حضرت سید خواجہ شمس الدین امیر کلال سوخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ Biography Hazrat Khawaja Syed Shamsuddin Ameer Kulal Sokhari

حضرت سید خواجہ شمس الدین امیر کلال سوخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ صحیح النسب سید ہیں۔ طریقت میں آپ کا انتساب حضرت بابا محمد سماسی قدس سرہ سے ہے۔ آپ قصبۂ سو خار (جو قصبہ سماس سے پندرہ میل اور بخارا سے ایک میل کے فاصلہ پر ہے) میں ۶۷۶ھ/ ۱۲۷۸ء میں پیدا ہوئی۔ آپ کوزہ گری کا شغل رکھتے تھے۔ فارسی زبان میں کوزہ گر کو کلال کہتے ہیں۔ لہٰذا آپ امیر کلال کے نام سے آسمانِ طریقت و معرفت پر آفتاب و ماہتاب بن کر چمکے۔

آپ اوائل جوانی میں کشتی لڑا کرتے تھے۔ ایک روز آپ رامتین میں کشتی لڑنے میں مشغول تھے۔ حضرت محمد بابا سماسی رحمۃ اللہ علیہ کا گزر اُدھر سے ہوا، اور وہ یہ نظارہ دیکھنے کے لیے ایک دیوار کے سایہ میں ٹھہر گئے اور آپ پر توجہ مرکوز کرکے محو ہوگئے۔ حضرت بابا رحمۃ اللہ علیہ کے خدام میں سے ایک نے عرض کیا یا حضرت! آپ ان لوگوں پر جو اُمورِ بدعت میں مصروف ہیں، کیوں حیران و پریشان ہیں؟ حضرت بابا رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد کیا کہ اس میدان میں ایک ایسا مرد ہے اور اس شکارگاہ میں ایک ایسا شکار ہے جس کی صحبت سے کاملینِ زمانہ فیض یاب ہوں گے کیونکہ اُس کی پرواز نہایت بلند و بالا ہے۔ ہم اُسی مرد کے منتظر ہیں کہ کاش وہ ہمارے جال میں آ پھنسے۔ اسی اثنا میں حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی نظر حضرت محمد بابا رحمۃ اللہ علیہ  پر پڑی تو اُن کے دل کا پرندہ بابا رحمۃ اللہ علیہ کی محبت کے جال میں  آ پھنسا۔ حضرت بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی  قوتِ جاذبہ سے اپنی طرف کھینچ لیا۔اس طرح آپ بے اختیار پیچھے پیچھے بابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے دولت کدہ پر پہنچے۔حضرت بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اُسی وقت آپ کو طریقہ عالیہ نقشبندیہ کی تلقین فرمائی اور اپنی فرزندی میں قبول کرلیا۔ اس کے بعد آپ کبھی بھی کشتی کے دنگل یا بازار میں دکھائی نہ دیے۔ اور حضرتِ خواجگان کے طریقہ کے مطابق مشغولِ ریاضت و مجاہدہ رہے یہاں تک کہ درجۂ  تکمیل و ارشاد پر پہنچ گئے۔

آپ فنا فی الشیخ کی سچی تصویر تھے۔ متواتر آٹھ سال تک بلا ناغہ دو شنبہ (پیروار) اور جمعۃ المبارک کے روز نمازِ مغرب سوخار میں پڑھ کر سماس کو روانہ ہوجاتے اور عشاء کی نماز حضرت بابا رحمۃ اللہ علیہ کی اقتداء میں ادا کرے اور پھر نمازِ فجر واپس سو خار میں آکر پڑھتے۔ آپ کی زندگی میں کسی کو بھی آپ کے اس حال کی خبر نہ ہوئی      ؎

گر شہرہ شوی بہ خلق شر الناس
بہ زانِ نبود چو خضر چوں الیاسی

 

در گوشہ نشیں شوی ہمہ وسواسی
کس نشا سد ترا وتو کس نہ شناسی

ایک روز آپ رامتین کے ایک باغ میں کپڑے دھو کر خشک کرنا چاہتے تھے۔ مریدوں نے کانٹوں کی باڑ پر کپڑے پھیلا کر خشک کرنے چاہے تو آپ نے منع فرمادیا کہ باڑ کو کوئی نقصان نہ پہنچے درختوں کی شاخوں سے بھی منع فرمادیا کہ مبادا شاخیں ٹیڑھی ہوجائیں اور زمین پر پھیلانے سے بھی روک دیا تاکہ مویشیوں کے کھانے کی گھاس خراب نہ ہو۔ آپ کے یہ ارشاداتِ طیبات سن کر مریدین دنگ رہ گئے اور عرض کرنے لگے کہ اے امیر! تو پھر آپ کپڑے کس طرح خشک کیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے کپڑے اپنی پیٹھ پر پھیلا کر سکھالیا کرتا ہوں اور پیٹھ سورج کی طرف کرلیا کرتا ہوں، پھر فرمایا: اے یارو! اگر باڑ کو نقصان پہنچے، کسی درخت کی شاخ ٹیڑھی ہوجائے یا مویشیوں کی گھاس خراب ہوجائےتو تم باغ کے مالک کے سامنے کیا عذر پیش کرو گے؟یہ عمل تم خلافِ شریعت کرتے ہو، دوسروں کی ملکیت میں تصرف و اختیار جائز نہیں، گناہ خواہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو اُسے سہل اور معمولی نہ سمجھو، آدمی گناہ کو سہل اور معمولی سمجھنے سے دوزخ میں جاتا ہے۔ اسی حال میں آپ کی زبانِ اقدس سے نکلا کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لا صغیرۃ مع الاصوار ولا کبیرۃ مع الاستغفار۔

’’اصرار کے ساتھ کوئی صغیرہ نہیں (بلکہ کبیرہ ہوجاتا ہے اور ستغفار کے ساتھ کوئی کبیرہ نہیں رہتا‘‘۔

بعد ازاں فرمایا کہ راہِ خدا کسی پر نہیں کھلتا جب تک کہ وہ تقویٰ کو اپنا شعار نہ بنائے۔

امیر تیمور (المتوفی ۸۰۷ھ/ ۱۴۰۵ء) نے سمر قند میں جب قیام کیا تو ایک قاصد کو حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ یہاں قدم رنجہ فرمائیں اور اس ملک کو اپنے قدم مبارک سے مشرف فرمائیں کیونکہ ہمارا حاضر ہونا بہت دشوار اور مشکل ہے:

اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُو قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا (سورۃ نمل ع۳)

تحقیق بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اُسے خراب کردیتے ہیں‘‘۔

وہ قاصد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے عذر کیا اور فرمایا کہ ہم اسی جگہ ہی دعا گو ہیں اور اپنے صاحبزادے امیر عمر رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی ۸۰۳ھ) کو عذر خواہی کے لیے بھیجا اور اُس کو تاکید کردی کہ اگر امیر تیمور تم کو انعام یا جاگیر دے تو ہرگز  قبول نہ کرنا۔ اگر قبول کرو تو ہمارے پاس نہ لانا کیونکہ حضور سیّد عالم صلی اللہ  علیہ وسلم ایسے معاملے قبول نہیں فرمایا کرتے تھے۔ لہٰذا اگر تم قبول کرو گے تو  تو اپنے جد بزرگوار صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرو گے۔ درویش ہر وقت مومنوں کے لیے دعا میں مشغول رہتے ہیں اگر وہ دنیا کی طرف میلان کریں تو اُن کی دعا حجاب میں ہوجاتی ہے۔ جب امیر عمر رحمۃ اللہ علیہ امیر تیمور کے پاس پہنچے تو عذرخواہی کی اور چند روز کے بعد اجازتِ رخصت طلب کی ۔ امیر تیمور نے عرض کیا کہ میں نے تمام بخارا آپ کی نذر کیا لیکن آپ نے انکار کردیا۔ تیمور نے پھر عرض کیا کہ چلو سارا نہ سہی کچھ تو قبول فرمائیے، آپ نے انکار فرمایا کہ اجازت نہیں ہے۔ تیمور نے کہا کہ میں حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ  کی خدمت میں کیا چیز ارسال کروں کہ ہمارا تقرّب ہوجائے۔ امیر عمر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ درویشوں کے دل میں تمہارا تقرب ہوجائے تو تقویٰ  اور عدل کو اپنا شعار بناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور خاصانِ خدا کے قرب کا ذریعہ یہی چیزیں ہیں۔

کرامات:

۱۔       حضرت امیرکلال رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب آپ پیٹ میں تھے اگر اتفاقاً کبھی مشتبہ لقمہ میرے پیٹ میں چلا جاتا تو اس قدر درد ہوتا کہ میں بے ہوش ہوجاتی۔ جب یہ کیفیت کئی بار گزری تو مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ بات اس بچے کی برکت سے ہے جو میرے پیٹ میں ہے۔

