حضرت شیخ جنید بغدادی tazkira junaid baghdadi || Hazrat Shaikh Junaid Baghdadi | Golden Chain of Qadri Tariqa



نام ونسب: کنیت: ابوالقاسم۔ اسم گرامی: جنید۔ القاب: سید الطائفہ، طاؤس العلماء، سلطان الاولیاء، شیخ الاسلام۔ سلسلۂ نسب: حضرت جنید بغدادی بن شیخ محمد بن جنید﷭۔ (نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص52)آپ کے والد شیشہ اور کپڑےکی تجارت کیا کرتے تھے۔وطنِ اصلی ’’نہاوند‘‘ ایران تھا۔پھر بغداد کی طرف ہجرت فرمائی اورمستقل سکونت اختیار کرلی۔ (شریف التواریخ،ج1،ص522)

تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت غالباً 216ھ یا 218ھ کوبغداد میں ہوئی۔

تحصیلِ علم: آپ﷫ابتدا سے ہی نہایت ذہین و فطین تھے۔بہت قلیل عرصے میں ہی آپ نےتمام علوم ِعقلیہ و نقلیہ پر مہارتِ تامہ حاصل کرلی تھی۔اکثر اپنے ماموں حضرت  شیخ سری سقطی ﷫ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض ِصحبت سےمستفیض ہوا کرتے،اور فقہ مشہورشافعی فقیہ شیخ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی(تلمیذ  حضرت امام شافعی﷫)سےحاصل کی جو بغداد کے اَجِلَّہ فقہاء و مشاہیر علماء سے تھے۔ان سے فقہ شافعی میں کمال حاصل کیا، اور ان کی زیر نگرانی فتویٰ جاری کیا۔اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔جوانی میں ہی آپ کےعلم کاچرچا عام ہوگیا تھا۔حضرت سری سقطی،شیخ ابو ثورابراہیم،شیخ حارث محاسبی،محمد بن ابراہیم بغدادی، ابو جعفر محمد بن علی قصاب، بشر بن حارث،کےعلاوہ آپ نےایک سو بیس سےزائد علماء و شیوخ سےعلمی و روحانی استفادہ فرمایا۔﷭ ۔آپ کےتَبَحُّرِعلمی کےبارےمیں’’سیراعلام النبلاء‘‘ میں ہے: عن أبي القاسم الكعبي أنه قال مرة : رأيت لكم شيخا ببغداد يقال له الجنيد ، ما رأت عيناي مثله ، كان الكتبة، يعني البلغاء يحضرونه لألفاظه ، والفلاسفة يحضرونه لدقة معانيه ، و المتكلمون لزمام علمه ، وكلامه بائن عن فهمهم وعلمهم۔ (سیر اعلام النبلاء، الطبقۃ السادسۃ عشرۃ، تذکرۃ الجنید)

نیزشیخ  ابوبکر کسائی ﷫ اور آپ﷫ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مُراسلہ(خط و کتابت) ہوا تھا آپ نے سب کے جواب لکھے، کسائی ﷫ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے مخلوق کے ہاتھ سے چھوئے بھی نہ جائیں۔(شریف التواریخ،ج1،ص530)

حضرت جنید بغدادی﷫ فرماتے ہیں: ’’ میرے پیر حضرت سری سقطی ﷫ نے مجھے دعا دی اﷲتعالیٰ تمہیں حدیث دان بنا کر پھر صوفی بنائے اور حدیث داں ہونے سے پہلے تمہیں صوفی نہ کرے‘‘۔ اسی طرح فرماتے ہیں: علمنا مضبوط بالكتاب والسنة من لم يحفظ الكتاب ، ويكتب الحديث ، ولم يتفقه لا يقتدى بہ۔ ’’ یعنی جس نے نہ قرآن یاد کیا نہ حدیث لکھی یعنی جو علم شریعت سے آگاہ نہیں طریقت میں اس کی اقتداء نہ کریں اور اسے اپنا پیر نہ بنائیں کیونکہ ہمارا یہ علمِ طریقت بالکل کتاب و سنت کا پابند ہے‘‘۔نیز فرمایا:’’ خلق پر تمام راستے بند ہیں مگر وہ جو رسول اﷲﷺکے نشانِ قدم (سنت)کی پیروی کرے‘‘۔(نفحاتِ منبریۃ فی الشخصیات الاسلامیہ ص53)

بیعت و خلافت:  آپ﷫ اپنے حقیقی ماموں حضرت شیخ سری سقطی﷫سے بیعت ہوئےاور خرقہ خلافت سے مشرف ہوئے۔

سیرت و خصائص: شیخ الاسلام والمسلمین، سلطان الاولیاء والمتقین، سید الطائفہ حضرت جنیدبغدادی﷫۔آپ﷫ اہل سنت وجماعت کےعلماء و اولیاء کےامام ہیں۔آپ کو گروہِ صوفیاء میں ’’سید الطائفہ‘‘ اور علماء میں ’’طاؤس العلماء‘‘ کےلقب سے پکارا جاتاہے۔ حضرت شیخ سری سقطی﷫آپ کے حقیقی ماموں تھے۔قرآن وحدیث، تفسیر و فقہ اور عربی ادب میں مہارت تامہ رکھتےتھے۔بیس سال کی عمر میں فتویٰ نویسی شروع کردی تھی۔آپ کا شمار بغداد کےاجلہ علماء میں ہوتاتھا۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے۔تیس برس تک آپ کا معمول رہا کہ نماز عشاء پڑھ کر ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے اور صبح تک ذکر اللہ کرتے، اور اسی وضو سے نمازِ فجر ادا فرماتے۔آپ﷫ابتدائی حالت سے لے کر دو رآخر تک تمام جماعتوں کے محمود و مقبول تھےاور تمام لوگ آپ کی امامت پر متفق تھے۔ آپ کا سخن طریقت میں حجت ہےاور تمام زمانوں نے آپ کی تعریف رہی ہے، اور کوئی شخص بھی آپ کے ظاہر وباطن پر انگشت نمائی نہ کرسکا، سوائے اس شخص کے جو بالکل اندھا تھا۔خواص  نے آپ کو’’لِسان القوم‘‘ کہا ہے اور آپ نے خود کو ’’عبدالمشائخ‘‘ لکھا ہے۔ طبقۂ علماء نے’’ طاؤس العلماء اور ’’سلطان المحققین‘‘ جانا ہے۔ اس لیے کہ آپ شریعت و طریقت میں انتہاء کو پہنچ چکے تھے۔ آپ عشق و زہد میں بے مثل اور طریقت میں مجتہد عصر تھے۔ بہت سے مشائخ آپ کے مذہب پر ہوئے۔ سب سے زیادہ معروف طریقہ طریقت میں اور مشہور تر مذہب مذاہب میں آپ ہی کا ہے۔آب اپنے وقت میں تمام مشائخ کا مرجع تھے، آپ کی تصانیف بہت ہیں جو تمام ارشادات و معارف میں لکھی ہیں ۔باوجود ان عظیم خوبیوں کے دشمنوں اور آپ کے حاسدوں نے آپ کو زندیق کہا ہے۔ حضرت سرّی سقطی﷫سے لوگوں نے پوچھا کہ کسی مرید کا پیر سے بلند درجہ ہوا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں!ایسا ہوتا ہے اور اس کی دلیل ظاہر ہے کہ جنید بغدادی مجھ سے بلند درجہ رکھتے ہیں۔

