Biography Hazrat Molana Ghulam Qutubuddin Ashrafii تذکرہ حضرت غلام قطب الدین برہمچاری اشرفی

حضرت مولانا شاہ  غلام قطب الدین برہمچاری رحمۃ اللہ علیہ

نام ونسب: مولاناشاہ قطب الدین ۔لقب: سہیل ِ ہند،برہم چاری۔(یعنی ویدوں اور شاستروں کاعالم/پرہیزگار)۔والد کااسم گرامی:فخر العلماء حضرت مولانا حکیم سخاوت حسین چشتی فخری سلیمانی حافظی سہسوانی  رحمۃ اللہ علیہ۔خاندانی تعلق قطب المشائخ حضر ت خواجہ ابو یوسف چشتی  اور خواجہ مودود چشتی علیہما الرحمہ سےہے۔آپ کےوالد گرامی(مولانا حکیم سخاوت حسین علیہ الرحمہ مرید وخلیفہ  شیخ الاسلام حافظ محمد علی خیر آبادی،وہ مرید وخلیفہ حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی،واستاذمولانا فضل حق خیرآبادی علیہم الرحمہ کےہیں۔تونسوی غفرلہ)۔



جائے ولادت:  آپ کی ولادت باسعادت سہسوان،ضلع بد ایوں(ہند) میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی،بعدہ استاذ العلماء مفتی محمد لطف اللہ علی گڑھی علیہ الرحمہ سے تکمیل کی۔آپ علیہ الرحمہ تمام علوم عقلیہ ونقلیہ،فلسفۂ قدیمہ وجدیدہ اور تقابل ادیان میں اپنے وقت کےسب سےبڑے عالم تھے۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:202)

بیعت وخلافت:  سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں  حضرت مولانا شاہ سید محمد اسلم خیر آبادی (سجادہ نشین شیخ الاسلام مولانا حافظ محمد علی خیر آبادی) سے بیعت  ہوئے،اور قطب المشائخ مخدوم شاہ علی حسیناشرفی میاں سرکار کچھوچھہ شریف نے اجازت وخلافت مرحمت فرمائی۔(ایضا ً:202)

حضرت مخدوم الاولیاء محبوب ربانی علیہ الرحمہ آپ سے بہت محبت فرماتے تھے۔بلکہ جس کاآپ سےتعلق ہوتا اس کو بھی محبوب رکھتے تھے۔ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:’’جمیع مریدان ومحبان خاندان اشرفیہ کو واضح ہو کہ حاجی غلام حسین جوہمارے خلیفہ برہمچاری قطب الدین سہیل ہند کےمرید ہیں۔اگر ان سےاور آپ لوگوں سےکسی مسئلہ میں اختلاف ظاہری پیدا ہوتو لازم ہےکہ اس کےفقیر کےپاس لکھ کر تسکین کرلیں‘‘۔(حیات مخدوم الاولیاء:387)

سیرت وخصائص: استاذالعلماء،رئیس الاتقیاء،حامیِ دینِ مصطفیٰﷺ،جامع کمالاتِ علمیہ ووعملیہ،ماہر علوم جدیدہ وقدیمہ،حاویِ علوم عقلیہ،حضرت علامہ مولانا غلام قطب الدین برہم چاری رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ  ہندو فلسفے کےماہر تھے،اس سےآپ نےہزاروں  ہندوؤں کوحلقہ بگوش اسلام کیا۔جب اسلام اور مسلمانان ہند کےخلاف شدھی  تحریک جاری تھی، آپ ہی کی مساعی ِ جمیلہ سےاس  ارتدادی تحریک کاسدباب ہوا۔آپ نے سترہ برس تک بنارس کے مندرمیں بڑے پنڈت سےہند وفلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد فجر سےعصر تک مطالعہ میں منہمک رہتے تھے اور عصر کےوقت اپنے کمرےمیں جاکر اندر سے کمرہ بند کرلیتے اور فوت شدہ نماز کی قضا پڑھتے۔

اس زمانے میں سال میں کئی کئی بار آپ کی ملاقات کےلیے  عالمی  مبلغ اسلام،سفیر اسلام  مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ  بنارس پہنچتے اور  پُل  پر کھڑے ہوکر پر اٹھے اور گائے کے گوشت کے کباب کپڑے میں لپیٹ کر آپکی طرف پھینک دیتے، آپ لےکر  کمرے میں چلےجاتے۔سنسکرت اور ہند وفلسفہ  کے  پوری واقفیت کے بعد ایک دن اپنے پنڈت استاد سے مباحثہ کرنے لگے،جب جاکر آپ کے مسلمان ہونے کا اس پر راز فاش ہوا۔ جس کااسے سخت افسوس ہوا۔