۲۔       بیعت سے پہلے ایک روز آپ کشتی لڑ رہے تھے کہ حاضرین کی ایک سیاہ باطن جماعت غیبت (چغلی) کرنے لگی کہ ایسے سیّد زادہ اور بزرگ زادہ کو اس امرِ بدعت میں مشغول نہ ہونا چاہیے۔اُسی وقت اُس جماعت پر خواب (نیند) نے غلبہ  کیا، کیا دیکھتے ہیں کہ قیامت برپا ہے اور وہ کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہر چند کوشش کرتے ہیں مگر نکل نہیں سکتے۔ ناگاہ حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ اُن کے  پاس پہنچتے ہیں اور اُن کو کیچڑ سے نکال لاتے ہیں۔ جب وہ بیدار  ہوئے تو آپ نے اُن کے کان پکڑ کر کہا کہ یارو! ہم اُسی روز کے لیے زور  آزمائی کرتے ہیں۔ تم درویشوں کے حق میں بد اعتقاد نہ بنو۔ جب انہوں نے یہ حال دیکھا تو سب نے توبہ کی اور مردانِ راہِ خدا بن گئے۔ جس بزرگ کا یہ حال کشتی لڑنے کے وقت ہو بعد میں اسی پر قیاس کرلینا چاہیے۔

۳۔      ایک روز آپ (حضرت امیر کلال) اپنے اصحاب کے ساتھ خواجہ ابو حفض بخاری قدس سرہ کی مسجد میں تشریف رکھتے تھے اور مناسکِ  حج بالتفصیل بیان فرما رہے تھے۔ ایک بد اعتقاد شخص کے دل میں خیال آیا  کہ آپ نے کعبہ کو کب دیکھا ہے کہ بیان فرما رہے ہیں۔ یہ مسائل تو وہ بیان کرے جس نے کعبہ کو دیکھا ہو۔ کچھ دیر بعد آپ باہر نکلے اور اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا، اے نادان! دیکھ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ اُس نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ کعبہ آپ کے سر پر طواف کر رہا ہے، آپ نے فرمایا، اے نادان! جس کے پاس ایک درہم نہ وہ وہ اس خیال میں ہے کہ کسی کے پاس کچھ نہیں تا وقتیکہ اُس کے دل کی آنکھ نہ کھلے، اُسے کچھ نظر نہیں آئے گا، وہ شخص قدموں میں گر کرتائب ہوا۔

۴۔      ایک روز آپ کے اصحاب کی ایک جماعت حضرت جبروں اتا رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کو گئی  جو کچھ فاصلہ طے کیا تو ایک شیر کو راستے میں کھڑا دیکھا۔ وہ حیران ہوئے کہ اب کیا کریں، اتنے میں آپ تشریف لائے اور شیر کی گردن پکڑ کر راستہ سے ایک طرف کردیا، جب وہ جماعت گزر گئی تو شیر نے بغرض تعظیم سر جھکایا اور ایک طرف چل دیا۔ کچھ عرصہ بعد اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ تھا، آپ نے فرمایا کہ جو ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، سب چیزیں اس سے ڈرتی ہیں کیونکہ اصل درہمہ کا رہا خدا ترسی است          ؎

توہم گردن از حکم دا ور پیچ

 

کہ گردن نہ  پیچد ز حکم تو ہیچ

۵۔       ایک روز حضرت خواجہ بہاء الدین رحمۃ اللہ علیہ، سلطان قضان کے دربار میں جلاد کا کام کرنے میں مصروف تھے کہ ایک مجرم پیش ہوا۔ سلطان نے اُس کے قتل کا حکم دیا۔ خواجہ صاحب اُسے قتل گاہ میں لے گئے، اُس کی آنکھیں  باندھیں اور تلوار کھینچ لی، درود شریف پڑھنے کے  بعد تلوار اس کی گردن پر ماری مگر تلوار نے اثر نہ کیا۔ دوسری بار وار کیا مگر تلوار نے اثر نہ کیا تیسری بار بھی وار کیا مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ خواجہ صاحب نے جب دیکھا کہ تلوار کھینچتے وقت مجرم ہونٹ ہلاتا ہے اور منہ میں کچھ کہتا بھی ہے۔ حضرت خواجہ نے پوچھا تجھے خدائے عزوجل کی قسم! تو سچ سچ بتا کہ منہ میں کیا کہتا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنے شیخ و سید کو یاد کرتا تھا۔ حضرت خواجہ نے پوچھا کہ تیرا شیخ کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے شیخ و سید حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ پوچھا  کہ اس وقت کہاں ہیں؟ جواب دیا کہ بخارا کے علاقہ میں ایک قصبہ سو خار میں تشریف رکھتے ہیں یہ سن کر حضرت خواجہ نے تلوار پھینک دی اور فوراً سو خار کو روانہ ہوگئے۔ فرماتے تھے کہ وہ بزرگ اور شیخ جو اپنے مرید کو تلوار کے نیچے سے بچا سکتا ہے اگر کوئی اُس کی خدمت  بجالائے، تعجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے دوزخ کی آگ سے بچالے۔

۶۔       ایک روز آپ جامع مسجد بخارا سے نماز جمعہ ادا کرکے اپنے گھر کو روانہ ہوئے۔ راستے میں فتح آباد وکلاآباد کے درمیان امیر تیمور مع فوج خیمہ زن تھا۔ آپ نے اپنے مریدوں اور یاروں سے استفسار فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ امیر تیمور کا خیمہ ہے۔ امیر تیموریہ سن کر اپنے خیمہ سے باہر نکلا اور آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اے مخدوم! میں آج آپ کی زبانِ فیضِ ترجمان سے کچھ سننا چاہتا ہوں تاکہ میرے دل کو تسکین و راحت نصیب ہو۔ آپ نے ارشاد کیا کہ فقیر کو جب تک حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے روحانی اشارہ نہ ہوگا اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہی حال میرے جدِّ بزرگوار صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ مگر تم منتظر رہو۔جب آپ اپنے آستانے پر پہنچےتو نمازِ عشاء با جماعت ادا کرکے حضرت عزیزاں رحمۃ اللہ علیہ کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے ایک محرم راز  شیخ منصور کو جو قراماں میں رہتا تھا، طلب کرکے ارشاد فرمایا کہ فوراً امیر تیمور کے پاس جا کر اُسے پیغام دو کہ مشائخ بخارا کی ارواحِ طیبہ نے مملکتِ خوارزم تمہیں عطا کردی ہے۔ تم بلا توقف وہاں پہنچ جاؤ، امیر تیمور نے ایسا ہی کیا اور فتح و نصرت کے شادیانے بجاتا ہوا واپس آیا۔

۷۔      ایک روز آپ اپنے اصحاب کے ساتھ جامع مسجد بخارا کو جا رہے تھے کہ ایک کھیت میں ایک کسان کام کر رہا تھا۔ اُس کے غلام نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ آقا (کسان) نے جواب دیا کہ یہ مفت خورے ہیں۔ آپ نے اپنے نورِ فراست و نورِ کرامت سے یہ بات معلوم کرلی اور فرمایا کہ یارو! حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ درویشوں کے متعلق بداعتقادی نہ کرو اور اُن کو چشم حقارت سے نہ دیکھو تاکہ دنیا سے ذلیل و خوار ہوکر نہ جاؤ، یار حیران ہوئے کہ حضرت آج کیا فرما رہے ہیں؟ جب مسجد سے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں  کہ وہ شخص (آقا) درد گردہ کی تکلیف سے قریب الموت ہے۔ جب نزدیک پہنچے تو اُس نے کہا مجھے حضرت امیرکلال رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے چلو، جب اُس کو آپ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص نے کارگر تیر کھایا ہے اس کا علاج نہیں ہوسکتا اسے واپس لے جاؤ، یہ انجام کو پہنچ چکا ہے ہے چنانچہ وہ شخص گھر پہنچتے ہی مرگیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے   ؎

خاکسارانِ جہاں را بحقارت منگر
ہر بیشہ رامبراں کہ خالی است

 

توچہ دانی کہ پس ایں گرد سوارے باشد
شاید کہ پلنگے خفتہ باشد

۸۔      ایک مرتبہ آپ چند مریدوں کے ساتھ کسی دریا کے کنارے فروکش ہوئے۔ سیر کرتے کرتے اصحاب سے کچھ دور نکل گئے، تھوڑی دیر بعد کچھ سوچتے ہوئے واپس لوٹ آئے اور فرمایا، دوستو! ’’علی صوفی ابھی آجائے گا‘‘۔ ارادت مند خاموش رہے مگر انہیں تعجب ہو رہا تھا کہ علی صوفی جسے حضرت امیر یہاں سے بہت دور بخارا میں چھوڑ آئے ہیں، یہاں کیسے آئے گا؟ اتنے میں دیکھا کہ علی صوفی ہوا کی مانند پانی پر دوڑتا چلا آ رہا ہے اور جب دریا سے نکل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کا ایک بال بھی تر (بھیگا ہوا) نہ تھا۔آپ نے علی صوفی کو جھڑکا کہ تو گھر سے کب باہر آیا تھا؟ اس نے عرض کیا میرے مخدوم! وہاں مجھے آپ کے جمال کا اس قدر اشتیاق غالب ہوا کہ مجھے خبر نہ رہی اور آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو یہاں دیکھا، آپ نے ارشاد فرمایا کہ جیسے آیا ہے، ویسے ہی لوٹ جا اور جب تک ہم نہ لوٹیں تم اپنی جگہ پر موجود رہو، علی صوفی نے آپ کے اشارے پر پانی پر قدم رکھا اور ہوا کی مانند چل پڑا اور فوراً منزلِ مقصود پر جا پہنچا۔