 عادات و صفات: حضرت جنید بغدادی﷫  سلوک کے اس عظیم منزل پر فائز ہونے کے ساتھ اخلاقِ حسنہ والی صفت سے مزیّن تھے اور اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بھی آپ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ آپ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے، مگر جب کبھی آپ کے برادران طریقت آجاتے تو روزہ افطار کردیتے اور فرماتے کہ اسلامی بھائیوں کی خاطر و مدارات نفل روزوں سے افضل ہے۔غریبوں  یتیموں مسکینوں اور بیواؤں کا سہارا بنتے،امیروں پر فقیروں اور غریبوں کو ترجیح دیتےتھے۔کبھی کسی امیر و وزیر کی تعظیم نہیں کی۔آپ عالمانہ لباس زیب تن فرماتے تھے، ایک بار لوگوں نے عرض کیایا شیخ!  کیا خوب ہو کہ آپ مُرَقَّعْ(گدڑی) پہنیں۔ فرمایا اگر میں جانتا ہوتاکہ مرقع پر تصوف و معرفت  منحصر ہے تو میں لوہے و آگ سے لباس بناتا اور پہنتا، لیکن ہر گھڑی باطن میں یہ ندا آتی ہے ’’ لیس الاعتبار بالخرقۃ انما الاعتبار بالحرقۃ ‘‘ یعنی  معرفت میں خرقہ کا اعتبار نہیں بلکہ (محبتِ الہی میں)جان جلنے کا اعتبار ہے۔(شریف التواریخ: جلد اول،ص528)

تجارت و عبادت: آپ شیشےکی تجارت کرتے تھے(مریدوں کےنذرانوں پر گزارہ نہیں تھا) اور اس وقت آپ کا معمول تھا کہ بلاناغہ اپنی دوکان پر تشریف لے جاتے اور سامنے پردے کو گرا کر چار سو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یہاں تک کہ ایک مدت تک آپ نے اس عمل کو جاری رکھا۔ پھر آپ نے اپنی دوکان کو چھوڑدیا اور اپنے شیخ طریقت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضرت سری سقطی ﷫ کے مکان کی ایک کوٹھری میں خلوت گزیں ہو کر اپنے دل کی پاسبانی شروع کردی اور حالتِ مراقبہ میں آپ اپنے نیچے سے مُصلیٰ کو بھی نکال ڈالتے تاکہ آپ کے دل پر سوائے اللہ﷯ا ور اس کے رسول ﷺ کے خیال کے کوئی دوسرا خیال نہ آئے اور اس طرح آپ نے چالیس سال کا عرصہ گزارا۔ آپ خودفرماتے ہیں: کہ بیس برس تک تکبیر اولیٰ مجھ سے فوت نہیں ہوئی، اور نماز میں اگر دنیا کا خیال آجاتا تو میں اس نماز کو دوبارہ ادا کرتا اور اگر بہشت اور آخرت کا خیال آتا تو میں سجدہ سہو ادا کرتا۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ، 192)

مسندِ رشد و ہدایت:  حضرت جنید بغدادی ﷫ جب راہ ِسلوک میں کامل واکمل ہوگئے اور آپ کی مقبولیت ہر چہار جانب پھیلنے لگی تو حضرت شیخ سِرّی سقطی ﷫ نے آپ کو حکم دیا جنید اب تم وعظ  کہا کرو۔ آپ تردّد میں پڑگئے کہ شیخ الوقت کی موجودگی میں کس طرح تقریر کروں؟  کیونکہ یہ خلاف ادب ہے؟ اسی حالت میں رہے کہ ایک رات خواب میں نبی کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو سرکار دوعالمﷺ نے بھی آپ کو وعظ کہنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ جب صبح بیدار ہوئے تو اپنے شیخ طریقت سے خواب کو بیان کرنے کے لیے سوچا یہاں تک کہ آپ سرّی سقطی﷫کی بارگاہ میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کے شیخ پہلے ہی آپ کے انتظار میں دروازے پر کھڑے ہیں، جب آپ قریب ہوئے تو آپ سے ارشاد فرمایا: ’’لم تصدقناحتیٰ جاءک الامرمن رسول اللہ‘‘ یعنی تم نے(بپاس ادب)ہماری بات نہ مانی؛ اب تو تمہیں رسول اللہﷺ نےحکم فرمادیا ہے۔(نفحاتِ منبریۃ، 54)

تعلیمات:  حضرت جنید بغدادی ﷫ارشاد فرماتے ہیں: ’’ کہ صوفی زمین کی مانند ہوتا ہے کہ جب پلیدی اس پر ڈالی جاتی ہےتو وہ سرسبز ہوکرنکلتی ہے۔ فرمایا صوفی وہ ہے جس کا دل حضرت ابراہیم ﷤ کی طرح دنیا کی دوستی سے پاک ہو اور فرمان الٰہی بجالانے والا ہو، اس کی تسلیم حضرت اسماعیل ﷤ کی تسلیم کی طرح ہو اور اس کا غم و اندوہ حضرت داؤد ﷤ کی طرح ہو اور اس کا صبر حضرت ایوب ﷤ کے مانند ہو اس کا ذوق و شوق حضرت موسیٰ﷤ کی طرح ہو اور مناجات میں اس کا اخلاص حضورسرورِ کائناتﷺکی طرح ہو۔(تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ، 197)

خلفاء و تلامذہ:  شیخ ابوبکر شبلی﷫، ابو محمد الجریری، ابن الاعرابی احمد بن محمد، علی بن بندارابوالحسن الصیرفی، عبد اللہ بن محمد الشعرانی، محمد بن اسود دینوری۔﷭

وصال: بروز جمعۃ المبارک 27؍رجب المرجب 297ھ مطابق11؍ اپریل 910ءکو واصل بااللہ ہوئے۔ مزار مبارک مقامِ ’’شونیزیہ‘‘ بغدادِ معلیٰ میں مرجعِ خلائق ہے۔

شجرہ شریف میں اس طرح ذکرہے:

بہر معروف و سری معروف دے بےخود سری ۔۔۔۔ جُنْدِحق میں گِن جنید باصفا کےواسطے



حضرت شیخ جنید بغدادی

 

غالباً ۲۱۸؁ھ    ۲۷ رجب المرجب ۲۹۷؁ھ / ۹۰۹ء

اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلَیْہِمْ وَعَلَی الْمَولٰی الشیخ جُنیدِ نِ البَغْدَادِی رضِی اَللہ تعالیٰ عنہ

بہر معروف و سری معروف دے بیخود سری

جند حق میں گن جنید باصفا کے واسطے

ولادت باسعادت:

        آپ کے والد ماجد نہاوند کے رہنے والے تھے، مگر آپ کی ولادت غالباً ۲۱۸؁ھ میں بغداد میں ہوئی۔

اسم شریف:

        آپ کا نا م نامی و اسم گرامی جنید بغدادی ہے۔

القاب و کنیت:

        آپ کی کنیت ابوالقاسم اور القاب سید الطائفہ، طاؤس العلماء، قواریری، زجاج ، خزارو لسان القوم ہے۔

قواریری و زجاج کی وجہ تسمیہ:

        قواریری اور زجاج آپ کی اس کی وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ کے والد ماجد محمد بن جنید شیشہ کی تجارت کرتے تھے اور خزار اس سبب سے کہتے ہیں کہ چرم فروشی بھی کرتے تھے[1]۔

عہد طفلی:

        جب آپ کی عمر شریف سات برس کی ہوئی تو حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ زیارت حرمین طیبین کو تشریف لے گئے۔ جب آپ بیت اللہ شریف میں حاضر ہوئے تو وہاں پر چار سو علماے و مشائخ رونق افروز تھے اور ان کی اس مجلس میں مسئلہ شکر پر گفتگو چل رہی تھی۔ اس مجلس میں ہر ایک نے اپنی اپنی رائے کا اظہار فرمایا آخر میں حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بھانجے حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے جنید! تمہیں بھی کچھ کہنا چاہیے؟ اس پر آپ نے تھوڑی دیر تو سر جھکائے رکھا پھر ارشاد فرمایا کہ شکر یہ ہےکہ جو نعمت تجھے رب تعالیٰ نے عطاکی ہے اس نعمت کی وجہ سے نافرمانی نہ کرے اور اس کی نعمت کو نافرمانی و مصیبت کا ذریعہ نہ بنائے۔ اس جواب پر ان تمام علماء و مشائخ کی جماعت نے برجستہ فرمایا: اَحْسَنْتَ یَاقُرَّۃَ اَیْمَینِ الصِدِّیقین اے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک، تو نے جو کچھ کہا ہے بہت ہی اچھا کہا ہے اور تو اپنی بات میں صادق ہے۔ اور ہم اس سے بہتر نہیں کہہ سکتے اس کے بعد حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اے بیٹے! تو نے ایسے بے مثال باتیں کہاں سے سیکھی ہے؟ تو آپ نے جواب دیا کہ حضور !        آپ ہی کی فیض بخش صحبت سے حاصل کیا ہے اور زیارت حرمین طیبین سے پھر آپ گھر تشریف لائے[2]۔

آپ پر شیخ کی نظر انتخاب:

        آپ جب مکتب میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو اسی زمانے میں آپ ایک دن اپنے والد ماجد کوروتے ہوئے دیکھا، آپ نے دریافت کیا کہ تو آپ کے والد ماجد نے جواب دیا کہ آج میں نے مالِ زکوٰۃ میں سے کچھ حصہ تمہارےماموں حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھیجا تھا مگر انہوں نے لینے سے انکار کردیاجس کی وجہ سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشادفرمایا کہ آپ وہ مال مجھے عطا فرمائیں تاکہ میں اس کو حضرت کی خدمت میں دے آؤں۔ آپ کے والد ماجد نے وہ درہم آپ کو عنایت فرمایا اور آپ اس کو لیکر حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ جب آپ حضرت کی خدمت میں پہنچے تو حضرت نے ارشاد فرمایا کہ میں زکوۃ نہیں لوں گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کو قسم ہے اس رب کائنات کی جس نے آپ پر فضل اور میرے باپ سے عدل کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اے جنید! وہ کونسا عدل ہے جو ترے باپ کے ساتھ کیا گیا ہے اور کونسا فضل ہے جو مجھ پر کیا گیا ہے؟ آپ نےفرمایا کہ آپ پر یہ فضل کیا ہے کہ آپ کو درویشی دی اور میرے والد کے ساتھ یہ عدل کیا کہ ان کو دنیا میں مشغول کردیا اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ اسے قبول فرمائیں یارد کردیں؟ میرا باپ اگر چاہے یا نہ چاہے لیکن ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس فریضۂ زکوٰۃ کو کسی حقدار کے ہاتھوں تک پہنچائے حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بات نہایت پسند آئی اور ارشاد فرمایا کہ اے بیٹا! قبل اس کے کہ میں زکوٰۃ کو قبول کروں میں نے تم کو قبول کیا اور پھر زکوٰۃ کو قبول فرمایا اور نہایت درجہ محبت کرنے لگے[3]۔

فضائل:

        شیخ علی الاطلاق، قطب بالاستحقاق، منبع اسرار، مرقعِ انوار، سلطان طریقت وارشاد سید الطائفہ حضرت شیخ جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے گیارہویں امام و شیخ طریقت ہیں۔ آپ اصول و فروع میں مفتی اور علوم و فنون میں کامل تھے۔ کلمات عالیہ اور ارشادات لطیفہ میں سب پر سبقت رکھتے تھے۔ ابتدائی حالت سے لے کر دو رآخر تک تمام جماعتوں کے محمود و مقبول تھے۔ اور سبھی لوگ آپ کی امامت پر متفق تھے۔ آپ کا سخن طریقت میں حجت ہے۔ اور تمام زمانوں نے اس کی تعریف کی ہے، اور کوئی شخص بھی آپ کے ظاہر وباطن پر انگشت نمائی نہ کرسکا، سوائے اس شخص کے جو بالکل اندھا تھا۔ آپ صوفیاء کے سردار مقتدی تھے۔ لوگ نے آپ کو لِسان القوم کہا ہے۔ اور آپ نے خود اپنے کو عبدالمشائخ لکھا ہے۔ طبقۂ علماء و طاؤس العلماء سمجھا اور سلطان المحققین جانا ہے۔ اس لیے کہ آپ شریعت و طریقت میں انتہاء کو پہنچ چکے تھے۔ آپ عشق و زہد میں بے مثل اور طریقت میں مجتہد عصر تھے۔ بہت سے مشائخ آپ کے مذہب پر ہوئے اور آپ کا طریق طریق صحو تھے، بخلاف طیفیوریوں کے اس لیے کہ وہ حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب پر ہیں۔ اور سب سے زیادہ معروف طریقت طریقت میں اور مشہور تر مذہب مذاہب میں آپ ہی کا طریقہ و مذہب ہے۔ آب اپنے وقت میں تمام مشائخ کا مرجع تھے، آپ کی تصانیف بہت ہیں جو تمام ارشادات و معارف میں لکھی ہیں اور جس شخص نے علم اشارت کو پھیلایا وہ آپ ہی ہیں۔ باوجود ان عظیم خوبیوں کے دشمنوں اور آپ کے حاسدوں نے آپ کو زندیق کہا ہے۔ آپ نے حضرت محاسبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت پائی، حضرت سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لوگوں نے پوچھا کہ کسی مرید کا پیر سے بلند درجہ ہوا ہے؟ تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں! ہوتا ہے اور اس کی دلیل ظاہر ہے کہ جنید بغدادی مجھ سے بلند درجہ رکھتے ہیں۔ حضرت سہل تشتری رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجود اس عظمت و بزرگی کے فرمایا کرتے کہ جنید! صاحب آیات و سباق غایات ہیں باوجود اس کے دل نہیں رکھتے مگر فرشتہ صفت ہیں شیوۂ معرفت و کشف ِ توحید میں آپ کی شان نہایت ارفع و اعلیٰ ہے، آپ مجاہدہ و مشاہدہ ہیں آیتُ مِّنْ آیاتِ اللہ ہوئے ہیں[4]۔

عادات و صفات:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سلوک کے اس عظیم منزل پر فائز ہونے کے باوجود اخلاق اسلامی سے مزیّن تھے اور اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کے ساتھ بھی آپ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ آپ نے مریدین سے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجاتا کہ دو رکعت نماز نفل کا ادا کرنا تمہارے ساتھ بیٹھے سے افضل ہے تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہ بیٹھتا، آپ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے، مگر جب کبھی آپ کے برادران طریقت آجاتے تو روزہ افطار کردیتے اور فرماتے کہ اسلامی بھائیوں کی خاطر و مدارات نفل روزوں سے افضل ہے[5]۔

تجارت و طاعت الٰہی:

        آپ شروع میں آئینہ کی تجارت کرتے تھے اور اس وقت آپ کا معمول تھا کہ بلاناغہ اپنی دوکان پر تشریف لے جاتے اور سامنے پردے کو گرا کر چار رکعت نماز نفل ادا فرماتے یہاں تک کہ ایک مدت تک آپ نے اس عمل کو جاری رکھا پھر آپ نے اپنی دوکان کو چھوڑدیا اور اپنے شیخ طریقت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کے ایک کوٹھری میں آپ خلوت گزیں ہو کر اپنے دل کی پاسبانی شروع کردی اور حالت مراقبہ میں آپ اپنے نیچے سے مصلی کو بھی نکال ڈالتے تاکہ آپ کے دل پر سوائے اللہ و اس کے رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خیال کے کوئی دوسرا خیال نہ آئے اور اس طرح آپ نے چالیس سال کی عظیم عرصہ گزارا اور تیس سال تک آپ کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد کھڑے ہو کر صبح تک اللہ اللہ کہا کرتے۔ اور اسی وضو سے صبح کی نماز ادا کرتے یہاں تک کہ آپ کا خود ہی قول ہے کہ بیس برس تک تکبیر اولیٰ مجھ سے فوت نہیں ہوئی۔ اور نماز میں اگر دنیا کا خیال آجاتا تو میں اس نماز کو دوبارہ ادا کرتا اور اگر بہشت اور آخرت کا خیال آتا تو میں سجدہ سہو ادا کرتا[6]۔

