پیران پیر دستگیر سیّدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی کے والدین کریمین } Hazrat UMM UL KHAIR walida Ghous pak Biography Father ofGouse UL Azam ke valid Abu Saleh Musa

پیران پیر دستگیر سیّدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی کے والدین کریمین }

دریائے دجلہ کے کنارے ابوصالح موسیٰ جنگی روزے کے حالت میں چلے جارہے تھے ۔ کھانا کھائے ہوئے تین دن گزر چکے تھے ۔کھانے کی کوئی ایسی شیٔ موجود نہ تھی کہ جس سے روزہ افطار کرکے بھوک کی شدت کو دورکیا جاسکے۔عین افطار کے وقت ایک سیب پانی میں بہتا ہوا چلا آرہا تھا ۔آپ نے اس سیب کو ہاتھ بڑھا کرپکڑ لیا اوراس سے روزہ افطار کیا ۔نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد اچانک خیال آیا کہ سیب مالک کی اجازت کے بغیر کھالیا غضب ہوگیا۔روز محشر اگر مالک نے سیب طلب کیا توکہاں سے دوں گا۔یہ سوچ کر بے قرار ہوگئے فوراً فیصلہ کیا کیوں نہ اس کے مالک کوتلاش کرکے معافی طلب کرلی جائے چنانچہ وہ دریا کی مخالف سمت میں چل دیئے اورکئی دنوں کی مسافت کے بعد وہ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں دریا کسی باغ میں سے گزر رہا تھا اوردریا کے کنارے سیب کے بڑے بڑے درخت لگے ہوئے تھے ۔جن پر بے شمار سیب لٹک رہے تھے۔آپ کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ سیب انہیں درختوں میں سے کسی ایک درخت سے دریا میں گرا ہے۔


Biography Father of Saiyedana Gouse UL Azam dastagir RA ke valid e mohtaram Hazrat Abu Saleh Musa



لہٰذا آپ باغ کے مالک کے پاس معافی کی طلب کی غرض سے باغ میں داخل ہوئے۔یہ باغ وقت کے ولی حضرت عبداللہ صومعیرحمۃ اللہ علیہ کاتھا ۔جو صاحب کرامت بزرگ تھے۔وہ نوجوان حضرت عبداللہ صومعیرحمۃ اللہ علیہکے پاس معافی مانگنے پہنچ گئے اورعرض کرنے لگے حضور میں نے آپ کے باغ کاسیب جو کہ دریا میںبہتا چلا جا رہا تھا ۔آپ کی اجازت کے بغیر کھالیا ہے۔میں اپنی اس غلطی پر بہت شرمسا رہوں ۔برائے کرم میری اس غلطی کو معاف فرمادیں تاکہ بروز قیامت بارگاہ خداوندی میں مواخذہ نہ ہو۔

حضر ت عبداللہ صومعیرحمۃ اللہ علیہصاحبِ نظر اورصاحبِ کرامت بزرگ تھے۔آپ فوراً سمجھ گئے کہ یہ نوجوان کوئی غیر معمولی ہستی کامالک ہے۔کیوں نہ اسے اپنے پاس رکھ کر قربِ الٰہی کی منازل طے کرائی جائیں اور انہیں کسی طرح نکلنے نہ دیا جائے۔فرمایا اے نوجوان تونے میری 

اجازت کے بغیر سیب کھا کر یقینا غلطی کی ہے۔اگر تومعافی چاہتا ہے تودوسال تک میرے باغ کی رکھوالی کر پھر کہیں سوچوں گا کہ تیری اس غلطی کو معاف کیاجائے یاکہ نہیں۔چنانچہ اس نوجوان نے یہ شرط منظور کرلی اورمسلسل دوسال تک  خدمت میں گزارکرپھر حاضرِ خدمت ہوئے عرض کی حضور دوسال بیت چکے ہیں خدارا میری اس غلطی کومعاف فرمائیے۔ آپ نے فرمایا ابھی دوسال اوراس باغ کوسیراب کرو۔اس کے بعد سوچوں گا کہ تمہاری غلطی معاف کی جائے یاکہ نہیں۔وہ نوجوان کام میں مشغول ہوگیا۔انتہائی محنت اوردیانت داری سے باغ کوپانی دیا کر تے دن بھر روزہ رکھتے اوررات کاکثیر حصہ عبادت میں بسر کرتے۔ ر وایت میں آتا ہے کہ محمد ابو صالح جنگی نے بارہ سال تک اس باغ کی رکھوالی کی آخرکار حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ نے آخری شرط یہ رکھی کہ اے نوجوان! بیشک تم آزمائش کی کسوٹی پر پورے اترے ہومگر ابھی ایک خدمت اورباقی ہے وہ یہ ہے کہ میری بیٹی سے شادی کرنا ہو گی جوکہ بہت عیب دار ہے۔آنکھوں سے اندھی ہے کانوں سے بہری ہے۔پائوں سے لنگڑی ہے۔اورزبان سے گونگی ہے۔کیاتمہیں میری یہ آخری شرط منظور ہے ۔ نوجوان محمد ابوصالح عرض کرنے لگے ،حضور اگر آپ کی مرضی اسی میں ہے تو بھلا میںکیا اعتراض کرسکتا ہوں مجھے آپ کی یہ شرط منظور ہے۔