۹۔       ایک دفعہ خواجۂ خواجگان خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ (جو آپ کے خلیفۂ اعظم ہیں) زیارت کے لیے حاضر ہوئے۔ سامنے آگ  دہک رہی تھی۔ آپ خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا  ’’تم اچھے موقع پر آئے ہو‘‘۔ خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آگ میں لکڑی ڈالی اور بیٹھ رہے، اُن پر اضطراب کا عالم طاری تھا اور اس حالت میں انہوں نے اپنی پوستین اتار کر آگ میں ڈال دی حالانکہ اُس کی جیبوں میں کچھ  شکار کردہ پرندے موجود تھے۔ باہر آکر آپ نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو ملامت کی اور حکم دیا کہ جاؤ! پوستین اٹھالاؤ، حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا، حضرت! پوستین تو جل کر خاکستر بن چکی ہوگی، فرمایا: بہاء الدین! جو چیز سالہا سال تک درویشوں کے زیرِ استعمال رہی ہو، اُسے آگ کس طرح جلائے گی، اُسے تو آتشِ عشق نے پہلے ہی جلا رکھا ہے        ع

سوختہ از بس کہ بریاں کے شود مثلِ کباب

حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ  گئے اور اپنی پوشتین وہاں سے صحیح و سالم باہر نکال لی حالانکہ یہ کام آپ کو دہکتی ہوئی آگ سے گزر کر کرنا پڑا مگر گزند نہ پہنچی، اس پر آپ نے ارشاد فرمایا: بہاء الدین! درویشوں اور اُن کی چیزوں پر یہ دنیوی آگ اثر نہیں کرسکتی، کیا عجب جو کوئی درویشوں کو اپنے دل میں جگہ دیدے، اُسے دوزخ کی آگ بھی نہ جلائے۔

۱۰۔      آپ کے انتقال کے بعد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے صوفیاء کی ایک جماعت بخارا میں وارد ہوئی اور قصبہ سو خار کا پوچھا۔ لوگوں کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ حضرت سید امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، لوگوں نے بتایا کہ حضرت تو رحلت فرماگئے ہیں، اُن صوفیا نے خواہش ظاہر کی کہ اُن کی اولاد امجاد سے ملیں گے، چنانچہ وہ سو خار آئے اور حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ملے اور حضرت کے کمالات کا ذکر کرنے لگے۔

لوگوں نے کہا کہ حضرت امیر تو کبھی مکہ اور مدینہ گئے ہی نہیں، آپ انہیں کیسے جانتے ہیں؟ صوفیاء بولے کہ ’’حرمین شریفین میں اُن کے متعدد مرید موجود ہیں جن میں ہم لوگ بھی شامل ہیں۔ ہم گذشتہ ۳۲ سال سے اُن کے ساتھ حج کرتے رہے۔ اس سال آپ کو نہ دیکھا تو اُن کے جمال کی کشش نے ہمیں یہاں کھینچ لیا مگر افسوس کہ وہ انتقال فرماگئے‘‘۔

مذکورہ جماعتِ صوفیاء نے حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ کے مزارِ مقدس پر حاضری دی اور ارادت مندوں کی طرح آنسو بہائے اور لوگوں سے کہا کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایسے صاحبِ کمال کی قدر تم نے نہیں کی، اس کی قدر عرب میں جاکر دیکھو اور پھر سب خدا حافظ کہہ کر چل دیے   ؎

قدرِ گل و مل بادہ پرستاں دانند
ای بے خبر، از بے خبری، معذوری

 

نے تنگ دلاں و تنگ دستاں دانند
سرّیست دریں شیوہ کہ مستاں دانند

آپ کا شجرۂ نسب فخرِ موجودات، سرور کائنات، رسولِ رحمت، حضور سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں جا ملتا ہے:

۱۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۲۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۳۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۴۔ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ ۵۔ حضرت امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ ۶۔ حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ ۷۔ حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ ۸۔حضرت سیّد ابراہیم رضا رحمۃ اللہ علیہ ۹۔ حضرت سیّد محمد جعفر موسوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۰۔ حضرت سیّد محمد عزیز موسوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۔ حضرت سید احمد موسوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۔حضرت سید محمد شہید موسوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۔ حضرت سید عبداللہ الملقب بہ مظلوم رحمۃ اللہ علیہ ۱۴۔ حضرت سید امیر موسوی رحمۃ اللہ علیہ۱۵۔ حضرت سیّد امیر حسین رحمۃ اللہ علیہ ۱۶۔حضرت سیّد ابوالقاسم رحمۃ اللہ علیہ ۱۷۔ حضرت سیّد امیر عزیز رحمۃ اللہ علیہ ۱۸۔حضرت سیّد امیر حمزہ رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۔حضرت سید امیر کلال رحمۃ اللہ علیہم۔

آپ کی رحلت ۸؍جمادی الاوّل ۷۷۲ھ/ ۱۳۷۰ء بروز پنجشنبہ (جمعرات) بوقت صبح صادق ہوئی۔ مزار شریف قصبہ سوخار نزد بخارا میں ہے       ؎

کرد رحلت چوں امیر اولیاء
ہاتفِ غیبی بتاریخِ وصال

 

ہر کسے سالش بہ سلک نظم سفت
’’صاحبِ انوار عرفان بود‘‘ گفت
۷۷۲ھ

ارشاداتِ قدسیہ:

جب آپ پر ضعف غالب آگیا اور جسم کمزور پڑ گیا تو اپنے صاحبزادوں اور ارادت مندوں کو جمع کرکے یہ وصیتیں فرمائیں۔

۱۔       جب تک تم زندہ رہو طلبِ علم سے ایک قدم بھی دور نہ رہو کیونکہ طلبِ علم تمام مسلمانوں پر فرض ہےاور حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے سرِ مُو تجاوز نہ کرو کیونکہ جملہ سعادتیں اسی عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ اوّل، علم ایمان، دوم، علم نماز سوم علم روزہ۔ چہارم، علم زکوٰۃ، پنجم، علمِ حج، ششم، والدین کی خدمت کا علم، ہفتم، صلۂ رحم اور رعایتِ ہمسایہ کا علم، ہشتم خرید و فروخت کا علم، نہم، حلال و حرام کا علم، ان امور سے ناواقفی کی بنا پر لوگ تباہی کے بھنور میں جا گرتے ہیں          ؎

دنیا طلبان ز حرص مستند ہمہ
آں عہد کہ با خدامی بستند ہمہ

 

از بہر درم جملہ شکستند ہمہ
موسیٰ کش و فرعون پرستند ہمہ

۲۔       عزیزو! یقین جانو کہ دنیا داروں کی دوستی اللہ تعالیٰ کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خداداں بنو اور خداخوں بھی تاکہ تمہارے دین و ایمان کا زیاں نہ ہو، ہر حالت میں خدا سے ڈرے رہو اور یاد رکھو کہ خدا ترسی سے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے۔ جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا ، اُس سے مت ڈرو، ہاں جو خدا سے ڈرتا ہے اس سے تم بھی ڈرو خدا ترس کو مت تکلیف دو، ایسا نہ ہو کہ اُس کی بد دعا سے مبتلائے مصیبت ہوجاؤ     ؎

ایس بسانیزۂ عدد شکناں
آہ یک پیر زن کند بہ شجر

 

لخت لخت از دعائے پیر زناں
نہ کند صد ہزار تیر و تبر

۳۔      فرمایا، دوسروں کے دل موہ لینے کی پوری پوری کوشش کرو کیونکہ     ؎

در راہِ خدا و کعبہ آمد منزل
تابتوانی زیارتِ دلہا کن

 

یک کعبۂ صور است و یک کعبہ دل
کافزوں ز ہزار کعبہ بود یک دل

۴۔      آپ نے فرمایا، عزیزو! جہاں تک ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کے ذکر پر زیادہ توجہ دو۔ ذکر ایسا کرو کہ اُس سے نفی و اثبات نمایاں ہوتی ہوں۔ ’’لَا اِلٰہ‘‘ کہنے میں ما سوائے حق کی نفی کرو اور اس کے بعد ’’الا اللہ‘‘ سے ذاتِ واحد جو والدین، اولاد اور ہر قسم کی احتیاج و مدد سے پاک اور بے نیاز ہے، کا اثبات کرو، اُس وقت تم صحیح طور پر ذکر کرنے والے بنو گے۔ کلمہ طیبہ کے بعد نے یہ معنی لکھے ہیں کہ ’’میں نے دینِ اسلام اور اُس کے تقاضے مان لیے ہیں‘‘۔ بعض نے لکھا، ’’جو کچھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے اُسے ہم نے مان لیا اور جس چیز کو وہ نہیں مانتے اُس سے ہم بھی بیزار ہیں‘‘۔ بعض نے کہا ہے: ’’کلمہ طیبہ، حق کا ماننا اور باطل کا رد کرنا ہے‘‘۔ میرےعزیزو! اس کلمے کے معنی جان کر اس پر عمل کرو تو حقیقی صاحبِ تصوف بنو گے۔ یاد رکھو، کپڑے پانی سے پاک ہوتے ہیں، زبان ذکرِ الٰہی سے اور جسم ادائے نماز سے، مال و دولت زکوٰۃ دے کر پاک ہوتے ہیں اور تمہارا پورا وجود نفی ما سوا اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی سے پاک ہوتا ہے          ؎

قومی بگزاف در غرور افتادند
معلوم شود چو پردہا برگیرند

 

و اندر طلبِ حورو قصور اُفتادند
کز کوئے تو دور دور اُفتادند

۵۔       میرے عزیزو! اخلاص اختیار کرو اور دوسروں پر رحم کرو تاکہ نجات پاؤ   ؎

میا زار مور و نیازارکس

 

رہ دستگاری ہمیں است و بس

(سعدؔی﷫)