آپ کالباس:

        آپ ہمیشہ عالمانہ لباس کو زیب تن فرماتے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ یا شیخ طریقت! کیا ہی اچھا ہوتا۔ کہ آپ مرقع پہنتے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں جانتا کہ مرقع پر طریقت کا انحصار ہے تو میں لوہے اور آگ کا لباس بناتا اور اسکو پہنتا مگر ہر وقت بالن میں ندا آتی ہے کہ لَیس الْاعْتبَابِاالخِرْقَۃِ اِنَّمَا الْاعْتَبارُ بِالحَرْقۃِ یعنی خرقہ کا اعتبار نہیں ہے بلکہ جان کے جلنے کا اعتبار ہے[7]۔

بارگاہ رسالت میں آپ کا مقام:

        ایک بزرگ کا واقعہ ہے کہ وہ خواب میں سرکار ابدقرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے انہوں نے دیکھا کہ بارگاہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حاضر ہیں، اسی درمیان میں ایک شخص حاضر ہوا اور ایک استفتاء آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنید کو دیدو تاکہ وہ اس کا جواب لکھدیں، اس شخص نے عرض کیا فِدَاک اُمِّیْ وَاَبِیْ یَارَسُولَ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آپ کے ہوتے ہوئے جنید کو کیسے دوں؟ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کو اپنی ساری امت پر فخر تھا مجھ کو جنید پر فخر ہے[8]۔

مولائے کائنات سے عقیدت:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ شَیخُنَا فی الاُصُوْلِ  وَالبَلاءِ عَلیُّ نِ المُرْ تَضٰی کَرَّ مَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْھَہٗ یعنی اصول و بلاء میں ہمارے مقتداء و پیشوا حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ ہیں چنانچہ ایک مرتبہ ایک سیّد صاح جو گیلان کے رہنے والے تھے اور حج کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلے ہوئے تھے یہاں تک کہ سفر کرتے ہوئے بغداد پہنچے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے ان سےدریافت فرمایا کہ کہاں کے رہنے والے ہو اور کس کی اولاد سے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں گیلان کا رہنے والا ہوں اور امیر المومنین تو دو تلواریں چلایا کرتے تھے ایک کفار و مشرکین پر اور دوسری نفس پر بتاؤ کہ تم کون سی تلوار چلاتے ہو؟ صرف اتنا سنتے ہین ان پر گریہ طاری ہوئی اور حالت وجد میں زمین پر لوٹنے لگے اور لوٹے ہوئی یہ کہہ رہے تھے کہ بس میرا حج یہیں ہے، آپ مجھے راہ خدا سے آگاہ فرمادیجیے؟ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ: تمہارا یہ سینہ خدا کا حرم خاص ہے، اس لیے جہاں تک ہوسکے اس کے حرم خاص میں کسی نامحرم کو جگہ نہ دو[9]۔

حقیقت حج آپ کی نظر میں:

ایک مرتبہ آپ کی خدمت مبارکہ میں ایک شخص حاضر ہو ا آپ نے ان سے بھی دریافت فرمایا کہ توکہاں سے آیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میں حج کے لیے گیا تھا۔ آپ نے پوچھا تو کیا تم حج کرچکے؟ اس نےجواب دیا کہ جی ہاں حج کردچکا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ شروع میں جب تم اپنے گھر سے نکلے اور اپنے وطن کو چھوڑا تو کیا سب گناہوں کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیا؟

اس نے جواب دیا نہیں آپ نے کہا کہ تو نے سفر حج اختیار ہی نہیں کیا۔

سوال: جب تم گھر سے روانہ ہوئے اور جس جگہ رات کو قیام کیا تو کیا اس مقام پر تو نے طریق حق میں سے کچھ بھی قطع کیا؟ یعنی سلوک کی بھی منزل طے کیا؟

جواب : نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا پس تو نے کوئی منزل طے ہی نہیں کیا۔

سوال: جب تو نے میقات میں احرام باندھا تو کیا تو نے لوازم بشریت کو بھی ویسے ہی اتار پھینکا تھا جیسے کہ اپنے کپڑوں کو؟

جواب: نہیں۔ آپ نے فرمایا اس طرح تو نے احرام باندھا ہی نہیں۔

سوال: جب تو نے عرفات کے میدان میں قیام کیا تو کیا اس قیام میں کشف و مشاہدۂ حق کی سعادت بھی تجھے حاصل ہوئی؟

جواب: نہیں۔ پس تو نے میدان عرفات میں قیام  ہی نہیں کیا۔

سوال: جب تو مزدلفہ میں گیا اور تیری مراد حاصل ہوگئی تو کیا اس مراد کو پاکر تونے باقی تمام مرادوں کو ترک کردیا؟

جواب: نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تومزدلفہ میں بھی نہیں گیا۔

سوال: جب تو نے بیت اللہ کاطواف کیا تو کیا تونے اپنے باطن کو مقام تنزیہ میں لطائف جمالِ حق میں محو پایا؟

جواب: نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے طواف بھی نہیں کیا۔

سوال: جب تو نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو کیا مقام صفا اور درجۂ مروہ کا احساس و ادراک بھی تجھے ہوا؟

جواب: نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی ہی نہیں۔

سوال: جب تو منیٰ میں پہنچا تو کیا تیری آرزؤیں تھ سے ساقط ہوگئیں؟

جواب: نہیں۔ آپ نے ارشاد فرمای اکہ تو ابھی منیٰ میں گیا ہی نہیں۔

سوال: قربان گاہ میں پہنچ کر جب تو نے قربانی دی تو کیا اس کے ساتھ ہی اپنی نفسانی خواہشات کو بھی قربان کر ڈالا تھا۔

جواب: نہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے قربانی بھی نہیں کی۔

سوال: جب تو نے کنکریاں پھینکیں تو کیا تو نے نفسانی لذات و شہوات کو بھی ساتھ ہی پھینک دیا تھا؟

جواب: نہیں آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے ابھی کنکریاں بھی نہیں پھینکیں اور نہ حج ہی کی جاؤ اور واپس چلے جاؤ اس طرح حج کرکے آنا ہ تو مقام ابراہیم تک پہنچ جائے[10]۔