چنانچہ حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیٹی کا نکاح اس نوجوان سے کردیا ۔جب وہ نوجوان پہلی رات اپنی رفیقۂ حیات کے پاس گیا اورانہوں نے اپنی بیوی پر نظر ڈالی تویہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ گویا وہ کوئی پرستان کی پری ہے حسن وجمال کاایسا پیکر ہے کہ جسے دیکھ کر جنت کی حوریں بھی فخر کریں ۔گویا چودھویں کاچمکتا ہوا ایک چاند ہے جس میں کسی قسم کاظاہری عیب نہیں۔انتہائی حسین آنکھیں،انتہائی دلکش آواز۔ آپ فوراً حضرت صومعی رحمۃ اللہ علیہکی خدمت میں حاضر ہوئے عرض کرنے لگے حضور آپ نے توفرمایا تھا کہ آپ کی بیٹی کافی عیب دار ہے۔لیکن میں نے دیکھا وہ تو آنکھیں بھی رکھتی ہے ۔زبان سے بولتی بھی ہے ۔کانوں سے سنتی بھی ہے اورپائوں سے چلتی بھی ہے۔آخر ایسا کیوں؟

غوث اعظم رضی اﷲ عنہٗ کی ماں کے اوصاف }



حضرت صومعی نے فرمایا ابوصالح میں نے اپنی بیٹی میں جو عیب بتائے تھے وہ بالکل درست ہیں۔ میری بیٹی آنکھوں سے اندھی اس لئے ہے کہ آج تک اس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی غیر مرد کو نہیں دیکھا،کانوں سے بہری اس لئے ہے کہ اس نے قرآن وحدیث کے علاوہ کوئی دوسرا غیر ضروری جملہ نہیں سنا۔زبان سے گونگی اس لئے کہ آج تک آیات قرآنی یااحادیث نبوی کے علاوہ کوئی دوسری غیر شرعی بات نہیں کی اورپائوں سے لنگڑی اس لئے ہے کہ آج تک اپنے باپ کی دہلیز چھوڑ کر باہر نہیں نکلی،یہی وجہ ہے کہ میری بیٹی آنکھوں سے اندھی ،پائوں سے لنگڑی ،زبان سے گونگی اورکانوں سے بہری ہے ۔

اللہ اکبر !کیا شان تھی ہمارے اسلاف کی زہد تقویٰ پرہیزگاری وعبادات میں ،جہاں حضر ت صالح موسیٰ جنگی دوست یکتائے زمانہ تھے ۔اسی طرح آپ کی رفیقہ حیات حضرت فاطمہ بنت عبداللہ صومعی بھی علم وعمل ،شرم وحیا کی پیکرتھیں۔

دورِ حاضر کی خاتون

آج یہ باتیں مسلمان عورتوں میں کہاں؟فیشن پرستی کی یلغار نے تو آج کی مسلمان عورت کو بے پردہ کر کے رکھ دیا ۔غیر مردوں سے میل جول رکھنا گویاعورتوں کامعمول بن گیا ۔

شرم وحیاء ادب ولحاظ آج ان میں ناپید ہوتا جار ہا ہے ۔انگریزوں اوریہودو ہنود کی ا ندھی تقلیدنے مسلمان عورتوں کی آنکھوں کو خیرہ کر کے رکھ دیا   ؎

     وہ معزز تھیں زمانے میں مسلمان ہوکر     

ہوگئیں خوار اب تارکِ قرآن ہوکر 

ولادتِ غوث اعظم


۴۷۰ ھ؁ کی بات ہے اسی نیک سیرت فاطمہرحمۃ اللہ علیہا کے  بطن سے ایک بچہ پیدا ہوا ،اتفاق کی بات ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوگیا ماں نے محسوس کیا کہ ان کابیٹا سحری 