۶۔       فرمایا: دل، زبان اور جسم کی پاکیزگی، حلال کے لقمے سے حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کے معدے کو پانی کا حوض جانیے، حوض سے مختلف سمتوں میں پاک پانی اسی صورت  میں نکل سکے گا جبکہ خود حوض پاک پانی کا مجموعہ ہو۔ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چالیس دن تک حلال روزی کھائے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے دل و زبان کو علم و حکمت سے بھر دے گا اور اُس کا دل روشن ہونے لگے گا مگر شرط یہ ہے کہ تقویٰ کو ہر حال میں اپنا شعار بنائے رکھے     ؎

تقویٰ و خوف و ترس و اخلاص و زُہد و علم
عہدِ وفا و صدق و سخا و صفا و حلم
اینہا ہمہ صفات کمالی اند در روش

 

صبر و یقین و طاعت  و خیرات بر دوام
مردی و مردمی و نکوتی بہ خاص و عام
مرد آں زمان شوی کہ شوی در روش تمام

۷۔      فرمایا: سالک، تائب رہے کیونکہ توبہ سب طاعتوں کا سرچشمہ ہے، توبہ یہ ہے کہ پہلے اپنے کیے پر دل میں شرمندہ ہو، پھر ترکِ گناہ کی نیت کرے اور اُس کے بعد اُن گناہوں کا ارتکاب نہ کرے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور گناہوں کی معافی مانگے۔

۸۔      فرمایا: اتنی گریہ زاری کرو کہ اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین ہوجائے اور تائب کے لقب کے سزاوار بن سکو، روزی کا غم دل سے نکال دو اور آخرت کے غم سے فکر مند رہو، عبادت کرتے رہو کیونکہ یہ بندہ ہونے کی علامت ہے۔

۹۔       ارشاد کیا: جانتے ہو، ارادت کیا ہے؟ ارادت، رضائے خداوندی کا حصول ہے، یہ بری عادتیں ترک کرنے، وفائے عہد، ادائے امانت اور ترکِ خیانت کا نام ہے۔ دیکھے تو اپنی غلطی کو اور نہ دیکھے تو اپنے اعمال کے مرتبے کو اور ہمیشہ ذکرِ خدا میں مشغول رہے، اللہ کا نام لیے بغیر کوئی کام شروع نہ کرو تاکہ قیامت کے دن اپنے عمل کی وجہ سے دین سے نادم نہ ہو، عزیزو! کوئی کام کرنے سے قبل خوب سوچ لیا کرو ؎

سخن دانستہ گو چیزی کہ گوئی
بمیدانِ فصاحت گو گرانی

 

بدل دانتسہ بہتر گو مگوئی
مران بس کرم تا در سرندانی

۱۰۔      عزیزو! اللہ تعالیٰ کے احکام خاکساری سے بجالاؤ، تم جہاں بھی ہو، علم و عمل کی طلب کا ثبوت دو ، علم و عمل حاصل کرنے کی خاطر آب و آتش کے طوفان سے بھی گزرنا سیکھو     ؎

در باد یہ علم دو یدن چہ خوش است
صد بار باتفاق بادلِ گفتم

 

وز عالمِ دین سخں شنیدن چہ خوش است
از صحبتِ نا اہل بریدن چہ خوش است

۱۱۔      عزیزو! ہر حالت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض بجالاتے رہو، غیر شرعی باتوں اور بدعتوں سے بچتے رہو اور اس آیت مبارک کو پیش نظر رکھو: ’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں‘‘۔ حضرت فضیل عباس رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے۔ اُنہوں نے سردی کے موسم میں شیخ عبدالعلام کو پسینہ میں شرابور دیکھا، پوچھا: اس موسم میں آپ کی مبارک پیشانی پر یہ پسینہ کیسا؟ جواب دیا یہاں نہی منکر کا ایک موقعہ تھا۔ میں برائی سے منع کرسکتا تھا مگر نہ کیا،اب بے قرار ہوں کہ اُس سستی کا ازالہ کیسے کروں اور قیامت کے دن کس تدبیر سے نجات پاؤں؟ عزیزو! غور کرو، تم ہر روز امع معروف اور نہی منکر سے کس قدر غفلت برتتے ہو، تمہیں اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی کتنی فکر ہے؟       ؎

ای ہر نفسی صد گنہ از من دیدہ
اے من بترم از ہرچہ بعالم بتر است

 

وانگہ پردۂ من بکرم نہ دریدہ
اے لطفِ تو از من بتر آمر زیدہ

۱۲۔      عزیزو! اپنے اعمال کی کسوٹی سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بناؤ، جو کام اس کسوٹی پر پورا اترے وہ مقبول ہے وگرنہ غلط اور گمراہی ہے۔

۱۳۔     عزیزو! اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے حقوق کا خیال رکھو، اُس کی بشارتوں سے خوش رہو اور وعیدوں سے ڈرو، کھانے پینے، اُٹھنے بیٹھنے اور ہر کام میں احکامِ خداوندی کا خیال رکھو ؎

دلا امروز کارے کن کہ فریادت رسد فردا
نہ باشی طالب چیزے کہ او شورش دہد سررا
بخوان از علمِ دیں چیزے کہ عالم بہتر از جاہل
بہ بیں از راہِ حق را ہے کہ بینا بہ زنا بینا
دلا امروز کاری کن کہ کارت می شود آنجا
نباشی طالبِ کاری کہ دشوارت شود آنجا

۱۴۔     عزیزو! کام کرو، محنت سے اتنی روزی حاصل کرو جو احتیاجات کے لیے اکتفا کرے نہ اتنی کہ اُس سے عیش و عشرت اور اصرا کی راہیں کھلنے لگیں۔ خرچ میں میانہ روی اختیار کرو۔ نہ اصراف و فضول خرچی ہو اور نہ ہی کنجوسی اور تنگدلی، ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ سب کاموں میں میانہ روی بہتر ہے، روزی حلال کھاؤ    ؎

رو بہ عقبیٰ زرِ حلال بود
ہرچہ زینجا بری نگہ دارند

 

دل ہا نجا بود کہ مال بود
بہ قیامت ہمانت پیش آرند

۱۵۔      عزیزو! جمعِ مال کی ہوس نہ رکھو، جو ملے اُسے خرچ کرتے رہو      ؎

خور و پو ش و بخشائے راحت رساں

 

نگ ہمی گزاری ز بہر کساں

احتیاج سے جو بچو، بچانے میں حرج نہیں، مگر بھروسہ اس ذخیرہ پر نہ ہو، خدا پر ہو، نیند آئے تو سوؤ جس سے اطاعت کی قوت بحال ہوسکے، عزیزو! اللہ کو یاد کیے بغیر مت سوجاؤ، غافل نہ ہو جاؤ، حضرت سالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جاہل کی عبادت سے عالم کی نیند بہتر ہے ؎

خواب بیدا ریست چوں با دانش است

 

وائے بیداریِ کہ بانا دانش است

۱۶۔      روزوں کی پوری پابندی کرو، روزے کا ظاہر از سحر تا غروبِ آفتاب کھانے پینے سے پرہیز کرنا ہے لیکن اس کا باطن سب اعضا و جوارح پر پابندیاں لگانا ہے۔ آنکھ حرام نہ دیکھے، زبان سے ناجائز باتیں نہ نکلیں، کان فواحش سننے کے عادی نہ بنیں اور ہاتھ خراب اور غلط کام کرنے سے رکے رہیں۔ اس سے بھی آگے حقیقتِ روزہ یہ ہے کہ دل غرور، حسد، لالچ، ریاکاری، نفاق، کینہ اور تکبر سے پاک ہوجائے     ؎

کبر و حسد و بخل و نفاق و کینہ
ہرگز بہ مقام، ہیچ مردی نہ رسی

 

اوصافِ بشر، طبیعتِ دیرینہ
تازیں ہاپاک نہ داری سینہ

۱۷۔     میرے عزیزو! تمہیں چاہیے کہ ادائے زکوٰۃ کا اہتمام کرو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو زکوٰۃ نہ دے، اس کی نماز، روزہ، حج اور جہاد نامقبول رہتے ہیں۔ ایک دوسرا ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: بخیل اللہ کی رحمت اُس کے بندوں کے دلوں اور بہشت سے دور ہے اور دوزخ سے قریب ہے۔ سخی اللہ کی رحمت، اُس کے بندوں کے دلوں اور بہشت سے قریب ہے اور دوزخ سے دور۔

۱۸۔     عزیزو! اچھے اخلاق اور جوانمردی سے آدمی واقعی انسان بنتا ہے۔

۱۹۔      فرمایا: مجھ سے پہلے مشائخ نے اپنے مریدوں کو وصیتیں کیں اور انہوں نے اُن پر عمل کرکے اپنی دنیا و عقبیٰ سنوارے، مجھے امید ہے کہ میرے مرید بھی میری بات سنیں گے اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اُنہیں عمل کرنے کی توفیق دے۔