مسند و رشد و ہدایت:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب راہ سلوک میں کامل واکمل ہوگئے اور آپ کی مقبولیت ہر چہار جانت پھیلنے لگی تو حضرت شیخ سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو حکم دیا جنید اب تم وعظ کہو؟ اس بات کی وجہ سے آپ تردّد میں پڑگئے اور ارشادفرمایا کہ شیخ وقت کی موجودگی میں کس طرح تقریر کروں؟ کیونکہ  یہ سراسر خلاف ادب ہے؟ اسی حالت میں رہے کہ ایک رات خواب میں آپ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے تو سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی آپ کو وعظ کہنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ آپ جب صبح کو بیدار ہوئے تو اپنے شیخ طریقت سے خواب کو بیان کرنے کے لیے سوچا یہاں تک کہ آپ سرّی سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پہنچے تو دیکھتے کیا ہیں کہ آپ کے شیخ حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ہی آپ کے انتظار میں دروازے پر کھڑے ہیں، جب آپ قریب ہوئے تو آپ سے ارشاد فرمایا کہ ابھی تک آپ اسی خیال میں ہیں کہ دوسرا آپ سے وعظ کہنے کے لیے کہے، ہم سب تو پہلے ہی آپ کو وعظ کے لیے کہہ رہے تھے لیکن آپ نے اس پرتوجہ نہ دی اب تو قاسم نعمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے اس لیے اب تو آپ کو وعظ کہنا ہی چاہیے۔ تو آپ نے اپنے شیخ طریقت سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس طرح علم ہوگیا کہ میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے؟ تو شیخ طریقت نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رب کائنات کو خواب میں دیکھا اور ساتھ ہی ایک غیبی آواز آئی کہ میرے رسول نے جنید سے کہا ہے کہ وہ منبر پر کھڑے ہو کر وعظ کہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں اس شرط پر وعظ کہوں گا کہ چالیس سے زیادہ آدمی اس میں موجود نہ ہوں۔ چنانچہ آپ نے وعظ کہنا شروع کیا تو اٹھارہ آدمی جاں بحق ہوگئے۔ پھر آپ نے زیادہ وعظ نہ کہا اور مکان پر واپس آئے[11]۔

فصاحت کلام:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کلام میں عظیم خوبی و اثر اندازی تھی چنانچہ منقول ہے کہ ابن شریح کا گزر آپ کی مجلس میں ہوا۔ تو لوگوں نے فرمایا کہ آپ کے کلام میں عجیب شان نظر آتی ہے پھر لوگوں نے سوال کیا کہ یہ تو بتلائیں کہ حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کچھ ارشاد فرماتے ہیں کیا اپنے علم سے فرماتے ہیں ابن شریح نے جواب دیا کہ مجھے یہ معلوم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ان کا کلام عجب شان و شوکت کا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گویا حق تعالیٰ ان کی زبان سے کہلواتا ہے[12] ۔

ایک دانا مرید:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک مرید تھے جن کی طرف آپ زیادہ توجہ فرماتے تھے، کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار معلوم ہوئی آپ کو جب اس بات سے آگاہی ہوئی تو ارشاد فرمایا کہ میرا یہ مرید ادب و عقل میں تم سب سے فائق و بلند ہے اس وجہ سے میں اسے بہت زیادہ چاہتا ہوں، جس کا ثبوت ابھی میں تمہیں دے رہا ہوں؟ تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اس میں کون سی خوبی ہے چنانچہ آپ نے ہر ایک مرید کو ایک ایک چھری مرحمت فرما کر ارشاد فرمایا کہ ایسی جگہ سے ان مرغیوں کو ذبح کرکے لاؤ  جہاں کوئی دیکھنے والا موجود نہ ہو؟ چنانچہ سبھی مریدن وہاں سے چلے گئے اور ایک پوشیدہ جگہوں سے ان مرغیوں کو ذبح کرکے لے آئے لیکن وہ آپ کا مرید خاص اس مرغی کو زندہ واپس لے آیا۔ حضرت نے دریافت کیا کہ تم نے ذبح کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور! میں جس جگہ بھی پہنچا وہاں قدرت الٰہی کو موجود پایا اور اس کو دیکھنے والا پایا اس لیے مجبوراً واپس لے آیا ہوں۔ اس جواب کے بعد حضرت نے ارشاد فرمایا کہ تم سبھی لوگوں نے سن لیا۔ یہ اس کا خاص وصف ہے جس کی وجہ سے میں اسے بہت چاہتا ہوں[13] ۔

آپ کا توکل:

        ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں ایک شخص نے پانچ سو اشرفیاں لا کر نذر کرنی چاہی۔ آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تیرے پاس ان اشرفیوں کے علاوہ اور بھی مال ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں حضور! اور بھی ہے۔ آپ نے دوسرا سوال کیا کہ یہ بتاؤ کہ اب آئندہ تجھے اور مال کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس نے عرض کیا کہ ہاں ضرورت کیوں نہیں ہے، ہر وقت ضرورت ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ بس اپنی اشرفیاں واپس لے جاؤ، تو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ کیونکہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے باوجود اس کے پھر بھی مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور باوجود یکہ ترے پاس دولت ہے اور اس کے ہوتے ہوئے بھی اور دولت کا ضرورت مندہے براہ کرم اپنا مال لے لو، کیونکہ میں محتاج سے نہیں لیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک میرا مولا ہی غنی ہے اور دو جہان فقیر ہے[14] ۔

واقعہ ایک ضعیفہ کا:

        ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں ایک ضعیفہ آئی اور عرض کیا کہ حضور! میرا بیٹا نہ معلوم کہاں چلا گیا ہے، آپ دعا فرمادیں تاکہ وہ واپس آجائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ صبر کرو،

        بڑھیا وہاں سے گھر چلی گئی، مگر کچھ دنوں کے بعد حاضر ہوئی اور آپ سے دعا کی طالب ہوئی تو آپ نے پھر فرمایا کہ اے ضعیفہ صبر کرو؟ بڑھیا پھر واپس لوٹ آئی اور کچھ دنوں تک صبر کیا مگر جب اس میں صبر کی طاقت نہ رہی تو پھر تیسری مرتبہ بالکل دیوانوں کی طرح آپ کی خدمت میں حاضری ہوئی اور کہا کہ اے جنید! اب میرے اندر اپنے لڑکے کی جدائی پر صبر کرنے کی طاقت نہ رہی للہِ آپ دیا کیجیے کہ میرا بچہ واپس آجائے ؟ تو آپ نےارشاد فرمایا کہ اے ضعیفہ! اگر تو اپنے اضطراب و بیقراری میں سچی ہے تو اپنے گھر جا تیرا بچہ انشاء اللہ تجھ کو گھر مل جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ یعنی اللہ تعالیٰ بیقراروں کی فریاد کو ضرور سنتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے۔ اس کے بعد بڑھیا حضرت کے پاس سے جب گھر لوٹی تو دیکھا کہ اس کا بیٹا بڑی دیر سے گھر آیا ہوا اور اپنی ضعیفہ ماں کا انتظار کررہا ہے[15] ۔

کشف و کرامات

ایک مرید کا واقعہ:

        آپ کا ایک مرید جو بصرہ میں رہتا تھا اس کے دل میں ایک روز گناہ کا خیال پیداہوا، اس کو یہ خیال آئے ہی پورا چہرہ سیاہ ہوگیا، اور جب اپنی صورت کی آئینہ میں دیکھا تو بڑا گھبرایااور شرم و ندامت کے مارے گھر سے باہر نکلنا بھی ترک کردیا، الغرض تین روز کے بعد اس کے منہ کی سیاہی کم ہوئے ہوتے بالکل دور ہوگئی اور اس کا چہرہ پھر پہلے کی طرح روشن ہوگیا، اسی روز ایک شخص آیا اور حضرت جنید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دیا، جب اس نے خط پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ اپنے دل کو اپنے قابو میں رکھو اور بندگی کے دروازے پر ادب سے رہو اس لیے کہ آج مجھے تین دن و رات سے دھوبی کا کام کرنا پڑا کہ تمہارے منہ کی سیاہی دور ہو[16] ۔

ایک مجوسی کا واقعہ:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک مجوسی اپنے گلے میں زنّار ڈالا اور مسلمانوں کا لباس پہن کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا کہ حضور ایک حدیث شریف کا مطلب دریافت کرنے آیا ہوں، حدیث میں یہ آیا ہے "اِتّقُوْا بفراسۃِ المؤمنِیْنَ فَانَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللہِ یعنی مومن کی فراست دے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے اس کے اس سوال کو سن کر تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اس حدیث شریف کا یہ مطلب ہے کہ تو اپنا زنّار توڑ، کفر چھوڑ، اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوجا۔ مجوسی نے جب آپ کے اس جواب کو سنا تو دنگ رہ گیا اور فوراً پکار اٹھا اَشْھَدُ اَنّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ واشھد اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔[17]