کے بعد افطار تک دودھ نہیں پیتا ۔انہوں  نے یہ بات اپنے شوہر کو بتادی۔شوہر سے دوسروں تک یہ بات پہنچ گئی ۔ اوریہ بات پوری بستی میں مشہور ہوگئی کہ دن کو بچہ روزہ رکھتا ہے ۔اسطرح لوگ اس بچے کی زیارت کرنے آنے لگے۔

شیر خوار بچہ روزہ دار

۲۹؍ویں رمضان کولوگ عید کا چاند دیکھنے کے لیے بے چین تھے مگر سارے آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔انہیں یہ تشویش ہونے لگی کہ عید کاچاند ہونے یانہ ہونے کااندازہ کیسے لگایا جائے۔اسی فکر میں بڑے بڑے علماء کرام سر جوڑ کر بیٹھ گئے تاکہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکل سکے۔اچانک کسی نے پکار کر کہا اے لوگوں ہمارے لیے ایک ذریعہ موجود ہے جس سے یہ معلوم کیاجاسکتا ہے کہ عید کا چاند نظر آیا ہے یانہیں آپ لوگ ہر گز پریشان نہ ہوں۔حاضرین میں سے کسی نے پوچھا کون سا ذریعہ کیا ابرآلود فضا میں چاند دیکھا جاسکتا ہے؟ مشورہ دینے والے نے جواب دیا ۔آپ لوگ سحری کے وقت ابوصالح موسیٰ جنگی دوست کے گھر تشریف لے جائیں اوران سے یہ معلوم کریں کہ ان کانومولود بچہ دودھ پی رہا ہے یانہیں اگردودھ نہیں پی رہا ہے تواس کایہ مطلب ہوگا کہ عید کا چاند نظر نہیں آیا اور نومولود بچہ روزے سے ہے۔لیکن اگر وہ دودھ پی رہا ہے تواس کا یہ مطلب ہوگا کہ بچے کاروزہ نہیں ہے اورعید کا چاند نظر آگیا ہے۔

بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی کہ یہ پیچیدہ مسئلہ اسی طرح حل ہوگا ۔انہوں نے جیسے تیسے کرکے رات گزاری اورسحری کے بعد نماز فجر کی ادائیگی سے قبل ابوصالح کے گھر پہنچ گئے اورحضرت ابوصالح رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ آپ کا نومولود شیر خوار بچہ دودھ پی رہا ہے یانہیں۔ابوصالح نے اس کا سبب پوچھا تولوگ بولے ابوصالح آپ کا بیٹا مادر زا د ولی ہے اگر وہ دودھ نہیں پی رہاہوگا تو وہ روزے سے ہے اوراگر پی رہا ہو گا تو آج ان کاروزہ نہیں لہٰذاآج عید ہوگی۔

ابو صالح رحمۃ اللہ علیہ اندر گئے اوراپنی بیوی حضرت فاطمہرحمۃ اللہ علیہاسے دریافت کیا توانہوں نے بتایا کہ بچہ دودھ نہیں پی رہا ہے ۔ابوصالح نے باہرا ٓکر اعلان کردیا کہ انتیس کاچاند نہیں ہوا کیونکہ بچہ دودھ نہیں پی رہا ہے اسی وقت جیلان نامی قصبے میں یہ اعلان کردیا گیا کہ صبح عید نہیں ہے 

چنانچہ روزہ نہ توڑا جائے عید کل منائی جائے گی ۔اعلان سنتے ہی تمام اہلِ جیلان نے روزہ کی نیت کرلی۔

ابھی اس بچے نے ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ اسے ایک صدمے سے دوچار ہونا پڑا اس بچے کے والد ماجد شیخ ابوصالح جنگی دوست اچانک اس عالم د نیا سے عالم جاوداں کی طرف روانہ ہوگئے ۔ والد کے انتقال کے بعد اس بچے کی پرورش ان کے نانا عبداللہ صومعی اوروالدہ حضرت فاطمہ نے کی ۔