۲۰۔     عزیزو! لوگ وصالِ حق سے اس لیے محروم رہتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے دنیائے دوں کو اپنا مقصود بنا رکھا ہے لیکن صوفی کو چاہیے کہ ذات باری کی معرفت کے بارے میں اپنا عقیدہ درست رکھے اور بدعت سے بچے،ا ُسے چاہیے کہ ہر بات کی دلیل پر غور کرے تاکہ بوقتِ پرسش بتاسکے، میرے عزیزو! حیف ہے اگر تمہیں دین کے بارے میں پوچھیں اور تم بتانہ سکو، دوسروں کے لیے پوشیدہ باتیں طبقۂ صوفیا کی خاطر آشکارا ہوتی ہیں پھر آپ علم و دانش سے غفلت برت کر اہل ظاہر سے پیچھے کیوں رہ جاؤ، عزیزانِ من! طبقہ صوفیہ میں، ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ اپنا ایک دوست رکھتا ہے جس کی برکت سے دوسروں کی لغزشیں معاف ہوتی رہتی ہیں اس دوستِ خدا اور مردِ حق کو تلاش کرو تاکہ دونوں جہانوں کی نعمتوں سے مالا مال ہوجاؤ لیکن علمائے دین کی خدمت کرنے میں پیش قدم رہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ’’وارثانِ انبیاء‘‘ کہا ہے اور یہ کہ جس نے علم اور علماء کو چاہا، اُس نے زندگی بے خطا گزاری          ؎

زدانیٔ دمی ار زد جہانی
مگر کز صحبتِ دا نازیاں است
وراں کن جہد تا دانش پذیری

 

نیرز و صد سرِ نادان بہ نانی
وگریابی ز عمرت حاصل آں است
نکو باشی اگر دانا بہ میری

۲۱۔      عزیزو! دنیا کے طالبوں کی ہمنشینی نہ کرو اور جاہلوں سے دوری اختیار کرو    ؎

ببر از جاہل از چہ خویش باشد

 

کہ رنجِ اوز راحت بیش باشد

۲۲۔     بے وقوف کی صحبت آدمی کو خدا سے دور کردیتی ہے، تم لوگ سماع و رقص کرنے والوں کی محفل میں نہ جاؤ کیونکہ یہ لوگ دل کی صلاحیت کو خراب کردیتے ہیں۔ سماع کرنے والوں کو حال نہیں، اُن کی نظر میں ’’حال‘‘ یہ ہے کہ چھری ماری جائے اور خبر نہ ہو   ؎

سماع آسماں بود مر صوفی گرم

 

چو آتش ہست جو شیدن چہ کا راست

۲۳۔     عزیزو! ا ب ت و رعایت سے استفادہ نہ کرو تاکہ صاحبِ عزم بنو، رعایات سے مستفید ہونا کمزورں کا شیوہ ہے۔ اس سے زیادہ کیا کہوں، حضرت خواجہ عبد الخالق عجدوانی رحمۃ اللہ علیہ جو قطبِ عارفین، برہانِ محققین اور مرشدِ سالکین تھے۔ ارشادات پر اکتفا فرماتے تھے کیونکہ عاقل کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ العاقل تکفیہ الاشارۃ          ؎

ازیں بہ نصیحت نہ گوید کسی

 

دگر عاقلی یک اشارت بس است

حضرت سیّد امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ وصیتیں اکثر مریدوں نے سنیں جو خود بھی منصب رشد و ہدایت  پر فائز تھے حضرت کے چار صاحبزادے تھے امیر برہان، جو حضرت خواجہ  بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کی زیر تربیت تھے، سید امیر شاہ، شیخ یادگار کے زیر نظڑ تھے امیر حمزہ جو مولانا عارف کے مرید تھے، چوتھے فرزند امیر عمر، مولانا جمال الدین وہ آسیائی کی تربیت میں تھے، چار خلفاء اور چار ہی فرزند تھے   ؎

دلا یارے طلب کن گر توانی
چویابی دوستی سخنش نگہ دار
ترا گر یافت شد ما را خبر کن

 

چناں یاری کہ بُردی جان فشانی
بہ سستی دامنش از دست مگذار
وگرنہ ایں حکایت مختصر کن

حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت فرمایا، میرے بیٹو! تم میں کون اللہ کے بندوں کی خدمت کا کام سنبھالے گا؟ سب نے عرض کیا: ہم میں اتنی استطاعت کہاں، مگر آپ جسے حکم دیں ہم دوسرے اُس کا حکم مانیں گے      ؎

خدمت بجان کنیم اگر باشدت قبول

 

ای دولت و سعادت ماگر تست قبول

اس پر حضرت امیر رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ کیا اور حضرت امیر حمزہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کیا، فرمایا: مشائخ کی ارواح نے تمہارا ہی اشارہ کیا ہے، امیر حمزہ رحمۃ اللہ علیہ معذرت کرنے لگے کہ میرےمخدوم! مجھ میں اتنی طاقت کہاں اور اس قدر استعداد کیسے ہوسکتی ہے، فرمایا: اے بیٹے! یہ کام تمہارا مقدر ہوچکا، مانو یا نہ مانو تمہیں بارِ خلافت سنبھالنا ہی پڑے گا    ع

ما بدستِ یار وا دیم اختیارِ خویش را

اس کے بعد حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ نے پھر حضرت امیر حمزہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اشارہ کیا اور پھر گوشۂ تنہائی میں تشریف لے گئے اور تین دن تک کسی سے بات نہ کی، تین دن کے بعد مراقبہ سے  سر اٹھایا اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا میں مصروف ہوگئے۔ حاضرین مجلس نے بصد ادب و احترام سوال کیا کہ اے مخدوم! آپ نے جو تین دن رات خلوت فرمائی ہے، ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ میں اس دوران گوشہ تنہائی میں دریائے حیرت میں غوطہ زن تھا کہ قیامت کے دن ہمارا اور ہمارے یاروں کا کیا حال ہوگا؟ آخر ہاتفِ غیبی نے ہمارے باطن میں یہ ندا دی کہ ’’اے امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ! ہم نے تجھ پر، تیرے یاروں پر تیرے دوستوں پر اور اُن لوگوں پر جن پر آپ کے لنگر کی مکھی بیٹھی ہو، رحمت کی اور سب گناہ معاف کردیے‘‘ تم خوش ہوجاؤ کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تم پر رحمت کرے گا۔ اور تمہارے گناہوں سے درگزر کرے گا       ؎

شادم کہ زمن بر دلِ کس بارے نیست
گر نیک شمار ند وا گر بد گویند

 

کس راز  من وکارِ من آزار نے نیست
بانیک و بدم، ہیچ کسی کارے نیست

اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی اور لطفِ خاص سے تم سب پر رحم فرمائے، یہ فرمایا اور اُسی روز اللہ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں پہنچ گئے۔ اِنَّا للہِ وَاِنّا اِلیہِ رَاجِعُوْن    ؎

ایں مزرعہ را بیش کساں کاشتہ اند
رفتندیگان لگانِ کنوں میدر وند

 

نا کام گذشتند و بگذا شتہ اند
ہر نیک و بدی کہ در جہاں کا شتہ اند

حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت کے مطابق حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا عارف رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے جسدِ مبارک کو حوالۂ خاک کیا  ؎

در عالمِ خاکِ پاک پا شیدم ورفت
بانیک و بد زمانہ ام کاری است بسی

 

صد دشمن و دوست برترا شیدم و رفت
دارندہ چنانکہ داشت پا شیدم و رفت

(تاریخِ مشائخ نقشبند)

خواجہ شمس الدین امیر کلال قدس سرہ

حضرت امیر کلال صحیح النسب سید ہیں۔ طریقت میں آپ کا انتساب حضرت بابا سماسی قدس سرہ سے ہے۔ آپ کا مولد قریہ’’ سوخار‘‘ ہے جو سماسی سے پانچ فرسنگ کے فاصلے پر ہے۔

کلال کی وجہ تسمیہ:

آپ کوزہ گری کا شغل رکھتے تھے۔ فارسی میں کلال کوزہ گر کو کہتے ہیں۔

ابتدائی حالات اور طریقت:

حضرت امیر ابتدائے جوانی میں کُشتی لڑا کرتے تھے۔ ایک روز رامتین میں آپ کشتی لڑنے میں مشغول تھے کہ خواجہ محمد بابا قدس سرہ کا گزر اکھاڑے پر ہوا۔ خواجہ ممدوح نظارہ کے لیے ایک دیوار کے سایہ میں ٹھیر گئے۔ اور حضرت امیر کے حالات میں محو ہوگئے۔ حضرت بابا کے خدام میں سے ایک نے پوچھا کہ اے مخدوم! آپ ان لوگوں میں جو بدعت میں مشغول ہیں کس واسطے حیران ہیں۔ فرمایا کہ اس میدان میں ایک مرد ہے اور اس صیدگاہ(شکار گاہ) میں ایک ایسا شکار ہے کہ کاملین زمانہ اس کی صحبت سے فیضیاب ہوں گے۔ کیونکہ اس کی پرواز نہایت بلند ہے۔ ہم اسی مرد کے منتظر ہیں کہ کاش وہ ہمارے جال میں پھنسے۔ اسی اثنا میں اچانک حضرت امیر کی نظر خواجہ محمد بابا پر پڑی اور ان کے دل کا پرندہ خواجہ کی محبت کے جال میں آپھنسا۔ خواجہ موصوف نے اسے اپنی قوت جاذبہ سے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس طرح وہ بے اختیار خواجہ کے پیچھے پیچھے ان کے دولت خانہ پر پہنچے۔ اسی روز حضرت خواجہ نے ان کو طریقہ عالیہ کی تلقین کی اور اپنی فرزندی میں قبول کیا۔ اس کے بعد حضرت امیر کو کسی نے کبھی کشتی کے دَنگل اور بازار میں نہ دیکھا۔

ریاضت و عبادت:

اس واقعہ کے بعد آپ بطریق خواجگان ریاضت میں مشغول رہے یہاں تک کہ حضرت بابا کی تربیت کے سایہ میں درجہ تکمیل و ارشاد پر پہنچے۔ نقل ہے کہ متواتر آٹھ سال تک آپ ہمیشہ دو شنبہ اور جمعہ کے روز نمازِ شام سوخار میں پڑھتے اور نماز خفتن(رات کی نماز) سماسی میں حضرت بابا کے ساتھ ادا کرتے اور نماز فجر سوخار میں گزارتے۔ کسی کو بھی ان کے اس حال پر اطلاع نہ ہوئی۔

تقویٰ و پرہیز گاری:

ایک روز اتفاقاً رامیتن کے ایک باغ میں حضرت امیر نے اپنے کپڑے دھوئے جب ان کو خشک کرنا چاہا تو یاروں سے فرمایا کہ کانٹوں کی باڑوں پر نہ پھیلاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ باڑ کو نقصان پہنچے اور نہ درختوں کی شاخوں پر پھیلاؤ کہ مبادا شاخیں ٹیڑھی ہوجائیں۔ اور زمین پر بھی نہ پھیلاؤ تاکہ مویشیوں کی گھاس خراب نہ ہو۔ یہ سن کر یار عاجز رہ گئے اور پوچھنے لگے کہ اے امیر! آپ کس طرح خشک کیا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے کپڑوں کو اپنی پیٹھ پر پھیلا لیا کرتا ہوں اور پیٹھ سورج کی طرف کر کے خشک کرلیا کرتا ہوں۔ پھر فرمایا کہ اے یارو! اگر باڑ کو نقصان پہنچے یا کسی درخت کی شاخ ٹیڑھی ہوجائے یا مویشیوں کی گھاس خراب ہوجائے تم باغ کے مالک کے آگے کیا عذر پیش کرو گے۔ یہ عمل تم خلاف شریعت کرتے ہو۔ دوسروں کی ملک میں تصرف جائز نہیں۔ گناہ کو خواہ صغیرہ  ہو سہل  نہ سمجھو۔ آدمی گناہ کو سہل سمجھنے کے سبب دوزخ میں جاتا ہے۔ اسی حال میں حضرت امیر کی زبان مبارک سے نکلا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے: لا صغیرۃ مع الا صرار و لا کبیرۃ مع الاستغفار۔ اصرار کے ساتھ کوئی صغیرہ نہیں (بلکہ کبیرہ ہوجاتا ہے) اور استغفار کے ساتھ کوئی کبیرہ نہیں رہتا۔ بعد ازاں فرمایا کہ راہِ خدا کسی پر نہیں کھلتا جب تک کہ وہ تقویٰ کو اپنا شعار نہ بنائے۔ یہ بیعت کے بعد کا حال ہے۔

شان بے نیازی:

جب امیر تیمور نے سمر قند میں قیام کیا تو ایک قاصد کو حضرت امیر کلال کی خدمت میں بھیجا کہ آپ یہاں قدم رنجہ فرمائیں۔ اور اس ولایت کو اپنے قدم مبارک سے مشرف کریں۔ کیونکہ ہمارا آنا دشوار ہے۔ ’’اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَةً اَفْسَدُوْهَا‘‘ (سورۃ نمل۔ ع ۳) تحقیق بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے خراب کردیتے ہیں۔ وہ قاصد حضرت امیر کی خدمت میں آیا۔ حضرت نے عذر کیا اور فرمایا کہ ہم اسی جگہ دعا  گوئی میں مشغول ہیں اور اپنے صاحبزادے امیر عمر نام کو عذر خواہی کے لیے بھیجا۔ اور اس سے فرمایا کہ امیر تیمور تم کو انعام یا جاگیر دے گا تم ہر گز قبول نہ کرنا۔ اگر قبول کرو۔ تو ہمارے پاس نہ لانا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے معاملے قبول نہیں فرمائے۔ اگر تم قبول کرو گے تو اپنے جد بزرگوار ﷺ کی مخالفت کرو گے۔ علاوہ ازیں درویش ہر وقت مومنوں کے لیے دعا میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر وہ دنیا کی طرف میلان کریں تو ان کی دعا حجاب میں ہوجاتی ہے۔ جب امیر عمر ، امیر تیمور کے پاس پہنچے تو عذر خواہی کی اور چند روز کے بعد اجازت طلب کی۔ امیر تیمور نے کہا کہ میں نے تمام بخارا تمہیں عطا کیا۔ سید ممدوح نے قبول نہ کیا۔ تیمور نے کہا کہ سارا نہیں تو کچھ حصہ قبول کرو۔ آپ نے انکار کیا کہ اجازت نہیں۔ تیمور نے کہا کہ میں حضرت امیر کے مناسب حال کیا بھیجوں کہ ہمارا تقرب ہوجائے۔ سید امیر عمر نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ درویشوں کے دل میں تمہارا تقرب ہوجائے تو تقویٰ اور عدل کو اپنا شعار بناؤ۔ کیونکہ حق تعالیٰ اور خاصانِ حق کے قرب کا ذریعہ یہی چیزیں ہیں۔

کرامات:

۱۔حضرت امیر کلال کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جب آپ پیٹ میں تھے۔ اگر اتفاقاً کبھی مشتبہ لقمہ میرے پیٹ میں چلا جاتا۔ تو اس قد درد ہوتا کہ میں بیہوش ہوجاتی۔ جب یہ کیفیت کئی بار گزری تو مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ بات اس بچے کے قدم کی برکت سے ہے جو میرے پیٹ میں ہے۔

قلبی خیال سے آگاہی:

بیعت سے پہلے ایک روز حضرت امیر کلال کشتی لڑ رہے تھے۔ حاضرین کی ایک سیاہ باطن جماعت غیبت کرنے لگی کہ ایسے بزرگ زادہ اور سید زادہ کو اس کام میں جو بدعت ہے مشغول نہ ہونا چاہیے۔ اسی وقت اس جماعت پر خواب نے غلبہ کیا۔ خواب میں دیکھتے ہیں کہ قیامت برپا ہے اور وہ کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہر چند کوشش کرتے ہیں۔ مگر نکل نہیں سکتے۔ ناگاہ حضرت امیر کلال ان کے پاس پہنچتے ہیں اور ان کو اس کیچڑ سے کھینچ نکال لاتے ہیں۔ جب وہ بیدار ہوئے تو حضرت امیر نے ان کے کان پکڑ کر کہا کہ یارو! ہم اسی روز کے لیے زور آزمائی کرتے ہیں۔ تم درویشوں کے حق میں بداعتقاد نہ بنو۔ جب انہوں نے یہ حال دیکھا تو سب نے توبہ کی اور مردانِ راہِ خدا بن گئے۔ جس بزرگ کا یہ حال کشتی لڑنے کے وقت ہو۔ مابعد کو اسی پر قیاس کرلینا چاہیے۔

کعبہ دکھا دیا:

ایک روز حضرت امیر اپنے اصحاب کے ساتھ خواجہ ابو حفص کبیر بخاری نور اللہ مرقدہٗ کی مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ اور مناسک حج بالتفصیل بیان فرما رہے تھے۔ ایک بے اعتقاد شخص کے دل میں خیال آیا کہ حضرت امیر نے کعبہ کو کب دیکھا ہے کہ بیان کر رہے ہیں۔ یہ مسائل تو وہ بیان کرے جس نے کعبہ کو دیکھا ہو۔ کچھ دیر کے بعد حضرت امیر باہر نکلے اور اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا۔ اے نادان! دیکھ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے۔ اس نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ کعبہ حضرت امیر کے سر پر طواف کر رہا ہے۔ حضرت نے فرمایا اے نادان! جس کے پاس ایک درہم نہ ہو۔ وہ اس خیال میں ہے کہ کسی کے پاس کچھ نہیں۔ جب تک  تیرے دل کی آنکھ نہ کھلے تجھے کچھ نظر نہ آئے گا۔

شیر کا ڈر جانا:

ایک روز حضرت امیر کے اصحاب کی ایک جماعت حضرت جگردوں اتا رحمہ اللہ کے مزار کی زیارت کو گئی۔ جب انہوں نے کچھ فاصلہ طے کیا۔ تو دیکھتے ہیں کہ ایک شیران کے راستے میں کھڑا ہے وہ حیران ہوئے۔ حضرت امیر تشریف لائے۔ اور شیر کی گردن پکڑ کر راستہ سے ایک طرف کردیا۔ جب وہ گزر گئے تو شیر نے بطور تعظیم سرجھکایا اور چل دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اصحاب نے حضرت سے پوچھا کہ یہ کیا حالت تھی۔ فرمایا کہ جو ظاہر و باطن میں حق تعالیٰ سے ڈرتا ہے سب چیزیں اس سے ڈرتی ہیں۔

مرید کو بچالیا:

ایک روز حضرت خواجہ بہاء الدین علیہ الرحمۃ قضان سلطان کے دربار میں جلادی میں مشغول تھے۔ ایک مجرم پیش ہوا۔ سلطان نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ خواجہ ممدوح اسے قصاص گاہ میں لے گئے اس کی آنکھیں باندھ لیں۔ تلوار کھینچی۔ جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا۔ اور تلوار اس کی گردن پر ماری۔ مگر تلوار نے اثر نہ کیا۔ دوسری بار اسی طرح کیا۔ مگر تلوار نے اثر نہ کیا۔ تیسری بار ایسا ہی کیا گیا۔ مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ حضرت خواجہ نے دیکھا کہ تلوار کھینچتے وقت مجرم ہونٹ ہلاتا تھا۔ اور منہ میں کچھ کہتا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں اپنے شیخ و سید کو یاد کرتا تھا۔ حضرت خواجہ نے پوچھا کہ تیرا شیخ کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے شیخ و سید امیر کلال ہیں۔ پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں؟ جواب دیا کہ علاقہ بخارا میں قریہ سوخار میں ہیں۔ یہ سن کر حضرت خواجہ نے تلوار پھینک دی۔ اور فوراً روانہ ہوئے۔ فرماتے تھے کہ وہ بزرگ جو مرید کو تلوار کے نیچے سے بچا لے اگر کوئی اس کی خدمت بجا لائے تو تعجب نہیں کہ حق تعالیٰ اسے دوزخ کی آگ سے بچا لے۔

امیر تیمور کی کامیابی:

ایک روز حضرت امیر مسجد جامع بخارا سے نماز جمعہ ادا کر کے اپنے گھر کو روانہ ہوئے۔ راستے میں فتح آباد وکلا آباد کے درمیان امیر تیمور مع فوج خیمہ زن تھا۔ حضرت نے اپنے یاروں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ امیر تیمور کا خیمہ ہے۔ امیر تیمور یہ سن کر خیمہ سے نکلا اور حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ اے مخدوم! میں آج آپ کی زبان سے کچھ سننا چاہتا ہوں۔ جس سے میرے دل کو کچھ تسکین ہو۔ حضرت نے فرمایا۔ کہ فقیر جب تک حضرت عزیزاں کی روحانیت سے اشارہ نہ پائے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہی حال میرے جد بزرگوار ﷺ(یعنی وحی ِخدا وندی کے بغیر اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے تھے) کا تھا۔ مگر تم منتظر رہو۔ جب حضرت امیر گھر پہنچے تو نماز عشاء کو جماعت کے ساتھ ادا کر کے حضرت عزیزاں کی روحانیت کی طرف متوجہ ہوئے۔ اپنے ایک محرم شیخ منصور کو جو قراماں میں رہتا تھا طلب کر کے ارشاد فرمایا کہ فوراً امیر تیمور کے پاس جاؤ اور اسے پیغام دو کہ مشائخ بخارا کی ارواح طیبہ نے مملکت خوار زم تمہیں عطا کردی ہے۔ تم بے توقف سوار ہوکر وہاں پہنچ جاؤ۔ امیر تیمور نے ایسا ہی کیا اور خوارزم سے مظفر و منصور واپس آیا۔

نورِ کرامت:

ایک روز حضرت امیر اپنے اصحاب کے ساتھ بخارا کی جامع مسجد کو جا رہے تھے۔ ایک کسان اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا۔ اس کے غلام نے پوچھا کہ یہ کون ہیں۔ آقا نے جواب دیا کہ یہ مفت خورے ہیں۔ حضرت امیر نے نور کرامت سے معلوم کرلیا اور اسی وقت فرمایا کہ یارو! حضرت امیر کلال نے فرمایا ہے کہ درویشوں کے حق میں بے اعتقادی نہ کرو اور ان کو چشم حقارت سے نہ دیکھو تا کہ دنیا سے ذلیل و خوار ہوکر نہ جاؤ۔ یار حیران ہوئے کہ حضرت نے یہ کیا فرمایا ہے۔ جب مسجد سے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص (آقا) درد گردہ کے سبب سے قریب الموت ہے۔ جب نزدیک پہنچے تو اس نے کہا کہ مجھے حضرت امیر کے پاس لے چلو۔ جب نزدیک لائے تو حضرت نے فرمایا کہ اس شخص نے کار گر تیر کھایا ہے اس کا علاج نہیں ہوسکتا۔ اسے واپس لے جاؤ۔ اس کا کام تمام ہوچکا ہے۔ چنانچہ وہ گھر پہنچتے ہی مرگیا۔ مقامات امیر کلال میں حضرت امیر کی اور کرامتیں بھی مذکور ہیں۔

وصال مُبارک:

مرض اخیر میں حضرت امیر نے اپنے اصحاب کو حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کی متابعت کا حکم دیا۔ اس پر اصحاب نے عرض کیا کہ حضرت خواجہ نے ذکر علانیہ میں آپ کی متابعت نہیں۔ حضرت امیر نے فرمایا کہ اس میں ان کا کچھ اختیار نہیں۔ جو عمل ان پر پیش کیا گیا ہے وہ البتہ بنابر حکمت الہی ہے۔ سفینۃ الاولیاء میں حضرت امیر قدس سرہ کا سنہ وفات روز پنجشنبہ ۸ جمادی الاولیٰ ۷۷۲ھ مذکور ہے۔ مزار مبارک سوخار میں ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت امیر کے ایک سو چودہ خلیفے تھے۔

ارشاداتِ عالیہ

حضرت امیر اپنے معارف میں اپنے یاروں سے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے۔ اگر عبادت میں تمہاری پیٹھ کبڑی ہوجائے اور ریاضت میں تمہارا جسم کمان کے چلے کی طرح باریک ہوجائے تو خدائے خالق کے جلال و عظمت کی قسم کہ تم ہرگز مقصود تک نہ پہنچو گے جب تک کہ اپنے لقمہ اور خرقہ کو پاک نہ رکھو اور حضرت مصطفیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کی پیروی نہ کرو۔ کیونکہ تمام کاموں کی اصل اسی پر ہے۔ آیہ۔ وَثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ [۱] اسے اسی بات کی تاکید و تائید ہوتی ہے۔

[۱۔ اور اپنے کپڑے پاک رکھ۔ (سورہ مدثر)]

وصایا:

جب حضرت امیر پر ضعف غالب ہوا تو آپ نے اپنے صاحبزدوں اور یاروں کو جمع کیا اور یہ وصیتیں فرمائیں۔

۱۔جب تک تم زندہ رہو۔ طلب علم سے ایک قدم دور نہ رہو۔ کیونکہ طلب علم تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اول علم ایمان۔ دوم علم نماز۔ سوم علم روزہ۔ چہارم علم زکوٰۃ۔ پنجم علم حج۔ اگر استطاعت ہو۔ ششم والدین کی خدمت کا علم۔ ہفتم صلہ رحم اور رعایت ہمسایہ کا علم۔ ہشتم خرید و فروخت کا علم اگر ضرورت ہو۔ نہم حلال و حرام کا علم۔ کیونکہ بہت سے آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ بے علمی کے سبب سے تباہی کے بھنور میں گر پڑتے ہیں۔ اور گرپڑے۔

۲۔چاہیے کہ تم خدا داں بنو اور خدا خواں بھی۔ اور ایسے کام مشغول رہوکہ جس سے دنیا کے خیال میں تمہارا دین نہ جاتا رہے۔ ہر وقت خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ کوئی عبادت خدا ترسی سے بہتر نہیں ہے۔ نیز چاہیے کہ جب تم ذکر خدا میں مشغول ہو۔ تو کلمہ لا الہ سے تمام ما سوائے حق کی نفی کرو اور غیر شرع باتیں نہ کرو۔ اور کلمہ الا اللہ سے تمام مشروعات کا اثبات کرو۔ اور اپنے دل میں اس امر کونگاہ رکھو کہ کوئی عبادت و سجدے کے لائق نہیں۔ سوائے خدا تعالیٰ کے جو باپ بیٹے اور معونت و مدد سے بے نیاز ہے۔ جب تم نے یہ بات جان لی۔ تو تم ذاکرین میں سے ہوگے۔ اور جان لو کہ کپڑے کو پانی، زبان کو خدا تعالیٰ کا ذکر اور تمہارے جسم کو نماز کا ہمیشہ ادا کرنا ،پاک کر دیتا ہے۔ اور تمہارے مال کو زکوٰۃ اور تمہاری راہ کو مطالبۂ حقوق کرنے والوں کی رضا مندی اور تمہارے دین کو شرک سے بچنا پاک کردیتا ہے۔ یارو! اخلاص اختیار کرو اور اخلاص کے ساتھ رہو۔

۳۔چاہیے کہ تم توبہ کرتے رہو۔ کیونکہ توبہ تمام بندگیوں کا سر ہے۔ توبہ یہ نہیں کہ زبان سے کہو کہ میں توبہ کرتا ہوں۔ توبہ یہ ہے کہ تم پہلے اپنے گناہوں سے دل میں پشیمان ہو اور نیت کرو کہ آیندہ اس گناہ کی طرف نہ جاؤ گے۔ اور ہمیشہ رب العزت سے ڈرتے رہو۔ اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ اور اپنے مطالبہ حقوق کرنے والوں کو راضی کرو۔ اور گریہ    و زاری ایسی کرو کہ توبہ کا اثر اپنے باطن میں مشاہدہ کرو تاکہ تائب کا نام تم پر صادق آئے۔

۴۔      چاہیے کہ روزی کا غم تم اپنے دل سے نکال دو۔ اور آخرت اور ادائے بندگی کے غم کو اپنے دل میں جگہ دو۔ کیونکہ تمام کاموں میں اصل یہ ہے۔

۵۔فرمایا کہ ارادت کیا ہے؟ ارادت خدا کی طلب۔ ترک عادت۔ وفائے عہد۔ ادائے امانت۔ ترک خیانت۔ اپنی تقصیر کی دیدا ور اپنے عمل کی نادید کا نام ہے۔