مرید کو شیطانی کرشمہ سےنجات دلانا:

        آپ کے ایک مرید کا واقعہ ہے کہ اس پر یہ جنون طاری ہوگیا کہ میں اب کا مل ہوگیا ہوں اور میرے لیے اب جلوت سے خلوت بہتر ہے چنانچہ وہ گوشہ نشین ہوگیا اور اس کی یہ حالت ہوگئی کہ ہر رات وہ فرشتوں کو خواب میں دیکھتا جو اس کے لیے اونٹ حاضر کرکے کہا کہ چلو ہم تمہیں جنت میں لے چلتے ہیں؟ چنانچہ وہ اس اونٹ پر سوار ہو کر ایک سرسبزوشاداب مقام پر جاتا جہاں وہ بہت سے حسین و جمیل آدمیوں کو دیکھتا اور نہایت نفیس و عمدہ کھانے اور صاف و شفاف نہریں پاتا اور پھر وہاں کچھ دیر قیام کرتا اور اس کی یہ حالت یہاں تک ہوئی کہ وہ لوگوں سے کہنے لگا کہ میں ایسا ہوں کہ ہر روز بہشت میں جاتا ہو۔ اس کی یہ خبر جب حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچی تو آپ اس کی خبر گیری کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کو دیکھا کہ وہ نہایت شان و شوکت سے بیٹھا ہے۔ آپ کے لیے دریافت فرمانے پر اس نے تمام حال ظاہر کیا؟ تو آپ نے اس کو سمجھایا کہ آج رات جب تم وہاں پہنچو تو ذرا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمْپڑھنا؟ وہ حسب معمول رات کو جب خواب کی حالت میں شیطان کی جنت میں پہنچا تو آزمائش کے طور پر لَاحَوْلَ پڑھی، اس کا پڑھنا تھا کہ سب چیخ اٹھے اور اس کو چھوڑ کو بھاگ گئے۔ اب وہ دیکھتا کیا ہے گھوڑے پر سوار ہے اور مردوں کی ہڈیاں اس کے آگے رکھی ہوئی ہیں اس کو دیکھ کو وہ بہت تیز چونکا اور اپنی غلبی کو فوراً معلوم کرلیا یہاں تک کہ صبح اٹھ کر توبہ کی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اور یہ بات اس کے زہن میں نقش ہوگئیں کہ مرید کے لیے تنہائی زہر ہے[18]۔

آپ کی نگاہِ غضب:

        حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہرت بڑھی تو کچھ فتنہ گردکوتاہ اندیش آپ کی مخالفت کرنے لگے اور خلیفہ کے پاس شکایت کی خلیفہ نے ان لوگوں کی باتیں سن کر جواب دیا کہ بغیر دلیل کے اس کو کس طرح تم زیر کرسکتے ہو؟ اس لیے میرے پاس ایک لونڈی ہے جس کو تین ہزار دینار میں خریدا ہے اور اس کے حسن و جمال کے مدمقابل کوئی دوری عورت نہیں ہے لہذا اس کو زروجوہرات سے آراستہ اور نفیس و پاکیزہ کپڑے پہنا کر حاضر خدمت کرو۔ جب وہ کنیز تیار ہہو کر خلیفہ کے پاس حاضر ہوئی تو اس نے اس لونڈی سے کہا ہ تم کو فلاں مقام پر جنید کے پاس جانا ہے اور وہاں جا کر اپنے منہ سے نقاب ہٹادینا اور اپنے آپ کو ان کے آگے پیش کردینا، اور ان سے کہنا کہ میرے پاس مال و دولت بہت ہے لیکن دنیا سے میرا دل اٹھ گیا ہے، اب میں آپ کے پاس آئی ہو کہ آپ مجھ کو قبول کرلیں اور پھر آپ کی صحبت میں رہ کر خدا کی اطاعت و بندگی کروں، اور اس کنیز کے ساتھ ایک غلام بھی مقرر کردیا تاکہ وہ سب حال کو دیکھے۔چنانچہ لونڈی آپ کے پاس حاضر ہوئی اور آتے ہی اپنے منہ سے نقاب الٹ دیا اور جونہی نقاب اٹھایا بے اختیار آپ کی نظر اس پر پڑی اور دیکھ کر فوراً اپنے سر کو نیچے کرلیا۔ اس وقت لونڈی کو خلیفہ نے جو تعلیم دیا تھا اس کو کہنا شروع کیا آپ نے اس کی پوری باتیں سن کر اچانک سر کو اٹھایا آھ، آھ اپنے زبان سے کہا۔اتنا کہا تھا کہ لونڈی اس کی تاب نہ لاسکی اور نگاہ پڑتے ہی مرگئی۔ خادم نے جا کر خلیفہ سے ساری کیفیت بیان کیا اس کے دل پر بڑی شدید چوٹ لگی اور کہا کہ کچھ لوگ مشائخ کے خلاف ایسی باتیں کرتے ہیں جونہیں کرنی چاہیے، شیخ ایک درجہ علیا پر فائز ہوتا ہے جو کچھ وہ دیکھتا ہے ہماری نگاہیں وہاں نہیں پہنچ سکتیں[19]۔

ملفوظات

حضرت جنید بغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کچھ ارشادات و ملفوظات لکھے جاتے ہیں جو رموزومعارف کا خزینہ اور اہل طریقت کے لیے بہترین گنجینہ ہے۔

        آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ صوفی زمین کی مانند ہوتا ہے کہ تمام پلیدی اس پر ڈالی جاتی ہے اور وہ سرسبز ہو کر نکلتی ہے فرمایا تصوف اجتماع سے ایک ذکر ہے اور اسماع سے ایک وجد ہے اور اتبااع سے ایک عمل ہے، تصوف کا استقاق صوف سے ہے اور جو اس کے ماسوائے برگشتہ ہوا وہی صوفی ہے، صوفی وہ ہے جس کا دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح دنیا کی دوستی سے پاک ہو اور فرمان الٰہی بجالانے والا ہے، اس کی تسلیم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تسلیم کی طرح ہو اور اس کا غم و اندوہ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح ہو اور اس کا صبر حضرت ایوب علیہ السلام کے مانند ہو اس کا ذوق و شوق حضرت موسیٰ علیہ السلام کیطرح ہو اور مناجات میں اس کا اخلاص حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہو، فرمایا کہ تصوف وہ نعمت ہے[20]۔  کہ بندہ کا قیام اس پر منحصر ہے لوگوں نے پوچھا کہ وہ نعمت خلق ہے یا نعمت حق ہے یا نعمت حق ہے؟ تو آپ نے فرمایا اس کی حقیقت حق تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اور اس کی رحمت نعمت خلق ہے۔ فرمایا کہ تصوف تمام علاقوں کو ترک کرکے حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، فرمایا تصوف وہ ہے جو تجھ مارتا ہے اور اپنے سے زندہ کرتا ہے ۔

لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ توحید کیا ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ توحید کے معنیٰ یہ ہیں کہ آدمی اس میں ناپید و گم ہوجائے اور اس میں پوشید ہوجائے۔ فناوبقا کے متعلق ارشادفرمایا کہ بقاء حق تعالیٰ کے لیے اور فنا ماسویٰ اللہ کے لیے ہے۔ تجرید کے بارے میں ارشادفرمایا ظاہر کا اغراض سے پاک و خالی ہونا اور باطن کا اغراض سے خالی ہونا ہے۔ تفکر کے متعلق ارشادفرمایا کہ اس کی کئی قسمیں ہیں اول یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی آیات میں تفکر و غور کیا جائے اس کی علامت یہ ہے ہ اس سے معرفت پیدا ہوتی ہے دوسرا تفکر یہ ہے کہ حق تعالیٰ کہ نعمتوں اور احسانات میں کیا جائے، اس سے حق تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا ہوتی ہے۔ تیسرا تفکر یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے وعدوں میں کیا جائے کہ اس ے ہیبت پیداہوتی ہے۔ چوتھا تفکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور احسان میں کرنا ہے اس سے حیا پیدا ہوتی ہے لوگوں نے دریافت کیا کہ بندہ حقیقت عبودیت کو کس وقت دریافت کرتا ہے؟ توا ٓپ نے ارشاد فرمایا کہ جب وہ ہر شئی کا حق تعالیٰ کو مالک دیکھتا ہے اور سب کا ظہور حق تعالیٰ سے سمجتھا ہے اور سب کا قیام خدا تعالیٰ سے پاتاہے اور سب کی جائے باز گشت حق تعالیٰ کو جانتا ہے، جب تمام باتیں بندے پر ثاب ہوجاتی ہیں اور اس وقت رتبہ عبودیت پر پہنچتا ہے۔ صدق کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ صدق صادق کی صفت ہے اور صادق وہ ہے جس کو تم سنی ہوئی صفات کے مطابق دیکھو اور تمام عمر اس کو ایساہی پاؤ اور صدیق وہ ہے جن کے اقوال و احوال و افعال میں ہمیشہ صدق پایا جائے، اخلاص کے متعلق ارشاد فرمایا کہ اخلاص فرض ہے فریضہ میں اورنفل ہے نفل میں اور اخلاص یہ ہے کہ تو نفس کو حق تعالیٰ کے معاملے سے باہر نکال دے کیونکہ وہ ربویت کا مدعی ہے۔

        لوگوں نے آپ سے دریافت فرمایا کہ خوف کی تشریح فرمادیں؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر وقت عذاب کو منتظر رہنا ہے پوچھا کہ خلق پر شفقت کیا ہے؟ ارشاد فرمایا اگر کوئی شخص اپنی خواہش و رغبت سے کوئی چیز طلب کرے تو اس کو وہ دیدے اور پھر اس پر احسان نہ رکھے۔ کیونکہ وہ اس کی برداشت  نہیں رکھتے اور جوبات وہ جانتا ہو اس سے نہ کہے۔ آپ سے لوگوں نے دریافت فرمایا کہ تنہائی کب اختیار کرنی چاہیے؟ آپ نے ارشادفرمایا کہ اس وقت جب تم کو اپنے نفس سے تنہائی حاصل ہوجائے۔ لوگوں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ بزرگ وپیارا کون ہے؟ توآپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ درویش جو رضائے الٰہی پر راضی رہے لوگوں نے سوال کیا کہ ہم لوگ کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایسے لوگوں کہ جو نیکی کریں اور اس کو بھلادیں اور اگر کوئی قصور تم سے سرزد ہوجائے تو اسے معاف کردیں، آپ سے سوال کیا گہا کہ بندہ کی کون سے شئی فضیلت رکھتی ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ خدا کی یاد میں رونا۔ لوگوں نے پوچھا کہ بندہ کون ہے؟ آپ نے ارشادفرمایا کہ جو دوسروں کی بندگی سے آزاد ہو، پوچھا گیا کہ مرید کون ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو علم کی نگہداشت کرے اور مراد وہ ہے جو حق تعالیٰ کی رعایت میں ہو۔ لوگوں نے پوچھا تواضع کیا شئی ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ سر کوجھکانا اور زمین پر سونا۔ لوگوں نے دریافت فرمایا کہ حجاب کیا ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ حجاب کی تین قسمیں ہیں؟ نفس، خلق، دنیا اور یہ عام لوگوں کے لیے ہے۔ اور جو خاص لوگوں کے لیے حجاب ہے اس کی بھی تین قسمیں ہیں دیکھنا عبادت کا، دیکھنا ثواب کا، اور دیکھنا کرامت کا۔ نیز فرمایا عالم کی لغزش حلال سے حرام کی طرف متوجہ ہونا ہے اور درویش کی لغزش بقا سے فنا کی طرف جھکنا ہے اور عارف کی لغزش کریم سے کرامت کی طرف متوجہ ہونا ہے[21]۔

        نسبت کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمام نسبتوں میں بلند ترین نسبت میدان توحید میں غور وفکر کرنا ہے، اور خلق پر تمام راستے سوائے حضور سرورکائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے راستوں کے بند ہیں۔ اور فرمایا کہ جو قرآن کا پیرو اور حضور قدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو اس کی تقلید نہ کرو، اور ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ اور بندہ کے درمیاں چار دریا ہیں، جب تک بندہ ان کو ملے نہیں کریگا حق تعالیٰ کا واصل نہیں ہوسکتا۔ اول دنیا کا دریا ہے جو زہد کی کشتی سے طے ہوتا ہے، دوئم آدمیوں کا دریا ہے اس کی کشتی اس سے دور رہنا ہے، سوئم ابلیس لعین ہے اس کی مخالفت اس کی کشتی ہے یعنی مخالفت نفس مخالف ابلیس ہے، اور پھر ارشاد فرمایا کہ نفس اور شیطان کے وسوسوں اور خدشوں میں یہ فرق ہے کہ نفس جس چیز کی خواہش کرتا ہے جب تک اس کو حاصل نہیں کرلیتا آرام نہیں لیتا چاہے تم اس کو کتنا ہی منع کرو، اگر اس وقت باز بھی آجائے تو پھر کسی دوسرے وقت میں رنگ لاتا ہے غرض کہ بغیر اپنی خواہش کے حاصل کیے چین نہیں پاتا مگر شیطان کا وسوسہ لَاحَوْلَ شریف کے پڑھنے دور ہوجاتا ہے اور پھر نزدیک نہیں آتا[22]۔

وصال کے حیرت انگیز واقعات

        جب آپ کو اپنے وصال کا علم ہوگیا تو آپ نے حکم دیا کہ مجھے وضو کراؤ یہاں تک کہ وضو آپ کو کرایا گیا، وضو کراتے وقت لوگ انگلیوں میں خلال کرنا بھول گئے جب آپ نے یاد دلایا تو لوگوں نے خلال بھی کرایا اس کے بعد آپ سجدہ میں جا کر زاروقطار رونے لگے، لوگوں نے کہا کہ اے ہمارے طریقت کے سردار! باوجود اس قدر طاعت و بندگی کے جو آپ آگے بھیج چکے ہیں یہ سجدہ کونسا وقت ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جنید اس وقت سے زیادہ محتاج کسی وقت میں نہ تھا۔ پھر آپ نے قرآن شریف کی تلاوت فرمائی تو ایک مرید نے کہا کہ حضور! آپ قرآن شریف پڑھتے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے لیے اس سے بہتر وقت اور کون سا ہوگا کہ عنقریب میرا نامۂ اعمال تہہ کردیا جائے گا اور میں اپنے ستر سالہ عبادت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں جو ہوامیں ایک بارک سے تار میں لٹک رہی ہے اور ایک تند وتیز ہوا سے ہل رہی ہے میں نہیں جانتا کہ یہ ہوا وصلیت  ہے یا قطعیت کی، اور ایک طرف مجھے پل صراط نظر آرہا ہے اور دوسری جانت ملک الموت کو دیکھ رہا ہوں اور ایسے قاضی کو جس کی صفت عدل کرنا ہے وہ توجہ نہیں کرتا اور راستہ میرے سامنے ہے میں نہیں جانتا کہ مجھے کس راستہ سے لیجایا جائے گا پھر آپ نے قرآن شریف ختم فرمای اور سرۃ بقرہ کی ستر آیات تلاوت فرمائیں گے۔ لوگوں نے کہا حضور اللہ ، اللہ کا ورد کیجیے آپ نے فرمایا کہ مجھے کیوں یاد دلاتے ہو، میں نے اسے فراموش تو نہیں کیا ہے؟ پھر آپ نے حق تعالیٰ کی تسبیح کی انگلیوں کے پوروں پر پڑھنا شروع کیا۔ جب انگشت شہادت پر پہنچے تو آپ نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا  بسْم اللہ الرحمٰن الرحیماور آنکھیں بند فرمالیں اور واصل من اللہ ہوگئے، اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