غوث اعظم کا بچپن

وہ بچہ جب چند برس کاہوا تو ان کی والدہ نے ان کو مدرسہ میں دینی تعلیم کی غرض سے داخل کردیا ۔مدرسہ میں داخل ہونے کے پہلے دن ہی جب مدرسہ میں پہنچا ایک غیبی آواز آئی لوگو !اللہ کے ولی کوجگہ دو۔ایک مرتبہ جب وہ مدرسہ جارہے تھے کہ انہوں نے اپنے اردگرد چندنورانی پیکروں کوساتھ چلتے دیکھا یہ سب کے سب خاموش تھے لیکن جیسے ہی وہ مدرسہ میں داخل ہوئے نورانی پیکروں کی زبانیں کھل گئیں اورجوش و خروش سے پکارپکار کر کہنے لگے اے لوگو! ہٹوہٹو اللہ کے دوست کو جگہ دو۔وہ اسی طرح مسلسل مدرسے جاتے رہے۔

علم کا مسافر

جب کچھ بڑے ہوئے تو علم دین سیکھنے کاجذبہ پروان چڑھتا گیا ۔ایک دن اپنی والدہ سے کہنے لگے امی جان طلب علم کاجذبہ مجھے مجبور کررہا ہے کہ میں آپ سے جدا ہوجائوں لہٰذا آپ مجھے خدا کی راہ میں وقف کردیںاوربغداد جانے کی اجازت دیں۔ماں نے حیرت سے پوچھا اے میرے بیٹے بغداد جاکر کیا کروگے۔جواب دیا وہاں علم دین حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے وہ اپنے لاڈلے لختِ جگر کو ایک لمحے کے لئے اپنے سے جدا کر نا نہیں چاہتی تھیں۔مگرا للہ جل مجدہ کی رضا اورخوشنودی کی خاطراس جدائی کوبرداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوگئیں۔کیونکہ اپنے شوہرحضرت محمد ابوصالح جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد تمام تر دیکھ بھال اورپرورش کی ذمہ دار ی حضرت فاطمہ پر ہی عائد ہوگئی تھیں۔

ماں کی تربیت کا نمونہ

آپ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگیں اگر علم دین حاصل کرنے کاتجھے اتنا ہی شوق ہے تو میری طرف سے تجھے اجاز ت ہے اورمیں تجھے اللہ جَلَّ مَجْدُہٗ کی راہ میں وقف کرتی ہوں ۔بیٹا جہاں کہیں بھی رہو سچائی کادامن تھامے رکھنا اورکبھی جھوٹ مت بولنا۔ بیٹا میں تمہارے اس سفر سے خوش ہوں۔دل لگا کر علم دین حاصل کرنا ۔پھر ماں نے چالیس دینار ایک گدڑی میں سی دیئے‘ بیٹے نے پوچھا ماں تم یہ دینار گدڑی میں کیوں سی رہی ہو؟ماں نے جواب دیا بیٹے راستہ بہت پُر خطر ہے جگہ جگہ صحرائی ڈاکو مسافروں کو لوٹتے رہتے ہیں۔اس طرح تیرے یہ دینار محفوظ رہیں گے۔آخر وہ  وقت بھی آگیا کہ اس نیک سعادت مند بیٹے نے سامان سفر اٹھایا قافلہ بالکل تیار کھڑا تھا ۔ماں گم سم کھڑی اپنے شہزادے کوٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔یہ ایک ایسا طویل سفر تھا جو ماں کو صدموں سے نڈھال کئے ہوئے تھا ۔ماں کا دل چو رچور ہورہاتھا مگر سب کچھ اللہ جَلَّ مَجْدُہٗ کے لیے قربان کردیاتھا۔
بیٹا ماں کی قدم بوسی کے لئے آخری بارقریب آتا ہے تاکہ ماں کی دعائوں کو اپنے سفر میں شامل کرلیاجائے۔بیٹا ماں سے پوچھتا ہے ماں کو ئی حکم کوئی نصیحت ہو تو فرمادیجئے تاکہ اس کی بجاآوری کرسکوں۔ماں نے دل کی گہرائیوں سے اپنے بیٹے کوسینے سے لگایا شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا ۔آنکھوں سے آنسوئوں کانہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا اورروتے روتے اپنے بیٹے کوآخری بار نصیحت کی اے میرے لال کسی حال میں بھی ہو راست گوئی کومت چھوڑنا ہر حال میں سچائی کواپنانا ۔بیٹے نے بھی اشکبار ہوتے ہوئے اپنی ماں سے یہ عہد کیا کہ ماں میں ہرحال میں سچائی کی راہ اختیار کروں گا۔پھر بیٹے نے باہر کا رخ کیا ماں اس کو در وازے تک چھوڑنے آئیں اورجاتے جاتے ماں کے منہ سے یہ الفاظ نکلے بیٹا میں تمہیں اللہ کیلئے خود سے جدا کرتی ہوں۔اب قیامت ہی کے دن تم سے ملاقات ہوگی۔بیٹے نے آخری بار اپنی مقدس ماں کی زیارت کی آخر کار پھر قافلے کی جانب چل دیئے ۔

