباعی گوئی کے حوالے سے حضرت ناوکؔ حمزہ پوری فرماتے ہیں’’قمرؔ سیوانی رباعی کے تمام محاسن اپنے کلام میں سمو دیتے ہیں ۔ان کی رباعیوں میں وہ تمام خوبیاں بہ مقدار وافر موجود ہیں جو اہل نقد و نظر نے رباعی کے لئے ضروری قرار دیا ہے‘‘۔
پہلے ہی تذکرہ کرچکا ہوں کہ ان کی رباعیوں میں تصوف و فلسفہ کا رنگ بھی گہرا نظر آتا ہے رباعیوں میں فکری و فلسفیانہ امور پر دسترس رکھتے ہیں۔مسائل سے آنکھیں چرانے کی بجائے اعتماد و ایقان کے ساتھ ڈٹ کر ان کا سامنا کرتے اور ہنستے ہنستے ان مشکلات کو جھیل جاتے ہیں۔یہ بڑے دل گردے کی بات ہے۔چنانچہ انھوں نے ایسی رباعیان بھی کہی ہیں جن میں  جذبات و احساسات کی شدت خاص طور سے محسوس کی جاتی ہے۔ان کی فکر صالح اور دروں بینی کی کچھ مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
آنکھیں جو مری نم ہیں تو نم رہنے دے۔حالات کی گردش کا کرم رہنے دے
خوشیوں کے بُرے وقت میں کام آئے گا۔یہ قیمتی سرمایۂ غم رہنے دے
٭
تصویرِ ستم میں نہ کوئی رنگ بھرے۔آغاز کے انجام سے ہر وقت ڈرے
کہہ دو کہ وہ خطرے میں نہ ڈالے خود کو۔آئینہ قمرؔ بات نہ پتھر کی کرے
٭
کب کام ہوا ہے کسی رہبر سے۔منزل کا پتہ مجھ کو ملا ٹھوکر سے
آئینہ قمرؔ کام نہ آیا میرا۔مشکل مری آسان ہوئی پتھر سے
٭
میدان میں تلوار زباں کھولتی ہے
منجدھار میں پتوار زباں کھولتی ہے
ہو تم کو اگر ذوقِ سماعت تو سنو
تنہائی میں دیوار زباں کھولتی ہے

فن کار ذہنی طور پر معاشرے کا سب سے زیادہ حساس اور با شعور انسان ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عوامی زندگی کاشعور بھی رکھتا ہے۔ معاشرے کی ناہمواریوں کا مداوا اگر چہ اس کے بس کی بات نہیں مگر وہ اس کے اظہار کا اہم وسیلہ ضرور ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے اسے ادبی زبان میں ظاہر کئے بغیر نہیں رہتا۔قمرؔ سیوانی بھی اس دور کے ایک ایسے فن کار ہیں جنہوں نے موجودہ زندگی کی محرومیوں کو موثر انداز میں پیش کیا ہے۔سلاستِ زبان و بیان اور لفظوں کی نشست وبرخاست کی جس قدر داد دی جایے کم ہے۔
ان کے بارے میں پروفیسر شکیل الرحمٰن رقمطراز ہیں: ۔
’’حضرت قمرؔ سیوانی ایک بزرگ شاعر ہیں ۔رباعی کی تکنیک اور اس کے تقاضے کو بخوبی جانتے پہچانتے ہیں ۔اردو شاعری کی کلاسیکی روایات جیسے ان کے شعور اور تحت الشعور میں رچی بسی ہے‘‘۔
ان کے کمالِ ہنرمندی کا اشارہ ان رباعیوں سے ملتا ہے جن میں خیالات و تصورات اور تجربات و مشاہدات کی چھوٹ نظر آتی ہے ۔کہا جا سکتا ہے کہ ان رباعیوں میں زندگی سانس لیتی محسوس ہورہی ہے ۔انہوں نے ایک شاعر کی نظر سے اس دنیا کو دیکھا اور پرکھا ہے۔چند رباعیاں ملاحطہ فرمائیں   ؎
مہتاب کے دریا کا کنارہ رکھئے
سورج کی ہتھیلی پہ ستارہ رکھئے
رکھئے غمِ حالت کے ہونٹوں پہ ہنسی
 آنکھوں کی حویلی میں نظارہ رکھئے
٭
تکلیف کی شدت میں کمی آتی ہے
دکھ ٹالنے راحت کی گھڑی آتی ہے
جب دردِ جگر نبض پہ رکھتا ہے ہاتھ
 بیمار کے ہونٹوں پہ ہنسی آتی ہے
٭
ارمان و تمنّا کا جہاں خالی ہے 
ہر گوشۂ جذبات نہاں خالی ہے 
اے غم نہ بھٹک اس کو بنا لے مسکن
مدّت سے مرے دل کا مکاں خالی ہے

ایسے اور بھی مختلف النوع عنوان پر بے شمار رباعیاں مل جائیں گی جو قمرؔ سیوانی کی پختہ صلاحیتوں کی غمازی کرتی ہیں۔میں ادارۂ ادبی محاذ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اس باکمال شاعر کا مبسوط گوشہ شایع کرکے عمدہ خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ 
٭٭٭    

Post a Comment

Previous Post Next Post