        وصال کے بعد آپ کو غسل دیا گیا اور جب غسل دینے والوں نے آپ کے آنکھوں پر پانی ڈالنا چاہا تو ہاتف غیبی نے آواز دی کہ اپنے ہاتھوں کو ہمارے دوست کی آنکھوں پر نہ رکھو۔ کیونکہ ایسی آنکھیں جو ہمارے نام کے ذکر سے بند ہوئی ہوں وہ بغیر ہمارے دیدار کہ نہ کھلیں گی، پھر لوگوں نہ انگلیاں کھولنی چاہی لیکن نہ کھول سکے اور آواز آئی کہ جو انگلیاں ہمارے نام کی تسبیح سے بند ہوئی ہوں وہ بلا ہمارے حکم کے نہ کھل سکیں گی[23]۔

جنازہ کی روانگی:

        غسل وغیرہ سے فراغد کے بعد جب آپ کے جنازۂ مبارکہ کو اٹھا یا گیا تو ایک سفید کبوتر آیا اور جنازہ کے ایک کونے پر بیٹھ گیا۔ لوگوں نے اس کو اڑانے کی کوشش کی لیکن وہ نہ اڑا، اور جواب دیا کہ جھے اور اپنے آپ کو رنج نہ دو کیونکہ میرے پنجے میخ عشق سے جنازہ کے کونے پر گڑے ہوئے ہیں، آج جنازہ کو اٹھانے کی نکلیف نہ کرو کیونکہ آج آکا فالب فرشتوں کے حصہ میں ہے اگر تم شور و غوغا نہ کرتے تو آپ کا جسم سفید باز کی طرح ہوا میں اڑتا ہوتا[24]۔

تاریخِ وصال:

        آپ کو وصال ۲۷ رجب المرجب بروز جمعہ ۲۹۷؁ھ یا ۲۹۸؁ھ کو ہوا یہ عہد المقتدر باللہ کا تھا[25]۔

خلفائے کرامؒ

        حضرت جنید بغدادی کے چار جلیل القدر خلفاء ہیں جنہوں نے آپ کے سلسلہ کو فروغ دیا جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

۱۔      حضرت شیخ ابوبکر شبلی

۲۔     حضرت ابو منصور ابرار جو اناالحق کہنے کے سبب دار پر چڑھائےگئے۔

۳۔     حضرت شاہ محمد بن اسود دینوری

۴۔     حضرت شاہ اسمٰعیل العزیز رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین[26]۔

مزار مقدس:

        آپ کا مزار مقدس شونیزیہ میں واقع ہے جو بغداد شریف میں مرجع الخلائق ہے، ایک بار حضرت ابوبکر شبلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے مزار مقدس کے پاس حاضر تھے ایک شخص نے آپ سے ایک مسئلہ دریافت فرمایا تو آپ نے جواباً یہ شعر پڑھا۔

اِنِّی لَاَ ستحیتُ الَّذِیْ فِی الترَاب بینَنَا

کَمَا کُنتُ اِسْتحَیْتُ وَھُوَ یَرَانِیْ

یعنی مجھے اس شخص سے جو قبر میں ہیں اس طرح شرم آتی ہے جیسا کہ وہ میری طرف نظر کرتے تھے تو مجھے شرم آتی تھی۔ اسی طرح حضرت فرید الدین عطار م ۶۲۷؁ھ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بزرگوں کا حال حیات و وفات میں ایک ہی سا رہتا ہے اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں ان کی قبر کے سامنے مسئلے کا جواب دوں جس سے میں زندگی میں شرم کرتا تھا[27]۔

واقعہ بعد وصال:

        بعد وصال ایک بزرگ نے آپ کو خواب میں دیکھا اور آپ سے دریافت فرمایا کہ نکیرین کے سوالات آپ سے کس طرح ہوئے۔ تو آپ نے ارشادفرمایا کہ نکیرین نے آکر مجھ سے کہا تیرا رب کون ہے؟ تو میں نے ہنس کر جواب دیا کہ میرا رب وہ ہے جس نے روز ازل میں بلٰ یعنی اقرار بندگی کرایا پس جو شخص بادشاہ کو جواب دے چکا ہو ایک غلام کا جواب دینا کہا مشل ہے۔ اَلَّذِیْ خَلَقَنِیْ وَھُوَ یَھْدِیْن یہ جب میں نے کہا تو وہ چلے گئے اور کہا کہ یہ تو ابھی تک محبت کے سکر میں ہے اور اسی مستی میں پڑا ہے[28]۔

 

[1] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۰ و تذکرۃاولیاء ص ۲۷۷

[2] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۰ و تذکرۃ الاولیاء ص ۲۷۷ و تاریخ اولیاء ج ۱ ص ۲۰۷

[3] مسالک الساکین ج ۱ ص ۳۰۰ و تذکرۃ اولیاء ص ۲۷۷

[4] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۱ و شجرۃ الکاملین ص ۱۵۰ و تذکرۃ اولیاء ص ۲۷۷

[5] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۱ و شجرۃ الکاملین ص ۱۵۰ و تذکرۃ اولیاء ص ۲۷۷

[6] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۱ و شجرۃ الکاملین ص ۱۵۰ و تذکرۃ اولیاء ص ۲۷۷

[7] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۱ و شجرۃ الکاملین ص ۱۵۰ و تذکرۃ اولیاء ص ۲۷۷

[8] خزینۃا لاصفیاء ج ۱ ص ۸۲

[9] کشف المحجوب ص ۱۱۹

[10] کشف المحجوب ص ۱۱۴

[11] کشف المحجوب ص ۲۰۱ و خزینۃ الاصفیاء ج ۱ ص ۳ و تذکرۃ اولیاء ص ۲۸۱

[12] تذکرۃ اولیاء ص ۲۸۲

[13] تذکرۃ اولیاء ص ۲۸۲

[14] سچی حکایات

[15] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۷ و شجرۃ الکاملین ص ۱۷۲

[16] مسالک السالکین ص ۳۰۷

[17] تذکرۃ اولیاء ص ۲۳۳

[18] تذکرۃ الاولیاء ص ۲۸۴ وخزینۃ الاصفیاء ج۱ ص ۸۴، ۸۵

[19] شجرۃ الکاملین ص ۱۵۴، ۱۵۳

[20] تذکرۃ الاولیاء ص ۲۸۹ و کشف المحجوب ص ۶۸

[21] تذکرۃ الاولیاء ص ۲۹۳ و کشف المحجوب و عوارف المعارف

[22] تذکرۃ الاولیاء ص ۲۸۷

[23] تذکرۃ الاولیاء ص ۲۹۴ وشجرۃ الکاملین ص ۱۸۲

[24] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۸

[25] مسالک السالکین ج ۱ ص ۳۰۸

[26] شجرۃ الکاملکین ص ۱۸۴

[27] شجرۃ الکاملکین ص ۱۸۴

[28] موجودہ ریلوے اسٹیشن کے قریب قبرستان میں جہاں قریب دو لاکھ اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ رضوی ۱۲

Post a Comment

Previous Post Next Post