ماں بیٹے کی جدائی

بیٹا ماں کی آنکھوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوچکا تھا ۔قافلہ بغداد کی جانب چل پڑا ۔ اٹھارہ سالہ یہ نوعمر نوجوان اپنی ماں کوروتا چھوڑ کر راہ خدا میںوقف ہونے کے لئے بغداد جارہاتھا بغداد کا فاصلہ ان کے وطن سے چار سو میل سے بھی زیادہ تھا ۔کوہستانی سلسلوں بیابانوں اورصحرائوں سے گزرتا ہوا یہ قافلہ ہمدان سے نکل کر ترتنگ کے سنسان صحرائی علاقے میں داخل ہوگیا۔اس علاقے میں ڈاکوئوںکابڑا زور تھا۔

ڈاکوئوں کا حملہ

راستہ کیچڑ آلود تھا ۔تاکہ ا س دلدلی علاقے میں قافلے کی سست رفتاری ڈاکوئوں کو حملہ کرنے کاموقع فراہم کردے۔ قافلے نے اس دلدلی علاقے میں قیام کافیصلہ کیا کیونکہ آگے جاناخطرہ سے خالی نہ تھا ۔یہ ایک مناسب جگہ تھی یہاں دورتک آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاسکتی تھی۔رات کا پچھلا پہر ہوچکا تھا ۔ اچانک مسلح ڈاکوئوں نے شاہینوں کی طرح جھپٹ کر مسافروں پر حملہ کردیا ۔ شوروغل چیخ وپکار بھاگ دوڑ اورہتھیاروں کی جھنا جھن سے پورا ماحول گونج اٹھا ۔
ڈاکو انتہائی چالاک اورتجربہ کار تھے ۔انہوں نے بڑی جلدی سے قافلے کومغلوب کرلیا۔دیکھتے ہی دیکھتے میدان لاشوں سے پٹ گیااورڈاکوئوں نے قافلے والوں کے مال و زر پر قبضہ کرنا شروع کردیا ۔وہ نوجوان ایک طرف کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ایک ڈاکو ان کے پاس آیا اے لڑکے تیرے پاس کیا مال ہے۔اس نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے سچ سچ بتادیا کہ میرے پاس چالیس دینار ہیں ۔جومیری ماں نے مجھے دیئے تھے ۔ڈاکوزور زور سے قہقہہ لگانے لگا اورکہنے لگا بڑے دلچسپ آدمی معلوم ہوتے ہو۔ہم سے بھی مذاق کررہے ہو۔جائو مزے کرو، یہ کہہ کر ڈاکو چلاگیا اوراپنے دوسرے ڈاکو ساتھی کو واقعہ سنایا ۔
دوسرا ڈاکو یہ سن کر بڑا تعجب کرنے لگا اورکہنے لگا مجھے بتائو وہ لڑکا کہاں ہے۔پہلا ڈاکو بولا آئو میرے ساتھ میں تمہیں اس سے ملاتا ہوں۔ڈاکو اپنے ساتھی کواس نوجوان کے پاس لاتا ہے ساتھی ڈاکوآکر اس سے یہ کہتا ہے ۔اے لڑکے کیاتیرے پاس چالیس دینا رموجود ہیں۔لڑکے نے 
جواب دیا ہاں میری گدڑی میں سلے ہوئے ہیں۔ڈاکو ساتھی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی اتنی آسانی سے اپنی پوشیدہ رقم کی اطلاع کیسے دے سکتا ہے ۔وہ بولایوں لگتا ہے کہ اس نوجوان کے خوف سے ہوش وحواس گم ہوگئے ہیں ۔ورنہ یہ ایسی بات ہر گز نہ کرتا۔
ڈاکونوجوان کواپنے سردار کے پاس لے جاتے ہیں اور سردار سے جا کر کہتے ہیں سردار یہ ایک عجیب وغریب نوجوان ہے آپ اس کی باتیں سنیں گے تو دنگ رہ جائیں گے ۔سردار نے پوچھا انے نوجوان تمہار انام کیا ہے ۔تو اس نے اپنا نام بتایا،تمہارے پاس رقم کتنی ہے؟اس نے جواب دیا چالیس دینار ،سردار نے کہا وہ کہاں ہیں۔اس نے جواب دیا میری گدڑی میں سلے ہوئے ہیں۔سردار نے ڈاکوئوں کوحکم دیاذرا گدڑی پھاڑ کر دیکھو،ڈاکو نے گدڑی کوادھیڑ ڈالا اورچالیس دینار سردار کے سامنے رکھ دیئے ۔
ڈاکوئوں کاسردار اوراس کے ساتھی یہ ماجرادیکھ کر سکتے میں آگئے۔ڈاکوئوں کے سردار نے کہا آپ نے ہم لوگوں کو بغیر تلاش کئے کیوں بتادیا ۔فرمایا میں نے اپنی والدہ سے عہد کیا ہے جھوٹ نہ بولوں گا ۔بس یہ بات سن کر ڈاکو بے خود ہوگئے اوراس فرمانے کاکچھ ایسا اثر پڑا کہ سب مرغ بسمل کی طرح لوٹنے لگے ۔تھوڑی دیر کے بعد آپ نے ایک توجہ دیدی اوردعافرمائی کہ یااللہ ان سب کا گناہ معاف فرما کر توبہ قبول کرلے۔ آواز آئی سب کو بخشا اورمقبول کیا ،جو سر اٹھایا سب کے سب ولی ہوگئے۔
تبصرہ ٔاویسی غفرلہٗ 
پیارے اور نازنین اوریتیم بچے کو صرف علم کی خاطر دور دراز سفر کی اجازت دینا اور زادراہ نہ صرف ساتھ بھیجا بلکہ آپ کے لئے بغداد جانے والوں کے ہاتھوں بھیجتی رہیں۔حضور غو ث اعظم (ص) اگرچہ مادر زاد ولی اللہ سہی لیکن بالآخر ماں کی تربیت کابھی تو دخل ہے۔
آج ہماری خواتین اپنے بچوں کو اپنے شہر بلکہ محلہ تک اسلامی مدرسہ میں جانے کااہتمام نہیں کرتیں ۔ہاں کالج کی تعلیم کے غلبہ نے ہمیں کہاں سے کہاں تک پہونچا دیا دورسابق میں اگر غوث (ص)اتنے عظیم ولی اللہ بنے ہیں تو ماں کی تربیت کوبھی دخل ہے ایسی ہوتی ہیں ’’اچھی 
مائیں‘‘۔ 
نوٹ:بطور تبرک غوث اعظم (ص) کی چند کرامات آپ کے دورانِ حمل اوربچپن کے دور کی ملاحظہ ہوں۔  
 شہِ جیلان کا بچپن