۶۔ہر حال میں امر معروف اور نہی منکر بجالاؤ۔ اور ہمیشہ دل میں غیر شرع امر اور بدعت کے منکر رہو۔ اور آیہ ’’ یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ‘‘ (اے ایمان والو! بچاؤ اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے جس کا ایندھن آدمی ہیں اور پتھر۔ سورۃ  التحریم) پر غور کرو۔ تاکہ قیامت کے دن تم در ماندہ نہ ہو۔ اور جو بات کہ عتیبۃ الغلام نے فضیل بن عیاض سے ارشاد فرمائی اس سے آگاہ رہو۔ ایک دن ہوا نہایت سرد تھی۔ عتیبۃ الغلام باریک کپڑے پہنے ہوئے سرد ہوا میں کھڑے تھے۔ اور ان سے پسینہ جاری تھا فضیل نے پوچھا کہ اس ٹھنڈی ہوا میں پسینہ کیا ہے اور کس طرح کا ہے۔ جواب دیا کہ باوجودیکہ مجھ میں امر معروف کی طاقت تھی اور منع منکر کی بھی طاقت تھی۔ مگر میں نے منع نہ کیا۔ اور امر معروف کو ترک کیا۔ اس لیے اب تک اس شرمندگی میں ہوں اور اس پسینہ میں ڈوبا ہوا ہوں۔ اب تم اپنے دل میں خیال کرو کہ ہم سے ہر روز کتنے امر معروف اپنے حق میں بالخصوص دوسروں کے حق میں ترک ہوتے ہیں۔ اپنے عملوں کو زر خالص خیال نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ اگر نیک ہو تو قبول ورنہ رد کردینا چاہیے۔

۷۔تمام کاموں میں اصل شریعت اور ان حدود کی حفاظت ہے جو حق تعالیٰ نے مقرر کردی ہیں۔ لیکن عامل کو چاہیے کہ اپنے دل میں خیال کرے کہ اس حد کے بارے میں جو بندوں میں باہم رہے کتنے وعید نازل ہوئے ہیں۔ پس جو حد کہ بندے اور خدا تعالیٰ کے درمیان ہے اس کا کیا حال ہوگا۔ وہ حدیں مکان و زمان میں اور نظر اور گفت و شنید میں اور چلنے کھانے پینے اور نفقہ و صدقہ کے لینے اور نہ لینے میں ہیں۔ اس جگہ ان کی رعایت کرسکتے ہیں۔ کیونکہ موقع اور فرصت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ اور وہ کام کرنا چاہیے جو نجات کا سبب ہو۔ اور کسب حلال کیطرف  بطریق غناو کفاف متوجہ ہو (جس سے گزر اوقات ہوتا رہے )نہ کہ لاف و اسراف(فضول خرچی) کے واسطے۔ اس کے بعد نفقہ کی طرف بطریق شرع متوجہ ہو نہ کہ بطریق اسراف با بخل بلکہ میانہ روی اختیار کرو۔ اگر صدقہ کرو تو حلال کمائی سے کرو۔ رہے حدود روزہ جو سال میں ایک بار آتا ہے سو وہ اپنے تئیں صبح سے شام تک کھانے پینے اور جماع سے روکنا ہے۔ یہ نگہداشت ظاہر روزہ ہے۔ اور اپنے کان کو حرام سننے سے ،ہاتھ کو حرام پکڑنے سے ،اور پاؤں کو حرام چلنے سے روکنا، باطن روزہ ہے۔ حقیقت روزہ یہ ہے کہ روزہ دار اپنے دل کو تمام حالات میں بالخوص روزے کے وقت میں تکبر، حسد، طمع، ریا، نفاق، کینہ اور خود پسندی سے پاک رکھے۔ اور چاہیے کہ زکوٰۃ دینے اور اس کی حدود کی نگہداشت نہایت کوشش سے کرے۔ کیونکہ حضرت پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص مال کی زکوٰۃ نہیں دیتا۔ اس کی نماز اور حج اور کوئی کام قبول نہیں ہوتا۔ نیز فرمایا ہے کہ بخیل خدا تعالیٰ سے اور بندگان خدا کے دلوں سے دور ہے۔ اور بہشت سے دور اور دوزخ سے نزدیک ہے۔ اور سخی خدا کی رحمت سے اور بندگانِ خدا کے دلوں سے نزدیک اور دوزخ سے دور ہے۔ نیز تمہیں معلوم رہے کہ آدمی کے دین کو کوئی چیز اس طرح درست نہیں کرتی جیسا کہ حسن خلق اور سخاوت۔

۸۔پھر حضرت امیر نے فرمایا کہ یارو! تمہیں معلوم رہے کہ لوگ اس سبب سے مقصود حقیقی تک پہنچنے سے محروم رہتے ہیں کہ انہوں نے راہِ وصول کو چھوڑ دیا ہے اور دنیائے ادنٰی پر قانع ہوگئے ہیں۔ لیکن صوفی کو چاہیے کہ معرفت ِ توحید باری تعالیٰ میں اپنے اعتقاد کو درست رکھے اور گمراہی اور بدعت سے دور رہے۔ اور اپنے اعتقاد میں مقلد نہ بنے۔ اور ہر بات میں دلیل و برہان رکھتا ہو۔ تاکہ بوقت حاجت حتی الامکان اسے بیان کردے۔ اے یارو! اس سے بری کوئی چیز نہیں کہ لوگ تم سے مذہب کی بات کہیں اور تمہیں معلوم نہ ہو کہ یہ دلیل عقلی ہے کیونکہ اگر دوسروں کے لیے غیبت ہے تو اس گروہ کے لیے کشف ہے جو کچھ معرفت ہے دوسروں کا مقصود ہے ان کے لیے حق سے موجود ہے۔ کیونکہ دوسرے اہل استدلال ہیں اور ہمارے یار اہل وصال ہیں۔ اس گروہ کو اس گروہ سے کیا نسبت ہے؟ یارو! جان لو کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں کہ جس میں خدا کے دوستوں میں سے کوئی دوست موجود نہ ہو۔ کہ جس کی برکت سے خدا تعالیٰ سب کو شدائد و بلیّات(سختی اور آزمائشوں) سے بچاتا ہے۔ خبردار! تم ایسے مردوں کے طالب رہنا تاکہ ہر دو جہان کی دولت تمہیں نصیب ہو۔

۹۔چاہیے کہ تم علماء کی خدمت میں رہو اور ان کے پاس بیٹھا کرو۔ کیونکہ وہ امت محمد یہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چراغ ہیں۔ جاہلوں اور ان کی صحبت سے دور رہو اور دنیا داروں سے صحبت نہ رکھو۔ کیونکہ ان کی صحبت تم کو خدا سے دور رکھتی ہے۔

۱۰۔چاہیے کہ سماع یعنی رقاصوں کی مجلس میں حاضر نہ ہواور ان کے ساتھ نہ بیٹھو۔ کیونکہ سماع کی کثرت اور اہل سماع کی صحبت دل کو مردہ بنا دیتی ہے۔ رخصتوں سے دور رہو اور جہاں تک ہوسکے عزیمت پر عمل کرو۔ کیونکہ رخصت پر عمل کرنا ضعیفوں کا کام ہے۔ اگر تمہیں زیادہ تفصیل مطلوب ہو تو حضرت قطب الاقطاب خواجہ عبد الخالق غجدوانی قدس سرہ کی وصیتوں کا مطالعہ کرو۔ سالک کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ العاقل تکفیہ الاشارۃ۔

جب حضرت سید امیر کلال علیہ الرحمۃ نے یہ وصیتیں کیں۔ تو فرمایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اور ہمارے یاروں کے کام کا سرانجام ان وصیتوں کی نگہداشت پر ہو۔ پھر فرمایا کہ مشائخ متقدمین نے اپنے اپنے مریدوں سے ارشادات فرمائے جن کو وہ بجالائے۔ میں بھی امید وار ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے یاروں کو ہماری وصیتوں پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

مذکورہ بالا وصیتوں کے بعد حضرت امیر تنہائی کے گوشہ میں تشریف لے گئے اور تین دن تک آپ نے کسی صاحبزادے سے بات نہ کی۔ تین دن کے بعد آپ نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور خدا کی بہت حمد کی۔ حاضرین مجلس نے سوال کیا کہ اے مخدوم! آپ نے اس مقام میں بہت حمد کی۔ ہمیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا سبب کیا ہے۔ حضرت امیر نے فرمایا کہ تین دن سے میں مراقبہ میں تھا۔ اور تنہائی کے گوشہ میں لوگوں کی ملاقات سے متنفر  تھا۔ اور دریائے حیرت میں غوطہ زن تھا کہ ہمارا اور ہمارے یاروں کا کیا حال ہوگا۔ ہاتف غیبی نے ہمارے باطن میں یہ ندا دی کہ اے امیر کلال! ہم نے تجھ پر اور تیرے یاروں پر اور تیرے دوستوں پر اور ان لوگوں پر کہ جن پر آپ کے مطبخ (باورچی خانہ)کی مکھی بیٹھی ہو رحمت کی اور سب کے گناہ معاف کردئیے۔ تم خوش رہو کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تم پر رحمت کرے گا اور تمہارے گناہ سے درگزر کرے گا۔ حضرت امیر اسی دن جوارِ رحمت الٰہی میں چل بسے۔ (مقامات امیر کلال لحفید الامیر حمزہ بن الامیر کلال)۔

(مشائخِ نقشبندیہ)

Post a Comment

Previous Post Next Post