یہاں سے کلکتہ کے مشہور پیار وقوال کے پاس پہنچے،پہلے تو اس نے سکھانے سے انکار کیا،مگر جب اس کو آپ کامقصد معلوم ہوا تو پوری توجہ سے ایک ہی ہفتہ میں تمام راگ سکھادیئے ۔کلکتہ سے واپسی پر آپ نے متھرا، ہر دوار و غیرہ کو تبلیغ واشاعت اسلامکا مرکز  قرار دیا،پہلے دیر تک بھجن گاتے جب لوگ جمع ہوجاتے تو آپ حقانیت  اسلا  م  پر ہندو کتابوں کی روشنی میں تقریر فرماتے، اس طرح بکثرت افراد کو آپ نے مسلمان کیا۔(تذکرہ علمائے اہل سنت:203)

حضرت مولانا برہم چاری علیہ الرحمہ ہندو مذہب کےاسرار ورموزاور سنسکرت سےمکمل واقف تھے۔شروع سےہی مشرکوں میں تبلیغِ اسلام کاذوق تھا۔آپ پاک بازاور خدارسیدہ بزرگ تھے۔اپنی سعی وارادوں میں بے حد کامیاب تھے۔جب 1344ھ میں آریہ سماج نے فتنۂ ارتداد پیدا کیاتو آپ نے مبلغین کی تیاری کےلئے’’مجلس اشاعت الحق ‘‘ قائم فرمائی۔اپنے شاگردوں کولےکر اس فتنےکابھرپور مقابلہ کیا،بقول حضرت حافظ الحدیث  شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز مبارک پوری علیہ الرحمہ ،آپ بھیس بدل کر کبھی معالج ِ حیوانات،وید،حکیم،گانے والی پارٹی،اور سادھوؤں کی بھجن گانے والی پارٹی بناکرعوام کامجمع لگاتے اور  اسلام پر ہندووانہ اعتراض قائم  کرتے،پھر ہندوؤں کی کتابوں سے ان کاجواب دیتے،اسی مجمع میں سینکڑوں ہندو حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے،اس طرح آپ نےدوردراز علاقوں کاسفرکیااورخوب اسلام کی اشاعت فرمائی۔(حیات مخدوم الاولیاء:387)

آپ نےکتنے ہندو مسلمان کیےاس کااندازہ آپ کےقریبی رشتےدار حضرت مولانا شاہ مصباح الحسن پھپھوندی علیہ الرحمہ کےاس بیان سےلگایا جاسکتاہ ے کہ    آپ فرماتے تھے: کہ مولانا کےپاس دوبڑے بورے ان ہندوؤ ں کی چوٹیوں کےتھےجوآپ کےدست پر حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے۔مولانا فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہماری نجات کا ذریعہ ہیں،ان کو میری قبر کےتختے کےاوپر رکھ دینا،چنانچہ ان کی وصیت پوری کردی گئی۔(ایضا ً:388)

حضرت مولانا قطب الدین علیہ الرحمہ کے  وطن میں مودودی سادات کا خاصہ وہابی ہوگیا تھا۔آئے دن مولانا کا ان سے مباحثہ جاری رہتاتھا،کبھی ڈنڈوں سے بھی ان کی خبر لےتےتھے۔کبھی کبھی یہ بھی فرماتے: کہ’’میں مربھی جاوں گا پھر بھی وہابیوں کو پیٹنا نہیں چھوڑوں گا،حضرت مولانا شاہ مصباح الحسن فرماتے تھے کہ ان کی قبر کےپاس سے جو وہابی گزرا،اسے ٹھوکر ضرور لگی،اس کی وجہ سے وہابیوں نےاس طرف سے آمدورفت ہی ترک کردی تھی‘‘۔(ایضاً:388)

سید مصباح الحسن فرماتے تھے کہ موصوف نے وصیت فرمائی تھی کہ میری نماز جنازہ مولانا مصباح الحسن پڑھائیں گے۔چنانچہ میں  بغیر کسی ارادے واطلاع کےاچانک  سہسوان پہنچا،وہاں یہ معاملہ دیکھا کہ حضرت کاوصال ہوگیا نماز پڑھائی،تدفین میں شریک رہا۔مولانا شاہ مصباح الحسن علیہ الرحمہ آپ کےخالہ زاد بھائی تھے،اور رئیس المحققین آفتاب ہند حضرت علامہ مولانا امام سید غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ آپ کےحقیقی بھتیجے تھے۔آپ کےصاحبزادے مولانا غلام زین العابدین حضرت صدرالشریعہ کےشاگرد اور جید عالم دین تھے۔(ایضا :388)

تاریخِ وصال: آپ کاوصال 18/رمضان المبارک 1350ھ،مطابق اخیر جنوری/1932ء کواپنےآبائی وطن سہسوان،ضلع بدایوں  میں ہوا۔

ماخذومراجع: تذکرہ وعلمائے اہل سنت۔حیات مخدوم الاولیاء محبوب ربانی۔

Post a Comment

Previous Post Next Post