شکم مادر میں

حضور غوث اعظم (ص) شکم مادر میں ذکر اللہ کرتے تھے۔ جب ان کی والدہ مکرمہ کوچھینک آتی اوروہ الحمدللہ پڑھتیں آپ ان کے جواب میں یرحمک اللہ کہتے۔ جب آپ پیدا ہوئے توآپ کے ہونٹ ہلتے تھے اور کہہ رہے تھے’’ اللہ اللہ‘‘ اسی لئے آپ کا تاریخی نام عاشق ہے ۔ جب حضور غوث اعظم (ص) پیدا ہوئے توگھر روشن ہوگیا ۔

ابتدائی تعلیم

جب حضور غوث اعظم (ص) پانچ سال کے ہوئے توآپ کے والد گرامی نے آپ کو استاذ گرامی کے پاس پڑھانے کے لئے بٹھایا تواستاذ صاحب نے کہا بیٹے پڑھو بسم اﷲ۔آپ نے بسم اﷲ کے بعد پورے اٹھارہ پارے پڑھ کر سنادیئے اورفرمایا کہ میری والدہ یہاں تک پڑھا کرتیںتھیں میں ان کے پیٹ میں سنا کر تا تویاد ہوگیا   ؎
     اے نور دیدئہ مصطفی برتو شود جانم فدا
     دارم تمنا ہرزمان مشتاق دیدار تواَم
تو دارم ہر سحر اے بادشہ نامور
نامت کنم ورد زبان دیدارِ تواَم  
(ترجمہ) اے مصطفی (ﷺ) کے نورچشم آپ پر میری جان فدا ہر زمان میں آپ کے دیدا ر کا مشتاق ہوں ۔ہر سحر میرا ورد زبان یہی ہے میری آخری تمنا تیری زیارت ہے اوربس۔

Post a Comment

Previous Post Next Post